Thursday 7 April 2016

مختصر سوانح حیات حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ

0 comments
اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشادفرماتاہے:ھوالذی بعث فی الامیین رسولامنھم یتلواعلیھم آیٰتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ ترجمہ: وہی ہے جس نے ان پڑہ عربوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اللہ کی آیتیں پڑھ کرسناتے ہیں ،انھیں پاک وصاف کر تے ہیں اورکتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اورانھیں خوب خوب پاک وصاف کر تے ہیں۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو خصوصیات بیان فرمایا ہے (1)اللہ کی آیتیں پڑھ کر کتاب و حکمت کی تعلیم دینا (2)ان کے نفس کو ہر قسم کی گندگیوں سے پاک و صاف کرنا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ظاہری زندگی میں اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا اورصحابہ کرام کی ایسی تربیت فرمائی کہ وہ بھی شریعت وطریقت کے جامع ہو گئے، پھر دور صحابہ سےیہ سلسلہ ایک زمانے تک چلتارہا اس کے بعد دونوں بظاہرالگ ہو گیا ،یعنی مسلمانوں کے ایک طبقہ نے احکام شرع کی ذمہ داری سنبھال لی جبکہ دوسرے نے عوام الناس کی اصلاح و تربیت کا بیڑا اٹھالیا۔پہلا طبقہ فقہا،محدثین اورعلماء کا تھا اوردوسرا طبقہ صوفیاے کرام علیھم الرضوان کاتھا۔اسی طبقہ صوفیاء سے خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ کا بھی تعلق تھا۔ آپ طریقت کے سلاسل مشہورہ (قادریہ ،چشتیہ،نقشبندیہ،سہروردیہ )میں سے سلسلہء چشتیہ کے بزرگ تھے۔آپ کی ذات سےہندوستان میں اس سلسلہ کوجو شہرت ملی وہ کسی اورسلسلہ کو نہ مل سکی۔ذیل میں ہم آپ کی حیات و خدمات کو اختصار کے ساتھ تحریر کر رہے ہیں ملا حظہ فرمائیں، ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ کی پیدایش جنوبی ایران کے علاقہ "سیستان "یا" سجستان" میں537ہجری کو ہوئی۔والد ماجد کانام سیدغیاث الدین اوروالدہ ماجدہ کا نام بی بی ماہ نورتھا۔آپ حسنی اور حسینی سید ہیں۔والد کی طرف سے آپ کا سلسلہءنسب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تک اور والدہ کی طرف سے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے ۔
جس زمانے میں آپ کی پیدائش ہوئی وہ زمانہ بڑا پرآشوب تھا، ہر طرف قتل وغارت گری کا بازارگرم تھا،خصوصا سجستان کے حالات ناگفتہ بہ تھے جس سے تنگ آکرآپ کے والد ماجدنےخراسان جاکرآباد ہونے کا فیصلہ کرلیااوراپنےاہل و عیال کے ساتھ یہیں آباد ہو گیے، اس وقت خواجہ صاحب کی عمر پاک 1 سال تھی۔
حضرت خواجہ صاحب کی ابتدائی تعلیم یہیں ہوئی۔جب آپ کی عمر پاک 15سال کی ہوئی تو والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ابھی آپ کی یتیمی کا داغ دھلا بھی نہیں تھا کہ والدہ صاحبہ بھی داغ مفارقت دے گیئں، اس وقت آپ صرف 16سال کےتھے۔والدہ کےانتقال کے بعد آپ اکیلے ہو گیےجس کی وجہ سے تعلیم سے رشتہ ٹوٹ گیا اورمعاشی انتظام و انصرام میں لگ گیے۔ والد کے ترکہ سے آپ کوانگوروں کا ایک باغ اور ایک آٹا پیسنے والی چکی ملی تھی،اسی کے ذریعہ آپ بسر اوقات کرتے تھے۔
حضرت خواجہ صاحب ایک دن اپنے باغ میں بیٹھے تھے کہ ادھر سے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابراہیم قندوزی علیہ الرحمہ کا گزر ہوا،خواجہ صاحب نے انہیں دیکھ کربڑی عقیدت سے سلام کیا اورباغ میں آنے کی دعوت دی ،دعوت کا انداز کچھ ایسا تھا کہ شیخ صاحب انکارنہ کرسکے،آپ باغ میں داخل ہو گیے،خواجہ صاحب نے ان کو بٹھایا اورمیٹھے انگورں کے چند خوشے کھانے کے واسطے پیش کیا، حضرت نےانھیں کھالیا پھراپنےتھیلےسےروٹی کاخشک ٹکڑانکال کرخواجہ صاحب کوعطاکیا اورفرمایا:یہ فقیر کی مہمانی کابدلہ ہےاسے کھالو۔یہ کہہ کراٹھے اورچل دیے۔خواجہ صاحب نے جیسے ہی روٹی کا وہ ٹکڑا کھایا آپ کے دل کی دنیا بدل گئی۔آپ کو احساس ہونے لگا کہ یہ دنیا اور اس کی تمام تررعنائیاں ایک نہ ایک دن فنا ہونے والی ہیں ۔دوسرے دن آپ نے باغ اور چکی کوفروخت کر دیا اوراس سے جوکچھ آمدنی حاصل ہوئی اس کا کچھ حصہ اپنےاخراجات کے لیےرکھا اورباقی کوفقیروں میں تقسیم کرکےعلم دین حاصل کر نےکےلیےنکل پڑے۔
خواجہ صاحب نے سب سے پہلےبخارا اورسمرقندجاکرظاہری علوم حاصل کیااس کےبعد مرشد کامل کی تلاش میں نکل پڑے ۔اس زمانے میں عراق کے قصبہ ہارون میں سلسلہء چشتیہ کے عطیم بزرگ اوراپنےوقت کےولی کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ رہتے تھے،
حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمہ خواجہ عثمان ہارونی کی بارگاہ میں حاضرہوے اوران سےاکتساب فیض کرنےلگے۔آپ وہاں 20 سال تک رہے۔خواجہ صاحب اپنے شیخ کے حلقہءارادت میں کب آئے؟اس بارے میں مورخین نے اختلاف کیا ہے ،کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ آپ پہلے دن ہی بیعت ہو گئے تھے اوربعض کی رائے کے مطابق پہلے شیخ نے مجاہدہ کرایا پھر بیعت کیا ۔
آپ کےبیعت ہونے کا واقعہ کتابوں میں یوں مذکور ہے " بیعت کے وقت مرشد نے خواجہ صاحب کو وضو کرایا ،دو رکعت نماز پڑھوائی ،پھر قبلہ کی طرف منہ کر کے سورہ بقرہ پڑھنے کو کہا ،اس کے بعد 21 بار درود شریف پڑھوایا اور ساٹھ بار سبحان اللہ،پھرآپ کا ہاتھ پکڑااورآسمان کی طرف چہرہ کرکے فرمایا:میں نے تجھ کو خدا تک پہونچایا اور اس کی بارگاہ کا مقبول کیا۔ پھرسرکے بال ترشوائے اور چارترکی ٹوپی اورجبہ عطافرمایا۔
ترکی ،ترک سے بنا ہے جس کا معنی ہوتاہے چھوڑنا۔وہ چار چیزیں جنہیں ہرراہ سلوک کو چھوڑنی پڑتی ہیں یہ ہیں (1)ترک دینا یعنی دنیا داری سے کو چھوڑنا (2)ترک عقبیٰ یعنی عبادت سے مقصود اللہ کی ذات ہو جنت کا حصول نہیں(3)ترک خواب وخوراک یعنی اتنی میں کھانا اور سونا جس سے صحت متاءثر نہ ہو(4)ترک خواہشات نفس یعنی نفس کی باطل خواہشوں کو چھوڑدینا۔
حضرت خواجہ صاحب نے اپنے شیخ کے پاس رہ کر جب سلوک کی تمام منزلوں کو طے کرلیا تو دیار رسول میں حاضری دینے کا ارادہ فرمایا ۔یہاں مورخین کا اختلاف ہے کہ خواجہ صاحب اکیلے حرمین طیبین تشریف لے گئے یا ان کے مرشد بھی ساتھ تھے زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ شیخ کے ساتھ تشریف لے گیے ۔جب آپ مکہ مکرمہ پہنچے اور طواف سے فارغ ہوئے تو شیخ نے کعبۃاللہ میں میزاب رحمت کے نیچے آپ کے لیے دعا کی اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر خدا کے سپرد کیا ۔غیب سے آواز آئی "ہم نے معین الدین کو قبول کیا " شیخ یہ آواز سن کر بہت خوش ہوئے اور بارگاہ الٰہی میں شکر ادا کیا۔ اس کے بعد روضہء اقدس پر حاضری کے لیے مدینہ منورہ پہوںچے اور دربار رسالت میں سلام عرض کیا ، جواب ملا "وعلیک السلام ائے سمندرں اور جنگلوں کے قطب المشائخ"یہ آواز سن کرشیخ صاحب نے فرمایا : کام مکمل ہو گیا۔قیام مدینہ کے دوران آپ کو بارگاہ رسالت سے یہ خوشخبری ملی :اے معین الدین، تو میرے دین کا مددگار ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطاکی ۔ وہاں کفر وظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا ۔تیرے وجود سے ظلمت کفر دور ہوگی اوراسلام رونق پذیر ہوگا۔"حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں آپ کو ہندوستان کا نقشہ بھی دکھایا۔اس کے بعد آپ اپنے شیخ سے رخصت ہوکرکرہندوستان کی طرف عازم سفر ہوئے،آپ نے پہلے بغداد شریف کا رخ کیااور وہاں غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ اور دوسرے مشائخ طریقت سے ملاقات کیا اور ان سے فیض حاصل کیا۔پھر مختلف ملکوں اور شہروں سے ہوتے ہوئے اور ان جگہوں کے مشائخ سے اکتساب فیض کر تے ہوئےغزنی پہنچے یہاں سلطان المشائخ عبد الواحد سے ملاقات ہوئی آپ کے ساتھ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ،حضرت محمد یادگاراور حضرت خواجہ فخر الدین گردیزی بھی تھے۔اللہ والوں کا یہ نورانی قافلہ ہندوستان کے سرحدی علاقہ پنجاب میں داخل ہوا۔جس وقت خواجہ صاحب ہندوستان میں داخل ہوے سلطان شہاب الدین محمد غوری اپنی فوج کے ساتھ پرتھوی راج چوہان سے جنگ ہار کر غزنی کی طرف بھاگ رہے تھے ۔ان لوگوں نے خواجہ صاحب کو روکنا چاہا لیکن آپ کو اللہ کی ذات پر پورا یقین تھا اس لیے آپ چلتے رہے یہاں تک کہ لاہور پہونچ گیے ۔لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی بن عثمان ہجویری کے مزار پر قیام فرمایا باطنی فیوض و برکات حاصل کیا۔جب رخصت ہونے لگے تو یہ شعر پڑھا
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
وہاں سے روانہ ہو کر پٹیالہ ہو تے ہوے آپ دہلی تشریف لائےاور دعوت و تبلیغ کا کام شرع کردیا ۔آپ کی دعوت و تبلیغ کا انداز اتنا پر کشش تھا کہ دھیرے دھیرے مسلمانوں کی تعداد بڑھنی شروع ہو گئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام کا بول بالا ہو گیا۔ یہ حال دیکھ کر وہاں کے دھرم گرووءں نے راجہ کو اکسایا اور خواجہ صاحب کو وہاں سے نکلوانے کی درخواست کی ،بادشاہ نے آپ کو وہاں سے نکالنے کی ہر تدبیر اختیار کر لی لیکن مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔بالآخر خواجہ صاحب نے خود ہی وہاں سے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ نے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو وہاں چھوڑا اور 40 جاںثاروں کے ساتھ اجمیر کے لیے روانہ ہوئے ،اجمیر پہنچ کر ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا ،ابھی آپ بیٹھے ہی تھے کہ راجہ پرتھوی راج چوہان کے سپاہیوں نے یہ کہہ کرآپ کو بیٹھنے سے منع کر دیا کہ یہاں راجہ کے اونٹ بیٹھتے ہیں ۔خواجہ ان کی بات کہ کر اٹھ گیے اور فرمایا کہ لو باباہم یہاں سے اٹھ جاتے ہیں تمہارے اونٹ ہی بیٹھے رہیں۔ وہاں سے اٹھ کر آپ اپنے احباب کے ساتھ اناساگر کے قریب پہاڑی پر ٹھہرگئے۔دوسرے دن چرواہوں نے اونٹوں کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ ہل سکے۔انہوں نے سپاہیوں کو اطلاع دی، انہوں نے بھی پوری کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے،بالآخرسب خواجہ صاحب کی بارگاہ میں آئے اور معافی مانگی،آپ نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں معاف فرما دیا اور ارشاد فرمایا:جاءو خدا کی مہربانی سے تمہارے اونٹ کھڑے ہو جائیں گے۔سب نے واپس آکر دیکھا تو سارے اونٹ کھڑے تھے۔
اجمیر شریف میں خواجہ صاحب سے اوربھی کرامتیں صادر ہوئیں جو آپ کی سیرت کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔
خوجہ غریب نواز علیہ الرحمہ ہندوستان میں 587 یا 588(اس بارے میں مؤرخین کا بہت اختلاف ہے)کو تشریف لائے اور 6رجب 633 کو اس جہان فانی کو الوداع کہا۔ اس مختصر سے عرصے میں آپ کے عمدہ اخلاق اور دل نشیں دعوت کے نتیجے میں لاتعداد لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کا گوشہ گوشہ کلمہءتوحید کی صداوں سے گونج اٹھا۔آپ کےدست خق پرست پرہاتھ رکھ کراسلام قبول کرنے والوں کی تعداد 90لاکھ بتائی جاتی ہے۔
خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی زندگی سے سبق:
خواجہ صاحب کے حالات زندگی کو پڑھنے کے بعد ہمیں پتا چلتاہے کہ آپ بے شمار اوصاف اور خصوصیات کے حامل تھے جس کو نظر انداز کر کے کوئی بھی انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب اورمحبوب بندہ نہیں بن سکتاہے۔ ذیل میں ہم آپ کے چند اوصاف حمیدہ کو تحریرکر رہے ہیں تاکہ قارئین اسے اپنا کر اپنی دنیا اور آخرت کو سنواریں۔
(1)خوفِ خدا:آپ اللہ کے نزدیک بلند مقام و مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود اللہ تعالی کا خوف اپنے دل میں بہت زیادہ رکھتے تھے۔جب کبھی قبر وحشر کے مناظر کا تذکرہ آجاتا تو آپ بےاختیار رو پڑتے اور کبھی کبھی تو چینخیں تک بلند ہو جاتیں۔
(2) محبتِ رسول: صلی اللہ علیہ وسلم :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جان ایمان اور روح اسلام ہے اس کے بغیر کوئی شخص سلوک کے زینے تک نہیں پہنچ سکتا، خواجہ صاحب کا سینہ محبت رسول کا مدینہ تھا،ساری زندگی اپنے حبیب اور جد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والہانہ یاد ہی آپ کے درد جگر کا درماں رہی۔جب کبھی آپ کوئی حدیث بیان کرتے تو رونے لگتےیہاں تک کہ داڑھی مبارک تر ہوجاتی۔ایک مرتبہ آپ نے فرمایا:افسوس ہےاس شخص پر جو قیامت کے دن آپ سے شرمندہ ہوگا،اس کی جگہ کہاں ہوگی؟ جو آپ سے شرمندہ ہوگا وہ کہاں جائےگا؟؟؟
(3)سنتِ رسول پرعمل:حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں"تم میں کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش اس چیز کے تابع نہ ہوجائے جومیں لے کر آیا۔یعنی میرے طریقے اور میری سنت کے مطابق نہ ہوجائے۔ ایک مرتبہ آپ آخرت کے مناظر کو بیان فرمارہے تھے،دوران گفتگو فرمایا جوشخص سنتوں کو چھوڑدیتا ہے حشر کے دن اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا جائےگا اور کہا جائےگا یہ شخص آپ کا امتی ہے ،اس نے سنت کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے ۔ اس کے بعد خواجہ صاحب زار وقطار رونے لگے اور فرمایا:افسوس ہے اس شخص پر جو قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں شرمندہ ہوگا اور جو ان کی بارگاہ میں شرمندہ ہوگاوہ بھلا کہاں جائےگا؟
(4)پابندئ نماز:نمازتمام فرائض میں سب سے اہم فرض اور تمام عبادات میں سب سے افضل عبادت ہے ،نماز مومنوں کی معراج ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنکھوں کی ٹھنڈک اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک پہونچنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔نماز ترک کر کے کوئی شخص اللہ ورسول کا پیارا ہو ہی نہیں سکتا۔یہی وجہ ہے کہ خواجہ صاحب خود بھی نماز کے سخت پابند تھے اور اپنے مریدین ومتوسلین کو بھی اسکی پابندی کا حکم دیتے تھے۔ایک بار نماز قضا کر دینے کی گفتگو چل رہی تھی تو خواجہ صاحب نے فرمایا:وہ کیسے مسلمان ہیں جو وقت پر نماز ادا نہیں کرتے اور اس قدر دیر کر دیتے ہیں کہ وقت ہی گذر جائے،اور فرمایا ان کی مسلمانی پر بیس ہزار افسوس جو اللہرب العالمین کی بندگی میں کوتاہی کرتے ہیں۔
(5)غرباءپروری:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے اور میں اللہ کے نزدیک وہ شخص زیادہ بہتر ہے جو اللہ کی مخلوق کے لیے زیادہ بہتر ہو۔حضرت خواجہ صاحب اس حدیث کی عملی تفسیر تھے،آپ غریبوں اور محتاجوں پر اس قدر سخاوت فرماتے تھے کہ آپ کا لقب ہی" غریب نواز "پڑگیا۔
آپ ان کے علاوہ اور بھی خصوصیات کے جامع تھے لیکن میں طوالت کی وجہ سے ان سے صرف نظر کر رہاہوں ۔
حضرت خواجہ صاحب کے ارشادات عالیہ
اب میں آخر میں حضرت خواجہ صاحب کے چند ارشادات کو تحریر کر رہا ہوں تاکہ قارئین کرام ان سے فائدہ حاصل کریں:
(1)گناہ تمہں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا مسلمان بھائی کو کو ذلیل و خوار کرنا۔
(2)نیکوں کی صحبت نیک کام کرنے سے بہتر ہے اور بروں کی صحبت برائی کرنے سے برا ہے۔
(3)کافر سو سال تک لاالہٰ الااللہ کہنے سےمسلمان نہیں ،لیکن ایک مرتبہ محمد الرسول اللہ کہنے سے سو سالہ کفر دور ہو جاتا ہے ۔
(4)یقین ایک نور ہے جس سے انسان منور ہو جاتا ہے اسکے بعد محبوں اور متقیوں میں شامل ہوجاتاہے۔
(5)جوچاہتاہے کہ محشر کی حولناکیوں سے محفوظ رہے وہ بھوکوں کو کھلائے،ننگوں کو پہنائے اورمصیبت زدوں کی فریاد رسی کرے۔
(6)شقی وہ ہے جو نافرمانی کرے اور سمجھے کہ میں مقبول بندہ ہوں۔
(7)کوئی شخص صرف اورادووظائف سے قرب الٰہی حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ نماز نہ پڑھے۔
(8)جو شخص فرائض الٰہیہ کو ادا نہیں کرتا وہ حرام روزی کھاتاہے۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اور سارے مسلمانوں کوصراط مستقیم پر قائم ودائم رکھے اور اپنے محبوبوں کی محبت ہمارے دلوں میں قائم رکھتے ہوے ان کے نقش قدم پر چل کر زندگی گزارنے کی توفیق بخشے (آمین) دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی خلیفہ مجاز پاکپتن شریف خادم آستانہ عالیہ قبلہ عالم مہار شریف ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔