Friday, 29 April 2016

نبی کا معنیٰ ہے غیب کی خبریں دینے ولا تو علم غیب مصطفیٰ ﷺ کا انکار کیوں ؟

جب نبی کا لغوی معنیٰ ہی غیب کی خبریں دینے والا ہے توپھر نبی کے علم غیب سے کیسے انکارکیاجا سکتاہے نبی کے علم غیب کا انکارکرنا نبوت کی بنیاد سے انکارکرناہے جب کہ اس موضوع پر بکثرت احادیث موجود ہیں جو نبی کریم ﷺ کے علم غیب پر دلالت کرتی ہیں ملاحظہ کریں۔۔

صحابہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہم نے ایک شخص کی تعریف کی کہ جہاد میں ایسی قوت رکھتاہے اورعبادت میں ایسی کوشش کرتا ہے ،اتنے میں وہ سامنے سے گزراحضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس کے چہرے پرشیطان کا داغ پاتاہوں اس نے پاس آکرسلام کیا،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے دل کی بات بتائی کہ کیوں تونے اپنے دل میں کہا کہ اس قوم میں تجھ سے بہتر کوئی نہیں ۔کہا ہاں۔پھر چلا گیا اور ایک مسجد مقرر کرکے نمازپڑھنے کھڑا ہوا ،حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ایسا ہے جو اٹھ کر جائے اور اسے قتل کردے؟ صدیق اکبررضی اللہ عنہ گےٗدیکھاوہ نمازپڑھتاہے واپس آئے اورعرض کیا کہ میں نے اسے نماز میں دیکھامجھے قتل کرتے خوف آیا حضور نے پھر فرمایا تم میں کون ایسا ہے کہ اٹھ کرجائے اور اسے قتل کردے ؟ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ گےٗ اورنمازپڑھتا دیکھ کر چھوڑ آے اوروہی عذر کیا حضور نے پھر فرمایا تم میں کون ایسا ہے جو اٹھ کر جاے اور اسے قتل کردے ؟ مولیٰ علی کرم اللہ وجہ نے عرض کی میں حضور نے فرمایا ہاں تم اگر اسے پاوٗ یہ گیےء وہ جاچکا تھا۔حضور اقدس ﷺ نے فرمایا یہ میری امت سے پہلا سینگ نکلا تھا اگر یہ قتل ہو جاتاتو مستقبل میں امت میں کچھ اختلاف نہ پڑتا۔
[دلایٗل النبوت للبہیقی باب ماروی فی اخبارہ ﷺ الیٰ آخرہٖ دارالکتب العلمیہ بیروت جلد 6 صفحہ 287 و288]

حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک چور لایا گیا آپ نے فرمایا اس کو قتل کر دو عرض کی گیٗ کہ اس نے چوری ہی تو کی ہے فرمایا اس کا ہاتھ کاٹ دو پھر اسے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس اس حال میں لایا گیاکہ اس کے تمام ہاتھ پاوٗں کاٹے جا چکے تھے ۔تو آپ نے فرمایا میں اس کے بغیر تیرا علاج نہیں جانتا جو رسول اللہ ﷺ نے تیرے بارے میں فیصلہ فرمایا تھا کہ اس کو قتل کر دو وہ تیرا حال خوب جانتے تھے ۔چنانچہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کا حکم دیا۔
[کنزالعمال جلد 5 صفحہ 538]
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک بار ہم میں کھڑے ہوکرابتداے آفرینش سے قیامت تک جوکچھ ہونے والا تھا سب بیان فرما دیا،کویٗ چیز نہ چھوڑی ،جسے یاد رہایادرہا اور جو بھول گیا بھول گیا۔
[مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن الفصل الاول صفحہ 461 مطبع مجتبای دہلی]
دس صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ حدیث مروی یے کہرسول اللہ ﷺ نے فرمایامیں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا اس نے اپنا دست قدرت میری پشت پر رکھاکہمیرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہویٗ اسی وقت ہرچیز مجھ پر روشن ہو گیٗ اور میں نے سب کچھ پہچان لیا۔۔
[سنن ترنذی کتاب التفسیر حدیث نمبر 3246 دارالفکربیروت]
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آ گیا۔
[سنن ترمذی کتاب التفسیر حدیث نمبر 3244 دارالفکر بیروت]
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بیشک میرے سامنے اللہ عزوجل نے دنیا اٹھا لی ہے اور میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کچھ ایسا دیکھ رہاہوں جیسے اپنی ہتھیلی کودیکھ رہاہوں اس روشنی کے سبب جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کےلےٗ روشن فرمایاجیسے محمد سے پہلے انبیاء کے لے روشن کی تھی ﷺ۔۔
[حلیۃ الاولیاء جلد 6 صفحہ 101 دارالکتاب العربی بیروت]

علم غیب مصطفیٰ ﷺ مستند دلائل اور اعتراضات کے جواب‎

علم غیب النبی ﷺ (از افادات قبلہ کاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ملتان شریف)
بعد الحمد والصلٰوۃ
حضور سید عالم ﷺ کے لئے علوم غیبیہ جزئیہ (بعض علم غیب) ثابت ہونے میں آج تک کسی مسلمان نے اختلاف نہیں کیا حتیٰ کہ مولوی اشرف علی تھانوی صاحب بھی تغییر العنوان میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ
’’یہاں اس میں کلام ہی نہیں کہ حضور کے علوم غیبیہ جزئیہ کمالاتِ نبوت میں داخل ہیں اس کا کون انکار کر سکتا ہے۔‘‘

معلوم ہوا کہ حضور سید عالم ﷺ کے لئے بعض علوم غیبیہ ماننا متفق علیہ مسئلہ ہے۔ البتہ اہل سنت اور معتزلہ کا اس میں اختلاف ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے واسطہ سے اولیاء اللہ کو بھی علوم غیب میں سے کچھ حصہ ملتا ہے یا نہیں؟ معتزلہ اس کے منکر ہیں اور اہل سنت قائل ہیں۔ اہل سنت اس امر پر بھی متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبوں خصوصاً سید المحبوبین آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو غیوبِ خمسہ میں سے بہت سے جزئیات کا علم عطا فرمایا جو شخص یہ کہے کہ کسی فرد کا علم کسی کو نہ دیا گیا وہ ہمارے نزدیک بد مذہب خائب و خاسر ہے۔

اب اس مسلک کو لیجئے کہ حضور سید عالم ﷺ کو بلا استثناء جمیع جزئیات خمسہ کا علم (جس میں تعیین وقت قیامت کا علم بھی شامل ہے) اور روزِ اول سے آخر تک ما کان وما یکون‘‘ مندرجہ لوحِ محفوظ اور اس سے بہت زائد کا علم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ اہل سنت کے درمیان مختلف فیہ ہے لیکن جو لوگ محض بغض و عناد کی وجہ سے اس وسعت علم کا انکار کرتے ہیں اور حضور سید عالم ﷺ کی شان اقدس میں نعوذ باللہ گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں یا گستاخوں کی گستاخیوں پر مطلع ہو کر ان میں ناپاک تاویلیں کر کے ان توہینوں پر راضی ہوتے ہیں وہ اہل سنت کجا مسلمان بھی نہیں۔ اس لئے کہ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ سے العیاذ باللہ بغض و عناد رکھنا یا ان کی شانِ مقدس میں توہین کرنا کفر خالص ہے۔ اعاذنا اللّٰہ تعالٰی منہ۔

حضور سید عالم ﷺ کے علم اقدس کے بارے میں ہمارا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو روزِ اول سے روزِ آخر تک کا علم دیا اور تمام علوم مندرجہ لوح محفوظ نیز اپنی ذات و صفات کی معرفت سے متعلق بہت اور بے شمار علوم عطا فرمائے۔ جمیع جزئیات خمسہ کا علم دیا جس میں خاص وقت قیامت کا علم بھی شامل ہے۔ احوال جمیع مخلوقات تمام ماکان وما یکون کا علم عطا فرمایا لیکن باایں ہمہ حضور ﷺ کا علم عطائی ہونے کی وجہ سے حادث ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم ذاتی و قدیم۔ سرکارِ مدینہ ﷺ کا علم ہرگز اللہ تعالیٰ کے علم کے مساوی نہیں۔ علم رسول اللہ ﷺ متناہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بضنین
’’اور وہ (محمد رسول اللہ ﷺ) غیب پر بخیل نہیں۔‘‘ نیز فرمایا
فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ
’’اللہ تعالیٰ اپنے غیب خاص پر سوائے اپنے رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا۔‘‘
وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ
’’اے حبیب ﷺ ہم نے آپ پر کتاب اتاری جو ہر شے کو بیان کرنے والی ہے۔‘‘
وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا
’’اور سکھایا تجھے اے محبوب ﷺ جو تو نہیں جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا فضل ہے۔‘‘
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَائُ
’’اور نہیں ہے اللہ کہ اے لوگو تمہیں غیب پر مطلع فرمائے اور لیکن اللہ تعالیٰ برگزیدہ کر لیتا ہے غیب کی اطلاع دینے کے لئے اپنے رسولوں سے جس کو چاہتا ہے۔‘‘

بخاری شریف میں حدیث ہے:عن طارق بن شہاب قال سمعت عمر رضی اللّٰہ عنہ یقول قام فینا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقامًا فاخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل اہل الجنۃ منازلہم واہل النار منازلہم حفظ ذالک من حفظہ ونسیہ من نسیہٗ۔ (بخاری شریف ج ۱ ص ۴۵۳)
’’طارق ابن شہاب نے کہا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا۔ فرمایا، حضور ﷺ ممبر اقدس پر ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ہمیں ابتدائے آفرینش عالم سے خبر دینی شروع فرمائی یہاں تک کہ جنتی جنت میں داخل ہو گئے اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو گئے۔ اس بیان مبارک کو جس نے (ـجتنا) یاد رکھا، یاد رکھا اور اسے جو بھول گیا وہ بھول گیا۔‘‘

اسی حدیث کی شرح میں علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ عینی شرح بخاری ج ۷ ص ۲۱۴ اور ص ۲۱۵ پر ارقام فرماتے ہیں
والغرض انہ اخبر عن المبدأ والمعاش والمعاد جمیعا
’’غرض یہ کہ حضور سرور عالم ﷺ نے مخلوقات کے مبدأ اور معاش اور معاد سب کی خبر دی۔‘‘ آگے چل کر فرماتے ہیں
وفیہ دلالۃ علٰی انہ اخبر فی المجلس الواحد بجمیع احوال المخلوقات من ابتدائہا الٰی انتہائہا وفی ایراد ذٰلک کلہ فی مجلس واحد امر عظیم من خوارق العادۃ وکیف وقد اعطی جوامع الکلم مع ذٰلک انتہٰی۔
’’اور اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ حضور ﷺ نے ایک ہی مجلس میں مخلوقات کے تمام احوال کی خبر دی۔ ابتداء سے انتہا تک اور ایک ہی مجلس میں اس کا وارد فرمانا خوارق عادت سے امر عظیم ہے اور کیوں نہ ہو؟ اس کے باوجود کہ حضور ﷺ جوامع الکلم بھی دئیے گئے ہیں۔‘‘

ایسی ہی ایک حدیث مسلم شریف جلد ثانی ص ۲۳۳ پر حضرت عمرو بن الاخطب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم ﷺ نے نمازِ فجر کے بعد سے سورج غروب ہونے تک تمام گزشتہ اور آئندہ کے حالات بیان فرما دئیے۔

مشکوٰۃ شریف ص ۷۰۲ پر بروایت دارمی و ترمذی دو حدیثیں مروی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے مبارک سینہ میں پائی۔ پس میں نے زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا‘‘ اور دوسری حدیث میں ہے کہ ’’میرے لئے زمین و آسمان کی ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے ہر چیز کو پہچان لیا۔‘‘ حدیث مبارکہ ’’فعلمت ما فی السمٰوٰت والارض‘‘ کے تحت حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ’’اشعۃ اللمعات‘‘ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں

پس دانستم ہر چہ در آسماں ہا وہرچہ در زمین بود عبارت است از حصول تمامۂ علوم جزوی و کلی واحاطۂ آں
’’پس جان لیا میں نے جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں تھا۔ یہ عبارت ہے تمام علوم جزوی و کلی کے حاصل ہونے اور اس کے احاطہ سے۔‘‘

پھر یہی حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوۃ شریف میں ارقام فرماتے ہیں ص ۱۴۴
ہرچہ در دنیا است از زمان آدم تا اوان نفخہ اولیٰ بروے ﷺ منکشف ساختند، تاہم احوال اورا از اول تا آخر معلوم گردید یارانِ خود را نیز بعضے ازاں احوال خبرداد
’’جو کچھ دنیا میں ہے آدم علیہ السلام کے زمانہ سے نفخۂ اولیٰ کے وقت تک حضور ﷺ پر سب منکشف فرما دیا۔ یہاں تک کہ تمام احوال اول سے آخر تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معلوم ہو گئے اور اپنے صحابہ کو بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان میں سے بعض احوال کی خبر دی۔
نیز فرماتے ہیں ’’وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم ط‘‘
ووے ﷺ دانا است برہمہ چیز از شیونات ذاتِ الٰہی و احکام صفاتِ حق و اسماء و افعال و آثار و بجمیع علوم ظاہر و باطن و اول و آخر احاطہ نمود و مصدوق فوق کل ذی علم علیم شدہ علیہ من الصلٰوۃ افضلہا ومن التحیات اتمہا واکملہا۔
’’اور حضور ﷺ جاننے والے ہیں تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی شانوں سے اور احکام صفات حق و اسماء و افعال اور آثار سے اور تمام علوم ظاہر و باطن، اول آخر سب کا حضور نے احاطہ کر لیا اور فوق کل ذی علم علیم کا مصداق ہو گئے۔ ان پر افضل ترین صلوٰۃ اور اتم و اکمل ترین تحیات ہوں۔ (آمین)

آیۂ کریمہ ’’وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰؤُلاَئِ شَہِیْدًا‘‘ کے تحت تفسیر نیشا پوری میں مرقوم ہے
لان روحہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شاہد علی جمیع الارواح والقلوب والنفوس لقولہٖ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اول ما خلق اللّٰہ روحی
یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے حبیب ہم ان سب پر آپ کو گواہ بنا کر لائیں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی روح انور تمام عالم میں ہر ایک کی روح، ہر ایک کے دل ہر ایک کے نفس کا مشاہدہ فرماتی ہے۔ (کوئی روح، کوئی دل، کوئی نفس ان کی نظر اقدس سے مخفی نہیں ہے اس لئے تو یہ سب پر گواہ بنا کر لائے جائیں گے کہ شاہد کے لئے مشاہدہ ضروری ہے) اس مشاہدہ کا سبب یہ ہے کہ حضور سرور کائنات ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میری روحِ اقدس کو پیدا فرمایا۔

جب حضور ﷺ سب سے پہلے پیدا ہوئے تو باقی جو کچھ ہوا وہ سب حضور ﷺ کے روبرو ہوا۔

لہٰذا ان سے کسی چیز کا پوشیدہ رہنا کیونکر متصور ہو سکتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فیوض الحرمین میں فرماتے ہیں
العارف ینجذب الی حین الحق فیصیر عبد اللّٰہ فتجلی لہٗ کل شئ
’’(حضور سید عالم ﷺ جو سید العارفین ہیں، کی شانِ اقدس کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے جبکہ) عارف کا یہ حال ہے کہ جب وہ بارگاہِ حق سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف کھچ جاتا ہے اور مقرب بارگاہِ ایزدی قرار پاتا ہے تو اس کے لئے ہر شے روشن ہو جاتی ہے۔‘‘
مواہب اللدنیہ جلد اول ص ۵۰ پر امام قسطلانی فرماتے ہیں
وقال بعضہم لیس فی الاٰیۃ (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْح قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ) دلالۃ علٰی ان اللّٰہ تعالٰی لم یطلع نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی حقیقۃ الروح بل یحتمل ان یکون اطلعہ اللّٰہ ولم یامرہ ان یطلعہم وقد قالوا فی علم الساعۃ نحو ہٰذا واللّٰہ اعلم۔ انتہٰی
’’اور بعض علماء اعلام نے فرمایا کہ آیت کریمہ (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ) میں اس بات پر دلالت نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو روح کی حقیقت پر مطلع نہیں فرمایا بلکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو مطلع فرمایا اور آپ کو اس بات کا امر نہ فرمایا ہو کہ آپ دوسروں کو مطلع فرمائیں اور علم قیامت کے متعلق بھی انہوں نے ایسا ہی کہا ہے یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو وقت قیامت کا علم دے کر اس کے بتانے کا حکم نہ فرمایا ہو۔‘‘

امام قرطبی شارح مسلم اور امام قسطلانی شارح بخاری اور ملا علی قاری شارح مشکوٰۃ نے اپنی شروح میں ارقام فرمایا اور امام قرطبی کی عبارت امام بدر الدین عینی شارح صحیح بخاری نے عینی جلد اول ص ۳۳۷ پر نقل فرمائی
فمن ادعٰی علم شیء منہا غیر مسند الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان کاذبا فی دعواہ
’’یعنی مغیبات خمس میں سے جو کوئی کسی شے کے علم کا دعویٰ کرے اور اس علم کو رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت نہ کرے تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہو گا۔‘‘

اس عبارت سے صاف واضح ہے کہ حضور ﷺ پانچوں غیب جانتے ہیں اور اذن الٰہی سے اپنے جس غلام کو چاہیں بتا سکتے ہیں۔ جب ہی تو حضور ﷺ کی تعلیم سے ان کے علم کا دعویٰ کرنے والا کاذب ہونے سے بچے گا۔

حافظ الحدیث سیدی احمد مالکی غوث الزماں سید شریف عبد العزیز مسعود حسنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا ملفوظ شریف روایت کرتے ہیں

ہو صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یخفی علیہ شیء من الخمس المذکورۃ فی الاٰیۃ الشریفۃ وکیف یخفی علیہ ذالک والاقطاب السبعۃ من امتہ الشریفۃ یعلمونہا وہم دون الغوث فکیف بالغوث فکیف بسید الاولین والاٰخرین الذی ہو سبب کل شیء ومنہ کل شئ
’’یعنی آیۂ کریمہ میں جو مغیبات خمس مذکور ہیں ان میں سے کوئی شے حضور ﷺ پر مخفی نہیں اور یہ چیزیں حضور ﷺ پر کیسے مخفی رہ سکتی ہیں حالانکہ حضور کی امت شریفہ کے سات قطب ان مغیباتِ خمس کو جانتے ہیں حالانکہ وہ غوث سے مرتبہ میں نیچے ہیں۔ پھر غوث کا کیا کہنا۔ پھر حضور سید عالم ﷺ کا کیا کہنا جو تمام اولین و آخرین سارے جہان کے سردار ہیں اور ہر چیز کے سبب ہیں اور ہر چیز انہی سے ہے۔
علامہ شیخ احمد صاوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر صاوی جلد ۴ ص ۲۴۵ پر آیۂ کریمہ ’’یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰہَا‘‘ کے تحت ارقام فرماتے ہیں
وہٰذا قبل اعلامہٖ بوقتہا فلاینا فی انہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یخرج من الدنیا حتی اعلمہ اللّٰہ بجمیع مغیبات الدنیا والاٰخرۃ ولٰکن امر بکتم اشیاء منہا کما تقدم
’’یہ آیت کریمہ حضور ﷺ کو وقت قیامت کا علم دینے سے پہلے ہے۔ لہٰذا آیت کریمہ کا مضمون اس مسلک کے خلاف ہرگز نہیں کہ حضور ﷺ اس وقت تک دنیا سے تشریف نہیں لے گئے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو دنیا و آخرت کے تمام مغیبات نہ بتا دئیے لیکن ان میں سے بعض چیزوں کے چھپانے کا حکم حضور کو دیا گیا تھا۔ جیسا کہ ہماری اسی کتاب میں بار بار اس پر تنبیہ گزر چکی ہے۔‘‘

علامہ عشاوی کتاب مستطاب عجب العجائب شرح صلاۃ حضرت سیدی احمد بدوی کبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
قیل انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اوتی علمہا (ای الخمس) فی اٰخر الامر لکنہ امر فیہا بالکتمان وہٰذا القول ہوالصحیح
’’کہا گیا نبی ﷺ کو آخر میں ان پانچوں غیبوں کا بھی علم عطا ہو گیا مگر ان کے چھپانے کا حکم تھا اور یہی قول صحیح ہے۔‘‘

قرآن و حدیث و ارشاداتِ علمائے مفسرین و محدثین و حضرات عارفین سے ہم نے اپنا مسلک ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور سید عالم ﷺ کو تمام مخلوقات اور ساری کائنات کے جمیع احوال کا علم عطا فرما دیا اور تصریحاتِ علمائے اسلام سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ قرآن و حدیث کے نصوص میں جو عموم ہے اس میں مغیباتِ خمس شامل ہیں اور صحیح مسلک یہی ہے۔

اب ان آیات کو سامنے رکھ لیجئے جس میں غیر اللہ سے علم غیب کی نفی کی گئی ہے۔ اپنے بیان میں ہم اس امر کی وضاحت کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علوم غیبیہ غیر متناہی ہیں اور حضور سرورِ عالم ﷺ کے علوم متناہی۔ ظاہر ہے کہ متناہی غیر متناہی کا بعض ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے تمام علوم جمیع علوم غیر متناہیہ کا بعض ہیں۔

یاد رکھیئے! جب آپ ہمارے کلام میں حضور ﷺ کے علم اقدس کے متعلق لفظ ’’کُل‘‘ دیکھیں تو اس سے کل غیر متناہی نہ سمجھیں بلکہ کل مخلوقات (جو متناہی ہے) اور اس کے علاوہ معرفت ذات و صفات کا علم کہ وہ بھی بالفعل متناہی ہے، ہماری مراد ہو گا۔ ورنہ علم الٰہی کی بہ نسبت ہم حضور ﷺ کے علم کو ’’کُل‘‘ نہیں کہتے کیونکہ علم الٰہی محیط الکل اور غیر متناہی ہے۔

جب یہ بات واضح ہو گئی کہ حضور سید عالم ﷺ کے علوم کل غیر متناہی کا بعض ہیں تو بعض علم غیب کو رسول اللہ ﷺ کے لئے ثابت کرنے میں ہمارا اور دیوبندیوں کا اختلاف نہ رہا کیونکہ وہ بھی بعض علوم غیبیہ حضور ﷺ کے لئے ثابت کرتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ان کا بعض بہت ہی کم ہے اور ہمارا بعض ان کے مقابلہ میں بہت زیادہ لیکن مطلق بعض علوم غیبیہ حضور ﷺ کے لئے ماننے میں ہم اور وہ دونوں شریک ہیں جیسا کہ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کی عبارت تغییر العنوان سے ہم عرض کر چکے ہیں۔

اس تفصیل کو سمجھ لینے کے بعد گزارش ہے کہ آیات نفی علم غیب جس طرح ہمارے مسلک کے خلاف ہیں بالکل اسی طرح دیوبندیوں کے بھی خلاف ہیں۔ اپنے مذہب کو صحیح کرنے کے لئے جو جواب دیوبندی دیں گے ہماری طرف سے بھی وہی جواب سمجھ لیں۔

اب اس جواب کی تفصیل سن لیجئے۔ آیاتِ نفی علم غیب نفی علم بالاستقلال یا علم محیط غیر متناہی پر محمول ہیں ورنہ آیاتِ قرآنیہ میں تعارض ہو گا کہ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ وہ (محمد ﷺ) علم غیب پر بخیل نہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو اپنے غیب خاص پر مطلع فرماتا ہے اور تمہیں غیب پر اطلاع نہیں دیتا لیکن اطلاع علی الغیب کے لئے اپنے رسولوں کو چن لیتا ہے اور دوسری جگہ یہ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیب کا علم بھی کسی کو نہیں۔ یہ صاف تعارض و تناقض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام ایسے اختلاف اور تعارض و تناقض سے پاک ہے۔ بلکہ قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے پر دلیل یہ ہے کہ اس میں اختلاف و تناقض نہیں پایا جاتا۔

قال اللّٰہ تعالٰی وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا
’’اگر قرآن مجید غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے۔‘‘

اب ہم اپنے اس دعوے پر کہ آیات نفی میں علم استقلالی اور علم محیط الکل حقیقی کی نفی غیر اللہ سے کی گئی ہے، مفسرین و علماء راسخین کی تصریحات پیش کرتے ہیں۔ تفسیر نیشا پوری میں ہے
لا اعلم الغیب فیکون فیہ دلالۃ علی ان الغیب بالاستقلال لا یعلمہ الا اللّٰہ۔
’’آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو علم غیب بالاستقلال (بذاتِ خود) ہو وہ اللہ کے ساتھ خاص ہے۔‘‘ تفسیر انموذج جلیل میں ہے
معناہ لا یعلم الغیب بلا دلیل الا اللّٰہ اوبلا تعلیم الا اللّٰہ او جمیع الغیب الا اللّٰہ۔
’’آیت کے معنی یہ ہیں کہ غیب کو بلا دلیل و بلا تعلیم یا جمیع غیب غیر متناہی کو محیط ہونا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔‘‘ جامع الفصولین میں ہے
یجاب بانہ یمکن التوفیق بان المنفی ہو العلم بالاستقلال لا العلم بالاعلام والمنفی ہی المجزوم بہ لا المظنون۔ الخ
یعنی آیات نفی علم غیب عن غیر اللہ تعالیٰ و آیات ثبوت علم غیب بغیر اللہ تعالیٰ میں اس طرح توفیق (تطبیق) ممکن ہے کہ آیات نفی علم بالاستقلال یعنی علم ذاتی پر محمول ہیں ان کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے بھی کسی کو غیب کا علم نہیں ہو سکتا یا وہ علم جس کے ساتھ جزم کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور جو ظنی ہو وہ بغیر وحی و الہام کے غیر اللہ کو بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ظن سے پاک ہے اور غیب کا یقینی علم اس کی طرف سے وحی و الہام کے بغیر ناممکن ہے۔

امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ شفاء شریف میں اور علامہ شہاب الدین خفا جی اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں

(ہٰذہ المعجزۃ) ... فی اطلاعہٖ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی الغیب (معلومۃ علی القطع) بحیث لا یمکن انکارہا او التردد فیہا لاحد من العقلاء ... لکثرۃ رواتہا واتفاق معانیہا علی الاطلاع علی الغیب وہٰذا لا ینا فی الاٰیۃ الدالۃ علی انہ لا یعلم الغیب الا اللّٰہ وقولہ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ فان المنفی علمہ من غیر واسطۃ واما اطلاعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باعلام اللّٰہ تعالٰی لہ فامر متحقق لقولہٖ تعالٰی فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ط
یعنی ’’حضور ﷺ کا معجزہ علم غیب یقینا ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردد کی گنجائش نہیں کہ اس کے ثبوت میں احادیث کثیرہ وارد ہوئیں اور ان سب سے بالاتفاق حضور کا علم غیب ثابت ہے اور ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ آیت کہ اے اللہ کے رسول کہہ دو اگر میں علم غیب جانتا تو بہت خیر جمع کر لیتا۔ اس قسم کی تمام آیتیں حضور ﷺ کے معجزہ علم غیب کے اس لئے منافی نہیں کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بغیر بتائے ہو اور اللہ تعالیٰ کے بتانے سے نبی ﷺ کو علم غیب ملنا تو قرآن مجید سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔‘‘

رد المحتار میں صاحب ہدایہ کی مختارات النوازل سے منقول ہے۔
لوادعی الغیب بنفسہٖ یکفر
’’اگر کوئی شخص بذاتِ خود (علم) غیب حاصل کر لینے کا دعویٰ کرے تو کافر ہے۔‘‘
بعض لوگ حضور ﷺ کے علم غیب کی نفی میں فتاویٰ قاضی خان کی وہ عبارت پیش کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے نکاح کا گواہ بنا کر نکاح کیا تو وہ کافر ہے اس لئے کہ اس نے حضور ﷺ کے لئے علم غیب مانا۔ اس کا جواب شامی میں اس طرح مذکورہے۔ (ص ۳۸۰ ج ۲)

قال فی التاتار خانیۃ وفی الحجۃ ذکر فی الملتقط انہ لا یکفر لان الاشیاء تعرض علٰی روح النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وان الرسل یعرفون بعض الغیب وقال اللّٰہ تعالٰی عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ا ھ قلت بل ذکروا فی کتب العقائد ان من جملۃ کرامات الاولیاء الاطلاع علٰی بعض المغیبات وردوا علی المعتزلۃ المستدلین بہٰذہ الاٰیۃ علٰی نفیہا۔
یعنی ’’فتاویٰ تاتار خانیہ اور حجت میں فرمایا کہ ملتقط میں ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو نکاح میں گواہ بنانے والا کافر نہ ہوگا اس لئے کہ اشیاء حضور ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں پیش کی جاتی ہیں اور بے شک رسولوں کو (علوم الٰہیہ غیر متناہیہ کا) بعض علم (متناہی) حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ اپنے غیب پر سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا۔ (علامہ شامی فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں کہ ائمہ اہل سنت نے کتب عقائد میں ذکر فرمایا کہ بعض علم غیب کا ہونا اولیاء اللہ کی کرامت سے ہے (اور معتزلہ نے اس آیت سے اولیاء کے علم غیب کا انکار کیا) ائمہ اہل سنت نے ان کا رد فرمایا کہ آیت کریمہ میں غیب خاص کا ذکر ہے جو غیر رسول کو نہیں دیا جاتا۔ یا یوں کہیئے کہ بواسطۂ رسول کسی کو علم غیب حاصل ہونے کی نفی آیۂ کریمہ میں نہیں ہے۔‘‘

تفسیر جمل شرح جلالین اور تفسیر خازن میں ہے
المعنی لا اعلم الغیب الا ان یطلعنی اللّٰہ تعالٰی
یعنی ’’آیۂ کریمہ میں جو ارشاد ہوا کہ فرما دو میں غیب نہیں جانتا اس کے معنی یہ ہیں کہ بے خدا کے بتائے نہیں جانتا۔‘‘
یہاں تک ہم نے ائمہ تفاسیر اور علماء راسخین معتمد علیہم کی تصریحات نقل کر کے ثابت کر دیا کہ نفی علم غیب کی آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بغیر بتائے کسی کو غیب کا علم نہیں ہو سکتا۔ نیز یہ کہ کل علم غیر متناہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے وہ کسی کے لئے ثابت نہیں اور آیاتِ ثبوت علم غیب کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے اللہ کے رسولوں کو علم غیب حاصل ہے۔ نیز یہ کہ انبیاء علیہم السلام کا علم خواہ وہ کائنات کا ذرہ ذرہ اور مخلوقات کے جمیع احوال کو محیط ہو (جیسا کہ حضور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا علم ہے) لیکن اس کے باوجود بھی وہ متناہی بالفعل اور محدود ہے۔ علم الٰہی کے مساوی ہرگز نہیں ہو سکتا۔

اس کے بعد یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ حضور ﷺ کا خطاب جب عوام کی طرف ہوتا ہے تو ان سے حضور ان کی عقول کے مطابق ہی کلام فرماتے ہیں۔ اس لئے اس کو ظاہر پر محمول کرنا اور دوسرے دلائل سے قطع نظر کر لینا مرد عاقل کے شایانِ شان نہیں۔ تفسیر نیشا پوری میں ہے

قُلْ لَّا اَقُوْلُ لَکُمْ لم یقل لَیْسَ عِنْدِیْ خَزَائِنُ اللّٰہِ لیعلم ان خزائن اللّٰہ وہی العلم بحقائق الاشیاء وماہیاتہا عندہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی قولہ ارنا الاشیاء کما ہی ولٰـکنہ یکلم الناس علٰی عقولہم (ولا اعلم الغیب) ای لا اقول لکم وہٰذا مع انہ قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم علمت ما کان وما یکون مختصرا۔
یعنی ’’ارشاد ہوا کہ اے نبی فرما دو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس نہیں (بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس خزانے ہیں) تاکہ معلوم ہو جائے اللہ تعالیٰ کے خزانے حضور اقدس ﷺ کے پاس ہیں (مگر حضور لوگوں سے ان کی سمجھ کے قابل باتیں بیان فرماتے ہیں) اور وہ خزانے کیا ہیں؟ ’’تمام اشیاء کی ماہیئت و حقیقت کا علم‘‘ حضور ﷺ نے اس کے ملنے کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ پھر فرمایا

’’اور میں غیب نہیں جانتا‘‘ یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے۔ ورنہ حضور تو خود فرماتے ہیں کہ مجھے ’’ما کان وما یکون‘‘ کا علم ملا۔ یعنی جو کچھ گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے۔ (انتہیٰ)

علامہ نیشا پو ری کے اس نورانی بیان سے منکرین کے واہی شکوک و اوہام کا اچھی طرح قلع قمع ہو گیا۔ والحمد للّٰہ علٰی احسانہٖ۔

اس مضمون کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کہ منکرین کے بعض شبہات جو اس مسئلہ میں وہ پیش کرتے ہیں خوب تفصیل سے زائل کئے جاتے۔ لیکن قصداً اختصار کے باوجود مضمون طویل ہو گیا اس لئے بسط و تفصیل کی گنجائش نہیں مگر اجمالاً ان کے تمام شکوک کا ازالہ مختصر عبارت میں کرتا ہوں۔ اگر غور سے کام لیا گیا تو ان شاء اللہ العزیز یہ اجمال ہی تفصیل کا کام دے گا۔

پہلا شبہ یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ کو تمام مخلوق کے جمیع احوال کا علم تھا۔ بعض حالات میں حضور ﷺ نے لاعلمی کا اظہار کیوں فرمایا؟ یا ایسے کام کیوں کئے جن سے لاعلمی ظاہر ہوتی ہے؟

مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت کے معاملہ میں حضور ﷺ نے لاعلمی ظاہر فرمائی۔ یا حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہار کا واقعہ عدم علم کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح خیبر میں ایک یہودیہ کا بکری کے شانہ میں زہر ملا کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دینا اور حضور کا اس میں سے کچھ کھا لینا، اسی طرح ستر قاریوں کا کفار کے ساتھ بھیجنا اور ان کی شہادت کا واقعہ وغیرہ جزئیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم میں نہیں۔

ان تمام اعتراضات کے جوابات یہ ہیں
۱۔ اول یہ کہ ہم حضور ﷺ کے لئے جو ’’ما کان وما یکون‘‘ کا علم ثابت کرتے ہیں وہ تدریجاً ہے اس لئے جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے کہ فلاں بات کا علم حضور کو آخر عمر شریف تک نہ دیا گیا اس وقت تک ہمارا دعویٰ باطل ہو نہیں سکتا۔

رہا قیامت کا واقعہ جس میں مذکور ہے کہ جماعت مرتدین کو حضور ﷺ اصیحابی اصیحابی فرما کر بلائیں گے اور اس وقت کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم، انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضور کو قیامت کے دن بھی بعض باتوں کا علم نہ ہو گا۔ یہ عجیب قسم کا شبہ ہے جو دلیل مثبت علم ہو اس کو نفی میں پیش کیا جا رہا ہے۔ غور فرمایئے یہ واقعہ قیامت کے دن ہو گا لیکن حضور ﷺ اس کو پہلے بیان فرما رہے ہیں ’’علم نہ تھا تو بیان کیسے فرمایا؟‘‘

رہی یہ بات کہ پھر حضور سے یہ کیوں کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم شریف جلد ثانی مطبوعہ مطبع انصاری دہلی ص ۲۴۹ میں منکرین کی یہی پیش کردہ حدیث بایں الفاظ موجود ہے۔

فیقال اما شعرت ما عملوا بعدک

’’حضور ﷺ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کام کئے۔‘‘
’’ما شعرت‘‘ جملہ منفیہ پر ہمزہ استفہام انکاری داخل ہوا۔ نفی کا انکار اثبات ہوتا ہے۔ لہٰذا حدیث مبارکہ سے مرتدین کے اعمال کا علم حضور سید عالم ﷺ کے لئے ثابت ہوا۔ چونکہ واقعہ ایک ہے، صرف اس کی روایتوں میں تعدد ہے اس لئے جب ایک روایت میں ہمزئہ استفہام مذکور ہو گیا تو ہر روایت میں اس کے معنی ملحوظ رہیں گے اور جس روایت میں وہ مذکور نہیں وہاں محذوف ماننا پڑے گا۔ مثلاً ’’انک لا تدری‘‘ والی آیت میں ہمزہ مذکور نہیں تو یہاں محذوف مانیں گے اور اصل عبارت یوں ہو گی کہ ’’ئانک لا تدری‘‘ کیا آپ نہیں جانتے؟ … ورنہ حدیثوں میں تعارض ہو گا کیونکہ ہمزہ استفہام کا محذوف ہونا تو صحیح ہے جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں محذوف ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقولہ ’’ہٰذا ربی‘‘ میں مفسرین نے ’’اہٰذا ربی‘‘ فرمایا ہے یعنی کیا یہ میرا رب ہے لیکن اس کا زائد ہونا صحیح نہیں۔

اگر ’’ئانک لا تدری‘‘ والی روایت میں ہمزہ استفہام محذوف نہ مانیں تو ’’اما شعرت‘‘ والی روایت میں ہمزہ کو مخدوف ماننا پڑے گا جو کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔ خصوصاً جبکہ حضور سید عالم ﷺ کے کمال علمی کی نفی ہوتی ہو۔

پھر یہ کہ احادیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو اپنی امت کے تمام اچھے اور برے اعمال کا علم ہے۔ ترمذی شریف میں حدیث وارد ہے
عرضت علی اعمال امتی حسنہا وقبیحہا
’’میری امت کے تمام اچھے اور برے اعمال مجھ پر پیش کئے گئے‘‘

اب غور فرمایئے کہ مرتدین بھی حضور ﷺ کی امت میں داخل تھے۔ ان کا مرتد ہونا عمل قبیح ہے۔ اعاذنا اللّٰہ تعالٰی منہ۔

جب امت کے تمام اعمال حسنہ اور قبیحہ حضور ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے تو ان کا ارتداد جو عمل قبیح ہے وہ بھی ضرور پیش ہوا۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان کے عملوں کا علم نہ ہونا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ معلوم ہوا کہ حدیث مذکور کے یہی معنی صحیح ہیں کہ اے حبیب ﷺ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا عمل کئے۔ آپ کو معلوم تو ہے پھر بھی آپ غلبۂ رحمت کے حال میں ان کو اپنی طرف لے جا رہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ جب کریم کو سخاوت کرنے کے لئے بٹھا دیا جائے تو اس وقت اس کے دریائے سخا میں ایسا جوش ہوتا ہے کہ دشمن کی دشمنی کی طرف اس کی توجہ نہیں رہتی اور وہ بے اختیار اپنے کرم کا دامن اس کی طرف پھیلا دیتاہے۔ جب اسے توجہ دلائی جائے تو اس وقت متوجہ ہوتا ہے۔‘‘

یہاں بالکل یہی معاملہ ہے۔

ساقیٔ کوثر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ حوضِ کوثر پر رونق افروز ہیں۔ اپنے غلاموں کو چھلکتے ہوئے جام پلا رہے ہیں۔ مرتدین کی جماعت ادھر سے گزرتی ہے۔ حضور کو ان کے عملوں کا پورا پورا علم ہے مگر اس وقت دریائے جود و سخا موجزن اور شانِ رحمت کا ظہور اتم ہے اس لیے ان کی بداعمالیوں کی طرف خیال مبارک جاتا ہی نہیں اور اپنے لطف عمیم اور کرم جسیم کے غلبہ حال میں بے اختیار فرما دیتے ہیں، اصیحابی اصیحابی۔

لیکن جب توجہ دلائی جاتی ہے کہ ’’اما شعرت ما احدثوا بعدک‘‘ پیارے! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا؟

پس فوراً توجہ مبارکہ ان کی بد اعمالیوں کی طرف مبذول ہو جاتی ہے اور ارشاد فرماتے ہیں ’’سحقا سحقا‘‘ انہیں دور لے جاؤ، دور لے جاؤ!

طالب حق کے لئے اس حدیث کا صحیح مطلب سمجھنے کے لئے یہ بیان کافی ہے۔

منکرین کا ایک شبہ یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ روزِ قیامت شفاعت کے موقع پر جب میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دوں گا اور طویل سجدہ کروں گا اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے چند محامد مجھے تعلیم فرمائے گا جو اس وقت مجھے معلوم نہیں۔ معلوم ہوا کہ حضور کو تمام ’’ما کان وما یکون‘‘ کا علم نہ تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو حدیث پاک میں حضور ﷺ نے حقیقت علم کی نفی نہیں فرمائی۔ ارشاد فرمایا ’’لا تحضرنی الاٰن‘‘ وہ محامد اس وقت میرے ذہن اقدس میں حاضر نہیں۔ کسی بات کا ذہن میں حاضر نہ ہونا عدم علم کو مستلزم نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز کا علم ہو مگر کسی وقت اس کا استحضار نہ ہو اور اگر ’’لا تحضرنی الاٰن‘‘ کے یہی معنی کئے جائیں کہ اس وقت مجھے معلوم نہیں تو اس سے یہ کب لازم آیا کہ وقت وصال تک ان کا علم نہ ہو گا۔ بہرنوع اس حدیث سے بھی ہمارے مسلک پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔

رہا یہ واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت کے علم کا تو بخاری شریف میں اسی حدیث افک میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
’’واللّٰہ ما علمت علٰی اہلی الاخیرا‘‘
’’خدا کی قسم! میں نے اپنے اہل مقدس پر بجز خیر کے کچھ نہیں جانا۔‘‘

اس واقعہ میں حضور ﷺ کا حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے توجہ کو کم کر دینا لا علمی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس تہمت کے بعد غیرتِ محمدیہ ﷺ کا تقاضا یہ تھا کہ جب تک یہ معاملہ اللہ کی طرف سے صاف نہ ہو اس وقت تک سرکار توجہ میں کمی فرمائیں تاکہ کسی دشمن کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ حضور ﷺ کو اس قسم کی تہمت سے کوئی نفرت نہیں۔

حضور ﷺ کا غمگین ہونا بھی اس وجہ سے تھا کہ حضور حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بے گناہی کا یقین رکھتے تھے۔ صدمہ تو یہی تھا کہ بے گناہ پر تہمت لگی۔ اگر ان کی بے گناہی کا علم نہ ہوتا تو اس قدر صدمہ بھی نہ ہوتا۔ اگر آج ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص کو بے گناہ پھانسی پر لٹکا دیا گیا تو ہمیں ضرور صدمہ ہو گا اور اگر اس کی بے گناہی کا علم نہ ہو تو اس قدر صدمہ بھی نہ ہو گا۔

حضور ﷺ نے حضرت صدیقہ کے معاملہ کی تفتیش خود علم حاصل کرنے کے لئے نہیں فرمائی بلکہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکدامنی کو ان مسلمانوں کے ذہن میں قائم کرنے کے لئے فرمائی جو مسلمان ہونے کے باوجود تہمت لگانے والوں میں شامل ہو گئے تھے۔ جب ان کے دلوں میں حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے بدگمانی راسخ ہو چکی تھی تو بمقتضائے فطرتِ بشریہ یہ بات قرین قیاس تھی کہ حضور ﷺ ان سے بذاتِ خود صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی پر زور دیں تو شاید وہ سرکار کے حق میں بھی بدگمان ہو جائیں اور یہ خیال کریں کہ ان کی عزت کا معاملہ ہے اس لئے اس طرح فرما رہے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ان پر اس معاملہ میں زور نہیں دیا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ ہمارے حق میں بدگمان ہو کر کفر و ارتداد تک پہنچ جائیں۔ یہاں یہ شبہ کرنا کہ حضور ﷺ کا مقولہ ’’واللّٰہ ما علمت علٰی اہلی الاخیرا‘‘ ان اصحاب نے بھی سنا ہو گا پھر بھی یہ اپنی بدگمانی پر قائم رہے اس کی کیا وجہ ہے؟ تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اول تو یہ ثابت نہیں کہ بدگمانی کرنے والے صحابہ نے یہی جملہ حضور ﷺ سے سنا ہو اور اگر بالفرض سنا بھی ہو تو اپنے قیاس سے اس کو محض حسن ظن پر محمول کیا ہو گا۔ بہر حال اس تحقیق و تفتیش کی حکمت صرف یہ تھی کہ اسباب عادیہ مالوفہ طبائع بشریہ کے ذریعہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پوزیشن کو بدگمانی کرنے والے مسلمانوں کے ذہن میں بھی واضح اور صاف کر دیا جائے اور منافقین پر بھی حجت قائم کر دی جائے کہ دیکھو اتنی تحقیق کے بعد بھی کوئی برائی ظاہر نہیں ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان میں کوئی برائی پائی ہی نہیں جاتی۔

ایک مہینہ یا اس سے زائد تک اس معاملہ کو طول دینے کی حکمت بھی یہی تھی کہ اگر جلدی سے معاملہ ختم کر دیا جاتا تو لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات رہ جاتے۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے حکمت عملی کے مطابق معاملہ کو طول دیا کہ جس طرح چاہو اس طویل عرصہ میں واقعات کی چھان بین کر لو۔ جب کوئی برائی موجود ہی نہیں تو ظاہر کہاں سے ہو گی؟
دیکھئے اگر کسی پر تہمت لگائی جائے کہ تم نے ہمارے سو روپے چرا لئے ہیں اور وہ شخص متہم کو اپنے کپڑوں کی تلاشی دینے لگے اور اپنے گھر اور سامان کی ایک ایک چیز لا کر دکھائے اور لوگوں سے دریافت کرائے کہ بھائی تم نے میرے پاس سو روپے دیکھے ہیں، تمہیں علم ہے بھائی بتاؤ میں نے کبھی چوری کی ہے تو اس کا کیا مطلب ہے کیا اس تحقیق کرنے والے کو اپنا حال معلوم نہیں؟ کیا یہ خود اپنا علم حاصل کرنے کے لئے معاملہ کو طول دے کر اس کی تحقیق کر رہا ہے؟

نہیں نہیں! بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر اچھی طرح اس معاملہ کی تحقیق نہ کرائی گئی تو بے گناہی واضح نہ ہو گی اور لوگوں کے دلوں میں میری طرف سے بدگمانی باقی رہے گی۔

بالکل یہی معاملہ یہاں تھا۔ سرورِ کائنات ﷺ کو صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی کا یقین تھا مگر ان حکمتوں کے پیشِ نظر بے توجہی اور تحقیق و تفتیش کرائی گئی اور معاملہ کو طول دیا گیا تاکہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکدامنی ہر طریقہ سے ظاہر ہو جائے۔ اسی حکمت کے تحت ان کی برأت قرآن مجید میں تاخیر سے نازل ہوئی۔

حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب سرکارِ مدینہ ﷺ نے فرمایا کہ اے صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)! اگر تم سے کوئی گناہ ہوا ہے تو تم توبہ کر لو۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتا ہے۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ حضور خود علم حاصل کرنے کے لئے یہ بات نہیں فرما رہے بلکہ دوسروں کے اذہان کو میرے حق میں بدگمانی سے پاک فرمانے کے لئے یہ کلماتِ طیبات ارشاد ہو رہے ہیں لہٰذا جواب میں جمع کے صیغے بولتی ہیں اور ایسے الفاظ استعمال فرماتی ہیں جن کے مخاطب حقیقتاً حضور ﷺ ہو ہی نہیں سکتے۔ فرماتی ہیں

انی واللّٰہ لقد علمت لقد سمعتم ہٰذا الحدیث حتی استقرفی انفسکم وصدقتم بہٖ فلئن قلت لکم انی بریئۃ لا تصدقونی ولئن اعترفت لکم بامر واللّٰہ یعلم انی منہ بریئۃ تصدقنی فواللّٰہ لا اجدلی ولکم مثلا الا ابا یوسف حین قال فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ۔(بخاری شریف جلد ۲، صفحہ ۵۹۶)
’’خدا کی قسم! مجھے معلوم ہے کہ تم لوگوں نے یہ بات سنی ہے اور تمہارے دلوں میں قرار پکڑ چکی ہے اور تم نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ اگر میں تم سے کہوں کہ میں بے گناہ ہوں تو تم ہرگز میری تصدیق نہ کرو گے اور اگر تمہارے سامنے کسی ایسے کام کا اقرار کر لوں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو مجھے سچا مان لو گے۔ تو خدا کی قسم! جب میرے اور تمہارے لئے سوائے حضرت یعقوب علیہ السلام کے اور مثل نہیں جب انہوں نے یہ فرمایا کہ ’’فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ‘‘

خدا کے لئے ان الفاظ پر غور فرمایئے کہ یہ بات تمہارے دلوں میں قرار پکڑ چکی ہے اور تم نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ کیا اس کلام کے مخاطب حضور ﷺ ہو سکتے ہیں؟ کیا سرورِ عالم ﷺ کے قلب اطہر میں نعوذ باللہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی برائی بیٹھ چکی تھی؟ کیا حضور ﷺ نے اس کی تصدیق فرما دی تھی؟ جو لوگ اس معاملہ میں حضور ﷺ کے علم کے منکر ہیں وہ بھی یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ حضور ﷺ نے تو قسم کھا کر ارشاد فرمایا تھا کہ ’’واللّٰہ ما علمت علی اہلی الاخیرا‘‘ اس کلام کو اگر حسن ظن پر بھی محمول کر دیا جائے تب بھی حضرت عائشہ کے متعلق حضور ﷺ کا حسن ظن ثابت ہو گا۔ حسن ظن کے ساتھ ان کی برائی کا دل میں بیٹھ جانا اور اس کی تصدیق کر دینا کیسے جمع ہو سکتا ہے؟

معلوم ہوا کہ حضرت صدیقہ نے اگرچہ بظاہر حضور کو مخاطب بنایا مگر اپنے اس خطاب کا رُخ انہی لوگوں کی طرف رکھا جو منافقین کے بہکانے میں آ کر مسلمان ہونے کے باوجود تہمت لگانے میں مبتلا ہو گئے تھے اور ان کے دل میں حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے برائی بیٹھ گئی تھی اور انہوں نے تہمت لگا کر اس کی تصدیق بھی کر دی تھی۔ اگر اس کلام کے مخاطب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوں تو نعوذ باللہ حضور بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہوں گے کیونکہ کسی پر برائی کی تصدیق کرنا ہی تہمت ہے۔ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ اس سے پاک ہیں۔

تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ایک حدیث نقل کی۔
ما رفث امرأۃ نبی قط
’’کسی نبی کی بیوی نے کبھی بے حیائی کا کام نہیں کیا۔‘‘

حضرت ابن عباس ایسی بات جو عقل سے وراء الوراء ہے اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے۔ یقینا حضور ﷺ سے سن کر فرما رہے ہیں۔ لہٰذا حدیث حکماً مرفوع ہوئی۔

اس حدیث میں حضور سرورِ عالم ﷺ نے ایک ایسے امر کا بیان فرمایا جو لوازماتِ نبوت سے ہے اور وہ یہ کہ کسی نبی کی بیوی بدکار نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص کی بیوی بدکار ہو وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل ہوتا ہے اور اس کی بات بالکل حقیر ہوتی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں ایسے شخص کی بات کا کوئی وزن قائم نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ کہ اگر اس میں ذرا بھی حیا کا مادہ ہے تو وہ لوگوں کے سامنے منہ نہیں دکھاسکتا۔ حضرات انبیاء علیہم السلام ہدایت خلق اور پیغاماتِ ربانی پہنچانے کے لئے دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں۔ نعوذ باللہ وہ ذلیل نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو ذلت کے اسباب سے محفوظ رکھتا ہے۔ ان کی بات حقیر نہیں ہو سکتی۔ اگر نعوذ باللہ انبیاء علیہم السلام کی بیویوں سے ایسی ناشائستہ حرکات سرزد ہوں تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ ایسی صورت میں احکام الٰہی کی تبلیغ کس طرح ہو سکتی ہے؟ لہٰذا انبیاء علیہم السلام کی بیویوں سے بے حیائی متصور نہیں۔ بعض انبیاء کی بیویاں کافرہ ہوئیں لیکن بے حیا نہیں ہوئیں۔ کفر تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے مگر اس میں فحش اور بے حیائی نہیں ہے۔

جب آپ نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا کہ خود حضور نبی کریم ﷺ نے ازواجِ انبیاء کی پاک دامنی اور عفت کا لازمۂ نبوت ہونا بیان فرمایا ہے تو اب اس امر پر غور فرمایئے کہ حضور سرورِ عالم ﷺ حضرت صدیقہ کی پاکی میں کس طرح شک فرما سکتے ہیں۔ اگر صدیقہ کی پاکی حضور ﷺ کے نزدیک یقینی نہ ہو تو پھر اپنی نبوت بھی نعوذ باللہ سرکار کے نزدیک یقینی نہ رہے گی۔ جب حضور ﷺ کا اپنی نبوت پر ایمان ہے اور حضور یہ بھی جانتے ہیں کہ نبی کی بیوی پاک ہوتی ہے تو ان دونوں کے ملانے سے نتیجہ واضح ہو جاتا ہے کہ آقائے نامدار ﷺ کو صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی میں ذرہ برابر بھی شک نہ تھا کیونکہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی میں شک خود حضور ﷺ کی اپنی رسالت میں شک کو مستلزم ہے اور حضور اپنی رسالت میں شک کرنے سے بالکل پاک ہیں لہٰذا صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی میں شک کرنے سے بھی حضور قطعاً پاک اور مبرا ہیں۔

اس کے بعد دوسرے شبہات کو لیجئے کہ حضور ﷺ نے زہر آمیز گوشت کیوں کھایا؟ ستر قاریوں کو دھوکہ دے کر شہید کر دیا گیا تھا، کیوں بھیجا؟ حضرت عائشہ صدیقہ کے ہار کا حال کیوں نہ معلوم ہوا؟ وغیرہ وغیرہ

ان کے متعلق ایک جواب تو ہم پہلے دے چکے دوسرا جواب یہ ہے
کہ اس قسم کے تمام وقائع کو لاعلمی محمول کرنا ہمارے نزدیک صحیح نہیں۔ جب ’’کُل‘‘ اور ’’ما‘‘ وغیرہ الفاظ عموم قرآن و حدیث وارد ہو چکے اور ان میں کسی قسم کی تخصیص شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے نہیں ہوئی تو ہمیں کیا حق حاصل ہے کہ ان واقعات کو اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کی لاعلمی پر محمول کریں۔ کیا یہ جائز نہیں کہ حضور ﷺ کے علم کے باوجود اللہ تعالیٰ کسی حکمت و مصلحت کی بنا پر کسی امر خاص کی طرف حضور کی توجہ ہٹا دے یا کوئی خاص بات حضور ﷺ سے بھلا دے۔

کسی حکمت کی بنا پر (خواہ اسے ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں) حضور ﷺ پر ذہول و نسیان کا طاری ہونا ہمارے نزدیک جائز ہے۔ یہ شان اللہ تعالیٰ ہی کی ہے کہ ذہول و نسیان و عدم توجہ وغیرہ سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم اور رسول اللہ ﷺ کے علم میں ایک یہ فرق بھی ہے کہ علم الٰہی میں کسی قسم کا تغیر جائز نہیں اور حضور کے علم میں زیادتی، ذہول و نسیان جائز ہے۔

حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہار کی طرف سے حضور کے ذہول میں یہ حکمت تھی کہ صحابہ جن کے پاس اس سفر میں پانی نہ تھا اور اس وقت تک تیمم کا حکم بھی نہ آیا تھا، ہار کی گمشدگی کے باعث بے وضو نماز پڑھنے کے مرحلہ تک پہنچ جائیں اور ان کے لئے مجبوری کی وہ حالت پیدا ہو جائے جو تیمم جائز ہونے کی شرط ہے اور پھر اللہ تعالیٰ تیمم کا حکم نازل فرمائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اگر یہ واقعہ ظہور پذیر نہ ہوتا تو اس کے ساتھ جن احکام شرعیہ کا تعلق تھا وہ کیسے مرتب ہوتے؟

ستر قاریوں کی شہادت جو ان کے حق میں عظیم الشان کمال تھا کیونکر ظاہر ہوتا، اگر اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کی توجہ ان کے واقعہ شہادت سے نہ ہٹا دیتا؟

حضور سید عالم ﷺ پر اگر ذہول طاری نہ ہوتا تو زہر کے اثر سے شہادت کا جو کمال حاصل ہوا وہ اسبابِ ظاہری میں کیسے حاصل ہوتا؟

ہمارے اس بیان سے آپ کے سوال پر بھی روشنی پڑ گئی کہ حضور ﷺ کو ہر چیز کا علم ہر وقت ہے یا نہیں؟ ہر چیز سے مراد تو وہی جمیع مخلوقات از ابتدا تا دخول جنت و نار ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، غیر متناہی اشیاء ہرگز مراد نہیں اور ہر وقت علم ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہر چیز کی طرف توجہ بھی ہر وقت رہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ حضور ﷺ پر ذہول و نسیان جائز ہے اور یہ امر بالکل محتاجِ بیان نہیں کہ ذہول و نسیان علم کے منافی نہیں بلکہ یہ امور مثبت علم ہیں کیونکہ جو چیز معلوم ہی ہو اس کی طرف سے توجہ کا ہٹنا یا اسے بھولنا متصور ہی نہیں۔

رہا یہ امر کہ عدم توجہ اور نسیان کے بعد لاعلمی ہو گی لہٰذا حضور ﷺ کے لئے عدم علم ثابت ہو گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کی طرف توجہ نہ رہنا یا اس کا بھول جانا لاعلمی کو مستلزم نہیں۔ اگر ایسا ہو تو ایک دفعہ بھولی ہوئی چیز کبھی یاد ہی نہ آئے لیکن بے شمار بھولی ہوئی باتیں یاد آ جاتی ہیں۔ اگر بھول کی وجہ سے علم زائل ہو جاتا تو وہ بات کبھی یاد نہ آتی۔ اسی طرح ایک امر معلوم کی طرف سے توجہ ہٹنے کے بعد جب اس کی جانب توجہ مبذول ہوتی ہے تو وہ امر معلوم اجنبی نہیں معلوم ہوتا بلکہ اس کی حیثیت معلومیہ وہی ہوتی ہے جو پہلے تھی۔ یہ بھی بقائے علم کی دلیل ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ برے علم جیسے جادو وغیرہ حضور ﷺ کے لائق نہیں مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ علم فی نفسہٖ مذموم نہیں۔ البتہ اس میں عمل کی طرف سے برائی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر علوم فی نفسہٖ برے ہوں تو اللہ تعالیٰ ہر چیز کا عالم ہے۔ نعوذ باللہ اس کی ذات پاک کی طرف برائی منسوب ہو گی۔

یہاں ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ حضور کا علم غیب وحی کے ذریعہ تھا جو بات جبریل علیہ السلام نے بتا دی وہ حضور کو معلوم ہو گئی۔ اس علم کو غیب کیونکر کہا جائے گا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک حضور ﷺ کا علم وحی الٰہی اور تعلیم ایزدی کے ذریعہ حاصل ہوا لیکن وحی الٰہی کو صرف جبریل علیہ السلام کے پیغام میں منحصر سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں۔ وحی الٰہی حضور کو خواب میں بھی ہوتی تھی۔ حدیث پاک میں وارد ہے

رویا الانبیاء وحی
’’انبیاء علیہم السلام کی خواب وحی ہے‘‘

وحی القاء کے ساتھ بھی ہوتی تھی۔ یعنی قلب اطہر میں کسی بات کا ڈال دینا اور حقیقت یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام قرآن کریم ضرور لائے لیکن علم قرآن حضرت جبریل کے واسطہ کا محتاج نہیں۔ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مواہب اللدنیہ شریف جلد ثانی ص ۲۹ پر ایک طویل حدیث نقل فرمائی جس میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
وعلمنی القراٰن فکان جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام یذکرنی بہ
’’اللہ تعالیٰ نے (شب معراج) مجھے تمام قرآن مجید تعلیم فرمایا تو جبریل علیہ السلام مجھے وہ قرآن یاد دلاتے تھے۔‘‘
یہ بات قرآن و حدیث کی روشنی میں بالکل غلط ہے کہ جبریل علیہ السلام نے جو بات حضور کو بتا دی معلوم ہو گئی، ورنہ نہیں۔

دیکھئے بخاری شریف، مسلم شریف، مسند امام احمد وغیرہ کتب احادیث میں باسانید متعددہ یہ حدیث مروی ہے کہ
انی لا راکم من خلفی کما راٰکم من بین یدی
’’میں تمہیں اپنے پیچھے سے اسی طرح دیکھتا ہوں جیسے اپنے آگے سے دیکھتا ہوں۔‘‘

اور محدثین نے تخصیص کو رد فرما کر عموم کو ترجیح دی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو جو نورِ نبوت عطا فرمایا ہے اس کے ذریعے علم کا حاصل ہونا یہ بھی تو تعلیم ایزدی میں شامل ہے جس کے ادراک کا ذکر حدیث سابق میں آپ نے پڑھا۔ نیز شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر عزیزی جلد اول ص ۵۱۸ پر ’’وَیَکُوْن الرَّسُوْل عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں

یعنی وباشد رسول شما بر شما گواہ۔ زیرا کہ او مطلع است بنور نبوت بر رتبہ ہر متدین بدین خود کہ در کدام درجہ از دین من رسیدہ۔ وحقیقت ایمانِ او چیست وحجابے کہ بداں از ترقی محجوب ماندہ کدام است۔ پس اومی شناسد گناہان شمار او درجات ایمانِ شمار او اعمال نیک و بد شمار او اخلاص و نفاق شمار او لہٰذا شہادت او در دنیا بحکم شرع در حق امت مقبول و واجب العمل است۔ انتہیٰ
اور زرقانی شریف جلد اول ص ۲۰ پر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ
ورابعہا ان لہ صفۃ بہا یدرک بہا ما سیکون فی الغیب
یعنی ’’نبی میں چوتھی صفت یہ ہے کہ اس کی ذات میں ایک ایسا نور (یعنی نورِ نبوت) ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان باتوں کا ادراک کرتا ہے جو غیب میں آئندہ آنے والی ہیں۔‘‘ مواہب اللدنیہ اور شفاء قاضی عیاض میں ہے
النبوۃ ہی الاطلاع علی الغیب
’’نبوت کے معنی یہ ہیں کہ غیب کا جاننا‘‘

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں کتاب عقائد تالیف حضرت شیخ ابو عبد اللہ شیرازی سے نقل فرماتے ہیں
نعتقد ان العبد ینقل فی الاحوال حتٰی یصیر الی نعت الروحانیۃ فیعلم الغیب
’’ہم اعتقاد کرتے ہیں کہ بندہ ترقی مقامات پا کر روحانی صفت تک پہنچتا ہے اس وقت وہ غیب جانتا ہے۔‘‘

ملا علی قاری علیہ الرحمۃ شرح فقہ اکبر میں حضرت ابو سلیمان دارانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل فرماتے ہیں
الفراسۃ مکاشفۃ النفس ومعاینۃ الغیب
’’فراست نفس کے مکاشفہ اور غیب کے معائنہ کو کہتے ہیں۔‘‘

الیواقیت والجواہر میں امام شعرانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
للمجتہدین القدم الراسخ فی علوم الغیب
’’مجتہدین کے لئے علوم غیبیہ میں مضبوط قدم ہے۔‘‘

ان عبارات سے ایک تو یہ امر واضح ہو گیا کہ جو لوگ حضور ﷺ کو حصول علوم میں جبریل علیہ السلام کا محتاج بتاتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ حضور ﷺ کے جمیع علوم بعطائے الٰہی ہیں اور عطائے الٰہی جبریل علیہ السلام کے واسطہ میں منحصر نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کا نورِ نبوت بھی عطیہ الٰہیہ ہے جس کے ذریعہ حضور تمام امور غیبیہ کا مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ نیز حضور ﷺ کے اس نورِ نبوت کا فیض ایسا عام ہے کہ اولیاء امت بھی اس فیض سے بہرہ اندوز ہیں۔

دوسری یہ بات ثابت ہوئی کہ جو لوگ حضور ﷺ کے علوم پر لفظ غیب کا اطلاق ناجائز سمجھتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں۔
دیکھئے عبارت مذکورہ بالا میں حضور سید عالم ﷺ بلکہ حضور کے غلاموں پر بھی علم غیب کا اطلاق موجود ہے اور میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی جبکہ دیوبندیوں کی عبارات میں اس اطلاق کے ناجائز ہونے کا حکم دیکھتا ہوں۔ حالانکہ مولوی اشرف علی صاحب تغییر العنوان کے ص ۱۸ پر لکھتے ہیں کہ حضور کے علوم غیبیہ جزئیہ کمالاتِ نبوت میں داخل ہیں اس کا انکار کون کرتا ہے؟ اس عبارت میں حضور سید عالم ﷺ کے علم کو علوم غیبیہ کہہ کر مولوی اشرف علی تھانوی نے تصریح کر دی کہ حضور کے علم کو علم غیب کہنا جائز ہے۔

وما علینا الا البلاغ

علم غیب مصطفیٰ ﷺ قرآنی آیات و تفاسیر کی روشنی میں

1۔ تم فرمادو کہ تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہو کہ میں آپ غیب جان لیتا ہوں ۔
اس آیت کی چار توجہیں مفسرین نے کی ہیں اولا تو یہ کہ علم غیب ذاتی کی نفی ہے ۔ دوم یہ کہ کل علم کی نفی ہے۔ تیسرے یہ کہ کلام تواضع انکسار کے طور پر بیان فرمادیا گیا ہے ۔چہارم یہ کہ آیت کے معنٰی یہ ہیں میں دعوے نہیں کرتا کہ میں غیب جانتا ہوں یعنی دعوٰی علم غیب کی نفی ہے نہ کہ علم غیب کی، ملاحظہ ہوں تفاسیر۔
تفسیر نیشاپوری میں اس آیت کے ماتحت ہے ۔
یحتمل ان یکون ولا اعلم الغیب عطفا علی لا اقول لکم ای قل لا اعلم الغیب فیکون فیہ دلالۃ ان الغیب بالاستقلال لا یعلمہ الا اللہ۔
“اس آیت میں یہ احتمال بھی ہے کہ لااعلم کا عطف لا اقول پر ہو یعنی اے محبوب فرمادو کہ میں غیب نہیں جانتا تو اس میں دلالت اس پر ہو گہ کہ غیب بالاستقلال یعنی ذاتی سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔‘
تفسیر بیضاوی یہ ہی آیت۔
لا اعلم الغیب مالم یوح الی اولم ینتصب علیہ دلیل ۔
“ میں غیب نہیں جانتا جب تک اسکی مجھ پر وحی نہ کی جاوے یا کوئی دلیل اس پر قائم نہ ہو۔“
یا اس سے مراد کل علم نفی ہے۔
تفسیر کبیر میں اسی آیت کے ماتحت ہے۔
قالہ لا اعلم الغیب یدل علی اعترافہ بانہ غیر عالم بکل المعلومات۔
“ یہ فرمان کہ میں غیب نہیں جانتا حضور علیہ السلام کے اس اقرار پر دلالت کرتا ہے کہ آپ سارے معلومات نہیں جانتے۔“
یا یہ کلام بطور تواضع و انکسار فرمایا گیا۔
تفسیر خازن میں اسی آیت کے ماتحت ہے۔
وانما نفی عن نفسہ الشریفۃ ھذہ الاشیاء تواصنعا تعالٰی و اعترافا للعبودیۃ فلست اقوال شیئا من ذالک ولا ادعیہ۔
“حضور علیہ السلام نے ان چیزونکی اپنی ذات کریمہ سے نفی فرمائئی رب کے لئے عاجزی کرتے ہوئے اور اپنی بندگی کا اقرار فرماتے ہوئے یعنی میں اسمیں سے کچھ نہیں جانتا اور کسی چیز کا دعوٰی نہیں کرتا۔“
تفسیر عرائس البیان میں ہے ۔
وتواضع حین اقام نفسہ مقام الانسانیۃ بعد ان کان اشرف خلق اللہ من العرش الی الثریی و اطھر من الکز وبیین الزوحانییین خضوعا لجبروتہ و خشوعا لمکوتہ۔
“ حضور علیہ السلام نے انکسار فرمایا اپنی ذات کو انسانیت کہ جگہ میں رکھا ورنہ آپ از عرش تا فرش ساری مخلوق میں اشرف ہیں اور ملائکہ اور روحانین سے زیادہ ستھرے ہیں ۔ حق تعالٰی کی شان جباری کے سمانے عاجزی کے طور پر اسکی سطوت کے سامنے پستی کے اظہار کے طریقے پر یہ فرمایا ۔ یہ دعوٰی علم غیب کی نفی ہے کہ میں علم غیب کا دعوٰی نہیں کرتا۔“
تفسیر نیشا پوری میں ہے۔
ای لا ادعی القدرۃ علی کل المقدورات والعلم بکل المعلومات۔
“ یعنی میں تمام مقدورات پر قدرت رکھنے اور تمام معلومات کت جاننے کا دعوٰی نہیں کرتا۔“
تفسیر کبیر یہ ہی آیت۔
ای لا ادعی کونی موصوفا بعلم اللہ و بمجموع ھذین الکلامین حصل انہ لا یدعی الالھیۃ۔
“ یعنی میں اللہ کے علم سے متصف ہونیکا دعوٰی نہیں کرتا اور ان دونوں باتوں کے مجموعہ کا مطلب یہ ہے کہ حضور علیہ السلام خدا ہونیکا دعوٰی نہیں کرتا۔“ روح البیان یہ ہی آیت ۔
عطف علی عندی خزائن اللہ ولا مذکرۃ للنفی ای ولا ادعی انی ولکن لا اقول لکم فمن قال ان نبی اللہ لا یعلم الغیب فقد اخطافیما اصاب ۔
اس کا عطف عندی خزائن اللہ پر ہے اور لا زائدۃ ہے نفی کا یاد دلانے والا یعنی میں یہ دعوٰی نہین کرتا کہ خدا کے افعال میں غیب جانتا ہوں اس بناء پر کہ خزائن اللہ میرے پاس تو ہیں مگر میں یہ کہتا نہیں ۔ تو جو شخص یہ کہے کہ نبی اللہ غیب نہیں جانتے تھے اس نے غلطی کی اس آیت میں جس میں یہ مصیب تھا۔
تفسیر مدارک یہ ہی آیت۔
ومحل لا اعلم الغیب النصب عطفا علی محل عندی خزائن اللہ لانہ من جملۃ المقول کانہ قال لا اقول لکم ھذا القول ولا ھذا القول ولا اعلم الغیب ۔
“ ولا اعلم الغیب اعراب زبر ہے۔ عندی خزائن اللہ کے محل پر عطف کی وجہ سے کیونکہ یہ بھی کہی ہوئی بات میں سے ہے گویا آپ نے یوں فرمایا کہ میں تم سے نہ یہ کہتا ہوں اور نہ یہ۔“
تفسیر نیشاپوری
ای قل لا اعلم الغیب فیکون فیہ دلالۃ علی ان الغیب باستقلال لا یعلم الا اللہ ۔
نکتہ : اس آیت میں لا اقول دو جگہ ہے پہلے لا اقول کے بعد دو چیزوں کا ذکر ہے کہ میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ غیب جانتا ہوں ۔ دوسرے لا اقول کے بعد صرف ایک چیز کا ذکر ہے میں نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں۔اس لئے کہ پہلے دو میں تو دعوٰی کی نفی ہے اور مدعٰی کا ثبوت اور دوسرے قول میں دعوٰی اور مدعٰی دونوں کی نفی ہے یعنی میرے پاس اللہ کے خزانے بھی ہیں اور میں غیب بھی جانتا ہوں ۔ مگر ان کا دعوی اور مدعٰی دونوں کی نفی ہے یعنی میرے پاس اللہ کے خزانے بھی ہیں اور میں غیب بھی جانتا ہوں۔ مگر ان کا دعوٰی نہیں کرتا ۔
حدیث پاک میں ہے ۔
اوتیت مفاتیح خزائن الارض ( مشکوۃ باب فضائل سید المرسلین) یعنی “ مجھ کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی “
اور علم غیب کی احادیث ہم پیش کر چکے ہیں ۔ اور نہ میں واقع میں فرشتہ ہوں اور نہ اس کا دعوٰی کرتا ہوں ۔ اگر یہ نکتہ نہیں ۔ تو ایک ہی جگہ لا اقول کافی تھا ۔ دوجگہ کیوں لایا گیا اگر ہماری بیان کی ہوئی توجیہیں نہ کی جاویں تو یہ آیت مخالفین کے بھی خلاف ہے کیونکہ بعض علم غیب تو وہ بھی مانتے ہیں ۔ اور یہ آیت بالکل نفی کر رہی ہے ۔ نیز یہاں لکم میں کفار سے خطاب ہے یعنی اے کافروں میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس خزانے ہیں تم تو چور ہو۔ چوروں کو خزانے نہیں بتائے جاتے۔ تم شیطان کی طرح اسرار کی چوری نہ کرلو ۔ رب تعالٰی نے بھی شیطان کو آسمان پر جانے سے اسی لئے روکا کہ وہ چور ہے۔ یہ تو صدیق سے کہا جاویگا کہ مجھے خزائن الہیہ کی کنجیاں سپرد ہوئیں یہاں عندی فرماکر بتایا کہ خزانہ میرے پاس نہیں میری ملک میں ہیں کیونکہ خزانہ خزانچی کے پاس اور مالک کی ملک میں ہوتا ہے۔میں خزانچی نہیں کیا نہ دیکھا کہ ان کے اشارے پر بادل برسا ۔ ان کی انگلیوں سے چشمے جاری ہوئے۔
2۔ ولو کنت اعلم الغیب لا ستثرت من الخیر ۔ ( پارہ 9 سورہ 7 آیت 188)
“ اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی۔“
اس آیت کے بھی مفسرین نے تین مطلب بتائے ہیں ۔ ایک یہ کہ حضور علیہ السلام کا یہ کلام بطور انکسار کے ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس میں تمام معلومات الہیہ جاننے کی نفی کرنا مقصود ہے ۔ تیسرے یہ کہ علم غیب ذاتی کی نفی ہے ۔
نسیم الریاض میں اسی آیت کے ما تحت ہے۔
قولہ ولوکنت اعلم فان المنقی علمہ من غیر واسطۃ واما اطلاعہ علیہ السلام باعلام اللہ تعالٰی فامر متحق بقولہ تعالٰٰی فلا یظھر علٰی غیبیہ احدا الا من ارتضٰی من رسول۔
“ علم غیب کا ماننا اس آیت کے منافی نہیں کہ “ ولو کنت اعلم الغیب الخ“ کیونکہ نفی علم بغیر واسطہ کی ہے لیکن حضور علیہ السلام کا غٰب پر مطلع ہونا اللہ کے بتانے سے واقع ہے رب تعالٰٰی کے اس فرمان کی وجہ سے
فلا یظھر علٰی غیبیہ الخ کل معلومات الہیہ جاننے کی نفی ہے۔
شرح مواقف میں میر سید شریف فرماتے ہیں۔
الا اطلاع علٰٰ جمیع المغیبات لایحبب للنبی ولذا قال علیہ السلام لو کنت اعلم الغیب ( الایۃ) وجمیع مغیبات غیر متناھیۃ۔
صاوی حاشیہ جلالین میں ہے یہ ہی آیت۔
ان قلت ان ھذا یشکل مع ما تقدم من انہ اطلع علٰی جمیع مغیبات الدنیا والاخرۃ فالجواب انہ قال ذالک تواصنعا۔
تمام غیبیوں پر مطلع ہونا نبی کے لئے ذروری نہیں اسی لئے حضور علیہ السلام نے فرمایا “ ولو کنت اعلم الغیب“ الآیتہ تمام غیب غیر متناہی ہیں۔ ( یہ کلام انکسار کے طور پر ہے اگر تم کہو کہ یہ آیت گذشتہ کلام کے خلاف ہے۔ کہ حضور علیہ السلام کو تمام دینی و دنیاوی غیبوں پر مطلع کر دیا گیا تو جواب یہ ہے کہ یہ کلام “ لا اعلم الغیب“ بطور انکسار فرمایا گیا ہے۔
تفسیر خازن میں جمیل حاشیہ جلال سے اسی آیت کے ما تحت نقل کیا۔
فان قلت قد اخبر النبی علیہ السلام عن المغیبات قد جاءت احادیث فی الصحیح بذلک وھو من اعظم معجزاتہ فکیف الجمع بینہ قولہ لو کنت اعلم الغیب قلت یحتمل ان یکون فانہ تواصنعا وادبا والمعنی لا اعلم الغیب الا ان یطلعنی اللہ علیہ و یقدرہ لی و یحتمل ان یکون قال ذلک قبل ان طللعہ اللہ علی الغیب فلما اطلعہ اللہ اخبربہ۔
“ پس اگر تم کہو کہ حضور علیہ السلام نے بہت سے غیبیوں کی خبر دی ہے اور اس کے متعلق بہت سی احادیث صحیحہ وارد ہیں۔ اور علم غیب تو حضور علیہ السلام کا بڑا معجزہ ہے تو ان باتوں میں اور اس آیت میں “ لو کنت اعلم الغیب“ میں مطابقت کس طرح ہوگی تو میں یہ کہوں گا کہ یہاں احتمال یہ ہے کہ کلام انکسار کا طریقہ پر فرمایا ہو اور اس کے معنٰی یہ ہیں کہ میں غیب نہیں جانتا بغیر خدا کے بتائے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ کلام غیب پر مطلع ہونے سے پہلے کا ہو ۔ جب اللہ تعالٰی نے حضور علیہ السلام کو غیب پر مطلع فرمادیا تو خبریں دیں۔
علامہ سلیمان جمل نے فتوحات الہیہ حاشیہ جلالین جلد دوم صفحہ 258 میں اسی کے مثل فرمایا ۔
ای قل لا اعلم الغیب فیکون فیہ دلالۃ علی ان الغیب باستقلال لا یعلم الا اللہ۔
“ یعنی فرمادو کہ میں غیب نہیں جانتا الخ پس آیت میں اس پر دلالت ہے کہ غیب بالاستقلال یعنی ذآتی خدا کے سائے کوئی نہیں جانتا “۔
تفسیر صاوی یہ ہی آیت
او ان علمہ بالمغیب کلاعلم من حیث انہ لا قدرۃ لہ علی تحبیر ما قدر اللہ فیکون المعنے حینئذ لا کان علم حقیقی بان اقدر علی ماارید وقوعہ لا ستثرت من الخیر۔
“ حضور علیہ السلام کا علم غیب جاننا نہ جاننے کی طرح ہے ۔ کیونکہ آپ کو اس چیز کے بدلنے پر قدرت نہیں جو اللہ تعالٰی نے مقدر فرمادیں۔ تو معنی یہ ہوئے کہ اگر مجھ کو علم حقیقی ہوتا اس طرح کہ میں اپنی مراد کے واقع کرنے پر قادر ہوتا تو خیر بہت سی جمع کر لیتا۔“
یہ توجیح نہایت ہی نفیس ہے کیونکہ آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی خیر جمع کرلیتا اور مجھ کو تکلیف نہ پہنچتی اور صرف کسی چیز کا جاننا خیر جمع کرنے اور مصیبت سے بچنے کے لئے کافی نہیں جب تک کہ خیر کے حاصل کرنے اور مصیبت سے بچنے پر مستقل قدرت نہ ہو ۔ مجھ کو علم ہے کہ بڑھاپا آویگا اور اس کے بعد مجھ کو یہ تکالیف پہنچیں گی ۔ مگر بڑھاپے کے دفع کرنے پر قدرت نہیں۔ مجھے آج خبر ہے کہ غلہ چند روز کے بعد گراں ہو جاوے گا ۔ کہ میرے پاس آج روپیہ نہیں کہ بہت سا غلہ خرید لوں خرید نہیں سکتا۔ معلوم ہوا کہ خیر حاصل کرنا مصیبت سے بچنا علم اور قدرت دونوں پر موقوف ہے اور یہاں قدرت کا ذکر نہیں ۔ تو علم غیب سے وہ علم مراد ہے جو قدرت حقیقی کے ستاھ ہو یعنی علم ذاتی جو لازم الوہیت ہے جس کے ساتھ قدرت حقیقی لازم ہے ورنہ آیت کے معنٰی نہیں درست ہوتے۔ کیونکہ مقدم اور تالی میں لزوم نہیں رہتا اور اس کے بغیر قیاس درست نہیں ہوتا۔
نیز دیوبندی تو اس آیت کے یہ معنٰی کرتے ہیں اگر میں غیب جانتا تو بہت خیر جمع کر لیتا اور مجھے کوئی مصیبت نہ مہنچتی۔ مگر چونکہ نہ میرے پاس خیر اور نہ میں مصیبت سے بچا لہذا غیب نہیں جانتا۔
ہم یہ ترجمہ کر سکتے ہیں کہ غور کر لو اگر میرے پاس خیر ہو اور میں مصیبت سے بچوں تو سمجھ لو کہ مجھے علم غیب بھی ہے میرے پاس بہت خیر تو ہے“ من یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا“ نیز “ انا اعطینک الکوثر “ نیز “ یعلمھم الکتب و الحکمۃ “ اور میں مصیبت سے بھی محفوظ کہ رب تعالٰی نے فرمایا “ واللہ یعصمک منا الناس“ لہذا مجھے علم غیب بھی ہے۔ یہ آیت تو علم غیب کے ثنوت میں ہے نہ کہ انکار میں ۔
روح البیان یہ ہی آیت۔
وقد ذھب بعض المشائح الی ان النبی علیہ السلام کان یعرف وقت الساعۃ باعلام اللہ وھولا ینافی الحصر فی الایۃ کما لا یخفٰے۔
“ بعض مشائخ اس طرف گئے ہیں کہ نبی علیہ السلام قیامت کا وقت بھی جانتے ہیں اللہ کے بتانے سے اور ان کا یہ کلام اس آیت کے حق کے خلاف نہیں ۔ جیسا کہ مخفی نہیں۔“
3۔ وعندنا مفاتیح الغیب لایعلمھا الا ھو ( پارہ 7 سورہ 6 آیت 59)
“ اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی ان کو وہ ہی جانتا ہے۔“
مفسرین نے فرمایا ہے کہ “ مفاتیح الغیب“ ( غیب کی کنجیوں ) سے پراد یا تو غیب کے خزانے ہیں ۔ یعنی سارے معلمات الہیہ کا جاننا یا اس سے مراد ہے کہ غیب کو حاضر کرنے یعنی چیزوں کے پیدا کرنے پر قادر ہونا ۔ کیونکہ کجنی کا کام یہ ہی ہوتا ہے کہ اس سے قفل کھولا جائے اور اندر کی چیز باہر اور باہر کی چیز اندر کر دی جائے اسی طرح حاضر کو غائب اور غائب کو حاضر کرنا یعنی پیدا کرنے اور موت دینے کی قدرے پروردگار ہی کو ہے۔
تفسیر کبیر یہ ہی آیت ۔
فکذلک ھھنا لما کان عالما بجمیع المعلومات عبر ھذا المعنی بالعبارۃ المذکورۃ وعلی التقدیر الثانی المراد منہ القدرۃ علی کل الممکنات۔
“ جبکہ پروردگار تمام معلومات کا جاننے والا ہے تو اس مطلب کو اس عبارت سے بیان کیا اور دوسری صورت پر مراد اس سے سارے ممکنات پر قادر ہونا ہے۔“
تفسیر روح البیان میں اسی آیت کے ماتحت ہے۔
وقلم تصویر ھا الذی ھو مفتاح یفتح بہ باب علم تکوینھا علی صورتھا و کونھا ھو الملکوت فبقلم ملکوت کل شئی یکون کل شئی و قلم الملکوت بیداللہ لان الغیب ھو علم التکوین ۔
“ ان چیزوں کے نقش باندھنے کا قلم جو ایسی کجنی ہے جس سے ان چیزوں کا پیدائش کا دروازہ کھولا جاتا ہے ( انکی مناسب صورتوں پر) وہ ہی ملکوتہے، پس ہر چیز کے ملکوت کے قلم سےہر چیز کی ہستی ہوتی ہے اور ملکوت کا قلم اللہ کے ہاتھ میں ہے اسلئے کہ غیب سے مراد پیدا کرنیکا جاننا ہے۔“
تفسیر خازن میں اسی آیت کا ماتحت ہے۔
لان اللہ تعالٰی لما کان عالما بجمیع المعلومات عبر ھذا المعنٰی بھذا العبادۃ و علی التفسیر الثانی یکون المعنٰی وعندہ خزائن الغیب و المراد منہ القدرۃ الکاملۃ علٰی کل الممکنات۔
“ کیونکہ رب تعالٰی جب تمام معلومات کا جاننے والا تو اس کے معنٰی کو اس عبارت سے بیان کیا اور دوسراتفسیر پر اسکے معنٰے یہ ہونگے کہ اس کے نزدیک غیب کے خزانے ہیں اور اس سے مراد ہے ہر ممکن چیز پر قدرت کاملہ۔“
یا اس سے مراد ہے کہ غیب کی کنجیاں بغیر تعلیم الہی کوئی نہیں جانتا۔
تفسیر عرائس البیان میں ہے۔
قال الحریری لا یعلمھا الا ھو و من یطلعہ علیھا من خلیل و حییب ای لا یعلمھا الاولون و الاکرون قبل اظھارہ تعالٰی ذلک لھم۔
“ حریری نے فرمایا کہ ان کنجیوں کو سوائے اللہ تعالٰی کے اور سوائے ان محبوبوب کے جب کو اللہ خبردار کرے کوئی نہیں جانتا یعنی ان کو اگلے پچھلے اللہ کے ظاہر فرمانے سے پہلے نہیں جانتے۔“
تفسیر عنایت القاضی یہ ہی آیت۔
وجہ اختصا صھا بہ تعالٰی انہ لا یعلمھا کما ھی ابتداء الا ھو۔
“ ان غیب کی کنجیوں کے خدا تعالٰی کے ساتھ خاص ہونیکی وجہ یہ ہے کہ جیسی وہ ہیں اسطرح ابتداء خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔“
اس آیت کے اگر وہ مطلب نہ بیان کئے جاویں جو ہم نے بتائے تو یہ مخالفین کے بھی خلاف ہے کیونکہ بعض علم غیب وہ بھی مانتے ہیں۔ اور اس میں علم غیب کی بالکل نفی ہے۔
نکتہ : بعض صاحبوں نے مجھ سے فرمایا کہ اعلٰی حضرت قدس سرہ نے اس جگہ ایک نکتہ لکھا ہے وہ یہ کہ اس آیت میں ہے ۔“ عند مفاتح الغیب“ دوسری میں ہے ۔ “ لہ مقالید السموٰت والارض“ متاتح اور مقالید دونوں کے معنے ہیں کنجیاں اور اگر مفاتح کا اول و آخر یعنی م،ح، لو اور مقالید کا اول و آخر حرف یعنی م، دلو تو بنتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس سے سمجھ میں آتا ہے کہ ذات رسول اللہ ظہور عالم کا کنجی ہے۔
“ لا یعلمھا الا ھو“ میں اس طرف اشارہ ہے کہ حضور علیہ السلام جیسے ہیں ویسا کوئی نہیں جانتا۔ حقیقت محمد یہ کو رب ہی جانے “ مفاتح“ جمع اس لئے بولا کہ آپ کی ہر ادا رحمت الہی کی کنجی ہے آپ کا نور عالم کی کنجی “ کل الخلق من نوری “ قیامت میں آپ کا سجدہ شفاعت کی کنجی ہے جنت میں آپ کا نام ہر نعمت کی کنجی اور جنت میں آپ کا جانا سب کے لئے جنت کے کھلنے کی کنجی ہے۔ دیکھو ہماری کتاب شان حبیب الرحمٰن۔
نکتہ: اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ رب تعالٰی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں اب یہ سوال ہے کہ کنجی سے کسی کے لئے دروازہ غیب کھولا بھی گیا یا نہیں۔؟ یا کسی کو کوئی کجنی دی گئی نہیں؟ اس جواب قرآن و حدیث سے پوچھو قرآن فرماتا ہے۔ “ انافتحنا لک فتحا مبینا“ ہم نے آپ کے لئے ظاہر پر کھول دیا۔ کیا کھول دیا؟ اس کی نفیس توجھیں ہماری کتاب شان حبیب الرحمٰن من آیات القرآن میں دیکھو۔ قفل اور کجنی میں وہ ہی چیز رکھی جاتی ہے۔ جو کھول کر نکالنی ہو اور جسے نکالنا ہو۔ وہ زمین میں دفن کر دی جاتی ہے۔ پتہ لگا کہ غیب کسی کو دینا تھا اس لئے کجنی بھی بھیجی۔
حدیث میں ہے۔
“ اوتیت مفاتیح خزائن الارض“
مجھ کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو کنجی دی بھی گئی آپ کے لئے فتح یاب بھی ہوا۔
4۔ قل لا یعلم من فی المسموت والارض لغیب الا اللہ۔ ( پارہ 20 سورہ 27 آیت 65)
“ تم فرماؤ خود غیب نہیں جانتے وہ آسمانوں اور زمین میں ہیں مگر اللہ۔“
اس آیت کے بھی مفسرین نے دو مطلب بیان فرمائے غیب ذاتی کوئی نہیں جانتا۔ کلی غیب کوئی نہیں جانتا۔
تفسیر المودج جلیل میں اسی آیت کے ما تحت ہے۔
معناہ یعلم الغیب بلا دلیل الا او بلاتعلیم او جمیع الغیب۔
“ اس آیت کے معنٰے یہ ہیں کہ بغیر دلیل یا بغیر بتائے یا سارے غیب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔“
تفسیر مدارک یہ ہی آٰیت۔
والغیب مالم یقم علیہ دلیل ولا اطلع علیہ مخلوق۔
“غیب وہ ہے جس پر کوئی دلیل نہ ہو اور کسی مخلوق کو اس پر مطلع نہ کیا گیا ہو ۔“
مدارک کی اس توجیہ سے معلوم ہوا کہ ان کی اصلاح میں جو علم عطائی ہو وہ غیب نہیں کیا جاتا غیب صرف ذاتی کو کہتے ہیں۔ ان کوئی اشکال ہی نہیں رہا۔ جن آیات میں غیب کی نفی ہے وہ علم ذاتی کی ہے ، اس آیت کے کچھ آگے ہے۔
مامن غائب فی الارض ولا فی السمائ الا فی کتٰب مبین ہ
جس سے معلوم ہوا کہ ہر غیب لوح محفوظ یا قرآن میں محفعظ ہے۔
فتاوٰی امام نووی
ما معنٰی قول اللہ لا یعلم من فی السمٰوٰت واشباہ ذلک مع انہ قد علم ما فی غدو الجواب معناہ لا یعلم ذلک استقلالا واما المعجزات والکرامات فحصلت باعلام اللہ لا اسقلالا ۔
آیت “ لا یعلم من فی السمٰوٰت“ وغیرہ کے کیا معنٰی ہیں۔ حالانکہ حضور علیہ السلام آئندہ کی باتیں جانتے ہیں جو اب اس کے معنٰے یہ ہیں کہ غیب کو مستقل طور پر (ذاتی) کوئی نہیں جانتا لیکن معجزات اور کرامات پس یہ رب کے بتانے سے حاصل ہوئے نہ کہ بالاستقلال۔
امام ابن حجر مکی فتاوٰی حدیثیہ میں فرماتے ہیں۔
ما ذکر فی الایٰت صرح بہ النووی فی فتاواہ فقال لا یعلم ذلک اسقلالا وعلم احاطۃ بکل المعلومات۔
شرح شفاء خفاجی میں ہے۔
ھذا لا ینافی الاٰیٰت الدالۃ علٰی انہ یعلم الغیب الا اللہ فان النقی علما من غیر واسطۃ اما اطلاعہ علیہ باعلام اللہ فامر متحقق۔
ہم نے اس آیت کے بارے میں جو کچھ کہا اسکی امام نووی نے اپنے فتاوٰی تصریح کی ہے انہوں نے کہا کہ غیب مستقل طور پو سارے معلومات الہیہ کو کوئی نہیں جانتا یہ کلام ان آیات کے خلاف نہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غیب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا کیونکہ نفی بے واسطہ علم کی ہے ۔ لیکن اللہ کی تعلیم سے جاننا یہ ثابت ہے۔
اگر اس آیت کے یہ مطلب نا مانے جاویں تو مخالفین کے بھی خلاف ہے کیونکہ وہ بھی بعض غیبوں کا علم حضور علیہ السلام کا مانتے ہیں۔ اور اس میں بالکل نفی ہے ۔ نیز زنہوں نے شیطان و ملک الموت کو علم غیب مانا ہے دیکھو براہیں قاطعہ صفحہ5 پھر اس آیت کا کیا مطلب بتائیں گے قرآن کریم میں ہے “ ان الحکم الا اللہ“ حکم خدا کے سوا کسی کا نہیں۔“ لہ ما فی السموٰت وما فی الارض“ خدا کی ہی وہ تمام چیزیں ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں ۔“ وکفٰی باللہ شھیدا“ اللہ کافی گواہ ہے۔ “ وکفٰی باللہ وکیلا“ اللہ کافی وکیل ہے۔ “ وکفٰٰی باللہ حسیبا“ اللہ کافی حساب لینے والا ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ حکومت، ملکیت، گواہی، وکالے، حساب لینا سب اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہیں ۔ اب بادشاہ کو حاکم ، ہر شخص کو اپنی چیزوں کا مالک، مشرکین کو وکیل محاسب اور عام لوگوں کو مقدمات کا گواہ مانا جاتاہے۔ کیوں؟ صرف اس لئے کہ ان آیات میں حکومت ملکیت وغیرہ سے حقیقی اور ذاتی مراد ہے اور دوسروں کے لئے یہ اوصاف بہ عطائے الہی مانے گئے اسی طرح آیات غیب میں توجیہ کرنا لازم ہے کہ حقیقی کی غیر سے نفی ہے اور عطائی کا ثبوت۔
5۔ وما علمنا الشعر وما ینبغی لہ ان ھو الا ذکر و قرآن مبین ہ ( پارہ 23 سورہ یٰس آیت 69)
“ اور ہم نے اس کو شعر کہنا نہ سکھایا اور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن قرآن۔“
مفسرین نے اس آیت کے تین مطلب بتائے ہیں اولا یہ کہ علم کے چند معنٰی ہیں۔ جاننا بلکہ ( مشق و تجربہ وغیرہ) اس جگہ علم کے دوسرے معنٰی مراد ہیں ۔ یعنی ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شعر گوئی کا ملکہ نہ دیا نہ یہ کہ ان کو اچھا برا صحیح غلط شعر مہچاننے کا شعور نہ دیا۔ دوسرے یہ کہ شعر کے دو معنٰی ہیں ایک تو وزن و قافیہ والا کلام ( غزل) دوسرے جھوٹی اور وہمی ہم نے ان کو جھوٹی اور وہمی باتیں نہ سکھائیں وہ جا کچھ فرماتے ہیں حق ہے۔ تیسرے یہ کہ شعر سے مراد اس جگہ اجمالی کلام ہے۔ یعنی ہم نے ان کو ہر چیز کی تفصیل بتائی ہے نہ کی معمے اور جمالی باتیں “ وتفصیلا لکل شئی علم“ بمعنی ملکہ قرآن کریم فرماتا ہے۔“ وعلمنہ صنعۃ لبوس لکم“ اور ہم نے ان کو تمھارا ایک پہناوا بنانا سکھایا۔
وہلمی نے حضرت جابر سے روایت کیا۔
“ علموا بینکم الرمی“
یعنی اپنی اولاد کو تیر اندازی سکھاؤ۔
والاصخ انہ کان لا یحسنہ ولکن کان یمیز جید الشعر وردیہ۔
“ زیادہ صحیح یہ ہے کہ آپ شعر بخوبی پڑھتے نہ تھے لیکن اچھے اور ردی شعر میں فرق فرمالیتے تھے۔“
روح البیان یہ ہی آٰیت۔
انا المحرم علیہ انما ھو انشاء الشعر۔
آپ کے لئے شعر بنانا منع تھا۔ شعر کے معنٰی ہیں جھوٹا کلام کفار مکہ کہا کرتے تھے کہ قرآن کریم شعر ہے اور حضور علیہ السلام شاعر ہیں ۔ “ بل ھو شاعر“ اس شعر سے مراد تھی جھوٹا کلام تو ان کے اس بکواس کی تروید اسی آیت نے کردی کیونکہ فرمایا گیا۔ “ ان ھو الا ذکر و قرآن مبین“ وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن قرآن یہاں اگر شعر سے مراد منظوم کلا ہو تو اس عبارت سے آیت کا کیا تعلق ہو گا۔
مدارک یہ ہی آیت
ای ما علمنا النبی علیہ السلام قول الشعر اوما علناہ بتعلیم القراٰن الشعر علٰی معنٰی ان القراٰن لیس بشعر ۔
“یعنی ہم نے نبی علیہ السلام کو شعر کہنا نہ سکھایا یا ہم نے ان کو قرآن کی تعلیم سے شعر نہ سکھایا۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم شعر نہیں۔“
خازن یہ ہی آیت
ولما نفٰی ان یکون القراٰن من جنس الشعر قال اللہ تعالٰی ان ھو الا ذکر و قراٰن مبین ہ
“ جبکہ اس کی تردید فرمادی کہ قرآن کریم شعر کی جنس سے ہو تو رب تعالٰی نے فرمادیا کہ نہیں ہے وہ مگر نصیحت اور روشن کتاب۔“
قیل ان کفار قریش قالوا ان محمدا شاعر وما یقولہ شعر فانزل اللہ تکذیبا لھم وما علمناہ الشعر۔
“ کہا گیا کہ کفار قریش نے کہا تھا کہ حضور علیہ السلام شاعر ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں (قرآن) وہ شعر ہے اس کی تکذیب کے لئے رب تعالٰی نے یہ آیے اتاری۔‘
تنبیہ :
اس جگہ مخالفین یہ سوال کرتے ہیں کہ روایات میں آیا ہے کہ نبی علیہ السلام کی زبان پاک شعر کے موافق نہ تھی یعنی آپ کوئی شعر پرھتے تو شعر بگڑ جاتا۔
دیکھو اسی خازن میں ہے۔
ای ما یسھل لہ ذلک وما یصلح منہ بحیث لو ارادا= نظم شعر لم یتات لذلک “ مدارک“ ای جعلناہ بحیث لو اراد قرءۃ شعر لم یتسھل۔
“ یعنی آپ کو شعر پرھنا اسان نہ تھا اور آپ سے درست نہ ادا ہوتا تھا اگر کسی شعر کو نظم فرمانیکا ارادہ فرماتے تو نہ ہو سکتا تھا یعنی ہم نے آپ کو اس طرح کیا ہے کہ آپ شعر پڑھنے کا ارادہ فرمادیں تو آسان نہ ہو۔“
تفسیر کبیر ۔
وما یتسھل لہ حتٰی انہ ان تمثل لہ بیت شعر سمع منہ مزاحقا۔
“ آپ کو شعر آسان نہیں ۔ یہاں تک کہ اگر کسی کو ادا فرمانے کا ارادہ فرمادیں تو آپ سے ٹوٹا سنا جاتا ہے۔“
اس کا جواب یہ ہے کہ شعر کا علم اور ہے اور شعر کا پڑھنا اور بڑے بڑے شعر اور علماء گا کر پڑھ نہیں سکتے بہت سے نعت خواں اور قوال علم شعر نہیں رکھتے مگر شعر پڑھنے پر پورے قادر ہوتے ہیں۔ آپ روٹی پکانا جانتے نہیں مگر اچھی بری ، موٹی باریک خوب جان لیتے ہیں۔
آپ کی ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو شعر پڑھنے کا ملکہ اور مشق نہ تھی ۔ نہ کہ شعر کی پہچان تھی۔ یہ ہی ہم نے کہا تھا ۔ حضور علیہ السلام کو بعض شعر پسند تھے اور بعض نا پسند۔
کان اھب الحدیث علیہ السلام الشعر وایضا کان ابغض الحدیث الیہ علیہ السلام الشعر ۔
“ حضور علیہ السلام کو شعر بہت پسند بھی تھا اور نہایت نا پسند بھی۔“
نیز احادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے بعج شعراء کے شعر پڑھے ہین اور ان کی تعریف فرمائی جیسے کہ “ لا کل شئی ما خلا اللہ باطلا “ اگر اچھے برے شعر کی پہچان نہین تو یہ تعریف فرمانا کیا؟ شعر سے مراد اجھمالی یعنی غیر مفصل کلام اور معمے ہیں۔
روح البیان میں اسی آیت کے ماتحت ہے۔
قال الشیخ الاکبر اعلم ان الشعر محل للاجمال واللغز و التوریۃ ای ما رمزنا محمدا علیہ السلام شئیا ولا الغزنا ولا خطبناہ بشئی و نحن نرید شیئا ولا جعلناہ لہ الخطاب حیث لم یفھم ۔
“ جاننا چاھئیے کہ شعر اجمالی اور پھسلنے اور اشاروں کا مقام ہے یعنی ہم نے حضور علیہ السلام کے لئے کسی چیز کے اشارے نہ کئے اور نہ یہ کیا کہ ہم نے ارادہ کچھ فرمائیں اور خطاب کچھ کریں اور ان سے اسطرح اجمالی کلام نہ فرمایا کہ سمجھ میں نہ آوے۔‘
6۔ منھم من قصصنا علیک و منھم من لم نقصص علیک۔ ( پارہ 24 سورہ 40 آیت 78)
“ ان نبیوں میں سے کسی کا احوال تم سے بیان فرمایا اور کسی کا احوال نہ بیان فرمایا۔“
اس آیت کی تفسیر میں چند توجھیں فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں تمام انبیاء کے حالات کا علم دینے کی نفی نہیں ۔ بلکہ قرآن کریم میں صراحۃ ذکر کی نفی ہے ۔ یعنی بعض انبیاء کے واقعات صراحۃ بیان نہ فرمائے ۔ دوسرے یہ کہ ذکر تفصیلی کی نفی ہے ۔ اور اجمالی ذکر سب کا فرمایا گیا ۔ تیسرے یہ کہ وحی ظاہر میں سب کا بیان نہ ہوا۔ وحی خفی میں سب کا ذکر فرمایا گیا۔
تفسیر صاوی میں اسی آیت کے ما تحت ہے۔
ان النبی علیہ السلام لم یخرج من الدنیا حتٰی علم جمیع الانبیاء تفصیلا کیف لا وھم مخلقون منہ و خلفھم لیلۃ الاسرآء فی بیت المقدس ولکنہ العلم المکنون وانما ترک بیان قصصھم لامتہ رحمۃ بھم فلم یکلفھم الا بما کانوا یطیقون ۔
“حضور علیہ السلام دنیا سے تشریف نہ لے گئے یہاں تک کہ تمام انبیاء کو تفصیلا جان لیا۔ کیونکر نہ جانیں وہ سب پیغمبر آپ ہی سے پیدا ہوئے اور شب معراج بیت المقدس میں آپ کے مقتدی بنے لیکن یہ علم مکنون ہے اور ان پیغمبروں کے قصے چھوڑ دئیے امت کے لئے ان پر رحمت فرماتے ہوئے پس انکو طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔“ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد اول صفحہ 50 میں ہے۔
ھذا لا ینافی قولہ تعالٰے منھم من لم تفصص علیک لان امنفی ھو التفصیل والثابت ھو الاجمال او النفی مقید بالوحی الجلی والثبوت متحقق بالوحی الخفی۔
یہ کلام اس آیت کے خلاف نہیں لپ “ منھم من لم نقصص علیک“ کیونکہ نفی تو علم تفصیلی کی ہے اور ثبوت علم اجمالی کا ہے یا نفی وحی ظاہر (قرآن) کی ہے۔ اور ثبوت وحی خفی ( حدیث) کا ہے۔
قرآن فرماتا ہے :
کلا نقص علیک من انباۃ الرسل ما نثبت بہ فؤادک۔
“ اور سب کچھ ہم تم کو رسولوں کی خبریں سناتے ہیں جس سے تمھارا دل ٹھرائیں۔“
7۔ یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ماذا اجبتم قالوالا علم لنا انک انت علام الغیوب۔ (پارہ 7 سورہ 5 آیت 105)
“ جس دن اللہ جمع فرمادیگا رسولوں کو ۔ پھر فرما دیگا کہ تم کو کیا جواب ملا۔ عرض کرینگے میں کچھ علم نہیں بے شک تو ہی غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔“
مفسرین نے اس آیت کریمہ کہ دو توجھیں فرمائی ہیں اولا یہ کہ خدایا تیرے علم کے مقابلے میں ہم کو علم نہیں ۔ دوسرے یہ کہ ادبا یہ عرض کیا گیا ۔ تیسرے یہ کہ قیامت میں جس وقت نفسی نفسی فرمانے کا وقت ہو گا اس وقت انبیاء کرام یہ فرمائیں گے ۔ بعد میں عرض کریں گے ہم نے اپنی قوم کو تبلیغ احکام کی مگر انہوں نے نہیں مانا۔ وہ کفار کہیں گے ہم کو احکام نہ پہنچے ۔ جس پر امت مصطفٰی علیہ السلام انبیائے کرام کی گواہی دے گی۔
تفسیر خازن میں اسی آیت کے ماتحت ہے۔
فعلی ھزا القول انما نفو العلم عن نفسھم وان کانوا علماء لان علمھم صار کلا علم عند علم اللہ۔
“ پس اس قول کی بناء پر پیغمبروں نے اپنی ذات سے علم کی نفی کی اگرچہ وہ جانتے تھے کیونکہ علم اللہ کے علم کے سامنے مثل نہ ہونے کے ہو گیا۔“
مدارک:
قالوا ذلک تاذبا ای علمنا ساقط مع علمک فکانہ لا علم لنا۔
“ ان انبیاء نے عرض کیا ادبا یعنی ہمارا علم تیرے علم کے ساتھ ساقط ہے پس گویا ہم کو علم ہی نہیں۔“
تفسیر کبیر یہ ہی آیت۔
ان السل علیھم السلام لما علموا ان اللہ عالم لا یجھل حلیم لا یسفہ عادل لا یظلم علموا ان فوقھم لا یفید خیرا ولا یدفع شرا فالادب فی السکوت و تفویض الامر الٰی اللہ و عدلہ فقالوا لا علم لنا۔ بیضاوی یہ ہی آٰیت۔ وقیل العنٰے لا علم لنا الٰی جنب علمک۔
“ (خازن) انبیاء کرام نے جب جان لیا کہ اللہ عالم ہے بے علم نہیں۔ حلیم ہے سفیہ نہیں۔ انصاف والا ہے ظالم نہیں۔ وہ سمجھ گئے کہا ن کی بات نہ تو بھلائی کا فائدہ دے گی اور نہ مصیبت کو دفع کرے گی۔ پس ادب خاموشی میں ہے اور معاملہ کو عدل کیطرف سپرد کردینے میں لہذا انہوں نے عرض کر دیا کہ ہم کو علم نہین کہا گیا ہے کہ آٰت کے معنٰی یہ ہیں کہ ہم کو تیرے علم کے مقابل علم نہیں۔“
روح البیان یہ ہی آیت:
ان ھذا الجواب یکون فی بعض مواطن القیٰمۃ وترجع عقولھم الیھم فیشھدون علٰی قومھم انھم بلغوا الرسالہ وان قومھم کیف رذو علیھم۔
“ یہ جواب قیامت کے بعض موقعوں پر ہو گا ۔ اور اس کے بعد حواس قائم ہوں گے تو اپنی قوم پر گواہی دیں گے کہ ہم نے رسالت کی تبلیغ فرمادی اور ہماری قوم نے کیا جواب دیا۔ ( ملخصا)
8۔ وما ادری ما یفعل بی ولا بکم۔
“اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جاویگا اور تمہارے ساتھ کیا۔“
اس سے مخالفین دلیل پکڑتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کو نہ تو اپنی خبر تھی۔ نہ کسی اور کی کہ قیامت میں ہم سے کیا معاملہ کیا جاویگا۔ لیکن اس کی تفسیر میں مفسرین کے دو قول ہیں۔ اولا یہ کہ اس روایت میں روائیت کی نفی ہے نہ کہ علم کی۔ ورائت اٹکل اور قیاس سے جاننے کو کہتے ہیں۔ یعنی میں بغیر وحی اپنے قیاس سے یہ امور نہیں جانتا۔ وحی سے جانتا ہوں۔ دوسرے یہ کہ یہ آیت حضور علیہ السلام کو یہ باتیں بتانے سے پہلے کہ ہے۔ لہذا یہ منسوخ ہے۔
تفسیر صاوی میں ہے یہ ہی آیت۔
ماخرج علیہ السلام من الدنیا حتٰی علمہ اللہ فی القراٰن ما یعمل بہ و بالمومنین فی الدنیا و الاٰخرۃ اجمالا و تفصیلا۔
“ کہ ان سے مومنین سے اور کافروں سے دنیا اور آخفت میں کیا کیا جاوےگا ۔ کہ ان سے اور مومنین سے اور کافروں سے دنیا اور آخرت میں کیا کیا جاوےگا۔“
ملا عند الرحمان محمد و مشقی رسالہ ناسخ و منسوخ میں فرماتے ہیں۔
وما ادری ما یفعل بی ولا بکم نسخ بقولہ انا فتحنا لک ۔۔۔ آیت ۔۔۔۔ ما ادری ۔۔۔۔ منسوخ ہے۔ انا فتحنالک سے۔
تفسیر خازن میں اسی آٰیت کے ما تحت ہے۔
لما نزلت ھذہ الاٰیۃ فرح المشرکون فقالوا واللات والعزٰی ما امرنا وامر محمد الا واحد او مالہ علینا من مزیۃ و فضل لو لا انہ ما ابتدع ما یقولہ لا خبرہ الذی بعثہ بما یفعل بہ فانزل اللہ عزوجل لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک ( الاٰ یۃ) فقالت الصحابۃ ھنیئا لک یا نبی اللہ قد علمت ما یفعل بک فماذا یفعل بنا فانزل اللہ لیدخل المؤمنین والمؤمنات جنت ( الاٰیۃ) وانزل وبشر المؤمنین بان لھم من اللہ فضلا کبیرا وھذا قول انس وقتادۃ و عکرمۃ قالوا انما ھذا قبل ان یخبر بغفران ذنبہ وانما اخبر بغفران ذنبہ عالم الحدیبیۃ فنسخ ذلک۔
“جب یہ آٰیت نازل ہوئی تو مشرک خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ لات و عزٰی کی قسم ہمارا اور حضور علیہ السلام کا تو یکساں حال ہے انکو ہم پر کوئی زیادتی اور بزرگی نہیں اگر وہ قرآن کو اپنی طرف سے گھڑ کر نہ کہتے ہوتے تو ان کو بہیجنے والا خدا انہیں بتا دیتا کہ ان سے کیا معاملہ کریگا تو رب نے یہ آیت اتاری “ لیغفرلک اللہ ما تقدم“ پس صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کو مبارک ہو آپ نے تو جان لیا جو آپ کے ستاھ ہو گا ہم سے کیا معاملہ کیا جاویگا تو یہ آیت اتری کہ داخل فرمائیگا اللہ مسلمان مرد اور عورتوں کو جنتوں میں ( آلاٰیۃ) اور یہ آیت اتری کہ مسلمانوں کو خوشخبریدیجیئے کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے یہ حضرت انس اور قتادہ و عکرمہ کا قول ہے۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت سے پہلے کی ہے جبکہ حضور علیہ السلام کو ان کی مغفرت کی خبر دی گئی مغفرت کی خبر آپکو حدیبیہ کے ساک دی گئی تو یہ آیت منسوخ ہو گئی۔“
اگر کوئی کہے کہ آیت “لاادری“ خبر ہے اور منسوخ نہیں ہو سکتی تو اس کے چند جواب ہیں ایک یہ کے بہت سے علماء تسخ خبر جائز کہتے ہیں۔ جیسے۔۔ “ وان تبدوا“ ( الآیۃ) لا یکلف نفسا سے منسوخ ہے ایسے ہی لا ادری کو ابن عباس و انس و ابن مالک رضی اللہ عمھم نے انا فتحنا لک سے منسوخ مانا ( تفسیر کبیر در منثور ابو السعود) دوسرے یہ کہ یہاں گویا فرمایا گیا۔ قل لا ادری اور قل امر ہے ۔ تسخ کا تعلق اسی سے ہے ۔ تیسرے یہ کہ بعض آیات صورت میں خبر اور معنٰی میں حکم ہیں۔ جیسے کتب علیکم الصیام باللہ علٰی الناس حج البیت وغیرہ ان جیسی خبروں کا نسخ جائز ہے چوتھے یہ کہ اعتراض ہم پر نہیں بلکہ ان تفاسیر اور احادیث پر ہے جس سے نسخ ثانت ہے۔
اگر اس آیت کے مذکورہ بالا مطلب نہ بہان کئے ھاویں تو صدہا احادیث کی مخالفت ہوگی حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ قیامت کے دن “ لواء الحمد“ ہمارے ہاتھ میں ہوگا آدم و آدمیان ہمارے جھنڈے کے نیچے ہونگے۔ شفاعت کبرٰی ہم فرمائیں گے ۔ ہمارا حوض ایسا ہوگا ۔ اس کے برتن اس طرح ہونگے وغیرہ وغیرہ ابو بکر جنتی ہیں۔ حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔ فاطمہ زہرا خواتین جنت کی سردار ہیں۔ کسی کو فرمایا تو جھنمی ہے۔ ایک آدمی بہت اچھا جہاد کر رہا ہے صحابہ کرام نے اس کی تعریف کی فرمایا کہ وہ جہنمی ہے ۔ آخرکار اس نے خودکشی کی۔ اگر معاذ اللہ حضور علیہ السلام کو اپنی بھی خبر نہ ہوتو اپنی اور دیگر حضرات کی خبریں کس طرح سنا رہے ہیں وہ تو جس کے ایمان کی رجسٹری فرمادیں۔ وہ کامل مؤمن ہے۔ اس جگہ بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مگر اختصارا اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ، خدا درست سمجھ عطا فرمادے آمین۔
9۔ لا نعلمھم نحن تعلمھم ( پارہ 11 سورہ 9 آیت 101)
“ تم انکو نہیں جانتے ہم انکو جانتے ہیں۔“
اس آیت سے مخالفین دلیل پکڑتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دربار میں آنے والے منافقوں کو نہ پہچانتے تھے پھر علم غیب کیسا ؟ مگر مفسرین نے اس آیت کی توجہیہ کی ہے کہ اس آیت کے بعد یہ آیت نازل ہوئی “ ولتعرفھمفنھم فی لحن القول“ اور ضرور تم ان کو بات کے طریقے سے پہچان لوگے لہذا یہ آیت منسوخ ہے یا تو یہ توجہیہ ہے کہ بغیر ھمارے بتائے انکو نہیں پہچانتے۔
جمل میں اسی آیت کے ما تحت ہے ۔
فان قلت کیف نفی عنہ علم بحال النافقین واثبتہ فی قولہ تعالٰٰی و لتعرفھم فی لحن القول فالجواب ان اٰیۃ النفی نزلت قبل اٰیۃ الاثبات۔
اسی جمل میں زیر آیت۔
“ ولتعرفھم فی لحن القول“ ہے فکان بعد ذلک لا یتکلم منافق عند النبی علیہ السلام الا عرفیہ ویستدل علٰٰی فساباطنہ و نفاقہ۔
اگر تم کہو کہ حضور علیہ السلام کے منافقین کا حال جاننے کی نفی کیوں کی گئی حالانکہ آیت “ ولتعرفھم فی لحن القول“ میں اس کے جاننے کا ثبوت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفی کی آیت کا ثبوت کی آٰیت سے پہلے اتری ہے اس آیت کے بعد کوئی بھی منافق حضور علیہ السلام کی حرفت میں کلام نہ کرتا تھا۔ مگر حضور علیہ السلام ان کو پہچان لیتے تھے اور اس کے فساد باطن اور نفاق پر دلیل پکڑتے تھے۔
تفسیر بیضاوی یہ ہی آیت۔
خفی علیک حالھم مع کمال فطنتک وصدق فراستک۔
“ آپ پر ان کا حال باوجود آپ کی کمال سمجھ اور سچی پردم شناسی کے مخفی رہ گیا۔“
اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں اندازہ سے پتہ لگا لینے کی نفی ہے۔ اگر اس آیت کی یہ توجہیہں نہ کی جاویں تو ان احادیث کی مخالفت ہوگی جن سے ثابت ہے کہ حضور علیہ السلام منافقوں کو پہچانتے تھے ۔ مگر پردہ پوشی سے کام لیتے تھے۔
عینی شرح بخاری جلد صفحہ 221 میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
خطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یوم الجمعۃ فقال اخرج یا فلان فانک منافق فاخرج منھم ناسا ففضحھ۔
“ حضور علیہ السلام نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھا۔ پس فرمایا کہ اے فلاں نکل جا کیونکہ تو منافق ہے ان میں سے بہت سے آدمیوں کو رسوا کر کے نکال دیا۔“
شرح شفا ملا علی قاری جلد اول صفحہ 241 میں فرماتے ہیں۔
عن ابن عباس کان امنفقون من الرجال ثلثۃ مائۃ ومن النساء مائۃ و سبعین۔
“ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ منافقین مرد تین سو تھے اور عورتیں ایک سو ستر۔“
ہم اثبات علم غیب میں ایک حدیث پیچ کر چکے ہیں ۔ جس میں حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم پر ہماری امت پیچ کی گئی۔ لہذا ہم نے منافقوں اور کفار اور مومنین کو پہچان لیا۔ اس پر منافقین نے اعتراج کیا اور قرآن کی آیت ان کے جواب کے لئے آئی۔ ان سب دلائل میں مطابقت کرنے کے لئے یہ توجہیہ کرنا ضروری ہے۔ نیز یہ کلام اظہار غضب کے لئے ہوتا ہے اگر بچہ باپ کو مارنے لگے اور کوئی باپ سے بچائے تو وہ کہتا ہے کہ اس خبیث کو تم نہیں جانتے میں جانتا ہوں ۔ اس سے علم کی نفی نہیں۔

10۔ رب تعالٰی فرماتا ہے ۔
“ ولا تصل علٰی احد منھم مات ابدا“
حضور علیہ السلام نے عبد اللہ ابن ابی منافق کی نماز جنازہ یا تو پڑھ لی یا پڑھنا چاہی فاروق اعظم نے منع کیا ۔ مگر ان کی عرض نہ سنی تب یہ آیت اتری ۔ جس میں آپ کو منافقین کی نماز جنازہ سے روکا گیا۔ اگر علم غیب تھا تو منافق کا جنازہ کیوں پڑھا ؟
جواب:
اس منافق کا حضرت عباس پس کچھ احسان تھا اور اسکا فرزند مخلص مومن تھا اور خود اس منافق نے اصیت کی تھی کہ میرا جنازہ حضور پڑھائیں ۔ اس وقت اس کی ممانعت نہ تھی۔ لہذا دینی مصلحت سے اجازت پر عمل کیافرمایا ۔ تفسیر کبیر و روح البیان نے فرمایا کہ اس کی وصیت علامت توبہ تھی اور شریعت کا حکم ظاہر پر ہے ۔ جس پر حضور علیہ السلام نے عمل فرمایا ۔ رب کو منظور نہ تھا کہ حبیب کا دشمن ظاہری عزت بی پاوے لہذا قرآن کریم نے حضرت فاروق کی تائید فرمادی غرضیکہ اس مسئلہ کو علم غیب سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس کا منافق ظاہر ہونا تھا۔ مگر اس کی نماز میں بہت سی مصلحتیں تھیں کریم کا کرم غیر اختیاری ہوتا ہے۔ اور پھر کیسے ہو سکتا ہے کہپ فاروق اعظم کو پتہ لگ جائے مگر حضور کو پتہ نہ لگے۔
11۔ ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا۔ ( پارہ 15 سورہ 17 آیت 85)
“ اور تم سے روح کو پوچھتے ہیں۔ تم فرماؤ کہ روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور تم کو علم نہ ملا مگر تھوڑا۔“
مخالفین اس آیت سے دلیل لاتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کو روح کا علم نہ تھا کہ روح کیا چیز ہے لہذا آپ کو علم غیب کلی نہ ہوا اس میں تین امور قابل غور ہیں۔ اولا یہ کہ اس آیت میں یہ کہاں ہے کہ ہم حضور علیہ السلام کو یہ علم نہ دیا۔ یا حضور علیہ السلام نے کہاں فرمایا کہ مجھے روح کا علم نہیں ملا۔ لہذا اس آیت کو نفی علم روح کی دلیل بنانا محض غلط ہے۔ اس میں تو پوچھنے والے کافروں سے فرمایا گیا کہ تم کو علم بہت تھوڑا سا دیا گیا ہے کہ تم کو روح کی حقیقت کا علم نہیں دوسرے یہ کہ “ قل الروح من امر ربی“ کے معنٰی حضرت قبلہ عالم پہر علی شاہ صاحب فاضل گولڑوی علیہ الرحمتہ نے سیف چشتیائی میں حضرت محی الدین ابن عربی سے یہ نقل فرمایا کہ “ قل الروح من امر ربی“ فرمادو کہ روح امر ربی سے ہے ۔ یعنی عالم بہت سے ہیں عالم عناصر ، عالم امر ، عالم امکان وغیرہ تو روح عالم امر کی چیز ہے اور تم لوگ عالم عناصر کے تم اس کی حقیقت کو نہیں جان سکتے کیونکہ اے کافرو تم کو تھوڑا علم دیا گیاہے۔
روح البیان میں زیر آیت
“ لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار“ ہے۔ لانہ تجاوز فی تلک اللیلۃ عن عالم العناصر ثم عن عالم الطبعیۃ ثم عن عالم الارواح حتٰی وصل الٰی عالم الامر و عین الراس من عالم الاجسام فانسلخ عن الکل وراٰی ربہ بالکل۔
حضور علیہ السلام معراج کی رات عالم عناصر سے آگے بڑھے پھر عالم طبیعت سے پھر عالم ارواح سے یہاں تک کہ عالم امر تک جا پہنچے اور سر کی آنکھ سے عالم اجسام سے ہے پس آپ کی ان تمام چیزوں سے علیحدہ ہو گئے اور رب تعالٰٰ کو کل ذات سے دیکھا۔“
اس سے معلوم ہوا کہ شب معراج میں حضور علیہ السلام نے عالم امر کی سیر ہی نہیں بلکہ خود بھی عالم امر میں سے بن گئے ۔ اور اپنے رب کو دیکھا۔ اور اسی عالم امر کی روح بھی ہے۔ پھر آپ پر روح کیونکر مخفی رہ سکتی۔ جس طرح ہم کو جسموں کو جانتے پہچانتے عیسٰی علیہ السلام آدھے بشر اور آدھے روح تھے کیونکہ حضرت مریم تو بشر تھیں اور حضرت جبریل روح “ فارسلنا الیھا روحنا“ ہم نے حضرت مریم کے پاس اپنی روح یعنی جبریل بھیجا ۔ اور آپ کی پیدائش حضرت جبریل کی پھونک سے ہوئی۔ اس لئے دونوں امور آپ میں موجود ہیں۔
فتوحات کلیہ باب 575 میں شیخ اکبر فرماتے ہیں۔
فکان نصفہ بشرا و نصفہ الاٰخر روحا مطھرا ملکا لان جبریل وھبہ لمریم۔
“ حضرت مسیح نصف بشر اور نصف دوم پاک روح ہیں۔ کیونکہ جبریل نے حضرت مریم کو انہیں بخشا۔“
اور ان کی پیدائش بھی حضور علیہ السلام کے نور سے ہے ۔ تو گویا حضور علیہ السلام از سر تا پا روح ہیں۔
روح البیان نے اسی آیت “ لا تدرک“ کے ماتحت لکھا ہے۔
الحقیقت المحمدیۃ ھی حقیقۃ الحقائق وھو الموجود العام الشامل۔
“ حقیقت محمدیہ تمام حقیقتوں کی حقیقت ہے اور وہ ہی وجوہ عام ہے۔“
لہذا آیت کے معنٰی یہ ہوئے کہ روح وہ جو امر یعنی کن سے بلاواطہ پیدا ہوا۔ اور وہ حقیقت محمدیہ ہے ۔ کہ بلا واسطہ ان کی پیدائش ان کے نور سے ہے مطلب یہ ہوا کہ عالم کی روح حقیقی میں ہوں۔ تفسیر کبیر نے اس جگہ فرمایا کہ یہاں روح سے قرآن یا جبریل مراد ہیں۔ کفار نے سوال کیا تھا کہ قرآن کیا ہے شعر ہے یا کہانت؟ جبریل کون ہیں؟ اور کیسے آتے ہیں؟ جواب دیا گیا کہ قرآن امر الہٰی ہے نہ شعر ہے نہ جادو ۔ جبیل امر الہٰی سے آتے ہیں۔
“وما یتنزل الا بامر ربک “ اسی کبیر میں ہے۔ “ فاذا کان معرفت اللہ تعالٰی ممکنۃ بل حاصلۃ فای مانع یمنع من معرفۃ الروح“ جب حضور علیہ السلام خدا کو پہچانیں تو روح کو کیوں نہ پہچانیں۔“
تیسرے یہ کہ مفسرین و محدثین نے تصریح فرمائی کہ حضور علیہ السلام کو روح کا علم تھا۔
تفسیر خازن نے اسی آٰیت کے ما تحت لکھا۔
قیل ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم معنٰی الروح لکن لم یخبربہ لان ترک الاخبار کان علما لنبؤتہ والقول الاصخ ان اللہ استاثر بعلم الروح۔
“ کہا گہا ہے کہ نبی علیہ السلام کو حقیقت روح معلوم تھی لیکن اسکی خبر نہ دی کیونکہ یہ خبر دینا آپکی نبوت کی علامت اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالٰی علم روح سے خاص ہے ۔ اس عبارت میں علم روح ماننے والوں کو مشرک نہ کہا گیا اور نہ ان کے قول کو غلط بتایا۔“
تفسیر روح البیان اسی آٰیت کی تفسیر میں ہے۔
جل منصب حبیب اللہ ان یکون جاھلا بالروح مع انہ عالم باللہ وقد من اللہ علیہ بقولہ و علمک مالم تمن تعلم۔
“ حضور علیہ السلام کی شان اس سے بلند ہے کہ آپ روح سے نا واقف ہوں حالنکہ آپ اللہ سے واقف ہیں رب نے آپ پر احسان جتایا کہ فرمایا جو کچھ آپ نہ جانتے تھے وہ آپ کو بتا دیا۔“
تفسیر مدارک یہ ہی آیت۔
وقیل کان السوال عن خلق الروح یعنی مخلوق ام لا لقولہ من امر ربی دلیل خلق قلروح فکان جوابا۔
“ کہا گیا ہے کہ سوال روح کی پیدائش سے متعلق تھا کہ روح مخلوق بھی ہے یا نہیں اور رب کا فرمان “ من امر ربی“ روح کے مخلوق ہونے کی دلیل ہے لہذا یہ جواب ہو گیا۔‘
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں روح کا علم نہ ہونے سے بحث ہی نہیں ہو رہی ہے یہاں تو ذکر مخلوقیت روح کا ہے۔
مدارج النبوت جلد دوم صفحہ 40 وصل ایذا رسانی کفار فقراء صحابہ میں شیخ فرماتے ہیں۔
چہ کونہ جرات کند مومن عارف کی نفی علم بحقیقت روح از سید المرسلین و امام العارفین کند و داوہ است اور اھق سبحانہ ، علم ذات و صفات خود فتح کردہ برائے او فتح مبین از علوم اولین و آخرین روح انسانی چہ باشد کہ در جنب جامعیت وے قطرہ ایست از در یا وذرہ ایست از بیدا۔
احیاء العلوم میں امام غزالی فرماتے ہیں ۔
ولا تطن ان ذلک لم یکن مکشوفا لرسول اللہ علیہ السلام فان من لمیعرف نفسہ فکیف یعرف اللہ سبحنہ فلا ان یکون ذلک مکشوفا لبعض الاولیاء و العلماء۔
“ مومن عارف یہ ہمت کس طرح کر سکتا ہے کہ حضور علیہ السلام سے حقیقت روح کے علم کی نفی کرے حالانکہ رب نے انکو اپنی ذات و صفات کا علم دیا ہے اور ان پر علوم اولین و آخرین کھول دئے حضور علیہ السلام کے علم کے مقابل روح انسانی کی کیا حقیقت ہے وہ تو اس دریا کا ایک قطرہ اور جنگل کا ایک ذرہ ہے۔ تم یہ گما نہ کرنا کہ روح حضور علیہ السلام کو نہ تھی۔ کیونکہ جو آپ کو نہ پہچانے گا ۔ وہ اللہ کو کس طرح پہچان سکتا ہے یہ بھی بعید نہیں کہ روح بعض اولیا و علماء کو ظاہر ہو۔
ان عبارات سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو علم روح عطا ہوا بلکہ حضور کے صدقے سے بعض علماء و اولیاء کو بھی ملا۔ بعض لوگوں نے اس کا انکار بھی کیا۔ مگر وہ بلا دلیل ہے ۔ بغیر ثبوت و نفی کے دلائل ہوں تو ثبوت کو اختیار کرنا چاہیئے جیسا کہ ہم قاعدہ اصول کا بیان کر چکے ہیں۔
12۔ عفا اللہ عنک لما اذنت لھم۔
غزوہ تبوک میں بعض منافقین نے غلط بہانہ کر کے شرکت نہ کی۔ حضور علیہ السلام کو ان کی حیلہ سازی کا پتہ لگا اور انہیں جہاد میں نہ جانے کی اجازت دے دی اس آیت میں آپ پر عتاب فرمایا گیا کیوں کہ اجازت دے دی۔ اگر آپ کو علم غیب ہوتا۔ تو اصل حال آپ پر ظاہر ہوتا۔
جواب:- نہ اس آیت میں آپ پر عتاب ہے اور نہ حضور علیہ السلام ان کے فریب سے بے خبر ہیں۔ بلکہ حضور علیہ السلام نے انکی پردہ پوشی فرماتے ہوئے اجازت دی ۔ رب نے فرمایا کہ اے مجرموں کے پردہ پوش! آپ نے ان کو رسوا کیوں نہ کیا ؟ عتاب غلطی پر ہوتا ہے یہاں غلطی کون سی تھی؟ “ عفا اللہ“ کلمہ دعائیہ ہے نہ کے عتاب۔

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...