Wednesday, 26 November 2014

علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانا امام احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نقطہ نظر
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
 
تصور علم ایک اہم فلسفیانہ تصور ہے جو کسی بھی صاحب فکر کے تصورات کے فہم کے لئے ضروری ہے ، مولانا احمد رضا خاں بریلوی علم کی ضرورت و اہمیت سے واقف تھے ، ان کی اپنی زندگی بچپن سے بڑھاپے تک حصول علم اور اشاعت علم کا نمونہ تھی ۔
علم کی تعریف :
مولانا احمد رضا خاں بریلوی علم کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں : علم وہ نور ہے جو شے اس کے دائرہ میں آگئی منکشف ہوگئی اور جس سے متلعق ہوگیا اس کی صورت ہمارے ذہن میں مرتسم ہوگئی ۔
حقیقی اور اصلی علم :
جو علم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی صورت میں عطا کیا گیا وہی حقیقی اور اصلی علم ہے فرماتے ہیں : علم وہ ہے جو مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ ہے ۔
 ایک جگہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نقل فرماتے ہیں :
 نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں علم تین ہیں‌قرآن یا حدیث یا وہ چیز جو رہِ وجوب عمل میں ان کی ہمسر ہے اس کے سوا جو کچھ ہے سب فضول ہے
 امام غزالی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ :
علم حقیقی وہی ہے جو ماسوی اللہ سے تعلق قطع کرکے اللہ سے رشتہ جوڑ‌دے اور خلوص‌نیت ہی سے حاصل ہوسکتا ہے ، غیر مخلص کا علم ، علم حقیقی نہیں ۔
ذرائع علم :
مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مندرجہ ذیل ذرائع علم ہیں ::
  1.   وحی :: مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وحی الٰہی سب سے اہم ، حتمی اور مستند ذریعہ تعلیم ہے ، اس ذریعہ میں‌کسی غلطی اور کذب کی گنجائش نہیں ہے ، انبیاءکرام کے ذریعے سے انسان کوعلم توحید دیاگیا ہے ۔
     
  2.  ۔الہام :: وحی کے بعد الہام بھی ایک اہم ذریعہ علم ہے ، وحی صرف انبیاء کوہوتی ہے ، مگر الہام غیر انبیاء کو بھی ہوتا ہے اور اس کے لئے صاحب ایمان اور صاحب تقوٰی ہونا ضروری ہے انسان کے دل میں‌کسی چیز یا کام کے بارے میں تنبیہ یا اشارہ کردیا جاتا ہے۔
     
  3.  ۔کشف :: مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کشف بھی ایک اہم ذریعہ علم ہے ، کسی آدمی پر کسی چیز کے بارے میں‌کوئی خیال اچانک بجلی کی چمک کی طرح انسان کے ذہن میں آجاتا ہے ، حقیقت حال آدمی پر ظاہر کردی جاتی ہے ۔
     
  4.  عقل :: مولانا احمد رضا خاں‌کے نزدیک عقل کا درجہ وحی سے کم ہے ، ہر عقلی استدلال اور معاملات کو قرآن و حدیث کے مطابق ہی پرکھا جاتا ہے ، دنیا کی ترقی و خوشحالی ، عالیشان عمارت اور دیگر ریل پیل عقلی کرشمہ سازوں‌کی مرہون منت ہے ، عقل کے ذریعے ہی کسی اچھائی برائی کو پرکھا جاسکتا ہے ۔
     
  5.  ۔حواس خمسہ :: ذرائع علم میں عقل کے بعد حواس خمسہ کا درجہ ہے ، یہ تقریبا ہر انسان کو حاصل ہیں ، آنکھ ، کان ، ناک ، زبان چھونے کے اعضاء حصول علم کے آلات ہیں ، حواس کے ذریعے ہی کسی اچھائی برائی کو پرکھا جاسکتا ہے ۔
     
  6.  سند :: مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سند بھی علم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے ، آپ کے نزدیک کتب بینی اور افواہ رجال سے بھی علم حاصل ہوتا ہے ، ضرب الامثال اور اقوال زریں سند میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ، افواہ رجال اور کتب بینی سے جو علم حاصل ہوتا ہے یہ وہ باتیں ہوتی ہیں جو کسی کتب کے بھی مستند ، لائق اور معتبر افراد کی کہی جاتی ہیں‌۔
حتمی و قطعی سر چشمہ علم
مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سب سے حتمی اور قطعی ذریعہ سر چشمہ علم وحی الٰہی ہے اور باقی تمام علوم اور ذرائع کی صداقت کو اسی سر چشمہ علم کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے ، ذرائع علم میں وحی ، الہام ، عقل اور حواس خمسہ کے متعلق آپ کی یہ عبارت ملاحظہ فرمائیے جس میں ان ذرائع کے مقام و مرتبہ کا صحیح علم ہوتا ہے ۔اللہ عزوجل نے بندے بنائے اور انہیں کان ، آنکھ ہاتھ پاؤں زبان وغیرہ آلات و جوارح عطافرمائے اور انہیں کام میں لانے کا طریقہ الہام کیا اور ان کے ارادے کا تابع و فرمانبردار کردیا کہ اپنے منافع حاصل کریں اور مضرتوں سے بچیں ، پھر اعلٰی درجہ کے شریف جوہر یعنی عقل سے ممتاز فرمایا جس سے تمام حیوانات پر انسان کا درجہ بڑھایا عقل کو ان امور کے ادارک کی طاقت بخشی خیر و شر ، نفع وضرر ، حواس ظاہری نہ پہچان سکتے تھے ، پھر اسے بھی فقط اپنی سمجھ پر بےکس و بےیاور نہ چھوڑا ،ہنوز لاکھوں باتیں ہیں جن کو عقل خود ادراک نہ کرسکتی تھی اور جس کا ادراک ممکن تھا ، ان میں لغزش کرنے ٹھوکریں کھانے سے پناہ کے لئے کوئی زبردست دامن یا پناہ نہ رکھتی تھی ، لہذا انبیاء بھیج کر کتب اتار کر ذراذرا سی بات کا حسن و قبح خوب جتاکر اپنی نعمت تمام و کمال فرمادی ، کسی عذر کی جگہ باقی نہ چھوڑی ۔  اس عبارت سے صاف ظاہر ہے وحی ، حقیقی اور حتمی سر چشمہ علم ہے اور دیگر ذرائع علم کو وحی کے تابع کرکے استعمال کرنے پر زور دیاگیا ہے ۔
علم کی اقسام ::
مولانا احمد رضا علیہ الرحمۃ کے نزدیک علم کے مندرجہ ذیل اقسام ہیں: الف ۔ ۔ ۔ ۔ اہمیت و ضرورت کے لحاظ سے علم کی اقسام:
  1. فرض عین
  2. فرض کفایہ
  3. مباح
  4. مکروہ
  5. حرام
1 - علم فرض عین :
فرض عین علم ایسے علم کو کہتے ہیں جس کا حاصل کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہو۔ اسلام کے بنیادی عقائد و ایمانیات سے آگاہی ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ توحید و رسالت کا اقرار اسلام کا اساسی عقیدہ ہے۔ اجزائے ایمان کے بعد ارکان اسلام اور دیگر احکام شرعیہ کی واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔
2۔ علم فرض کفایہ :
وہ علم جو معاشرے کے تمام افراد کیلئے سیکھنا ضروری نہ ہو چند افراد ہی اگر سیکھ لیں تو دوسروں پر گناہ نہیں۔ ان میں فقہ ، تفسیر، حدیث توقیت، جغرافیہ وغیرہ شامل ہیں۔
3۔  علم مباح:
ایسا علم جس کا سیکھنا ضروری نہ ہو لیکن اسلام اس کے سیکھنے کی اجازت دیتا ہو اور جس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو تو یہ ایک مباح کام ( جائز کام ) ہوگا۔ مثلاً اشعار اور تاریخ کا علم وغیرہ۔
4 ۔ مکروہ علم :
ایسا علم جو وقت کے ضیاء کا باعث ہو اور جس سے فرائض شریعت میں غفلت پیدا ہوتی ہو۔ مثلاً علم ہندسہ، ہیئیت، فلسفہ منطق وغیرہ۔
5۔ علم حرام :
وہ علوم جو اسلام کی تعلیمات سے روکتا ہو اور سراسر نقصان کا باعث ہو۔ اس سے کچھ فائدہ نہ ہو مثلاً جادو، مسمر یزم فلسفہ قدیمہ، سحر ٹونے ٹوٹے وغیرہ۔
ب۔ ۔ ۔ ۔ اقسام علم بلحاظ ملکیت :
 1۔ ۔ ۔ ۔ علم ذاتی :
 علم ذاتی کے بارے میں آپ کا ارشاد سنیئے :
 “ علم ذاتی ( وہ ہے جو ) اللہ عزوجل سے خاص ہے اس کے غیر کے لئے محال جو اس میں سے کوئی چیز اگر وہ ایک ذرہ سے کم تر سے کم تر، غیر خدا کیلئے مانے وہ یقیناً کافر و مشرک ہے۔ “
 2۔ ۔ ۔ ۔ علم عطائی :
 اللہ تعالٰی کی طرف سے جو علم اس کی مخلوق کو عطا کیا جاتا ہے وہ عطائی علم ہے، فرماتے ہیں:
 “ اجماع ہے کہ اس فضل جلیل میں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حصہ تمام انبیاء، تمام جہانوں سے اتم و اعظم ہے۔ اللہ کی عطاء سے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ ہی جانتا ہے “
 ج ۔ ۔ ۔ ۔ بلحاظ فائدہ و ضرر اقسام علم :
 1۔ ۔ ۔ ۔ علم شرعیہ :
 وہ علم جو انبیاء کرام سے مستفاد ہو اور عقل انسانی کسی رسائی وہاں تک نہ ہو سکتی ہو۔ یہ علم قرآن و سنت کی تفہیم کے لئےمدد گار ثابت ہو۔
2- - - - علم غیر شرعیہ:
 ایسا علم جس کی تحصیل و تعلم قرآن و حدیث نے حرام کر دیا ہو اور جس سے خلاف شرع امور تعلیم کئے جائیں۔
د- - - - اقسام علم بلحاظ ذریعہ علم :
2- - - - علم عقلیہ :
 وہ علم جو عقل کی مدد سے حاصل کیا جائے مثلاً منطق، فلسفہ ، طب وغیرہ
 3- - - - علم نقلیہ :
 ایسا علم جس میں عقل کو کوئی دسترس نہیں جو وحی نبوت سے منقول ہے جس کو آئندہ ہو بہو نقل کے ذریعے حاصل کیا جائے مثلاً قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ۔
ر ۔ ۔ ۔ ۔ نفع و نقصان کے لحاظ سے علم کی اقسام :
 نفع و نقصان کے لحاظ سے بھی علم کو دو صحوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
 1- - - - علم نافع :
 ایسا علم جو شریعت کے مطابق زندگی کو بہتر طور پر گزارنے کے قابل بنائے نیز جس میں فقاھت ( سمجھ بوجھ خصوصاً دینی امور کے بارے میں ) ہو۔ آپ فرماتے ہیں۔
 “ علم نافع وہ ہے جس میں فقاھت ہو “
 2- - - - علم غیر نافع :
 وہ علم جو نہ تو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے میں کام آئے اور نہ ہی اس سے دین کے بارے میں سمجھ بوجھ ہو۔
س- - - - اقسام علم بلحاظ حقیقت علم:
 1- علم مقصودہ :
 وہ علم جس کا حصول مقصد حیات ہو، قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر وغیرہ مقصودہ کے زمرے میں آتے ہیں۔
2- علم آلیہ :
 وہ علم جو علم مقصودہ کے حصول میں معاون ثابت ہو مثلاً زبان، لغت، معانی وغیرہ۔ علم آلیہ قرآن و حدیث کی تفہیم میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔
ش - - - - نظریہ و کسب کے لحاظ سے علم کی اقسام :
 1- نظری علم :
 وہ علم جس کا تعلق محض عقل، دل، دماغ اور فکر سے ہوتا ہے۔ علم العقائد، علم الاکلام وغیرہ نظری علم ہیں۔
 2- فنی علم :
 وہ علم جو کسی پیشہ کے اپنانے میں اور ذریعہ معاش بنانے میں ممدد معاون ہو۔ طبی، صنعتی ، کاروباری علوم اسی کے زمرے میں آتے ہیں۔
 مولانا احمد رضا خاں نے نہایت واضح، جامع اور ٹھوس استدلال پر مبنی تصور علم، ذرائع علم اور اقسام پیش کی ہیں آپ نے علم کے وسیع ترین موضوع کو جس انداز میں مختلف زاویوں، مختلف پہلوؤں سے الگ الگ اقسام کے تحت ان کے respective title nomenclature میں پیش کیا ہے اس سے فلسفہ ء علم التعلیم کے اساتذہ و طلبہ کیلئے تصور علم کی تفہیم نہایت آسان اور خوب آشکار ہو گئی ہے۔

2 comments:

  1. السلام علیکم
    امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گے میرا سوال یہ ہے کہ کیا عالم لفظ صرف دینِ اسلام

    کے لیئے مخصوص ہے
    یا کسی بھی شعبے کا مستند علم رکھنے والے کو بھی عالم کیا جاسکتا ہے۔

    ReplyDelete
  2. اگر کوئی سند مل جائے تو نوازش ہوگی

    ReplyDelete

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...