Wednesday 26 November 2014

مولانا امام احمد رضا خاں محدّث بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا معیار تحقیق

0 comments
مولانا امام احمد رضا خاں محدّث بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا معیار تحقیق
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
 
یہ بات تو اب پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ مولانا کا معیارِ تحقیق بہت ہی بلند تھا اور ان کی تقریباً تمام ہی تصانیف اپنے اپنے موضوع پر زبردست تحقیقی ذخائر سے مالامال ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کے سوانح نگار اور دیگر مصنفین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ مولانا احمد رضا خاں کا معیارِ تحقیق زبردست رفعت و بلندی سے ہم آہنگ ہے۔ جیساکہ مولانا کی تصانیف کے اعلیٰ معیار کا اعتراف کرتے ہوئے صدر الافاضل مولانا شاہ نعیم الدین مراد آبادی نے لکھا ہے: ”آپ (یعنی اعلیٰ حضرت) کا اندازِ بحث بالکل محققانہ ہے۔ منطقی مغالطات اور سَفسَطوں سے آپ کا کلام بالکل پاک ہوتا ہے۔ تدقیق اس قدر کہ علماءکو مطالب تک پہنچنے کے لئے بسا اوقات عرق ریزی اور جانفشانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ احتمالاتِ مخالف کی تمام راہیں زبردست دلائل سے اول بند کردی جاتی ہیں۔ جس بحث میں قلم اٹھایا ہے ممکن نہیں کہ مخالف کو جائے دمزدن باقی رہی ہو۔ معاندانہ مکابرے اور سفیہانہ سب و شتم تو کسی علمی تحقیق کا جواب نہیں ہوسکتے۔ اور اس کام کا انجام دینا ہر زبان دراز، عدیم المروت و الحیا کو آسان بھی ہے۔ مگر علمی معارک میں ہرزہ سرائی کیا بار پانے کے قابل ہے؟ مگر نہ دیکھا گیا کہ محققانہ طور کسی شخص کو اس امام المتکلمین کے سامنے لب کشائی کی جرأت ہوتی ہو۔“ (1)
 مولانا کی تصانیف کے معیار کی عظمت کا اعتراف علامہ شبنم کمالی نے بھی کیا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: ”جن علوم و فنون پر اعلیٰ حضرت کی تصانیف ہیں، دورِ موجودہ کے بہت سے علماءنے ان میں سے بہت سے فنون کا نام بھی نہیں سنا ہوگا، پہلے وہ اس فن کو پڑھیں، پھر اعلیٰ حضرت کی تصانیف کا مطالعہ کریں تب ان کے بارے میں کچھ لکھنے کی جرأت کرسکتے ہیں۔ پھر حضور اعلیٰ حضرت کی جملہ علوم و فنون کے محاصرے کا تصور محض تصورِ باطل ہے۔“ (2)
 یہی مصنف آگے چل کر لکھتا ہے:
 ”اعلیٰ حضرت کی تصانیف، تراجم اور تحریروں میں جو جامعیت دیکھی گئی وہ مجھے کسی اور عالم کی تحریر میں نظر نہیں آئی۔ اعلیٰ حضرت کا ترجمۂ قرآن نہایت آسان اردو میں ہے اور انتہائی فصیح و بلیغ ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ حضرت کی تمام تصنیفات میں، چاہے وہ فتاوے ہوں، رسائل ہوں یا مستقل کتاب، ان کے جوامع الکلم کی حیثیت کو واضح طور پر ہر قاری محسوس کرتا نظر آتا ہے۔“ (3)
 یہی مصنف اپنے اسی مضمون میں مولانا کے معیارِ تحقیق کی وجہِ عظمت و بلندی کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
 ”جب دلیل دینے پر آئے تو دو سو، ڈھائی سو، تین سے کتابوں کے اسمائ، ان کے مصنفین کے اسماءاور حسبِ ضرورت ان کی مختصر عبارتیں پیش کرڈالیں۔ قلم میں جنبش بھی، طبیعت میں روانی آئی تو ایک مسئلہ کا جواب دیتے دیتے ان میں کئی کتابیں پوری جامعیت کے ساتھ وجود میں آگئیں حدیث میں جب حدیثِ ضعیف کی بحث آئی تو ضعیف کے اقسام، اس کی جملہ صورتیں، اس کے احکام و دلائل اس خوبصورت انداز میں پیش فرمائے کہ ایک مستقل علمی اور درسی کتاب کا ظہور ہوگیا۔“
 یہ بات تو اب پوری طرح سے محقق ہوچکی ہے کہ مولانا احمد رضا خاں کا معیارِ تحقیق بہت بلند تھا۔ آئیے اب یہ دیکھیں کہ کس طرح مولانا کے معیارِ تحقیق کو بلند کہا گیا ہے۔ اس پر بہت سے محققین نے اپنے اپنے طور پر روشنی ڈالی ہے۔ جیسا کہ اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب لکھتے ہیں:
”امام احمد رضا کے مطالعہ و تحقیق کا معیار بہت بلند تھا۔ انہوں نے کبھی لکھی لکھائی اور سنی سنائی باتوں پر تکیہ نہیں فرمایا۔ بلکہ اصلی متون کا خود مطالعہ فرماتے اور جب تک خود مطمئن نہ ہوتے حوالہ نہ دیتے۔ ان کے پایۂ تحقیق کا اندازہ ”حجب العوار عن مخدوم بہار“ کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ جس میں انہوں نے متن کتاب کی تحقیق سے متعلق وہ وہ نکات و اصول بیان فرمائے ہیں جو دورِ جدید کے محققین کے وہم و خیال میں بھی نہیں۔ اور دنیا کا کوئی محقق متن کے لئے یہ اہتمام نہیں کرتا جو امام احمد رضا فرماتے تھے۔ امام احمد رضا نے اپنی تمام نگارشات میں اصولِ تحقیق کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ وہ ایک محتاط محقق، عاقبت اندیش مدبر اور بلند پایہ مفکر تھے۔“ (4)
 تحقیق و تدقیق کے میدان میں جہاں علم و دانش کو زبردست اہمیت حاصل ہے وہیں قوتِ استدلال کو بھی اس سلسلے میں اہم مقام دیا جاسکتا ہے۔ یعنی کسی بھی مصنف کی تخلیق کو ہم اس وقت تک تحقیقی اعتبار سے پایۂ استناد پر پورا تسلیم نہیں کرسکتے جب تک کہ اس مصنف کی قوتِ استدلال کی صحت پوری طرح سے ثابت نہیں ہوجاتی۔ اس طریقۂ تحقیق کے اعتبار سے بھی مولانا احمد رضا خاں کی تصانیف کو زبردست نمایاں مقام حاصل ہے اور ان کا تحقیقی معیار پوری طرح اس اعتبار سے بھی قابلِ اعتماد ہے کیونکہ آپ کے اندر اعلیٰ علمی صلاحیت کے ساتھ ہی زبردست قوتِ استدلال موجود تھی۔ جیسا کہ اس سلسلہ میں ایک مصنف نے لکھا ہے:
 ”امام احمد رضا فاضل بریلوی کی قوتِ استدلال بہت زیادہ پائیدار اور مستحکم تھی۔ انہوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے بہت زیادہ غور و فکر اور تحقیق و جستجو کے بعد لکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رائے اور نتائج حقیقت و صداقت پر مبنی نظر آتے ہیں اور وہ جو کچھ بھی فرماتے ہیں حق بولتی تصویر دکھائی پڑتی ہے۔ بڑے بڑے مفکر و دانشور بھی ان کی رائے کا احترام کرتے نظر آتے ہیں۔“ (5)
 اس سلسلہ میں کچھ ایسی ہی رائے ماہرِ رضویات پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد بھی رکھتے ہیں بلکہ ان کے مطابق تو مولانا کا معیارِ تحقیق تو دورِ حاضر کے ترقی یافتہ محققین کے معیارِ تحقیق سے بھی کہیں زیادہ بلند ہے۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے:
”محدثِ بریلوی محقق بھی تھے اور مصنف بھی۔ انہوں نے تقریبا 50علوم و فنون میں اپنی علمی یادگاریں چھوڑی ہیں۔ ان کا تحقیقی معیار دورِ جدید کے تحقیقی معیار سے بھی بلند ہے۔“ (6)
 مولانا کے معیارِ تحقیق کے اثبات میں متفرق مصنفین کے اقوال و آراءکو نقل کرنے کے بعد اب ہم باعتبارِ فن یہ دکھانا چاہیں گے کہ مولانا کا فنی اعتبار سے تحقیق کا معیار کیا تھا اور اس پر بھی غور کرنا چاہیں گے کہ کیا مولانا کسی خاص فن میں ہی یہ بلند معیار رکھتے تھے یا جملہ علوم و فنون میں آپ کی صلاحیت یکساں تھی۔ جیسا کہ سبھی واقف ہیں کہ مولانا بنیادی اعتبار سے عالمِ دین تھے اور علومِ دینیہ سے آپ کا تعلق اصلاً تھا اور دیگر فنون سے ضمناً۔ اسی لئے آپ کی دیگر علوم و فنون سے متعلق تصانیف میں اسلامی علوم کی جھلک نظر آتی تھی جس کا ثبوت مولانا ضیاءالمصطفیٰ قادری صاحب کی تحریر سے بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا:
”اعلیٰ حضرت یوں تو کثیر علوم و فنون میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے لیکن علمِ کلام و علمِ فقہ ہی کے گرد آپ کی فکر گردش کرتی تھی۔ اسی لئے آپ کی بحثیں کتاب و سنت کے مواد سے لبریز ہوتی ہیں۔“ (7)
 اس موقع پر ہم نے مختلف صاحبانِ قلم کے بیانات تحریر کئے ہیں جن سے مولانا کے معیارِ تحقیق کا ثبوت ملتا ہے۔ اب ہم مختلف علوم پر مشتمل مولانا کی تصانیف سے یہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ ان علوم میں مولانا کا معیارِ تحقیق کس قدر بلند تھا۔ سب سے پہلے یہاں ہم آپ کے ترجمۂ قرآن پر نظر ڈالنا چاہیں گے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کو ترجمہ کے فن پر کس قدر زبردست عبور حاصل تھا اور اس فن میں ان کا معیار کس قدر عظیم تھا۔ اس سلسلے میں ملک شیر محمد خان، پاکستان کے مضمون سے ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے جس سے آپ کے ترجمۂ قرآن کے محاسن پر نظر پڑتی ہے۔
”امام احمد رضا کا ایک عظیم ترین علمی کارنامہ اور فنی شاہکار قرآن حکیم کا اردو ترجمہ ہے جو ”کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن“ کے نام سے موسوم ہے۔ تمام اردو تراجمِ قرآن سامنے رکھ لیجئے اور امام احمد رضا کے ترجمہ کے ساتھ ان کا تقابلی مطالعہ کیجئے۔ آپ واضح ترین فرق و امتیاز محسوس کریں گے امام احمد رضا کا ترجمہ لغوی، معنوی، ادبی اور علمی کمالات کا جامع ترین مرقع ہے۔ اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو عربیت اور قرآن فہمی کا کس قدر ملکہ حاصل تھا۔“ (8)
 آئیے اب دیکھتے ہیں فنِ حدیث پر آپ نے جو کام کیا ہے اس تحقیق کا معیار کیا ہے؟ اصولِ حدیث کے فن میں آپ کا تحقیقی معیار دیکھنے کے لئے مولانا آل مصطفی مصباحی کی تحریر سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے:
”اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے اصولِ حدیث کو پیش آمدہ مسائل سے ہم آہنگ بھی کیا ہے اور ساتھ ہی اپنی ذاتی تحقیق و تفتیش کے جلوے دکھائے ہیں۔ اگر شروع ہی سے طالب علم و فن نے ان اصولوں کو اپنے ذہن پر نقش کرلیا تو بلاشبہ اخیر تک یہ اصول و ضوابط شمعِ راہ ثابت ہوں گے۔ اصولِ حدیث میں آپ کا رسالہ ”منیر العین فی تقبیل الابہامین“ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔“ (9)
 اصولِ حدیث سے متعلق ایک فن جو ”فن اسماءالرجال“ کے نام سے معروف ہے، اس میں بھی مولانا کا معیارِ تحقیق بہت بلند تھا جیساکہ مولانا آل مصطفی مصباحی نے اپنے مذکورہ مضمون میں ہی اس سلسلہ میں تحریر کیا ہے:
”امام اہلسنّت کے اندر وہ خداداد ذہنیت و صلاحیت تھی اور حافظہ اتنا مستحکم اور قوی تھا کہ رجالِ حدیث سے متعلق ناقدینِ حدیث کے اقوال و وجوہ طعن اور مراتبِ توثیق و تنقید مستحضر رکھتے تھے۔ ان پر ان کی تصانیف میں بے شمار شواہد نظر آتے ہیں۔ اس خوبی میں معاصرین بلکہ بہت سے متقدمین پر بھی فائق نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ بہت سے جلیل القدر فقہاءو محدثین کی پیش کردہ احادیث پر اسماءالرجال کی رو سے کلام کیا ہے جو ان حضرات کی نظروں سے مخفی تھا۔“ (10)
 یہاں صرف مولانا کے معیارِ تحقیق کے سلسلے میں ان کے سوانح نگار حضرات کی تحریروں کے اقتباسات نقل کئے جارہے ہیں۔ پیشِ نظر سطور میں مولانا کے فقہی علوم پر مشتمل تحقیق کے معیار کے بارے میں لکھا جاتا ہے۔ اس فن میں مولانا کو جو مہارت حاصل تھی اور جس دقت نظر اور تحقیق کے ساتھ آپ نے فتاویٰ تحریر کئے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہنامہ ”معارف“ اعظم گڑھ کا مضمون نگار تحریر کرتا ہے:
”مولانا نے جس دقتِ نظر اور تحقیق کے ساتھ علماءکے استفسارات کے جوابات تحریر فرمائے ہیں اس سے ان کی جامعیت، علمی بصیرت، فقہی جزوی استحضارات اور ذہانت طباعی کا پورا پورا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے کمالانہ اور محققانہ فتاویٰ نہ صرف آپ کے جلالتِ علمی کے مظہر ہیں بلکہ مخالف و موافق ہر طبقہ کے مطالعہ کے لائق ہیں۔“ (11)
 فقہ میں آپ کو جو اعلیٰ مقام حاصل ہے اس کا اعتراف مفتی غلام معین الدین نعیمی نے بھی کیا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:
”حرمین طیبین اور دیگر بلادِ اسلامیہ کی یگانہ روزگار علمی ہستیوں نے اعلیٰ حضرت قدس سرہ کو نابغۂ روزگار اور عدیم النظیر محقق تسلیم کیا ہے۔ اس سے بھی قطعِ نظر اعلیٰ حضرت کی جملہ تصانیف اور خصوصاً فتاویٰ رضویہ اس امرکی واضح شہادت دے رہا ہے کہ اس کا مصنف دقائق کا خزینہ، حقائق کا گنجینہ اور تمام علومِ عقلیہ اور نقلیہ میں منصبِ امامت پر فائز تھا۔“ (12)
 ان اقتباسات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوچکی ہے کہ مولانا کی علومِ اسلامیہ پر زبردست تحقیقی نظر تھی اور ان علوم میں ان کو اجتہادی مقام حاصل تھا۔ آپ کے اکثر سوانح نگاروں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ مولانا کو شریعتِ اسلامیہ پر زبردست درک حاصل تھا اور اسلامی علوم پر انہیں اعلیٰ گرفت تھی۔ جیسا کہ سید جمال الدین اسلم، ریڈر شعبۂ تاریخ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:
”امام احمد رضا کو جو علمی اور دینی کارنامہ امام کے منصب پر فائز کرتا ہے وہ یہ کہ انہوں نے دینِ مبین اور سوادِ اعظم کا دفاع ہی نہیں کیا بلکہ اپنے دور اور مستقبل کے لئے انہیں نئی فکری توانائی دی، اجتہاد کیا اور بتایا کہ وہ محض روایت پر چلنے والے مسلمان یا مولوی ہی نہیں بلکہ وہ ایسے عالم ہیں جن کے مطالعہ میں قدیم و جدید تمام کتب رہیں اور جس نے ان کا صرف مطالعہ ہی نہیں کیا بلکہ ان کے پسِ پشت کار فرما فکر تک رسائی بھی حاصل کی اور دورِ حاضر کے مسائل کو پیشِ نظر رکھ کر اجتہاد کے دروازے کھول دیئے۔“ (13)
 جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ مولانا کو اسلامی علوم کے ساتھ ہی عصری علوم و فنون میں بھی زبردست دخل تھا اور ان علوم میں بھی انہوں نے تحقیق و تدقیق کے دریا بہائے ہیں۔ چنانچہ ان علوم پر مشتمل مولانا کی کتابوں کا معیار بہت بلند ہے۔ تو اس سلسلے میں سب سے پہلے سائنسی علوم پر مشتمل تصانیف پر ایک اقتباس مولانا قمر الحسن بستوی مصباحی کے مضمون سے نقل کیا جاتا ہے:
”حضرت موصوف علیہ الرحمہ (مولانا احمد رضا خاں) نے سائنسی تحقیقی دنیا میں بھی اہم رول ادا کیا ہے بلکہ بھارت کا یہ عظیم مفکر وہ تھا جس نے قدیم فلاسفہ اور پرانے نظریات و اصول کے پرخچے اڑادیے ہیں۔ جو نظریات اسلامی افکار سے متصادم ہوئے ان کا رد نہ صرف نقلی فرمایا بلکہ عقلی بھی اور اسی فن کی روشنی میں انہیں کے اصولوں کو پیش فرماکر ان کا ردِّ بلیغ کیا۔“ (14)
 جدید سائنس کے بعد اب دیکھتے ہیں مولانا کو فلسفہ و منطق میں کیا مقام حاصل ہے اور اس میں ان کا تحقیقی معیار کس قدر بلند ہے۔ اس سلسلے میں مولانا محمود احمد برکاتی مصباحی اپنے ایک معرکة الآراءمضمون میں نقل کرتے ہیں:
”فلسفۂ قدیمہ کے مزعومات باطلہ پر آپ کی گرفتیں اتنی سخت ہیں اور اپنے اندر اس قدر قوت و استحکام رکھتی ہیں کہ ان کا جواب حزبِ مخالف کے پاس سوائے خموشی کے اور کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ آپ کے اعتراضات و مواخذات جس دقتِ نظر پر مبنی ہیں وہ واقعی قابلِ ستائش و لائقِ صد آفریں ہیں۔ آپ نے چند مسائل مختلف فیہ میں اس قدر معرکۃ الآرا بحثیں کی ہیں جو ماضی میں بھی نظر نہیں آتیں۔ اتنی معیاری بحث کرنا خاص آپ ہی کا حصہ ہے اس بِناءپر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا فلسفیانہ رنگ بھی فقہی صلاحیتوں سے کچھ کم نہ تھا۔“ (15)
 حوالہ جات
  1. افاضات صدر الافاضل، بحوالہ قاری امام احمد رضا نمبر، ص: 188 اور ص:365۔
     
  2. مضمون: امام احمد رضا کی جامعیت۔ مشمولہ، پیغامِ رضا کا احمد رضا نمبر، ص: 486
     
  3. مضمون: امام احمد رضا کی جامعیت۔ مشمولہ، پیغامِ رضا کا احمد رضا نمبر، ص:488۔
     
  4. الف) مضمون: امام احمد رضا کی جامعیت۔ مشمولہ، پیغامِ رضا کا احمد رضا نمبر، ص:۰69۔
    ب) امام احمد رضا کی فقہی بصیرت۔ ص:17 تا 18۔ زیرِ عنوان ”تقدیم“۔
     
  5. مضمون: امام احمد رضا ایک سائنسدان کی حیثیت سے۔ مشمولہ، یادگارِ رضا۔ ص:89۔
     
  6. امام احمد رضا محدث بریلوی۔ ص:80۔
     
  7. پیغامات و تاثرات۔ مشمولہ، آئینہ امام احمد رضا۔ ص:142۔
     
  8. امام احمد رضا اور محاسن کنز الایمان۔ مشمولہ، قاری احمد رضا نمبر، ص:117۔
     
  9. مضمون: امام احمد رضا کی رجالِ حدیث اور اصول پر نظر۔ مشمولہ، آئینۂ امام احمد رضا نمبر، ص:109۔
     
  10. مضمون: امام احمد رضا کی رجالِ حدیث اور اصول پر نظر۔ مشمولہ، آئینہ امام احمد رضا نمبر، ص:100۔
     
  11. معارف، اعظم گڑھ، بابت ستمبر 1949ء۔ ص:43/44۔ بحوالہ، تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ۔ ص:415۔
     
  12. مضمون: امام احمد رضا اور صدر الافاضل۔ مشمولہ، قاری امام احمد رضا نمبر، ص:196۔
     
  13. آئینۂ امام احمد رضا۔ ص:145۔
  14. مقالہ: امام احمد رضا اور سائنس جدید۔ مشمولہ، افکارِ رضا، ص:118۔
     
  15. مضمون: فلسفۂ قدیم اور الکلمۃ الملہمہ، مشمولہ، پیغامِ رضا کا احمد رضا نمبر۔ ص:217۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔