۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین محترم” کالعدم سپاہ صحابہ سے اہلسنّت وجماعت تک،ایک تاریخی و تجزیاتی جائزہ“ آپ کی نظر سے گزر چکا ہے ،جس میں ہم نے اِس بات کا جائزہ لیا کہ اِس کالعدم تنظیم سے وابستہ و سرپرست افراد کے ڈانڈے کہاں ملتے ہیں اور اِس تنظیم کے قیام سے ہمارے ملک، معاشرے اور قومی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے،ذیل میں ہم اِس تنظیم کا ” سواد اعظم اہلسنّت وجماعت سنّی حنفی(بریلوی) سے تعلق ونسبت“ کا تاریخی جائزہ پیش کرتے ہوئے اِس اَمرکا احاطہ کریں کہ اصل اہلسنّت وجماعت کون لوگ ہیں، کب سے ہیں اور اُن کی درست شناخت وپہچان کیا ہے،ساتھ ہی یہ بھی دیکھیں کہ برصغیر میں تفریق بین المسلمین کب، کیوں اور کس کی ایماءپر شروع ہوئی اور یہ کہ وہ اسباب و محرکات کیا ہیں جس کی وجہ سے آج یہ صورتحال پیدا ہوئی۔
ہٹلر کے دست راست جوزف گوئبلز کا مشہور زمانہ قول ہے کہ”جھوٹ کو اتنی بار
دہراؤ کہ اُس پر سچ کا گمان ہونے لگے۔“گوئبلزکے اِس قول کا عملی اظہار ہمیں
زندگی کے بہت سے شعبوں میں نظر آتا ہے،مگر سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ
ایک مخصوص مکتبہ فکر کی حامل افراد نے اِس قول کو ہماری قومی تاریخ پر بھی
منطبق کردیا،انہوں نے اصل حقائق و واقعات کو مسخ کیا، نئی تاریخ گھڑی اور
جھوٹ کی ملمع کاری سے ایک ایسی نئی تاریخ کو جنم دیاجس کی بنیاد بغض وعناد
اور مسلکی تعصب پر رکھی گئی،یوںوہ لوگ جنہوں نے گنگا جمناتہذیب کو اپنا
مرکز بنایا، پیشانی پر تلک کانشان سجایا، ہندوو ¿ں کو مساجد کے منبروں پر
بیٹھایا، کھلم کھلا تحریک پاکستان کی مخالف کی، قائد اعظم کو کافراعظم کہا
اورپاکستان کو پلیدستان کا نام دیا، تاریخ سازی کے کمال نے ایسے لوگوں کو
قومی ہیروز بناڈالا۔
قومی و ملی تاریخ کے ساتھ اِس سے بڑی بدیانتی اور کیا ہوگی کہ مخالفین پاکستان قیام پاکستان کی جدوجہد میں قومی ہیروز قرار پائیں اور معماران تحریک کی حیات وخدمات پر جھوٹ و تعصب کے پردے ڈال کرانہیں گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا جائے،تاریخ کو بدلنے اور حقائق کو مسخ کرنے کا یہ کھیل آج بھی جاری ہے،کل تک جولوگ دیوبندی اور وہابی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے،آج وہ لوگ اہلسنّت وجماعت ہونے کے دعویدار ہیں،یہ سب کیوں اور کیسے ہوا۔؟ یہ لوگ کون ہیں۔؟ کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔؟ اوراِن کی پرورش و آبیاری کس نے کی۔؟آئیے ذیل میں اِن عوامل کا جائزہ لیتے ہیں۔
سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں”سندھ میں جو عرب فاتح آئے وہ سنّی تھے۔(1)تاریخ کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ” ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد پانچویں چھٹی صدی ہجری تک یہاں آنے والے اور اسلام قبول کرنے والے صرف اور صرف اہلسنّت وجماعت تھے،اُس زمانے میں سنیت اور حنفیت کا دور دورہ تھا،سارے علماءومشائخ سنی حنفی تھے......پھر مغل سلاطین کی فوج میں کچھ شیعہ یہاں آئے اور رفتہ رفتہ انہوں نے قدم جمانا شروع کیا۔“ (2)حضرت امیر خسرواپنے فارسی اشعار میں ہندوستان کے اسلامی احوال وکوالف کی منظر کشی کرتے ہیں ، جسے نقل کرتے ہوئے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ارشاد فرماتے ہیں۔”ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد قریب پانچ سو برس تک اہلسنّت و جماعت کی بہاریں رہیں اور کوئی فرقہ بندی نہیں ہوئی“(3)یہ صورتحال حضرت مجدد الف ثانی کے زمانے تک قائم رہی اور”حضرت مجدد (الف ثانی)کے زمانے سے 1240ھ/ 1825ءتک ہندوستان کے مسلمان دو فرقوں میں بٹے رہے،ایک اہلسنّت وجماعت ،دوسرا شیعہ۔اب اسمعٰیل دہلوی نے تقویة الایمان لکھی،اِس کتاب سے مذہبی آزاد خیالی کا دور شروع ہوا،کوئی غیر مقلد ہوا،کوئی وہابی بنا،کوئی اہلحدیث کہلایا،کسی نے اپنے آپ کو سلفی کہا،آئمہ مجتہدین کی جو منزلت اور احترام دل میں تھا،وہ ختم ہوا،معمولی نوشت وخواند کے افراد امام بننے لگے اور افسوس اِس بات کا ہے کہ توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہ نبوت کی تعظیم واحترام میں تقصیرات(بے ادبی وگستاخی) کا سلسلہ شروع کردیا،یہ ساری قباحتیں 1240ھ/ 1825ءکے بعد ظاہر ہونا شروع ہوئی ہیں۔“(4
تقویة ایمان کی اِس شرانگیزیری پراشک ندامت بہاتے ہوئے دیوبندی مکتبہ فکر کے مولوی احمد رضا بجنوری رقم طراز ہیںکہ”افسوس ہے کہ اِس کتاب”تقویة الایمان “کی وجہ سے مسلمانان پاک وہند جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریباً نوے فیصد حنفی المسلک ہیں دو گروہوں میں بٹ گئے ۔“(5)یوںشیعیت کے بعد نجد کا فتنہ وہابیت(جو شیخ ابن تیمیہ حرانی اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کے افکار ونظریات کا مجموعہ ہے) اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان میں نمودار ہوا اور اسمعٰیل دہلوی کی رسوائے زمانہ کتاب”تقویة الایمان“اِس فتنے کے فروغ کا ذریعہ بنی۔” انگریز وں نے اتباع سنت اور عمل بالحدیث کے نام پر شروع ہونے والی ایک ایسی تحریک کی سرپرستی کی جو دراصل فقہ میں آزاد نہ روش کی خواہش رکھتی تھی ،اُسے کسی ایک امام مجتہد کی فقہ کی پابندی میں جکڑا رہنا گوارا نہیں تھا۔“(6
درحقیقت تقویة ایمان انگریزوں کے اشارے پر تفریق بین المسلمین کیلئے منظر عام پر آئی ،جولڑاو ¿ اور حکومت کروکے آزمودہ حربے کا شاخسانہ تھی، انگریز کی ایماءپر مسلمانوں کے درمیان ہنگامہ اور فتنہ وفساد پھیلانے والی ”اِس کتاب کو1838ءمیں رائل ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ(جس نے اِس سے قبل 1825ءمیں اِس کتاب کا انگریزی ترجمہ لندن کے رسالہ جلد12میں شائع کیا تھا) نے ہزاروں کی تعداد میں چھپواکر مفت تقسیم کیا ۔“(7) پروفیسر محمد شجاع الدین صدر شعبہ تاریخ ،دیال سنگھ کالج اِس بات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”انگریزوں نے تقویة الایمان مفت تقسیم کی۔“ (8)آغا شورش کاشمیری اِس تاریخی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیںکہ ”انگریز اپنی چال میں کامیاب رہا....کہ مسلمانوں کی ملی وحدت پارہ پارہ ہو،اُس کی شکل یہ نکالی کہ بعض نئے فرقوں کو جنم دیا،انہیں پروان چڑھایا،اُن کا ہاتھ بٹایا۔(9) اِس طرح تقویة الایمان کے بطن سے پیدا ہونے والی وہابیت نے برصغیر میں ”اہلحدیث، نیچریت،چکڑالویت،انکار حدیث اور قادیانیت سمیت اکثر و بیشتر فرقوں کی بنیاد رکھی ۔“(10) شاعر مشرق علامہ اِس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”قادیان اور دیوبند اگرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن دونوں کا سرچشمہ ایک ہے اور دونوں اُس تحریک کی پیداوار ہیں جسے عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے۔“(11
جامعہ ملیہ دہلی کے استاد ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم کے بقول ”تقویة الایمان کے بعد اختلافات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ سواداعظم سے نکل نکل کر لوگ مختلف خیموں میں داخل ہونے لگے اور اِس طرح سواد اعظم کا شیرازہ منتشر ہوگیا،اِس انتشار کی روک تھام اور اہلسنّت کی شیرازہ بندی کیلئے روہیل کھنڈ کے شہر بریلی کے ایک فاضل عالم نے عزم مصمم کیا،یہ فاضل عالم تھے، مولانا احمد رضا خاں،جوامام اہلسنّت مجدد دین وملت فاضل بریلوی کے نام سے معروف و مشہور ہوئے۔“(12)ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر پونا یونیورسٹی سے ”مولانا محمد انوار اللہ فارقی حیدرآبادی “پر پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھتے ہیں”کئی ایسے مذہبی دانشور اور مفکر بھی آئے جنھوں نے مسلمانوں کی دینی اور مسلکی رہنمائی میں اپنی تصانیف کے ذریعہ مجددانہ اورمجاہدانہ کردار پیش کیا،اِن مصلحین میں مولانا احمد رضا فاضل بریلوی نامور ہوئے۔“(13
اَمر واقعہ یہ ہے کہ فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خاں السواد اعظم اہلسنّت وجماعت سنی حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے ،خوددیوبندی مکتبہ فکر کے مورخ سید سلیمان ندوی حیات شبلی صفحہ 8پر تسلیم کرتے ہیں کہ ” تیسرا فریق وہ تھا جو شدت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنة کہتا رہا،اِس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماءتھے۔“شیخ محمد اکرام کے بقول ”انہوں(مولانا احمدرضا خاں)نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی۔“(14)خود اہلحدیث مولوی احسان الٰہی ظہیر نے لکھا کہ”یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے ، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے۔“(15)جبکہ ثنا اللہ امرتسری کا کہنا ہے کہ ”اَسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اِسی خیال کے تھے ،جن کو آج بریلوی خیال کیا جاتا ہے۔“(16)نواب صدیق حسن بھوپالی اہلحدیث نے اقرار کیاکہ ”خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے،اُس وقت سے آج تک یہ لوگ حنفی مذہب پر قائم رہے اور ہیں۔“ (17
قارئین محترم !درج بالا چند حوالہ جات جو زیادہ تر مخالف مکتبہ فکر کے مشہور افراد کی کتابوں سے نقل کیے گئے ہیں کو دیکھ کر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں السواداعظم اہلسنّت و جماعت سنّی حنفی جسے مخالفین آج بریلوی کہتے ہیں، وہ قدیم ترین جماعت ہے جس کی ابتداءاسلام کی آمد سے منسلک ہے ،شیعیت کے بعد وہابیت سمیت باقی تمام مکتبہ فکر اِس برعظیم میں بعد کی پیداوار ہیں،جبکہ مولانا احمد رضا خاں کا تعلق اُس مکتبہ فکر سے ہے جو شدت کے ساتھ قدیم سنی حنفی عقائدپر گامزن رہا،حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود مخالفین مولانا احمد رضا خاں پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ایک نئے مسلک کی بنیاد ڈالی ،جبکہ احسان الٰہی ظہیر کی کتاب کے صاحب مقدمہ شیخ عطیہ محمد سالم تسلیم کرتے ہیں کہ ”دنیا کے ہر خطے میں پائے جانے والے تمام قادری،سہروردی،نقشبندی ،چشتی،رفاعی وہی عقائد رکھتے ہیں جو بریلویوں کے ہیں“(18) یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے سب خطوں میں رہنے والے تمام قادریوں،سہروردیوں،نقشبندیوں ،چشتییوں اوررفاعیوں کے اگر وہی عقائد ہیں جو بریلویوں کے ہیں تو کیااِن سب کو مخالفین کے الزام کے مطابق بریلی کے نئے مسلک نے متاثر کیا اور کیا اِن سب نے بریلوی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنے عقائد و نظریات کو تبدیل کرلیا، یقیناعقل و شعورسے یہ تصور محال ہے اورکوئی بھی ذی علم اِس بات کی تائید اس لیے نہیں کرسکتا کہ مولانا احمد رضا خاںنے برصغیر میں کسی نئے مسلک کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ چودھویں صدی میں قدیم سنی حنفی عقائد کا دفاع کرتے ہوئے سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے خلاف اٹھنے والے نت نئے خارجی فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا، انہوں نے عظمت الوہیت، ناموس رسالت، مقام صحابہ و اہل بیت اور حرمت ولایت کا پہرا دیااور اپنی بے پایاں علمی و قلمی خدمات(جسے عرب و عجم کے علماءو ارباب علم ودانش نے بھی تسلیم کیا) کی وجہ سے اِس خطے میں وقت کے مجدد اوراہلسنّت وجماعت کا فخر وامتیاز قرار پائے۔
سیدمحمدمدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں” فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے ،از اوّل تا آخر مقلد رہے، اُن کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلام کوو اضح طور پر پیش کرتی رہی، وہ زندگی کے کسی گوشہ میں ایک پل کیلئے بھی ”سبیل مومنین صالحین“ سے نہیں ہٹے، اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں ،انہیں سلف صالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ”بریلوی“ کہہ دیا گیا تو کیا ”بریلویت “و” سنیّت“ کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا۔؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیاگیا ۔(19) حقیقت واقعہ یہ ہے کہ برصغیر میں نئے مسلک و عقیدے کی بنیاد ڈالنے والے دراصل وہی لوگ ہیںجو آج ”اہلسنّت وجماعت “ کا نام اختیار کرکے اپنی وہابی نسبت اور حوالوں کو چھپانا چاہتے ہیں اور بڑی چابک دستی سے اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی کا دکھایا ہوا تقیہ کا راستہ کہ”اپنی جماعت کی مصلحت کیلئے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان کیے جائیں تاکہ اپنے مجمع پر جو وہابیت کا شبہ ہے ،وہ دور ہو اور موقع بھی اچھا ہے کیونکہ اِس وقت مختلف طبقات کے لوگ موجود ہیں۔ “(20)اختیار کرکے حنفیت واہلسنّت ہونے کا دھوکہ دیتے ہیں،یہ وہی حکم الامت ہیں جو کہتے ہیں ”اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں ،پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں“(21)جواپنے عقیدے کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں”بھائی یہاں تو وہابی رہتے ہیں، یہاں نیاز فاتحہ کیلئے کچھ مت لایا کرو۔“(22
اَمرواقعہ یہ ہے کہ دنیا میں موجود چاروں فقہ” حنفی،شافعی،مالکی اور حنبلی“ کے ماننے والے لوگ جو کہ ہر خطے میں پائے جاتے ہیں،اہلسنّت وجماعت ہیں،اِن کے علاوہ باقی تمام مکتبہ فکر وہابی،اہلحدیث، اہل قرآن اور چکڑالوی وغیرہ خارج اہلسنّت شمار ہوتے ہیں، رہی دیوبندیت تو بقول علامہ اقبال وہ وہابیت کی ہی ایک شکل ہے جس نے بڑی چالاکی سے تقلید حنفی کا لبادہ اوڑھ کر سیدھے سادھے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کا وطیرہ اختیار کرلیا ہے، قارئین محترم ! اِس مقام پر بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہابی وخارجی عقائد کے رکھنے والے لوگ کون ہیں،کب وجود میں آئے اور اِن کے عزائم کیا ہیں،اب دیکھتے ہیں اہلسنّت وجماعت کی تعریف و پہچان کیا ہے، دیوبندی مورخ سید سلیمان ندوی اصل اہلسنّت وجماعت کی تعریف وپہچان بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں ” جن کے اعتقادات،اعمال اور مسائل کا محور پیغمبر علیہ السلام کی سنت ِصحیح اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اثرِمبارک ہے۔“ (23
رسول اللہ نے فرمایایہ”وہ راستہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔“حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا،”اللہ میری اُمت کو کبھی ضلالت پر جمع نہیں کرے گااور آپ نے فرمایا،نظم اجتماعی پر اللہ کا ہاتھ ہے،تو جو اُس سے الگ ہوا،شیاطین اُسے اچک لے جائیں گے،چنانچہ جب تم (اُس میں)اختلاف پاؤ تو (اُس کے ساتھ وابستہ رہنے کیلئے)سواد اعظم کی رائے کی پیروی کرو،
اِس لیے کہ جو الجماعۃ سے الگ ہوا،وہ دوزخ میں پڑا۔(مستدرک،کتاب العلم)،حضرت انس سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا”بیشک میری اُمت گمراہی پر متفق نہیں ہوگی،پس جب تم دیکھو کہ لوگ اختلاف میں مبتلا ہیں تو سواد اعظم (بڑی جماعت)کی پیروی کرو،(ابن ماجہ ،کتاب الفتن ، باب السواد الاعظم
یعنی اہلسنّت و جماعت وہی ہے جو رسول اﷲکی سنت پر عمل پیرا رہے، بدمذہبوں کی گمراہیوں سے کنارہ کش رہے اورجماعت سے وابستہ رہے اور جماعت سے مراد صحابہ کرام ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا ”ماانا علیہ واصحابی علیہ الیوم“۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے خلیفہ مولانا نعیم الدین مرادآبادی اِس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اپنے عہد کے حالات کے پیش نظر اہلسنّت وجماعت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں ”سنّی وہ ہے جو ماانا علیہ واصحابی کا مصداق ہو،یہ وہ لوگ ہیں جو خلفائے راشدین،ائمہ دین،مسلم مشائخ طریقت اور متاخر علمائے کرام میں سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی،ملک العلما حضرت بحرالعلوم فرنگی محلی،حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی، حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی، حضرت مولانا مفتی ارشاد حسین رامپوری اور حضرت مفتی شاہ احمد رضا خاں بریلوی کے مسلک پر ہوں“(24)اِن حوالوں سے ہمارا مدعا پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ دیوبندی اور وہابی تحریکوں سے قبل ہندوستانی علماءومشائخ اور مسلمان اپنے قدیم دینی مذہب اور متوارث روایات پر پوری سختی کے ساتھ کار بندرہے ، مولانا احمد رضا فاضل بریلوی کا تعلق بھی اِسی طبقے سے ہے۔
اِس وقت برصغیر میں امام احمد رضا خاں اور اُن کے مو ¿یدہزاروں علماءومشائخ کے عقائد ونظریات ہی اصل اہلسنّت وجماعت کے عقائد و نظریات ہیں،یہی جماعت سواد اعظم بھی ہے اور ارشاد رسول ”ماانا علیہ واصحابی“کی حقیقی مصداق بھی ہے،یہی وہ جماعت ہے جو ہردور میں راہ حق پر گامزن رہی اورآج بھی مسلمانوں کی عام اکثریت اِسی روش پر قائم ہے، مگرآج اغیار کے جھوٹ وفریب اور مکرودجل کی وجہ سے اصل اہلسنّت وجماعت کی شناخت و تشخص اور نظریاتی بقاءسوالیہ نشان بنی ہوئی ہے،اِس صورتحال پر نوجوان اسکالر خوشتر نورانی کے اٹھائے ہوئے سوالات قابل غورو توجہ ہیں آپ لکھتے ہیں” آخر اہلسنّت و جماعت کی مذہبی ومسلکی سرگرمیوں میں کہاں چوک ہوگئی کہ 1240ھ (1824ئ) میں جس جدید نظرئیے کے مویدین دو تھے،1280ھ(1863ئ) میں اُن کی تعداد پورے پنجاب میں دس بھی نہیں تھی، لیکن1302ھ(1884ئ) آتے آتے یہ تعداد برصغیر کے مسلمانوں کے چوتھائی حصے میں تبدیل ہوگئی اور اب یہ فرقہ متحدہ ہندوستان کی بڑی آبادی کی خوش عقیدگی کو نگلنے کیلئے بے تاب ہے،آخر اہلسنّت وجماعت کے رویوں میں کیا کمی رہ گئی کہ مسلکی سطح پر اُن کی پوزیشن اقدامی سے دفاعی ہوگئی اور وہ ”اہل سنت وجماعت“ کی بجائے ”بریلوی“ کہنے اور کہلانے لگے۔؟
ماہنامہ جام ِنور، اکتوبر نومبر 2007ءکے شمار وں میں محقق و اسکالر ذیشان احمد مصباحی نے اپنے تفصیلی فکر انگیز مضمون میں اہلسنّت کو مشورہ دیا تھا کہ” حالات کا تقاضا اور مصلحت یہ ہے کہ ہمیں بریلوی لفظ اور مسلک اعلیٰ حضرت کے استعمال سے اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ اِس سے مخالفین کے اِس پروپیگنڈا کو تقویت ملتی ہے کہ ” بریلوی “ ایک نیا فرقہ اور مسلک ہے، جس کے بانی مولانا احمد رضا خان ہیں،علامہ ذیشان احمد مصباحی کے مطابق ہمیں ” بریلوی “ مشہور کر کے مخالفین خود کو اہل سنت کہنے لگے ہیں۔“ جس کے بعد رہی سہی کسر پروپیگنڈہ مشینری نے پوری کردی اور جس کے اثرات آج ہر جگہ محسوس کیے جا سکتے ہیں، غریب سے امیر تک، تعلیم یافتہ سے جاہل عوام تک ہر ایک پر یہ جادو چل گیا ہے اور وہ اصل اہلسنّت وجماعت سے دور ہونے لگے ہیں۔گستاخی معاف مگر توجہ دلائے گئے پہلواصلاح عمل کے متقاضی ہیں،جب سے ہم اہلسنّت وجماعت کے نام کو ترک کرکے چھوٹی چھوٹی تنظیموں، جماعتوں، اداروں اور گروہوں میں منقسم ہوکر کمزورہوتے چلے گئے ، اغیار نے ہماری اُس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ہم سے ہماری شناخت و پہچان حتٰی کہ ہمارا نام بھی ہتھیانے کی کوششیں شروع کردیں،اب ہم لاکھ اصل اہلسنّت وجماعت ہونے کا دعویٰ کرتے رہیں،عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بیانات دیتے رہیں یا مساجد و جلسہ گاہوں سے تردیدی تقریریں کرتے رہیں،صورتحال اُس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم اہلسنّت کے دفاع، اُس کے تحفظ اور اشاعت کیلئے اپنے علمی وفکری دستوں کی ترجیحات تبدیل نہیں کرتے۔
ہمیں شخصیت پرستی کے دائروںسے باہر نکلنا ہوگا اورشخصیات کی بنیاد پر حق کو پرکھنے کے بجائے حق کے ذریعے شخصیات کے پرکھنے کو ترجیح دینا ہوگی، ہم مانتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے اپنے دور میں سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے خلاف اٹھنے والے خارجی فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کرکے حضرت مجدد الف ثانی کی طرح مجددانہ کردار کیا، جسے آپ کے بعد آپ کے خلفاءو عقیدت مندوں نے جاری رکھا،مگرغلو اور لوگ شدت پسندی میں کچھ لوگ اِس قدر آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے بریلویت،رضویت اور مسلک اعلیٰ حضرت کو ہی سنیت کی پہچان وعلامت بنالیا اور اِس حقیقت سے صرف نظر کرلیا کہ مولانا احمد رضا خان سے قبل بھی السواد اعظم اہلسنّت وجماعت کے ماننے والے سنّی حنفی موجود تھے ،ہیں اور رہیں گے۔
آج فروعی مسائل میں تشدد آمیزرویہ اور صرف اپنے فکری رویوں کی صالحیت پر اصرار نے ہمارے آپسی اتحاد کو پارہ پارہ کردیاہے، فضائل ومناقب ، کرامات و تصرفات، شفاعتوں اور بشارتوں کا بیان اور اُن کی غیر ضروری تلقین ہماری اوّلین ترجیجات بن گئیں،قول وفعل کے تضاد سے معاشرے میں بے عملی ، منافقت اور تضادات کوپنپنے کا موقع ملا، جذباتی رویئے نے غیر سنجیدگی ،بے مقصد چیخ و پکاراور وقتی جذباتیت کو پروان چڑھایا،جس کا نتیجہ تنظیمی لامرکز یت کی شکل میں سامنے آیا،یوںاہلسنّت کے بنیادی مسائل سے ہماری توجہات ہٹ گئیں ،جس نے تعلیم یافتہ اور باشعور طبقے کو ہم سے دور کردیا، لہٰذا وقت کا تقاضہ ہے کہ مختلف ناموں پر مبنی گروپوں، تنظیموں اور جماعتوں میں تقسیم” سنّی“ اہلسنّت وجماعت کے صرف ایک جامع الصفات نام کو اختیار کریں اور اِس شدت سے اِس پر کاربند ہوجائیں کہ ہٹلر کے پروپیگنڈا چیف جوزف گوئبلز کے منافقانہ فکروفلسفہ کی دھول چھٹ جائے،ہماری نہایت ادب کے ساتھ تمام اکابرین ِملت،علمائے دین ِمتین،مشائخ ِعظام،قائدین جماعت وتنظیم ،اہل علم و دانش اور عوام اہلسنّت سے استدعا ہے کہ ِاس صورتحال پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کریں،اپنی کوتاہی، لاپروائی اور کمزوری کو سامنے لائیں اور وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے باہم متحد ومنظم ہوکرجھوٹ کی اِس حاشیہ آرائی کے خلاف صف آراءہوں اور ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں،یاد رکھیںکہ اِسی میں اصل اہلسنّت وجماعت کے نظریاتی تشخص، تنظیمی بقاءاورمستقبل کی بااثرسیاسی ومذہبی قوت ہونے کا راز مضمر ہے۔وگرنہ تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭
حوالہ جات:۔
(1)برعظیم پاک وہند کی ملت اسلامیہ،ص 53۔از ڈاکٹر اشیاق حسین قریشی
(2)برصغیر میں افتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 23۔از،مبارک حسین مصباحی
(3)ردروافض ،ص9-10 بحوالہ ،برصغیر میںافتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 84-85۔از،مبارک حسین مصباحی
(4)مولانا اسمعٰیل دہلوی اور تقویة الایمان،ص 9۔از،مولانا ابوالحسن زید احمد فاروقی
(5)انوار الباری جلد نمبر11،ص 107۔از ،مولویاحمدرضا بجنوری
(6)مولوی ندیم الواجدی ،افکار ملی جون 2001،ص22
(7)مقالات سرسید جلد نہم،ص 187،سر سید احمد خان)
(8)العلامہ فضل الحق خیرآبادی،ص187-188،المکتبة القادریہ لاہور۔از،ڈاکٹر قمرالنسائ
(9)تحریک ختم نبوت،ص19۔از،آغا شورش کاشمیری
(10)سعید الرحمن علوی ،سابق مدیر ہفت روزہ خدام الدین لاہور، بحوالہ ،برصغیر میںافتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 55۔از،مبارک حسین مصباحی
(11)اقبال کے حضور ،ص 262۔از،نذیر نیازی
(12)اہلسنّت کی آواز 1998،ص248-249مطبوعہ مارہرہ شریف
(13)مولانا انوار اللہ فاروقی،مقالہ پی ایچ ڈی ص 138،ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر،مطبوعہ مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد
(14)موج کوثر ،طبع ہفتم 1966،ص 70،از۔شیخ محمد اکرام
(15)البریلویة ،ص7،از۔احسان الٰہی ظہیر
(16)شمع توحید مطبوعہ سرگودھا،ص 40،از۔ثنااللہ امرتسری
(17)ترجمان وہابیہ،ص10،از۔نواب صدیق حسن بھوپالی
(18)البریلویة ،ص 7۔از،احسان الٰہی ظہیر
(19)تقدیم، دور حاضر میں بریلوی اہل سنت کا علامتی نشان،ص 10-11 مکتبہ حبیبیہ لاہور
(20)اشرف السوانح ،حصہ اوّل،ص 76۔از،اشرف علی تھانوی
(21)الاضافات الیومیہ جلد 5ص 67۔از ،اشرف علی تھانوی
(22)اشرف السوانح،حصہ اوّل،ص 45۔از،اشرف علی تھانوی
(23)رسالہ اہلسنّت والجماعت ،ص8،دارالمصنفین اعظم گڑھ
(24)الفقیہ امرتسر 21اگست 1945ص 9(تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ،ص 43۔از، محمد جلال الدین قادری)
قومی و ملی تاریخ کے ساتھ اِس سے بڑی بدیانتی اور کیا ہوگی کہ مخالفین پاکستان قیام پاکستان کی جدوجہد میں قومی ہیروز قرار پائیں اور معماران تحریک کی حیات وخدمات پر جھوٹ و تعصب کے پردے ڈال کرانہیں گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا جائے،تاریخ کو بدلنے اور حقائق کو مسخ کرنے کا یہ کھیل آج بھی جاری ہے،کل تک جولوگ دیوبندی اور وہابی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے،آج وہ لوگ اہلسنّت وجماعت ہونے کے دعویدار ہیں،یہ سب کیوں اور کیسے ہوا۔؟ یہ لوگ کون ہیں۔؟ کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔؟ اوراِن کی پرورش و آبیاری کس نے کی۔؟آئیے ذیل میں اِن عوامل کا جائزہ لیتے ہیں۔
سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں”سندھ میں جو عرب فاتح آئے وہ سنّی تھے۔(1)تاریخ کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ” ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد پانچویں چھٹی صدی ہجری تک یہاں آنے والے اور اسلام قبول کرنے والے صرف اور صرف اہلسنّت وجماعت تھے،اُس زمانے میں سنیت اور حنفیت کا دور دورہ تھا،سارے علماءومشائخ سنی حنفی تھے......پھر مغل سلاطین کی فوج میں کچھ شیعہ یہاں آئے اور رفتہ رفتہ انہوں نے قدم جمانا شروع کیا۔“ (2)حضرت امیر خسرواپنے فارسی اشعار میں ہندوستان کے اسلامی احوال وکوالف کی منظر کشی کرتے ہیں ، جسے نقل کرتے ہوئے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ارشاد فرماتے ہیں۔”ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد قریب پانچ سو برس تک اہلسنّت و جماعت کی بہاریں رہیں اور کوئی فرقہ بندی نہیں ہوئی“(3)یہ صورتحال حضرت مجدد الف ثانی کے زمانے تک قائم رہی اور”حضرت مجدد (الف ثانی)کے زمانے سے 1240ھ/ 1825ءتک ہندوستان کے مسلمان دو فرقوں میں بٹے رہے،ایک اہلسنّت وجماعت ،دوسرا شیعہ۔اب اسمعٰیل دہلوی نے تقویة الایمان لکھی،اِس کتاب سے مذہبی آزاد خیالی کا دور شروع ہوا،کوئی غیر مقلد ہوا،کوئی وہابی بنا،کوئی اہلحدیث کہلایا،کسی نے اپنے آپ کو سلفی کہا،آئمہ مجتہدین کی جو منزلت اور احترام دل میں تھا،وہ ختم ہوا،معمولی نوشت وخواند کے افراد امام بننے لگے اور افسوس اِس بات کا ہے کہ توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہ نبوت کی تعظیم واحترام میں تقصیرات(بے ادبی وگستاخی) کا سلسلہ شروع کردیا،یہ ساری قباحتیں 1240ھ/ 1825ءکے بعد ظاہر ہونا شروع ہوئی ہیں۔“(4
تقویة ایمان کی اِس شرانگیزیری پراشک ندامت بہاتے ہوئے دیوبندی مکتبہ فکر کے مولوی احمد رضا بجنوری رقم طراز ہیںکہ”افسوس ہے کہ اِس کتاب”تقویة الایمان “کی وجہ سے مسلمانان پاک وہند جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریباً نوے فیصد حنفی المسلک ہیں دو گروہوں میں بٹ گئے ۔“(5)یوںشیعیت کے بعد نجد کا فتنہ وہابیت(جو شیخ ابن تیمیہ حرانی اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کے افکار ونظریات کا مجموعہ ہے) اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان میں نمودار ہوا اور اسمعٰیل دہلوی کی رسوائے زمانہ کتاب”تقویة الایمان“اِس فتنے کے فروغ کا ذریعہ بنی۔” انگریز وں نے اتباع سنت اور عمل بالحدیث کے نام پر شروع ہونے والی ایک ایسی تحریک کی سرپرستی کی جو دراصل فقہ میں آزاد نہ روش کی خواہش رکھتی تھی ،اُسے کسی ایک امام مجتہد کی فقہ کی پابندی میں جکڑا رہنا گوارا نہیں تھا۔“(6
درحقیقت تقویة ایمان انگریزوں کے اشارے پر تفریق بین المسلمین کیلئے منظر عام پر آئی ،جولڑاو ¿ اور حکومت کروکے آزمودہ حربے کا شاخسانہ تھی، انگریز کی ایماءپر مسلمانوں کے درمیان ہنگامہ اور فتنہ وفساد پھیلانے والی ”اِس کتاب کو1838ءمیں رائل ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ(جس نے اِس سے قبل 1825ءمیں اِس کتاب کا انگریزی ترجمہ لندن کے رسالہ جلد12میں شائع کیا تھا) نے ہزاروں کی تعداد میں چھپواکر مفت تقسیم کیا ۔“(7) پروفیسر محمد شجاع الدین صدر شعبہ تاریخ ،دیال سنگھ کالج اِس بات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”انگریزوں نے تقویة الایمان مفت تقسیم کی۔“ (8)آغا شورش کاشمیری اِس تاریخی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیںکہ ”انگریز اپنی چال میں کامیاب رہا....کہ مسلمانوں کی ملی وحدت پارہ پارہ ہو،اُس کی شکل یہ نکالی کہ بعض نئے فرقوں کو جنم دیا،انہیں پروان چڑھایا،اُن کا ہاتھ بٹایا۔(9) اِس طرح تقویة الایمان کے بطن سے پیدا ہونے والی وہابیت نے برصغیر میں ”اہلحدیث، نیچریت،چکڑالویت،انکار حدیث اور قادیانیت سمیت اکثر و بیشتر فرقوں کی بنیاد رکھی ۔“(10) شاعر مشرق علامہ اِس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”قادیان اور دیوبند اگرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن دونوں کا سرچشمہ ایک ہے اور دونوں اُس تحریک کی پیداوار ہیں جسے عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے۔“(11
جامعہ ملیہ دہلی کے استاد ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم کے بقول ”تقویة الایمان کے بعد اختلافات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ سواداعظم سے نکل نکل کر لوگ مختلف خیموں میں داخل ہونے لگے اور اِس طرح سواد اعظم کا شیرازہ منتشر ہوگیا،اِس انتشار کی روک تھام اور اہلسنّت کی شیرازہ بندی کیلئے روہیل کھنڈ کے شہر بریلی کے ایک فاضل عالم نے عزم مصمم کیا،یہ فاضل عالم تھے، مولانا احمد رضا خاں،جوامام اہلسنّت مجدد دین وملت فاضل بریلوی کے نام سے معروف و مشہور ہوئے۔“(12)ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر پونا یونیورسٹی سے ”مولانا محمد انوار اللہ فارقی حیدرآبادی “پر پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھتے ہیں”کئی ایسے مذہبی دانشور اور مفکر بھی آئے جنھوں نے مسلمانوں کی دینی اور مسلکی رہنمائی میں اپنی تصانیف کے ذریعہ مجددانہ اورمجاہدانہ کردار پیش کیا،اِن مصلحین میں مولانا احمد رضا فاضل بریلوی نامور ہوئے۔“(13
اَمر واقعہ یہ ہے کہ فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خاں السواد اعظم اہلسنّت وجماعت سنی حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے ،خوددیوبندی مکتبہ فکر کے مورخ سید سلیمان ندوی حیات شبلی صفحہ 8پر تسلیم کرتے ہیں کہ ” تیسرا فریق وہ تھا جو شدت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنة کہتا رہا،اِس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماءتھے۔“شیخ محمد اکرام کے بقول ”انہوں(مولانا احمدرضا خاں)نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی۔“(14)خود اہلحدیث مولوی احسان الٰہی ظہیر نے لکھا کہ”یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے ، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے۔“(15)جبکہ ثنا اللہ امرتسری کا کہنا ہے کہ ”اَسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اِسی خیال کے تھے ،جن کو آج بریلوی خیال کیا جاتا ہے۔“(16)نواب صدیق حسن بھوپالی اہلحدیث نے اقرار کیاکہ ”خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے،اُس وقت سے آج تک یہ لوگ حنفی مذہب پر قائم رہے اور ہیں۔“ (17
قارئین محترم !درج بالا چند حوالہ جات جو زیادہ تر مخالف مکتبہ فکر کے مشہور افراد کی کتابوں سے نقل کیے گئے ہیں کو دیکھ کر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں السواداعظم اہلسنّت و جماعت سنّی حنفی جسے مخالفین آج بریلوی کہتے ہیں، وہ قدیم ترین جماعت ہے جس کی ابتداءاسلام کی آمد سے منسلک ہے ،شیعیت کے بعد وہابیت سمیت باقی تمام مکتبہ فکر اِس برعظیم میں بعد کی پیداوار ہیں،جبکہ مولانا احمد رضا خاں کا تعلق اُس مکتبہ فکر سے ہے جو شدت کے ساتھ قدیم سنی حنفی عقائدپر گامزن رہا،حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود مخالفین مولانا احمد رضا خاں پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ایک نئے مسلک کی بنیاد ڈالی ،جبکہ احسان الٰہی ظہیر کی کتاب کے صاحب مقدمہ شیخ عطیہ محمد سالم تسلیم کرتے ہیں کہ ”دنیا کے ہر خطے میں پائے جانے والے تمام قادری،سہروردی،نقشبندی ،چشتی،رفاعی وہی عقائد رکھتے ہیں جو بریلویوں کے ہیں“(18) یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے سب خطوں میں رہنے والے تمام قادریوں،سہروردیوں،نقشبندیوں ،چشتییوں اوررفاعیوں کے اگر وہی عقائد ہیں جو بریلویوں کے ہیں تو کیااِن سب کو مخالفین کے الزام کے مطابق بریلی کے نئے مسلک نے متاثر کیا اور کیا اِن سب نے بریلوی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنے عقائد و نظریات کو تبدیل کرلیا، یقیناعقل و شعورسے یہ تصور محال ہے اورکوئی بھی ذی علم اِس بات کی تائید اس لیے نہیں کرسکتا کہ مولانا احمد رضا خاںنے برصغیر میں کسی نئے مسلک کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ چودھویں صدی میں قدیم سنی حنفی عقائد کا دفاع کرتے ہوئے سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے خلاف اٹھنے والے نت نئے خارجی فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا، انہوں نے عظمت الوہیت، ناموس رسالت، مقام صحابہ و اہل بیت اور حرمت ولایت کا پہرا دیااور اپنی بے پایاں علمی و قلمی خدمات(جسے عرب و عجم کے علماءو ارباب علم ودانش نے بھی تسلیم کیا) کی وجہ سے اِس خطے میں وقت کے مجدد اوراہلسنّت وجماعت کا فخر وامتیاز قرار پائے۔
سیدمحمدمدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں” فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے ،از اوّل تا آخر مقلد رہے، اُن کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلام کوو اضح طور پر پیش کرتی رہی، وہ زندگی کے کسی گوشہ میں ایک پل کیلئے بھی ”سبیل مومنین صالحین“ سے نہیں ہٹے، اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں ،انہیں سلف صالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ”بریلوی“ کہہ دیا گیا تو کیا ”بریلویت “و” سنیّت“ کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا۔؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیاگیا ۔(19) حقیقت واقعہ یہ ہے کہ برصغیر میں نئے مسلک و عقیدے کی بنیاد ڈالنے والے دراصل وہی لوگ ہیںجو آج ”اہلسنّت وجماعت “ کا نام اختیار کرکے اپنی وہابی نسبت اور حوالوں کو چھپانا چاہتے ہیں اور بڑی چابک دستی سے اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی کا دکھایا ہوا تقیہ کا راستہ کہ”اپنی جماعت کی مصلحت کیلئے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان کیے جائیں تاکہ اپنے مجمع پر جو وہابیت کا شبہ ہے ،وہ دور ہو اور موقع بھی اچھا ہے کیونکہ اِس وقت مختلف طبقات کے لوگ موجود ہیں۔ “(20)اختیار کرکے حنفیت واہلسنّت ہونے کا دھوکہ دیتے ہیں،یہ وہی حکم الامت ہیں جو کہتے ہیں ”اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں ،پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں“(21)جواپنے عقیدے کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں”بھائی یہاں تو وہابی رہتے ہیں، یہاں نیاز فاتحہ کیلئے کچھ مت لایا کرو۔“(22
اَمرواقعہ یہ ہے کہ دنیا میں موجود چاروں فقہ” حنفی،شافعی،مالکی اور حنبلی“ کے ماننے والے لوگ جو کہ ہر خطے میں پائے جاتے ہیں،اہلسنّت وجماعت ہیں،اِن کے علاوہ باقی تمام مکتبہ فکر وہابی،اہلحدیث، اہل قرآن اور چکڑالوی وغیرہ خارج اہلسنّت شمار ہوتے ہیں، رہی دیوبندیت تو بقول علامہ اقبال وہ وہابیت کی ہی ایک شکل ہے جس نے بڑی چالاکی سے تقلید حنفی کا لبادہ اوڑھ کر سیدھے سادھے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کا وطیرہ اختیار کرلیا ہے، قارئین محترم ! اِس مقام پر بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہابی وخارجی عقائد کے رکھنے والے لوگ کون ہیں،کب وجود میں آئے اور اِن کے عزائم کیا ہیں،اب دیکھتے ہیں اہلسنّت وجماعت کی تعریف و پہچان کیا ہے، دیوبندی مورخ سید سلیمان ندوی اصل اہلسنّت وجماعت کی تعریف وپہچان بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں ” جن کے اعتقادات،اعمال اور مسائل کا محور پیغمبر علیہ السلام کی سنت ِصحیح اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اثرِمبارک ہے۔“ (23
رسول اللہ نے فرمایایہ”وہ راستہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔“حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا،”اللہ میری اُمت کو کبھی ضلالت پر جمع نہیں کرے گااور آپ نے فرمایا،نظم اجتماعی پر اللہ کا ہاتھ ہے،تو جو اُس سے الگ ہوا،شیاطین اُسے اچک لے جائیں گے،چنانچہ جب تم (اُس میں)اختلاف پاؤ تو (اُس کے ساتھ وابستہ رہنے کیلئے)سواد اعظم کی رائے کی پیروی کرو،
اِس لیے کہ جو الجماعۃ سے الگ ہوا،وہ دوزخ میں پڑا۔(مستدرک،کتاب العلم)،حضرت انس سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا”بیشک میری اُمت گمراہی پر متفق نہیں ہوگی،پس جب تم دیکھو کہ لوگ اختلاف میں مبتلا ہیں تو سواد اعظم (بڑی جماعت)کی پیروی کرو،(ابن ماجہ ،کتاب الفتن ، باب السواد الاعظم
یعنی اہلسنّت و جماعت وہی ہے جو رسول اﷲکی سنت پر عمل پیرا رہے، بدمذہبوں کی گمراہیوں سے کنارہ کش رہے اورجماعت سے وابستہ رہے اور جماعت سے مراد صحابہ کرام ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا ”ماانا علیہ واصحابی علیہ الیوم“۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے خلیفہ مولانا نعیم الدین مرادآبادی اِس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اپنے عہد کے حالات کے پیش نظر اہلسنّت وجماعت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں ”سنّی وہ ہے جو ماانا علیہ واصحابی کا مصداق ہو،یہ وہ لوگ ہیں جو خلفائے راشدین،ائمہ دین،مسلم مشائخ طریقت اور متاخر علمائے کرام میں سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی،ملک العلما حضرت بحرالعلوم فرنگی محلی،حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی، حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی، حضرت مولانا مفتی ارشاد حسین رامپوری اور حضرت مفتی شاہ احمد رضا خاں بریلوی کے مسلک پر ہوں“(24)اِن حوالوں سے ہمارا مدعا پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ دیوبندی اور وہابی تحریکوں سے قبل ہندوستانی علماءومشائخ اور مسلمان اپنے قدیم دینی مذہب اور متوارث روایات پر پوری سختی کے ساتھ کار بندرہے ، مولانا احمد رضا فاضل بریلوی کا تعلق بھی اِسی طبقے سے ہے۔
اِس وقت برصغیر میں امام احمد رضا خاں اور اُن کے مو ¿یدہزاروں علماءومشائخ کے عقائد ونظریات ہی اصل اہلسنّت وجماعت کے عقائد و نظریات ہیں،یہی جماعت سواد اعظم بھی ہے اور ارشاد رسول ”ماانا علیہ واصحابی“کی حقیقی مصداق بھی ہے،یہی وہ جماعت ہے جو ہردور میں راہ حق پر گامزن رہی اورآج بھی مسلمانوں کی عام اکثریت اِسی روش پر قائم ہے، مگرآج اغیار کے جھوٹ وفریب اور مکرودجل کی وجہ سے اصل اہلسنّت وجماعت کی شناخت و تشخص اور نظریاتی بقاءسوالیہ نشان بنی ہوئی ہے،اِس صورتحال پر نوجوان اسکالر خوشتر نورانی کے اٹھائے ہوئے سوالات قابل غورو توجہ ہیں آپ لکھتے ہیں” آخر اہلسنّت و جماعت کی مذہبی ومسلکی سرگرمیوں میں کہاں چوک ہوگئی کہ 1240ھ (1824ئ) میں جس جدید نظرئیے کے مویدین دو تھے،1280ھ(1863ئ) میں اُن کی تعداد پورے پنجاب میں دس بھی نہیں تھی، لیکن1302ھ(1884ئ) آتے آتے یہ تعداد برصغیر کے مسلمانوں کے چوتھائی حصے میں تبدیل ہوگئی اور اب یہ فرقہ متحدہ ہندوستان کی بڑی آبادی کی خوش عقیدگی کو نگلنے کیلئے بے تاب ہے،آخر اہلسنّت وجماعت کے رویوں میں کیا کمی رہ گئی کہ مسلکی سطح پر اُن کی پوزیشن اقدامی سے دفاعی ہوگئی اور وہ ”اہل سنت وجماعت“ کی بجائے ”بریلوی“ کہنے اور کہلانے لگے۔؟
ماہنامہ جام ِنور، اکتوبر نومبر 2007ءکے شمار وں میں محقق و اسکالر ذیشان احمد مصباحی نے اپنے تفصیلی فکر انگیز مضمون میں اہلسنّت کو مشورہ دیا تھا کہ” حالات کا تقاضا اور مصلحت یہ ہے کہ ہمیں بریلوی لفظ اور مسلک اعلیٰ حضرت کے استعمال سے اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ اِس سے مخالفین کے اِس پروپیگنڈا کو تقویت ملتی ہے کہ ” بریلوی “ ایک نیا فرقہ اور مسلک ہے، جس کے بانی مولانا احمد رضا خان ہیں،علامہ ذیشان احمد مصباحی کے مطابق ہمیں ” بریلوی “ مشہور کر کے مخالفین خود کو اہل سنت کہنے لگے ہیں۔“ جس کے بعد رہی سہی کسر پروپیگنڈہ مشینری نے پوری کردی اور جس کے اثرات آج ہر جگہ محسوس کیے جا سکتے ہیں، غریب سے امیر تک، تعلیم یافتہ سے جاہل عوام تک ہر ایک پر یہ جادو چل گیا ہے اور وہ اصل اہلسنّت وجماعت سے دور ہونے لگے ہیں۔گستاخی معاف مگر توجہ دلائے گئے پہلواصلاح عمل کے متقاضی ہیں،جب سے ہم اہلسنّت وجماعت کے نام کو ترک کرکے چھوٹی چھوٹی تنظیموں، جماعتوں، اداروں اور گروہوں میں منقسم ہوکر کمزورہوتے چلے گئے ، اغیار نے ہماری اُس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ہم سے ہماری شناخت و پہچان حتٰی کہ ہمارا نام بھی ہتھیانے کی کوششیں شروع کردیں،اب ہم لاکھ اصل اہلسنّت وجماعت ہونے کا دعویٰ کرتے رہیں،عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بیانات دیتے رہیں یا مساجد و جلسہ گاہوں سے تردیدی تقریریں کرتے رہیں،صورتحال اُس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم اہلسنّت کے دفاع، اُس کے تحفظ اور اشاعت کیلئے اپنے علمی وفکری دستوں کی ترجیحات تبدیل نہیں کرتے۔
ہمیں شخصیت پرستی کے دائروںسے باہر نکلنا ہوگا اورشخصیات کی بنیاد پر حق کو پرکھنے کے بجائے حق کے ذریعے شخصیات کے پرکھنے کو ترجیح دینا ہوگی، ہم مانتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے اپنے دور میں سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے خلاف اٹھنے والے خارجی فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کرکے حضرت مجدد الف ثانی کی طرح مجددانہ کردار کیا، جسے آپ کے بعد آپ کے خلفاءو عقیدت مندوں نے جاری رکھا،مگرغلو اور لوگ شدت پسندی میں کچھ لوگ اِس قدر آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے بریلویت،رضویت اور مسلک اعلیٰ حضرت کو ہی سنیت کی پہچان وعلامت بنالیا اور اِس حقیقت سے صرف نظر کرلیا کہ مولانا احمد رضا خان سے قبل بھی السواد اعظم اہلسنّت وجماعت کے ماننے والے سنّی حنفی موجود تھے ،ہیں اور رہیں گے۔
آج فروعی مسائل میں تشدد آمیزرویہ اور صرف اپنے فکری رویوں کی صالحیت پر اصرار نے ہمارے آپسی اتحاد کو پارہ پارہ کردیاہے، فضائل ومناقب ، کرامات و تصرفات، شفاعتوں اور بشارتوں کا بیان اور اُن کی غیر ضروری تلقین ہماری اوّلین ترجیجات بن گئیں،قول وفعل کے تضاد سے معاشرے میں بے عملی ، منافقت اور تضادات کوپنپنے کا موقع ملا، جذباتی رویئے نے غیر سنجیدگی ،بے مقصد چیخ و پکاراور وقتی جذباتیت کو پروان چڑھایا،جس کا نتیجہ تنظیمی لامرکز یت کی شکل میں سامنے آیا،یوںاہلسنّت کے بنیادی مسائل سے ہماری توجہات ہٹ گئیں ،جس نے تعلیم یافتہ اور باشعور طبقے کو ہم سے دور کردیا، لہٰذا وقت کا تقاضہ ہے کہ مختلف ناموں پر مبنی گروپوں، تنظیموں اور جماعتوں میں تقسیم” سنّی“ اہلسنّت وجماعت کے صرف ایک جامع الصفات نام کو اختیار کریں اور اِس شدت سے اِس پر کاربند ہوجائیں کہ ہٹلر کے پروپیگنڈا چیف جوزف گوئبلز کے منافقانہ فکروفلسفہ کی دھول چھٹ جائے،ہماری نہایت ادب کے ساتھ تمام اکابرین ِملت،علمائے دین ِمتین،مشائخ ِعظام،قائدین جماعت وتنظیم ،اہل علم و دانش اور عوام اہلسنّت سے استدعا ہے کہ ِاس صورتحال پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کریں،اپنی کوتاہی، لاپروائی اور کمزوری کو سامنے لائیں اور وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے باہم متحد ومنظم ہوکرجھوٹ کی اِس حاشیہ آرائی کے خلاف صف آراءہوں اور ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں،یاد رکھیںکہ اِسی میں اصل اہلسنّت وجماعت کے نظریاتی تشخص، تنظیمی بقاءاورمستقبل کی بااثرسیاسی ومذہبی قوت ہونے کا راز مضمر ہے۔وگرنہ تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭
حوالہ جات:۔
(1)برعظیم پاک وہند کی ملت اسلامیہ،ص 53۔از ڈاکٹر اشیاق حسین قریشی
(2)برصغیر میں افتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 23۔از،مبارک حسین مصباحی
(3)ردروافض ،ص9-10 بحوالہ ،برصغیر میںافتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 84-85۔از،مبارک حسین مصباحی
(4)مولانا اسمعٰیل دہلوی اور تقویة الایمان،ص 9۔از،مولانا ابوالحسن زید احمد فاروقی
(5)انوار الباری جلد نمبر11،ص 107۔از ،مولویاحمدرضا بجنوری
(6)مولوی ندیم الواجدی ،افکار ملی جون 2001،ص22
(7)مقالات سرسید جلد نہم،ص 187،سر سید احمد خان)
(8)العلامہ فضل الحق خیرآبادی،ص187-188،المکتبة القادریہ لاہور۔از،ڈاکٹر قمرالنسائ
(9)تحریک ختم نبوت،ص19۔از،آغا شورش کاشمیری
(10)سعید الرحمن علوی ،سابق مدیر ہفت روزہ خدام الدین لاہور، بحوالہ ،برصغیر میںافتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 55۔از،مبارک حسین مصباحی
(11)اقبال کے حضور ،ص 262۔از،نذیر نیازی
(12)اہلسنّت کی آواز 1998،ص248-249مطبوعہ مارہرہ شریف
(13)مولانا انوار اللہ فاروقی،مقالہ پی ایچ ڈی ص 138،ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر،مطبوعہ مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد
(14)موج کوثر ،طبع ہفتم 1966،ص 70،از۔شیخ محمد اکرام
(15)البریلویة ،ص7،از۔احسان الٰہی ظہیر
(16)شمع توحید مطبوعہ سرگودھا،ص 40،از۔ثنااللہ امرتسری
(17)ترجمان وہابیہ،ص10،از۔نواب صدیق حسن بھوپالی
(18)البریلویة ،ص 7۔از،احسان الٰہی ظہیر
(19)تقدیم، دور حاضر میں بریلوی اہل سنت کا علامتی نشان،ص 10-11 مکتبہ حبیبیہ لاہور
(20)اشرف السوانح ،حصہ اوّل،ص 76۔از،اشرف علی تھانوی
(21)الاضافات الیومیہ جلد 5ص 67۔از ،اشرف علی تھانوی
(22)اشرف السوانح،حصہ اوّل،ص 45۔از،اشرف علی تھانوی
(23)رسالہ اہلسنّت والجماعت ،ص8،دارالمصنفین اعظم گڑھ
(24)الفقیہ امرتسر 21اگست 1945ص 9(تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ،ص 43۔از، محمد جلال الدین قادری)
No comments:
Post a Comment