بعض دانشور اور اہل علم حکومت کی خوشنودی حاصل کرکے لقب و خطاب حاصل کرتے
ہیں اور بعض حکومتی علمی، ادبی، اور سماجی ادارے ان کے کارناموں کی وجہ سے
لقب وخطاب عطا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی طرح لقب و
خطاب یا نام و نمود کی پرواہ نہیں کرتے ، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو بے
نام و نشان سمجھتےہیں، انہیں مٹانے والے خود مٹ جاتے ہیں اور جن کے عشق میں
یہ بے نام و نشان لوگ مٹ جاتے ہیں وہ انہیں ایسا چمکاتے ہیں اور ایسا نام و
نشان عطا کرتے ہیں کہ انکی چمک اور ان سے ضیاء حاصل کرنے والے ذرے بھی
آفتاب و ماہتاب بن جاتے ہیں اور ان کے نام لیوا شہرت و ناموری کے بام رفعت
پر کمندیں ڈالتے ہیں اور آسمان شہرت پر اپنی عظمت کا پھریرہ لہراتے ہیں ۔ ایسی
ہی شخصیتوں میں ایک شخصیت اسلامی چودھویں صدی کے عظیم مجدد، بریلی کے فاضل
امام احمد رضا نور اللہ مرقدہ کی بھی ہے ان کی حیات ظاہری میں عجم ہی نہیں
بلکہ عرب کے مشاہیر نے ایک سے بڑھکر ایک باوقار، پاکیزہ اور حسن القاب
وآداب سے یاد کیا اور آج بھی ناموران زمانہ انہیں گراں قدر مطہر اور منور
القاب سے یاد کرتے چلے جا رہے ہیں، حالانکہ انہوں نے خود کو سدا بے نام و
نشان ہی سمجھا۔ لیکن یہ بھی یقین تھا کہ
بے نشانوں کا نشان مٹتا نہیں
مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا
یہ تو امام احمد رضا کا انکسار تھا ورنہ امام کا نام تو حق و باطل کے
درمیان امتیاز پیدا کرنے والی کسوٹی ہے، اگر امام احمد رضا کا نام سن کر
چہرے پر خوشی طاری ہو جائے تو سمجھ لیجئے غلام مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ہے اور اگر پیشانی پر کوئی شکن آ جائے تو جان جائیے کہ بد مذہب اور
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
اور وہ امام ہیں ۔ ‘‘اعلٰی حضرت‘‘
جو حقیقتاً ان کا نام نہیں بلکہ لقب ہے۔ لیکن امام کا علم بن کر رہ گیا۔
اور ان کے نام نامی اسم گرامی کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اور آج جب بھی لفظ
‘‘اعلٰی حضرت‘‘ سماعت کے جہان میں داخل ہوتا ہے تو ذہن رام پور یا حیدر
آباد کے نوابین یا کسی اور شخصیت کی طرف نہیں جاتا بلکہ بریلی کے فاضل امام
احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ ہی کی طرف مبذول ہو جاتا ہے۔
1:- لقب اعلٰی حضرت کی تحقیق
یہ بات کلی طور پر پایہ تحقیق کو نہیں پہنچ سکی کہ امام احمد رضا رحمۃ
اللہ علیہ کو پہلی بار کب اور کس نے اعلٰی حضرت کہا - البتہ یہ بات ضرور
ثابت ہے کہ انہیں ان کی حیات میں ہی اعلٰی حضرت کہا، اور لکھا جانے لگا
تھا، تحفہ حنفیہ پٹنہ کے شماروں سے پتہ چلتا ہے کہ 1323 ء سے آپ کے لئے
‘‘اعلٰی حضرت‘‘ لکھا جانا شروع ہوا۔ تحفہ حنفیہ جلد 9 پرچہ نمبر 4 بابت ماہ
ربیع الآخر 1323 ء میں امام احمد رضا احمد رحمۃ اللہ علیہ کے لئے ‘‘مجدد
مائۃ حاضرہ، موئید ملت طاہرہ، جامع معقول و منقول، حاوی فروغ و اصول، عالم
اہلسنت ، اعلٰیحضرت، اعلم علمائے زماں، مولانا مولوی احمد رضا خاں صاحب مد
ظلہ رب العالمین وصانہ عن شرور الحاسدین لکھا گیا۔
فتاوٰی رضویہ کی مختلف جلدوں میں بھی امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو
ان کے مریدین نے ‘‘اعلٰی حضرت‘‘ لکھا ہے۔ ( فتاوٰی رضویہ جلد ششم، رسالہ
حجب العوار عن مخدوم بہار اور ‘‘اعلٰی حضرت ‘‘ کے ساتھ عظیم البرکت بھی
لکھا گیا ہے۔ ممکن ہے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو 1323 ھ 1905 ء سے
پہلے بھی ‘‘اعلٰی حضرت‘‘ کہا گیا ہو۔ کیونکہ انہیں 1318ھ 1900ء میں پٹنہ کے
روندوہ کے اجلاس میں پہلی بار حضرت علامہ مولانا عبد المقتدر بدایونی علیہ
الرحمہ نے مشاہیر علماء فضلاء کی موجودگی میں مجدد کہا تھا الفاظ اس طرح
ہیں۔
جناب عالم اہلسنت، مجدد مائۃ حاضرہ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب
بریلوی ( دبدبہ سکندری رام پور 11 اکتوبر 1948ء ص 5 ‘‘‘ چودھویں صدی کے
مجدد‘‘‘ از ملک العلماء علامہ ظفر الدین قادری ص 11 )
بہر حال اگر امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو اعلٰی حضرت کہا گیا تو
1388ھ کے بعد ہی کہا گیا ۔ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے لئے اعلٰی
حضرت کہے جانےپر حاسدین و اعدائے دین کو سخت اعتراض ہے ۔ حالانکہ ظالمان
زمانہ نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب کو اعلٰی حضرت کہا اور لکھا ہے۔
اور عاشق الہٰی میرٹھی نے اپنی تالیف تذکرۃ الخلیل میں مولوی خلیل احمد
انبیٹھوی کو اعلٰی حضرت لکھا ہے۔ یہی دنیا ساز دین کے دشمن رام پور اور
حیدر آباد کے نوابین کو تو بڑے فخر سے اعلٰی حضرت کہا کرتے تھے۔ لیکن جب
ایک غیرت مند عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ایک غلام مصطفٰٰی، عبد
المصطفٰی امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو ‘‘اعلٰی حضرت‘‘ کہا جاتا ہے تو
جل اٹھتے ہیں۔
‘‘اعلٰی حضرت‘‘ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ایسا نام اور آپ کی
ایسی پہچان بن گیا ہے۔ جو امر ہے۔ زندہ ہے۔ اور رہتی دنیا تک چودھویں صدی
ہجری کے اس مجدد عاشق مصطفٰی اور عبد المصطفٰی کو زمانہ ‘‘اعلٰی حضرت‘‘ کہہ
کر یاد کرتا رہے گا۔
2:-مجدد:-
ویسے تو کوئی لقب نہیں۔ بلکہ ایک منصب ہے اور صدی کے علماء اور مشائخ اس
کو مجدد تسلیم کرتے ہیں۔ جو کارنامہ تجدید انجام دیتا ہے۔ امام احمد رضا
رحمۃ اللہ علیہ نے تو کارنامہ تجدید کی شاہراہ پر چودہ سال کی عمر بارہ سو
چھیاسی ہی میں ہی قدم رکھ دیا تھا اور تیرہ سو ایک ہجری لگتے ہی اپنی اپنی
منزل پالی تھی، البتہ اس کے اٹھارہ سال بعد تیرہ سو اٹھارہ ہجری میں ان کی
مجدیت کا اعلان سب سے پہلے حضرت مولانا عبد المقتدر صاحب علیہ الرحمۃ بے
کیا۔
برادر زادہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ مولانا حسنین رضا خان رحمۃ اللہ
علیہ لکھتے ہیں !
‘‘اعلٰی حضرت قبلہ کے فیضان مجددیت کا ظہور 1301ھ کے آغاز سے ہوا۔ یہ
واقعہ ذرا تفصیل طلب ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے چچا مولوی محمد شاہ خان صاحب
عرف متھن خان صاحب مرحوم سودا گری محلّہ کے قدیمی باشندے تھے۔ اعلٰی حضرت
سے ایک سال عمر میں بڑے تھے۔ بچپن ساتھ گزرا۔ ہوش سنبھالا تو ایک ہی جگہ
نشست و برخاست رہی۔ ایسی حالت میں آپس میں بے تکلف ہونا ہی تھا۔ میں نے
اپنے ہوش سے انہیں اعلٰٰی حضرت قبلہ کی صحبت میں خاموش اور مؤدب ہی بیٹھے
دیکھا۔ انہیں اگر کوئی مسئلہ دریافت کرنا ہوتا تو دوسروں کے ذریعہ دریافت
کراتے۔ میں مدتوں سے ہی یہی دیکھ رہا تھا ایک روز میں نے چچا سے عرض کیاکہ
اعلٰٰی حضرت تو آپ کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہیں ان سے اس قدر کیوں جھجکتے ہیں
کہ مسئلہ نہیں دریافت کر سکتے؟
انہوں نے فرمایا کہ ہم اور وہ بچپن سے ساتھ رہے ہوش سنبھالا تو نشست و
برخاست ایک ہی جگہ ہوتی۔ نماز مغرب پڑھ کر ہمارا معمول تھا کہ ان کی نشست
میں آ بیٹھتے، سّید محمود شاہ صاحب وغیرہ چند ایسے احباب تھے کہ وہ بھی اس
صحبت میں روزانہ شرکت کرتے۔ عشاء تک مجلس گرم رہتی ۔ اس مجلس میں ہر قسم کی
باتیں ہوتیں تھیں۔ علمی مذاکرے ہوتے تھے۔ دینی مسائل پر گفتگو ہوتی اور
تفریحی قصّے بھی ہوتے۔
جس دن محرم 1301ھ کا چاند ہوا اس دن حسب معمول ہم سب بعد مغرب اعلٰی
حضرت کی نشست میں آگئے۔ اعلٰی حضرت خلاف معمول کسی قدر دیر سے پہنچے، حسب
معمول سلام علیک کے بعد تشریف رکھی اور لوگ بھی تھے۔ مجھے مخاطب کر کے
فرمایا!
کہ متھن بھائی جان آج 1301 ھ کا چاند ہو گیا، میں نے عرض کیا کہ میں
نے بھی دیکھا، بعض ساتھیوں نے چاند دیکھنا بیان کیا۔ پھر فرمایا ! بھائی
صاحب یہ تو صدی بدل گئی میں نے بھی عرض کیا کہ صدی تو بیشک بدل گئی۔ خیال
کیا تو واقعی اس چاند سے چودھویں صدی شروع ہوئی تھی اس پر فرمایا کہ اب ہم
اور آپ کو بھی بدل جانا چاہئے۔
یہ فرمانا تھا کہ ساری مجلس پر ایک سکوت کا عالم طاری ہو گیا اور ہر شخص
اپنی جگہ بیٹھا رہ گیا پھر کسی کو بولنے کی ہمت نہ ہوئی، کچھ دیر سب خاموش
بیٹھے رہے۔ اور سلام علیک کر کے سب فرداً فرداً چلنے لگے۔ اس وقت تو کوئی
بات نہ سمجھ میں نہ آئی ۔ کہ یکایک اس رعب چھا جانے کا سبب کیا ہوا۔ دوسرے
روز جب بعد نماز فجر سامنا ہوا اور ان کے مجددانہ رعب و جلال سے واسطہ پڑا
تو یاد آیاکہ انہوں نے جو بدلنے کو کہا تھا وہ خدا کی قسم ایسے بدلے کہ
کہیں سے کہیں پہنچ گئے
اور ہم جہاں تھے وہیں رہے ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن کہ ہمیں ان سے بات کرنے
کی ہمت ہی نہیں ہوئی ۔ بلکہ اس اہم تبدیلی ہم نے تنہائی میں بارہا غور بھی
کیا تو بجز اس کے کوئی بات سمجھ نہ آئی ۔ کہ ان میں من جانب اللہ اس دن سے
کوئی بڑی تبدیلی کر دی گئ ہے ، جس نے انہیں بہت اونچا کر دیا ہے ۔ اور ہم
جس سطع پر پہلے تھے وہیں اب بھی ہیں ۔ ہاں !
جب دنیا انہیں مجدد المائۃ الحاضرہ کے نام سے پکارنے لگی تو سمجھ میں آیا
کہ وہ تبدیلی یہ تھی جس نے اتنے روز حیران ہی رکھا ۔ یہ تھی وہ تاریخ جس
میں موجودہ صدی کا مجدد بنایا گیا اور مجددیت کا منصب جلیل عطا ہوا اور
ساتھ ہی ساتھ وہ رعب عطا ہوا جو اسی تاریخ سے محسوس ہونے لگا۔ ( سیرت اعلٰی
حضرت ص 61،62 )
پٹنہ کے اجلاس 1418 ھ 1911 ء میں مشاہیر علماء وفضلاء کی موجودگی میں
حضرت مولانا عبدالمقتدر بدایونی علیہ الرحمۃ نے امام احمد رضا کو مجدد
فرمایا اور سب نے اس لقب کو بہ طیب خاطر قبول کیا ۔ 1324 ھ 1905 ء میں جب
امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ دوسرے حج اور زیارت کےلئے تشریف لے گئے تو
حرمین شریفین کے متعدد علماء کرام و مشائخ عظام نے انہیں مجدد کہا ۔
چند اسماء حسب ذیل ہیں --!
سید اسماعیل بن خلیل رحمۃ اللہ علیہ محافظ کتب حرم
اگر اس کے حق میں یہ کہا جائے کہ وہ اس صدی کا مجدد ہے تو البتہ یہ حق و صحیح ہو ( حسام الحرمین ص 52 )
2:- ہمارے شیخ علامہ مجدد جو علی العموم تمام استاذوں کے شیخ ہیں
‘‘مولوی احمد رضا‘‘ ( الدولۃ الملکیہ ص 7 اردو ترجمہ )
علاوہ اس کے سید حسین بن علامہ عبد القادر طرابلسی مدرس مسجد نبوی ۔ حاجی
امداد اللہ مہاجر مکی، شیخ موسٰی علی شامی، سید احمد علی مہاجر مدنی رحمۃ
اللہ علیہم وغیرہ نے بھی امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو مجدد مائۃ حاضرہ
اس زمانے کے مجدد ، اس امت کے دین کے مجدد ، کہا ( تقاریظ بر حسام الحرمین،
الدولۃ المکیہ )
3:-لقب ضیاء الدین احمد
امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ جب پہلی مرتبہ 1395 ھ میں والدین کے ہمراہ حج
و زیارت کے لئے گئے تو حرمین شریفین کے متعدد علماء اور مشائخ نے آپ کو
مختلف قسم کی اسناد عطا فرمائیں ۔
ایک دن آپ نے نماز مغرب مقام ابراھیم میں ادا کی، بعد نماز امام شافعیہ
حضرت حسین بن صالح جمال اللیل نے بلا تعارف سابق آپ کا ہاتھ پکڑا اور اپنے
دولت خانہ تشریف لے گئے اور دیر تک آپ کی پیشانی کو پکڑ کر فرمایا !
انی لاجد نور اللہ فی ھذا الجبین
بے شک میں اللہ کا نور اس پیشانی میں پاتا ہوں ۔
اور صحاح ستہ اور سلسلہ قادریہ کی اجازت اپنے دست مبارک سے لکھ کر عنایت
فرمائی اور فرمایا کہ تمہارا نام ‘‘ضیاء الدین احمد‘‘ ہے ( الا اجازات
المتینہ، از امام احمد رضا ترجمہ از حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاں علیہ
الرحمہ )
‘‘ضیاء الدین احمد‘‘ امام احمد رضا کو دیا جانے والا پہلا لقب ہے جو کسی
عربی عالم نے دیا۔
4:-علمائے حرمین شریفین کے عطا کردہ القاب و آداب
امام احمد رضا کی تصانیف ‘‘ المعتقد المثقد، کفل الفقیہ الفاہم، فتاوٰی
الحرمین، حسام الحرمین اور الدولۃ المکیہ پر حرمین شریفین کے علماء کرام
نے تقاریظ تحریر فرمائی ہیں۔ انہیں خصوصیت کے ساتھ حسام الحرمین اور الدولۃ
المکیہ میں ان صاحبان علم و فضل نے مجدد اسلام امام احمد رضا رحمۃ اللہ
علیہ کو بڑے پاکیزہ باوقار اور خوبصورت القاب و آداب سے نوازا ہے۔
یہاں ہم انھی القاب کو پیش کریں گے ، جو لقب کی حیثیت کے حامل ہیں اور چند
الفاظ تک محدود ہیں ۔
(الف):- شیخ ابو الخیر احمد میر داد مسجد الحرام مکہ مکرمہ: باریکیوں کا
خزانہ، معرفت کا آفتاب ، علمی مشکلات ظاہری و باطنی کھولنے والا ‘‘ ( حسام
الحرمین ص 38 )
(ب):- علامہ شیخ صالح کمال مکہ مکرمہ : عالم علام ، فضائل کا دریا ،
مولانا محقق، زمانے کی برکت ، عمائد علماء کی آنکھوں کی ٹھنڈک ‘‘ ( حسام
الحرمین ص 42 )
(ج) :- علامہ شیخ ابن صدیق کمال : روشن ستارہ استاذ معظم سردار و پیشوا ، گردن وہابیہ پر تیغ براں ( حسام الحرمین ص 46 )
(د):- علامہ محمد عبد الحق مھاجر الہ آبادی مکہ مکرمہ : علامہ عالم جمیل
، دریائے ذخار ، سردار فضل، کثیر الاحسان ، دریائے بلند ہمت، ذہین و
دانشمند بحرنا پیداکنار ، صاحب ذکاء کثیر الفہم ‘‘ (حسام الحرمین ص 48 )
(ہ):- سید اسماعیل خلیل محافظ کتب حرم مکہ مکرمہ : منقبتوں اور فخروں
والا، یکتائے زمانہ ، اپنے وقت کا یگانہ (حسام الحرمین ص 32 ، ‘‘علامہ
مجدد‘‘ الدولۃ المکیہ ص 7 )
(و):- علامہ پیر مرزوقی ابو حسین مکہ شریف: نور کے اونچے ستون والا،
معرفت کا دریا، سیراب ذہن والا، طاقتور زبان والا ، دریائے منطق ( حسام
الحرمین ص 56 )
(ز):- علامہ محمد عابد ابن مرحوم شیخ حسین مفتی سرداران مالکیہ: علمائے
مشاہیر کا سردار، معزز فاضلوں کا مایہ افتخار ، صاحب عدل عالم باعمل ،
اسلام کی سعادت، محمود سیرت، صاحب احسان (حسام الحرمین ص 64 )
(ح):- علامہ محمد علی مالکی بن شیخ حسین مالکی ، مکہ شریف: دائرہ علوم
کا مرکز، مسلمانوں کا یاور، راہ پایوں کا نگہبان، سعد الدین، مولٰی المعارف
و الھدٰی عضد ہدایت (حسام الحرمین ص 68 )
(ط):- علامہ شیخ السعد بن دھلان مکی : نادر روزگار، خلاصہ لیل و نہار (حسام الحرمین ص 80 )
(ی):- مولانا شیخ عبد الرحمٰن دھلان مکی : علامہ زماں ، یکتائے روزگار (حسام الحرمین ص 84 )
(ک):- علامہ احمد حنفی مکی : فخر اکابر، پرہیزگار فاضل (حسام الحرمین ص 86)
(ل):- علامہ محمد صالح بن محمد افضل مکی: عالم فاضل ، ماہر کامل، باریک فہموں والا، بلند معنوں والا ( حسام الحرمین ص94 )
(م):- علامہ محمد احمد حامد مکی : معتمد پیشوا، فاضل متبحر(حسام الحرمین ص 102 )
(ن):- علامہ محمد سعید شیخ الدلائل مدینہ منورہ: کثیر العلم ، دریائے عظیم الفہم (118 )
(س):- علامہ محمد بن احمد عمری: مرشد محقق، کثیر الفہم ، اللہ کی عطاؤں
والا ، دین کا نشان و ستون ، عرفان و معرفت والا ( حسام الحرمین ص128 )
(ع):- علامہ عباس رضوان مدینہ منورہ : علامہ امام، تیز ذہن، بالا ہمت، یکتائے دہر(حسام الحرمین ص 122 )
(ف):- علامہ محمد بن سوس خیاری مدینہ شریف: علامہ محقق، فہامہ مدقق انسان کامل، عالم فاضل (حسام الحرمین ص 129 )
(ص):- علامہ سید الشریف احمد برزنجی مدینہ شریف: صاحب تحقیق و تنقیح و تدقیق و تزئین، عالم اہلسنت وجماعت (حسام الحرمین ص 132 )
(ق):- علامہ محمد سعید بن محمد بالفیل مکہ شریف: امام کامل، (الدولۃ المکیہ ص 19 )
(ر):- علامہ شیخ سعید محمد بن واصح حسینی مدینہ شریف: فخر ہندوستان (ایضاً ص 65 )
(ش):- علامہ شیخ احمد الجزائری مدینہ منورہ: علامہ زماں، یکتائے روزگار، سر چشمہ معرفت ( ایضاً ص 74 )
(ت):-علامہ شیخ حسین بن علامہ سید عبد القادر طرابلسی مدینہ منورہ :
حامی ملت محمدیہ طاہرہ، مجدد مائۃ حاضرہ، میرے استاذ اور پیشوا ( ایضاً ص
92 )
(ث):- علامہ محمد کریم اللہ مھاجر مدنی: امام بزرگ محقق نکتہ رس، اس زمانے کے مجدد ( ایضاً ص159 )
(خ):-علامہ شیخ محمد مختار بن عطارد الجاوی مکہ مکرمہ: علمائے محققین کا
بادشاہ ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات سے ایک معجزہ، یگانہ امام
(ایضاً ص 72 )
(ذ):- علامہ شیخ مصطفٰی بن تارزی ابن عزوز مدینہ منورہ: استاذ کامل، برستی گھٹا، فائدہ رساں‘‘ (ایضاً ص 146 )
(ض):- علامہ شیخ موسٰی علی شامی ازھری احمدی دردیری مدنی : امام الائمہ ، ملت اسلامیہ کے مجدد، نور یقین ‘‘ (ایضاً ص 262 ) وغیرہ
(5):- امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ
یوں تو اعلٰی حضرت کے لئے علمائے حرمین شریفین نے ‘‘‘امام‘‘‘ لکھا ہے ،
لیکن ان کے نام سے قبل امام لگانا یعنٰی امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ
لکھنا ۔۔۔۔ ۔۔ یہ انداز سب سے پہلے علامہ مشتاق احمد نظامی الہ آبادی علیہ
الرحمہ نے اختیار کیا۔ اور اپنا رسالہ ‘‘پاسبان‘‘ میں ان کے لئے امام احمد
رضا علیہ الرحمہ لکھنا شروع کیا ۔ 1976ء میں ماہنامہ المیزان نے اعلٰی حضرت
کی حیات و شخصیت اور کارناموں ہر اپنا منفرد ضخیم امام احمد رضا نمبر شائع
کیا۔ تو اس میں ہر جگہ ان کے لئے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ ہی لکھا
گیا۔ اس کے بعد امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ لکھنے کا یہ ایک رواج سا بن
گیا ۔
ماہر رضویات پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب ، علامہ عبد الحکیم اختر
شاہجاں پوری رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ شمس بریلوی قدس سرہ ، سید ریاست علی
قادری صاحب علیہ رحمہ اور دوسرے پاکستانی اور ہندوستانی قلم کاروں نے امام
احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ ہی لکھنا شروع کر دیا ۔ یہاں تک کہ ان کی تصانیف
کے شائع کرنے والے ناشرین نے بھی ان کے لئے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ
لکھا اور آج بھی یہ انداز جاری ہے ۔
(6)
محدث بریلوی :
حضرت مسعود ملت ڈاکٹر مسعود احمد صاحب نے محدث بریلوی نام سے امام احمد
رضا رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و شخصیت پر کتاب لکھی ۔ اس کے بعد چند پاکستانی
اہل قلم نے بھی انہیں محدث بریلوی لکھنا شروع کر دیا۔ یہ بھی ایک لقب ہی
ہے ۔
(7)
ٍفقیہ العصر
ڈاکٹر مسعود احمد صاحب نے فقیہ العصر نام سے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت پر رسالہ لکھا ۔ یہ بھی خوبصورت لقب ہے ۔
(8 )
سرتاج الفقہاء
ڈاکٹر مسعود احمد صاحب کا سرتاج الفقہاء کے نام سے امام احمد رضا رحمۃ
اللہ علیہ کی فقاہت پر ایک دوسرا رسالہ ہے ۔ سرتاج الفقہاء بھی اچھا لقب ہے
۔ اور امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے شایان شان ہے ۔
(9) چشم و چراغ خاندان برکاتیہ :
مارہرہ مطہرہ ، خانوادہ برکاتیہ کے ایک عظیم و جلیل شہزادے حضرت سید آل
رسول حسنین قادری صاحب نے امام احمد رضا کو ‘‘چشم و چراغ خاندان برکاتیہ‘‘
لکھا ۔ ( المیزان امام احمد رضا 1976ء ص 235 )
(10)مجدد اعظم
خانوادہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کے چشم و چراغ محدث اعظم ہند حضرت علامہ
مولانا سید محمد میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ
کو ‘‘مجدد اعظم‘‘ کہا (المیزان نمبر ص 241 )
(11) واصف شاہ ہدٰی
پروفیسر ڈاکٹر طلحہ رضوی برق نے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو ‘‘واصف
شاہ ہدٰی ‘‘ کہا ( المیزان امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نمبر ص 240 )
حضور اعلٰی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے خود اپنے آپ کو واصف شاہ ہدٰی کہا ہے !
شعر ملاحظہ کیجئے !
یہی کہتی ہے بلبل باغ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحر بیاں
نہیں
ہند میں واصف شاہ ہدٰی مجھے شوخی طبع رضا کی قسم
یہ حقیقتاً رضا سے ہی مستعار ہے لیکن رضا کے لئے حسین لقب ہے ۔
(12) شاہ ملک سخن
امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے آقا محمد مصطفٰی صلٰی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی غلامی پر ناز کرتے ہوئے تحدیث نعمت کے طور پر خود ‘‘ملک سخن
کا شاہ‘‘ کہا ہے!
فرماتے ہیں !
ملک سخن شاہی تم کو ‘‘رضا‘‘ مسلم
جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
(13) شیخ الاسلام و المسلمین
امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے اکبر حجۃ الاسلام علامہ حامد
رضا خان صاحب نور اللہ مرقدہ نے ‘‘شیخ الاسلام و المسلمین ‘‘ سے امام احمد
رضا رحمۃ اللہ علیہ کے وصال(1340ھ) کا تاریخی مادہ استخراج کیا تھا ۔ اب یہ
امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے لئے ایک لقب بن گیا ہے ۔اور انہیں ‘‘ شیخ
الاسلام و المسلمین‘‘ بھی لکھا جاتا ہے۔
(14) امام نعت گو یاں
ًمولانا اختر الحامدی صاحب مرحوم (کراچی) نے امام احمد رضا رحمۃ اللہ
علیہ کو ‘‘امام نعت گو یاں ‘‘ لکھا ہے ۔ وہ اس عنوان سے امام کی نعت گوئی
پر بسیط مقالہ لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔( آئینہ رضویات اول )
(15) قبلہ اہل دل
ڈاکٹر نسیم قریشی مرحوم شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے امام
احمدرضا کو ‘‘قبلہ اہل دل‘‘ لکھا۔ ( المیزان امام احمد رضا نمبر ص 549 )
( 16) فاضل بریلوی
امام احمد رضا کے لئے ابتداء سے ہی فاضل بریلوی کہا اور لکھا جا رہا ہے ۔
آج جب بھی فاضل بریلوی کہا اور لکھا جاتا ہے تو ذہن کسی اور عالم کی طرف نہ
جا کر امام احمد رضا ہی کی طرف جاتا ہے ۔
حاصل کلام
عرب عجم کے علماء، قلم کاروں اور دانشوروں امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ
کے فضائل و مناقب ایک سے بڑھ کر ایک حسین انداز میں بیان کئے ہیں اور بڑے
ہی باوقار اور خوبصورت القاب وآداب سے یاد کیا ہے ۔ سب کا احاطہ کرنا مشکل
ہے ۔ امام کے ماننے چاہنے والے انہیں برابر بہتر سے بہتر القاب وآداب سے
یاد کرتے چلے جا رہے ہیں۔ شعراء ان کے اوصاف کے بلیغ اظہار میں تراکیب سازی
بھی کر رہے ہیں ۔ لیکن اب تک امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو جن القاب
وآداب سے یاد کیا گیا ہے اور جو زیادہ مقبول ہیں ان کا ایک اجمال پیش کیا
گیا ہے ۔ ذیل میں ہم حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے مختلف القاب کو
مجموعی طور پر پیش کرتے ہیں !!!!!!!!!!!!!
اعلٰی حضرت ،
حجۃ اللہ فی الارض ،
علم و فضل کے دائرہ کا مرکز ،
صاحب تحقیق و تدقیق و تنقیح ،
فخر السلف ،
بقیۃ الخلف،
اکابر اور عمائد علماء کی آنکھوں کی ٹھنڈک ،
زمانے کی برکت،
آفتاب معرفت
محمود سیرت،
اسلام کی سعادت،
دریائے بلند ہمت ،
اپنے زمانے اور اگلے وقتوں کا زر ،
نور کے اونچے ستون والا،
صاف ستھرا نہایت کرم والا ،
اللہ کی عطا کردہ اور سیراب ذہن والا ،
بلند معنوں باریک فہموں والا ،
فخروں اور منقبتوں والا ،
مشکلات علم کا کشادہ کرنے والا ،
علموں کی مشکلات ظاہر و باطن کو کھولنے والا،
طاقتور قلم اور زبان والا،
دین کا نشان و ستون ،
جامع علوم و فنون ،
عالم جمیل و جلیل ،
فاضل نبیل ،
عالم باعمل ،
صاحب عدل ،
مینار فضل ،
علامہ فاضل و کامل ،
پر ہیز گار فاضل ،
محیط کامل،
امام کامل،
ولی کامل،
قبلہ اہل دل قطب ارشاد،
فاضلوں کا مایہ افتخار ،
علمائے مشاہیر کا سردار ،
ذہین اور دانشمند عالم یگانہ استاذ ماہر ،
فخر اکابر ،
شیوہ بیان شاعر،
یکتائے روزگارنادر روزگار ،
خلاصہ لیل و نہار،
دریائے ذخار،
چراغ خاندان برکاتیہ ،
امام الائمہ،
نور یقین،
شیخ الاسلام والمسلمین ،
استاذ معظم ،
مجدد اعظم ،
شاہ ملک سخن ،
امام اہلسنت،
عظیم العلم ،
موئید ملت طاہرہ،
مجدد ملت ،
حاضرہ ( ماضیہ) محدث بریلوی ،
امام احمد رضا خان
فاضل بریلوی
رضی اللہ عنہ ( وارضاہ عنا)
|
No comments:
Post a Comment