۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین محترم پاکستان میں“ انجمن سپاہ صحابہ” کے نام سے شیعہ اور سنّی مکتبہ فکرکے خلاف مسلح دہشت گردی کا آغاز کرنے والی یہ تنظیم “سپاہ صحابہ پاکستان،لشکر جھنگوی،ملت اسلامیہ،انجمن نوجوانان اہلسنّت‘‘ اور آجکل ”اہلسنّت وجماعت پاکستان“ کے نام سے کام کررہی ہے،
ذیل میں ہم اِس تنظیم کا ایک تاریخی و تجزیاتی جائزہ پیش کررہے ہیں،یہ مضمون دو حصوں پر مشتمل ہے،پہلا حصہ اِس کالعدم تنظیم کے تاریخی و تجزیاتی جائزے اور پاکستانی معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات،جبکہ دوسرا حصہ اِس تنظیم کا ” سواد اعظم اہلسنّت وجماعت سنّی حنفی(بریلوی) سے تعلق ونسبت“کے تاریخی جائزے پر مشتمل ہے۔
آئیے پہلا حصے کا مطالعہ کرتے ہیں۔
کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ1979میں پاکستان میں شیعہ مکتبہ فکر کے حقوق
کے تحفظ کی بنیاد پر علامہ ساجد نقوی نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی بنیاد
رکھی تو جنوبی پنجاب کے شہر جھنگ میں دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے
مولانا حق نواز جھنگوی نے انہیں چیلنج کیا اور 6ستمبر 1985 کو پنجاب کے
شہر جھنگ میں فرقہ پرست تنظیم ”انجمن سپاہ صحابہ“کے قیام کا اعلان کیا،اِس
تنظیم کے قیام کا مقصد پاکستان میں رہنے والے شیعہ مکتبہ فکرکے خلاف مسلح
جدوجہد تھا، کہنے والے کہتے ہیں کہ انجمن سپاہ صحابہ کوخفیہ ایجنسیوں کی
سرپرستی حاصل تھی اور انجمن کا قیام ایرانی انقلاب کے ردعمل اور جنرل محمد
ضیا الحق کی اسلامائزیشن کی پالیسی کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا،گورنمنٹ
کالج یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر طاہر کامران کہتے ہیں ”فرقہ واریت
کے بارے میں جتنی بھی تحقیق ہوئی،اُس میں اِس عفریت کی پیدائش کے تانے بانے
ضیا الحق کی اسلامائزیشن، افغان جنگ اور دیوبندی مدرسوں کے فروغ سے جڑتے
ہیں۔“
یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ ایران میں شیعہ انقلاب کے اثرات سے خطے کومحفوظ رکھنے میں سعودی عرب کی دلچسپی سے بھی فائدہ اٹھایا گیا اوراُس وقت کی سعودی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے انجمن سپاہ صحابہ کیلئے گراؤنڈ بنایا گیا،جبکہ اِس تنظیم کے قیام کیلئے سعودی فنڈنگ کے الزامات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے،ساتھ ہی عراقی مدد اور تعاون کے بھی اشارے ملے،وکی لیکس نے لاہور میں امریکی قونصل خانے کے سابقہ پرنسپل آفیسر برائن ڈی ہنٹ Hunt D. Bryan کی جانب سے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آف امریکا کو 20 مارچ 2009ءکو بھیجی گئی ایک کیبل کو افشاءکرتے ہوئے کہا کہ سپاہ صحابہ کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی کو لیبین حکومت نے312000 امریکی ڈالر( 25 ملین پاکستان روپے) اِس مقصد کیلئے ہدیہ کیے کہ ایران اور ایرانی ایجنٹوں کے خلاف کام میں لیبین حکومت اور سپاہ صحابہ کے اہداف مشترکہ ہیں۔
یوں انجمن سپاہ صحابہ نے پاکستان میں دیوبندی فرقے کے نام پر تشدد اور دہشت گردی کی بنیاد رکھنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا،انجمن سپاہ صحابہ اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے درمیان جنگ وجدل کا یہ سلسلہ جلد ہی ایک مہم میں تبدیل ہوگیا جو آڈیو کیسٹس کے ذریعے چلائی جا رہی تھی، مناظرے اور مباہلے کے چیلنجوں پر مبنی لفظوں کی یہ جنگ اُس وقت خونی معرکے کی بنیاد بن گئی،جب 1988ءمیں افغانستان سے ملحق قبائلی علاقے پارہ چنار میں تحریک جعفریہ پاکستان کے ر ہنماءعلامہ عارف حسین الحسینی کو قتل کر دیا گیا، جس کے ڈیڑھ سال بعد 1990 ءمیں سپاہ صحابہ کے رہنماءمولانا حق نواز جھنگوی بھی بم حملے میں مارے گئے ،خیال رہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ نے ابتداءہی سے اہلسنّت کا نام اپنے حق میں استعمال کرکے” شیعہ وہابی” تنازعے کو” شیعہ سنی رنگ“ دینے کی کوشش کی، حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کی لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ یہ سلسلہ کبھی اچھے تو کبھی برے تعلقات کے ساتھ 90 کی دہائی تک جاری رہا،1991ءمیں متوقع پابندی کے پیش نظر انجمن سپاہ صحابہ نے اپنا نام ”سپاہ صحابہ پاکستان “رکھ لیا،1993ءمیں متعدد سنگین مقدمات میں ملوث ہونے کی بناءپر یہ” لشکر جھنگوی“ میں تبدیل ہوگئی،یوں یہ تنظیم مختلف ناموں کے ساتھ 2002ءتک کام کرتی رہی۔
لیکن 12 جنوری 2002ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث قرار دیکر جب تینوں جماعتوں پر پابندی عائد کر دی،تو اِس تنظیم نے ”ملت اسلامیہ“ کے نام سے کام شروع کردیا،چنانچہ16 نومبر 2003ءکو جب حکومت نے اِسے بھی کالعدم قرار دے دیا تو یہ تنظیم ”انجمن نوجوانان اہلسنّت“ کے نام سے سامنے آگئی،مگر 2010ءمیں اِسے بھی کالعدم قرار دے دیا گیا،آجکل یہ تنظیم ”اہل سنت و الجماعت پاکستان “کے نام سے کام کر رہی ہے،دراصل یہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کا وہ نیا نام ہے، جس کے ذریعے یہ ایک طرف حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہی ہے تو دوسری جانب اِس نام کا سہارا لے کریہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ ملک کی غالب اکثریت اہلسنّت وجماعت سنی حنفی کی نمائندہ وترجمان ہے،طرفہ تماشا یہ کہ ہمارا الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا بھی اِس تنظیم کو بار بار اہلسنّت وجماعت کانام دے کر اِس غلط فہمی کو مزید تقویت پہنچارہا ہے اور ایک ایسی متشدد تنظیم جس کا اکثریتی طبقے سے کوئی تعلق نہیں، کو اُن کا نمائندہ قرار دے رہا ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ اہلسنّت وجماعت نہیں ہے، جسے عام طور پر اہلسنّت وجماعت سنی حنفی (بریلوی) کہا اور سمجھا جاتا ہے اورحقیقتاً اِس تنظیم کا اہلسنّت وجماعت سنی حنفی سے کوئی تعلق نہیں ہے،جس کا تاریخی جائزہ ہم اگلے حصے میں پیش کریں گے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاءالرحمن فاروقی، مولانا ایثار الحق قاسمی اور مولانا اعظم طارق سپاہ صحابہ کے بانی ارکان تھے،جب تنظیم کے قیام کے وقت اِس کو ”انجمن سپاہ صحابہ “کا نام دیا گیا تو مولانا حق نواز جھنگوی کو سپریم کمانڈر بنایا گیا، 1990ء میں حق نواز جھنگوی کو جھنگ میں قتل کردیا گیا،جس سے اِس گروپ کو بہت تقویت ملی اور مولانا ایثار الحق قاسمی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے، وہ بھی 1991ءمیں قتل کر دیے گئے تو مولانا ضیاءالرحمن فاروقی نے قیادت سنبھال لی، 18 جنوری 1997ءکو مولانا ضیاءالرحمن فاروقی سپاہ صحابہ کے کچھ دیگر راہنماﺅں کے ساتھ کاربم دھماکے میں مارے گئے، تب مولانا اعظم طارق نے امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں ،انہوں نے سپاہ صحابہ کو ایک اعتدال پسند مذہبی جماعت کی حیثیت سے روشناس کروانے کی کوشش کی اور دیوبندی جماعتوں کی ہمدردی بھی حاصل کی،مگر سپاہ صحابہ کے لیڈروں کے قتل کا سلسلہ جاری رہا، مولانا اعظم طارق کو بھی 4 اکتوبر 2003ءکو اسلام آباد میں گولی مار دی گئی، یوںسپاہ صحابہ کے بانی قیادت حق نواز جھنگوی، ایثار الحق قاسمی، ضیاءالرحمان فاروقی اور مولانا اعظم طارق شیعہ دیوبندی تنازع کی بھینٹ چڑھ گئی،اعظم طارق کے قتل کے بعد اِس تنظیم کے دو دھڑے سامنے آئے،ایک دھڑا” ملت اسلامیہ“ کے نام سے محمداحمد لدھیانوی کی قیادت میں جبکہ دوسرا ”اہلسنّت وجماعت“ کے نام سے علی شیر حیدری کی سرپرستی میں قائم ہوا،اوّل الذکر کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی ”قائد ملت اسلامیہ“ کہلائے جبکہ موخر الذکر کے سربراہ ”قائد ااہلسنّت“ کے نام سے موسوم ہوئے،بعد میں یہ دونوں دھڑے محمد احمد لدھیانوی کی قیادت میں متحد ہوگئے ،مگر اندرون خانہ قیادت کے مسئلے پر اختلافات موجود رہے،جس کی بازگشت علی شیر حیدری کے قتل کے بعد بھی سنائی دی کہ لدھیانوی کے حامیوں نے علی شیرحیدری کو راستے سے ہٹا دیا،تا کہ قتل کا الزام کسی اور پر دھرا جائے اور سربراہی کیلئے جاری کھینچ تان ختم ہوجائے، واضح رہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ سینٹرل پنجاب کی ایک اہم سیاسی جماعت رہی، اُس کے عہدیدار قومی و صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے اور یہ جماعت الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بطور سیاسی جماعت بھی رجسٹرڈ رہی۔
اِن دنوںکالعدم تنظیم سپاہ صحابہ اندورنی اختلافات کا شکار ہے اور تنظیم دو گروپوں میں بٹی ہوئی ہے،ایک گروپ کی قیادت مولانا محمداحمد لدھیانوی کے پاس ہے ،جبکہ دوسرا گروپ کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی سرکردگی میں کام کررہا ہے،یہ وہی ملک اسحاق ہے جس پر سو سے زیادہ شیعہ اور دیگر سنی افراد کے قتل کے مقدمات قائم ہیں اور جو تقریباً پندرہ سال جیل کاٹ چکا ہے،1995ءمیں جب کالعدم لشکر جھنگوی کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی، اُس وقت ملک اسحاق اپنے خلاف درج مقدمات کی وجہ سے مفرور تھا، رحیم یار خان کے علاقے سوائے خان کا رہائشی ملک اسحاق 6ستمبر 1985ءکو وجود میں آنے والی سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کے ابتدائی دنوں کا ساتھی ہے، 1991ءمیں جب ضیاءالرحمٰن فاروقی نے انجمن سپاہ صحابہ کا نام تبدیل کر کے سپاہ صحابہ پاکستان رکھا تو ملک اسحاق ضلع رحیم یار خان کا سربراہ نامزد ہوا اور تنظیم کی مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن بھی رہا،وہ اپنے خلاف مقدمات کے باعث 1993ءمیں روپوش ہوا، اسی مفروری کے دوران ریاض بسرا، اکرم لاہوری، اور غلام رسول شاہ سے مل کر لشکر جھنگوی بنائی، جو سپاہ صحابہ کے عسکری ونگ کے طور پر کام کرتی تھی، اِن دہشتگردوں نے ملک بھر میں سینکڑوں بے گناہ شیعہ اور سنی افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔
ملتان کے سینئیر سپرنٹنڈنٹ پولیس گوہر نفیس کے مطابق کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ واضح طور پر دو” لدھیانوی اور ملک اسحاق گروپ“ میں تقسیم ہوچکی ہے،پولیس ریکارڈ کہتا ہے کہ ملک اسحاق کسی زمانے میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کا ممبر تھا، لیکن اپنی مبینہ متشدد پالیسی کی وجہ سے اُس نے ایک نئی تنظیم لشکر جھنگوی کی بنیاد رکھی اوربانی امیر بنا،لیکن یہ تنظیم بھی اُسی زمانے میں کالعدم قرار دے دی گئی،گزشتہ سال ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ملک اسحاق نے تنظیم اہل سنت والجماعت (سابق سپاہ صحابہ) میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے لشکر جھنگوی سے لا تعلقی کا اعلان کیا تھا، پولیس حکام کے مطابق لشکر جھنگوی شیعہ اور سنی مکتبہ فکر کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ملوث ہے ،یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق کے باعث لشکر جھنگوی اور افغان طالبان کے رابطے اور تعاون کی مصدقہ اطلاعات بھی موجود ہیں،جبکہ ماضی میں لشکر جھنگوی نے کراچی میں غیر ملکی تیل کمپنی کے چار امریکی کارکنوں کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے ، جنوری2002ءمیں لشکر جھنگوی کے جنگجو امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغواءاور پھر قتل میں بھی ملوث پائے گئے، اسی سال مارچ میں شیرٹن ہوٹل کراچی کے سامنے گیارہ فرانسیسی انجیئنروں کی ہلاکت ہو یا اسلام آباد کے سفارتی علاقے میں پروٹسٹنٹ چرچ پر حملہ، تفتیش کرنے والے اداروں نے لشکر جھنگوی کو ہی ملوث بتایا ہے، اِسی طرح مزارات اولیاءپر حملے،سنّی مساجد اور شیعہ امام بارگاہوں کو نشانہ بنانا اورعلماءو مشائخ کی ٹارگیٹ کلنگ میں بھی یہی تنظیم ملوث ہے۔
پولیس حکام یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک اسحاق جیل سے بھی اپنے تنظیمی معاملات چلاتا رہا ہے اور وہ جیل میں رہ کر بھی اپنے ساتھیوں کی مو ثر طور پر راہنمائی کرتا رہا ہے،اِس کا عملی ثبوت اُس وقت سامنے آیا جب 10 اکتوبر 2009ءکو جی ایچ کیو پر حملے کے دوران دہشت گرد ڈاکٹر عثمان اور اس کے ساتھیوں نے 43 اعلیٰ فوجی افسر اور دیگر افراد یرغمال بنا یا اور مطالبہ کیاکہ لشکر جھنگوی کے امیر ملک اسحاق سمیت 100 سے زائد دہشتگردوں کو رہا کیا جائے، بعدازاںملک اسحاق، احمد لدھیانوی، فضل الرحمٰن خلیل (سربراہ حرکة المجاہدین) اور جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے بھائی مفتی عبد الروف کو راتوں رات راولپنڈی منتقل کیا اور اغوا کاروں کے ساتھ اُس کے مذاکرات کروائے گئے، یہ مذاکرات کامیاب تو نہ ہو سکے، لیکن یہ بات واضح ہو گئی کہ ملک اسحٰق جیل میں رہ کر بھی پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں ملوث ہے،یہی وجہ تھی کہ ملک اسحاق پر جیل میں بیٹھ کر لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے کا الزام بھی عائد کیا گیا، جس کے نتیجے میں سات کھلاڑی اور ایک معاون کوچ زخمی جبکہ 8 پاکستانی ہلاک ہو ئے،جبکہ مذکورہ حملوں کی وجہ سے ناصرف پاکستان ورلڈ کپ کی میزبانی سے محروم رہا بلکہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا دروازہ بھی بند ہوگیا ،یہ تنظیم حالیہ عرصے میں شیعہ اور خاص طور پر ہزارہ شیعہ پر حملوں اور پرتشدد کارروائیوں کی ذمہ داری بھی قبول کرچکی ہے، تاہم ملک اسحاق کے اعلان لاتعلقی کے بعد اِس کی موجودہ قیادت کے بارے میں انٹیلی جنس ادارے زیادہ آگاہی نہیں رکھتے۔
پولیس ذرائع کہتے ہیں کہ لشکر جھنگوی فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے اور اُس کے طالبان سے بھی تعلقات ہیں،اِسی طرح پاکستانی تفتیش کار کہتے ہیں کہ تحریک طالبان پنجاب دراصل صوبہ پنجاب میں کئی سالوں سے سرگرم مختلف شدت پسند تنظیموں کا ایک ملغوبہ ہے،یہ گروپ پاکستان میں کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کی مشترکہ کاوش ہے جس میں سپاہ صحابہ، لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی، حرکت المجاہدین اور حرکت الانصار وغیرہ کے کارکن شامل ہیں،اِسی طرح تحریک طالبان پاکستان ،جس کا قیام دسمبر 2007ءمیں عمل میں آیا، میں شامل ہونے والے جنگجو افراد اور تنظیمیں پہلے سے اپنے اپنے علاقوں میں سرگرم اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث رہی ہیں،یہ وہی تحریک طالبان پاکستان ہے جس نے افغانستان کے اندر امریکی و اتحادی افواج پر حملوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں، پاکستان کے شہری علاقوں میں بم دہماکوں اور خود کش حملوں کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ جس کے خاتمے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے،جبکہ تحریک طالبان ،پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی اور دیگر علاقوں میں شیعہ اور سنی بریلوی مسلک کے افراد پر حملوں میں بھی ملوث قرار دی جاتی ہے اور اس طرح کی بہت سی بڑی کار روائیوں کی ذمہ داری بھی قبول کر چکی ہے۔
اگرچہ سپاہ صحابہ اور اُس سے ملحقہ تمام تنظیمیں یہ دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ اُن کی مذہبی سیاسی اَساس ہے، مگر یہ اپنے فرقہ پرستانہ عزائم پر بھی کاربند ہیں، اِن کے ممبران جو کہ وقفے وقفے سے تنظیم سے علیحدہ ہوئے، انھوں نے مختلف فرقہ پرست تنظیموں کی بنیاد ڈالی ،اِسی وجہ سے لشکر جھنگوی کو سپاہ صحابہ کا عسکری بازو تصور کیا جاتا ہے اور دونوں دھڑوں کے عزائم مشترک ہیں، پاکستان کے بیشتر تجزیہ نگاروں کو یقین ہے کہ 1996ءمیں لشکر جھنگوی کا سپاہ صحابہ سے علیحدگی کا پس پردہ مقصد دراصل سپاہ صحابہ کو اپنی سیاسی سرگرمیوں پر فرقہ واریت کے دفاع کیلئے توجہ مرکوز کرنے کا موقع فراہم کرنے کی ایک چال تھا، جنوری 2009ءمیں محکمہ سی آئی ڈی نے سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے انتہائی مطلوب افراد کے ناموں پر مشتمل ایک فہرست ریڈ بک (Red Book) شائع کی جس کی رُو سے سپاہ صحابہ کا پورے ملک میں ایک مضبوط جال ہے اور اُس کو پورے ملک خصوصاً کراچی کے دیوبندی مدارس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان جو آج اہلسنّت وجماعت کے جعلی نام سے کام کررہی ہے، دیوبندی مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والی سب سے بڑی فرقہ پرست تنظیم ہے اور پاکستان میں فرقے کے نام پر تشدد اور دہشت گردی کی بنیاد رکھنے میں اِس تنظیم کا کردار سب سے اہم مانا جاتا ہے،اس تنظیم کے ردعمل میں 1990ءمیں سلیم قادری کی زیر نگرانی سنی تحریک کے قیام کے علاوہ متعدد شیعہ تنظیمیں بھی وجود میں آئیں، جن میں1993ءمیں غلام رضا نقوی کی قیادت میں شدت پسند شیعہ تنظیم سپاہ محمد اور پھر میجر ریٹائرڈ اشرف علی شاہ کی قیادت میں سپاہ محمد میں ایک نئے شدت پسند گروپ کااضافہ ، چھوٹے چھوٹے شیعہ گروپوں پر مشتمل جعفریہ الائنس اورآل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کا قیام کے ساتھ،بقیة اللہ سمیت مہدی فورس وغیرہ بھی دراصل اِسی کالعدم تنظیم کی فرقہ پرست متصبانہ کارروائیوں کا رد عمل تھا،جس نے وطن عزیز کو مسلکی تعصب اور مذہبی نفرت و منافرت کی آگ میں دھکیل کر ہماری قومی وحدت کو پارہ پارہ کردیا۔
قارئین محترم ! اِن حقائق کے مطالعے سے واضح ہوگیا کہ اِس تنظیم کے اہداف ومقاصد کیا ہیں اور اِس کے قیام نے ہمارے ملک،معاشرے اور قومی یکجہتی پر کیا اثرات مرتب کیے،اگلی قسط میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ قیام سے اگر اِس تنظیم اوراِن لوگوں کا اہلسنّت سے کوئی تعلق نہیں تو اصل اہلسنّت وجماعت کون ہیں ،کب سے ہیں اوراُن کی درست شناخت و پہچان کیا ہے۔ (جاری)
یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ ایران میں شیعہ انقلاب کے اثرات سے خطے کومحفوظ رکھنے میں سعودی عرب کی دلچسپی سے بھی فائدہ اٹھایا گیا اوراُس وقت کی سعودی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے انجمن سپاہ صحابہ کیلئے گراؤنڈ بنایا گیا،جبکہ اِس تنظیم کے قیام کیلئے سعودی فنڈنگ کے الزامات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے،ساتھ ہی عراقی مدد اور تعاون کے بھی اشارے ملے،وکی لیکس نے لاہور میں امریکی قونصل خانے کے سابقہ پرنسپل آفیسر برائن ڈی ہنٹ Hunt D. Bryan کی جانب سے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آف امریکا کو 20 مارچ 2009ءکو بھیجی گئی ایک کیبل کو افشاءکرتے ہوئے کہا کہ سپاہ صحابہ کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی کو لیبین حکومت نے312000 امریکی ڈالر( 25 ملین پاکستان روپے) اِس مقصد کیلئے ہدیہ کیے کہ ایران اور ایرانی ایجنٹوں کے خلاف کام میں لیبین حکومت اور سپاہ صحابہ کے اہداف مشترکہ ہیں۔
یوں انجمن سپاہ صحابہ نے پاکستان میں دیوبندی فرقے کے نام پر تشدد اور دہشت گردی کی بنیاد رکھنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا،انجمن سپاہ صحابہ اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے درمیان جنگ وجدل کا یہ سلسلہ جلد ہی ایک مہم میں تبدیل ہوگیا جو آڈیو کیسٹس کے ذریعے چلائی جا رہی تھی، مناظرے اور مباہلے کے چیلنجوں پر مبنی لفظوں کی یہ جنگ اُس وقت خونی معرکے کی بنیاد بن گئی،جب 1988ءمیں افغانستان سے ملحق قبائلی علاقے پارہ چنار میں تحریک جعفریہ پاکستان کے ر ہنماءعلامہ عارف حسین الحسینی کو قتل کر دیا گیا، جس کے ڈیڑھ سال بعد 1990 ءمیں سپاہ صحابہ کے رہنماءمولانا حق نواز جھنگوی بھی بم حملے میں مارے گئے ،خیال رہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ نے ابتداءہی سے اہلسنّت کا نام اپنے حق میں استعمال کرکے” شیعہ وہابی” تنازعے کو” شیعہ سنی رنگ“ دینے کی کوشش کی، حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کی لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ یہ سلسلہ کبھی اچھے تو کبھی برے تعلقات کے ساتھ 90 کی دہائی تک جاری رہا،1991ءمیں متوقع پابندی کے پیش نظر انجمن سپاہ صحابہ نے اپنا نام ”سپاہ صحابہ پاکستان “رکھ لیا،1993ءمیں متعدد سنگین مقدمات میں ملوث ہونے کی بناءپر یہ” لشکر جھنگوی“ میں تبدیل ہوگئی،یوں یہ تنظیم مختلف ناموں کے ساتھ 2002ءتک کام کرتی رہی۔
لیکن 12 جنوری 2002ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث قرار دیکر جب تینوں جماعتوں پر پابندی عائد کر دی،تو اِس تنظیم نے ”ملت اسلامیہ“ کے نام سے کام شروع کردیا،چنانچہ16 نومبر 2003ءکو جب حکومت نے اِسے بھی کالعدم قرار دے دیا تو یہ تنظیم ”انجمن نوجوانان اہلسنّت“ کے نام سے سامنے آگئی،مگر 2010ءمیں اِسے بھی کالعدم قرار دے دیا گیا،آجکل یہ تنظیم ”اہل سنت و الجماعت پاکستان “کے نام سے کام کر رہی ہے،دراصل یہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کا وہ نیا نام ہے، جس کے ذریعے یہ ایک طرف حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہی ہے تو دوسری جانب اِس نام کا سہارا لے کریہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ ملک کی غالب اکثریت اہلسنّت وجماعت سنی حنفی کی نمائندہ وترجمان ہے،طرفہ تماشا یہ کہ ہمارا الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا بھی اِس تنظیم کو بار بار اہلسنّت وجماعت کانام دے کر اِس غلط فہمی کو مزید تقویت پہنچارہا ہے اور ایک ایسی متشدد تنظیم جس کا اکثریتی طبقے سے کوئی تعلق نہیں، کو اُن کا نمائندہ قرار دے رہا ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ اہلسنّت وجماعت نہیں ہے، جسے عام طور پر اہلسنّت وجماعت سنی حنفی (بریلوی) کہا اور سمجھا جاتا ہے اورحقیقتاً اِس تنظیم کا اہلسنّت وجماعت سنی حنفی سے کوئی تعلق نہیں ہے،جس کا تاریخی جائزہ ہم اگلے حصے میں پیش کریں گے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاءالرحمن فاروقی، مولانا ایثار الحق قاسمی اور مولانا اعظم طارق سپاہ صحابہ کے بانی ارکان تھے،جب تنظیم کے قیام کے وقت اِس کو ”انجمن سپاہ صحابہ “کا نام دیا گیا تو مولانا حق نواز جھنگوی کو سپریم کمانڈر بنایا گیا، 1990ء میں حق نواز جھنگوی کو جھنگ میں قتل کردیا گیا،جس سے اِس گروپ کو بہت تقویت ملی اور مولانا ایثار الحق قاسمی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے، وہ بھی 1991ءمیں قتل کر دیے گئے تو مولانا ضیاءالرحمن فاروقی نے قیادت سنبھال لی، 18 جنوری 1997ءکو مولانا ضیاءالرحمن فاروقی سپاہ صحابہ کے کچھ دیگر راہنماﺅں کے ساتھ کاربم دھماکے میں مارے گئے، تب مولانا اعظم طارق نے امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں ،انہوں نے سپاہ صحابہ کو ایک اعتدال پسند مذہبی جماعت کی حیثیت سے روشناس کروانے کی کوشش کی اور دیوبندی جماعتوں کی ہمدردی بھی حاصل کی،مگر سپاہ صحابہ کے لیڈروں کے قتل کا سلسلہ جاری رہا، مولانا اعظم طارق کو بھی 4 اکتوبر 2003ءکو اسلام آباد میں گولی مار دی گئی، یوںسپاہ صحابہ کے بانی قیادت حق نواز جھنگوی، ایثار الحق قاسمی، ضیاءالرحمان فاروقی اور مولانا اعظم طارق شیعہ دیوبندی تنازع کی بھینٹ چڑھ گئی،اعظم طارق کے قتل کے بعد اِس تنظیم کے دو دھڑے سامنے آئے،ایک دھڑا” ملت اسلامیہ“ کے نام سے محمداحمد لدھیانوی کی قیادت میں جبکہ دوسرا ”اہلسنّت وجماعت“ کے نام سے علی شیر حیدری کی سرپرستی میں قائم ہوا،اوّل الذکر کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی ”قائد ملت اسلامیہ“ کہلائے جبکہ موخر الذکر کے سربراہ ”قائد ااہلسنّت“ کے نام سے موسوم ہوئے،بعد میں یہ دونوں دھڑے محمد احمد لدھیانوی کی قیادت میں متحد ہوگئے ،مگر اندرون خانہ قیادت کے مسئلے پر اختلافات موجود رہے،جس کی بازگشت علی شیر حیدری کے قتل کے بعد بھی سنائی دی کہ لدھیانوی کے حامیوں نے علی شیرحیدری کو راستے سے ہٹا دیا،تا کہ قتل کا الزام کسی اور پر دھرا جائے اور سربراہی کیلئے جاری کھینچ تان ختم ہوجائے، واضح رہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ سینٹرل پنجاب کی ایک اہم سیاسی جماعت رہی، اُس کے عہدیدار قومی و صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے اور یہ جماعت الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بطور سیاسی جماعت بھی رجسٹرڈ رہی۔
اِن دنوںکالعدم تنظیم سپاہ صحابہ اندورنی اختلافات کا شکار ہے اور تنظیم دو گروپوں میں بٹی ہوئی ہے،ایک گروپ کی قیادت مولانا محمداحمد لدھیانوی کے پاس ہے ،جبکہ دوسرا گروپ کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی سرکردگی میں کام کررہا ہے،یہ وہی ملک اسحاق ہے جس پر سو سے زیادہ شیعہ اور دیگر سنی افراد کے قتل کے مقدمات قائم ہیں اور جو تقریباً پندرہ سال جیل کاٹ چکا ہے،1995ءمیں جب کالعدم لشکر جھنگوی کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی، اُس وقت ملک اسحاق اپنے خلاف درج مقدمات کی وجہ سے مفرور تھا، رحیم یار خان کے علاقے سوائے خان کا رہائشی ملک اسحاق 6ستمبر 1985ءکو وجود میں آنے والی سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کے ابتدائی دنوں کا ساتھی ہے، 1991ءمیں جب ضیاءالرحمٰن فاروقی نے انجمن سپاہ صحابہ کا نام تبدیل کر کے سپاہ صحابہ پاکستان رکھا تو ملک اسحاق ضلع رحیم یار خان کا سربراہ نامزد ہوا اور تنظیم کی مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن بھی رہا،وہ اپنے خلاف مقدمات کے باعث 1993ءمیں روپوش ہوا، اسی مفروری کے دوران ریاض بسرا، اکرم لاہوری، اور غلام رسول شاہ سے مل کر لشکر جھنگوی بنائی، جو سپاہ صحابہ کے عسکری ونگ کے طور پر کام کرتی تھی، اِن دہشتگردوں نے ملک بھر میں سینکڑوں بے گناہ شیعہ اور سنی افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔
ملتان کے سینئیر سپرنٹنڈنٹ پولیس گوہر نفیس کے مطابق کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ واضح طور پر دو” لدھیانوی اور ملک اسحاق گروپ“ میں تقسیم ہوچکی ہے،پولیس ریکارڈ کہتا ہے کہ ملک اسحاق کسی زمانے میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کا ممبر تھا، لیکن اپنی مبینہ متشدد پالیسی کی وجہ سے اُس نے ایک نئی تنظیم لشکر جھنگوی کی بنیاد رکھی اوربانی امیر بنا،لیکن یہ تنظیم بھی اُسی زمانے میں کالعدم قرار دے دی گئی،گزشتہ سال ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ملک اسحاق نے تنظیم اہل سنت والجماعت (سابق سپاہ صحابہ) میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے لشکر جھنگوی سے لا تعلقی کا اعلان کیا تھا، پولیس حکام کے مطابق لشکر جھنگوی شیعہ اور سنی مکتبہ فکر کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ملوث ہے ،یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق کے باعث لشکر جھنگوی اور افغان طالبان کے رابطے اور تعاون کی مصدقہ اطلاعات بھی موجود ہیں،جبکہ ماضی میں لشکر جھنگوی نے کراچی میں غیر ملکی تیل کمپنی کے چار امریکی کارکنوں کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے ، جنوری2002ءمیں لشکر جھنگوی کے جنگجو امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغواءاور پھر قتل میں بھی ملوث پائے گئے، اسی سال مارچ میں شیرٹن ہوٹل کراچی کے سامنے گیارہ فرانسیسی انجیئنروں کی ہلاکت ہو یا اسلام آباد کے سفارتی علاقے میں پروٹسٹنٹ چرچ پر حملہ، تفتیش کرنے والے اداروں نے لشکر جھنگوی کو ہی ملوث بتایا ہے، اِسی طرح مزارات اولیاءپر حملے،سنّی مساجد اور شیعہ امام بارگاہوں کو نشانہ بنانا اورعلماءو مشائخ کی ٹارگیٹ کلنگ میں بھی یہی تنظیم ملوث ہے۔
پولیس حکام یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک اسحاق جیل سے بھی اپنے تنظیمی معاملات چلاتا رہا ہے اور وہ جیل میں رہ کر بھی اپنے ساتھیوں کی مو ثر طور پر راہنمائی کرتا رہا ہے،اِس کا عملی ثبوت اُس وقت سامنے آیا جب 10 اکتوبر 2009ءکو جی ایچ کیو پر حملے کے دوران دہشت گرد ڈاکٹر عثمان اور اس کے ساتھیوں نے 43 اعلیٰ فوجی افسر اور دیگر افراد یرغمال بنا یا اور مطالبہ کیاکہ لشکر جھنگوی کے امیر ملک اسحاق سمیت 100 سے زائد دہشتگردوں کو رہا کیا جائے، بعدازاںملک اسحاق، احمد لدھیانوی، فضل الرحمٰن خلیل (سربراہ حرکة المجاہدین) اور جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے بھائی مفتی عبد الروف کو راتوں رات راولپنڈی منتقل کیا اور اغوا کاروں کے ساتھ اُس کے مذاکرات کروائے گئے، یہ مذاکرات کامیاب تو نہ ہو سکے، لیکن یہ بات واضح ہو گئی کہ ملک اسحٰق جیل میں رہ کر بھی پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں ملوث ہے،یہی وجہ تھی کہ ملک اسحاق پر جیل میں بیٹھ کر لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے کا الزام بھی عائد کیا گیا، جس کے نتیجے میں سات کھلاڑی اور ایک معاون کوچ زخمی جبکہ 8 پاکستانی ہلاک ہو ئے،جبکہ مذکورہ حملوں کی وجہ سے ناصرف پاکستان ورلڈ کپ کی میزبانی سے محروم رہا بلکہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا دروازہ بھی بند ہوگیا ،یہ تنظیم حالیہ عرصے میں شیعہ اور خاص طور پر ہزارہ شیعہ پر حملوں اور پرتشدد کارروائیوں کی ذمہ داری بھی قبول کرچکی ہے، تاہم ملک اسحاق کے اعلان لاتعلقی کے بعد اِس کی موجودہ قیادت کے بارے میں انٹیلی جنس ادارے زیادہ آگاہی نہیں رکھتے۔
پولیس ذرائع کہتے ہیں کہ لشکر جھنگوی فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے اور اُس کے طالبان سے بھی تعلقات ہیں،اِسی طرح پاکستانی تفتیش کار کہتے ہیں کہ تحریک طالبان پنجاب دراصل صوبہ پنجاب میں کئی سالوں سے سرگرم مختلف شدت پسند تنظیموں کا ایک ملغوبہ ہے،یہ گروپ پاکستان میں کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کی مشترکہ کاوش ہے جس میں سپاہ صحابہ، لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی، حرکت المجاہدین اور حرکت الانصار وغیرہ کے کارکن شامل ہیں،اِسی طرح تحریک طالبان پاکستان ،جس کا قیام دسمبر 2007ءمیں عمل میں آیا، میں شامل ہونے والے جنگجو افراد اور تنظیمیں پہلے سے اپنے اپنے علاقوں میں سرگرم اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث رہی ہیں،یہ وہی تحریک طالبان پاکستان ہے جس نے افغانستان کے اندر امریکی و اتحادی افواج پر حملوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں، پاکستان کے شہری علاقوں میں بم دہماکوں اور خود کش حملوں کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ جس کے خاتمے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے،جبکہ تحریک طالبان ،پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی اور دیگر علاقوں میں شیعہ اور سنی بریلوی مسلک کے افراد پر حملوں میں بھی ملوث قرار دی جاتی ہے اور اس طرح کی بہت سی بڑی کار روائیوں کی ذمہ داری بھی قبول کر چکی ہے۔
اگرچہ سپاہ صحابہ اور اُس سے ملحقہ تمام تنظیمیں یہ دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ اُن کی مذہبی سیاسی اَساس ہے، مگر یہ اپنے فرقہ پرستانہ عزائم پر بھی کاربند ہیں، اِن کے ممبران جو کہ وقفے وقفے سے تنظیم سے علیحدہ ہوئے، انھوں نے مختلف فرقہ پرست تنظیموں کی بنیاد ڈالی ،اِسی وجہ سے لشکر جھنگوی کو سپاہ صحابہ کا عسکری بازو تصور کیا جاتا ہے اور دونوں دھڑوں کے عزائم مشترک ہیں، پاکستان کے بیشتر تجزیہ نگاروں کو یقین ہے کہ 1996ءمیں لشکر جھنگوی کا سپاہ صحابہ سے علیحدگی کا پس پردہ مقصد دراصل سپاہ صحابہ کو اپنی سیاسی سرگرمیوں پر فرقہ واریت کے دفاع کیلئے توجہ مرکوز کرنے کا موقع فراہم کرنے کی ایک چال تھا، جنوری 2009ءمیں محکمہ سی آئی ڈی نے سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے انتہائی مطلوب افراد کے ناموں پر مشتمل ایک فہرست ریڈ بک (Red Book) شائع کی جس کی رُو سے سپاہ صحابہ کا پورے ملک میں ایک مضبوط جال ہے اور اُس کو پورے ملک خصوصاً کراچی کے دیوبندی مدارس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان جو آج اہلسنّت وجماعت کے جعلی نام سے کام کررہی ہے، دیوبندی مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والی سب سے بڑی فرقہ پرست تنظیم ہے اور پاکستان میں فرقے کے نام پر تشدد اور دہشت گردی کی بنیاد رکھنے میں اِس تنظیم کا کردار سب سے اہم مانا جاتا ہے،اس تنظیم کے ردعمل میں 1990ءمیں سلیم قادری کی زیر نگرانی سنی تحریک کے قیام کے علاوہ متعدد شیعہ تنظیمیں بھی وجود میں آئیں، جن میں1993ءمیں غلام رضا نقوی کی قیادت میں شدت پسند شیعہ تنظیم سپاہ محمد اور پھر میجر ریٹائرڈ اشرف علی شاہ کی قیادت میں سپاہ محمد میں ایک نئے شدت پسند گروپ کااضافہ ، چھوٹے چھوٹے شیعہ گروپوں پر مشتمل جعفریہ الائنس اورآل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کا قیام کے ساتھ،بقیة اللہ سمیت مہدی فورس وغیرہ بھی دراصل اِسی کالعدم تنظیم کی فرقہ پرست متصبانہ کارروائیوں کا رد عمل تھا،جس نے وطن عزیز کو مسلکی تعصب اور مذہبی نفرت و منافرت کی آگ میں دھکیل کر ہماری قومی وحدت کو پارہ پارہ کردیا۔
قارئین محترم ! اِن حقائق کے مطالعے سے واضح ہوگیا کہ اِس تنظیم کے اہداف ومقاصد کیا ہیں اور اِس کے قیام نے ہمارے ملک،معاشرے اور قومی یکجہتی پر کیا اثرات مرتب کیے،اگلی قسط میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ قیام سے اگر اِس تنظیم اوراِن لوگوں کا اہلسنّت سے کوئی تعلق نہیں تو اصل اہلسنّت وجماعت کون ہیں ،کب سے ہیں اوراُن کی درست شناخت و پہچان کیا ہے۔ (جاری)
No comments:
Post a Comment