Friday, 28 November 2014

حُلیہِ خیرالوریٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم

حُلیہِ خیرالوریٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکار دوجہاں ،مختار کون مکاں،باعث تخلیق کون مکاں،آقائے دو جہاں ،فخر موجودات ،زینت بزم کائنا ت،حضور پرنور، شافع یوم النشور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا رحمت بن کے آئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عضوعضو معجزہ تھا۔
-------------------------------------------------------------------------------------------
ہم یہاں اس عظیم ہستی کے جسم اطہر اعضاء کی ہیت و بناوٹ و کمالات ملاحظہ کریں گے کہ
جو سارے عالموں کے لئے رحمت بن کے آئے جو ہر دکھی وبے سہارا کا سہارا بنے جنہوں نے لوگوں کے مصائب و آلام کا مداوا کیا, لوگوں کی مشکلات دور کیں ان کی خواہشات پوری کیں, بن مانگے عطاء کرتے رہے ۔
-------------------------------------------------------------------------------------------

١):۔ معطر ومطہرموئے مبارک :۔
***********************
فخر موجودات ،زینت بزم کائنا ت،حضور پرنور، شافع یوم النشور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور کے بال مبارک نہ بہت زیادہ گھونگریالے تھے نہ بالکل سیدھے تھے ان مہکتے ہوئے بالوں کی لمبائی کبھی دوش اطہر تک ہوتی تھی اور کبھی گوش مبارک تک ۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنگھی کیا کرتے تھے تو وہی زلفیں دوش اطہر تک پہنچ جایا کرتی تھیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (زینت بزم کائنا ت،حضور پرنور، شافع یوم النشور) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک کانوں کے درمیان تک پہنچتے تھے۔
صدیقئہ کائنات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک جمہ و فرہ کے درمیان تھے یعنی کانوں اور کندھوں کے درمیان تھے ۔
(الوفاء باحوال المصطفیٰ ؐ ص ٤٤٩ فرید بکسٹال)
مدارج النبوۃ اور المواہب الدنیہ میں ہے کہ کنگھی فرماتے تو دوش اقدس تک پہنچ جاتے اور بعد ازاں گھنگھریالے ہونے کی وجہ سے سکڑ کر کانوں تک پہنچ جاتے اور حجامت بنوانے پر کانوں کے قریب ہوتے اور چند دن بعد کندھوں تک پہنچ جاتے۔
یہ موئے مبارک تو وہ موئے مبارک ہیں کہ مولائے کائنات باب العلم والحکمت حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ فخر موجودات ،زینت بزم کائنا ت،حضور پرنور، شافع یوم النشور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بال مبارک ھاتھ میں لے کر ارشاد فرمایا کہ
من اذیٰ شعرۃََمِنْ شَعْرِیْ فَالْجَنْۃ عَلیہِ حَرام
جس نے میرے بالوں میں سے ایک کی بھی توہین کی اسے تکلیف دی تو اس پر جنت حرام ہے۔
(جامع صغیرجز ثانی ص ١٤٥)
میرے آقا و مولا ،فخر موجودات ،زینت بزم کائنا ت،حضور پرنور، شافع یوم النشور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک لینے کے لئے صحابہ کرم جب ،حضور پرنور، شافع یوم النشور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حلق کرانے کیلئے بیٹھے تو صحابہ حلقہ بنا کر ان بالوں کو لینے کے لئے جمع ہو جایا کرتے تھے۔
جیسا کہ مسلم شریف کی جلد نمبر١ میں ہے کہ
فما یریدون ان تقع شعرۃ الا فی ید رجل
ہر شخص کی یہی کوشش تھی کہ ایک بال بھی اس کے ھاتھ لگ جائے۔
میرے آقائے کریم حضور پرنور، شافع یوم النشور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک وہ ہیں کہ جن کی وجہ سے سیف اللہ حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کو جنگوں میں فتح و نصرت حاصل ہوتی تھی ۔
-------------------------------------------------
کلام الٰہی میں شمس و ضحیٰ تیرے چہرے نور فزا کی قسم
قسم شب تار میں راز یہ تھا کہ حبیب زلف دوتا کی قسم
-------------------------------------------------------------------------------------------
شکم مبارک:۔
٭٭٭٭٭٭
یہ شکم مبارک وہ ہے کہ جس کے بارے میں تاجدار بریلی شہنشاہ ولایت امام العاشقین امام احمد رضا خان فرماتے ہیں کہ
-------------------------------
کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام ۔
-------------------------------
نور مجسم شفیع معظم سرکار دوجہاں ،مختار کون مکاں،باعث تخلیق کون مکاں،آقائے دو جہاں ،فخر موجودات ،زینت بزم کائنا ت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکم مبارک اور سینہ اطہر ہموار اور برابر تھاسینہ اقدس کے درمیان میں موئے مبارک کا ایک پرنور خط تھا جو ناف تک تھا۔آپ کا سینہ اقدس کسی قدر ابھرا ہوا اور چوڑا تھا۔
یہ شکم مبارک وہ شکم مبارک ہے کہ جو کبھی کھانے سے سیر نہیں ہواصدیقہ کائنات حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ آپ نے کبھی سیر ہوکر کھانا نہیں کھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فقر اختیاری کا عالم یہ تھا کہ آپ کئی کئی دن فاقہ کرتے مگر اس کی شکایت کبھی کسی سے نہیں کی۔
یہ آپکا فقر اختیاری تھا اگر آپ چاہتے تو شاہانہ زندگی بسر کر سکتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں خزانوں کی چابیاں تھیں آپ تو وہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
-----------------------------
واللہ یعطی وانا قاسم
کہ اللہ مجھے عطاکرتا ہے اور میں تقسیم کرنے والاہوں۔
---------------------------------------------
مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں۔
---------------------------------------------
شفا شریف میں ہے کہ صدیقہ کائنات حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں آپ کے فاقہ کی حالت دیکھ کر رو پڑتی تھی ۔
اور آپ کے شکم مبارک پر ہاتھ پھیرتی اور کہتی کہ میں آپ پر واری جاؤں اتنا تو قبول کرلیں کہ جسمانی قوت قائم رہے تو( آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرباں جائیں )آپ فرماتے کہ
-------------------------------------------------------------
مالی وللدنیا اخوانی من اولی العزم من الرسل صبرواعلی ما ھو اشد من ھذا
مجھے دنیا سے کیا کام میرے برادر اولوالعزم رسل تو اس سے بھی زیادہ حالت پر صبر کیا کرتے تھے۔
-----------------------------------------------------------------------------
میرے آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ بغیر افطار کیے کئی کئی دن روزہ رکھا کرتے تھے تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے آپ کو دیکھ کر روزے رکھنے شروع کر دیے تو صحابہ کرام کمزور ہونا شروع ہو گئے جب صحابہ کرام کمزور ہونا شروع ہوئے ان کی کمزوری ظاہر ہوئے تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم تھا مگر تعلیم امت کے لئے پوچھا)تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا تو صحابہ کرام عرض کرتے کہ ۤآپ خود روزہ رکھتے ہیں اور ہمیں منع کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے کہ
------------------------------------------------------
لست کاحد منکم انی اطعم واسقی وانی ابیت اطعم واسقی
میں تمہارے جیسا نہیں ہوں
------------------------------------------------------
اب وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ آقاکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرح بشر ہیں تو وہ اس کو سامنے رکھیں کہ \"لست کاحد منکم \"آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور بھی ہیں بشر بھی ہیں اور بشر ہماری طرح کے نہیں بلکہ
محمد بشر لا کالبشر بل ھو یاقوت بین الحجر
----------------------------------------------------------------------------------------
چہرہ مبارک:۔
٭٭٭٭٭٭
کس قلم کی طاقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والضحیٰ والے چہرہ کے نقشہ کا احاطہ کر سکے وہ رخ انور کہ جس کا عرب و عجم سارا دیوانہ تھا اور ہے جس کے ایک بار نظارہ کے لئے دنیا ترستی تھی اور جو اس چہرہ انور کا نظارہ کر لیا کرتے تھے تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھتے تھے کہ
لم ار قبلہ ولا بعدہ
ایسا حسین و جمیل چہرہ ایسا رخ زیبا نہ ہم نےاس سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ بعد میں۔ وہ ایسا چہرہ تھا کہ جس چہرہ انور کا نور اللہ نے ستر ہزار پردوں میں چھپا رکھا تھا پھر بھی سارا عالم اس والضحیٰ والے چہرہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب رہتا تھا ۔
چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ میں رات کے وقت کپڑے سی رہی تھی کہ میرے ھاتھ سے سوئی گر گئی کافی تلاش کی مگر نہ ملی کہ اچانک آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ کے رخ انور سے ایسی نور کی کرن نکلی کہ میرے ھاتھ سے گری ہوئی سوئی مل گئی ۔
(حجۃ اللہ علی العالمین ص ٦٨)
---------------------------------------------------------------------------------------
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ے زیادہ حسین وجمیل نہیں دیکھا یوں معلوم ہوتا کہ آفتاب آپ کے چہرہ اقدس میں چل رھا ہے ۔
حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں کہ
----------------------------
واحسن منک لم تر قط عینی
واجمل منک لم تلد النسائ
خلقت مبراء من کل عیب
کانک خلقت کما تشائ
---------------------------
دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ
------------------------------
متیٰ یبدء فی اللیل البھیم جبینہ
یلح مثل مصباح الدجیٰ المؤقد
---------------------------
(زرقانی علی الموہب جز رابع ص ١٩١)(شرح دیوان حسان ص ١٥٧)
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ
------------------------------------------------------------
کان اذ ضحک یتلا لوفی الجدر
جب آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہنستے تو دیواریں روشن ہو جاتی تھی۔
------------------------------------------------------------
حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ تلوار کی طرح چمکیلا تھا۔
------------------------------------------------------------------------------------------
ریش مبارک:۔
٭٭٭٭٭
میرے آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی تھی اور چہرہ انور اس کے گھیرے میں اس طرح معلوم ہوتا تھا کہ جیسے رحل میں قرآن رکھاہوا ہو۔
النہایہ میں ہے کہ داڑھی کے وہ بال جو قبضہ سے زائد ہوں ان کا کاٹنا واجب ہے ایسے ہی میرے آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ اپنی داڑھی مبارک کی لمبائی اور چوڑائی سے زائد بال کاٹا کرتے تھے یہ روایت حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے۔
(فتح القدیر جلد دوم ص ٧٦ باب مایوجب القضائ)
یزید بن فارسی سے روایت ہے (طویل روایت ہے میں حلیہ مبارکہ کے بیان والا حصہ نقل کر رھا ہوں آپ آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خواب میں دیکھا حلیہ حضرت عباس سے بیان کررہے ہیں )
آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قد درمیانہ اور گندم گون سفیدی مائل رنگت آنکھیں سرمئی خونصورت ہنسی والے گول چہرہ والے کہ ان کی داڑھی دائیں بائیں بھری ہوئی تھی اور سینہ کو چھپائے ہوئے تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر ےم آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیداری میں بھی دیکھتے تو بھی آپ کے حلیہ شریفہ کی اس سے زیادہ تعریف نہ کرتے۔
(شمائل ترمذی ص ٣٠مطبوعہ امین کمپنی اردو بازار دھلی انڈیا)
میرے پیارے آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ریش مبارک کو تیل بھی لگایا کرتے تھے اور کنگھی بھی کیا کرتے تھے اور مونچھیں کٹوایا کرتے تھے ۔
-------------------------------------------------------
ریش خوش معتدل مرہم ریش دل
ہالہ ماہ ندرت پہ لاکھوں سلام
------------------------------------------------------------------------------------------------
لب اور دندان مبارک:۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب مبارک نہایت خوبصورت اور سرخی مائل تھے دندان مبارک کشادہ روشن وتاباں تھے جب کلام فرماتے تو دندان مبارک سے نور نکلتا ہوا دکھائی دیتا اور جب تبسم فرماتے تو در و دیوار روشن ہو جایا کرتے تھے۔
اسی لیے تو شاعر کہتا ہے کہ۔
جگمگاتے ہوئے سرکار کے دلکش دنداں
خود بنا دیتے ہیں ذروں کو بھی ماہ تاباں
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کلام فرماتے تو
رای کالنور یخرج من بین ثنایاہ
(حجۃ اللہ ص ٦٨١)
ترجمہ :۔
ایک نور نظر آتا تھا جو آپ کے دندان مبارک سے نکلتا تھا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تبسم فرماتے
یتلاء فی الجدر
(ترمذی شریف)
ترجمہ:۔
(تو دندان مبارک سے نور شعاعیں نکلتیں)جن سے دیواریں منور ہو جاتیں۔
انہی لبوں کے بارے میں امام احمد رضا بریلوی فرماتے ہیں کہ
پتلی پتلی گل قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
اور
دندان مبارک کے بارے میں فرمایا کہ
جس کے گچھے سے لچھے جھڑیں نور کے
ان ستاروں کی نزہت پہ لاکھوں سلام
-------------------------------------------------------------------------------------------
گردن،کندھے اور پشت مبارک:۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میرے آقا و مولیٰ مولا کائنات نور مجسم شفیع معظم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن انور انتہائی خوبصورت تھی اعتدال کے ساتھ طویل اور چاندی نما سفید تھی آپ کی گردن حسین وجمیل تھی گویا کہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ گردن چاندی کی صراحی تھی ۔
اور آپ کے کندھے مبارک بھی ایک عجیب ہی شان کے مالک تھے وہ بھی ایسے حسین و جمیل تھے کہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے چاندی میں ڈھلے ہوئے ہیں۔
مستدرک میں ہے کہ
فاتح خیبر شیر خدا با ب العلم والحکمت حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں مبارک کی قوت کا یہ عالم تھا کہ
اگر میں چاہتا تو مجھے آسما ن تک پہنچا دیتے۔
مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ صحابی رسول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
میری نظر آقائے دوجہاں سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر پڑی تو ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ چاندی میں ڈھلی ہوئی ہے۔
مسند امام احمد بن حنبل جلد نمبر ٣ صفحہ نمبر ٤٢٦
خالق کائنات مالک کائنات مالک ارض و سماں اللہ رب العزت کے پیارے محبوب کریم سرکار کون و مکاں مختار کون ومکاں راحۃ العاشقین شمس العارفین امام المرسلین حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری بغلیں پاک و صاف طیب و طاہر تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغلیں پاکیزہ خوشبودار تھیں آپ کی بغلوں کا رنگ متغیر نہیں ہوتا تھا۔
صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ایک دفعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لئے ھاتھ اٹھائے اور اتنے بلند کئے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔
سبحان اللہ
ابھی بھی کوئی کہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل ہوں تو اس کی عقل پر تف ہے۔
خصائص الکبریٰ میں ہے بنی حریش کے ایک ثقہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ماعز بن مالک کو ان کے اقرار بالزنا پر سنگسار کرنے کا حکم دیا تو ان کے جسم پر پتھر برستے دیکھ کر مجھ میں کھڑا رہنے کی طاقت نہ رہی قریب تھا کہ میں گر پڑتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تھام لیا تو وہ ایسا وقت تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغل مبارک سے پسینہ گر رھا تھا کہ جس سے کستوری کی خوشبو آرہی تھی۔
سبحان اللہ
حُلیہِ خیرالوریٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم :۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان مبارک بغلوں کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ ساری دنیا کے انسانوں کی بغلوں کا رنگ متغیر ہوتا ہے مگر سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغلوں مبارکہ کا رنگ متغیر نہیں ہوتا تھا ۔
----------------------------------------------------------------------------
حلیہ مقدسہ سے برکت حاصل کرنے کے لیے نفس اسلام ٹیم یہاں حضرت مولانا محمد کامل صاحب چراغ ربانی نعمانی ولید پوری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے منظوم حلیہ مبارکہ کے چند اشعار نقل کرتی ہے،
حضرت مولانا موصوف نے اپنی کتاب ’’پنجہ نور‘‘ میں تحریر فرمایا کہ
حلیۂ مقدسہ
٭٭٭٭٭٭
روحِ حق کا میں سراپا کیا لکھوں
حلیہ نورِ خدا میں کیا لکھوں
-------------------------------------------------------------
پر جمالِ رحمۃٌ للعالمیں
جلوہ گر ہو گا مکانِ قبر میں
-------------------------------------------------------------
اس لئے ہے آگیا مجھ کو خیال
مختصر لکھ دوں جمالِ بے مثال
-------------------------------------------------------------
تا کہ یاروں کو مرے پہچان ہو
اور اس کی یاد بھی آسان ہو
-------------------------------------------------------------
تھا میانہ قد و اوسط پاک تن
پر سپید و سرخ تھا رنگ بدن
-------------------------------------------------------------
چاند کے ٹکڑے تھے اعضاء آپ کے
تھے حسین و گول سانچے میں ڈھلے
-------------------------------------------------------------
تھیں جبیں روشن کشادہ آپ کی
چاند میں ہے داغ وہ بے داغ تھی
-------------------------------------------------------------
دونوں ابرو تھیں مثالِ دو ہلال
اور دونوں کو ہوا تھا اِتصال
-------------------------------------------------------------
اِتصال دو مہ \"عیدین\" تھا
یاکہ ادنیٰ قرب تھا ’’قوسین‘‘ کا
-------------------------------------------------------------
تھیں بڑی آنکھیں حسین و سرمگیں
دیکھ کر قربان تھیں سب حور عیں
-------------------------------------------------------------
کان دونوں خوب صورت ارجمند
ساتھ خوبی کے دہن بینی بلند
-------------------------------------------------------------
صاف آئینہ تھا چہرہ آپ کا
صورت اپنی اس میں ہر اک دیکھتا
-------------------------------------------------------------
تابہ سینہ ریش محبوبِ الٰہ
خوب تھی گنجان مو ، رنگ سیاہ
-------------------------------------------------------------
تھا سپید اکثر لباسِ پاک تن
ہو ازار و جبہ یا پیر ہن
-------------------------------------------------------------
سبز رہتا تھا عمامہ آپ کا
پر کبھی سود و سپید و صاف تھا
-------------------------------------------------------------
میں کہوں پہچان عمدہ آپ کی
د ونوں عالم میں نہیں ایسا کوئی

اذکار سلسلہ قادریہ:۔ترتیب و پیشکش۔ڈاکٹر فیض احمد چشتی







Thursday, 27 November 2014

اہل بیت اطھار رضی اللہ عنھم اجمعین

سوال نمبر 1: اہل بیت میں کون کون سے حضرات داخل ہیں؟ جواب :حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نسب اور قرابت کے وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ ان اہل بیت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات (آپ کی بیبیاں، ہم مسلمانوں کی مقدس مائیں) اور حضرت خاتوں جنت فاطمہ زہرا، حضرت مولا علی مشکل کشا اور حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم سب داخل ہیں۔
سوال نمبر 2: ازواج مطہرات کا کیا مرتبہ ہے؟
جواب :قرآن عظیم سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس بیبیاں مرتبہ میں سب سے زیادہ ہیں اور ان کا اجر سب سے بڑھ کر ہے۔ دنیا جہاں کی عورتوں میں کوئی ان کی ہمسر اور ہم مرتبہ نہیں، اگر اوروں کو ایک نیکی پر دس گنا ثواب ملے گا تو انھیں بیس گنا، کیونکہ ان کے عمل میں دو جہتیں ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی بندگی وا طاعت اور دوسرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا جوئی و اطاعت ۔ لہٰذا انھیں اوروں سے دوگنا ثواب ملے گا۔
سوال نمبر 3: پنجتن پاک کن حضرات کو کہا جاتا ہے؟
جواب :پنجتن پاک سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مولا علی اور حضرت بی بی فاطمہ زہرا(حضور کی صاحبزادی اور حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں۔
سوال نمبر 4: اہل بیت کرام کے فضائل کیا ہیں؟
جواب :اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے فضال بہت ہیں ان حضرا ت کی شان میں جو آئتیں اور حدیثیں وارد ہوئی ہیں۔ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ:
۱۔ اہل بیت کرام سے اللہ تعالیٰ نے رجس و ناپاکی کو دور فرمایا اور انھیں خوب پاک کیا اور جو چیز ان کے مرتبہ کے لائق نہیں اس سے ان کے پرور دگار نے انھیںمحفوظ رکھا۔
۲۔ اہل بیت رسول پر دوزخ کی آگ حرام کی۔
۳۔ صدقہ ان پر حرام کیا گیا کہ صدقہ دینے والوں کا میل ہے۔
۴۔ اوّل گروہ جس کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے حضور کے اہل بیت ہیں۔
۵۔ اہل بیت کی محبت فرائض دین سے ہے اور جو شخص ان سے بغض رکھے وہ منافق ہے۔
۶۔ اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے۔ جو اس میں سوا ر ہوا اس نے نجات پائی اور جو اس سے کترایا ،ہلاک وبردبا ہوا۔
۷۔ اہل بیت کرام اللہ کہ وہ مضبوط رسی ہیں جسے مضبوطی سے تھامنے کا ہمیں حکم ملا۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں جب تک تم انھیں نہ چھوڑ و گے ہر گز گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب اللہ (قرآن کریم) ایک میری آل۔
ایک اور حدیث شریف میںہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت اور اہل بیت کی محبت اور قرآن پاک کی قرا ت۔
غرض اہل بیت کرام کے فضائل بے شمار ہیں۔
سوال نمبر 5: حضرت بی بی فاطمہ کے فضائل کیا ہیں؟
جواب :حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اور اس کے ساتھ محبت کرنے والوں کو دوزخ سے خلاصی عطا فرمائی۔ ایک حدیث میںہے کہ حضرت فاطمہ پاک دامن ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان پر اور ان کی اولاد پر دوزخ کو حرام فرمایا۔
ایک حدیث میں ہے کہ فاطمہ میرا جز ہیں جو انھیں ناگوار ، وہ مجھے ناگوار اور جو انھیں پسندوہ مجھے پسند۔ ایک اور حدیث میںہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فاطمہ ! تمہارے غضب سے غضبِ الٰہی ہوتا ہے ، اور تمھاری رضا سے اللہ راضی۔
ایک اور حدیث میں حضورپر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فاطمہ ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم ایمان ولی عورتوں کی سردار ہو۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: مجھے اپنے اہل میں سے سب سے زیادہ پیاری فاطمہ ہیں۔
سوال نمبر 6: حضرت امام حسن اور امام حسین کے کیا فضائل ہیں؟
جواب :حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :
۱۔ حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
۲۔ جس نے ان دونوں (حضرت امام حسن اور امام حسین) سے محبت کی ، مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی۔
۳۔ حسین و حسن جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
۴۔ جو شخص نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں کے والد اور والدہ سے محبت رکھی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
الغرض اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہم اہلسنت و جماعت کے متقداء ہیں جو ان سے محبت نہ رکھے وہ بارگاہ الٰہی سے مردور و ملعون ہے اور حضرت حسنین یقینا اعلیٰ درجہ کے شہیدوں میں ہیں۔ ان میں سے کسی کی شہادت کا انکار کرنے والا گمراہ بددین ہے۔
سوال نمبر 7: صحابہ کرام کی محبت کے بغیر اہل بیت کی محبت کام آئے گی یا نہیں؟
جواب :حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے آل اور اصحاب سے محبت اور ان دونوں کے ادب وتعظیم کو لازم جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ تو جس طرح اہل بیت کرام کی محبت کے بغیر آدمی مسلمان نہیں رہ سکتا اسی طرح صحابہ کرام کی محبت کے بغیر بھی ایمان قائم نہیں رہ سکتا۔ دل میں ان دونوں کی محبت و عقیدت کو جگہ دینا فرائض دین سے ہے اور دونوں کی تعظیم و تکریم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں داخل ہے۔ اہل بیت کرام اس امت کے لیے اگر کشتی کی مانند ہیں تو صحابہ کرام ستاروں کی رہنمائی حاصل کئے بغیر چلنے والی کشتیاں ساحل مراد تک پہنچنے سے پہلے ہی طوفان کی نذر ہو جاتی ہیں۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ حضرت مولا علی کی محبت اور ابو بکر و عمر کا بغض کسی مسلمان کے دل میں جمع نہیں ہو سکتا۔
سوال نمبر 8: یزید کون تھا؟
جواب :یزید بنی امیہ میں وہ بد نصیب شخص ہے جس کی پیشانی پر اہل بیت کرام کے بے گناہ قتل کا سیاہ داغ ہے اور جس پر رہتی دنیا تک دنیائے اسلام ملامت کرتی رہے گی اور تاقیامت اس کا نام حقارت و نفرت سے لیا جائے گا ۔ یہ بد باطن، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کے گھر پیدا ہوا، نہایت موٹا، بد نما ، بد اخلاق، شرابی، بد کار، ظالم و گستاخ تھا۔ اس کی بیہود گیاں ایسی ہیں جن سے بدمعاشوں کو بھی شرم آئے۔ سود وغیرہ کو اس بے دین نے علانیہ رواج دیا اور مدینہ طیبہ و مکہ مکرمہ کی بے حرمتی کرائی۔ البتہ اس پلید کو کافر کہنے اور اس پر نام لے کر لعنت کرنے میں احتیاط چاہیے۔ اس بارے میں ہمارے امام اعظم کا مسلک (طریقہ) سکوت (خاموشی) یعنی ہم اسے فاسق و فاجر کہنے کے سوا نہ کافر کہیں اور نہ مسلمان۔
اور یہ جو آج کل بعض گمراہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کے معاملہ میں کیا دخل ہے ہمارے وہ (حضرت اما م حسین) بھی شہزادے ، اور وہ (یزید پلید) بھی شہزادے، ایسا بکنے والا خارجی ہے اور جہنم کا مستحق۔
سوال نمبر 9: اہل بیت کے ائمہ دوازدہ (بارہ امام) کون کون ہیں؟
جواب :ائمۂ اہل بیت میں سب سے اول امام حضرت مولیٰ علی ہیں، پھر حضرت امام حسن، پھر حضرت امام حسین، پھر حضرت امام زین العابدین، پھر حضرت امام باقر، پھر حضرت امام جعفر صادق، پھر حضرت امام موسیٰ کاظم، پھر حضرت امام علی موسیٰ رضا، پھر حضرت امام محمد تقی، پھر حضرت اما م نقی، پھر حضرت امام حسن عسکری رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور پھر حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو قرب قیامت میں ظاہر ہوں گے۔

Panjtan (Five People)


Panjtan (Five People)

Written by: Allama Syed Ahmed Saeed Kazmi (رحمۃ اللہ علیہ)
Translated by: Mumtaz Al-Qadiri
لی خمسۃ اطفیٰ بہا حرالوبا الحاطمہ
المصطفیٰ والمرتضیٰ وابنا ھما الفاطم
There are “five” personalities for me through whose mediation I can extinguish the burning difficulties. Those are “Prophet Muhammad (Peace and blessings of Allah be upon him), Hazrat Ali, Hazrat Fatimah and Hasan and Husain”
The Glorious Qur’an says: انما یرید اﷲ لیذ ھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا
Allah only wishes to remove all abomination from you, ye members of the Family, and to make you pure and spotless. (Surah Ahzaab, verse 44)
Allama Abi Ja’far Muhammad bin Jareer Tabri (Allah’s mercy be upon him) (died in 310 Hijri) quotes a Hadith:
محمد بن المثنی قال ثنابکر بن یحییٰ بن زبان العنزی قال ثنا مندل عن الاعمش عن عطیۃ عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اﷲ ﷺ نزلت ھذہ الاٰیۃ فی خمسۃ فیّ وفی علی رضی اﷲ عنہ وحسن رضی اﷲ عنہ وحسین رضی اﷲ عنہ وفاطمہ رضی اﷲ عنہا انما یرید اﷲ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطہرکم تطھیرا
that the The Holy Prophet (Peace and blessings of Allah be upon him) said “This verse is revealed about the ‘Panjtan’. For me and Ali and Hasan and Hussain and Hazrat Fatimah (May Allah be pleased with them all), Verily Almighty Allah wants, O family of Prophet, that (He) keeps the impurity away from you and makes you pure and further very pure” (Jama al-Bayaan Fee Tafseer-ul-Qur’an, Volume 22, page 5, Published in Beirut in 1398 Hijri/1978)
The meaning of the word “Panjtan” is “five people”, and those are meant to be Hazrat Muhammad-ur-Rasoolullah (Peace and blessings of Allah be upon him), Hasnain Kareemain, Saiyidah Fatimah Zahrah and Hazrat Ali (May Allah be pleased with them all). And the verse of purification (of Qur’an) was revealed about these sacred personality in which the “purify and further purify” is present. Meaning Almighty Allah purifies you, purifying (‘paak’) which is very clear proof that the ‘Panjtan’ is really ‘Paak’.
When The Holy Prophet (Peace and blessings of Allah be upon him) have said the word “Khamsah (five)” from his holy tongue and to clear that (the meaning of) this is about him, he has given detail and said it clearly that “Tat-heer” (Purify) is revealed about these five personalities who are called as purified by Almight Allah; then only a vicious heart can say that, it is not permissible to say ‘Panjtan’ to be ‘Paak’ and say “Tat-heer” (Purification) is not for them. God forbid! If it not the opposition to the Holy Prophet and not disrespect of Allah’s Prophet then what it is? God forbid!
This does certainly not mean that we belief that only ‘Panjtan’ are pure, rest are not. According to us, the holy wives (Azwaj-e-Mutahhirat) of Holy Prophet (Peace and blessings of Allah be upon him) are also included in the verse of “Tat-heer”. That’s why we necessarily use the word “Mutahhirat” with (their names); and apart from them, countless beloved holy men and women of Allah are surely ‘Paak’ and we believe on their purity. But, the reason for saying ‘Panjtan Paak’ is that in the above mentioned Hadith, the holy word ‘Khamsa’ was said from Holy Prophet’s sacred tongue, then further elaboration is done by the Holy Prophet (Peace and blessings of Allah be upon him) himself and told the verse of ‘Tat-heer’ is about them (Mahanama Al-Saeed, Multan, Shumara October 1962, page 22-23).
This is not too far that the Ignorant of Wahabi-ism and Deobandi-ism put Fatwa of being Shi’a on even the Holy Prophet (Peace and blessings of Allah be upon him) on saying ‘Panjtan’ and mentioning the names of them. These people should tell who are ‘Panjtan’? In ‘Panjtan’, one is Holy Prophet, 3 Companions and one Sahabiya (female companion); when Ahle Sunnat takes names of them then (they are) Shi’a but when Deobandi Wahabi mutter the Wazeefa of “Sahabah Sahabah”, shout the slogan of names of Sahabah in their assemblies, make organizations with the names of Sahabah, then Deobandi Wahabis will not become Shia? Why? Is this not the opposition against Ahle Bait?
Sometimes (they) say “the nation of Prophet Nooh (blessings on him) used to believe the five noble personalities as “Daata” and these were their “Panjtan Paak”, our Qabar-parast (the devotees to shrines of Auliya) Muslims’ belief is the remembrance of this ancient belief. [Kitab "Daata kon", writer: Mufti Abdur Rahman Ghair-Muqallid (Fazil-e-Deoband), published by Madarsa Dadrees-ul-Qur'an wal-Hadees, Sunnat-Nagar, Lahore]
Lahaulawala Quwata illah billah! (لاحول ولا قوۃ الاباﷲ) In the Tafaseer (books of Quranic exegesis) and Sharah (explanation) of Prophetic Traditions about Surah Nooh, verse 23 that there were five noble personalities in between the era from Hazrat Aadam (blessings on him) to Hazrat Nooh’s (blessings on him); Wudd, Sawaa’, Yaghoos, Ya’ooq and Nasr. Before Hazrat Nooh, people made idols of those personalities and believed those idols to be their god and worshiped, those people used to worship them. Non of the Muslims believe Ahle Bait or any other Wali-ullah to be ‘ilaah’ (god) and worshiped person, and and neither (Muslims) worship them. There no remedy for false accusation.

ناپاکی دور کرنے کا طریقہ

ناپاکی دور کرنے کا طریقہ

سوال نمبر 1: ناپاک چیزوں کو پاک کرنے کے کتنے طریقے ہیں؟
جواب : جو چیز یں کسی نجاست کے لگنے سے ناپاک ہو جائیں ان کے پاک کرنے کے مختلف طریقے ہیں مثلاً: ۱۔ دھونے سے پانی اور ہر بہنے والی چیز سے جس سے نجاست دور ہو جائے دھوکہ نجس چیز کو پاک کرسکتے ہیں۔
۲۔ پونچھنے سے مثلاً لوہے کہ چیز جیسے جھری، چاقو وغیرہ جس میں نہ زنگ ہو، نہ نقش و نگار ، نجس ہو جائے تو اچھی طرح پونچھ ڈالنے سے پاک ہو جائے گی، نجاست خواہ دلدار ہو یا پتلی یونہی ہر قسم کی دھات کی چیزیں پونچھنے سے پاک ہو جاتی ہیں۔ ہاں اگر نقشی ہوں یا لوہے میں زنگ ہوتو دھونا ضروری ہے۔
۳۔ کھرچنے یار گڑنے سے مثلاً موزے یا جوتے ہیں دالدار نجاست لگی جیسے پاخانہ گوبر تو کھرچنے اور رگڑنے سے پاک ہو جائیں گے۔
۴۔ خشک ہو جانے سے مثلاً ناپاک زمین ہوا سے یا آگ سے سوکھ جائے اور نجاست کا اثر یعنی رنگ و بو جاتا رہے تو پاک ہو جائے گی، اس پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مگر اس سے تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔
۵۔ پگھلنے سے مثلاً رانگ سیسہ پگھلانے سے پاک ہو جاتا ہے۔
۶۔ آگ میں جلانے سے مثلاً ناپاک مٹی سے برتن بنائے تو جب تک کچے ہیں، ناپاک ہیں ، اور آگ میں پکالئے گئے تو پاک ہوگئے۔
۷۔ ذات بدل جانے سے، مثلاً شراب سر کہ ہو جائے اب پاک ہے یا نجس جانور نمک کی کان میں گر کر نمک ہو جائے تو وہ نمک پاک و حلال ہے۔
سوال نمبر 2: جو چیز نچوڑنے کے قابل نہ ہوا س کو کس طرح پاک کریں؟
جواب :جو چیز نچوڑنے کے قابل نہیں ہے جیسے چٹائی ، دری، جوتا وغیرہ اس کو دھو کر چھوڑ دیں کہ پانی ٹپکنا بند ہو جائے۔ یونہی دو مرتبہ اور دھوئیں، تیسری مرتبہ جب پانی ٹپکنا بند ہو گیا وہ چیز پاک ہو گئی۔ اسی طرح ریشمی کپڑا جو اپنی نازکی کے سبب نچوڑنے کے قابل نہیں اسے بھی یونہی پاک کیا جائے گا۔
سوال نمبر 3:تانبے، پتیل وغیرہ دھاتوں اور چینی کے برتنوں کو پاک کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب :چینی کے برتن یا لوہے، تانبے، پیتل وغیرہ دھاتوں کی ایسی چیزیں جن میں نجاست جذب نہیں ہوتی انھیں فقط تین بار دھو لینا کافی ہے۔ اس کی بھی ضرورت نہیں کہ اسے اتنی دیر چھوڑدیں کہ پانی ٹپکنا موقوف ہو جائے ، ہاں ناپاک برتن کو مٹی سے مانجھ لینا بہتر ہے۔
سوال نمبر 4: کپڑے کا کوئی حصہ ناپاک ہو گیا اور یہ یاد نہیں کہ وہ کون سی جگہ ہے تو کپڑا کس طرح پاک کیاجائے؟
جواب : اس صورت میں بہتر تو یہی ہے کہ پورا ہی دھوڈالیں،مثلاً معلوم ہے کہ کرتے کی آستیں یا کلی نجس ہوگئی مگر یہ نہیں معلوم کہ کون سا حصہ ہے ، تو پوری کلی یا پوری آستیں دھونا ہی بہتر ہے اور اگر اندازے سے سوچ کراس کا کوئی حصہ دھولے جب بھی کپڑا پاک ہو جائے
سوال نمبر 5: تیل یا گھی وغیرہ اگر ناپاک ہو جائے تو کس طرح پاک کریں؟
جواب :بہتی ہوئی عام چیزیں گھی تیل وغیرہ کے پاک کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ اتنا ہی پانی ڈال کر خوب ہلائیں پھر اوپر سے تیل گھی اتارلیں اور پانی پھینک دیں، یونہی تین بار کریں وہ چیز پاک ہو جائے گی۔

نمازِ جمعہ کا بیان

نمازِ جمعہ کا بیان

سوال نمبر 1: جمعہ کی نماز فرضِ عین ہے یا فرض کفایہ؟
جواب :جمعہ کی نماز فرضِ عین ہے اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ موکد ہے۔ یعنی ظہر کی نماز سے اس کی تاکید زیادہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو تین جمعے سستی کی وجہ سے چھوڑے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دے گا اور ایک روایت میں ہے وہ منافق ہے اور اللہ سے بے علاقہ۔ اور چونکہ اس کی فرضیت کا ثبوت دلیل قطعی سے ہے لہٰذا اس کا منکر کافر ہے ۔
سوال نمبر 2: جمعہ ادا کرنے کے لیے کتنی شرطیں ہیں؟
جواب :جمعہ پڑھنے کے چھ شرطیں ہیں، کہ ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہو (نہ پائی جائے ) تو جمعہ ہوگا ہی نہیں:
۱۔ شہر یا شہر کے قائم مقام بڑے گاؤں یا قصبہ میںہونا یعنی وہ جگہ جہاں متعدد کوچے اور بازار ہوں اوروہ ضلع یا پرگنہ ہو اور وہاں کوئی حاکم ہو کہ مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے۔ یونہی شہر کے آس پاس جو جگہ شہر کی مصلحتوں کے لیے ہو جسے فنائے مصر کہتے ہیں جیسے قبرستان، فوج کے رہنے کی جگہ، کچہریاں اسٹیشن وہاں بھی جمعہ جائز ہے اور چھوٹے گاؤں میںجمعہ جائز نہیں توجو لوگ شہر کے قریب گاؤں میں رہتے ہیں انھیں چاہیے کہ شہر میں آکر جمعہ پڑھیں۔
۲۔ سلطان اسلام یا اس کا نائب جس نے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو وہاں جو سب سے بڑا فقیہ سُنی صحیح العقید ہ ہو، احکامِ شرعیہ جاری کرنے میں سلطان اسلام کے قائم مقام ہوتا ہے لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے اور یہ بھی نہ ہو تو عام لوگ جس کو امام بنائیں۔ وہ جمعہ قائم کرے ۔عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطورِ خود کسی کو امام نہیں بنا سکتے۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کر لیں ۔ ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں ۔
۳۔ وقت ظہر یعنی وقت ظہر میں نماز پوری ہو جائے تو اگر اثنائے نماز میں اگر چہ تشہد کے بعد عصر کا وقت آگیا تو جمعہ باطل ہو گیا ظہر کی قضا پڑھیں۔
۴۔ خطبہ جمعہ ، اور اس میں شرط یہ ہے کہ وقت میں ہو اور نماز سے پہلے اور ایسی جماعت کے سامنے جو جمعہ کے لیے شرط ہے اور اتنی آواز سے ہو کہ پاس والے سن سکیں، اگر کوئی امر مانع نہ ہو اور خطبہ و نماز میں اگر زیادہ فاصلہ ہو جائے تو وہ خطبہ کافی نہیں۔
۵۔ جماعت، یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین مرد۔
۶۔ اذنِ عام، یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے کسی کی روک ٹوک نہ ہو۔

سوال نمبر 3: خطبہ کسے کہتے ہیں؟
جواب :خطبہ ذکر الٰہی کا نام ہے۔ اگرچہ صرف ایک بار الحمد اللہ یا سبحٰن اللہ یا لآ اٰلہ الا اللہ کہا، فرض ادا ہو گیامگر اتنے ہی پر اکتفا ء کرنا مکروہ ہے اور چھینک آئی ، اس پر الحمد للہ کہا یا تعجب کے طور پر سبحٰن اللہ یا لآ الہ الا اللہ کہا تو فرض ادا نہ ہوا۔
سوال نمبر 4: خطبہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
جواب :خطبہ میں یہ چیزیں سنت ہیں: خطیب کا پاک ہونا، منبر پر ہونا، خطبہ سے پہلے منبر پر بیٹھنا، خطبہ کے لیے سامعین کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہونا، خطبہ سے پہلے اعوذ باللہ آہستہ پڑھنا، اتنی بلند آواز سے خطبہ پڑھنا کہ لوگ سنیں، الحمد سے شروع کرنا، اللہ عزوجل کی ثناء کرنا، اللہ عزوجل کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہات دینا، کم از کم ایک آیت تلاوت کرنا، حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا، پہلے خطبہ میں وعظ و نصیحت ہونا، اور دوسرے میں مسلمانوں کے لیے دعا کرنا اور حمد و ثنا و شہادت و درود کا اعادہ کرنا، دونوں خطبے ہلکے ہونا اور دونوں خطبوں کے درمیان بقدر تین آیت پڑھنے کے بیٹھنا۔
سوال نمبر 5: کون کون سی باتیں خطبہ میں مستحب ہیں؟
جواب :مستحب یہ ہے کہ دوسرے خطبہ میں آواز بہ نسبت پہلے کے پست ہو اور خلفائے راشدین و عمین مکر مین حضرت حمزہ و حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ذکر ہو۔
سوال نمبر 6: خطبہ میں سامعین کے لیے سنت کیا ہے؟
جواب :حاضرین جمعہ امام کی جانب متوجہ رہیں۔ جو شخص امام کے سامنے ہو تو امام کی طرف منہ کرے اور دائیں بائیں ہو تو امام کی طرف مڑ جائے ، اور امام سے قریب ہونا افضل ہے۔ مگر یہ جائز نہیں کہ امام سے قریب ہونے کے لیے لوگوں کی گردنیں پھلانگے۔ حدیث میں ہے ’’جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں، اس نے جہنم کی طرف پل بنایا‘‘ البتہ اگر امام ابھی خطبہ کو نہیں گیا ہے اور آگے جگہ باقی ہے تو آگے جاسکتا ہے اور خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد میں آیا تو مسجد کے کنارے ہی بیٹھ جائے ۔ خطبہ سننے کی حالت میں دوزانو بیٹھے جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں۔
سوال نمبر 7: خطبہ کے وقت کیا کیا باتیںناجائز یا منع ہیں؟
جواب :جو چیزیں نماز میں حرام ہیں وہ سب خطبہ کی حالت میں بھی حرام ہیں مثلاً کھانا پینا سلام جوابِ سلام وغیرہ اور جب خطیب خطبہ پڑھے تو حاضرین پر سننا اور چپ رہنا فرض ہے ، جو لوگ امام سے دور ہیں کہ خطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچتی انھیں بھی چپ رہنا واجب ہے اور جب خطیب خطبہ کے لیے کھڑا ہو اس وقت سے ختم نماز تک و اذکار تلاوتِ قرآن اور ہر قسم کا کلام منع ہے البتہ صاحب ترتیب اپنی قضا نماز پڑ ھ لے۔ یونہی جو شخص سنت یا نفل پڑھ رہا ہے وہ جلد جلدہ پوری کر لے اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ پاک خطیب نے لیا تو حاضرین دل میں درود شریف پڑھیں۔ زبان سے پڑھنے کی اس وقت اجازت نہیں اور اگر کسی کو بری بات کرتے دیکھیں تو ہاتھ یا سر کے اشارے سے منع کر سکتے ہیں ، زبان سے ناجائز ہے۔ ہاں خطیب امر بالمعروف کر سکتا ہے۔
سوال نمبر 8: جمعہ کی دوسری اذان کس وقت کہی جائے؟
جواب :خطیب جب منبر پر بیٹھے تو اس کے سامنے دوبارہ اذان کہی جائے اور سامنے سے مراد یہ نہیں کہ مسجد کے اندر منبر سے متصل ہو کہ مسجد کے اندر اذان کہنے کو فقہائے کرام منع کرتے اور مکروہ فرماتے ہیں اور اذانِ ثانی بھی بلند آواز سے کہیں کہ اس سے بھی اعلان مقصود ہے کہ جس نے پہلی نہ سنی اسے سن کر حاضر ہو اور خطبہ ختم ہو جائے تو فوراً اقامت کہی جائے ۔ خطبہ و اقامت کے درمیان دنیا کی بات کرنا مکروہ ہے۔
سوال نمبر 9: جمعہ کی پہلی اذان ہونے کے بعد کیا حکم ہے؟
جواب :جمعہ کی پہلی اذان ہوتے ہی خرید و فروخت حرام ہو جاتی ہے اور دنیا کے تمام مشغلے اور کاروبار جو ذکر الٰہی سے غفلت کا سبب ہوں، اس میں داخل ہیں، اذان ہونے کے بعد سب کو ترک کرنا لازم اور نمازکے لیے کرنا واجب ہے۔ یہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے اگر خرید و فروخت کی تو یہ بھی ناجائز ہے اور مسجد میں خرید و فروخت تو سخت گناہ ہے۔
نمازِ جمعہ کے لیے پیشتر سے جانا اور مسواک کرنا اور اچھے اور سفید کپڑے پہننا اور تیل اور خوشبو لگا نا اور پہلی صف ہی میں بیٹھنا مستحب ہے اور غسل سنت ۔

سوال نمبر 10: جمعہ واجب ہونے کے لیے کتنی شرطیں ہیں؟

جواب :جمعہ واجب ہونے کے لیے گیارہ شرطیں ہیں، ان میں سے ایک بھی معدوم ہو تو فرض نہیں پھر بھی اگر پڑھے گا تو ہو جائے گا۔
۱۔شہر میں مقیم ہو ۲۔صحت ،لہٰذا ایسے مریض پر کہ مسجد جمعہ تک نہ جاسکتا ہو یا چلے جانے میں مرض بڑھنے یا دیر میں اچھا ہونے کا قوی اندیشہ ہو، جمعہ فرض نہیں۳۔آزاد ہونا ۴۔مردہو نا ۵۔بالغ ہونا ۶۔عاقل ہونا اور یہ دونوں شرطیں خاص جمعہ کے لیے نہیں بلکہ ہر عبادت کے وجوب میں عقل و بلوغ شرط ہے ۷۔انکھیارا ہونا، لہٰذا نابینا پر جمعہ فرض نہیں، ہاں جو اندھا مسجد میں اذان کے وقت باوضو ہو اس پر جمعہ فرض ہے ۔یونہی جونابینا بلاتکلیف بغیر کسی کی مدد کے بازاروں ، راستوں میںچلتے پھرتے ہیں ان پر بھی جمعہ نماز فرض ہے ۔۸۔چلنے پر قادر ہونا، لہٰذا اپاہج پر جمعہ فرض نہیں ۹۔قید میں ہونا ۱۰۔بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا ۱۱۔مینہ یا آندھی یا اولے یا سردی کا نہ ہونا یعنی اس قدر کہ ان سے نقصان کا خوفِ صحیح ہو۔

سوال نمبر 11: جن پر جمعہ فرض نہیں وہ ظہر باجماعت پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب :جن پر جمعہ فرض نہیں انھیں بھی جمعہ کے دن شہر میں جماعت کے ساتھ ظہر پڑھنا مکروئہ تحریمی ہے خواہ جمعہ ہونے سے پیشتر جماعت کریں یا بعد میں، یونہی جنہیں جمعہ نہ ملا وہ ظہر کی نماز تن تنہا ادا رکریں، البتہ گاؤں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز اذان واقامت کے ساتھ باجماعت پڑھیں۔
سوال نمبر 12: اردو میں خطبہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب :عربی کے علاوہ کسی اور زبان میںخطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ دوسری زبان خطبہ میں خلط کرنا سنتِ متواترہ اور مسلمانوں کے قدیمی طریقہ کے خلاف ہے۔ صحابہ کرام کے زمانہ میں عجم کے کتنے ہی شہر فتح ہو گئے، کئی ہزار مسجد یں بنائی گئیں، کہیں منقول نہیں کہ صحابہ نے ان کی زبان میں خطبہ فرمایا ہو، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں رومی، حبشی، عجمی ابھی تازہ حاضر ہوئے ہیں، عربی کا ایک حرف نہیں سمجھتے مگر کہیں ثابت نہیں کہ حضور نے ان کی زبان میں خطبہ فرمایا ہو یا کچھ ان کی زبان میں فرمایا ہو، ایک حرف بھی ان کی زبان کا خطبہ میں منقول نہیں۔
اب رہا یہ اعتراض کہ پھر تذکیرووعظ سے فائد کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نوکری کے واسطے عمریں انگریزی میں گنواتے ہیں اور عربی زبان جو ایسی متبرک کہ اس میں ان کا قرآن، ان کا نبی عربی، ان کی جنت کی زبان عربی، اس کے لیے اتنی کوشش بھی نہ کریں کہ خطبہ سمجھ سکیں، اعتراض تو انھیں معترضین پر پڑے گا نہ کہ خطیب پر۔

فضائل حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم احادیث کی روشنی میں

فضائل حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم احادیث کی روشنی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبطینِ پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم ، شہزادگانِ بتول زہرا رضی اللہ عنہا حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب پر متعدد احادیث وارد ہیں ۔ ذیل میں اعلیٰ حضرت عظیم البرکۃ امام احمدرضا بریلوی قدس سرہ کے مجموعہ \\\"العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ\\\" جلد 8 سے ماخوذ چند احادیث نشان خاطر کریں ۔
حدیث اول :
بخاری و مسلم ونسائی وابن ماجہ بطُرُقِ عدیدہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی
وھذا لفظ مؤلَّف منھا دخل حدیث بعضھم فی بعض
( آئندہ الفاظ ان متعدد روایات کا مجموعہ ہے، بعض کی احادیث بعض میں داخل ہیں۔ ت)

قال خرج النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فجلس بفناء بیت فاطمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا فقال اُدعی الحسن بن علی فحبستہ شیئافظننت انھا تلبسہ سخابا او تغسلہ فجاء یشتد وفی عنقہ السخاب فقال النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بیدہ ھکذا فقال الحسن بیدہ ھکذا حتی اعتنق کل منھما صاحبہ فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اللھم اِنیّ اُحبُّہ، فَاَحِبَّہ، وَاَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہ، ۱؎ ۔
یعنی ایک بارسید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حضرت بتول زہرا رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور سید نا امام حسن رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو بلایا، حضرتِ زہرا نے بھیجنے میں کچھ دیر کی، میں سمجھا انھیں ہار پہناتی ہوں گی یا نہلا ررہی ہوں گی، اتنے میں دوڑتے ہوئے حاضر آئے ، گلے میں ہار پڑا تھا، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے دست مبارک بڑھائے حضور کو دیکھ کر امام حسن نے بھی ہاتھ پھیلائے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کو لپٹ گئے، حضور نے \\\'\\\' گلے لگا کر\\\'\\\' دعا کی: الہٰی! میں اسے دوست رکھتا ہوں تو اسے دوست رکھ اور جو اسے دوست رکھے اسے دوست رکھ۔ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی حِبِّہٖ وبارک وسلم۔
(۱؎ الصحیح للمسلم باب فضل الحسن والحسین مطبوعہ راولپنڈی ۲/ ۲۸۲)

حدیث دوم :
صحیح بخاری میں امام حسن رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی :
کان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یا خُذ بیدی فیُقعدنی علی فخِذِہٖ ویقعد الحسین علٰی فخِذِہ الاُخرٰی ویَضُمُّناَ ثم یقول رب انی ارحمھما فار حمھما ۲؎ ۔
نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر ایک ران پر مجھے بٹھا لیتے اور دوسری ران پر امام حسین کو، اورہمیں \\\'\\\' لپٹا لیتے\\\'\\\' پھر دعا فرماتے : الہٰی! میں ان پر رحم کرتا ہوں تو ان پر رحم فرما۔
(۲؎ الصحیح البخاری باب وضع الصبی فی الحجر مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۸۸)

حدیث سوم :
اسی میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے:
ضَمَّنیِ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الٰی صدرہ ۔ فقال اللھم علمہ الحکمۃ ۱؎ ۔
سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھے \\\'\\\' سینے سے لپٹایا\\\'\\\' پھر دُعا فرمائی: الہٰی! اسے حکمت سکھا دے۔
(۱؎ الصیح البخاری مناقب ابن عباس مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۵۳۱)

حدیث چہارم :
امام احمد اپنی مُسْنَد میں یعلٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی:
ان حسناً وحُسینا رضی اﷲ تعالٰی عنہما یستبقا الٰی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فضمّھما الیہ ۲؎ ۔
ایک بار دونوں صاحبزادے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آپس میں دوڑ کرتے ہوئے آئے حضور نے دونوں کو \\\'\\\' لپٹالیا\\\'\\\'
(۲؎ مسند احمد بن حنبل مناقب ابن عباس مطبوعہ دارالفکر بیروت ۴/ ۱۷۲)

حدیث پنجم :
جامع ترمذی میں انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے حدیث ہے:
سُئِلَ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ای اھل بیتک احبّ الیک قال الحسن والحسین وکان یقول لفاطمۃ ادعی لی ابنی فیشمھما ویضمھما ۳؎ ۔
سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے پوچھا گیا حضور کو اپنے اہل بیت میں زیادہ پیارا کون ہے؟ فرمایا: حسن اور حسین۔ اور حضور دونوں صاحبزادوں کو حضرت زہرا سےبلوا کر \\\'\\\' سینے سے لگالیتے \\\'\\\' اور ان کی خوشبوُ سُونگھتے، صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلیہم و بارک وسلم۔
(۳؂ جامع ترمذی مناقب الحسن والحسین مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص ۴۰ ۔ ۵۳۹)

حدیث ششم :
امام ابوداؤد اپنی سُنن میں حضرت اُسید بن حُضیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روای :
بینما ھو یحدث القوم وکان فیہ مزاحٌ بینما یضحکھم فطعنہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی خاصرتہ بعود فقال اصبرنی قال اصطبر قال ان علیک قمیصاً ولیس علیّ قمیص فوضع النبی صلی اﷲ تعالٰی عیہ وسلم عن قمیصہ فا حتضنہ و جعل یقبّل کشعہ قال انما اردت ھذا یارسول اﷲ ۱؎ ۔
اس اثنا میں کہ وہ باتیں کررہے تھے اور ان کے مزاج میں مزاح تھا، لوگوں کو ہنسارہے تھے کہ سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لکڑی ان کے پہلو میں چبھوئی، انھوں نے عرض کی مجھے بدلہ دیجئے، فرمایا: لے۔ عرض کی: حضور تو کرتا پہنے ہیں اور میں ننگا تھا۔ حضور اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کرتا اُٹھایا انھوں نے حضور کو اپنی \\\'\\\' کنار میں لیا\\\'\\\' اور تہیگاہِ اقدس کو چُومناشروع کیا پھر عرض کی : یا رسول اﷲ! میرا یہی مقصود تھا۔
(۱؎ سنن ابوداؤد باب قُبلۃ الجسد ( کتاب الادب) مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲/ ۳۹۳)
ع دلِ عشّاق حیلہ گر باشد
( عاشقو ں کے دل بہانہ تلاش کرنے والے ہوتے ہیں)
صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی کل من احبہ وبارک وسلم۔

حدیث ہفتم:
اسی میں حضرت ابوذر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے:
مالقیتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قط الاصافحنی وبعث الی ذات یوم ولم اکن فی اھلی فلما جئت اخبرت بہ فاتیتہ وھو علی سریرفالتزمنی فکانت تلک اجود واجود ۲؎ ۔
میں حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو حضور ہمیشہ مصافحہ فرماتے۔ ایک دن میرے بلانے کو آدمی بھیجا میں گھرمیں نہ تھا، آیا تو خبر پائی، حاضر ہوا، حضور تخت پر جلوہ فرماتھے \\\'\\\' گلے سے لگالیا\\\'\\\' تو زیادہ جیّد اور نفیس ترتھا۔
(۲؎ سنن ابوداؤد باب فی المعانقۃ (کتاب الادب) مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۲/۳۵۲)

حدیث ہشتم:
ابو یعلٰی اُم المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے راوی:
قالت رأیت النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم التزمَ علیًّا وقبّلہ، وھو یقول بابی الوحید الشھید ۳؎ ۔
میں نے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا حضور نے مولٰی علی کو \\\'\\\' گلے لگایا\\\'\\\' اور پیار کیا ، اور فرماتے تھے میرا باپ نثار اس وحید شہید پر۔
(۳؎ مسند ابو یعلٰی مسند عائشہ مطبوعہ موسس علوم القرآن بیروت ۴/ ۳۱۸)

حدیثِ نہم :
طبرانی کبیر اور ابن شاہین کتاب السُّنُّۃ میں عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں:
دخل رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واصحابہ غدیرا فقال لیسبح کل رجل الی صاحبہ فسبح کل رجل منھم الٰی صاحبہ حتی بقی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وابوبکر فسَبَّحَ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الٰی ابی بکر حتی اعتنقہ فقال لو کنت متخذا خلیلا لا اتخذت ابا بکر خلیلا ولکنّہ صاحبی ۱؎
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور حضور کے صحابہ ایک تالاب میں تشریف لے گئے، حضور نے ارشاد فرمایا: ہر شخص اپنے یار کی طرف پَیرے۔ سب نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ صرف رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق باقی رہے، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم صدیق کی طرف پَپر کے تشریف لے گئے اور انھیں گلے لگا کر فرمایا: میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرکو بناتا لیکن وہ میرا یار ہے۔ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی صاحبہٖ وبارک وسلم۔
(۱؎ طبرانی کبیر حدیث ۱۱۶۷۶ و ۱۱۹۳۸ مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۱/ ۲۶۱ و ۳۳۹)

حدیث دہم :
خطیب بغدادی حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی:
قال کنا عند النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقال یطلع علیکم رجل لم یخلق اﷲ بعدی احدا خیرا منہ ولا افضل ولہ شفاعۃ مثل شفاعۃ النبیین فما برحنا حتی طلع ابوبکر فقام النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقبّلہ والتزمہ ۲؎ ۔
ہم خدمت اقدس حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر تھے، ارشاد فرمایا: اس وقت تم پر وہ شخص چمکے گا کہ اﷲ تعالی نے میرے بعد اس سے بہتر وبزرگ تر کسی کو نہ بنایا اور اس کی شفاعت شفاعتِ انبیاء کے مانند ہوگی ، ہم حاضر ہی تھے کہ ابو بکر صدیق نظر آئے سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے قیام فرمایا اور صدیق کو پیار کیا اور \\\'\\\' گلے لگایا\\\'\\\'
(۲؎ تاریخ بغداد ترجمہ ۱۱۴۱ محمد بن عباس ابوبکر القاص مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت ۳/ ۲۴ ۔ ۱۲۳)

حدیث یازدہم :
حافظ عمر بن محمد ملاّ اپنی سیرت میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲتعالٰی عنہما سے راوی :
قال رأیت رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واقفاً مع علی بن ابی طالب اذااقبل ابوبکر فَصاَفحہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وعانَقہ، و قبّل فاہ فقال علی اتقبل فاابی بکر فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یا ابا الحسن منزلۃ ابی بکرٍ عندی کمنزلتی عند ربیّ ۱؎ ۔
میں نے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو امیر المومنین علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ، کے ساتھ کھڑے دیکھا اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ حاضر ہوئے، حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے مصافحہ فرمایا اور \\\'\\\'گلے لگایا\\\'\\\' او ران کے دہن پر بوسہ دیا ۔ مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ نے عرض کی: کیا حضورابو بکر کا مُنہ چومتے ہیں ؟ فرمایا: اے ابوالحسن ! ابوبکر کا مرتبہ میرے یہاں ایسا ہے جیسا میرا مرتبہ میرے رب کے حضور۔
(۱؎ سیرت حافظ عمر بن محمد ملاّ)

حدیث دوازدہم (۱۲) :
ابن عبدِ ربہّ کتاب بہجۃ المجالس میں مختصراً اور ریاض نضرہ میں ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے مطَوَّلاً، صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا ابتدائے اسلام میں اظہار اسلام اورکفار سے حرب وقتال فرمانا،اور ان کے چہرۂ مبارک پر ضربِ شدید آنا،اس سخت صدمے میں بھی حضور اقدس سید المحبوبین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا خیا ل رہنا،حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دارالارقم میں تشریف فرما تھے اپنی ماں سے خدمتِ اقدس میں لے چلنے کی درخواست کرنا مفصلاً مروی ، یہ حدیث ہماری کتاب مَطْلَعُ الْقُّمَریْن فی اَباَنَۃِ سَبْقَۃِ الْعُمَرَیْن ( ۱۲۹۷ھ ) میں مذکور، اس کے آخر میں ہے:
حتی اذا ھدأت الرجل وسکن الناس خرجتابہ یتّکی علیھا حتی ادخلتاہ علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فانکبّ علیہ فقبّلہ وانکب علیہ المسلمون ورقّ لہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم رَقّۃ شدیدۃ ۲؎ ۔الحدیث۔
یعنی جب پہچل موقوف ہوئی اور لوگ سورہے ان کی والدہ اُم الخیر اور حضرت فاروق اعظم کی بہن ام جمیل رضی اﷲ تعالٰی عنہما انھیں لے کر چلیں،بوجہ ضعف دونوں پر تکیہ لگائے تھے، یہاں تک کہ خدمت اقدس میں حاضر کیا، دیکھتے ہی \\\'\\\' پروانہ وارشمع رسالت پر گر پڑے\\\'\\\'( پھر حضور کو بوسہ دیا) اور صحابہ غایت محبت سے ان پر گرے۔حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے لئے نہایت رقت فرمائی۔
(۲؎ الریاض النضرۃ ذکرام الخیر مطبوعہ چشتی کتب خانہ فیصل آباد ۱/ ۷۶)

حدیث سیز دہم (۱۳):
حافظ ابو سعید شرف المصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی:
قال صعد رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم المنبر ثم قال این عثمان بن عفان؟ فوَثَبَ وقال انا ذایارسولَ اﷲ فقال اُدْنُ مِنِّیْ فَدَنَا مِنْہُ فَضَمَّہ اَلٰی صَدْرَہٖ وقَبَّلَ بَیْنَ عَیْنَیْہِ ۱؎ الخ
حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے پھر فرمایا: عثمان کہاں ہیں؟ عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ بے تابانہ اُٹھے اور عرض کی: حضور ! میں یہ حاضر ہوں۔ رسول اﷲ صـلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس آؤ۔ پاس حاضر ہوئے۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے \\\'\\\' سینہ سے لگایا\\\'\\\' اور آنکھوں کے بیچ میں بوسہ دیا۔
(۱؎ شرح المصطفی ( شرف النبی) باب بیست ونہم میدان انقلاب تہران ص ۲۹۰)

حدیث چہاردہم (۱۴) :
حاکم صحیح مستدرک میں بافادہ تصحیح اور ابویعلٰی اپنی مسند اور ابو نعیم فضائل صحابہ میں اور برہان خجندی کتاب اربعین مسمّی بالماء المَعِین اور عمر بن محمد ملاّ سیرت میں جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روای:
قال بینا نحن مع رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی نفر من المھاجرین منھم ابوبکروعمر و عثمان وعلی و طلحۃ والزبیر و عبدالرحمٰن بن عوف وسعدبن ابی وقاص فقال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لِیَنْھَضْ کُلُّ رَجُلٍ الی کفوہ ونَھَضَ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الی عثمان فاعتنقہ،وقال اَنْتَ وَلِیّی فِی الدُنْیاَ والْاٰخِرَۃ ۲؎ ۔
ہم چند مہاجرین کے ساتھ خدمتِ اقدس حضور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر تھے حاضرین میں خلفائے اربعہ و طلحہ و زبیر و عبدالرحمن بن عوف وسعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہم تھے،حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں ہر شخص اپنے جوڑ کی طرف اٹھ کر جائے اور خود حضور والا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عثمانِ غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی طرف اُٹھ کر تشریف لائے ان سے\\\'\\\' معانقہ\\\'\\\' کیا اور فرمایا: تو میرا دوست ہے دُنیا و آخرت میں ۔
( ۲؎ المستدرک باب فضائل عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ مطبوعہ بیروت ۳/ ۹۷)

حدیث پانزدہم (۱۵):
ابن عساکر تاریخ میں حضرت امام حسن مجتبٰی وُہ اپنے والد ماجد مولٰی علی مرتضی کرم اﷲ تعالٰی وجوہما سے راوی :ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عَانَقَ عثمان بن عفان وقال قد عَانَقْتُ اَخِیْ عثمان فَمَنْ کانَ لَہ اَخ فَلْیُعَانَقْہُ۔ ۳؎
حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے معانقہ کیا اور فرمایا:میں نے اپنے بھائی عثمان سے معانقہ کیا جس کے کوئی بھائی ہو اسے چاہئے اپنے بھائی سے \\\'\\\' معانقہ کرے\\\'\\\'
(۳؎ کنز العمال بحوالہ ابن عساکر حدیث ۳۶۲۴۰ مطبوعہ دارالکتب الاسلامی حلب ۱۳/ ۵۷)
ا س حدیث میں علاوہ فعل کے مطلقاً حکم بھی ارشادہوا کہ ہر شخص کو اپنے بھائیوں سے معانقہ کرنا چاہئے۔

حدیث شانزدہم (۱۶) :
کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت بتول زہرا سے فرمایا کہ عورت کے حق میں سب سے بہتر کیا ہے؟ عرض کی کہ نامحرم شخص اُسے نہ دیکھے۔ حضور نے \\\'\\\' گلے لگالیا اور فرمایا:
ذُرِّیَّۃ بَعْضُھَا مِنْ بَعْض (۱؎ القرآن ۳/ ۳۴)
( یہ ایک نسل ہے ایک دوسرے سے ۔ ت)

اوکما ورد عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ واٰلہ وبارک وسلم
( یا جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے وارد ہے۔ ت)
(فتاویٰ رضویہ شریف )

یادِ امام حسین رضی اللہ عنہ اورہماری ذمہ داریاں

یادِ امام حسین رضی اللہ عنہ اورہماری ذمہ داریاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے ماضی کو یاد رکھنا، اور ان کے نقوش کو نَسلوں میں منتقل کرنا زندہ قوموں کی علامت ہے۔۔۔ وہ قومیں آج بہ ظاہر ترقی و عروج کی منازل طے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جنھوں نے اپنے اسلاف کے نقوش کو باقی رکھا۔۔۔ مغرب اپنی نشانیاں کھود کھود کر نکال رہا ہے۔۔۔ ہم شعوری و لا شعوری طور اپنے نقوش ضائع کررہے ہیں۔۔۔ کچھ لا علمی کی بنیاد پر، کچھ بے راہ روی اور گُم رہی سے۔۔۔ اور لا علمی اور جہالت نے ہمارے معاشرے میں ایسا گھر کر لیا ہے کہ اللہ ہی رحم کرے۔۔۔
بے شک یادیں منائی جانی چاہیے۔۔۔ یادیں منا کر ہم اپنے ماضی سے واقف اور حال و مستقبل کو روشن کر سکتے ہیں۔۔۔ یادیں ہمیں ہمارے اسلاف کی قربانیاں یاد دلاتی ہیں۔۔۔ اگر یادیں نہ ہوتی تو ہم اپنے اسلاف کے کارناموں سے بے خبر ہوتے۔۔۔ یادوں نے ہمیں ہمارے اسلاف سے جوڑے رکھا۔۔۔ مگر شریعت مطہرہ نے جو راہیں مقرر کی ہیں ہم ان حدود میں رہ کر یادیں منائیں۔۔۔ تاکہ ہم شریعت کی مخالفت کے مجرم نہ بنیں۔۔۔ یادوں کے منانے کا یہ مطلب نہیں جو جی میں آیا کرلیا۔۔۔ شریعت کی دھجیاں اُڑا دیں۔۔۔ اسلامی تعلیمات کو یک سر ٹھکرا دیا۔۔۔ ایسی یادوں پر ہمیں اجر نہیں ملتا۔۔۔ ہم گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔۔۔ ہمارے دامنِ عمل مخالفتِ شرع سے داغ دار ہو تے ہیں۔۔۔
عالم اسلام میں جن عظیم دنوں یا واقعات کی یاد منائی جاتی ہے۔۔۔ ان میں ایک ’’واقعۂ کربلا‘‘ ہے۔۔۔ شہزادۂ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ جو ظلم ہوا، اور یزیدی فوج نے جو زیادتیاں کیں ہم تقریریوں میں سنتے، کتابوں میں پڑھتے ہیں۔۔۔ یہاں واقعات کی تفصیل مقصود نہیں۔۔۔ ان واقعات کو بیان کر کے ماہِ محرم میں یادِ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ منائی جاتی ہے۔۔۔ بعض لوگ اس میں انتہائی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔۔۔ اور یاد کے نام پر شریعت کا مذاق بناتے ہیں۔۔۔ غیر شرعی کاموں اور غیر شرعی و غیر اسلامی رسموں کو بڑی عقیدت و محبت اور دین سمجھ کر منایا جاتا ہے۔۔۔ مروجہ تعزیہ داری کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، یہ بدعت ہے۔۔۔ اس ماہ مبارک میں اور بھی اعمال قبیحہ رواج پا گئے ہیں، جو خوارج کا طریقہ ہیں۔۔۔ دلدل کی سواری، مہندیِ سکینہ، نمائش اور مصنوعی کربلا، سینہ کوبی، ڈھول تاشہ، تعزیوں کی تعظیم میں اس کے آگے سجدہ کرنا، تعزیوں کے نیچے سے دھول اُٹھا اُٹھا کر چہرے، سینے اور ہاتھ وغیرہ پر ملنا، بچوں کو محرم کا فقیر بنانا، نیاز کے لیے بچوں سے گلی گلی بھیک منگوانا ، سوگ کے لیے خاص رنگ کالے یا ہرے کپڑے پہن کر گریبان کھول کے یا پھاڑ کر کودنا، پھاندنا، بھاگنا۔۔۔ اور مجالسِ محرم میں غیر معتبر اور غیر صحیح روایات کا ذکر و بیان۔۔۔ غیر سنجیدہ اور جاہلانہ طرز و اُسلوب۔۔۔
افسوس! واقعہ کربلا بیان کیا جارہا ہے یا کسی کھیل کی کمینٹری؟ ۔۔۔ بات شہزادۂ رسول جگر گوشۂ بتول کی ہو رہی ہے۔۔۔ ان کے مقدس گھرانے کی ہو رہی ہے۔۔۔ وہ گھرانہ جو اعلیٰ و سخی ترین گھرانہ ہے۔۔۔ یہ وہ گھرانہ ہے جسے قرآن میں یاد کیا جا رہاہے۔۔۔ یہ وہ گھرانہ ہے جہاں جبرئیل علیہ السلام بھی بے اجازت تشریف نہیں لے جاتے ہیں۔۔۔ ان کا ذکر مکمل ادب و احترام سے ہو۔۔۔ محبت و عقیدت سے ہو۔۔۔ نہ کہ بلا وجہ چیخ چیخ کر۔۔۔ ہاں محبت میں آنسو بہانا اور بات ہے۔۔۔ مگر ذکر و بیان صحیح واقعات اور معتبر روایات کی روشنی میں ہو۔۔۔ شربت و نیاز کا اہتمام ہو۔۔۔ لوگوں کو ادب و احترام کے ساتھ نیاز تناول کے لیے دی جائے۔۔۔ ایصال ثواب کی محافل منعقد کی جائیں۔۔۔ بے جا کی چیخ پکار، چنگھاڑ سے کیا حاصل ۔۔۔ یہ نہ تو یادوں کا حصہ ہے نہ ادب کا۔۔۔ایسا کرکے ہم خود کو گناہوں کے عمیق گڑھے میں ڈھکیل رہے ہیں۔۔۔ یہ محبت کی علامت نہیں۔۔۔ محبوب اپنے محب کا ذکر پیار سے کرتا ہے۔۔۔ محبوب اپنے محب کا ہر لحظہ ہر آن احترام ملحوظ رکھتا ہے۔۔۔ محبوب اپنے محب کے بارگاہ میں آواز بلند نہیں کرتا۔۔۔ محبوب کے دربار میں شور نہیں مچاتا۔۔۔ بلکہ لجاجت سے جاتا ہے۔۔۔ سرتسلیم خم کیے جاتا ہے۔۔۔ عقیدت سے پلکوں کو بچھائے جاتا ہے۔۔۔ محبوب کی اداؤں کو اپناتا ہے۔۔۔ محبوب کے افعال و کردار کو اپنی زندگی میں شامل کرتا ہے۔۔۔ محبوب کے طریقے کو عزیز رکھتا ہے۔۔۔ تا کہ جانے انجانے میں کوئی گستاخی نہ ہو۔۔۔ آیئے ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں، ہمیں محبتِ اہل بیت کا دعویٰ ہے۔۔۔ محبت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دعویٰ ہے۔۔۔ آؤ محاسبہ کریں۔۔۔ ہم تعلیماتِ اہلِ بیت پر عمل کرتے ہیں یا دشمنانِ اہل بیت کی تعلیمات پر۔۔۔ آؤ آئینے میں چہروں کو دیکھیں یہ سنتِ انبیاء و اہل بیت کا مظہر ہے یا یزیدیت کا؟۔۔۔ اگر ہمیں امام عالی مقام سے محبت سچی ہے تو ان کے نانا کی عظیم سنت ہمارے چہروں پہ بھی سجی ہونی چاہیے۔۔۔ امام حسین سے محبت کا دعویٰ! امام عالی مقام نے تلواروں کے سائے میں بھی جان کی پروا کیے بغیر نمازوں کو قائم کیا۔۔۔ کیا ہم نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں؟ یا ہمارا دعوائے محبتِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بس خیال اور فضا میں گونج کر خاموش ہو جانے والا نعرہ ہے؟
للہ اپنے حال پر رحم کرو۔۔۔ تعلیماتِ اسلامی کو لازم پکڑو۔۔۔ اغیار و خوارج کی رائج کردہ غیر اسلامی رسومات سے پرہیز و اجتناب کرو اسی میں کام یابی، بھلائی اور سعادت مندی ہے۔۔۔ اللہ ہمیں اہل بیت کرام کی سچی محبت عطا فرمائے، اور محبت کے نام پر رائج دشمنانِ اہل بیت کی غیر شرعی رسموں سے بچائے۔
آمین بجاہ النبی الامین و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

آلِ رسول کا اَدَب اور گروہِ اَولیاء کی سَروَری کا اعزاز

آلِ رسول کا اَدَب اور گروہِ اَولیاء کی سَروَری کا اعزاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زلف زنجیر مع لالہ زار سے لیا گیا مضمون:
**************************
جُنید بَغْدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (شروع میں)خلیفہ بغداد کے درباری پہلوان اور پوری مُملکت کی شان تھے۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا کہ چوبدار نے اطلاع دی کہ صحن کے دروازے پر صبح سے ایک لاغَر و نیم جان شخص برابر اِصرار کررہا ہے کہ میرا چیلنج جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )تک پہنچا دو ،میں اس سے کُشتی لڑنا چاہتا ہوں۔لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی مگر خلیفہ نے درباریوں سے باہمی مشورہ کے بعدکُشتی کے مقابلے کیلئے تاریخ و جگہ مُتَعَیَّن کردی۔

انوکھی کشتی مقابلے کی تاریخ آتے ہی بَغداد کا سب سے وسیع میدان لاکھوں تماشائیوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔ اعلان ہوتے ہی حضرت جُنید بَغْدادی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) تیار ہوکر اَکھاڑے میں اُتر گئے۔ وہ اجنبی بھی کمر کَس کر ایک کنارے کھڑا ہوگیا۔ لاکھوں تماشائیوں کیلئے یہ بڑا ہی حیرت انگیز منظر تھا ،ایک طرف شُہرت یافتہ پہلوان اور دوسری طرف کمزور و نَحیف شخص ۔
حضرت جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے جیسے ہی خَم ٹھونک کر زور آزمائی کیلئے پنجہ بڑھایا تواجنبی شخص نے دبی زبان سے کہا۔
کان قریب لائیے مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔
نہ جانے اس آواز میں کیا سِحر تھا کہ سنتے ہی حضرت جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) پر ایک سکتہ طاری ہوگیا ۔ کان قریب کرتے ہوئے کہا ،فرمائیے!
اجنبی کی آواز گلوگیر ہوگئی۔ بڑی مشکل سے اتنی بات منہ سے نکل سکی۔ جُنید! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ایک آلِ رسول ہوں ،سَیِّدہ فاطِمہ (رضی اللہ عنہا)کا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتے سے جنگل میں پڑا ہوا فاقوں سے نیم جان ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھوک کی شدت سے بے حال ہوگئے ہیں۔ ہر روز صبح کو یہ کہہ کر شہر آتا ہوں کہ شام تک کوئی انتظام کر کے واپس لوٹوں گا لیکن خاندانی غیر ت کسی کے آگے منہ نہیں کھولنے دیتی۔ شرْم سے بھیک مانگنے کیلئے ہاتھ نہیں اٹھتے۔ میں نے تمہیں صرف اس امید پر چیلنج دیا تھا کہ آلِ رسول کی جو عقیدت تمہارے دل میں ہے۔ آج اس کی آبرو رکھ لو۔ وعدہ کرتا ہوں کہ کل میدانِ قِیامت میں ناناجان صلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے کہہ کر تمہارے سر پر فتح کی دستار بندھواؤں گا۔
اجنبی شخص کے یہ چند جملے نِشتَرکی طرح حضرتِ جُنید(رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے جِگَر میں پَیوست ہوگئے پلکیں آنسوؤں کے طوفان سے بوجَھل ہوگئیں، عالم گیر شُہرت و نامُوس کی پامالی کیلئے دل کی پیشکش میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔
بڑی مشکل سے حضرتِ جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے جذبات کی طُغیانی پر قابو حاصل کرتے ہوئے کہا کِشْوَرِ عقیدت کے تاجدار! میری عزت و نامُوس کا اس سے بہترین مَصْرَف اور کیا ہوسکتا ہے کہ اسے تمہارے قدموں کی اُڑتی ہوئی خاک پر نثار کر دوں۔
اتنا کہنے کے بعد حضرتِ جُنید(رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) خَم ٹھونک کر للکارتے ہوئے آگے بڑھے اور سچ مُچ کُشتی لڑنے کے انداز میں تھوڑی دیر پینتر ا بدلتے رہے ۔لیکن دوسرے ہی لمحے میں حضرتِ جُنید(رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) چاروں شانے چِت تھے اور سینے پر سَیِّدہ فاطِمہ زَہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاایک نحیف و ناتُواں شہزادہ فتح کا پرچم لہرا رہا تھا۔
ایک لمحے کیلئے سارے مجمع پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی ۔ حیرت کا طِلِسْم ٹوٹتے ہی مجمع نے نحیف و ناتُواں سَیِّد کو گود میں اٹھا لیا۔ اور ہر طرف سے انعام و اِکرام کی بارش ہورہی تھی۔ رات ہونے سے پہلے پہلے ایک گمنام سَیِّد خلعت و انعامات کا بیش بہا ذخیرہ لیکر جنگل میں اپنی پناہ گاہ کی طرف لوٹ چکا تھا۔
حضرتِ جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )اکھاڑے میں چت لیٹے ہوئے تھے۔ ا ب کسی کوکوئی ہمدردی ان کی ذات سے نہیں رہ گئی تھی۔ آج کی شکست کی ذلتوں کا سُرُور ان کی روح پر ایک خمار کی طرح چھا گیا تھا۔
عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرتِ جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )جب اپنے بستر پر لیٹے تو بار بار کان میں یہ الفاظ گونج رہے تھے۔ میں وعدہ کرتاہوں کہ کل قِیامت میں نانا جان سے کہہ کر تمہارے سر پر فتح کی دستار بندھواؤں گا۔
دستارِ ولایت کیا سَچ مُچ ایسا ہوسکتا ہے؟کیا میری قسمت کا ستارہ یک بیک اتنی بلندی پر پہنچ جائیگا کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نورانی ہاتھوں کی بَرَکتیں میری پیشانی کو چُھولیں ۔ اپنی طرف دیکھتا ہوں تو کسی طرح اپنے آپ کو اس اعزاز کے قابل نہیں پاتا۔آہ ! اب جب تک زندہ رہوں گا قِیامت کیلئے ایک ایک دن گننا پڑیگا۔
یہ سوچتے سوچتے حضرتِ جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کی جیسے ہی آنکھ لگی ۔سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ۔سامنے شہدسے بھی میٹھے میٹھے آقامسکَراتے ہوئے تشریف لے آئے۔لب ہائے مبارَکہ کو جُنبِش ہوئی،رَحمت کے پھول جھڑنے لگے۔ الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے:
جُنید اٹھو، قِیامت سے پہلے اپنے نصیبے کی سرفرازیوں کا نظارہ کرلو۔ نبی زادوں کے نامُوس کیلئے شکست کی ذلتوں کا انعام قِیامت تک قرض نہیں رکھا جائیگا۔سر اٹھاؤ، تمہارے لئے فتح و کرامت کی دَستار لیکر آیاہوں۔آج سے تمہیں عرفان و تَقَرُّب کی سب سے اونچی بِساط پر فائز کیا گیا۔ بارگاہ ِیَزدانی سے گروہِ اولیاء کی سَروَرِی کا اعزاز تمہیں مبارَک ہو۔
ان کَلِمات سے سرفراز فرمانے کے بعد سرکارِ مدینہ، سرورِ قلب و سینہ، فیض گنجینہ، صاحبِ معطر پسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت جُنیدبَغْدادی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کو سینے سے لگالیا۔ اس عالمِ کیف بار میں اپنے شہزادوں کے جاں نثار پر وانے کو کیا عطافرمایا اس کی تفصیل نہیں معلوم ہوسکی۔ جاننے والے بس اتناہی جان سکے کہ صبح کو جب حضرتِ جُنید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ کھلی تو پیشانی کی موجوں میں نور کی کرن لہرارہی تھی۔ سارے بغداد میں آپ کی ولایت کی دھوم مچ چکی تھی،خواب کی بات بادِصبانے گھر گھر پہنچادی تھی، کل کی شام جو پائے حِقارت سے ٹھکر ادیاگیا تھا آج صبح کو اس کی راہ گزر میں پلکیں بچھی جارہیں تھیں۔ایک ہی رات میں سارا عالم زِیر وزَبر ہوگیا تھا۔طلوعِ سَحر سے پہلے ہی حضرتِ جُنید بَغْدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازے پر درویشوں کی بھیڑ جمع ہوگئی تھی۔ جونہی (آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ )باہر تشریف لائے خراج عقیدت کیلئے ہزاروں گردنیں جھک گئیں۔ خلیفہ بغداد نے اپنے سرکاتاج اتار کر قدموں میں ڈال دیا۔ سارا شہر حیرت و پشیمانی کے عالم میں سرجھکائے کھڑا تھا۔حضرت جُنید بَغْدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسکَراتے ہوئے ایک بار نظر اٹھائی اور(سامنے موجود عاشقانِ رسول کے)ہیبت سے لرزتے ہوئے دلوں کو سُکون بخش دیا۔ پاس ہی کسی گوشے سے آواز آئی گروہِ اَولیاء (رحمہم اللہ )کی سَروَری کا اعزاز مبارَک ہو، منہ پھیر کر دیکھا تو وہی نَحیف و نزار آلِ رسول فرطِ خوشی سے مسکَرارہا تھا۔ آلِ رسول کے اَدَب کی بَرَکت نے ایک پہلوان کولمحوں میں آسمانِ ولایت کا چاند بنادیا۔ ساری فضا سَیِّدالطائفہ کی مبارَک باد سے گونج اٹھی ۔
======================
(زلف زنجیر مع لالہ زار ، انعام شکست ، ص ۶۲ تا ۷۲)

وھابیوں،دیوبندیوں کے امیر یزید لعین کا تعارف

وھابیوں،دیوبندیوں کے امیر یزید لعین کا تعارف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم کو مژدہ نار کا اے دشمنان اہلبیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
\" یزید بن (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ )ابو خالد اموی\" وہ بد نصیب شخص ہے جس کی پیشانی پر اہل بیت کرام علیہم الرضوان کے بے گناہ قتل کا سیاہ داغ ہے
اور
جس پر ہر قَرَن(زمانے ) میں دنیا ئے اسلام ملامت کرتی رہی ہے اور قیامت تک اس کا نام تحقیر کے ساتھ لیا جائے گا۔
----------------------------------------------------------------------------------------------
یہ بد باطن ،سیاہ دل ، ننگِ خاندان 25ھ؁ میں ا میر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھر مَیْسون بنت بَحْدَل کلبیہ کے پیٹ سے پیدا ہوا۔

نہایت موٹا، بدنما، کثیرالشعر ، بدخُلْق، تُنْدخُو(بدمزاج)، فاسق، فاجر، شرابی، بدکار،ظالم، بے ادب، گستاخ تھا۔
اس کی شرارتیں اور بیہودگیاں ایسی ہیں جن سے بدمعاشوں کو بھی شرم آئے۔
عبداللہ بن حنظلۃ ابن الغسیل رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا:
خداعزوجل کی قسم!ہم نے یزیدپراس وقت خروج کیا جب ہمیں اندیشہ ہوگیا کہ اس کی بدکاریوں کے سبب آسمان سے پتھر نہ برسنے لگیں۔
( واقدی )
محرمات کے ساتھ نکاح اورسود وغیرہ مَنْہِیَّات (خلاف شرع چیزوں) کو اس بے دین نے عَلانِیَہ رواج دیا۔
مدینہ طیبہ ومکہ مکرمہ کی بے حرمتی کرائی۔
ایسے شخص کی حکومت گُرْگ کی چوپانی سے زیادہ خطرناک تھی، اَرْبابِِ فِرا سَت اور اصحابِِ اَسر ار اس وقت سے ڈرتے تھے جب کہ عِنانِ سلطنت اس شَقِی کے ہاتھ میں آئی،
59ھ؁ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعا کی:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ رَأْسِ السِّتِّیْنِ وَاِمَارَۃِ الصِّبْیَان\'\'
یارب! عزوجل میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں 60ھ؁ کے آغاز اور لڑکوں کی حکومت سے۔\'\'
اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جوحاملِ اسرار تھے انھیں معلوم تھا کہ 60ھ؁ کا آغاز لڑکوں کی حکومت اور فتنوں کا وقت ہے۔ ان کی یہ دعا قبول ہوئی اور انہوں نے 59 ھ؁ میں بمقام مدینہ طیبہ رحلت فرمائی۔
--------------------------------------------------------------------------------------------
رویانی نے اپنی مسند میں حضرت ابو درداء صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ میں نے حضو ر اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سناکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
\'\' میری سنت کا پہلا بدلنے والا بنی اُمَیَّہ کاایک شخص ہوگاجس کانام یزید ہوگا۔\'\'
-------------------------------------------------------------------------------------------
ابو یعلی نے اپنی مسند میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
\'\'میری امت میں عدل و انصاف قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا رَخْنہ انداز وبانیٔ ستم بنی اُمَیَّہ کا ایک شخص ہوگا جس کانام یزید ہوگا۔\'\'
-------------------------------------------------------------------------------------------
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سایہ اٹھنا تھا، یزید کھُل کھیلا اور انواع و اقسام کے معاصی کی گرم بازاری ہوگئی۔
زنا، لواطت، حرام کاری، بھائی بہن کا بیاہ، سود، شراب، دھڑلّے سے رائج ہوئے، نمازوں کی پابندی اٹھ گئی، تَمَرُّد و سرکَشی انتہا کوپہنچی،
شَیْطَنَت نے یہاں تک زور کیاکہ مسلم ابن عقبہ کو بارہ ہزاریا بیس ہزار کا لشکرگراں لے کرمدینہ طیبہ کی چڑھائی کیلئے بھیجا۔
یہ 63ھ؁کاواقعہ ہے۔ اس نامراد لشکر نے مدینہ طیبہ میں وہ طوفان برپاکیا کہ العظمۃ للہ، قتل، غارت اور طرح طرح کے مظالم ہمسائیگانِ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ و بارک وسلم پرکیے۔
وہاں کے ساکنین کے گھرلوٹ لیے، سات سو صحابہ علیہم الرضوان کو شہید کیا اور دوسرے عام باشندے ملاکر دس ہزار سے زیادہ کو شہیدکیا، لڑکوں کو قید کرلیا، ایسی ایسی بد تمیزیاں کیں جن کا ذکر کرنا ناگوار ہے۔
مسجدنبوی شریف کے ستونوں میں گھوڑے باندھے، تین دن تک مسجد شریف میں لوگ نماز سے مشرف نہ ہوسکے۔ صرف حضرت سعید ابن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجنوں بن کر وہاں حاضرر ہے۔
حضرت عبداللہ ابن حنظلہ ابنِ غَسِیْل رضی اللہ تعالی عنہمانے فرمایا کہ یزیدیوں کے ناشائستہ حرکات اس حد پرپہنچے ہیں کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ ان کی بدکاریوں کی وجہ سے کہیں آسمان سے پتھر نہ برسیں۔
پھریہ لشکر ِشرارت اثر مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں امیرِ لشکر مرگیا اور دوسراشخص اس کا قائم مقام کیاگیا۔ مکہ معظمہ پہنچ کر ان بے دینوں نے مِنْجَنِیْق سے سنگ باری کی (منجنیق پتھر پھینکے کا آلہ ہوتا ہے جس سے پتھر پھینک کر مارا جاتا ہے اس کی زد بڑی زبردست اور دور کی مار ہوتی ہے) اس سنگ باری سے حرم شریف کاصحن مبارک پتھروں سے بھر گیا اور مسجد ِ حرام کے ستون ٹوٹ پڑے اور کعبہ مقدسہ کے غلاف شریف اورچھت کو ان بے دینوں نے جلادیا۔ اسی چھت میں اُس دنبہ کے سینگ بھی تبرک کے طور پر محفوظ تھے جو سیدنا حضرت اسمٰعیل علی نبینا و علیہ الصلوٰۃوالسلام کے فدیہ میں قربانی کیا گیا تھا وہ بھی جل گئے کعبہ مقدسہ کئی روز تک بے لباس رہا اور وہاں کے باشندے سخت مصیبت میں مبتلا رہے۔
(البدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ثلاث وستین ، سنۃ اربع وستین ، ترجمۃ یزید بن معاویۃ ، ج۵،
ص۷۲۹۔۷۵۰ملتقطاًوتاریخ الخلفاء، یزید بن معاویۃ ابوخالد الاموی، ص۱۶۶۔۱۶۷ملتقطاً)
---------------------------------------------------------------------------------
آخرکار یزید پلید کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک فرمایا اور وہ بدنصیب تین برس سات مہینے تختِ حکومت پر شَیْطَنَت کرکےربیع الاول 64ھ؁ کو جس روز اس پلید کے حکم سے کعبۂ معظمہ کی بے حر متی ہوئی تھی ، شہر حمص ملک شام میں انتالیس برس کی عمر میں ہلاک ہوا۔
========================================
ماخوذ از : سوانحِ كربلا
مصنف: صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ القوی
------------------------------------------
-------------------------------------------------
باغ جنت کے ہیں بہر مدح خوان اہلبیت
تم کو مژدہ نار کا اے دشمنان اہلبیت

اہلسنّت وجماعت کون ہے ۔۔۔۔۔ ؟ حصہ دوم

اہلسنّت وجماعت کون ہے ۔۔۔۔۔ ؟ حصہ دوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین محترم” کالعدم سپاہ صحابہ سے اہلسنّت وجماعت تک،ایک تاریخی و تجزیاتی جائزہ“ آپ کی نظر سے گزر چکا ہے ،جس میں ہم نے اِس بات کا جائزہ لیا کہ اِس کالعدم تنظیم سے وابستہ و سرپرست افراد کے ڈانڈے کہاں ملتے ہیں اور اِس تنظیم کے قیام سے ہمارے ملک، معاشرے اور قومی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے،ذیل میں ہم اِس تنظیم کا ” سواد اعظم اہلسنّت وجماعت سنّی حنفی(بریلوی) سے تعلق ونسبت“ کا تاریخی جائزہ پیش کرتے ہوئے اِس اَمرکا احاطہ کریں کہ اصل اہلسنّت وجماعت کون لوگ ہیں، کب سے ہیں اور اُن کی درست شناخت وپہچان کیا ہے،ساتھ ہی یہ بھی دیکھیں کہ برصغیر میں تفریق بین المسلمین کب، کیوں اور کس کی ایماءپر شروع ہوئی اور یہ کہ وہ اسباب و محرکات کیا ہیں جس کی وجہ سے آج یہ صورتحال پیدا ہوئی۔
ہٹلر کے دست راست جوزف گوئبلز کا مشہور زمانہ قول ہے کہ”جھوٹ کو اتنی بار دہراؤ کہ اُس پر سچ کا گمان ہونے لگے۔“گوئبلزکے اِس قول کا عملی اظہار ہمیں زندگی کے بہت سے شعبوں میں نظر آتا ہے،مگر سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ایک مخصوص مکتبہ فکر کی حامل افراد نے اِس قول کو ہماری قومی تاریخ پر بھی منطبق کردیا،انہوں نے اصل حقائق و واقعات کو مسخ کیا، نئی تاریخ گھڑی اور جھوٹ کی ملمع کاری سے ایک ایسی نئی تاریخ کو جنم دیاجس کی بنیاد بغض وعناد اور مسلکی تعصب پر رکھی گئی،یوںوہ لوگ جنہوں نے گنگا جمناتہذیب کو اپنا مرکز بنایا، پیشانی پر تلک کانشان سجایا، ہندوو ¿ں کو مساجد کے منبروں پر بیٹھایا، کھلم کھلا تحریک پاکستان کی مخالف کی، قائد اعظم کو کافراعظم کہا اورپاکستان کو پلیدستان کا نام دیا، تاریخ سازی کے کمال نے ایسے لوگوں کو قومی ہیروز بناڈالا۔
قومی و ملی تاریخ کے ساتھ اِس سے بڑی بدیانتی اور کیا ہوگی کہ مخالفین پاکستان قیام پاکستان کی جدوجہد میں قومی ہیروز قرار پائیں اور معماران تحریک کی حیات وخدمات پر جھوٹ و تعصب کے پردے ڈال کرانہیں گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا جائے،تاریخ کو بدلنے اور حقائق کو مسخ کرنے کا یہ کھیل آج بھی جاری ہے،کل تک جولوگ دیوبندی اور وہابی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے،آج وہ لوگ اہلسنّت وجماعت ہونے کے دعویدار ہیں،یہ سب کیوں اور کیسے ہوا۔؟ یہ لوگ کون ہیں۔؟ کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔؟ اوراِن کی پرورش و آبیاری کس نے کی۔؟آئیے ذیل میں اِن عوامل کا جائزہ لیتے ہیں۔
سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں”سندھ میں جو عرب فاتح آئے وہ سنّی تھے۔(1)تاریخ کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ” ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد پانچویں چھٹی صدی ہجری تک یہاں آنے والے اور اسلام قبول کرنے والے صرف اور صرف اہلسنّت وجماعت تھے،اُس زمانے میں سنیت اور حنفیت کا دور دورہ تھا،سارے علماءومشائخ سنی حنفی تھے......پھر مغل سلاطین کی فوج میں کچھ شیعہ یہاں آئے اور رفتہ رفتہ انہوں نے قدم جمانا شروع کیا۔“ (2)حضرت امیر خسرواپنے فارسی اشعار میں ہندوستان کے اسلامی احوال وکوالف کی منظر کشی کرتے ہیں ، جسے نقل کرتے ہوئے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ارشاد فرماتے ہیں۔”ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد قریب پانچ سو برس تک اہلسنّت و جماعت کی بہاریں رہیں اور کوئی فرقہ بندی نہیں ہوئی“(3)یہ صورتحال حضرت مجدد الف ثانی کے زمانے تک قائم رہی اور”حضرت مجدد (الف ثانی)کے زمانے سے 1240ھ/ 1825ءتک ہندوستان کے مسلمان دو فرقوں میں بٹے رہے،ایک اہلسنّت وجماعت ،دوسرا شیعہ۔اب اسمعٰیل دہلوی نے تقویة الایمان لکھی،اِس کتاب سے مذہبی آزاد خیالی کا دور شروع ہوا،کوئی غیر مقلد ہوا،کوئی وہابی بنا،کوئی اہلحدیث کہلایا،کسی نے اپنے آپ کو سلفی کہا،آئمہ مجتہدین کی جو منزلت اور احترام دل میں تھا،وہ ختم ہوا،معمولی نوشت وخواند کے افراد امام بننے لگے اور افسوس اِس بات کا ہے کہ توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہ نبوت کی تعظیم واحترام میں تقصیرات(بے ادبی وگستاخی) کا سلسلہ شروع کردیا،یہ ساری قباحتیں 1240ھ/ 1825ءکے بعد ظاہر ہونا شروع ہوئی ہیں۔“(4
تقویة ایمان کی اِس شرانگیزیری پراشک ندامت بہاتے ہوئے دیوبندی مکتبہ فکر کے مولوی احمد رضا بجنوری رقم طراز ہیںکہ”افسوس ہے کہ اِس کتاب”تقویة الایمان “کی وجہ سے مسلمانان پاک وہند جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریباً نوے فیصد حنفی المسلک ہیں دو گروہوں میں بٹ گئے ۔“(5)یوںشیعیت کے بعد نجد کا فتنہ وہابیت(جو شیخ ابن تیمیہ حرانی اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کے افکار ونظریات کا مجموعہ ہے) اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان میں نمودار ہوا اور اسمعٰیل دہلوی کی رسوائے زمانہ کتاب”تقویة الایمان“اِس فتنے کے فروغ کا ذریعہ بنی۔” انگریز وں نے اتباع سنت اور عمل بالحدیث کے نام پر شروع ہونے والی ایک ایسی تحریک کی سرپرستی کی جو دراصل فقہ میں آزاد نہ روش کی خواہش رکھتی تھی ،اُسے کسی ایک امام مجتہد کی فقہ کی پابندی میں جکڑا رہنا گوارا نہیں تھا۔“(6
درحقیقت تقویة ایمان انگریزوں کے اشارے پر تفریق بین المسلمین کیلئے منظر عام پر آئی ،جولڑاو ¿ اور حکومت کروکے آزمودہ حربے کا شاخسانہ تھی، انگریز کی ایماءپر مسلمانوں کے درمیان ہنگامہ اور فتنہ وفساد پھیلانے والی ”اِس کتاب کو1838ءمیں رائل ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ(جس نے اِس سے قبل 1825ءمیں اِس کتاب کا انگریزی ترجمہ لندن کے رسالہ جلد12میں شائع کیا تھا) نے ہزاروں کی تعداد میں چھپواکر مفت تقسیم کیا ۔“(7) پروفیسر محمد شجاع الدین صدر شعبہ تاریخ ،دیال سنگھ کالج اِس بات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”انگریزوں نے تقویة الایمان مفت تقسیم کی۔“ (8)آغا شورش کاشمیری اِس تاریخی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیںکہ ”انگریز اپنی چال میں کامیاب رہا....کہ مسلمانوں کی ملی وحدت پارہ پارہ ہو،اُس کی شکل یہ نکالی کہ بعض نئے فرقوں کو جنم دیا،انہیں پروان چڑھایا،اُن کا ہاتھ بٹایا۔(9) اِس طرح تقویة الایمان کے بطن سے پیدا ہونے والی وہابیت نے برصغیر میں ”اہلحدیث، نیچریت،چکڑالویت،انکار حدیث اور قادیانیت سمیت اکثر و بیشتر فرقوں کی بنیاد رکھی ۔“(10) شاعر مشرق علامہ اِس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”قادیان اور دیوبند اگرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن دونوں کا سرچشمہ ایک ہے اور دونوں اُس تحریک کی پیداوار ہیں جسے عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے۔“(11
جامعہ ملیہ دہلی کے استاد ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم کے بقول ”تقویة الایمان کے بعد اختلافات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ سواداعظم سے نکل نکل کر لوگ مختلف خیموں میں داخل ہونے لگے اور اِس طرح سواد اعظم کا شیرازہ منتشر ہوگیا،اِس انتشار کی روک تھام اور اہلسنّت کی شیرازہ بندی کیلئے روہیل کھنڈ کے شہر بریلی کے ایک فاضل عالم نے عزم مصمم کیا،یہ فاضل عالم تھے، مولانا احمد رضا خاں،جوامام اہلسنّت مجدد دین وملت فاضل بریلوی کے نام سے معروف و مشہور ہوئے۔“(12)ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر پونا یونیورسٹی سے ”مولانا محمد انوار اللہ فارقی حیدرآبادی “پر پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھتے ہیں”کئی ایسے مذہبی دانشور اور مفکر بھی آئے جنھوں نے مسلمانوں کی دینی اور مسلکی رہنمائی میں اپنی تصانیف کے ذریعہ مجددانہ اورمجاہدانہ کردار پیش کیا،اِن مصلحین میں مولانا احمد رضا فاضل بریلوی نامور ہوئے۔“(13
اَمر واقعہ یہ ہے کہ فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خاں السواد اعظم اہلسنّت وجماعت سنی حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے ،خوددیوبندی مکتبہ فکر کے مورخ سید سلیمان ندوی حیات شبلی صفحہ 8پر تسلیم کرتے ہیں کہ ” تیسرا فریق وہ تھا جو شدت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنة کہتا رہا،اِس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماءتھے۔“شیخ محمد اکرام کے بقول ”انہوں(مولانا احمدرضا خاں)نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی۔“(14)خود اہلحدیث مولوی احسان الٰہی ظہیر نے لکھا کہ”یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے ، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے۔“(15)جبکہ ثنا اللہ امرتسری کا کہنا ہے کہ ”اَسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اِسی خیال کے تھے ،جن کو آج بریلوی خیال کیا جاتا ہے۔“(16)نواب صدیق حسن بھوپالی اہلحدیث نے اقرار کیاکہ ”خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے،اُس وقت سے آج تک یہ لوگ حنفی مذہب پر قائم رہے اور ہیں۔“ (17
قارئین محترم !درج بالا چند حوالہ جات جو زیادہ تر مخالف مکتبہ فکر کے مشہور افراد کی کتابوں سے نقل کیے گئے ہیں کو دیکھ کر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں السواداعظم اہلسنّت و جماعت سنّی حنفی جسے مخالفین آج بریلوی کہتے ہیں، وہ قدیم ترین جماعت ہے جس کی ابتداءاسلام کی آمد سے منسلک ہے ،شیعیت کے بعد وہابیت سمیت باقی تمام مکتبہ فکر اِس برعظیم میں بعد کی پیداوار ہیں،جبکہ مولانا احمد رضا خاں کا تعلق اُس مکتبہ فکر سے ہے جو شدت کے ساتھ قدیم سنی حنفی عقائدپر گامزن رہا،حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود مخالفین مولانا احمد رضا خاں پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ایک نئے مسلک کی بنیاد ڈالی ،جبکہ احسان الٰہی ظہیر کی کتاب کے صاحب مقدمہ شیخ عطیہ محمد سالم تسلیم کرتے ہیں کہ ”دنیا کے ہر خطے میں پائے جانے والے تمام قادری،سہروردی،نقشبندی ،چشتی،رفاعی وہی عقائد رکھتے ہیں جو بریلویوں کے ہیں“(18) یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے سب خطوں میں رہنے والے تمام قادریوں،سہروردیوں،نقشبندیوں ،چشتییوں اوررفاعیوں کے اگر وہی عقائد ہیں جو بریلویوں کے ہیں تو کیااِن سب کو مخالفین کے الزام کے مطابق بریلی کے نئے مسلک نے متاثر کیا اور کیا اِن سب نے بریلوی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنے عقائد و نظریات کو تبدیل کرلیا، یقیناعقل و شعورسے یہ تصور محال ہے اورکوئی بھی ذی علم اِس بات کی تائید اس لیے نہیں کرسکتا کہ مولانا احمد رضا خاںنے برصغیر میں کسی نئے مسلک کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ چودھویں صدی میں قدیم سنی حنفی عقائد کا دفاع کرتے ہوئے سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے خلاف اٹھنے والے نت نئے خارجی فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا، انہوں نے عظمت الوہیت، ناموس رسالت، مقام صحابہ و اہل بیت اور حرمت ولایت کا پہرا دیااور اپنی بے پایاں علمی و قلمی خدمات(جسے عرب و عجم کے علماءو ارباب علم ودانش نے بھی تسلیم کیا) کی وجہ سے اِس خطے میں وقت کے مجدد اوراہلسنّت وجماعت کا فخر وامتیاز قرار پائے۔
سیدمحمدمدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں” فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے ،از اوّل تا آخر مقلد رہے، اُن کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلام کوو اضح طور پر پیش کرتی رہی، وہ زندگی کے کسی گوشہ میں ایک پل کیلئے بھی ”سبیل مومنین صالحین“ سے نہیں ہٹے، اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں ،انہیں سلف صالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ”بریلوی“ کہہ دیا گیا تو کیا ”بریلویت “و” سنیّت“ کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا۔؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیاگیا ۔(19) حقیقت واقعہ یہ ہے کہ برصغیر میں نئے مسلک و عقیدے کی بنیاد ڈالنے والے دراصل وہی لوگ ہیںجو آج ”اہلسنّت وجماعت “ کا نام اختیار کرکے اپنی وہابی نسبت اور حوالوں کو چھپانا چاہتے ہیں اور بڑی چابک دستی سے اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی کا دکھایا ہوا تقیہ کا راستہ کہ”اپنی جماعت کی مصلحت کیلئے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان کیے جائیں تاکہ اپنے مجمع پر جو وہابیت کا شبہ ہے ،وہ دور ہو اور موقع بھی اچھا ہے کیونکہ اِس وقت مختلف طبقات کے لوگ موجود ہیں۔ “(20)اختیار کرکے حنفیت واہلسنّت ہونے کا دھوکہ دیتے ہیں،یہ وہی حکم الامت ہیں جو کہتے ہیں ”اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں ،پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں“(21)جواپنے عقیدے کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں”بھائی یہاں تو وہابی رہتے ہیں، یہاں نیاز فاتحہ کیلئے کچھ مت لایا کرو۔“(22
اَمرواقعہ یہ ہے کہ دنیا میں موجود چاروں فقہ” حنفی،شافعی،مالکی اور حنبلی“ کے ماننے والے لوگ جو کہ ہر خطے میں پائے جاتے ہیں،اہلسنّت وجماعت ہیں،اِن کے علاوہ باقی تمام مکتبہ فکر وہابی،اہلحدیث، اہل قرآن اور چکڑالوی وغیرہ خارج اہلسنّت شمار ہوتے ہیں، رہی دیوبندیت تو بقول علامہ اقبال وہ وہابیت کی ہی ایک شکل ہے جس نے بڑی چالاکی سے تقلید حنفی کا لبادہ اوڑھ کر سیدھے سادھے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کا وطیرہ اختیار کرلیا ہے، قارئین محترم ! اِس مقام پر بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہابی وخارجی عقائد کے رکھنے والے لوگ کون ہیں،کب وجود میں آئے اور اِن کے عزائم کیا ہیں،اب دیکھتے ہیں اہلسنّت وجماعت کی تعریف و پہچان کیا ہے، دیوبندی مورخ سید سلیمان ندوی اصل اہلسنّت وجماعت کی تعریف وپہچان بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں ” جن کے اعتقادات،اعمال اور مسائل کا محور پیغمبر علیہ السلام کی سنت ِصحیح اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اثرِمبارک ہے۔“ (23
رسول اللہ نے فرمایایہ”وہ راستہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔“حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا،”اللہ میری اُمت کو کبھی ضلالت پر جمع نہیں کرے گااور آپ نے فرمایا،نظم اجتماعی پر اللہ کا ہاتھ ہے،تو جو اُس سے الگ ہوا،شیاطین اُسے اچک لے جائیں گے،چنانچہ جب تم (اُس میں)اختلاف پاؤ تو (اُس کے ساتھ وابستہ رہنے کیلئے)سواد اعظم کی رائے کی پیروی کرو،
اِس لیے کہ جو الجماعۃ سے الگ ہوا،وہ دوزخ میں پڑا۔(مستدرک،کتاب العلم)،حضرت انس سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا”بیشک میری اُمت گمراہی پر متفق نہیں ہوگی،پس جب تم دیکھو کہ لوگ اختلاف میں مبتلا ہیں تو سواد اعظم (بڑی جماعت)کی پیروی کرو،(ابن ماجہ ،کتاب الفتن ، باب السواد الاعظم
یعنی اہلسنّت و جماعت وہی ہے جو رسول اﷲکی سنت پر عمل پیرا رہے، بدمذہبوں کی گمراہیوں سے کنارہ کش رہے اورجماعت سے وابستہ رہے اور جماعت سے مراد صحابہ کرام ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا ”ماانا علیہ واصحابی علیہ الیوم“۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے خلیفہ مولانا نعیم الدین مرادآبادی اِس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اپنے عہد کے حالات کے پیش نظر اہلسنّت وجماعت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں ”سنّی وہ ہے جو ماانا علیہ واصحابی کا مصداق ہو،یہ وہ لوگ ہیں جو خلفائے راشدین،ائمہ دین،مسلم مشائخ طریقت اور متاخر علمائے کرام میں سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی،ملک العلما حضرت بحرالعلوم فرنگی محلی،حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی، حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی، حضرت مولانا مفتی ارشاد حسین رامپوری اور حضرت مفتی شاہ احمد رضا خاں بریلوی کے مسلک پر ہوں“(24)اِن حوالوں سے ہمارا مدعا پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ دیوبندی اور وہابی تحریکوں سے قبل ہندوستانی علماءومشائخ اور مسلمان اپنے قدیم دینی مذہب اور متوارث روایات پر پوری سختی کے ساتھ کار بندرہے ، مولانا احمد رضا فاضل بریلوی کا تعلق بھی اِسی طبقے سے ہے۔
اِس وقت برصغیر میں امام احمد رضا خاں اور اُن کے مو ¿یدہزاروں علماءومشائخ کے عقائد ونظریات ہی اصل اہلسنّت وجماعت کے عقائد و نظریات ہیں،یہی جماعت سواد اعظم بھی ہے اور ارشاد رسول ”ماانا علیہ واصحابی“کی حقیقی مصداق بھی ہے،یہی وہ جماعت ہے جو ہردور میں راہ حق پر گامزن رہی اورآج بھی مسلمانوں کی عام اکثریت اِسی روش پر قائم ہے، مگرآج اغیار کے جھوٹ وفریب اور مکرودجل کی وجہ سے اصل اہلسنّت وجماعت کی شناخت و تشخص اور نظریاتی بقاءسوالیہ نشان بنی ہوئی ہے،اِس صورتحال پر نوجوان اسکالر خوشتر نورانی کے اٹھائے ہوئے سوالات قابل غورو توجہ ہیں آپ لکھتے ہیں” آخر اہلسنّت و جماعت کی مذہبی ومسلکی سرگرمیوں میں کہاں چوک ہوگئی کہ 1240ھ (1824ئ) میں جس جدید نظرئیے کے مویدین دو تھے،1280ھ(1863ئ) میں اُن کی تعداد پورے پنجاب میں دس بھی نہیں تھی، لیکن1302ھ(1884ئ) آتے آتے یہ تعداد برصغیر کے مسلمانوں کے چوتھائی حصے میں تبدیل ہوگئی اور اب یہ فرقہ متحدہ ہندوستان کی بڑی آبادی کی خوش عقیدگی کو نگلنے کیلئے بے تاب ہے،آخر اہلسنّت وجماعت کے رویوں میں کیا کمی رہ گئی کہ مسلکی سطح پر اُن کی پوزیشن اقدامی سے دفاعی ہوگئی اور وہ ”اہل سنت وجماعت“ کی بجائے ”بریلوی“ کہنے اور کہلانے لگے۔؟
ماہنامہ جام ِنور، اکتوبر نومبر 2007ءکے شمار وں میں محقق و اسکالر ذیشان احمد مصباحی نے اپنے تفصیلی فکر انگیز مضمون میں اہلسنّت کو مشورہ دیا تھا کہ” حالات کا تقاضا اور مصلحت یہ ہے کہ ہمیں بریلوی لفظ اور مسلک اعلیٰ حضرت کے استعمال سے اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ اِس سے مخالفین کے اِس پروپیگنڈا کو تقویت ملتی ہے کہ ” بریلوی “ ایک نیا فرقہ اور مسلک ہے، جس کے بانی مولانا احمد رضا خان ہیں،علامہ ذیشان احمد مصباحی کے مطابق ہمیں ” بریلوی “ مشہور کر کے مخالفین خود کو اہل سنت کہنے لگے ہیں۔“ جس کے بعد رہی سہی کسر پروپیگنڈہ مشینری نے پوری کردی اور جس کے اثرات آج ہر جگہ محسوس کیے جا سکتے ہیں، غریب سے امیر تک، تعلیم یافتہ سے جاہل عوام تک ہر ایک پر یہ جادو چل گیا ہے اور وہ اصل اہلسنّت وجماعت سے دور ہونے لگے ہیں۔گستاخی معاف مگر توجہ دلائے گئے پہلواصلاح عمل کے متقاضی ہیں،جب سے ہم اہلسنّت وجماعت کے نام کو ترک کرکے چھوٹی چھوٹی تنظیموں، جماعتوں، اداروں اور گروہوں میں منقسم ہوکر کمزورہوتے چلے گئے ، اغیار نے ہماری اُس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ہم سے ہماری شناخت و پہچان حتٰی کہ ہمارا نام بھی ہتھیانے کی کوششیں شروع کردیں،اب ہم لاکھ اصل اہلسنّت وجماعت ہونے کا دعویٰ کرتے رہیں،عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بیانات دیتے رہیں یا مساجد و جلسہ گاہوں سے تردیدی تقریریں کرتے رہیں،صورتحال اُس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم اہلسنّت کے دفاع، اُس کے تحفظ اور اشاعت کیلئے اپنے علمی وفکری دستوں کی ترجیحات تبدیل نہیں کرتے۔
ہمیں شخصیت پرستی کے دائروںسے باہر نکلنا ہوگا اورشخصیات کی بنیاد پر حق کو پرکھنے کے بجائے حق کے ذریعے شخصیات کے پرکھنے کو ترجیح دینا ہوگی، ہم مانتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے اپنے دور میں سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے خلاف اٹھنے والے خارجی فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کرکے حضرت مجدد الف ثانی کی طرح مجددانہ کردار کیا، جسے آپ کے بعد آپ کے خلفاءو عقیدت مندوں نے جاری رکھا،مگرغلو اور لوگ شدت پسندی میں کچھ لوگ اِس قدر آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے بریلویت،رضویت اور مسلک اعلیٰ حضرت کو ہی سنیت کی پہچان وعلامت بنالیا اور اِس حقیقت سے صرف نظر کرلیا کہ مولانا احمد رضا خان سے قبل بھی السواد اعظم اہلسنّت وجماعت کے ماننے والے سنّی حنفی موجود تھے ،ہیں اور رہیں گے۔
آج فروعی مسائل میں تشدد آمیزرویہ اور صرف اپنے فکری رویوں کی صالحیت پر اصرار نے ہمارے آپسی اتحاد کو پارہ پارہ کردیاہے، فضائل ومناقب ، کرامات و تصرفات، شفاعتوں اور بشارتوں کا بیان اور اُن کی غیر ضروری تلقین ہماری اوّلین ترجیجات بن گئیں،قول وفعل کے تضاد سے معاشرے میں بے عملی ، منافقت اور تضادات کوپنپنے کا موقع ملا، جذباتی رویئے نے غیر سنجیدگی ،بے مقصد چیخ و پکاراور وقتی جذباتیت کو پروان چڑھایا،جس کا نتیجہ تنظیمی لامرکز یت کی شکل میں سامنے آیا،یوںاہلسنّت کے بنیادی مسائل سے ہماری توجہات ہٹ گئیں ،جس نے تعلیم یافتہ اور باشعور طبقے کو ہم سے دور کردیا، لہٰذا وقت کا تقاضہ ہے کہ مختلف ناموں پر مبنی گروپوں، تنظیموں اور جماعتوں میں تقسیم” سنّی“ اہلسنّت وجماعت کے صرف ایک جامع الصفات نام کو اختیار کریں اور اِس شدت سے اِس پر کاربند ہوجائیں کہ ہٹلر کے پروپیگنڈا چیف جوزف گوئبلز کے منافقانہ فکروفلسفہ کی دھول چھٹ جائے،ہماری نہایت ادب کے ساتھ تمام اکابرین ِملت،علمائے دین ِمتین،مشائخ ِعظام،قائدین جماعت وتنظیم ،اہل علم و دانش اور عوام اہلسنّت سے استدعا ہے کہ ِاس صورتحال پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کریں،اپنی کوتاہی، لاپروائی اور کمزوری کو سامنے لائیں اور وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے باہم متحد ومنظم ہوکرجھوٹ کی اِس حاشیہ آرائی کے خلاف صف آراءہوں اور ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں،یاد رکھیںکہ اِسی میں اصل اہلسنّت وجماعت کے نظریاتی تشخص، تنظیمی بقاءاورمستقبل کی بااثرسیاسی ومذہبی قوت ہونے کا راز مضمر ہے۔وگرنہ تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭
حوالہ جات:۔
(1)برعظیم پاک وہند کی ملت اسلامیہ،ص 53۔از ڈاکٹر اشیاق حسین قریشی
(2)برصغیر میں افتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 23۔از،مبارک حسین مصباحی
(3)ردروافض ،ص9-10 بحوالہ ،برصغیر میںافتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 84-85۔از،مبارک حسین مصباحی
(4)مولانا اسمعٰیل دہلوی اور تقویة الایمان،ص 9۔از،مولانا ابوالحسن زید احمد فاروقی
(5)انوار الباری جلد نمبر11،ص 107۔از ،مولویاحمدرضا بجنوری
(6)مولوی ندیم الواجدی ،افکار ملی جون 2001،ص22
(7)مقالات سرسید جلد نہم،ص 187،سر سید احمد خان)
(8)العلامہ فضل الحق خیرآبادی،ص187-188،المکتبة القادریہ لاہور۔از،ڈاکٹر قمرالنسائ
(9)تحریک ختم نبوت،ص19۔از،آغا شورش کاشمیری
(10)سعید الرحمن علوی ،سابق مدیر ہفت روزہ خدام الدین لاہور، بحوالہ ،برصغیر میںافتراق بین المسلمین کے اسباب،ص 55۔از،مبارک حسین مصباحی
(11)اقبال کے حضور ،ص 262۔از،نذیر نیازی
(12)اہلسنّت کی آواز 1998،ص248-249مطبوعہ مارہرہ شریف
(13)مولانا انوار اللہ فاروقی،مقالہ پی ایچ ڈی ص 138،ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر،مطبوعہ مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد
(14)موج کوثر ،طبع ہفتم 1966،ص 70،از۔شیخ محمد اکرام
(15)البریلویة ،ص7،از۔احسان الٰہی ظہیر
(16)شمع توحید مطبوعہ سرگودھا،ص 40،از۔ثنااللہ امرتسری
(17)ترجمان وہابیہ،ص10،از۔نواب صدیق حسن بھوپالی
(18)البریلویة ،ص 7۔از،احسان الٰہی ظہیر
(19)تقدیم، دور حاضر میں بریلوی اہل سنت کا علامتی نشان،ص 10-11 مکتبہ حبیبیہ لاہور
(20)اشرف السوانح ،حصہ اوّل،ص 76۔از،اشرف علی تھانوی
(21)الاضافات الیومیہ جلد 5ص 67۔از ،اشرف علی تھانوی
(22)اشرف السوانح،حصہ اوّل،ص 45۔از،اشرف علی تھانوی
(23)رسالہ اہلسنّت والجماعت ،ص8،دارالمصنفین اعظم گڑھ
(24)الفقیہ امرتسر 21اگست 1945ص 9(تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ،ص 43۔از، محمد جلال الدین قادری)

اہلسنّت وجماعت کون ہے ۔۔۔۔۔ ؟ حصہ اول

اہلسنّت وجماعت کون ہے ۔۔۔۔۔ ؟ حصہ اول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین محترم پاکستان میں“ انجمن سپاہ صحابہ” کے نام سے شیعہ اور سنّی مکتبہ فکرکے خلاف مسلح دہشت گردی کا آغاز کرنے والی یہ تنظیم “سپاہ صحابہ پاکستان،لشکر جھنگوی،ملت اسلامیہ،انجمن نوجوانان اہلسنّت‘‘ اور آجکل ”اہلسنّت وجماعت پاکستان“ کے نام سے کام کررہی ہے،
ذیل میں ہم اِس تنظیم کا ایک تاریخی و تجزیاتی جائزہ پیش کررہے ہیں،یہ مضمون دو حصوں پر مشتمل ہے،پہلا حصہ اِس کالعدم تنظیم کے تاریخی و تجزیاتی جائزے اور پاکستانی معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات،جبکہ دوسرا حصہ اِس تنظیم کا ” سواد اعظم اہلسنّت وجماعت سنّی حنفی(بریلوی) سے تعلق ونسبت“کے تاریخی جائزے پر مشتمل ہے۔
آئیے پہلا حصے کا مطالعہ کرتے ہیں۔

کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ1979میں پاکستان میں شیعہ مکتبہ فکر کے حقوق کے تحفظ کی بنیاد پر علامہ ساجد نقوی نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھی تو جنوبی پنجاب کے شہر جھنگ میں دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مولانا حق نواز جھنگوی نے انہیں چیلنج کیا اور 6ستمبر 1985 کو پنجاب کے شہر جھنگ میں فرقہ پرست تنظیم ”انجمن سپاہ صحابہ“کے قیام کا اعلان کیا،اِس تنظیم کے قیام کا مقصد پاکستان میں رہنے والے شیعہ مکتبہ فکرکے خلاف مسلح جدوجہد تھا، کہنے والے کہتے ہیں کہ انجمن سپاہ صحابہ کوخفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی حاصل تھی اور انجمن کا قیام ایرانی انقلاب کے ردعمل اور جنرل محمد ضیا الحق کی اسلامائزیشن کی پالیسی کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا،گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر طاہر کامران کہتے ہیں ”فرقہ واریت کے بارے میں جتنی بھی تحقیق ہوئی،اُس میں اِس عفریت کی پیدائش کے تانے بانے ضیا الحق کی اسلامائزیشن، افغان جنگ اور دیوبندی مدرسوں کے فروغ سے جڑتے ہیں۔“
یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ ایران میں شیعہ انقلاب کے اثرات سے خطے کومحفوظ رکھنے میں سعودی عرب کی دلچسپی سے بھی فائدہ اٹھایا گیا اوراُس وقت کی سعودی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے انجمن سپاہ صحابہ کیلئے گراؤنڈ بنایا گیا،جبکہ اِس تنظیم کے قیام کیلئے سعودی فنڈنگ کے الزامات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے،ساتھ ہی عراقی مدد اور تعاون کے بھی اشارے ملے،وکی لیکس نے لاہور میں امریکی قونصل خانے کے سابقہ پرنسپل آفیسر برائن ڈی ہنٹ Hunt D. Bryan کی جانب سے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آف امریکا کو 20 مارچ 2009ءکو بھیجی گئی ایک کیبل کو افشاءکرتے ہوئے کہا کہ سپاہ صحابہ کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی کو لیبین حکومت نے312000 امریکی ڈالر( 25 ملین پاکستان روپے) اِس مقصد کیلئے ہدیہ کیے کہ ایران اور ایرانی ایجنٹوں کے خلاف کام میں لیبین حکومت اور سپاہ صحابہ کے اہداف مشترکہ ہیں۔
یوں انجمن سپاہ صحابہ نے پاکستان میں دیوبندی فرقے کے نام پر تشدد اور دہشت گردی کی بنیاد رکھنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا،انجمن سپاہ صحابہ اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے درمیان جنگ وجدل کا یہ سلسلہ جلد ہی ایک مہم میں تبدیل ہوگیا جو آڈیو کیسٹس کے ذریعے چلائی جا رہی تھی، مناظرے اور مباہلے کے چیلنجوں پر مبنی لفظوں کی یہ جنگ اُس وقت خونی معرکے کی بنیاد بن گئی،جب 1988ءمیں افغانستان سے ملحق قبائلی علاقے پارہ چنار میں تحریک جعفریہ پاکستان کے ر ہنماءعلامہ عارف حسین الحسینی کو قتل کر دیا گیا، جس کے ڈیڑھ سال بعد 1990 ءمیں سپاہ صحابہ کے رہنماءمولانا حق نواز جھنگوی بھی بم حملے میں مارے گئے ،خیال رہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ نے ابتداءہی سے اہلسنّت کا نام اپنے حق میں استعمال کرکے” شیعہ وہابی” تنازعے کو” شیعہ سنی رنگ“ دینے کی کوشش کی، حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کی لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ یہ سلسلہ کبھی اچھے تو کبھی برے تعلقات کے ساتھ 90 کی دہائی تک جاری رہا،1991ءمیں متوقع پابندی کے پیش نظر انجمن سپاہ صحابہ نے اپنا نام ”سپاہ صحابہ پاکستان “رکھ لیا،1993ءمیں متعدد سنگین مقدمات میں ملوث ہونے کی بناءپر یہ” لشکر جھنگوی“ میں تبدیل ہوگئی،یوں یہ تنظیم مختلف ناموں کے ساتھ 2002ءتک کام کرتی رہی۔
لیکن 12 جنوری 2002ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث قرار دیکر جب تینوں جماعتوں پر پابندی عائد کر دی،تو اِس تنظیم نے ”ملت اسلامیہ“ کے نام سے کام شروع کردیا،چنانچہ16 نومبر 2003ءکو جب حکومت نے اِسے بھی کالعدم قرار دے دیا تو یہ تنظیم ”انجمن نوجوانان اہلسنّت“ کے نام سے سامنے آگئی،مگر 2010ءمیں اِسے بھی کالعدم قرار دے دیا گیا،آجکل یہ تنظیم ”اہل سنت و الجماعت پاکستان “کے نام سے کام کر رہی ہے،دراصل یہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کا وہ نیا نام ہے، جس کے ذریعے یہ ایک طرف حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہی ہے تو دوسری جانب اِس نام کا سہارا لے کریہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ ملک کی غالب اکثریت اہلسنّت وجماعت سنی حنفی کی نمائندہ وترجمان ہے،طرفہ تماشا یہ کہ ہمارا الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا بھی اِس تنظیم کو بار بار اہلسنّت وجماعت کانام دے کر اِس غلط فہمی کو مزید تقویت پہنچارہا ہے اور ایک ایسی متشدد تنظیم جس کا اکثریتی طبقے سے کوئی تعلق نہیں، کو اُن کا نمائندہ قرار دے رہا ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ اہلسنّت وجماعت نہیں ہے، جسے عام طور پر اہلسنّت وجماعت سنی حنفی (بریلوی) کہا اور سمجھا جاتا ہے اورحقیقتاً اِس تنظیم کا اہلسنّت وجماعت سنی حنفی سے کوئی تعلق نہیں ہے،جس کا تاریخی جائزہ ہم اگلے حصے میں پیش کریں گے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاءالرحمن فاروقی، مولانا ایثار الحق قاسمی اور مولانا اعظم طارق سپاہ صحابہ کے بانی ارکان تھے،جب تنظیم کے قیام کے وقت اِس کو ”انجمن سپاہ صحابہ “کا نام دیا گیا تو مولانا حق نواز جھنگوی کو سپریم کمانڈر بنایا گیا، 1990ء میں حق نواز جھنگوی کو جھنگ میں قتل کردیا گیا،جس سے اِس گروپ کو بہت تقویت ملی اور مولانا ایثار الحق قاسمی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے، وہ بھی 1991ءمیں قتل کر دیے گئے تو مولانا ضیاءالرحمن فاروقی نے قیادت سنبھال لی، 18 جنوری 1997ءکو مولانا ضیاءالرحمن فاروقی سپاہ صحابہ کے کچھ دیگر راہنماﺅں کے ساتھ کاربم دھماکے میں مارے گئے، تب مولانا اعظم طارق نے امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں ،انہوں نے سپاہ صحابہ کو ایک اعتدال پسند مذہبی جماعت کی حیثیت سے روشناس کروانے کی کوشش کی اور دیوبندی جماعتوں کی ہمدردی بھی حاصل کی،مگر سپاہ صحابہ کے لیڈروں کے قتل کا سلسلہ جاری رہا، مولانا اعظم طارق کو بھی 4 اکتوبر 2003ءکو اسلام آباد میں گولی مار دی گئی، یوںسپاہ صحابہ کے بانی قیادت حق نواز جھنگوی، ایثار الحق قاسمی، ضیاءالرحمان فاروقی اور مولانا اعظم طارق شیعہ دیوبندی تنازع کی بھینٹ چڑھ گئی،اعظم طارق کے قتل کے بعد اِس تنظیم کے دو دھڑے سامنے آئے،ایک دھڑا” ملت اسلامیہ“ کے نام سے محمداحمد لدھیانوی کی قیادت میں جبکہ دوسرا ”اہلسنّت وجماعت“ کے نام سے علی شیر حیدری کی سرپرستی میں قائم ہوا،اوّل الذکر کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی ”قائد ملت اسلامیہ“ کہلائے جبکہ موخر الذکر کے سربراہ ”قائد ااہلسنّت“ کے نام سے موسوم ہوئے،بعد میں یہ دونوں دھڑے محمد احمد لدھیانوی کی قیادت میں متحد ہوگئے ،مگر اندرون خانہ قیادت کے مسئلے پر اختلافات موجود رہے،جس کی بازگشت علی شیر حیدری کے قتل کے بعد بھی سنائی دی کہ لدھیانوی کے حامیوں نے علی شیرحیدری کو راستے سے ہٹا دیا،تا کہ قتل کا الزام کسی اور پر دھرا جائے اور سربراہی کیلئے جاری کھینچ تان ختم ہوجائے، واضح رہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ سینٹرل پنجاب کی ایک اہم سیاسی جماعت رہی، اُس کے عہدیدار قومی و صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے اور یہ جماعت الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بطور سیاسی جماعت بھی رجسٹرڈ رہی۔
اِن دنوںکالعدم تنظیم سپاہ صحابہ اندورنی اختلافات کا شکار ہے اور تنظیم دو گروپوں میں بٹی ہوئی ہے،ایک گروپ کی قیادت مولانا محمداحمد لدھیانوی کے پاس ہے ،جبکہ دوسرا گروپ کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی سرکردگی میں کام کررہا ہے،یہ وہی ملک اسحاق ہے جس پر سو سے زیادہ شیعہ اور دیگر سنی افراد کے قتل کے مقدمات قائم ہیں اور جو تقریباً پندرہ سال جیل کاٹ چکا ہے،1995ءمیں جب کالعدم لشکر جھنگوی کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی، اُس وقت ملک اسحاق اپنے خلاف درج مقدمات کی وجہ سے مفرور تھا، رحیم یار خان کے علاقے سوائے خان کا رہائشی ملک اسحاق 6ستمبر 1985ءکو وجود میں آنے والی سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کے ابتدائی دنوں کا ساتھی ہے، 1991ءمیں جب ضیاءالرحمٰن فاروقی نے انجمن سپاہ صحابہ کا نام تبدیل کر کے سپاہ صحابہ پاکستان رکھا تو ملک اسحاق ضلع رحیم یار خان کا سربراہ نامزد ہوا اور تنظیم کی مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن بھی رہا،وہ اپنے خلاف مقدمات کے باعث 1993ءمیں روپوش ہوا، اسی مفروری کے دوران ریاض بسرا، اکرم لاہوری، اور غلام رسول شاہ سے مل کر لشکر جھنگوی بنائی، جو سپاہ صحابہ کے عسکری ونگ کے طور پر کام کرتی تھی، اِن دہشتگردوں نے ملک بھر میں سینکڑوں بے گناہ شیعہ اور سنی افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔
ملتان کے سینئیر سپرنٹنڈنٹ پولیس گوہر نفیس کے مطابق کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ واضح طور پر دو” لدھیانوی اور ملک اسحاق گروپ“ میں تقسیم ہوچکی ہے،پولیس ریکارڈ کہتا ہے کہ ملک اسحاق کسی زمانے میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کا ممبر تھا، لیکن اپنی مبینہ متشدد پالیسی کی وجہ سے اُس نے ایک نئی تنظیم لشکر جھنگوی کی بنیاد رکھی اوربانی امیر بنا،لیکن یہ تنظیم بھی اُسی زمانے میں کالعدم قرار دے دی گئی،گزشتہ سال ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ملک اسحاق نے تنظیم اہل سنت والجماعت (سابق سپاہ صحابہ) میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے لشکر جھنگوی سے لا تعلقی کا اعلان کیا تھا، پولیس حکام کے مطابق لشکر جھنگوی شیعہ اور سنی مکتبہ فکر کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ملوث ہے ،یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق کے باعث لشکر جھنگوی اور افغان طالبان کے رابطے اور تعاون کی مصدقہ اطلاعات بھی موجود ہیں،جبکہ ماضی میں لشکر جھنگوی نے کراچی میں غیر ملکی تیل کمپنی کے چار امریکی کارکنوں کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے ، جنوری2002ءمیں لشکر جھنگوی کے جنگجو امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغواءاور پھر قتل میں بھی ملوث پائے گئے، اسی سال مارچ میں شیرٹن ہوٹل کراچی کے سامنے گیارہ فرانسیسی انجیئنروں کی ہلاکت ہو یا اسلام آباد کے سفارتی علاقے میں پروٹسٹنٹ چرچ پر حملہ، تفتیش کرنے والے اداروں نے لشکر جھنگوی کو ہی ملوث بتایا ہے، اِسی طرح مزارات اولیاءپر حملے،سنّی مساجد اور شیعہ امام بارگاہوں کو نشانہ بنانا اورعلماءو مشائخ کی ٹارگیٹ کلنگ میں بھی یہی تنظیم ملوث ہے۔
پولیس حکام یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک اسحاق جیل سے بھی اپنے تنظیمی معاملات چلاتا رہا ہے اور وہ جیل میں رہ کر بھی اپنے ساتھیوں کی مو ثر طور پر راہنمائی کرتا رہا ہے،اِس کا عملی ثبوت اُس وقت سامنے آیا جب 10 اکتوبر 2009ءکو جی ایچ کیو پر حملے کے دوران دہشت گرد ڈاکٹر عثمان اور اس کے ساتھیوں نے 43 اعلیٰ فوجی افسر اور دیگر افراد یرغمال بنا یا اور مطالبہ کیاکہ لشکر جھنگوی کے امیر ملک اسحاق سمیت 100 سے زائد دہشتگردوں کو رہا کیا جائے، بعدازاںملک اسحاق، احمد لدھیانوی، فضل الرحمٰن خلیل (سربراہ حرکة المجاہدین) اور جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے بھائی مفتی عبد الروف کو راتوں رات راولپنڈی منتقل کیا اور اغوا کاروں کے ساتھ اُس کے مذاکرات کروائے گئے، یہ مذاکرات کامیاب تو نہ ہو سکے، لیکن یہ بات واضح ہو گئی کہ ملک اسحٰق جیل میں رہ کر بھی پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں ملوث ہے،یہی وجہ تھی کہ ملک اسحاق پر جیل میں بیٹھ کر لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے کا الزام بھی عائد کیا گیا، جس کے نتیجے میں سات کھلاڑی اور ایک معاون کوچ زخمی جبکہ 8 پاکستانی ہلاک ہو ئے،جبکہ مذکورہ حملوں کی وجہ سے ناصرف پاکستان ورلڈ کپ کی میزبانی سے محروم رہا بلکہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا دروازہ بھی بند ہوگیا ،یہ تنظیم حالیہ عرصے میں شیعہ اور خاص طور پر ہزارہ شیعہ پر حملوں اور پرتشدد کارروائیوں کی ذمہ داری بھی قبول کرچکی ہے، تاہم ملک اسحاق کے اعلان لاتعلقی کے بعد اِس کی موجودہ قیادت کے بارے میں انٹیلی جنس ادارے زیادہ آگاہی نہیں رکھتے۔
پولیس ذرائع کہتے ہیں کہ لشکر جھنگوی فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے اور اُس کے طالبان سے بھی تعلقات ہیں،اِسی طرح پاکستانی تفتیش کار کہتے ہیں کہ تحریک طالبان پنجاب دراصل صوبہ پنجاب میں کئی سالوں سے سرگرم مختلف شدت پسند تنظیموں کا ایک ملغوبہ ہے،یہ گروپ پاکستان میں کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کی مشترکہ کاوش ہے جس میں سپاہ صحابہ، لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی، حرکت المجاہدین اور حرکت الانصار وغیرہ کے کارکن شامل ہیں،اِسی طرح تحریک طالبان پاکستان ،جس کا قیام دسمبر 2007ءمیں عمل میں آیا، میں شامل ہونے والے جنگجو افراد اور تنظیمیں پہلے سے اپنے اپنے علاقوں میں سرگرم اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث رہی ہیں،یہ وہی تحریک طالبان پاکستان ہے جس نے افغانستان کے اندر امریکی و اتحادی افواج پر حملوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں، پاکستان کے شہری علاقوں میں بم دہماکوں اور خود کش حملوں کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ جس کے خاتمے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے،جبکہ تحریک طالبان ،پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی اور دیگر علاقوں میں شیعہ اور سنی بریلوی مسلک کے افراد پر حملوں میں بھی ملوث قرار دی جاتی ہے اور اس طرح کی بہت سی بڑی کار روائیوں کی ذمہ داری بھی قبول کر چکی ہے۔
اگرچہ سپاہ صحابہ اور اُس سے ملحقہ تمام تنظیمیں یہ دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ اُن کی مذہبی سیاسی اَساس ہے، مگر یہ اپنے فرقہ پرستانہ عزائم پر بھی کاربند ہیں، اِن کے ممبران جو کہ وقفے وقفے سے تنظیم سے علیحدہ ہوئے، انھوں نے مختلف فرقہ پرست تنظیموں کی بنیاد ڈالی ،اِسی وجہ سے لشکر جھنگوی کو سپاہ صحابہ کا عسکری بازو تصور کیا جاتا ہے اور دونوں دھڑوں کے عزائم مشترک ہیں، پاکستان کے بیشتر تجزیہ نگاروں کو یقین ہے کہ 1996ءمیں لشکر جھنگوی کا سپاہ صحابہ سے علیحدگی کا پس پردہ مقصد دراصل سپاہ صحابہ کو اپنی سیاسی سرگرمیوں پر فرقہ واریت کے دفاع کیلئے توجہ مرکوز کرنے کا موقع فراہم کرنے کی ایک چال تھا، جنوری 2009ءمیں محکمہ سی آئی ڈی نے سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے انتہائی مطلوب افراد کے ناموں پر مشتمل ایک فہرست ریڈ بک (Red Book) شائع کی جس کی رُو سے سپاہ صحابہ کا پورے ملک میں ایک مضبوط جال ہے اور اُس کو پورے ملک خصوصاً کراچی کے دیوبندی مدارس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان جو آج اہلسنّت وجماعت کے جعلی نام سے کام کررہی ہے، دیوبندی مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والی سب سے بڑی فرقہ پرست تنظیم ہے اور پاکستان میں فرقے کے نام پر تشدد اور دہشت گردی کی بنیاد رکھنے میں اِس تنظیم کا کردار سب سے اہم مانا جاتا ہے،اس تنظیم کے ردعمل میں 1990ءمیں سلیم قادری کی زیر نگرانی سنی تحریک کے قیام کے علاوہ متعدد شیعہ تنظیمیں بھی وجود میں آئیں، جن میں1993ءمیں غلام رضا نقوی کی قیادت میں شدت پسند شیعہ تنظیم سپاہ محمد اور پھر میجر ریٹائرڈ اشرف علی شاہ کی قیادت میں سپاہ محمد میں ایک نئے شدت پسند گروپ کااضافہ ، چھوٹے چھوٹے شیعہ گروپوں پر مشتمل جعفریہ الائنس اورآل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کا قیام کے ساتھ،بقیة اللہ سمیت مہدی فورس وغیرہ بھی دراصل اِسی کالعدم تنظیم کی فرقہ پرست متصبانہ کارروائیوں کا رد عمل تھا،جس نے وطن عزیز کو مسلکی تعصب اور مذہبی نفرت و منافرت کی آگ میں دھکیل کر ہماری قومی وحدت کو پارہ پارہ کردیا۔
قارئین محترم ! اِن حقائق کے مطالعے سے واضح ہوگیا کہ اِس تنظیم کے اہداف ومقاصد کیا ہیں اور اِس کے قیام نے ہمارے ملک،معاشرے اور قومی یکجہتی پر کیا اثرات مرتب کیے،اگلی قسط میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ قیام سے اگر اِس تنظیم اوراِن لوگوں کا اہلسنّت سے کوئی تعلق نہیں تو اصل اہلسنّت وجماعت کون ہیں ،کب سے ہیں اوراُن کی درست شناخت و پہچان کیا ہے۔ (جاری)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...