بدعت کی تعریف و شرعی حیثیت اور اقسامِ بدعت
محترم قارئینِ کرام : بدعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے ۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ ، اَصل ، مثال ، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ، یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں ۔
بدعت کا لغوی معنی : بدعت عر بی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہو تا ہے ۔ کسی سابقہ نمونہ کے بغیر کو ئی نئی چیز ایجاد کر نا ۔ چنانچہ عر بی لغت کی مشہور کتاب’المنجد‘میں بدعت کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے’اختر عہ وصنعہ لا علی مثال‘یعنی کسی سابقہ مثال کے بغیر کو ئی نئی چیز بنا نا اور ایجاد کر نا ۔
بدعت کا شرعی معنیٰ : شر یعت میں بد عت ہر اس کام کو کہتے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں نہ ہوا ، چنا نچہ اما م یحییٰ بن شر ف نووی علیہ الرحمہ بد عت کی تعریف کرتے ہو ئے لکھتے ہیں : البدعۃ ھی احداث ما لم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، بدعت ایسے نئے کام کا ایجاد کر نا ہے جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ہو ۔ (تہذیب الاسماء واللغت جلد ۳ صفحہ ۲۲)
کچھ لوگ بدعت کی تعریف اس طر ح سے کرتے ہیں کہ : وہ کام جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں نہ ہوا وہ بدعت ہے ۔ حالانکہ یہ تعریف خود ساختہ ہے جسے کسی عالم یا محدث نے نہیں بیان کیا ۔ اور صحیح حدیث کی روشنی میں بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں تراویح کے نمازکی با ضابطہ جماعت قائم کرنے کے بعد ارشاد فر مایاکہ : یہ کتنی اچھی بدعت ہے ۔ اب آپ خود ہی غور کریں کہ جو کام خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے کے بعد ہو وہ بدعت ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو کیسے بدعت کہا جو خود ان کے زمانے میں ہوا ؟ کیا نعوذباللہ وہ بدعت کی تعریف نہیں جانتے تھے ؟ یقیناً ایسا نہیں تو معلوم ہوگیا کہ یہ تعریف بالکل صحیح نہیں ۔ صحیح وہی ہے جو اوپر امام نووی علیہ الرحمہ کے حوالے سے بیان کیا گیا ۔
ہر بدعت بری نہیں ہوتی : ہر بدعت بری اور گمراہی نہیں ہو تی،کیو نکہ اگر ہر بدعت بری اور گمراہی ہو تی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو ئی ایسا کام نہیں کرتے جو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا تھا ، مگر بدلتے حالات کے تقاضے کے مطابق بہت سارے ایسے کام جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانہ مبارک میں نہ ہوا تھا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی علیہم اجمعین نے کیا اور اسے اچھا بھی سمجھا ، یہاں پر مختصراََ چند مثالیں حاضر خدمت ہیں : ⬇
مثال نمبر 1 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں تراویح کی نماز با قاعدہ رمضان المبارک میں ہر رات کو نہیں ہوتی تھی ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے با قاعدہ تراویح کی جماعت قائم کی ۔اور جب یہ جماعت قائم ہو گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا ’’نعم البدعتہ ھٰذہ‘‘ یہ کتنی اچھی بدعت ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب صلاۃالتراویح باب فضل من قام رمضان حدیث۱۹۰۶،چشتی)
غور کریں ! اگرہر بدعت بری اور گمراہی ہوتی تو حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ’’بدعت‘‘ کے ساتھ ’’اچھی‘‘ کا لفظ کبھی استعمال نہ فرماتے مگر آپ نے ’’بدعت‘‘ کے ساتھ ’’اچھی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ۔ معلوم ہوا کہ ہر بدعت بری اور گمراہی نہیں ہوتی ۔
مثال نمبر 2 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانہ مبارک میں جمعہ کے د ن صرف دو اذان ہوتی تھی ۔ پہلی اذان اس وقت ہوتی جب امام منبر پر بیٹھ جاتے تھے او ر دوسری اذان (یعنی اقامت) نماز کے شروع ہونے سے پہلے ہوتی تھی ۔ مگر جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آیا توآپ نے بدلتے حالات کے تقاضے کے مطابق ایک ’’اذان‘‘ کا اضافہ کیا اور مقام ’’زورا‘‘ پر دینے کا حکم دیا ۔ اس طرح سے جمعہ کے دن بشمول ’’اقامت‘‘ کے تین اذانیں ہو گئیں ۔ (صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب الاذان یوم الجمعۃ حدیث نمبر ۹۱۲،چشتی)
سو چنے کی بات ہے ۔ اگر ہر بد عت بری اور گمراہی ہو تی تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ وہ کا م کیسے کرتے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا تھا ۔ مزید یہ کہ اس وقت کثیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین باحیات تھے کسی نے بھی اعتراض نہ کیا کہ آپ ایک ایسا کام جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں نہ ہوا ۔ اسے آپ نے کیوں کیا ؟ بلکہ تمام صحابہ و تا بعین رضی اللہ عنہم اجمعین نے اسے قبول کیا اور آج تک تمام مسلمانون کا اسی پر عمل ہے ۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں ! کیا وہ تمام صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم اجمعین اور آج تک کے تمام مسلمان ، اس پر عمل کرنے کی وجہ سے گمراہ اور جہنمی ہیں ؟ ۔ (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه) ۔ یا وہ جہنمی ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم اور عام مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر اپنا الگ راستہ بناتے ہیں ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جو مسلمانوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے کو جائے تو اُس کو ہم پھیر دیں گے ، جدھر وہ پھرا ۔ اور اُسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ کیا ہی بُری جگہ ہے پھر نے کی ۔ (سورہ نسا آیت نبر ۱۱۵)
مثال نمبر 3 : یہ اس وقت کی بات ہے جب قرآن مجید کتابی صورت میں جمع نہیں ہوا تھا ، جنگِ یمامہ میں کئی صحابہ کرام علیہم الرضوان شہید ہوچکے تھے ۔ خلیفۂ وقت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ایک میٹینگ کےلیے بلواتے ہیں اور اسی محفل میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ بھی موجود ہیں ۔ اس میٹینگ کی تفصیل حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی زبانی پڑھیے : قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ: إِنَّ القَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ اليَمَامَةِ بِقُرَّاءِ القُرْآنِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ القَتْلُ بِالقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ، فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ القُرْآنِ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ القُرْآنِ ۔
ترجمہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : عمر میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنگِ یمامہ میں کتنے ہی قاری قرآن شہید ہو چکے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ قاریوں کے مختلف مقامات پر شہید ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کا اکثر حصہ محفوظ نہیں رہ سکے گا ۔ لہٰذا میری رائے ہے کہ آپ قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دے دیجیے ۔
قُلْتُ لِعُمَرَ:كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟
ترجمہ : حضرت ابوبکر کہتے ہیں کہ میں نے عمر سے کہا : آپ وہ کام کیسے کرسکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ؟
قَالَ عُمَرُ: هَذَا وَاللهِ خَيْرٌ ۔
ترجمہ : عمر فاروق نے جواب دیا : (اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا) مگر خدا کی قسم یہ کام پھر بھی اچھا ہے ۔
فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي ۔
ترجمہ : (حضرت ابوبکر کہتے ہیں) عمر مجھ سے اس بارے میں مسلسل بحث کرتے رہے ۔
حَتَّى شَرَحَ اللهُ صَدْرِي لِذَلِكَ ۔
ترجمہ : یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اس بارے میں میرا سینہ کھول دیا ۔
وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ ۔
ترجمہ : اور میں بھی عمرکی رائے سے متفق ہو گیا ۔
قَالَ زَيْدٌ : قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّهِمُكَ ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الوَحْيَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَتَتَبَّعِ القُرْآنَ فَاجْمَعْهُ ۔
ترجمہ : زید بن ثابت کہتے ہیں ، ابوبکر نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا : تم نوجوان اور سمجھدار شخص ہو اور تمہاری قرآن فہمی پر کسی کو بھی کلام نہیں ہے ۔ اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی بھی لکھ کر دیا کرتے تھے ۔ پس بھرپور کوشش کرو اور قرآن مجید کو جمع کر دو ۔
فَوَاللهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ القُرْآنِ ۔
ترجمہ : (زید بن ثابت اپنی کیفیت یوں بیان کرتے ہیں) خدا کی قسم ! اگر مجھے پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیا جاتا تو وہ مجھے اتنا بھاری نہیں لگتا جتنا یہ حکم بھاری لگا کہ قرآن کو جمع کروں ۔
قُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟
ترجمہ : زید بن ثابت ، ابوبکر سے عرض کرتے ہیں : آپ لوگ وہ کام کیوں کررہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ۔
قَالَ: هُوَ وَاللهِ خَيْرٌ ۔
ترجمہ : ابوبکر نے کہا : (اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا) مگر خدا کی قسم یہ کام پھر بھی اچھا ہے ۔
فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي ۔
ترجمہ : (زید بن ثابت کہتے ہیں) ابوبکر مجھ سے مسلسل بحث کرتے رہے ۔
حَتَّى شَرَحَ اللهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ۔
ترجمہ : یہاں تک کہ اللہ تعالی نے میرا سینہ بھی اس رائے کی جانب کھول دیا جس طرف ابوبکر و عمر کا کھول دیا تھا ۔ (صحيح البخاري، كتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، ٦/١٨٣)۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن حدیث نمبر ۴۹۸۶)
مذکورہ بالا حدیث شریف کو دوبارہ پڑھیں اور سوچیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک ایسے کام کے بارے میں جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ کیا ، قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ غلط نہیں بلکہ اچھا کام ہے اور صرف اچھا ہی نہیں بلکہ بہت اچھا کام ہے ۔ مگر کچھ لوگ اپنی جہالت کی بنیاد پر ہر بدعت کو گمراہی سمجھتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہی ہدایت نصیب کر نے والاہے ۔ اس حدیثِ مبارکہ کا ایک ایک لفظ اس دور میں ہونے ہونے والے کثیر بحث و مباحثہ کا یقینی حل پیش کرتا ہے ۔ فقیر چشت کا دل چاہتا ہے اس حدیث سے حاصل ہونے والی مہکتے موتی ، چمکدار اصول ، روشن ضابطے اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کےلیے بیان کروں مگر کہیں "اپنے مطلب کی بات" کا عنوان نہ دے دیا جائے اس لیے قلم روک کر آپ ہی کو دعوتِ فکر دیتا ہوں ۔ پڑھیے ، غور کیجیے اور سمجھیے ۔ اگر ہم چاہیں تو اکثر جھگڑے اس ایک حدیثِ مبارکہ سے ختم ہو سکتے ہیں ۔
بدعت کے دورے میں مبتلا لوگ کہتے ہیں : حدیث شریف میں ہے ’کل بدعۃ ضلالۃو کل ضلالۃ فی النار‘کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔اس سے تو ثابت ہواکہ ہر بدعت گمر اہی ہے ۔
اس کا جواب : اس حدیث شریف میں بدعت سے مراد ’بد عت سئیہ ‘ہے یعنی ’بری بدعت‘اور اس حدیث شریف کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہر وہ نیا کام جو دین کے خلاف ہوشر یعت کے مزاج کے مخالف ہو وہ سب کے سب غلط اور گمراہی ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر نیا کام چاہے وہ اچھا ہو یا برا سب کے سب غلط اورگمراہی ہے۔کیو نکہ اگر ایسا ہی ہو تا تو مدرسے بنانا ،مساجدکو مزین کرنا ،قرآن حکیم پر اعراب لگانا،پورے رمضان المبارک میں تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنا،جمعہ کے دن اذان اول دینا اور اس کے علاوہ بے شمار باتیں گمراہی ہو تیں۔ حالانکہ ایسا کوئی نہیں مانتا ،لہذا معلوم ہوا کہ ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ صرف وہ بدعتیں گمراہی ہیں جو دین و شریعت کے مخالف ہیں ۔
مسلمانوں کو بدعتی کہنے والے کہتے ہیں : کیا بدعت کا حسنہ (یعنی اچھی) اور سئیہ (یعنی بری) ہوناحدیث شریف سے ثابت ہے ؟
اس کا جواب : بدعت کا اچھی اور بری ہونا حدیث شریف سے ثابت ہے ۔حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ سے مر وی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’من سنَّ فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجر ھا و اجر من عمل بھا بعدہ من غیر ان ینقص من اجورھم شئی و من سن سنۃ سئیۃ کان علیہ وزرھا و وزر من عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقص من اوزارھم شئی ‘‘ جس نے اسلام میںکسی اچھے طر یقے کو رائج کیا تو اس کو اپنے رائج کر نے کا ثواب ملے گا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی ثواب ملے گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کر تے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کو ئی کمی نہ ہو گی ، اور جس شخص نے اسلام میں کو ئی برا طریقہ رائج کیا تو اس شخص کو اس کے رائج کر نے کا گناہ ہو گا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی گناہ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرتے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی ۔ (صحیح مسلم،کتاب الزکوۃ ،باب الحث علی الصدقہ حدیث نمبر ۱۰۱۷)
اس حدیثِ مبارکہ سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا کہ نئے کام کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ برے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کا حکم صاف صاف لفظوں میں بتا دیا ، اور اسی حدیث شریف کو مد نظر رکھتے ہوئے امام غزالی ، امام نووی ، امام بدرالدین عینی ، علامہ ابن حجر عسقلانی ، میر سید شریف جر جانی ، علامہ ابن اثیر جزری ، علامہ ابو اسحاق شاطبی ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہم الرحمہ نے بدعت کی تقسیم کی ۔ اور سب نے یہ تسلیم کیا کہ بعض بدعتیں اچھی ہو تیں ہیں اور بعض بری (یہاں پر سب کے اقوال الگ الگ پیش کرنے کی گنجائش نہیں تفصیل کےلیے مطالعہ کیجیے ’شرح صحیح مسلم مصنفہ میرے استاد بھائی علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ جلد نمبر ۲،صفحہ ۵۳۹تا ۵۶۴،چشتی)
ان تماتر حقیقتوں سے آنکھیں بند کر کے اگر کو ئی صرف یہیں رٹتا رہے کہ کوئی بھی بدعت اچھی نہیں ہوتی(یعنی کوئی بھی نیا کام اچھا نہیں ہوتا) بلکہ سب غلط اور گمراہی ہے ۔ تو یقیناً ایسے شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے افکار و نظریات اور علمائے کرام کے اقوال سے کو ئی مطلب نہیں وہ فقط اپنے نفس کی پیر وی کر نے والا ہے ایسے شخص سے مسلمانوں کو دور رہنے ہی میں بھلائی ہے ۔
علامہ ابنِ حجر عسقلان رحمۃ اللہ علیہ ، بدعت کی لُغوی تعریف یوں کرتے ہیں : البدعة أصلها : ما أحدث علی غير مثال سابق ۔
ترجمہ : بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو ۔ (فتح الباری ، 4 : 253)
قرآن مجید میں آنے والے بدعت کے مختلف مشتقات سے ان معانی کی توثیق ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو کسی مثال کے بغیر وجود عطا کیا تو لُغوی اعتبار سے یہ بھی ’’بدعت‘‘ کہلائی اور اس بدعت کا خالق خود اللہ تعالی ہے جو اپنی شانِ تخلیق بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتا ہے : بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ۔
ترجمہ : وہی آسمانوں اور زمین کو (عدم سے) وجود میں لانے والا ہے اور جب وہ کسی چیز (کی اِیجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہے ۔ (سورۃ البقره، 2 : 117)
اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہو گیا کہ ہر وہ نئی چیز بدعت کہلاتی ہے جس کی مثل اور نظیر پہلے سے موجود نہ ہو ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام (خواہ وہ نیک اور احسن ہی کیوں نہ ہو ) مثلاً اِیصال ثواب ، میلاد اور دیگر سماجی ، روحانی اور اخلاقی اُمور ، اگر اُن پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ ہو تو بدعت اور مردود ہیں ۔ یہ مفہوم سراسر غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیونکہ اگر یہ معنیٰ لیا جائے کہ جس کام کے کرنے کا حکم قرآن و سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ جائز امور کا حکم کیا ہوگا کیونکہ مباح تو کہتے ہی اسے ہیں جس کے کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور کسی جہت سے بھی تعلیماتِ دین سے ثابت نہ ہو ۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی بدعت کے گمراہی قرار پانے کےلیے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے : ⬇
(1) دین میں اس کی سرے سے کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو ۔
(2) نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور احکام سنت کو توڑے ۔
بدعت کا اِصطلاحی مفہوم واضح کرتے ہوئے فقہاءِ اُمت اور ائمۂ حدیث نے اس کی مختلف تعریفات پیش کی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں : ⬇
امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ ﷲ علیہ بدعت کا اِصطلاحی مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : المحدثه والمراد بها ما أحدث، وليس له أصلٌ في الشرع ويسمي في عرف الشرع ’’بدعة‘‘، وما کان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللّغة : فإن کل شيء أحدث علي غير مثال يسمي بدعة، سواء کان محمودًا أو مذمومًا ۔
ترجمہ : محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو۔ اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں ۔ لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں لغوی بدعت کو نہیں ۔ پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ ۔ (فتح الباری جلد 13 صفحہ 253۔چشتی)
امام ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ متوفی 1014 ھ مرقات شرح مشکوۃ باب الاعتصام بالکتاب و السنہ میں امام نووی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قال النووی البدعۃ کل شئے عمل علی غیر مثال سبق ۔
ترجمہ : یعنی بدعت وہ کام ہے جو بغیر گذری مثال کے کیا جائے ـ
نتیجہ یہ نکلا کہ بدعت شرعی دو طرح کی ہوئی ـ بدعت اعتقادی ، اور بدعت عملی ، بدعت اعتقادی ان برے عقائد کو کہتے ہیں جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک کے بعد اسلام میں ایجاد ہوئے اور بدعت عملی ہر وہ کام ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک کے بعد ایجاد ہوا ـ
مرقات شرح مشکوۃ میں امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وفی الشرع احداث مالم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم ۔
ترجمہ : یعنی بدعت شریعت میں اس کام کا ایجاد کرنا ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ میں نہ ہو ـ
بدعت دو طرح کی ہے ـ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ـ پھر بدعت حسنہ تین طرح کی ہے ، بدعت جائز ، بدعت مستحب ، بدعت واجب ، اور بدعت سیئہ دو طرح کی ہے ـ بدعت مکروہ ، اور بدعت حرام ، اس تقسیم کے لئے حوالہ ملاخطہ ہو ـ
مرقات شرح مشکوۃ میں امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کل بدعۃ ضلالۃ عام مخصوص منہ البعض ہے ـ شیخ عز الدین بن عبد السلام " کتاب القوائد " کے آخر میں لکھتے ہیں کہ : بدعت یا تو واجب ہے جیسے علم نحو کا پڑھنا (تاکہ قرآن و حدیث کو سمجھا جا سکے) اور اصول فقہ کا جمع کرنا ، اور حدیث کے راوی میں جرح و تعدیل کرنا ، اور یا حرام ہے ـ جیسے جبریہ و قدریہ وغیرہ کا مذہب ، اور ایسے نو ایجاد گمراہ فرقوں کا رد کرنا بھی بدعت واجبہ ہے کیونکہ شریعت کو ان بدعات اور نئے مذہبوں سے بچانا فرض کفایہ ہے ، اور یا مستحب ہے ، جیسے مسافر خانے ، اور مدرسے بنانا، اور ہر وہ اچھی بات جو پہلے زمانہ میں نہ تھی ، اور جیسے عام جماعت سے نماز تراویح پڑھنا ، اور صوفیاء کرام کی باریک باتوں میں کلام کرنا ، اور یا مکروہ ہے ـ جیسے مسجدوں کو فخریہ زینت دینا اور یا مباح ہے ، جیسے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا ، اور عمدہ عمدہ کھانوں اور شربتوں اور مکانوں کو وسعت دینا ـ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ : جو نیا کام کتاب و سنت یا اثر و اجماع کے مخالف ہو تو وہ گمراہی ہے ، اور جو ایسا اچھا کام نیا ایجاد کیا جائے کہ کتاب و سنت ، اثر و اجماع کے خلاف نہ ہو ، تو وہ مذموم و برا نہیں ـ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے باجماعت تراویح ادا کرنے کے بارے میں بارے میں فرمایا تھا ـ کہ یہ کام ہے تو نیا مگر اچھا ہے ـ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : مسلمان جس کام کو اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ـ اور حدیث مرفوع میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ـ
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : من سنّ فی الاسلام سنـۃ حسنۃ فعل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا و لا ینقص من اجورھم شئی و من سنّ فی الاسلام سنۃ سیۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا و لا ینقص من اوزارھم شیئی ـ
ترجمہ : جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس کے لئے لکھا جائے گا ـ اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا ، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی ـ (صحیح مسلم جلد 2 ، صفحہ نمبر 341،چشتی)
اس حدیث شریف کی شرح میں امام نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ دونوں حدیثوں اس بات پر رغبت دلانے میں صریح ہیں کہ اچھے کاموں کا ایجاد کرنا مستحب ہے ـ اور برے کاموں کا ایجاد کرنا حرام ہے ـ اور یہ کہ جو کوئی کسی اچھے کام کو ایجاد کرے تو قیامت تک جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان سب کے اجر کی مثل اس ایجاد کنندہ کو ملے گا ، اور جو کوئی برا کام ایجاد کرے تو قیامت تک جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان سب کے گناہ کی مثل اسکے نامہ اعمال میں درج ہوگا ـ
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد محترم عارف باللہ علامہ عبد الغنی نابلسی متوفی 1143 ھ مطابق 1730 ء رحمۃ اللہ علیہ " الحدیقۃ الندیّہ شرح الطریقۃ المحمدیّہ " میں فرماتے ہیں : بعض علماء سے ان عمارتوں کے متعاق سوال کیا گیا جو کہ کعبہ کے اردگرد تعمیر کی گئی ہیں جن میں چاروں مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھا کرتے ہیں کہ یہ طریقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں نہ تھا یو نہی تابعین ، تبع تابعین ، اور ائمہ اربعہ کے عہد میں بھی نہ تھا اور ان حضرات نے نہ تو اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس کو طلب کیا تھا ـ تو انہوں نے جواب دیا کہ : یہ بدعت ہے لیکن بدعت حسنہ ہے سیئہ نہیں ، کیونکہ سنت (طریقہ) حسنہ میں داخل ہے ـ کہ اس سے مسجد اور نمازیوں اور عام اہل سنت و جماعت کو کوئی ضرر اور حرج نہیں ـ بلکہ بارش اور گرمی و سردی میں اس سے فائدہ پہنچتا ہے ـ اور جمعہ وغیرہ میں یہ امام سے قریب ہونے کا ذریعہ بھی ہے ـ تو یہ بدعت حسنہ ہے اور لوگوں کے اس فعل کو " سنّۃ حسنہ " کہا جائے گا ـ اگرچہ یہ اہلسنت کی بدعت ہے ، مگر اہل بدعت کی بدعت نہیں ـ کیونکہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : من سنّ سنّۃ حسنۃ الخ ـ تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نےاس کی ایجاد کردہ حسنہ کو سنت میں داخل اور شمار فرمایا ـ مگر اس کے ساتھ " بدعت " کو بھی ملایا اور اگرچہ وہ نو پیدا اچھا کام حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے فعل میں تو وارد نہیں ہوا مگر اس حدیث کی وجہ سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے قول میں تو وارد ہو چکا ہے ـ لہذا کسی ایسے اچھے کام کا ایجاد کرنیوالا سنّی ہے بدعتی نہیں ـ کیونکہ وہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے ایسے کام کو " سنّۃ " قرار دیا ہے ـ
مذکورہ بالا تعریفات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل ، شرعی اصل ، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ ’’بدعت‘‘ ہے، لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متصادم ہو ۔
اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے ، مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی کا قول اہلحدیث عالم نواب وحید الزّمان لکھتے ہیں : البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها، والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة، بل هی مباح الأصل ۔
ترجمہ : بدعت ضلالہ جو کہ حرام ہے وہ ہے جس سے کوئی سنت چھوٹ جائے اور جس بدعت سے کوئی سنت نہ چھوٹے وہ بدعت نہیں ہے بلکہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ (ھدية المهدی صفحہ 117) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)