Sunday, 31 July 2022

فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ دوازدہم

فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ دوازدہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شہادت و تاریخِ شہادت حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ : شہادت خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ ذوالحجہ کی تقریباً ستائیس اٹھائیس تاریخ کو حضرت عمر ابن خطاب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر مسجد نبوی میں نماز پڑھاتے ہوۓ ابو لٶلٶ فیروز مجوسی ایرانی نے قلاتلانہ حملہ کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ زخمی ہوۓ اور محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو آپ رضی اللہ عنہ شہید ہوۓ ۔ اس سے معلوم ہوا اسلامی سال شروع بھی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہے اور ختم بھی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر ہوتا ہے ۔ اس لیے بہت سے ابلیس کے چیلوں کو تکلیفِ شدید ہوتی ہے ۔


فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ مِنْکَ يَا عُمَرُ ۔  رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ۔ وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ۔

ترجمہ : نبی کریم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر رضی اللہ عنہ تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔  (جامع ترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب عمر 5 / 620 الحديث رقم : 3690،چشتی)(نوادر الأصول فی أحاديث الرسول 1 / 230)(فتح الباری 11 / 588)


حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے خود دی ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کوہ احد پر تشریف لے گئے ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آگیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا : اثبت احد، فما عليک الا نبی او صديق او شهيدان ۔ (صحيح البخاری، کتاب فضائل صحابة، رقم: 3483)

ترجمہ : اے احد ! ٹھہر جا ۔ تیرے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں ۔


26 ذوالحجہ 23 ھجری کو آپ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ۔ آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہوگئے ۔ چار دن تک آپ موت و حیات کی کشمکش میں رہے ۔ آخر وقت پر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاٶ اور ان سے کہو عمر آپ کو سلام کہتا ہے ۔ سلام کرنے کے بعد عرض کرنا کہ عمر بن خطاب آپ سے اجازت مانگتا ہے کہ اسے اپنے دونوں دوستوں کے پاس قبر کی جگہ مل جائے ۔ جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ بیٹھی ہوئی زارو قطار رو رہی ہیں۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلام پہنچایا اور ان کی خواہش پیش کی۔ حضرت ام الومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں نے وہ جگہ اپنی قبر کےلیے رکھی ہوئی تھی مگر آج میں عمر کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں کہ انہیں اس جگہ پر دفن کیا جائے ۔

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس پہنچے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر آگئے۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے بٹھادو ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو بٹھا دیا گیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہو کیا جواب لے کر آئے ہو ؟ انہوں نے کہا : آپ کی خواہش کے مطابق جواب ملا ہے۔ یہ سن کر کہا: الحمدللہ! مجھے اس سے زیادہ کسی اور بات کی خواہش نہ تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری خواہش پوری ہوگئی ہے۔ جب میری روح قفس عنصری سے پرواز کرجائے تو ایک بار پھر حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اجازت مانگنا۔ اگر وہ بطیب خاطر اجازت دے دیں تو مجھے حجرہ اقدس میں دفن کردینا اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان میں لے جاکر دفنا دینا ۔


یکم محرم الحرام 24 ھجری کو اپنے بیٹے سے کہا : میری پیشانی زمین سے لگادو ۔ اس طرح سجدے کی حالت میں جان ، جان آفرین کے سپرد کردی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔


بعض لوگ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے یوم شہادت کی تاریخ یکم محرم الحرام کی نہ صرف نفی کرتے ہیں ، بلکہ جو اس بات کا قائل ہو ، اور اِس دن آپ کا یوم مناتا ہو ، اُسے طرح طرح کی باتیں بھی کرتے ہیں ، اور اب تو اِن علمی یتیموں کی بدمعاشیاں اتنی بڑھ چکی ہیں ، کہ سُنیوں کو یہ طعنہ بھی دینا شروع کر دیا کہ : تم یکم محرم کو یومِ فاروق اعظم ، معاذاللہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے بغض میں مناتے ہو ، کہ آپ کا یوم وصال تو 26 ذی الحج ہے لہٰذا اس دن آپ رضی الله کا ذکر وغیرہ کرتے ۔


26ذو الحجۃ الحرام کی صبح ایک مجوسی غلام ابو لؤلؤ فیروز نے آپ پر فجر کی نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا اور شدید زخمی کردیا، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے  کا حکم دیا، جب لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر آپ کے گھر میں لائے تو مسلسل خون بہنے کی وجہ سے آپ پر غشی طاری ہو چکی تھی ہوش میں آتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا اور وضو کر کے نمازِ فجر ادا کی  پھر چند دن شدید زخمی حالت میں گزار کر اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی ۔ حضرتِ صُہَیْب رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو یکم محرَّم الحرام 24 ہجری روضۂ رسول میں خلیفۂ اوّل  حضرتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 266، 280، 281)(تاریخ ابن عساکر جلد 44 صفحہ 422، 464)


ادارہ منہاج القرآن کے مفتی اعظم جناب علامہ مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی صاحب لکھتے ہیں : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو 26 ذوالحجہ 23 ھجری بروز بدھ نماز فجر کے وقت جب آپ محراب میں کھڑے نماز پڑھا رہے تھے ابولولو فیروز مجوسی ایرانی نے دو دھاری دار خنجر سے تین یا چھ ضربیں لگائیں ۔ ۔ ۔ تین دن بعد آپ کی وفات ہوگئی اور بروز ہفتہ یکم محرم 24 ھجری آپ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے قرب اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔(منہاج الفتاوی ، جلد اول صفحہ 496۔497 ، منہاج القرآن پبلی کیشنز لاہور،چشتی)


ماہنامہ منہاج القرآن ستمبر 2018ء میں حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ پر ایک مضمون شائع کیا گیا جس میں لکھا ہے کہ : یکم محرم الحرام کو آپ (سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ) کا یوم شہادت ہے زندہ قومیں اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن صفحہ 16 ستمبر 2018 لاہور)


ادارہ منہاج القرآن کے مشہور ریسرچ اسکالر جناب ڈاکٹر علی اکبر الازھری صاحب کا مضمون ''حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پیکرِ عدل و صاحب بصیرت'' شائع ہوا ، جس میں ٹاپ پر ہی لکھا ہے کہ : یوم شہادت یکم محرم الحرام کی مناسبت سے خصوصی تحریر ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن ، اکتوبر 2015ء لاہور،چشتی)


ایک ماہنامہ منہاج القرآن جو نومبر 2013ء میں شائع ہوا ، اُس میں بھی آپ کا یوم شہادت یکم محرم الحرام درج ہے ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن صفحہ 20 نومبر 2013ء لاہور)


ماہنامہ دختران اسلام منہاج القرآن اکتوبر 2016ء کے صفحہ نمبر 42 پر بھی 26 ذی الحج کو زخمی اور یکم محرم کو شہید ہونا لکھا ہے ۔


ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ کا یوم شہادت 26 ذی الحج نہیں ، بلکہ یکم محرم الحرام ہے ، لہٰذا مبغضینِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا یکم محرم والے سُنّیوں پر فتوے لگانا ، انہیں بُرا بھلا کہنا اِن کی اپنی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، کہ یہ وہ جہلا ہیں ، جو نہ گھر کے نہ ہی گھاٹ کے ۔


آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت دس سال پانچ ماہ اکیس دن بنتا ہے ۔


صحابی رسول حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو مجوسی تھا ۔ اس کا نام ابو لولوہ تھا ۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجیے ۔ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لیے زیادہ نہیں ہیں ۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا ۔ 26 ذی الحجہ 23 ھجری بروز بدھ آپ رضی اللہ عنہ نماز فجر کی ادائیگی کےلیے مسجد نبوی میں تشریف لائے ۔ جب آپ نماز پڑھانے کےلیے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد 63 سال کی عُمر میں جامِ شہادت نوش فرمایا ۔ ​

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی شہادت کے موقع پر لوگوں نے پوچھا ، یا امیر المؤمنین کچھ وصیتیں فرمائیے اور خلافت کےلیے کسی کا انتخاب بھی فرما دیجیے اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا خلافت کےلیے میں ان چھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو مستحق سمجھتا ہوں جن سے اللہ کے رسول دنیا سے راضی ہو کر گئے ہیں ۔ پھر آپ نے چھ صحابہ کے نام بتائے ۔ حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہم ان چھ صحابہ میں سے جن کو چاہیں منتخب کر لیں ۔ (تاریخ الخلفاء) ​

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے چھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو خلیفہ کے انتخاب کےلیے جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ پہلے تین آدمی اپنا حق تین آدمیوں کو دے کر خلافت کے حق سے الگ ہو جائیں ۔ لوگوں نے اس کی حمایت کی ۔ چنانچہ حضرت زبیر حضرت علی کے حق میں ، حضرت سعد بن وقاص حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے حق میں ، اور حضرت طلحہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے حق میں دست بردار ہو گئے ۔ ​

تینوں منتخب صحابہ رضی اللہ عنہم باہمی مشورے کےلیے ایک طرف چلے گئے اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اپنے لیے خلافت پسند نہیں کرتا لٰہذا میں اس سے دست بردار ہوتا ہوں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما خاموش کھڑے رہے ۔ پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے دونوں صحابہ سے فرمایا ۔ اگر آپ دونوں حضرات خلیفہ کے انتخاب کا کام میرے ذِمے چھوڑ دیں تو خدا کی قسم ! میں آپ دونوں میں سے بہتر اور افضل شخص کا انتخاب کروں گا ۔ دونوں حضرات اس پر متفق ہو گئے ۔ دونوں بزرگوں سے عہد و پیماں لینے کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف حضرت علی کو ایک کونے میں لے گئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے علی رضی اللہ عنہ آپ اسلام قبول کرنے والے اولین میں سے ہیں اور آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قریبی عزیز ہیں لٰہذا میں اگر آپ کو خلیفہ مقرر کروں تو کیا آپ خلافت قبول کر لیں گے ۔ آپ نے فرمایا ۔ ہاں ۔ اگر میں آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو آپ پر خلیفہ مقرر کروں تو کیا آپ منظور کر لیں گے ۔ حضرت علی نے فرمایا ۔ مجھے یہ بھی منظور ہے ۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ، حضرت عثمان غنی کو ایک کونے میں لے گئے اور یہی دو سوال کئے وہ بھی متفق ہو گئے ۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کر لی اس طرح حضرت علی نے بھی بیعت کر لی ۔ رضی اللہ عنہم ۔


ابن اثير جزرى اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ “حضرت عمر رضي الله عنه کو جب زخمی کیا گیا تو وہ دن بدھ کا دن تھا، اور ماه ذو الحج ختم ہونے میں تین دن باقی تھے ، اور آپ کی تدفین اتوار کی صبح ہوئی اور اس دن محرم کا پہلا دن تھا ۔ (اسد الغابة في معرفة الصحابة ، جلد 4 صفحہ 166،چشتی)


نوٹ : ابن اثیر نے آگے ایک اور روایت ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ “والاول اصح ما قيل في عمر” کہ پہلی بات جو حضرت عمر رض کے بارے میں کہی گئی ہے وہ زیاہ صحیح ہے (یعنی آپ کی تدفین یکم محرم کو ہوئی تھی)


ابو حفص الفلاس کی روایت ہے کہ “ذو الحجة کی چند راتیں باقی تھیں کہ حضرت عمر رضي الله عنه حملے میں زخمی کیے گئے ، اسکے بعد آپ تین راتیں زندہ رہے اور سنہ 24 ہجری کے محرم کی پہلی تاریخ کو آپ کی وفات ہوئی ۔ (تاريخ مدينة دمشق يعني تاريخ ابن عساكر جلد 44 صفحہ 478)


حضرت عبد الله بن زبير رضی الله عنه سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : حضرت عمر رضي الله عنه کو بروز بدھ جب ذو الحج کے تین دن باقی تھے زخمی کیا گیا پھر آپ تین دن تک زندہ رہے پھر اس کے بعد آپ کی وفات ہوئی ۔ (كتاب المحن صفحہ نمبر 66،چشتی)


حضرت عمر رضی الله عنه کی وفات کس تاریخ کو ہوئی تو ایک كتاب میں یہ الفاظ ملے کتاب کا مصنف “رافضی” ہے اور متشدد قسم کا رافضی ہے نام ہے “نعمة الله جزائرى” لکھتا ہے کہ : دوسرے کا قتل 9 ربيع الاول کو ہوا ۔ (دوسرے مراد خلیفہ دوم ہیں) (الانوار النعمانية ، جلد 1 صفحه 84) ۔ اور اس پر مزید مزے کی بات یہ ملی کہ اس کتاب پر حاشیہ میں یہ لکھا گیا کہ “قتل عمر في اليوم التاسع منه كان مشهوراً بين الشيعة” یہ بات شيعه میں مشھور تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قتل 9 ربيع الاول کو ہوا تھا ۔


اس کے علاوہ یہ بات نہایت اہم ہے کہ کم و بیش تقریبا ہر مورخ نے ہی ان پر ابو لولو فیروز کے حملہ کرنے سے شہادت کے دن تک کا درمیانی حصہ تین یا چار دن ذکر کیا ہے ۔ ہمارا بھی یہی موقف ہے کہ حضرت عمر پر حملہ 26 یا 27 ذی الحجہ کو ہوا اور ان کی شہادت اس واقعہ کے تیسرے یا چوتھے دن بعد 1 محرم الحرام کو ہوئی اور حجرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں اسی روز دفن ہوئے ۔ اس بارے میں حافظ ابن کثیر کی صراحت اصح ہے ۔ اگر کوئی قول 26 ذی الحج کا مل بھی جائے تو بھی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں اقوال ملتے ہیں پر مشہور قول جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ علامہ ابن کثیر اور دیگر آئمہ اہلسنت کے نزدیک یکم محرم ہی ہے ۔


کسی کی تاریخ ولادت یا شہادت میں اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن شیعہ و نیم شیعہ تفضیلی حضرات اسے بغض اہلبیت رضی اللہ عنہم بتا کر لوگوں کو گمراہ کر تے ہیں کہ اہلسنت و جماعت نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اصل شہادت تاریخ بدل دی اور وہ اس لیے کہ انہیں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقابلہ کرنا ہے (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه) اور اصل تاریخ یکم محرم نہیں بلکہ 26 ذی الحج ہے ۔ اِس باب میں روایات اور تعبیرات کا اختلاف ہے، ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روح مبارک ۲۹/ ذی الحجہ سنہ ۲۳ھ کو قبض ہوئی ہو اور تدفین یکم محرم کی تاریخ لگ جانے کے بعد ہوئی ہو جیسا کہ روایات میں موجود ہے ۔ اور یہ مسئلہ چوں کہ از قبیل عقائد یا اعمال نہیں ہے ، محض علمی و تاریخی ہے  اس لیے اس میں زیادہ الجھنے کی ضرورت نہیں ۔


طبقات ابن سعد ج 3 ص 123 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی) کا ہے۔ اول تو امام ابن سعد نے اس معاملے میں از خود کوئی واضح تاریخ معین نہیں فرمائی ۔ دوسرا کہ انہوں نے اس باب کا عنوان ہی یہ بنایا ہے کہ حضرت عمر کی مدت خلافت اور حضرت عمرفارق کی عمر کے متعلق مختلف اقوال ۔ پھر ان میں پہلے ترجمۃ الباب کی روایت کمزور ہے ۔ ابوبکر بن محمد بن سعد نامی راوی کا تذکرہ کیا تو اس میں اختلاف نہیں کہ وہ مہجول الحال ہے۔ اس طرح سے 26 ذی الحجہ والی روایت نہایت کمزور ہے ۔


تاریخ طبری جلد ٣ صفحہ ٦٣٥ دوسرا حوالہ تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 217 تا 218 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی کا ہے ۔ امام طبری نے بھی ابن سعد کی طرح ان کی تاریخ وفات کے اختلاف کا تذکرہ کیا ہے ۔ چنانچہ پہلا قول تو 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے  اور یہ روایت بھی نہایت کمزور ہے کیونکہ اس کے دو راوی سلیمان بن عبد العزیز اور جعفر بن عبد الرحمن تو مجہول الحال ہیں اور ایک راوی عبد العزیز بن عمران متروک ہے ۔


دوسرا قول عبد العزیز بن عمران کا ہی ہے جو کہ بغیر کسی جرح کے 1 محرم کا بتایا ہے ۔


تیسرا قول وہی ابن سعد کا ہی ذکر کیا ہے کہ 26 ذی الحجہ کو ہوئی لیکن جیسا پہلے واضح ہو چکا کہ وہ روایت انتہائی کمزور ہے ۔


چوتھا قول ابو معشر کا 26 ذی الحجہ کا ہے جو احمد بن ثابت الرازی کے طریق سے ہے جو کہ کذاب تھا ۔


پانچواں قول ہشام بن محمد کا 27 ذی الحجہ کا ہے جو کہ بلا سند اور منقطع ہے جو نہایت ہی کمزور ہے ۔


تاریخ ابن خلدون جلد ١ صفحہ ٣٨٤ ۔ تیسرا حوالہ تاریخ ابن خلدون (ج 3 ص 236 اردو ایڈیشن دار الاشاعت کراچی) کا ہے ۔ ابن خلدون نے اگرچہ 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے مگر بلا سند ہے اور اس کا مضمون تقریبا وہی ہے جو تاریخ طبری کا پہلا قول ہے جس کی سند نہایت کمزور ہے ۔


تاریخ المسعودی جلد ٦ صفحہ ٦٤٠ ۔ چوتھا حوالہ تاریخ مسعودی کا ہے ۔ علی بن حسین المسعودی شیعہ رافضی ہے جس کا قول ہمارے لئے حجت نہیں ۔ مسعودی شیعہ تھا ۔ (ثبوت دیکھیں تاریخ ابن کثیر جلد ٧ صفحہ ٦٧٩)


 تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنہایہ جلد 7 صفحہ 184 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی) ۔ علامہ ابن کثیر نے کئی اقوال نقل کر کے پہلے قول ہی کو ترجیح دی ہے جو کہ یکم محرم الحرام کا ہے ۔


امام ابن الجوزی رحمة اللہ علیہ علیہ مناقب عمر رضی اللہ عنہ میں لکھتے ہیں : 23 ھجری کے ذوالحجہ کی چھبیس تاریخ بدھ کے روز آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا ، اور اتوار کے دن یکم محرم چوبیس ہجری کو دفن کئے گئے ۔ آپ کی مدت خلافت دس برس ، پانچ ماہ اور اکیس دن تھی ۔ طعن عمر رضي الله عنه يوم الأربعاء لأربع ليالٍ بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين ، ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين ، فكانت ولايته عشر سنين وخمسة أشهر وإحدى و عشرين ليلة ۔ تاریخ کامل کے مصنف نے بھی یہی لکھا ہے کہ ذی الحجہ کی چار راتیں باقی تھیں کہ آپ فوت ہو گئے اور یکم محرم کو دفن ہوئے ۔ (الکامل جلد ۳ صفحہ ۵۲)


علامہ مسعودی لکھتے ہیں : حضرت عمر کو ان کی خلافت کے دوران ہی میں مغیرہ کے غلام ابولولوہ نے قتل کر دیا تھا ۔ اس وقت سن ہجری کا ۲۳ واں سال تھااور بدھ کا دن تھا جب کہ ماہ ذی الحجہ کے اختتام میں چار روز باقی تھے ۔ (مروج الذہب جلد۲، صفحہ ۲۴۰)


امام محب الدین طبری لکھتے ہیں : آپ نے ۲۶ ذی الحجہ کو وصال فرمایا۔ بعض نے کہا کہ اس تاریخ کو زخم آیا تھا اور وفات آخری ذی الحجہ میں ہوئی ۔ (ریاض النضرہ جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر  ۳۳۵،چشتی)


امام اہلسنت جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدھ کے دن ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ھجری کو شہید ہوئےاور ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو دفن کیے گئے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۳۹)


تاریخِ عالَم کے اس عظیم حکمران حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی عزّت و شرافت اور عظمت کے کارناموں کی اعلیٰ مثال تھی ، 26 ذو الحجۃ الحرام کی صبح ایک مجوسی غلام ابو لؤلؤ فیروز نے آپ پر فجر کی نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا اور شدید زخمی کردیا ، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نماز پڑھانے  کا حکم دیا ، جب لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر آپ کے گھر میں لائے تو مسلسل خون بہنے کی وجہ سے آپ پر غشی طاری ہوچکی تھی ہوش میں آتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا اور وضو کرکے نمازِ فجر ادا کی  پھر چند دن شدید زخمی حالت میں گزار کر اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی ۔ حضرتِ صُہَیْب رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو یکم محرَّم الحرام 24 ہجری روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں خلیفۂ اوّل  حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ (طبقات ابن سعد، ج3،ص266، 280، 281)(تاریخ ابن عساکر،ج 44،ص422، 464)


بوقتِ شہادت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عُمْر مبارک 63 برس تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ  سے روایت کردہ احادیث کی تعداد 537 ہے ۔


آج کل مسئلہ یہ ہے کہ یہ بعض لوگ اس حوالے سے عوام کو گمراہ کرنے کےلیے جھوٹ گھڑنے اور حقائق کو توڑ موڑ کے پیش کرنے سے بھی باز نہیں آتے ۔ حضرت عمر اور پھر حضرت امام حسین ، کربلا اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے حوالے سے بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن کو محرم میں خصوصی طور پر ہائی لائیٹ کر کے عوام کو کنفیوز کیا جاتا ہے ۔ فقیر نے کوشش کی ہے کہ جذباتی باتوں سے بچتے ہوئے اصل حقائق اور اعتدال کے راستے کی وضاحت کردی جائے ۔


سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر ایک کافر مجوسی ابو لؤلؤ فیروز نے حملہ کر کے سخت زخمی کر دیا تھا ۔ اسلام کے سنہری دور اور فتنوں کے درمیان دروازہ ٹوٹ گیا تھا ۔ آپ کو دودھ پلایا گیا تو وہ انتڑیوں کے راستے سے باہر آگیا ۔ اس حالت میں ایک نوجوان آیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس کا ازار ٹخنوں سے نیچے ہے تو آپ نے فرمایا : ابْنَ أخِیْ ! اِرْفَعْ ثَوْبَکَ فَإنَّہُ أَ نْقَی لِثَوْبِکَ وَأَتْقَی لِرَبِّکَ ‘‘ بھتیجے اپنا کپڑا (ٹخنوں سے) اوپر کرو ، اس سے تیرا کپڑا بھی صاف رہے گا اور تیرے رب کے نزدیک یہ سب سے زیادہ تقوے والی بات ہے ۔ (صحیح البخاری حدیث نمبر 3700،چشتی)


سبحان اللہ ! اپنے زخموں کی فکر نہیں بلکہ آخری وقت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کو سربلند کرنے کی ہی فکر اور جذبہ ہے ۔ یا اللہ عزوجل ! ہمارے دلوں کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محبت سے بھر دے ۔

یا اللہ عزوجل ! جو بدنصیب و بے ایمان لوگ امیر المؤمنین شہید رضی اللہ عنہ کو ناپسند کرتے ہیں ، ان لوگوں کی بد نصیبیاں و بے ایمانیاں ختم کر کے ان کے دلوں کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محبت سے بھر دے ۔ جو پھر بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بُغض پر ڈٹا رہے ایسے شخص کو دنیا و آخرت کے عذاب سے ذلیل و رسوا کر دے آمین ۔ الحَمْدُ ِلله مضمون مکمل ہوا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ یازدہم

 فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ یازدہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارٸینِ کرام : حضرت ام سیّدہ کلثوم بنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہما کا نکاح امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے مؤرخین و محدثین علیہم الرحمہ کی بڑی تعداد نے بیان کیا ہے : ⬇


تاجدار گولڑہ حضرت سیّدنا پیر سیّد مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وام کلثوم رضی اللہ عنہا را بنکاح آورد امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ پس پسرے زید نام برائے او بزادو بعد عمر رضی اللہ عنہ عون بن جعفر بزنی خواست ۔ بعد از وے محمد بن جعفر بعد ازوے عبد اللہ بن جعفر ۔

ترجمہ : حضرت سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نکاح میں لائے ۔ ان سے ایک صاحبزادہ زید نام متولد ہوا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عون بن جعفر رضی اللہ عنہما کے نکاح میں آئیں ۔ ان کے بعد محمد بن جعفر رضی اللہ عنہما ان کے بعد عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے نکاح میں آئیں ۔ ( تحقیق الحق فی کلمة الحق ۔ تاریخ اشاعت ۔جون ۔2004 صفحہ 152۔چشتی)


مزید تفصیل درج ذیل ہے : ⬇


سیدنا ثعلبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : إِنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَسَمَ مُرُوطًا بَیْنَ نِسَاءٍ مِّنْ نِّسَاءِ الْمَدِینَةِ، فَبَقِيَ مِرْطٌ جَیِّدٌ، فَقَالَ لَهٗ بَعْضُ مَنْ عِنْدَهٗ: یَا أَمِیرَ المُوْمِنِینَ! أَعْطِ هٰذَا ابْنَةَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآله وَسَلَّمَ الَّتِي عِنْدَکَ، یُرِیدُونَ أُمَّ کُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ. فَقَالَ عُمَرُ: أُمُّ سَلِیطٍ أَحَقُّ، وَأُمُّ سَلِیطٍ مِّنْ نِّسَاءِ الْـأَنْصَارِ مِمَّنْ بَایَعَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآله وَسَلَّمَ، قَالَ عُمَرُ: فَإِنَّهَا کَانَتْ تَزْفِرُ لَنَا الْقِرَبَ یَوْمَ أُحُدٍ ۔

ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں تو ایک عمدہ چادر بچ گئی ۔ اُن کے پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی نے کہا‘ امیر المومنین! یہ چادر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بیٹی (یعنی نواسی) کو دیجیے جو آپ کی زوجیت میں ہے ، ان کی مراد اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما تھیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اُم سلیط زیادہ حقدار ہے ۔ (ام سلیط) انصاری عورت تھیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کے دستِ اقدس پر بیعت کی تھی ۔ سیدنا عمر رضی للہ عنہ نے فرمایا : اُم سلیط جنگ اُحد کے دن ہمارے لیے مشکیں لاد لاد کر لاتی تھیں ۔ (بخاری ، الصحیح، کتاب المغازی، باب ذکر ام سلیط، کتاب المغازی، رقم الحدیث: 4071، بیت الافکا للدولیه النشر، 1997 وہ فی كتاب الجهاد والسير باب حمل النساء القرب إلى الناس في الغزو)


شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں : سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں اور ان کی ماں حضرت سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھیں ۔ اس لیے لوگوں نے ان کو بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کہا ۔ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی پیدا ہوئی تھیں اور یہ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں ۔


امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمة اللہ علیہ و شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کی اس تصریح سے واضح ہوا کہ سیدہ اُمِّ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ۔


سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھہما کے بطن سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت زید بن عمر پیدا ہوئے ۔ خلافتِ فاروقی کے بعد ان ماں بیٹے کا ایک ہی دن انتقال ہوا اور کا جنازہ بھی اکٹھے ادا کیا گیا ۔

حضرت نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ : إِنَّ ابْنَ عُمَرَ صَلّٰی عَلَی تِسْعِ جَنَائِزَ جَمِیعًا، فَجَعَلَ الرِّجَالَ یَلُونَ الْإِمَامَ، وَالنِّسَاءَ یَلِینَ الْقِبْلَةَ، فَصَفَّهُنَّ صَفًّا وَّاحِدًا، وَوُضِعَتْ جَنَازَةُ أُمِّ کُلْثُومٍ بِنْتِ عَلِيٍّ امْرَأَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَابْنٍ لَّهَا، یُقَالُ لَهٗ زَیْدٌ، وُضِعَا جَمِیعًا، وَالْإِمَامُ یَوْمَئِذٍ سَعِیدُ بْنُ الْعَاصِ، وَفِي النَّاسِ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو هُرَیْرَةَ، وَأَبُو سَعِیدٍ، وَأَبُو قَتَادَةَ، فَوُضِعَ الْغُلَامُ مِمَّا یَلِي الْإِمَامَ ۔

ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نو میّتوں پر اکٹھی نماز جنازہ ادا کی ۔ انہوں نے مذکر میتوں کو امام اور مؤنث میتوں کو قبلہ کی جانب رکھا ۔ ان سب کی ایک صف بنا دی ، جبکہ سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا جو کہ سیدنا علی علیہ السلام کی صاحبزادی اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں‘ انہیں اور ان کے زید نامی بیٹے کو اکٹھا رکھا ۔ اس روز سیدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ امام تھے جبکہ جنازہ پڑھنے والوں میں عبداللہ بن عمر ، حضرت ابوہریرہ ، ابوسعید خدری اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہم اجمعین شامل تھے ۔ بچے کو امام کی جانب رکھا گیا ۔ (سنن نسائي : 1980، سنن دارقطني: 79/2، 80، السنن الکبرٰی للبیهقي : 33/4،چشتی)


شیعہ مؤرّخ احمد بن یعقوب نے 17 ہجری میں خلافتِ فاروقی کے احوال میں لکھا ہے : وَفِي هٰذِهِ السَّنَةِ خَطَبَ عُمَرُ إِلٰی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أُمَّ کُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ، وَأُمُّهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰهِ، فَقَالَ عَلِيٌّ: إِنَّهَا صَغِیرَةٌ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ یَقُولُ : ’کُلُّ نَسَبٍ وَّسَبَبٍ یَّنْقَطِعُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، إِلَّا سَبَبِي وَنَسَبِي وَصِهْرِي، فَأَرَدْتُّ أَنْ یَّکُونَ لِي سَبَبٌ وَّصِهْرٌ بِرَسُولِ اللّٰهِ، فَتَزَوَّجَهَا وَأَمْهَرَهَا عَشْرَةَ آلاَفِ دِینَارٍ ۔

ترجمہ : اسی سال سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف ان کی بیٹی امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کےلیے پیغامِ نکاح بھیجا ۔ یاد رہے کہ یہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی لختِ جگر تھیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : امِ کلثوم ابھی عمر میں چھوٹی ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (میں یہ رشتہ صرف اس لیے طلب کر رہا ہوں کہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روزِ ِقیامت تمام نسب اور سبب منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے تعلق ، نسب اور سسرالی رشتہ کے ۔ اب میری یہ خواہش ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق اور سسرالی رشتہ ہو ۔ اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ دس ہزار دینار حق مہر کے عوض اپنی صاحبزادی کی شادی کر دی ۔ (تاریخ الیعقوبي، 2: 149، 150۔چشتی)


اہل سنت اور اہل تشیع کی بے شمار کتب میں سیدہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے شادی بالصراحت ذکر ہوئی ہے ۔ اہل سنت و جماعت کے ہاں اس شادی کے انعقاد پر کوئی اختلاف نہیں بلکہ اجماع ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نکاح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطنِ مبارک سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جنم لیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوئی ، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن میں حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں ۔ سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے ہوا ، جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں تھیں ۔ ان کے بطن مبارک سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی ۔


اس لیے سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نواسی یا نواسی کی بیٹی نہیں ہیں ۔ شرعاً اس نکاح میں کوئی روکاوٹ نہیں ہے ۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں حضرت امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما ، سیدنا عمر فاروق کی محرم نہیں بنتیں ۔


حضرت سیّدہ ام کلثوم بنت حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوا ۔ (تاریخ طبری جلد سوم صفحہ نمبر 80۔چشتی)


حضرت سیّدہ ام کلثوم بنت حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوا ۔ (طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 300)


ثعلبہ بن ابی مالک (القرظی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں ۔ ایک نئی چادر بچ گئی تو بعض حضرات نے جو آپ کے پاس ہی تھے کہا : یا امیر المومنین ! یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی نواسی کو دے دیجیے ۔ جو آپ کے گھر میں ہیں ۔ ان کی مراد (آپ کی بیوی) ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما سے تھی ۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ام سلیط رضی اللہ عنہا اس کی زیادہ مستحق ہیں ۔ (صحیح بخاری : 2881 ، ترجمہ محمد داود راز، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ 212/4،چشتی)


نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ : ووضعت جنازۃ ام کلثوم بنت علی امراۃ عمر بن الخطاب و ابن لھا یقال لہ زید ۔

ترجمہ : اور عمر بن خطاب کی بیوی ام کلثوم بنت علی کا جنازہ رکھا گیا اور اس کے بیٹے کا جنازہ رکھا گیا جسے زید (بن عمر بن الخطاب) کہتے تھے ۔ (سنن النسائی 71- 72/4 حدیث 1980، و سندہ صحیح و صححہ ابن الجارود بروایۃ: 545 و حسنہ النووی فی المجموع 5/224 و قال ابن حجر فی التلخیص الحبیر 2/146 حدیث 807: “و اسنادہ صحیح،چشتی)


مشہور ثقہ تابعی امام الشعبی رحمة اللہ علیہ سے روایت ہے کہ : عن ابن عمر انہ صلی علی اخیہ و امہ ام کلثوم بنت علی ۔

ترجمہ : ابن عمر (رضی اللہ عنہما) نے اپنے بھائی (زید بن عمر) اور اس کی والدہ ام کلثوم بنت علی (رحمہما اللہ) کا جنازہ پڑھا۔(مسند علی بن الجعد: 593 و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ: 574)


امام شعبی سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی اور ان کے بیٹے زید (یعنی اپنے بھائی) کا جنازہ پڑھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 3/315 حدیث 11574 و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ : 11690)

عبداللہ البہی رحمة اللہ علیہ (تابعی صدوق) سے روایت ہے کہ : شھدت ابن عمر صلی علیٰ ام کلثوم و زید بن عمر بن الخطاب ۔

ترجمہ : میں نے دیکھا کہ ابن عمر (رضی اللہ عنہما) نے ام کلثوم اور زید بن عمر بن الخطاب کا جنازہ پڑھا ۔ (طبقات ابن سعد 468/8 و سندہ حسن۔چشتی)


اس جنازے کے بارے میں عمار بن ابی عمار (ثقہ و صدوق) نے کہا کہ میں بھی وہاں حاضر تھا۔(طبقات بن سعد 8/468 و سندہ صحیح)


امام علی بن الحسین : زین العابدین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خطب الیٰ علی رضی اللہ عنہ ام کلثوم فقال : انکحنیھا فقال علی : انی ارصدھا لابن اخی عبداللہ بن جعفر فقال عمر : انکحنیھا فو اللہ ما من الناس احد یرصد من امرھا ما ارصدہ، فانکحہ علی فاتی عمر المھاجرین فقال : الاتھنونی ؟ فقالوا : بمن یاامیر المومنین؟ فقال : بام کلثوم بنت علی وا بنۃ فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ۔

ترجمہ : بے شک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا ، کہا : اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں ۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اسے اپنے بھتیجے عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہما) کےلیے تیار کر رہا ہوں ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں ۔ کیونکہ اللہ کی قسم ! جتنی مجھے اس کی طلب ہے لوگوں میں سے کسی کو اتنی طلب نہیں ہے ۔ (یا مجھ سے زیادہ اس کے لائق دوسرا کوئی نہیں ہے) پھر علی (رضی اللہ عنہ ) نے اسے (ام کلثوم کو) ان (عمر) کے نکاح میں دے دیا ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ مہاجرین کے پاس آئے تو کہا : کیا تم مجھے مبارکباد نہیں دیتے ؟ انہوں نے پوچھا : اے امیر المومنین ! کس چیز کی مبارکباد ؟ تو انہوں نے فرمایا : فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بیٹی امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ شادی کی مبارکباد ۔ (المستدرک للحاکم 3/142 حدیث 4684 و سندہ حسن، وقال الحاکم: “صحیح الاسناد” وقال الذہبی: ” منقطع” السیرۃ لابن اسحاق ص 275-276 و سندہ صحیح،چشتی)


علی بن الحسین بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہم تک سند حسن لذاتہ ہے ، جو کہ ائمہ اہل بیت میں سے تھے اور ان کی یہ روایت سابقہ احادیث صحیحہ کی تائید میں ہے ۔


عاصم بن عمر بن قتادہ المدنی (ثقہ عالم بالغازی) رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : عمر بن خطاب نے علی بن ابی طالب سے ان کی لڑکی ام کلثوم کا رشتہ مانگا ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بیٹی فاطمہ کی بیٹی تھیں ۔ ”فزوجھا ایاہ” پھر انہوں (علی رضی اللہ عنہ) نے اس (ام کلثوم رضی اللہ عنہا) کا نکاح ان (عمر رضی اللہ عنہ) سے کر دیا۔(السیرۃ لابن اسحاق صفحہ 275 وسندہ حسن)


محمد بن اسحاق بن یسار امام المغازی رحمہ اللہ نے فرمایا : و تزوج ام کلثوم ابنۃ علی من فاطمۃ ابنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم عمر بن الخطاب فولدت لہ زید بن عمر و امراۃ معہ فمات عمر عنھا ۔

ترجمہ : علی اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بیٹی امِ کلثوم کا نکاح عمر بن الخطاب سے ہوا تو ان کا بیٹا زید بن عمر (بن الخطاب) اور ایک لڑکی پیدا ہوئے ۔ پھر عمر (رضی اللہ عنہ) فوت ہو گئے اور وہ آپ کے نکاح میں تھیں ۔ (السیرۃ لابن اسحاق صفحہ 275،چشتی)


عطاء الخراسانی رحمة اللہ علیہ نے کہا : عمر (رضی اللہ عنہ) نے ام کلثوم بنت علی کو چالیس ہزار کا مہر دیا تھا ۔ (طبقات ابن سعد 8/ 463-466) ۔ اس روایت کی سند عطاء الخراسانی تک حسن ہے ۔


امام ابن شہاب الزہری رحمة اللہ علیہ (تابعی) نے فرمایا : واما ام کلثوم بنت علی فتزوجھا عمر بن الخطاب فولدت لہ زید بن عمر ۔

ترجمہ : اور ام کلثوم بنت علی سے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہما) نے شادی کی تو ان کا بیٹا زید بن عمر پیدا ہوا ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر 21/342 و سندہ حسن)


اس کے علاوہ ان کتبِ اہلسنت میں موجود ہے کہ : حضرت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کا نکاح حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا ۔ (التاریخ الاوسط للبخاری 1/672 ح 379، ص 674 ح 380،381،چشتی)(کتاب الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم (3/ 568))(طبقات ابن سعد (3/265)(کتاب الثقات لابن حبان (2/216)


اہلِ سنت و جماعت کے درمیان اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں بلکہ اجماع ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم سے نکاح کیا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لاثانی داماد اور سیدہ اُم کلثوم بنت فاطمہ رضی اللہ کے شوہر تھے ۔ اگر شیعہ اور نیم شیعہ اس حقیقت کے انکاری ہیں تو کیا تسلیم کرنے والے مندرجہ ذیل شیعہ علماء آپ سے کم تر جانتے تھے یا اُن میں انصاف کا کچھ شائبہ تھا ؟


شیعہ عالم ابو جعفر الکلینی نے لکھا : حمید بن زیاد عن ابن سماعۃ عن محمد بن زیاد عن عبداللہ بن سنان و معاویۃ بن عمار عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال: ۔۔۔ان علیاً لما توفی عمر اتی ام کلثوم فانطلق بھا الیٰ بیتہ ۔ ترجمہ : ابو عبداللہ (جعفر الصادق) علیہ السلام سے روایت ہے کہ۔۔۔جب عمر فوت ہوئے تو علی آئے اور ام کلثوم کو اپنے گھر لے گئے ۔(الفروع من الکافی 6/115) ، اس روایت کی سند شیعہ کے اصول سے صحیح ہے۔ اس کے تمام راویوں مثلاً حمید بن زیاد، حسن بن محمد بن سماعہ اور محمد بن زیاد عرف ابن ابی عمیر کے حالات مامقانی (شیعہ) کی کتاب : تنقیح المقال میں موجود ہیں ۔


شیعہ عالم ابو جعفر الکلینی نے کہا : علی بن ابراھیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن ھشام بن سالم و حماد عن زرارۃ عن ابی عبداللہ علیہ السلام فی تزویج ام کلثوم فقال : ان ذلک فرج غصبناہ ۔ ترجمہ : ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر صادق رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ام کلثوم کی شادی کے بارے میں کہا: یہ شرمگاہ ہم سے چھین لی گئی تھی ۔ (الفروع من الکافی 5/ 346)۔(استغفر اللہ)


اس روایت کی سند بھی شیعہ اصول سے صحیح ہے ۔ اس کے راویوں علی بن ابراہیم بن ہاشم القمی وغیرہ کے حالات تنقیح المقال میں مع توثیق موجود ہیں ۔


شیعہ عالم شوستری لکھتے ہیں : اگر نبی دختر بعثمان داد ولی دختر بعمر فرستاد ۔

اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دختر عثمان رضی اللہ عنہ کو دی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے دی ۔


شیعہ عالم ابوجعفر طوسی الاستبصار صفحہ ١٨٥ میں لکھتے ہیں : جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اُمِ کلثوم کو عدت گذارنے کےلیے لے آئے ۔ نیز تہذیب میں یہ روایت کی ہے اُم کلثوم بنت علی علیہ السلام اور اُم کلثوم کا بیٹا ایک ہی ساعت میں مدفون ہوئے اور یہ معلوم نہ ہو سکا کہ پہلے کون مرا پس ایک دوسرے کا وارث نہ ہوا ۔


شیعہ عالم سیدمرتضٰی علم الھٰدی المتوفی ٣٥٥ھ نے شانی میں لکھا ہے کہ حضرت امیر نے اپنی بیٹی کا نکاح بطیب خاطر نہیں کیا بلکہ یہ عقد بار بار کی درخواست پر ہوا ۔ نکاح تو بہرحال ہو گیا ۔

اس حقیقت کے سامنے آنے سے شییعہ سوچیں کے اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ مومن نہ تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر سے ظلم کیا اور ناجائز کام کرایا ؟ (معاذاللہ ثمہ معاذاللہ)


ابو عبداللہ جعفر الصادق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : جب عمر فوت ہو گئے تو علی نے آ کر کلثوم کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے گھر لے گئے ۔ (الفروع من الکافی 6/115-116،چشتی)


شیعہ عالم : ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی نے ” الحسین بن سعید عن النضر بن سوید عن ھشام بن سالم عن سلیمان بن خالد” کی سند کے ساتھ نقل کیا کہ ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر الصادق رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : جب عمر فوت ہوئے تو علی علیہ السلام نے آ کر ام کلثوم کا ہاتھ پکڑا پھر انہیں اپنے گھر لے گئے ۔ (الاستبصار فیما اختلف من الاخبار 3/472 ح 1258۔چشتی)


اس روایت کی سند بھی شیعہ اسماء الرجال کی رو سے صحیح ہے ۔ ان کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح کا ذکر موجود ہے : (تہذیب الاحکام (8/161، 9/262)(الشافی للسید المرتضیٰ علم الھدی (ص 116)(مناقب آل ابی طالب لابن شھر آشوب (3/162)(کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ للاربلی (ص 10)(مجالس المومنین للنور اللہ الشوستری (ص 76)(حدیقۃ الشیعہ للاردبیلی (ص 277)


ایک عبرت انگیز واقعہ پیش خدمت ہے : وزیر معز الدولہ احمد بن بویہ شیعہ تھا ۔ (دیکھیے سیر اعلام النبلاء 16/190) ، اس کی موت کے وقت ایک عالم اس کے پاس گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل بیان کئے اور فرمایا : بے شک علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح عمر بن خطاب سے کیا تھا ۔ اس (احمد بن بویہ) نے اس بات کو بہت عظیم جانا اور کہا : مجھے اس کا علم نہیں تھا پھر اس نے (توبہ کر کے) اپنا اکثر مال صدقہ کردیا ، اپنے غلاموں کو آزاد کر دیا ، بہت سے مظالم کی تلافی کر دی اور رونے لگا حتیٰ کہ اس پر غشی طاری ہو گئی ۔ (المنتظم لابن الجوزی 14/183 ت 2653)


محترم قارٸینِ کرام : اس ساری تحریر میں دو طرفہ قوی دلاٸل نقل کرنے کا مقصد یہی ہے کہ کوٸی بھی اس مُسلَّم حقیقت سے انکار نہ کر سکے ۔ اس کے باوجود بھی کچھ لوگ اگر اپنی بات پر ڈٹے رہیں تو دعا ہے کہ اللہ عزّ و جل ان کو ہدایت عطا فرماۓ آمین ۔ (مزید حصّہ دوازدہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ دہم

فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ دہم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ کسی معاملے میں آپ جو مشورہ دیتے یا رائے پیش کرتے ، قرآن کریم آپ کی رائے کے موافق نازل ہوتا ۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے کے موافق تقریباً 20 سے زیادہ آیاتِ مبارکہ نازل ہوئیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بے شک قرآنِ کریم میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رائے کے موافق احکام موجود ہیں ۔ (سیرۃ حلبیۃ باب الھجرۃ  الاولی الی ارض الحبشۃ  ۔ الخ ۱/۴۷۴)

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اگر بعض امور میں لوگوں کے رائے کچھ اور ہوتی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی کچھ اور ، تو قرآن مجید حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کے موافق نازل ہوتا تھا۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٧)

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا،''میرے رب نے تین امور میں میری موافقت فرمائی ۔ مقامِ ابراہیم پر نماز کے متعلق، پردے کے بارے میں اور بدر کے قیدیوں کے معاملے میں ۔ (صحيح البخاري كِتَاب الصَّلَاةِ أَبْوَابُ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِبْلَةِ وَمَنْ لَمْ يَرَ رقم الحديث: 390،چشتی)

عَنْ أنَسٍ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلاَثٍ : فَقُلْتُ يَا رَسُوْلَ ﷲِ! لَوِ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلًّی فَنَزَلَتْ ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّی) وَ آيَةُ الْحِجَابِ، قُلْتُ يَارَسُوْلَ ﷲِ! لَوْ أمَرْتَ نِسَاءَ کَ أنْ يَحْتَجِبْنَ فَإِنَّهُ يُکَلِّمُهُنَّ الْبَرُّ وَ الْفَاجِرُ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ وَ اجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْغَيْرَةِ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُنَّ (عَسَی رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أنْ يُبَدِّلَهُ أزْوَاجًا خَيْرًا مِنْکُنَّ) فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت فرمائی۔ میں عرض گزار ہوا کہ یا رسول ﷲ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنائیں تو حکم نازل ہوا۔ (اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ) اور پردے کی آیت، میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول ﷲ! کاش آپ ازواج مطہرات کو پردے کا حکم فرمائیں کیونکہ ان سے نیک اور بد ہر قسم کے لوگ کلام کرتے ہیں تو پردے کی آیت نازل ہوئی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے رشک کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دباؤ ڈالا تو میں نے ان سے کہا۔ ’’اگر وہ آپ کو طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ ان کا رب انہیں اور بیویاں عطا فرما دے جو اسلام میں آپ سے بہتر ہوں۔‘‘ تو یہی آیت نازل ہوئی۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصلاة، باب ما جاء في القبلة 1 / 157، الحديث رقم : 393، و في کتاب التفسير، باب و قوله و اتخذوا من مقام إبراهيم مصلی، 4 / 1629، الحديث رقم : 4213، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 319، الحديث رقم : 6896، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 23، الحديث رقم : 157، و سعيد بن منصور في السنن، 2 / 607، الحديث رقم : 215)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّيْ فِيْ ثَلاَثٍ : فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ، وَ فِي الْحِجَابِ، وَ فِي أَسَارٰی بَدْرٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے رب نے تین امور میں میری موافقت فرمائی، مقام ابراہیم میں، حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں (تین کا ذکر شہرت کے اعتبار سے ہے ورنہ ان آیات کی تعداد زیادہ ہے) ۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ (أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1865، الحديث رقم : 2399،چشتی)(الطبرانی فی المعجم الاوسط، 6 / 92،93، الحديث رقم : 5896، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 586، الحديث رقم : 1276)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ ﷲَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلی لِسَانِ عُمَرَ وَ قَلْبِهِ وَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أمْرٌ قَطُّ فَقَالُوْا فِيْهِ وَ قَالَ فِيْهِ عُمَرُ أوْقَالَ ابْنُ الْخَطَّابِ فِيْهِ شَکَّ خَارِجَةُ إِلَّا نَزَلَ فِيهِ الْقُرْآنُ عَلٰی نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ۔ وً قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَ فِي الْبَابِ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ وَ أَبِيْ ذَرٍّ وَ أَبِيْ هُرَيْرَةَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﷲ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے ۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں جب کبھی لوگوں میں کوئی معاملہ درپیش ہوا اور اس کے متعلق لوگوں نے کچھ کہا اور حضرت عمر ابن خطاب نے بھی کچھ کہا (خارجہ بن عبد ﷲ راوی کو شک ہے کہ کس طرح آپ کا نام لیا گیا) ۔ اس بارے میں رائے بیان کی تو ضرور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق قرآن نازل ہوا ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔‘‘ اس باب میں فضل بن عباس، ابو ذر اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنھم سے بھی روایات مذکور ہیں ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3682، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 318، الحديث رقم : 6895، و في 15 / 312، الحديث رقم : 6889، و أحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 53، الحديث رقم : 5145، و الحاکم في المستدرک، 3 / 93، الحديث رقم : 4501، و الهيثمي في موراد الظمان، 1 / 536، الحديث رقم : 2184)

عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : کَانَ عُمَرُ إِذَا رَأَی الرَّاْيَ نَزَلَ بِهِ الْقُرْانُ. رَوَاهُ ابْنُ أبِي شَيْبَةَ ۔
ترجمہ : حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب کوئی رائے دیتے تو اس کے مطابق قرآن نازل ہوتا ۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن أبيشبية في المصنف، 6 / 354، الحديث رقم : 31980،چشتی)

محدثینِ کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ ان تین امور میں حصر کی وجہ ان کی شہرت ہے ورنہ موافقت کی تعداد اس سے زائد ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے رب نے مجھ سے اکیس (21) باتوں میں موافقت فرمائی ہے ۔ جن کا تذکرہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے "تاریخ الخلفاء" میں کیا ہے ۔

(1) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ تین باتوں میں رب عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے میری موافقت ہوئی (ان میں   سے ایک یہ بھی ہے کہ) میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : لَوِ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اگر ہم مقامِ ابراہیم کو مُصَلّٰی (یعنی نماز پڑھنے کی جگہ) بنائیں   (تو کیسا رہے گا؟) تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے یہی آیتِ مبارکہ میری تائید میں نازل فرما کر مقامِ ابراہیم کو مُصَلّٰی بنانے کا حکم ارشاد فرمادیا : (وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ ۔ پ۱ ،  البقرۃ: ۱۲۵) ۔ ترجمہ : اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ ۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب ما جاء فی القبلۃ ۔۔۔ الخ ج ۱ ص ۱۵۸ حدیث: ۴۰۲)(تفسیر در منثور ،  پ۱ ،  البقرۃ : ۱۲۵ ،  ج۱ ،  ص۲۹۰)

(2) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں   عرض کیا : اِنَّ نِسَاءَكَ يَدْخُلُ عَلَيْهِمُ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ لَوْاَمَرْتَ اُمَّھَاتَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِالْحِجَابِ ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! آپ کے پاس نیک اور بد ہر قسم کے لوگ حاضر آتے ہیں ، پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم امہات المؤمنین کو حجاب میں رہنے کا حکم دیں  ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں یہ آیت حجاب نازل ہوگئی : (یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۔ (پ۲۲ ، الاحزاب:  ۵۹) ۔ ترجمہ : اے نبی اپنی بیبیوں   اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں   سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منھ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ (صحیح بخاری ،  کتاب التفسیر ،  باب قولہ لا تدخلوا۔۔۔الخ ،  ج۳ ،  ص۳۰۴ ،  حدیث: ۴۷۹۰،چشتی)

(3) ایک بار نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  حضرت سیدتنا اُمّ المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رونق ا فروز ہوئے  ،  وہ آپ کی اجازت سے اپنے والد گرامی حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی عیادت کےلئے تشریف لے گئیں ۔ ان کے جانے کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے حضرت سیدتنا ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا  کو خدمت سے سرفراز فرمایا تو یہ بات حضرت سیدتنا حفصہ رضی اللہ عنہا پر گراں گذری ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ان کی دلجوئی کےلئے فرمایا : میں نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کیا ۔ وہ اس سے خوش ہوگئیں اور نہایت خوشی میں انہوں نے یہ تمام گفتگو حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کو بتادی ۔بعد ازاں رب عَزَّ وَجَلَّ نے ان دونوں ازواج مطہرات سے تنبیہاً خطاب فرمایا ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ان دونوں ازواجِ مطہرات سے ارشاد فرمایا : عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ ۔ یعنی ان کا رب قریب ہے اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں کہ انہیں تم سے بہتر بیبیاں بدل دے ۔  ‘‘  توآپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں   ان ہی الفاظ میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی :  (عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ)  (پ۲۸ ،  التحریم: ۵) ۔ ترجمہ : ان کا رب قریب ہے اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں کہ انہیں تم سے بہتر بیبیاں بدل دے ۔ (تفسیر خزائن العرفان ،  پ۲۸  التحریم : ۵ ص۱۰۳۷،چشتی)(عمدۃ القاری کتاب الصلاۃ ،  باب ما جاء فی القبلۃ۔۔۔الخ ،  ج۳ ،  ص۳۸۹)

(4) جب جنگ بدر میں   ستّر کافِر قید کر کے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی بارگاہ میں لائے گئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے اُن کے متعلق صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے مشورہ طلب فرمایا۔ امیر المؤمنین خلیفہ رسول اللہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! یہ آپ کی قوم و قبیلے کے لوگ ہیں میری رائے میں   انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اس سے مسلمانوں کو قوت بھی پہنچے گی اور کیا بعید کہ اللہ تعالٰی اسی سبب سے انہیں دولت اسلام سے سرفراز فرما دے ۔ جبکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ان لوگوں نے آپ کی تکذیب کی ،  آپ کو مکۂ مکرّمہ میں نہ رہنے دیا یہ کُفر کے سردار اور سرپرست ہیں ان کی گردنیں   اُڑائیں ۔ اللہ تعالٰی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فدیہ سے غنی کیا ہے ، علی المرتضٰی کو عقیل پر اور حضرت حمزہ کو عباس پر اور مجھے میرے رشتہ داروں پر مقرر کیجئے کہ ان کی گردنیں مار دیں  ۔ بہرحال امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کی رائے پر سب کا اتفاق ہوگیا اور فدیہ لینے کی رائے قرار پائی ۔ لیکن بعد ازاں یہ آیت مبارکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی رائے کی موافقت میں   نازل ہوگئی : (مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِؕ-تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا ۔ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ۔ (پ۱۰ ،  الانفال: ۶۷) ۔ ترجمہ : کسی نبی کو لائق نہیں کہ کافروں کو زندہ قید کرے جب تک زمین میں   ان کا خون خوب نہ بہائے تم لوگ دنیا کا مال چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب الجھاد باب الامداد ۔ الخ ،  ص۹۷۰ حدیث: ۹۰)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ وَفِي الْحِجَابِ وَفِي أُسَارَى بَدْرٍ ۔ یعنی میں نے اپنے رب کی تین چیزوں میں موافقت کی : مقام ابراہیم میں ،  حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں  ۔ (صحیح مسلم ،  کتاب فضائل الصحابۃ ،  باب من فضائل عمر ص۱۳۰۶  حدیث ۲۴،چشتی)

(5 تا 7) شراب کی حرمت سے متعلقہ تین آیات مبارکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی موافقت میں نازل ہوئیں  ۔ چنانچہ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے یوں دعا کی : اللّٰهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شِفَاءً ۔ یعنی یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں واضح حکم بیان فرما۔تو سورۂ بقرہ کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی:  (یَسْــلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ) ۔ (پ۲ ،  البقرۃ: ۲۱۹) ۔ ترجمہ : تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں تم فرما دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا اور انہیں یہ آیت مبارکہ سنائی گئی تو انہوں نے دوبارہ یہی دعا کی : اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شِفَاءً ۔ یعنی یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں واضح حکم بیان فرما ۔ تو سورہ نساء کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى ۔ (پ۵ ،  النساء: ۴۳) ۔ ترجمہ :   اے ایمان والو نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا اور انہیں یہ آیت مبارکہ سنائی گئی تو انہوں نے دوبارہ یہی دعا کی : اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شِفَاءً ۔ یعنی یَا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں واضح حکم بیان فرما ۔ تو سورۂ مائدہ کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ ۔ (پ۷ ،  المائدۃ: ۹۱) ترجمہ : شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے ۔ جب یہ تیسری آیت مبارکہ نازل ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اِطمینان کا اظہار فرمایا۔(سنن ابو داود ، کتاب الاشربۃ ،  باب فی تحریم الخمر ،  ج۳ ،  ص۴۵۴ ،  حدیث: ۳۶۷۰)

(8) حضرت ابو خلیل صالح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  پر یہ آیات مبارکہ نازل ہوئیں :  وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ (۱۲) ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۪ (۱۳) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاۗ-ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَؕ ۔ (پ۱۸ ،  المؤمنون: ۱۲تا۱۴) ۔ ترجمہ :    اور بیشک ہم نے آدمی کو چنی ہوئی مٹی سے بنایاپھر اسے پانی کی بوند کیا ایک مضبوط ٹھہراؤ میں پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں   پھر ان ہڈیوں   پر گوشت پہنایا پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی ۔ تو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے یوں  فرمایا  فَتَبَارَكَ اللہ اَحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ ‘‘ تو یہی الفاظ آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں   نازل ہوگئے اور نبی کرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا : وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهٖ اِنَّهَا خَتَمَتْ بِالَّذِيْ تَكَلَّمْتَ يَا عُمَر ۔ یعنی اے عمر اس رب عَزَّ وَجَلَّ کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے یہ آیت مبارکہ تو بعینہ انہی الفاظ پر ختم کردی گئی ہے جو الفاظ تمہاری زبان سے نکلےتھے ۔ (تفسیر درمنثور ،  پ۱۸ ، المؤمنون : ۱۴ ،  جلد ۶ ،  صفحہ ۹۲،چشتی)

(9) جب منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عبد اللہ بن ابی نےجو مسلمان  ،  صالح  ،  مخلِص صحابی اور کثیر العبادت تھے یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  اُن کے والد عبداللہ بن اُبی بن سلول کو کفن کے لئے اپنی قمیص مبارک عنایت فرمائیں اور نمازِ جنازہ بھی پڑھائیں  ۔ یہ سن کر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ان دونوں امور کے ارادے سے آگے بڑھے تو حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں فوراً اٹھا اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے بالکل سامنے کھڑا ہوگیا اور دست بستہ عرض کی : اَعَلٰى عَدُوِّ اللہ ابْنِ اُبَيْ الْقَائِلِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!کیا آپ دشمن خدا عبد اللہ بن اُبی کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں ؟ جس نے فلاں فلاں دن ایسی ایسی گستاخیاں کی تھیں  ۔ لیکن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے اس منافق کو اپنی قمیص بھی عطا فرمائی اور اس کے جنازے میں بھی شرکت فرمائی ۔ بعد میں یہ آیت مبارکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی موافقت میں   نازل ہوگئی : وَ ا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ ۔ (پ۱۰ ،  التوبۃ: ۸۴) ترجمہ : اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا بیشک وہ اللہ و رسول سے منکِر ہوئے اور فسق ہی میں مر گئے ۔ (تفسیر خزائن العرفان ،  پ۱۰ ،  التوبۃ ،  : ۸۴ ،  ص۳۷۶)

(10) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے جب منافقین کے استغفار کی کثرت کی تو امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی زبان پر یہ کلمات آئے : سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آپ کا ان منافقین کے لیے استغفار فرمانا یا نہ فرمانا دونوں برابر ہیں ، تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ان ہی الفاظ میں آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں یہ آیت کریمہ نازل فرمادی : سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْؕ ۔ (پ۲۸ ،  المنافقون: ۶) ۔ ترجمہ : ان پر ایک سا ہے تم ان کی معافی چاہو یا نہ چاہو ۔ (الصواعق المحرقۃ ، ص۱۰۰،چشتی)(تاریخ الخلفاء ،  ۹۷)

(11) ملک شام سے کفار کا ایک قافلہ سازوسامان کے ساتھ آرہا تھا ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اصحاب کے ساتھ اس قافلے سے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے ،  ادھر جب کفار مکہ کو معلوم ہوا تو ابوجہل بھی قریش کا ایک بڑا لشکر لے کر ملک شام سے آنے والے قافلے کی مدد کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ لیکن جب اس قافلے کو معلوم ہوا کہ مسلمان ان کے مقابلے کے لیے آرہے ہیں   تو انہوں   نے وہ راستہ تبدیل کردیا اور سمندی راستے سےکسی اور راہ نکل گئے ۔ ابو جہل کو جب یہ معلوم ہوا تواس کے ساتھیوں   نے کہا کہ قافلہ تو صحیح سلامت دوسرے راہ نکل گیا لہٰذا واپس مکہ مکرمہ چلتے ہیں لیکن اس نے واپس جانے سے انکار کردیا اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کےلیے مقام بدر کی طرف چل پڑا ۔ ادھر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معلوم ہوا تو آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا اور فرمایا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ کُفّار کے دونوں گروہوں میں سے ایک پر مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا خواہ وہ ملک شام والا قافلہ ہو یا مکہ مکرمہ سے آنے والے کفار قریش کا لشکر ۔ قافلہ چونکہ نکل چکا تھا لہٰذا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بدر کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا ۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : ہم باقاعدہ جنگ کی تیاری سے نہیں آئے تھے ،  لہٰذا ابو جہل کے لشکر سے اعراض کر کے اسی ملک شام والے قافلے کا تعاقب کرنا چاہیے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! جیسا آپ کے ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو حکم فرمایا ہے ویسا ہی کیجئے یعنی بدر کی طرف تشریف لے چلیے ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ۪-وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ ۔ (پ۹ ،  الانفال: ۵) ۔ ترجمہ : جس طرح اے محبوب تمہیں   تمہارے رب نے تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا اور بے شک مسلمانوں کا ایک گروہ اس پر ناخوش تھا۔ ‘‘  (تفسیرالبیضاوی ،  پ۹ ،  الانفال : ۵ ، ج۳ ص۸۹،چشتی)(تاریخ الخلفاء ص۹۷ ،  الصواعق المحرقۃ ،   ص۱۰۰)

(12) پانچ ۵ ہجری میں غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی کے وقت قافلہ مدینہ منورہ کے قریب ایک مقام پر ٹھہرا تو اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  ضرورت کےلیے کسی گوشہ میں تشریف لے گئیں وہاں   آپ رضی اللہ عنہا کا ہار ٹوٹ گیا ،  آپ رضی اللہ عنہا اس کی تلاش میں مصروف ہو گئیں  اور قافلے والے آپ کو قافلے میں سمجھ کر روانہ ہوگئے ۔ بعد ازاں آپ رضی اللہ عنہا  حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کے ساتھ آگئیں   تو قافلے میں موجود منافقین نے آپ رضی اللہ عنہا کی شان میں بدگوئی شروع کردی اور اَوہام فاسدہ (غلط وسوسے) پھیلانا شروع کر دیے ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس معاملے میں گفتگو فرمائی تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی کی گواہی دی ۔ چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : مَنْ زَوَّجَکَھَا ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کا نکاح کس نے فرمایا ؟ ۔ فرمایا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ۔ عرض کیا : اَتَنْظُرُ اَنَّ رَبَّكَ دَلَّسَ عَلَيْكَ فِيْهَا ۔ یعنی کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ آپ کے رب عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو عیب دار چیز عطا فرمائی ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے سُبْحَانَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ ۔ یعنی الٰہی پاکی ہے تجھے یہ بڑا بہتان ہے ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں یہی الفاظ رب عَزَّ وَجَلَّ نے نازل فرما دیے : وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ ۔ (پ۱۸ ،  النور: ۱۶) ۔ ترجمہ : اور کیوں نہ ہوا جب تم نے سنا تھا کہا ہوتا کہ ہمیں نہیں پہنچتا کہ ایسی بات کہیں   الٰہی پاکی ہے تجھے یہ بڑا بہتان ہے ۔ (عمدۃ القاری ،  کتاب الصلاۃ ،  باب ما جاء فی القبلۃ ۔۔۔ الخ ،   جلد ۳ ،  صفحہ ۳۸۷ ،  تحت حدیث : ۴۰۲،چشتی)

(13) ابتدائے اسلام میں رمضان المبارک کی راتوں میں اپنی زوجہ سے مباشرت کرنا جائز نہیں تھا ، لیکن امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ودیگر چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جماع کرلیا تو رمضان المبارک کی راتوں میں جماع کے جواز کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىٕكُمْؕ-هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ-عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْۚ-فَالْــٴٰـنَ بَاشِرُوْهُنَّ) ۔ (پ۲ ،  البقرۃ: ۱۸۷) ۔ ترجمہ : روزوں کی راتوں میں   اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال ہوا وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں   ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا تو اب ان سے صحبت کرو ۔ (سنن ابی داود ،  کتاب الاذان ،  کیف الاذان ،  ج۱ ،  ص۲۱۳ ،  الحدیث: ۵۰۶،چشتی)

(14) حضرت سیِّدُنا ابن ابی حاتم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن ابی لیلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کی ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے ایک یہودی کی ملاقات ہوئی تو اس نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے کہا : اِنَّ جِبْرِيْلَ الَّذِيْ يَذْكَرُ صَاحِبُكُمْ عَدُوٌّ لَّنَا یعنی یہ جو جبریل ہے جس کا تذکرہ تمہارے دوست (محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کرتے ہیں   وہ ہمارا دشمن ہے۔ ‘‘  یہ سن کر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:   ’’ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَائِیلَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ یعنی جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں   اور اس کے رسولوں   اور جبریل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں   کا۔ ‘‘   چنانچہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی موافقت میں انہی الفاظ میں   یہ آیت مبارکہ نازل فرمادی :  (مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِیْلَ وَ مِیْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِیْنَ(۹۸)) (پ۱ ،  البقرۃ:  ۹۸) ترجمہ :   ’’ جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں   اور اس کے رسولوں   اور جبریل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں   کا ۔ (درمنثور ،  پ۱ ،  البقرۃ : ۹۷ ،  ج۱ ،  ص۲۲۴)

(15) حضرت سیِّدُنا ابن ابی حاتم اور حضرت سیِّدُنا ابن مردویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا     حضرت سیِّدُنا ابو الاسود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کرتے ہیں   کہ دو شخصوں   نے اپنا مقدمہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں پیش کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کے مابین فیصلہ فرمادیا۔ جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا اس نے دوسرے سے کہا کہ آؤ ہم حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے فیصلہ کرواتے ہیں  ۔ دونوں   بارگاہِ فاروقی میں پہنچےتو جس کے حق میں   فیصلہ ہوا تھا اس شخص نے عرض کیا کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے حق میں فیصلہ فرمادیا ہے ۔ یہ سن کر امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا : مَكَانَكُمَا حَتّٰى اَخْرُجَ اِلَيْكُمَا فَاَقْضِیْ بَیْنَکُمَا ۔ یعنی میرے واپس آنے تک یہیں   ٹھہرو  ، میں   ابھی تم دونوں   کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں  ۔ ‘‘   پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اندر تشریف لے گئے اور ننگی تلوار ہاتھ میں لیے باہر تشریف لائے اور جس کے خلاف رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فیصلہ فرمایا تھا اس کا سر قلم کر دیا ۔ یہ دیکھ کر دوسرا شخص خوف سے بھاگ کر رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں پہنچا اور عرض کیا :   ’’ قَتَلَ عُمَرُ وَاللہ صَاحِبِیْ ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے میرے ساتھی کو قتل کردیا ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : مَا کُنْتُ اَظُنُّ اَنْ یَجْتَرِئَ عُمَرُ عَلَی قَتْلِ مُؤْمِنٍ ۔ یعنی مجھے یقین ہے کہ عمر کسی مؤمن کو قتل کرنے کی جرأت نہیں   کر سکتا ۔ پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی موافقت میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی :  (فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ۔ (پ۵ ،  النساء: ۶۵) ۔ ترجمہ : تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں   تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں   اور جی سے مان لیں ۔ (تفسیر درمنثور ،  پ۵ ،  النساء : ۶۵ ،  ج۲ ، ص۵۸۵،چشتی)

(16) ایک بار امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ رات کے وقت آرام فرماتے رہے تھے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا خادم آپ کے کمرے میں داخل ہوا ۔ آپ چونکہ نیند کی حالت میں تھے لہٰذا بدن سے کچھ کپڑا ہٹا ہوا تھا ایسی حالت میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو غلام کا بلا اجازت داخل ہونا اچھا نہ لگا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے رب عزوجل کی بارگاہ میں یوں دعا کی : اَللّٰهُمَّ حَرِّمِ الدُّخُوْلَ عَلَيْنَا فِيْ وَقْتِ نَوْمِنَا ۔ یعنی یَا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمارے سونے کے اوقات میں بلا اجازت داخلہ حرام فرمادے ۔ تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی موافقت میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ۔ (پ۱۸ ، النور: ۲۷) ۔ ترجمہ : اے ایمان والو اپنے گھروں کے سوا اور گھروں   میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو اور ان کے ساکنوں پر سلام نہ کر لو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم دھیان کرو ۔ (ارشاد الساری کتاب تفسیر القرآن سورۃ الاحزاب  باب قولہ: لاتدخلوا ۔ الخ ،  ج۱۰ ص۵۹۶ تحت الحدیث: ۴۷۹۰،چشتی)

(17) اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖؕ-وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا ۔ (پ ۵ ، النساء:  ۶۰) ۔ ترجمہ : کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن کا دعوٰی ہے کہ وہ ایمان لائے اس پر جو تمہاری طرف اترا اور اس پر جو تم سے پہلے اترا پھر چاہتے ہیں کہ شیطان کو اپنا پنچ بنائیں اور اُن کا تو حکم یہ تھا کہ اُسے اصلاً نہ مانیں اور ابلیس یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور بہکاوے ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہما سے روایت ہے کہ بِشر نامی ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا تھا ،  یہودی نے کہا:  ’’  چلو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے طے کرالیں کیونکہ وہ تمہارے سچے نبی ہیں  ۔ منافق نے سوچا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  تو کسی کی رعایت کیے بغیر صرف سچا فیصلہ کریں گے اور اس سے مطلب حاصل نہ ہوگا اس لئے اُس نے باوجود مدعی ایمان ہونے کے یہ کہا کہ ایسا کرتے ہیں   کعب بن اشرف یہودی کے پاس چل کر اس سے فیصلہ کرواتے ہیں۔(قرآن کریم میں   طاغوت سے اس کعب بن اشرف کے پاس فیصلہ لے جانا مراد ہے) یہودی جانتا تھا کہ کعب رشوت خور ہے اِس لئے اُس نے باوجو د ہم مذہب ہونے کے اُس کو پنچ تسلیم نہ کیا۔ بالآخر منافق کو فیصلے کے لئے حضورنبی ٔرحمت ،  شفیعِ اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بارگاہ میں   حاضر ہونا پڑا ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فریقین کی بات سننے کے بعد یہودی کے حق میں   فیصلہ سنا دیا۔فیصلہ سننے کے بعد منافق نے اسے تسلیم نہ کیا اور یہودی کو اس بات پر مجبور کیا کہ ’’  ایسا کرتے ہیں   کہ حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں چلتے ہیں   وہ جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہوگا ۔ ‘‘  دونوں بارگاہِ فاروقی میں حاضر ہوئے تو یہودی نے عرض کیا کہ  ’’ اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے حق میں   فیصلہ دیا ہے لیکن یہ شخص آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فیصلے سے متفق نہیں ،  یہ آپ سے فیصلہ کروانا چاہتا ہے ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا :   ’’ مَكَانَكُمَا حَتّٰى اَخْرُجَ اِلَيْكُمَا ۔ یعنی تم دونوں   میرے واپس آنے تک یہیں   ٹھہرو ۔ ‘‘   پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاندر تشریف لے گئے اور ننگی تلوار لے کر باہر آئے اور اس منافق کی گردن تن سے جدا کردی ۔ ارشاد فرمایا : هٰكَذَا اَقْضِيْ لِمَن لَّم يَرْضِ بِقَضَاءِ اللہ وَرَسُوْلِهٖ ۔ یعنی جو   اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فیصلے سے راضی نہیں عمر اس کا فیصلہ یوں   کرے گا ۔ (درمنثور ،  پ۵ ،  النساء ،  تحت الآیۃ: ۶۰ ،  جلد ۲ ،  صفحہ ۵۸۲،چشتی)

(18) قیامت کے دن تین طرح کے لوگ ہوں   گے:  (۱) اَصْحَابُ الْمَیْمَنَۃِ یعنی جن کے نامۂِ اعمال ان کے داہنے ہاتھوں   میں   دیئے جائیں   گے ۔ (۲) اَصْحَابُ الْمَشْئَمَۃِ یعنی وہ جن کے نامۂِ اعمال بائیں   ہاتھوں   میں   دیئے جائیں   گے ۔ (۳) السّٰبِقُوْنَ یعنی وہ لوگ جو نیکیوں   میں   سبقت لے گئے۔پھر ان کے جنتی ہونے کا بیان ہے۔اس تیسری قسم کے لوگوں   کی دو قسمیں   بیان کی گئی ہیں  : (۱)اگلے یعنی پہلے والے (۲)پچھلے یعنی بعد والے۔اگلوں   سے مراد صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  اور پچھلوں   سے مراد بعد والے لوگ ہیں  ۔فرمایا گیا:  (ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَۙ(۱۳) وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَؕ ۔ (پ۲۷ ،  الواقعہ:  ۱۴ / ۱۳) ترجمۂ کنزالایمان:   ’’ اگلوں   میں   سے ایک گروہ اور پچھلوں   میں   سے تھوڑے۔ ‘‘  تو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ عرض کیا:  ’’ یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اگلوں   میں   سے پورا ایک گروہ اور پچھلوں   میں   صرف تھوڑے سے ؟ ‘‘   تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی موافقت میں   یہ آیات مبارکہ نازل ہوگئیں  :  ( ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَۙ(۱۳) وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَؕ ۔ (پ۲۷ ،  الواقعہ: ۳۹ / ۴۰) ۔ ترجمہ : اگلوں میں سے ایک گروہ اور پچھلوں   میں سے ایک گروہ ۔ (تفسیر در منثور ،  پ۲۷ ، الواقعۃ)

(19) حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ ایک شخص امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اپنا واقعہ کچھ یوں عرض کرنے لگا کہ ایک عورت میرے پاس کچھ خریدنے آئی تو میں   اسے اپنے کمرہ خاص میں لے گیا اور زنا کے علاوہ سب کچھ کیا ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : وَيْحَكَ لَعَلَّهَا مُغِيْبٌ فِي سَبِيْلِ ۔ اللہ تیری بربادی ہو شاید اس کا شوہر جہاد پر گیا ہے؟ ‘‘   اس نے کہا :  ’’  جی ہاں  ۔ ‘‘   آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں جاؤ۔ وہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں گیا اور سارا معاملہ بیان کیا تو انہوں نے بھی حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی موافقت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : لَعَلَّهَا مُغِيْبٌ فِيْ سَبِيْلِ اللہ ۔ شاید اس کا شوہر جہاد پر گیا ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں  ۔ ‘‘  پھر وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی وہی ارشاد فرمایا جو حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا تھا ۔ پھر سورۂ ھود کی یہ آیت کریمہ نازل ہوگئی:  (وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِؕ-اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِؕ-ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ ۔ (پ۱۲ ،  ھود: ۱۱۴) ۔ ترجمہ : اور نماز قائم رکھو دن کے دونوں کناروں اور کچھ رات کے حصوں   میں بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں   یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں   کو ۔ ‘‘ 

تو اس شخص نے پوچھا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا اس آیت میں   جو حکم ہے وہ صرف میرے لیے خاص ہے ؟ ‘‘   امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : یہ تیرے لیے خاص نہیں   بلکہ سب کے لیے عام ہے ۔ نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی تائید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : صَدَقَ عُمَرُ یعنی عمر نے سچ کہا ۔ (مسند امام احمد ،  مسند عبد اللہ بن عباس ج۱ ص۲۵۹ ،  حدیث: ۲۲۰۶،چشتی)

حضرت عبداللہ بن زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے لوگوں کو نماز کی دعوت کے لیے ناقوس بجانے کا حکم دیا تو میں   نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص دو سبز کپڑوں میں ملبوس ہاتھ میں ایک ناقوس لے کر میرے پاس آیا ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے بندے ! کیا یہ ناقوس مجھے بیچو گے ؟ وہ کہنے لگا یہ تمہارے کس کام کا ؟ میں نے کہا : میں اس کے ساتھ لوگوں کو نماز کی طرف بلاٶں گا ۔ وہ کہنے لگا : اگر تم چاہو تو میں تمہیں نماز کے لیے بلانے کا اس سے بہتر طریقہ نہ بتاؤں ؟ میں نے کہا : ضرور بتائیے ۔ وہ کہنے لگا : تم یہ کہا کرو : اللہ اکبر اللہ اکبر ۔ اوراس نے ساری اذان کہہ سنائی ۔ پھر اس نے کہا:   ’’ جب تم جماعت قائم کرنے لگو تو یوں کہو : اللہ اکبر اللہ اکبر ۔ اور اس نے ساری اقامت کہہ سنائی ۔ جب صبح ہوئی تو میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بارگاہ میں حاضر ہوا اور اپنا خواب بیان کیا۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا : اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے چاہا تو یہ خواب ضرور سچ ہوگا ۔ تم بلال کے ساتھ جاؤ اور جو کچھ تم نے خواب میں سنا ہے وہ بلال کو سناتے جاٶ کیونکہ اس کی آواز تم سے بلند ہے ۔ تو میں نے حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ساتھ کھڑا کرلیا  ،  میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کلمات اذان بتاتا رہا اور آپ اذان دیتے رہے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے گھر میں یہ آواز سنی تو دوڑے دوڑے مسجد میں   آئے اور ان کی حالت یہ تھی کہ ان کی چادر زمین پر گھسٹتی آرہی تھی اور وہ کہہ رہے تھے : وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ يَا رَسُولَ اللّٰهِ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَاَى ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اس خدا کی قسم جس نے آپ کو رسول بنایا ہے ،  میں نے آج خواب میں یہی الفاظ سنے ہیں ۔ نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : فَلِلَّهِ الْحَمْدُ  یعنی تمام تعریفیں رب عَزَّ وَجَلَّ کے لیے ہیں  ۔ (سنن ابو داود  ، کتاب ا لصلاۃ  ، باب کیف الاذان ج۱ ص ۲۱۰ حدیث: ۴۹۹) ۔ (مزید حصّہ یازدہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

سیّدہ ام کلثوم بنت علی کا نکاح عمر فاروق سے ہوا ۔ (رضی اللہ عنہم)

 سیّدہ ام کلثوم بنت علی کا نکاح عمر فاروق سے ہوا ۔ (رضی اللہ عنہم)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارٸینِ کرام : حضرت ام سیّدہ کلثوم بنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہما کا نکاح امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے مؤرخین و محدثین علیہم الرحمہ کی بڑی تعداد نے بیان کیا ہے : ⬇


تاجدار گولڑہ حضرت سیّدنا پیر سیّد مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وام کلثوم رضی اللہ عنہا را بنکاح آورد امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ پس پسرے زید نام برائے او بزادو بعد عمر رضی اللہ عنہ عون بن جعفر بزنی خواست ۔ بعد از وے محمد بن جعفر بعد ازوے عبد اللہ بن جعفر ۔

ترجمہ : حضرت سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نکاح میں لائے ۔ ان سے ایک صاحبزادہ زید نام متولد ہوا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عون بن جعفر رضی اللہ عنہما کے نکاح میں آئیں ۔ ان کے بعد محمد بن جعفر رضی اللہ عنہما ان کے بعد عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے نکاح میں آئیں ۔ ( تحقیق الحق فی کلمة الحق ۔ تاریخ اشاعت ۔جون ۔2004 صفحہ 152۔چشتی)


مزید تفصیل درج ذیل ہے : ⬇


سیدنا ثعلبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : إِنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَسَمَ مُرُوطًا بَیْنَ نِسَاءٍ مِّنْ نِّسَاءِ الْمَدِینَةِ، فَبَقِيَ مِرْطٌ جَیِّدٌ، فَقَالَ لَهٗ بَعْضُ مَنْ عِنْدَهٗ: یَا أَمِیرَ المُوْمِنِینَ! أَعْطِ هٰذَا ابْنَةَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآله وَسَلَّمَ الَّتِي عِنْدَکَ، یُرِیدُونَ أُمَّ کُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ. فَقَالَ عُمَرُ: أُمُّ سَلِیطٍ أَحَقُّ، وَأُمُّ سَلِیطٍ مِّنْ نِّسَاءِ الْـأَنْصَارِ مِمَّنْ بَایَعَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآله وَسَلَّمَ، قَالَ عُمَرُ: فَإِنَّهَا کَانَتْ تَزْفِرُ لَنَا الْقِرَبَ یَوْمَ أُحُدٍ ۔

ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں تو ایک عمدہ چادر بچ گئی ۔ اُن کے پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی نے کہا‘ امیر المومنین! یہ چادر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بیٹی (یعنی نواسی) کو دیجیے جو آپ کی زوجیت میں ہے ، ان کی مراد اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا سے تھی ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اُم سلیط زیادہ حقدار ہے ۔ (ام سلیط) انصاری عورت تھیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کے دستِ اقدس پر بیعت کی تھی ۔ سیدنا عمر رضی للہ عنہ نے فرمایا : اُم سلیط جنگ اُحد کے دن ہمارے لیے مشکیں لاد لاد کر لاتی تھیں ۔ (بخاری ، الصحیح، کتاب المغازی، باب ذکر ام سلیط، کتاب المغازی، رقم الحدیث: 4071، بیت الافکا للدولیه النشر، 1997 وہ فی كتاب الجهاد والسير باب حمل النساء القرب إلى الناس في الغزو)


شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں : سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں اور ان کی ماں حضرت سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھیں ۔ اس لیے لوگوں نے ان کو بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کہا ۔ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی پیدا ہوئی تھیں اور یہ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں ۔


امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمة اللہ علیہ و شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کی اس تصریح سے واضح ہوا کہ سیدہ اُمِّ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ۔


سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھہما کے بطن سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت زید بن عمر پیدا ہوئے ۔ خلافتِ فاروقی کے بعد ان ماں بیٹے کا ایک ہی دن انتقال ہوا اور کا جنازہ بھی اکٹھے ادا کیا گیا ۔

حضرت نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ : إِنَّ ابْنَ عُمَرَ صَلّٰی عَلَی تِسْعِ جَنَائِزَ جَمِیعًا، فَجَعَلَ الرِّجَالَ یَلُونَ الْإِمَامَ، وَالنِّسَاءَ یَلِینَ الْقِبْلَةَ، فَصَفَّهُنَّ صَفًّا وَّاحِدًا، وَوُضِعَتْ جَنَازَةُ أُمِّ کُلْثُومٍ بِنْتِ عَلِيٍّ امْرَأَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَابْنٍ لَّهَا، یُقَالُ لَهٗ زَیْدٌ، وُضِعَا جَمِیعًا، وَالْإِمَامُ یَوْمَئِذٍ سَعِیدُ بْنُ الْعَاصِ، وَفِي النَّاسِ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو هُرَیْرَةَ، وَأَبُو سَعِیدٍ، وَأَبُو قَتَادَةَ، فَوُضِعَ الْغُلَامُ مِمَّا یَلِي الْإِمَامَ ۔

ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نو میّتوں پر اکٹھی نماز جنازہ ادا کی ۔ انہوں نے مذکر میتوں کو امام اور مؤنث میتوں کو قبلہ کی جانب رکھا ۔ ان سب کی ایک صف بنا دی ، جبکہ سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا جو کہ سیدنا علی علیہ السلام کی صاحبزادی اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں‘ انہیں اور ان کے زید نامی بیٹے کو اکٹھا رکھا ۔ اس روز سیدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ امام تھے جبکہ جنازہ پڑھنے والوں میں عبداللہ بن عمر ، حضرت ابوہریرہ ، ابوسعید خدری اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہم اجمعین شامل تھے ۔ بچے کو امام کی جانب رکھا گیا ۔ (سنن نسائي : 1980، سنن دارقطني: 79/2، 80، السنن الکبرٰی للبیهقي : 33/4،چشتی)


شیعہ مؤرّخ احمد بن یعقوب نے 17 ہجری میں خلافتِ فاروقی کے احوال میں لکھا ہے : وَفِي هٰذِهِ السَّنَةِ خَطَبَ عُمَرُ إِلٰی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أُمَّ کُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ، وَأُمُّهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰهِ، فَقَالَ عَلِيٌّ: إِنَّهَا صَغِیرَةٌ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ یَقُولُ : ’کُلُّ نَسَبٍ وَّسَبَبٍ یَّنْقَطِعُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، إِلَّا سَبَبِي وَنَسَبِي وَصِهْرِي، فَأَرَدْتُّ أَنْ یَّکُونَ لِي سَبَبٌ وَّصِهْرٌ بِرَسُولِ اللّٰهِ، فَتَزَوَّجَهَا وَأَمْهَرَهَا عَشْرَةَ آلاَفِ دِینَارٍ ۔

ترجمہ : اسی سال سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف ان کی بیٹی امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کےلیے پیغامِ نکاح بھیجا ۔ یاد رہے کہ یہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی لختِ جگر تھیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : امِ کلثوم ابھی عمر میں چھوٹی ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (میں یہ رشتہ صرف اس لیے طلب کر رہا ہوں کہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روزِ ِقیامت تمام نسب اور سبب منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے تعلق ، نسب اور سسرالی رشتہ کے ۔ اب میری یہ خواہش ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق اور سسرالی رشتہ ہو ۔ اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ دس ہزار دینار حق مہر کے عوض اپنی صاحبزادی کی شادی کر دی ۔ (تاریخ الیعقوبي، 2: 149، 150۔چشتی)


اہل سنت اور اہل تشیع کی بے شمار کتب میں سیدہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے شادی بالصراحت ذکر ہوئی ہے ۔ اہل سنت و جماعت کے ہاں اس شادی کے انعقاد پر کوئی اختلاف نہیں بلکہ اجماع ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نکاح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطنِ مبارک سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جنم لیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوئی ، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن میں حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں ۔ سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے ہوا ، جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں تھیں ۔ ان کے بطن مبارک سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی ۔


اس لیے سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نواسی یا نواسی کی بیٹی نہیں ہیں ۔ شرعاً اس نکاح میں کوئی روکاوٹ نہیں ہے ۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں حضرت امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما ، سیدنا عمر فاروق کی محرم نہیں بنتیں ۔


حضرت سیّدہ ام کلثوم بنت حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوا ۔ (تاریخ طبری جلد سوم صفحہ نمبر 80۔چشتی)


حضرت سیّدہ ام کلثوم بنت حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوا ۔ (طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 300)


ثعلبہ بن ابی مالک (القرظی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں ۔ ایک نئی چادر بچ گئی تو بعض حضرات نے جو آپ کے پاس ہی تھے کہا : یا امیر المومنین ! یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی نواسی کو دے دیجیے ۔ جو آپ کے گھر میں ہیں ۔ ان کی مراد (آپ کی بیوی) ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا سے تھی ۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ام سلیط رضی اللہ عنہا اس کی زیادہ مستحق ہیں ۔ (صحیح بخاری : 2881 ، ترجمہ محمد داود راز، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ 212/4،چشتی)


نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ : ووضعت جنازۃ ام کلثوم بنت علی امراۃ عمر بن الخطاب و ابن لھا یقال لہ زید ۔

ترجمہ : اور عمر بن خطاب کی بیوی ام کلثوم بنت علی کا جنازہ رکھا گیا اور اس کے بیٹے کا جنازہ رکھا گیا جسے زید (بن عمر بن الخطاب) کہتے تھے ۔ (سنن النسائی 71- 72/4 حدیث 1980، و سندہ صحیح و صححہ ابن الجارود بروایۃ: 545 و حسنہ النووی فی المجموع 5/224 و قال ابن حجر فی التلخیص الحبیر 2/146 حدیث 807: “و اسنادہ صحیح،چشتی)


مشہور ثقہ تابعی امام الشعبی رحمة اللہ علیہ سے روایت ہے کہ : عن ابن عمر انہ صلی علی اخیہ و امہ ام کلثوم بنت علی ۔

ترجمہ : ابن عمر (رضی اللہ عنہما) نے اپنے بھائی (زید بن عمر) اور اس کی والدہ ام کلثوم بنت علی (رحمہما اللہ) کا جنازہ پڑھا۔(مسند علی بن الجعد: 593 و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ: 574)


امام شعبی سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی اور ان کے بیٹے زید (یعنی اپنے بھائی) کا جنازہ پڑھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 3/315 حدیث 11574 و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ : 11690)

عبداللہ البہی رحمة اللہ علیہ (تابعی صدوق) سے روایت ہے کہ : شھدت ابن عمر صلی علیٰ ام کلثوم و زید بن عمر بن الخطاب ۔

ترجمہ : میں نے دیکھا کہ ابن عمر (رضی اللہ عنہما) نے ام کلثوم اور زید بن عمر بن الخطاب کا جنازہ پڑھا ۔ (طبقات ابن سعد 468/8 و سندہ حسن۔چشتی)


اس جنازے کے بارے میں عمار بن ابی عمار (ثقہ و صدوق) نے کہا کہ میں بھی وہاں حاضر تھا۔(طبقات بن سعد 8/468 و سندہ صحیح)


امام علی بن الحسین : زین العابدین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خطب الیٰ علی رضی اللہ عنہ ام کلثوم فقال : انکحنیھا فقال علی : انی ارصدھا لابن اخی عبداللہ بن جعفر فقال عمر : انکحنیھا فو اللہ ما من الناس احد یرصد من امرھا ما ارصدہ، فانکحہ علی فاتی عمر المھاجرین فقال : الاتھنونی ؟ فقالوا : بمن یاامیر المومنین؟ فقال : بام کلثوم بنت علی وا بنۃ فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ۔

ترجمہ : بے شک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا ، کہا : اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں ۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اسے اپنے بھتیجے عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہما) کےلیے تیار کر رہا ہوں ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں ۔ کیونکہ اللہ کی قسم ! جتنی مجھے اس کی طلب ہے لوگوں میں سے کسی کو اتنی طلب نہیں ہے ۔ (یا مجھ سے زیادہ اس کے لائق دوسرا کوئی نہیں ہے) پھر علی (رضی اللہ عنہ ) نے اسے (ام کلثوم کو) ان (عمر) کے نکاح میں دے دیا ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ مہاجرین کے پاس آئے تو کہا : کیا تم مجھے مبارکباد نہیں دیتے ؟ انہوں نے پوچھا : اے امیر المومنین ! کس چیز کی مبارکباد ؟ تو انہوں نے فرمایا : فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بیٹی امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ شادی کی مبارکباد ۔ (المستدرک للحاکم 3/142 حدیث 4684 و سندہ حسن، وقال الحاکم: “صحیح الاسناد” وقال الذہبی: ” منقطع” السیرۃ لابن اسحاق ص 275-276 و سندہ صحیح،چشتی)


علی بن الحسین بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہم تک سند حسن لذاتہ ہے ، جو کہ ائمہ اہل بیت میں سے تھے اور ان کی یہ روایت سابقہ احادیث صحیحہ کی تائید میں ہے ۔


عاصم بن عمر بن قتادہ المدنی (ثقہ عالم بالغازی) رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : عمر بن خطاب نے علی بن ابی طالب سے ان کی لڑکی ام کلثوم کا رشتہ مانگا ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بیٹی فاطمہ کی بیٹی تھیں ۔ ”فزوجھا ایاہ” پھر انہوں (علی رضی اللہ عنہ) نے اس (ام کلثوم رضی اللہ عنہا) کا نکاح ان (عمر رضی اللہ عنہ) سے کر دیا۔(السیرۃ لابن اسحاق صفحہ 275 وسندہ حسن)


محمد بن اسحاق بن یسار امام المغازی رحمہ اللہ نے فرمایا : و تزوج ام کلثوم ابنۃ علی من فاطمۃ ابنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم عمر بن الخطاب فولدت لہ زید بن عمر و امراۃ معہ فمات عمر عنھا ۔

ترجمہ : علی اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بیٹی امِ کلثوم کا نکاح عمر بن الخطاب سے ہوا تو ان کا بیٹا زید بن عمر (بن الخطاب) اور ایک لڑکی پیدا ہوئے ۔ پھر عمر (رضی اللہ عنہ) فوت ہو گئے اور وہ آپ کے نکاح میں تھیں ۔ (السیرۃ لابن اسحاق صفحہ 275،چشتی)


عطاء الخراسانی رحمة اللہ علیہ نے کہا : عمر (رضی اللہ عنہ) نے ام کلثوم بنت علی کو چالیس ہزار کا مہر دیا تھا ۔ (طبقات ابن سعد 8/ 463-466) ۔ اس روایت کی سند عطاء الخراسانی تک حسن ہے ۔


امام ابن شہاب الزہری رحمة اللہ علیہ (تابعی) نے فرمایا : واما ام کلثوم بنت علی فتزوجھا عمر بن الخطاب فولدت لہ زید بن عمر ۔

ترجمہ : اور ام کلثوم بنت علی سے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہما) نے شادی کی تو ان کا بیٹا زید بن عمر پیدا ہوا ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر 21/342 و سندہ حسن)


اس کے علاوہ ان کتبِ اہلسنت میں موجود ہے کہ : حضرت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کا نکاح حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا ۔ (التاریخ الاوسط للبخاری 1/672 ح 379، ص 674 ح 380،381،چشتی)(کتاب الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم (3/ 568))(طبقات ابن سعد (3/265)(کتاب الثقات لابن حبان (2/216)


اہلِ سنت و جماعت کے درمیان اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں بلکہ اجماع ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم سے نکاح کیا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لاثانی داماد اور سیدہ اُم کلثوم بنت فاطمہ رضی اللہ کے شوہر تھے ۔ اگر شیعہ اور نیم شیعہ اس حقیقت کے انکاری ہیں تو کیا تسلیم کرنے والے مندرجہ ذیل شیعہ علماء آپ سے کم تر جانتے تھے یا اُن میں انصاف کا کچھ شائبہ تھا ؟


شیعہ عالم ابو جعفر الکلینی نے لکھا : حمید بن زیاد عن ابن سماعۃ عن محمد بن زیاد عن عبداللہ بن سنان و معاویۃ بن عمار عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال: ۔۔۔ان علیاً لما توفی عمر اتی ام کلثوم فانطلق بھا الیٰ بیتہ ۔ ترجمہ : ابو عبداللہ (جعفر الصادق) علیہ السلام سے روایت ہے کہ۔۔۔جب عمر فوت ہوئے تو علی آئے اور ام کلثوم کو اپنے گھر لے گئے ۔(الفروع من الکافی 6/115) ، اس روایت کی سند شیعہ کے اصول سے صحیح ہے۔ اس کے تمام راویوں مثلاً حمید بن زیاد، حسن بن محمد بن سماعہ اور محمد بن زیاد عرف ابن ابی عمیر کے حالات مامقانی (شیعہ) کی کتاب : تنقیح المقال میں موجود ہیں ۔


شیعہ عالم ابو جعفر الکلینی نے کہا : علی بن ابراھیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن ھشام بن سالم و حماد عن زرارۃ عن ابی عبداللہ علیہ السلام فی تزویج ام کلثوم فقال : ان ذلک فرج غصبناہ ۔ ترجمہ : ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر صادق رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ام کلثوم کی شادی کے بارے میں کہا: یہ شرمگاہ ہم سے چھین لی گئی تھی ۔ (الفروع من الکافی 5/ 346)۔(استغفر اللہ)


اس روایت کی سند بھی شیعہ اصول سے صحیح ہے ۔ اس کے راویوں علی بن ابراہیم بن ہاشم القمی وغیرہ کے حالات تنقیح المقال میں مع توثیق موجود ہیں ۔


شیعہ عالم شوستری لکھتے ہیں : اگر نبی دختر بعثمان داد ولی دختر بعمر فرستاد ۔

اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دختر عثمان رضی اللہ عنہ کو دی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے دی ۔


شیعہ عالم ابوجعفر طوسی الاستبصار صفحہ ١٨٥ میں لکھتے ہیں : جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُم کلثوم کو عدت گذارنے کے لئے لے آئے۔۔۔ نیز تہذیب میں یہ روایت کی ہے اُم کلثوم بنت علی علیہ السلام اور اُم کلثوم کا بیٹا ایک ہی ساعت میں مدفون ہوئے اور یہ معلوم نہ ہوسکا کہ پہلے کون مرا پس ایک دوسرے کا وارث نہ ہوا ۔


شیعہ عالم سیدمرتضٰی علم الھٰدی المتوفی ٣٥٥ھ نے شانی میں لکھا ہے کہ حضرت امیر نے اپنی بیٹی کا نکاح بطیب خاطر نہیں کیا بلکہ یہ عقد بار بار کی درخواست پر ہوا ۔ نکاح تو بہرحال ہو گیا ۔

اس حقیقت کے سامنے آنے سے شییعہ سوچیں کے اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ مومن نہ تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر سے ظلم کیا اور ناجائز کام کرایا ؟ (معاذاللہ ثمہ معاذاللہ)


ابو عبداللہ جعفر الصادق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : جب عمر فوت ہو گئے تو علی نے آ کر کلثوم کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے گھر لے گئے ۔ (الفروع من الکافی 6/115-116،چشتی)


شیعہ عالم : ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی نے ” الحسین بن سعید عن النضر بن سوید عن ھشام بن سالم عن سلیمان بن خالد” کی سند کے ساتھ نقل کیا کہ ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر الصادق رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : جب عمر فوت ہوئے تو علی علیہ السلام نے آ کر ام کلثوم کا ہاتھ پکڑا پھر انہیں اپنے گھر لے گئے ۔ (الاستبصار فیما اختلف من الاخبار 3/472 ح 1258۔چشتی)


اس روایت کی سند بھی شیعہ اسماء الرجال کی رو سے صحیح ہے ۔ ان کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح کا ذکر موجود ہے : (تہذیب الاحکام (8/161، 9/262)(الشافی للسید المرتضیٰ علم الھدی (ص 116)(مناقب آل ابی طالب لابن شھر آشوب (3/162)(کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ للاربلی (ص 10)(مجالس المومنین للنور اللہ الشوستری (ص 76)(حدیقۃ الشیعہ للاردبیلی (ص 277)


ایک عبرت انگیز واقعہ پیش خدمت ہے : وزیر معز الدولہ احمد بن بویہ شیعہ تھا ۔ (دیکھیے سیر اعلام النبلاء 16/190) ، اس کی موت کے وقت ایک عالم اس کے پاس گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل بیان کئے اور فرمایا : بے شک علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح عمر بن خطاب سے کیا تھا ۔ اس (احمد بن بویہ) نے اس بات کو بہت عظیم جانا اور کہا : مجھے اس کا علم نہیں تھا پھر اس نے (توبہ کر کے) اپنا اکثر مال صدقہ کردیا ، اپنے غلاموں کو آزاد کر دیا ، بہت سے مظالم کی تلافی کر دی اور رونے لگا حتیٰ کہ اس پر غشی طاری ہو گئی ۔ (المنتظم لابن الجوزی 14/183 ت 2653)


محترم قارٸینِ کرام : اس ساری تحریر میں دو طرفہ قوی دلاٸل نقل کرنے کا مقصد یہی ہے کہ کوٸی بھی اس مُسلَّم حقیقت سے انکار نہ کر سکے ۔ اس کے باوجود بھی کچھ لوگ اگر اپنی بات پر ڈٹے رہیں تو دعا ہے کہ اللہ عزّ و جل ان کو ہدایت عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Friday, 29 July 2022

شان و ادبِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ

شان و ادبِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام قرآن کرام کریم اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحْسٰنٍ ۙ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ تَحْتَہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 100)
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔

صحابی کی تعریف

علماء متقدمین و متاخرین نے صحابی کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر اس صاحب ایمان شخص کو صحابی کہا جائے گا جس نے ایمان کی حالت میں خاتم النّبیین محمد عربی صلى الله عليه و آلہ وسلّم سے شرف ملاقات حاصل کیا اور اسی ایمان کے ساتھ وفات پائی ،اور ظاہر ہے کہ وہ نابینا حضرات یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نومولود بچے جو نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلّم کی خدمت مبارکہ میں لائے گئے ان سب کو ملاقات حاصل ہے لہٰذا بلا تردد جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان کا شمار ہوگا ۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر طعنہ زنی جائز نہیں

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تسبوا اصحابی لعن اللہ من سب اصحابی ۔
ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہتا ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 94)

امام المفسرین علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لیے ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور ان سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے ان کے باہمی اختلافات میں کفِ لسان کریں اورہمیشہ ان کا ذکر بہتر طریقہ پر کریں ، کیونکہ صحابیت بڑی حرمت (وعظمت) کی چیز ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے ۔ (تفسیر قرطبی جلد نمبر ۱۶، ص:۳۲۲)

اس آیتِ مبارکہ کی ابتداء میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دو گروہوں کا ذکر ہوا ۔

سابقین مہاجرین یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے مہاجرین ۔ ان کے بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بدر مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بیت ِرضوان مراد ہیں ۔

سابقین انصار یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے انصار۔ ان سے مراد وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں کہ جو بیعتِ عَقَبۂ اُولیٰ میں شریک تھے جن کی تعداد چھ تھی، یونہی بیعتِ عقبۂ ثانیہ میں شریک بارہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور بیعتِ عقبۂ ثالثہ میں شریک ستر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی سابقین انصار کہلاتے ہیں ۔ پھر سابقین کے گروہ میں بھی جو ایمان قبول کرنے میں سب سے سابق ہیں وہ یہ حضرات ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا یعنی مردوں میں سب پہلے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ، عورتوں میں سب سے پہلے اُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا نے ، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایمان قبول کیا ۔ (تفسیر خازن، التوبۃ : ۱۰۰، ۳/۲۷۴،چشتی)

وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحْسٰنٍ : اور جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان سے باقی مہاجرین و انصار مراد ہیں ، اس قول کے مطابق تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اس آیت میں داخل ہوگئے اور ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان ، طاعت اور نیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پرچلیں ۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا کہ اسے ان کے نیک عمل قبول ہیں اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے راضی ہیں کہ اس کے ثواب و عطاسے خوش ہیں ۔ اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور یہ حضرات ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ (تفسیر خازن ، التوبۃ : ۱۰۰، ۲/۲۷۵،چشتی)

سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل اور جنتی ہیں

اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں لہٰذا جوبد بخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مردود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے اور ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیث پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پکڑ فرما لے ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵/۴۶۳، الحدیث: ۳۸۸۸،چشتی)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : لَاتَسُبُّوْااَصْحَابِیْ فَلَوْ اَنَّاَحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًامَابَلَغَ مُدًّااَحَدِھِمْ وَلَانَصِیْفَہُ ۔ (متفق علیہ)
ترجمہ : تم میرے صحابہ کوگالی نہ دو اگرتم میں سے کوئی احد پہاڑکی مثل سوناخرچ کرے وہ ان میں سے کسی ایک کے مد اورنہ ہی آدھے مد (خرچ کرنے کے ثواب) کوپہنچ سکتا ہے ۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اَکْرِمُوْااَصْحَابِیْ فَاَنَّھُمْ خِیَارُکُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ۔
ترجمہ : تم میرے صحابہ کی تکریم کروپس وہ بے شک تم میں سے بہترلوگ ہیں پھر وہ جوان سے متصل ہوں گے پھروہ جوان سے متصل ہوں گے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح باب مناقب الصحابہ رضی اللہ عنھم اجمٰعین)

محترم قارئینِ کرام : مندرجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کا اقرار ‘عزت کی حفاظت اوران کی پیروی کرنا ایمان کا حصہ ہے اور جو کوئی شخص کسی ایک صحابی رسول کے بارے میں بھی غلط عقیدہ رکھے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معاذ اللہ غبی یا احمق وغیرہ قرار دے تو وہ مسلمان اور مومن کہلانے کا حقدار نہیں ہو سکتا ۔

طبرانی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہے’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ، اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ‘‘ ایک اور حدیث میں ہے ’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ، اس نے مجھے گالیاں دیں اور جس نے مجھے گالیاں دیں ، اس نے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں ‘‘ غرض مذکورہ آیاتِ قرآنیہ اور اِن احادیـثِ نبویہ کے پیشِ نظر اہلِ علم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے ۔

نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم کا فرمان ہے : اََلَاوَ اِنَّ اَصْحَابِیْ خِیَارُکُمْ فَاَکْرِمُوْہُمْ ۔
ترجمہ : یخبر دار! میرے صحابہ تم سب میں بہترین ہیں ان کی عزت کرو ۔ (المعجم الأوسط،۵/۶حدیث:۶۴۰۵،چشتی)

حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تمام صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل ، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ حضورِ اقدس صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ بغض ہے ۔ تمام صحابہ کرام اعلیٰ و ادنیٰ (اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں) سب جنتی ہیں ، وہ جہنم کی بِھنک (ہلکی سی آواز بھی) نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے ۔ (بہار شریعت ،۱/۲۵۴)

ان نفوسِ قدسیہ کی فضیلت و مدح ، ان کے حسنِ عمل ، حسنِ اخلاق اور حسنِ ایمان کے تذکرے سے کتابیں مالا مال ہیں اور انہیں دنیا ہی میں مغفرت ، انعاماتِ اخروی اور باری تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا مثردہ سنا یا گیا ۔ چنانچہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے : رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ (پ۱۱،التوبہ:۱۰۰)
ترجمہ : اللّٰہ ان سے راضی اور وہ اللّٰہ سے راضی ہیں ۔

صدرُ الافاضِل حضرتِ علامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : مسلمان کو چاہیے کہ صَحابہ کرام (علیھم الرضوان) کا نہایت ادب رکھے اور دل میں ان کی عقیدت ومحبت کو جگہ دے ۔ ان کی محبت حُضُور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی محبت ہے اور جو بد نصیب صَحابہ (علیھم الرضوان)کی شان میں بے ادَبی کے ساتھ زَبان کھولے وہ دشمنِ خدا و رسول ہے ۔ مسلمان ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھے ۔ (سوانح کربلا صفحہ ۳۱،چشتی)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : ⬇

اہلسنّت کا ہے بَیڑا پار اَصحابِ حُضُور
نَجم ہیں اور ناؤ ہے عِترَت رسولُ اللّٰہ کی

یعنی اہلسنَّت کا بیڑا پار ہے کیوں کہ صَحابہ کرام عَلَیْھِمُ الرِّضْوان ان کیلئے ستاروں کی مانند اور اہلبیتِ اَطہارعَلَیْھِمُ الرِّضْوان کشتی کی طرح ہیں ۔

صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضوَان کو اِیذا دینے والے کی سزا

نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اسے پکڑے ۔ (ترمذی،کتاب المناقب،باب فی من سب اَصحاب النبی صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ۵/۴۶۳، حدیث:۳۸۸۸)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخ کا انجام

منقول ہے کہ حجا ج کا ایک قافلہ مدینہ منورہ پہنچا ۔ تمام اہلِ قافلہ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے مزارِ مبارک پر زیارت کرنے اور فاتحہ خوانی کےلئے گئے لیکن ایک شخص جو آپ سے بُغض وعنادرکھتا تھا توہین واِہانت کے طور پر آپ کے مزار کی زیارت کے لئے نہیں گیا اورلوگوں سے کہنے لگا کہ بہت دور ہے اس لئے میں نہیں جاؤں گا ۔ جب یہ قافلہ اپنے وطن کو واپس آنے لگا تو قافلہ کے تمام افراد خیر و عافیت اور سلامتی کے ساتھ اپنے اپنے وطن پہنچ گئے لیکن وہ شخص جو آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی قبرِ انور کی زیارت کے لئے نہیں گیا تھا اس کا یہ انجام ہوا کہ درمیان راہ میں بیچ قافلہ کے اندر ایک درندہ غراتا ہوا آیا اوراس شخص کو اپنے دانتوں سے دبوچ کر اور پنجوں سے پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔ یہ منظر دیکھ کر تمام اہلِ قافلہ نے یک زبان ہوکر کہا یہ حضرت ِسیدنا عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی بے ادبی وبے حرمتی کا انجام ہے ۔ (شواہدالنبوۃ صفحہ نمبر ۲۱۰،چشتی)

صَحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخوں کے ساتھ برتاؤ

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وسلَّم کا فرمان ہے : میرے صحابہ کو گالی مت دو ، کیونکہ آخِر زمانے میں ایک قوم آئے گی ، جو میرے صَحابہ کو گالی دے گی ، پس اگر وہ (گالیاں دینے والے) بیمار ہو جائیں تو ان کی عِیادت نہ کرنا ، اگر مر جائیں تو ان کی نَمازِ جنازہ نہ پڑھنا ، ان سے ایک دوسرے کا نِکاح نہ کرنا ، نہ انہیں وِراثت میں سے حصّہ دینا ، نہ انہیں سلام کرنا اور نہ ہی ان کے لیے رَحمت کی دُعا کرنا ۔ (تاریخ بغداد،۸/۱۳۸رقم:۴۲۴۰)

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اللّٰہ والوں کی بے ادبی وگستاخی کی لعنت سے محفوظ رکھے اوراپنے محبوبوں کی تعظیم وتوقیر اوران کے ادب واحترام کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔

فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی ، طلحہ ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸،چشتی)

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں : جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے ، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ ۱۹۸)

حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں : ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے ، اس میں تحریر فرماتے ہیں : اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں ، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض صفحہ ۳۱)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر کافر ہیں، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری:۲/۲۶۸،چشتی)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ اپنی کتاب مسویٰ شرح مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن بعض ایسی دینی حقیقتوں کی جن کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے قطعی ہے ایسی تشریح و تاویل کرتا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رضی اللہ عنہم اور اجماعِ امت کے خلاف ہے تو اس زندیق کہا جائے گا اور وہ لوگ زندیق ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اہل جنت میں سے نہیں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کو نبی نہ کہا جائے گا ، لیکن نبوت کی جو حقیقت کسی انسان کا اللہ کی طرف سے مبعوث ہونا ، اس کی اطاعت کا فرض ہونا اور اس کا معصوم ہونا ، یہ سب ہمارے اماموں کو حاصل ہے ، تو یہ عقیدہ رکھنے والے زندیق ہیں اور جمہور متأخرین حنفیہ ، شافعیہ کا اتفاق ہے کہ یہ واجب القتل ہیں ۔ (مسویٰ شرح مؤطا محمد)

درّ مختار میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان میں سے کسی ایک پر طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔ (درمختار)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ (شامی:۲/۲۹۴)

علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام امور میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ حق پر تھے اور فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین عادل ہیں اور ساری جنگیں اور اختلافات تاویل پر مبنی ہیں ان کے سبب کوئی بھی عدالت سے خارج نہیں اس لیے کہ وہ مجتہد ہیں ۔ الشرف المؤبد ص 104. حدیث میں ہے کہ جس نے میرے صحابہ کرام کو گالی دی اس پر اللہ اور رسول اور فرشتے اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔ (برکات آل رسول صفحہ 383 )

اصحاب رسول کو برا کہنے والے ملعون کی نہ فرض عبادت قبول نہ نفل: عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا ، فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا ، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا صَرْفًا وَلا عَدْلا ” , هذا حديث صحيح الأسناد ولم يخرجاه ، وقال الذهبي “صحيح” ۔ (مستدرك الحاكم : ٣/٦٣٢) ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ : الصَّرْفُ وَالْعَدْلُ : الْفَرِيضَةُ وَالنَّافِلَةُ ۔ (الشريعة للآجري » رقم الحديث: 1973)
ترجمہ : حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مروی ہیں کہ “بیشک الله تبارک و تعالیٰ نے مجھے چن لیا ، اور میرے لئے اصحاب کو چن لیا، پس ان میں بعض کو میرے وزیر اور میرے مددگار اور میرے سسرالی بنادیا، پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے ، ان پر الله کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت ، قیامت کے دن نہ ان کا کوئی فرض قبول ہوگا، اور نہ ہی نفل ۔ (السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 885 2) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:279) » رقم الحديث: 1553 3)الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1590(1772) 4) الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287،چشتی) » رقم الحديث: 1730(1946) 5) معجم الصحابة لابن قانع (سنة الوفاة:351) رقم الحديث: 1285 (1437) 6) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1972 7) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1973 8) المعجم الأوسط للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 467(456) 9) المعجم الكبير للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 13809(349) 10) جزء ابن الغطريف (سنة الوفاة:377) » رقم الحديث: 37 11) المستدرك على الصحيحين (سنة الوفاة:405) » رقم الحديث: 6686(3 : 629) 12) الجزء التاسع من الفوائد المنتقاة (سنة الوفاة:412) » رقم الحديث: 27 13) حديث ابن السماك والخلدي (سنة الوفاة:419) » رقم الحديث: 56 14) أمالي ابن بشران 20 (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 59 15) حلية الأولياء لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 1399(1401) 16) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4040 (4440) 17،چشتی) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4863 (5344) 18) المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي (سنة الوفاة:458) » رقم الحديث: 24(47) 19) تلخيص المتشابه في الرسم (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 936(2 : 631) 20) أربع مجالس للخطيب البغدادي (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 21 21) مجلسان من أمالي نظام الملك (سنة الوفاة:485) » رقم الحديث: 20 22) الثاني والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 55 23) السابع والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 14 24) التبصرة لابن الجوزي (سنة الوفاة:597) » رقم الحديث: 104 25) التدوين في أخبار قزوين للرافعيي (سنة الوفاة:623) » رقم الحديث: 1438 26) مشيخة أبي بكر بن أحمد المقدسي (سنة الوفاة:718) » رقم الحديث: 69 (70)

علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم تک دین صحابہ ء کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ذریعے ہی پہنچا ہے انہیں کو جب مطعون کردیا جائے گا تو آیات و احادیث بھی محل طعن بن جائیں گی اور اس میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے کہ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصال کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور مبلغ کی تبلیغ کےلیے اس کا عادل ہونا ضروری ہے اور ۔ (برکات آل رسول صفحہ 281،چشتی)

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مبارک سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز افضل ہیں یا حضرت امیر معاویہ آپ نے فرمایا : نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ جہاد کے موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں جو غبار داخل ہوا وہ غبار حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ سے افضل ہے ۔ الناہیہ صفحہ 16 پر علامہ قاضی عیاض علامہ معافی بن عمران علیہما الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ معافی نے فرمایا کہ صحابی پر کسی کسی کو بھی قیاس نہیں کیا جائے گا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی اور زوجہء رسول ام حبیبہ کے بھائی اور کاتب وحی ہیں ۔ (الناہیہ صفحہ 17)

بخاری شریف کی حدیث شریف ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جب کہ فلاں مسئلے میں انہوں نے یوں کیا تو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ انہوں نے ٹھیک کیا بیشک وہ فقیہ ہیں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 112)

بخاری مسلم ترمذی ابوداؤد وغیرہ کبار محدثین نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کو قبول فرمایا اور اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ان ائمہ محدثین کس قدر محتاط ہوئے ہیں اخذ حدیث کے معاملے میں کسی ذی علم پر مخفی نہیں خاص طور پر شیخین کہ ذرا سا عیب بھی پایا تو اس کی روایت لینے سے پرہیز کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو قبول کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان تمام ائمہ کرام کے نزدیک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ متقی عادل اور ثقہ قابل روایت ہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : اس عنوان پر بہت تحقیق ہوچکی ہے جو کتب عقائد میں موجود ہے جس کو مزید تحقیق درکار ہو وہ اہل سنت کی کتب کی طرف رجوع کرے اور بہت موٹی سی بات یہی سمجھ لے کہ جس سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ نے صلح کی ہم ان سے مخالفت نہیں کرسکتے کہ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے اعتماد کا کھلا مذاق ہے اور جس سے ان کے برادر صغیر سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیعت نہیں کی ہم اس یزید پلید سے صلح نہیں کرسکتے باقی جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان نزاع ہوا اس میں بحث کرنے سے خود کو دور رکھتے ہیں نہ ہم اس کے مکلف کہ مجالس میں صبح سے شام تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والی جنگوں کا ذکر کریں . ہمارے آقا کا فرمان ہے کہ کہ صحابہ کرام کے بارے میں تمہیں اللہ کا ڈر سناتا ہوں جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی الخ .
شرح عقائد : خوب کان کھول کر سن لیجیے جو صحابہ کرام کی محبت کے نام پر اہل بیت کی شان میں گستاخی کرے ناصبی خارجی ہے اور جو محبت اہل بیت کے نام پر صحابہ کرام پر سب و شتم کرے رافضی ہے. دونوں کی محبت اور تعظیم فرض ہے . امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے : ⬇

اپنا ہے بیڑا پار اصحاب حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

امیر معاویہ بھی ہمارے سردار لیکن حق بجانب حیدر کرار (رضی اللہ عنہما)

ضروری گزارش : ہمارا یہ مضمون لکھنے کا مقصد واللہ صرف یہ بتانا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں سے کسی کو بھی مطعون کرنا کتنا جرم ہے اور سخت گمراہی ہے ایسے کتنے لوگ ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بغض سے سفر شروع ہوا اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بغض تک پہنچ گئے نعوذ باللہ من ذالک الف مرات ۔

لہٰذا جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد گمراہ نہ ہو ، وہ قرآن و سنت اور دین و شریعت پر عمل پیرا رہے ، یا وہ جادہٴ حق پر قائم اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہے تو ان کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے دور کے اکابر علماء ، محققین اور خدا ترس صلحاء سے دلائل و براہین کے ساتھ اختلاف ضرور کریں ، کیونکہ یہ ان کا حق ہے ، مگر خدارا ! ان کی توہین و تنقیص سے پرہیز کریں ، کیونکہ اس سے ان کی اولادوں اور نسلوں کے بے دین اور ملحد و خارجی ہونے کا شدید اندیشہ ہے ، چنانچہ ایسی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ جن لوگوں نے اکابر علماء اور صلحا کی گستاخی یا بے ادبی کی ، نہ صرف یہ کہ ان کی اولاد بے دین و گمراہ ہوگئی بلکہ ان کا انجام بھی کچھ اچھا نہیں ہوا ۔

ازواج مطہرات ، اہل بیت اطہار ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بے ادبی و گستاخی کرنے والا گمراہ اور بے ایمان ہے ، اس کو اسلامی عدالت میں تعزیراً سزادی جائے گی جو حد سے بھی سخت ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح اولیاء کرام کی بے ادبی و گستاخی کرنے والا گمراہ اور بدعقیدہ ہے اس کو بھی جو مناسب ہو تعزیراً سزا دی جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہماری نسلوں کو گستاخی اور بے ادبی سے بچنے ، اہل اللہ اور مقربین بارگاہِ الٰہی کی قدر دانی کی توفیق نصیب فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...