فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ دوازدہم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شہادت و تاریخِ شہادت حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ : شہادت خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ ذوالحجہ کی تقریباً ستائیس اٹھائیس تاریخ کو حضرت عمر ابن خطاب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر مسجد نبوی میں نماز پڑھاتے ہوۓ ابو لٶلٶ فیروز مجوسی ایرانی نے قلاتلانہ حملہ کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ زخمی ہوۓ اور محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو آپ رضی اللہ عنہ شہید ہوۓ ۔ اس سے معلوم ہوا اسلامی سال شروع بھی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہے اور ختم بھی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر ہوتا ہے ۔ اس لیے بہت سے ابلیس کے چیلوں کو تکلیفِ شدید ہوتی ہے ۔
فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ مِنْکَ يَا عُمَرُ ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ۔ وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ۔
ترجمہ : نبی کریم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر رضی اللہ عنہ تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب عمر 5 / 620 الحديث رقم : 3690،چشتی)(نوادر الأصول فی أحاديث الرسول 1 / 230)(فتح الباری 11 / 588)
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے خود دی ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کوہ احد پر تشریف لے گئے ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آگیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا : اثبت احد، فما عليک الا نبی او صديق او شهيدان ۔ (صحيح البخاری، کتاب فضائل صحابة، رقم: 3483)
ترجمہ : اے احد ! ٹھہر جا ۔ تیرے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں ۔
26 ذوالحجہ 23 ھجری کو آپ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ۔ آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہوگئے ۔ چار دن تک آپ موت و حیات کی کشمکش میں رہے ۔ آخر وقت پر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاٶ اور ان سے کہو عمر آپ کو سلام کہتا ہے ۔ سلام کرنے کے بعد عرض کرنا کہ عمر بن خطاب آپ سے اجازت مانگتا ہے کہ اسے اپنے دونوں دوستوں کے پاس قبر کی جگہ مل جائے ۔ جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ بیٹھی ہوئی زارو قطار رو رہی ہیں۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلام پہنچایا اور ان کی خواہش پیش کی۔ حضرت ام الومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں نے وہ جگہ اپنی قبر کےلیے رکھی ہوئی تھی مگر آج میں عمر کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں کہ انہیں اس جگہ پر دفن کیا جائے ۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس پہنچے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر آگئے۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے بٹھادو ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو بٹھا دیا گیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہو کیا جواب لے کر آئے ہو ؟ انہوں نے کہا : آپ کی خواہش کے مطابق جواب ملا ہے۔ یہ سن کر کہا: الحمدللہ! مجھے اس سے زیادہ کسی اور بات کی خواہش نہ تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری خواہش پوری ہوگئی ہے۔ جب میری روح قفس عنصری سے پرواز کرجائے تو ایک بار پھر حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اجازت مانگنا۔ اگر وہ بطیب خاطر اجازت دے دیں تو مجھے حجرہ اقدس میں دفن کردینا اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان میں لے جاکر دفنا دینا ۔
یکم محرم الحرام 24 ھجری کو اپنے بیٹے سے کہا : میری پیشانی زمین سے لگادو ۔ اس طرح سجدے کی حالت میں جان ، جان آفرین کے سپرد کردی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
بعض لوگ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے یوم شہادت کی تاریخ یکم محرم الحرام کی نہ صرف نفی کرتے ہیں ، بلکہ جو اس بات کا قائل ہو ، اور اِس دن آپ کا یوم مناتا ہو ، اُسے طرح طرح کی باتیں بھی کرتے ہیں ، اور اب تو اِن علمی یتیموں کی بدمعاشیاں اتنی بڑھ چکی ہیں ، کہ سُنیوں کو یہ طعنہ بھی دینا شروع کر دیا کہ : تم یکم محرم کو یومِ فاروق اعظم ، معاذاللہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے بغض میں مناتے ہو ، کہ آپ کا یوم وصال تو 26 ذی الحج ہے لہٰذا اس دن آپ رضی الله کا ذکر وغیرہ کرتے ۔
26ذو الحجۃ الحرام کی صبح ایک مجوسی غلام ابو لؤلؤ فیروز نے آپ پر فجر کی نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا اور شدید زخمی کردیا، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا، جب لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر آپ کے گھر میں لائے تو مسلسل خون بہنے کی وجہ سے آپ پر غشی طاری ہو چکی تھی ہوش میں آتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا اور وضو کر کے نمازِ فجر ادا کی پھر چند دن شدید زخمی حالت میں گزار کر اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی ۔ حضرتِ صُہَیْب رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو یکم محرَّم الحرام 24 ہجری روضۂ رسول میں خلیفۂ اوّل حضرتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 266، 280، 281)(تاریخ ابن عساکر جلد 44 صفحہ 422، 464)
ادارہ منہاج القرآن کے مفتی اعظم جناب علامہ مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی صاحب لکھتے ہیں : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو 26 ذوالحجہ 23 ھجری بروز بدھ نماز فجر کے وقت جب آپ محراب میں کھڑے نماز پڑھا رہے تھے ابولولو فیروز مجوسی ایرانی نے دو دھاری دار خنجر سے تین یا چھ ضربیں لگائیں ۔ ۔ ۔ تین دن بعد آپ کی وفات ہوگئی اور بروز ہفتہ یکم محرم 24 ھجری آپ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے قرب اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔(منہاج الفتاوی ، جلد اول صفحہ 496۔497 ، منہاج القرآن پبلی کیشنز لاہور،چشتی)
ماہنامہ منہاج القرآن ستمبر 2018ء میں حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ پر ایک مضمون شائع کیا گیا جس میں لکھا ہے کہ : یکم محرم الحرام کو آپ (سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ) کا یوم شہادت ہے زندہ قومیں اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن صفحہ 16 ستمبر 2018 لاہور)
ادارہ منہاج القرآن کے مشہور ریسرچ اسکالر جناب ڈاکٹر علی اکبر الازھری صاحب کا مضمون ''حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پیکرِ عدل و صاحب بصیرت'' شائع ہوا ، جس میں ٹاپ پر ہی لکھا ہے کہ : یوم شہادت یکم محرم الحرام کی مناسبت سے خصوصی تحریر ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن ، اکتوبر 2015ء لاہور،چشتی)
ایک ماہنامہ منہاج القرآن جو نومبر 2013ء میں شائع ہوا ، اُس میں بھی آپ کا یوم شہادت یکم محرم الحرام درج ہے ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن صفحہ 20 نومبر 2013ء لاہور)
ماہنامہ دختران اسلام منہاج القرآن اکتوبر 2016ء کے صفحہ نمبر 42 پر بھی 26 ذی الحج کو زخمی اور یکم محرم کو شہید ہونا لکھا ہے ۔
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ کا یوم شہادت 26 ذی الحج نہیں ، بلکہ یکم محرم الحرام ہے ، لہٰذا مبغضینِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا یکم محرم والے سُنّیوں پر فتوے لگانا ، انہیں بُرا بھلا کہنا اِن کی اپنی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، کہ یہ وہ جہلا ہیں ، جو نہ گھر کے نہ ہی گھاٹ کے ۔
آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت دس سال پانچ ماہ اکیس دن بنتا ہے ۔
صحابی رسول حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو مجوسی تھا ۔ اس کا نام ابو لولوہ تھا ۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجیے ۔ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لیے زیادہ نہیں ہیں ۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا ۔ 26 ذی الحجہ 23 ھجری بروز بدھ آپ رضی اللہ عنہ نماز فجر کی ادائیگی کےلیے مسجد نبوی میں تشریف لائے ۔ جب آپ نماز پڑھانے کےلیے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد 63 سال کی عُمر میں جامِ شہادت نوش فرمایا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی شہادت کے موقع پر لوگوں نے پوچھا ، یا امیر المؤمنین کچھ وصیتیں فرمائیے اور خلافت کےلیے کسی کا انتخاب بھی فرما دیجیے اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا خلافت کےلیے میں ان چھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو مستحق سمجھتا ہوں جن سے اللہ کے رسول دنیا سے راضی ہو کر گئے ہیں ۔ پھر آپ نے چھ صحابہ کے نام بتائے ۔ حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہم ان چھ صحابہ میں سے جن کو چاہیں منتخب کر لیں ۔ (تاریخ الخلفاء)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے چھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو خلیفہ کے انتخاب کےلیے جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ پہلے تین آدمی اپنا حق تین آدمیوں کو دے کر خلافت کے حق سے الگ ہو جائیں ۔ لوگوں نے اس کی حمایت کی ۔ چنانچہ حضرت زبیر حضرت علی کے حق میں ، حضرت سعد بن وقاص حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے حق میں ، اور حضرت طلحہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے حق میں دست بردار ہو گئے ۔
تینوں منتخب صحابہ رضی اللہ عنہم باہمی مشورے کےلیے ایک طرف چلے گئے اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اپنے لیے خلافت پسند نہیں کرتا لٰہذا میں اس سے دست بردار ہوتا ہوں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما خاموش کھڑے رہے ۔ پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے دونوں صحابہ سے فرمایا ۔ اگر آپ دونوں حضرات خلیفہ کے انتخاب کا کام میرے ذِمے چھوڑ دیں تو خدا کی قسم ! میں آپ دونوں میں سے بہتر اور افضل شخص کا انتخاب کروں گا ۔ دونوں حضرات اس پر متفق ہو گئے ۔ دونوں بزرگوں سے عہد و پیماں لینے کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف حضرت علی کو ایک کونے میں لے گئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے علی رضی اللہ عنہ آپ اسلام قبول کرنے والے اولین میں سے ہیں اور آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قریبی عزیز ہیں لٰہذا میں اگر آپ کو خلیفہ مقرر کروں تو کیا آپ خلافت قبول کر لیں گے ۔ آپ نے فرمایا ۔ ہاں ۔ اگر میں آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو آپ پر خلیفہ مقرر کروں تو کیا آپ منظور کر لیں گے ۔ حضرت علی نے فرمایا ۔ مجھے یہ بھی منظور ہے ۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ، حضرت عثمان غنی کو ایک کونے میں لے گئے اور یہی دو سوال کئے وہ بھی متفق ہو گئے ۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کر لی اس طرح حضرت علی نے بھی بیعت کر لی ۔ رضی اللہ عنہم ۔
ابن اثير جزرى اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ “حضرت عمر رضي الله عنه کو جب زخمی کیا گیا تو وہ دن بدھ کا دن تھا، اور ماه ذو الحج ختم ہونے میں تین دن باقی تھے ، اور آپ کی تدفین اتوار کی صبح ہوئی اور اس دن محرم کا پہلا دن تھا ۔ (اسد الغابة في معرفة الصحابة ، جلد 4 صفحہ 166،چشتی)
نوٹ : ابن اثیر نے آگے ایک اور روایت ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ “والاول اصح ما قيل في عمر” کہ پہلی بات جو حضرت عمر رض کے بارے میں کہی گئی ہے وہ زیاہ صحیح ہے (یعنی آپ کی تدفین یکم محرم کو ہوئی تھی)
ابو حفص الفلاس کی روایت ہے کہ “ذو الحجة کی چند راتیں باقی تھیں کہ حضرت عمر رضي الله عنه حملے میں زخمی کیے گئے ، اسکے بعد آپ تین راتیں زندہ رہے اور سنہ 24 ہجری کے محرم کی پہلی تاریخ کو آپ کی وفات ہوئی ۔ (تاريخ مدينة دمشق يعني تاريخ ابن عساكر جلد 44 صفحہ 478)
حضرت عبد الله بن زبير رضی الله عنه سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : حضرت عمر رضي الله عنه کو بروز بدھ جب ذو الحج کے تین دن باقی تھے زخمی کیا گیا پھر آپ تین دن تک زندہ رہے پھر اس کے بعد آپ کی وفات ہوئی ۔ (كتاب المحن صفحہ نمبر 66،چشتی)
حضرت عمر رضی الله عنه کی وفات کس تاریخ کو ہوئی تو ایک كتاب میں یہ الفاظ ملے کتاب کا مصنف “رافضی” ہے اور متشدد قسم کا رافضی ہے نام ہے “نعمة الله جزائرى” لکھتا ہے کہ : دوسرے کا قتل 9 ربيع الاول کو ہوا ۔ (دوسرے مراد خلیفہ دوم ہیں) (الانوار النعمانية ، جلد 1 صفحه 84) ۔ اور اس پر مزید مزے کی بات یہ ملی کہ اس کتاب پر حاشیہ میں یہ لکھا گیا کہ “قتل عمر في اليوم التاسع منه كان مشهوراً بين الشيعة” یہ بات شيعه میں مشھور تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قتل 9 ربيع الاول کو ہوا تھا ۔
اس کے علاوہ یہ بات نہایت اہم ہے کہ کم و بیش تقریبا ہر مورخ نے ہی ان پر ابو لولو فیروز کے حملہ کرنے سے شہادت کے دن تک کا درمیانی حصہ تین یا چار دن ذکر کیا ہے ۔ ہمارا بھی یہی موقف ہے کہ حضرت عمر پر حملہ 26 یا 27 ذی الحجہ کو ہوا اور ان کی شہادت اس واقعہ کے تیسرے یا چوتھے دن بعد 1 محرم الحرام کو ہوئی اور حجرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں اسی روز دفن ہوئے ۔ اس بارے میں حافظ ابن کثیر کی صراحت اصح ہے ۔ اگر کوئی قول 26 ذی الحج کا مل بھی جائے تو بھی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں اقوال ملتے ہیں پر مشہور قول جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ علامہ ابن کثیر اور دیگر آئمہ اہلسنت کے نزدیک یکم محرم ہی ہے ۔
کسی کی تاریخ ولادت یا شہادت میں اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن شیعہ و نیم شیعہ تفضیلی حضرات اسے بغض اہلبیت رضی اللہ عنہم بتا کر لوگوں کو گمراہ کر تے ہیں کہ اہلسنت و جماعت نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اصل شہادت تاریخ بدل دی اور وہ اس لیے کہ انہیں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقابلہ کرنا ہے (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه) اور اصل تاریخ یکم محرم نہیں بلکہ 26 ذی الحج ہے ۔ اِس باب میں روایات اور تعبیرات کا اختلاف ہے، ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روح مبارک ۲۹/ ذی الحجہ سنہ ۲۳ھ کو قبض ہوئی ہو اور تدفین یکم محرم کی تاریخ لگ جانے کے بعد ہوئی ہو جیسا کہ روایات میں موجود ہے ۔ اور یہ مسئلہ چوں کہ از قبیل عقائد یا اعمال نہیں ہے ، محض علمی و تاریخی ہے اس لیے اس میں زیادہ الجھنے کی ضرورت نہیں ۔
طبقات ابن سعد ج 3 ص 123 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی) کا ہے۔ اول تو امام ابن سعد نے اس معاملے میں از خود کوئی واضح تاریخ معین نہیں فرمائی ۔ دوسرا کہ انہوں نے اس باب کا عنوان ہی یہ بنایا ہے کہ حضرت عمر کی مدت خلافت اور حضرت عمرفارق کی عمر کے متعلق مختلف اقوال ۔ پھر ان میں پہلے ترجمۃ الباب کی روایت کمزور ہے ۔ ابوبکر بن محمد بن سعد نامی راوی کا تذکرہ کیا تو اس میں اختلاف نہیں کہ وہ مہجول الحال ہے۔ اس طرح سے 26 ذی الحجہ والی روایت نہایت کمزور ہے ۔
تاریخ طبری جلد ٣ صفحہ ٦٣٥ دوسرا حوالہ تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 217 تا 218 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی کا ہے ۔ امام طبری نے بھی ابن سعد کی طرح ان کی تاریخ وفات کے اختلاف کا تذکرہ کیا ہے ۔ چنانچہ پہلا قول تو 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے اور یہ روایت بھی نہایت کمزور ہے کیونکہ اس کے دو راوی سلیمان بن عبد العزیز اور جعفر بن عبد الرحمن تو مجہول الحال ہیں اور ایک راوی عبد العزیز بن عمران متروک ہے ۔
دوسرا قول عبد العزیز بن عمران کا ہی ہے جو کہ بغیر کسی جرح کے 1 محرم کا بتایا ہے ۔
تیسرا قول وہی ابن سعد کا ہی ذکر کیا ہے کہ 26 ذی الحجہ کو ہوئی لیکن جیسا پہلے واضح ہو چکا کہ وہ روایت انتہائی کمزور ہے ۔
چوتھا قول ابو معشر کا 26 ذی الحجہ کا ہے جو احمد بن ثابت الرازی کے طریق سے ہے جو کہ کذاب تھا ۔
پانچواں قول ہشام بن محمد کا 27 ذی الحجہ کا ہے جو کہ بلا سند اور منقطع ہے جو نہایت ہی کمزور ہے ۔
تاریخ ابن خلدون جلد ١ صفحہ ٣٨٤ ۔ تیسرا حوالہ تاریخ ابن خلدون (ج 3 ص 236 اردو ایڈیشن دار الاشاعت کراچی) کا ہے ۔ ابن خلدون نے اگرچہ 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے مگر بلا سند ہے اور اس کا مضمون تقریبا وہی ہے جو تاریخ طبری کا پہلا قول ہے جس کی سند نہایت کمزور ہے ۔
تاریخ المسعودی جلد ٦ صفحہ ٦٤٠ ۔ چوتھا حوالہ تاریخ مسعودی کا ہے ۔ علی بن حسین المسعودی شیعہ رافضی ہے جس کا قول ہمارے لئے حجت نہیں ۔ مسعودی شیعہ تھا ۔ (ثبوت دیکھیں تاریخ ابن کثیر جلد ٧ صفحہ ٦٧٩)
تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنہایہ جلد 7 صفحہ 184 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی) ۔ علامہ ابن کثیر نے کئی اقوال نقل کر کے پہلے قول ہی کو ترجیح دی ہے جو کہ یکم محرم الحرام کا ہے ۔
امام ابن الجوزی رحمة اللہ علیہ علیہ مناقب عمر رضی اللہ عنہ میں لکھتے ہیں : 23 ھجری کے ذوالحجہ کی چھبیس تاریخ بدھ کے روز آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا ، اور اتوار کے دن یکم محرم چوبیس ہجری کو دفن کئے گئے ۔ آپ کی مدت خلافت دس برس ، پانچ ماہ اور اکیس دن تھی ۔ طعن عمر رضي الله عنه يوم الأربعاء لأربع ليالٍ بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين ، ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين ، فكانت ولايته عشر سنين وخمسة أشهر وإحدى و عشرين ليلة ۔ تاریخ کامل کے مصنف نے بھی یہی لکھا ہے کہ ذی الحجہ کی چار راتیں باقی تھیں کہ آپ فوت ہو گئے اور یکم محرم کو دفن ہوئے ۔ (الکامل جلد ۳ صفحہ ۵۲)
علامہ مسعودی لکھتے ہیں : حضرت عمر کو ان کی خلافت کے دوران ہی میں مغیرہ کے غلام ابولولوہ نے قتل کر دیا تھا ۔ اس وقت سن ہجری کا ۲۳ واں سال تھااور بدھ کا دن تھا جب کہ ماہ ذی الحجہ کے اختتام میں چار روز باقی تھے ۔ (مروج الذہب جلد۲، صفحہ ۲۴۰)
امام محب الدین طبری لکھتے ہیں : آپ نے ۲۶ ذی الحجہ کو وصال فرمایا۔ بعض نے کہا کہ اس تاریخ کو زخم آیا تھا اور وفات آخری ذی الحجہ میں ہوئی ۔ (ریاض النضرہ جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۳۳۵،چشتی)
امام اہلسنت جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدھ کے دن ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ھجری کو شہید ہوئےاور ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو دفن کیے گئے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۳۹)
تاریخِ عالَم کے اس عظیم حکمران حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی عزّت و شرافت اور عظمت کے کارناموں کی اعلیٰ مثال تھی ، 26 ذو الحجۃ الحرام کی صبح ایک مجوسی غلام ابو لؤلؤ فیروز نے آپ پر فجر کی نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا اور شدید زخمی کردیا ، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ، جب لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر آپ کے گھر میں لائے تو مسلسل خون بہنے کی وجہ سے آپ پر غشی طاری ہوچکی تھی ہوش میں آتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا اور وضو کرکے نمازِ فجر ادا کی پھر چند دن شدید زخمی حالت میں گزار کر اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی ۔ حضرتِ صُہَیْب رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو یکم محرَّم الحرام 24 ہجری روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں خلیفۂ اوّل حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ (طبقات ابن سعد، ج3،ص266، 280، 281)(تاریخ ابن عساکر،ج 44،ص422، 464)
بوقتِ شہادت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عُمْر مبارک 63 برس تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ احادیث کی تعداد 537 ہے ۔
آج کل مسئلہ یہ ہے کہ یہ بعض لوگ اس حوالے سے عوام کو گمراہ کرنے کےلیے جھوٹ گھڑنے اور حقائق کو توڑ موڑ کے پیش کرنے سے بھی باز نہیں آتے ۔ حضرت عمر اور پھر حضرت امام حسین ، کربلا اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے حوالے سے بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن کو محرم میں خصوصی طور پر ہائی لائیٹ کر کے عوام کو کنفیوز کیا جاتا ہے ۔ فقیر نے کوشش کی ہے کہ جذباتی باتوں سے بچتے ہوئے اصل حقائق اور اعتدال کے راستے کی وضاحت کردی جائے ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر ایک کافر مجوسی ابو لؤلؤ فیروز نے حملہ کر کے سخت زخمی کر دیا تھا ۔ اسلام کے سنہری دور اور فتنوں کے درمیان دروازہ ٹوٹ گیا تھا ۔ آپ کو دودھ پلایا گیا تو وہ انتڑیوں کے راستے سے باہر آگیا ۔ اس حالت میں ایک نوجوان آیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس کا ازار ٹخنوں سے نیچے ہے تو آپ نے فرمایا : ابْنَ أخِیْ ! اِرْفَعْ ثَوْبَکَ فَإنَّہُ أَ نْقَی لِثَوْبِکَ وَأَتْقَی لِرَبِّکَ ‘‘ بھتیجے اپنا کپڑا (ٹخنوں سے) اوپر کرو ، اس سے تیرا کپڑا بھی صاف رہے گا اور تیرے رب کے نزدیک یہ سب سے زیادہ تقوے والی بات ہے ۔ (صحیح البخاری حدیث نمبر 3700،چشتی)
سبحان اللہ ! اپنے زخموں کی فکر نہیں بلکہ آخری وقت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کو سربلند کرنے کی ہی فکر اور جذبہ ہے ۔ یا اللہ عزوجل ! ہمارے دلوں کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محبت سے بھر دے ۔
یا اللہ عزوجل ! جو بدنصیب و بے ایمان لوگ امیر المؤمنین شہید رضی اللہ عنہ کو ناپسند کرتے ہیں ، ان لوگوں کی بد نصیبیاں و بے ایمانیاں ختم کر کے ان کے دلوں کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محبت سے بھر دے ۔ جو پھر بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بُغض پر ڈٹا رہے ایسے شخص کو دنیا و آخرت کے عذاب سے ذلیل و رسوا کر دے آمین ۔ الحَمْدُ ِلله مضمون مکمل ہوا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)