Wednesday, 27 April 2022

فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو

فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُكُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهۡلِهَا ۙ وَاِذَا حَكَمۡتُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡكُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمۡ بِهٖ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيۡعًۢا بَصِيۡرًا‏ ۔ (سورہ النسا آیت نمبر 58)
ترجمہ : بیشک اللہ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم امانت والوں کو ان کی امانتیں ادا کرو ‘ اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیسی اچھی نصیحت فرماتا ہے بیشک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔

اس آیت میں دو حکم بیان کیے گئے ۔ پہلا حکم یہ کہ امانتیں ان کے حوالے کردو جن کی ہیں اور دوسرا حکم یہ ہے کہ جب فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو ۔

یہ دونوں حکم اسلامی تعلیمات کے شاہکار ہیں اور امن و امان کے قیام اور حقوق کی ادائیگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔ دونوں کی کچھ تفصیل یوں ہے ۔

امانت کی ادائیگی میں بنیادی چیز تو مالی معاملات میں حقدار کو اس کا حق دیدینا ہے ۔ البتہ اس کے ساتھ اور بھی بہت سی چیزیں امانت کی ادائیگی میں داخل ہیں ۔ جیسے حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو مسلمانوں کا حاکم بنا پھر اس نے ان پر کسی ایسے شخص کو حاکم مقرر کیا جس کے بارے میں یہ خود جانتا ہے کہ اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کتاب و سنت کا عالم مسلمانوں میں موجود ہے تو اُس نے اللہ تعالیٰ ، اُس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی ۔(معجم الکبیر، عمرو بن دینار عن ابن عباس، ۱۱ / ۹۴، الحدیث: ۱۱۲۱۶،چشتی)

نظامِ عدل و عدالت کی روح ہی یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے ۔ فریقَین میں سے اصلاً کسی کی رعایت نہ کی جائے ۔ علماء نے فرمایا کہ حاکم کو چاہیے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابر سلوک کرے ۔ (1) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو موقع دے ، دوسرے کو بھی دے ۔ (2) نشست دونوں کو ایک جیسی دے ۔ (3) دونوں کی طرف برابر مُتَوَجِّہ رہے ۔ (4) کلام سننے میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے ۔ (5) فیصلہ دینے میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دِلائے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ انصاف کرنے والوں کو قربِ الٰہی میں نورکے منبر عطا کیے جائیں گے ۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل ۔۔۔ الخ، ص۱۰۱۵، الحدیث: ۱۸(۱۸۲۷))

قاضی شریح رضی اللہ عنہ کا عادلانہ فیصلہ : مسلمان قاضیوں نے اسلام کے عادلانہ نظام اور برحق فیصلوں کی ایسی عظیمُ الشان مثالیں قائم کی ہیں کہ دنیا ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتی ، اس موقع پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے : جنگِ صفین کے موقع پرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک زِرَہ گم ہو گئی ، بعد میں جب آپ رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لائے تو وہ زِرہ ایک یہودی کے پاس پائی ، اسے فرمایا : یہ زِرَہ میری ہے ، میں نے تمہیں بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے ۔ یہودی نے کہا : یہ زِرہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے ۔ فرمایا : ہم قاضی صاحب سے فیصلہ کرواتے ہیں ، چنانچہ یہ قاضی شُرَیح رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پہنچے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تشریف فرما ہوئے ۔ قاضی شریح رضی اللہ عنہ نے کہا : اے امیرُ المؤمنین ! ارشاد فرمائیے ۔ فرمایا : اس یہودی کے قبضے میں جو زِرہ ہے وہ میری ہے ، میں نے اسے نہ بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے ۔ قاضی شریح رضی اللہ عنہ نے یہودی سے فرمایا : اے یہودی ! تم کیا کہتے ہو ؟ یہودی بولا : یہ زِرَہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے ۔ قاضی صاحب رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا : اے امیر المؤمنین ! کیا آپ کے پاس کوئی دلیل ہے ؟ فرمایا : ہاں ، قنبر اور حسن دونوں اس بات کے گواہ ہیں ۔ قاضی صاحب رضی اللہ عنہ نے کہا : (کہ حسن آپ کے بیٹے ہیں اور شرعی اصول یہ ہے کہ) بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں جائز نہیں ۔ جب اس یہودی نے قاضی صاحب کا عادلانہ فیصلہ سنا تو حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا : اے امیر المومنین ! آپ مجھے قاضی صاحب کے پاس لے کر آئے اور قاضی صاحب نے آپ ہی کے خلاف فیصلہ کر دیا ! میں گواہی دیتا ہوں کہ یہی مذہب حق ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ، یہ زِرہ آپ ہی کی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش ہوئے ، وہ زِرہ اور ایک گھوڑا اُسے تحفے میں دے دیا ۔ (تاریخ الخلفاء، ابو السبطین: علی بن ابی طالب، فصل فی نبذ من اخبار علی ۔۔۔ الخ، ص۱۸۴-۱۸۵، الکامل فی التاریخ، سنۃ اربعین، ذکر بعض سیرتہ، ۳ / ۲۶۵)

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے بعض احوال بیان فرمائے اور وعید اور وعد کا ذکر فرمایا ‘ اس کے بعد پھر احکام تکلیفیہ کا ذکر شروع فرمایا ‘ نیز اس سے پہلے یہود کی خیانت کا ذکر فرمایا تھا کہ ان کی کتاب میں سیدنا محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر جو دلائل ہیں وہ ان کو چھپالیتے ہیں اور لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرتے اور اس میں خیانت کرتے ہیں تو اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کو امانت داری کا حکم دیا ۔ امانت ادا کرنے کا حکم عام ہے خواہ مذاہب میں ہو ‘ عقائد میں ہو معاملات میں ہو یا عبادات میں ہو ۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں : ابن جریج نے بیان کیا ہے کہ یہ آیت عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ کے متعلق نازل ہوئی ہے فتح مکہ کے دن جب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو آپ نے اس سے کعبہ کی چابیاں لے لیں پھر آپ بیت اللہ کے باہر اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے آئے ‘ پھر آپ نے عثمان کو بلایا اور انہیں چابیاں دے دیں ۔ (جامع البیان ج ٥ ص ٩٢)

فان امن بعضکم بعض فلیؤد الذی اؤتمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ ۔ (سورہ البقرہ : ٢٨٣) 
ترجمہ : پس اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتبار ہو تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس کی امانت ادا کردے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے ۔

یایھا الذین امنوا لا تخونوا اللہ والرسول وتخونوا امانتکم وانتم تعلمون ۔ (سورہ الانفال : ٢٧) 
ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرودرآں حالیکہ تم کو علم ہے ۔

والذین ھم لامنتھم وعھدھم راعون ۔ (سورہ المؤمنون : ٨) 
ترجمہ : اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں ۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو ‘ سائل نے پوچھا امانت کیسے ضائع ہوگی ؟ آپ نے فرمایا جب کوئی منصب کسی نااہل کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٥٩،چشتی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جو تمہارے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کرو اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے ساتھ خیانت نہ کرو ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٣٥)(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٢٦٨،چشتی)(سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٥٩٧)(مسند احمد ج ٣ ص ١٤١٤)(المستدرک ج ٢ ص ٤٦)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا مجالس کی گفتگو امانت ہوتی ہے ماسوا اس کے کہ کسی کا ناجائز خون بہانا ہو ‘ یا کسی کی آبرو ریزی کرنی ہو یا کسی کا مال ناحق طریقہ سے حاصل کرنا ہو (یعنی اگر ایسی بات ہو تو اس کی صاحب حق کو اطلاع دے کر خبردار کرنا چاہیے) ۔ (سنن ابودادؤ‘ رقم الحدیث : ٤٨٦٩)

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں : 
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جو شخص امانت دار نہ وہ اس کا ایمان نہیں اور جو وضو نہ کرے اس کا ایمان نہیں ۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢٥٤،چشتی)

حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں ‘ جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو امانت ادا کرو ‘ جب تم عہد کرو تو اس کو پورا کرو ‘ جب تم بات کرو سچ بولو ‘ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو ‘ اپنی نظریں نیچی رکھو اور اپنے ہاتھ نہ پھیلاؤ ۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢٥٦)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اس امت میں سے جو چیزیں سب سے پہلے اٹھائی جائیں گی وہ حیا اور امانت ہیں ‘ سو تم اللہ عزوجل سے اس کا سوال کرو ۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢٧٦)
 
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کسی شخص کی نماز اور روزے سے تم دھوکے میں نہ آنا ‘ جو چاہے نماز پڑھے اور جو چاہے روزے رکھے لیکن جو امانت دار نہیں ہے وہ دین دار نہیں ہے ۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢٧٩،چشتی)

انسان کا معاملہ اپنے رب کے ساتھ متعلق ہوتا ہے یا مخلوق کے ساتھ اور ہر معاملہ کے ساتھ اس پر لازم ہے کہ وہ اس معاملہ کو امانت داری کے ساتھ کرے ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام بجالائے اور جن چیزوں سے اللہ نے اس کو منع کیا ہے ان سے رک جائے ‘ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہر چیز میں امانت داری لازم ہے ‘۔ وضو میں جنابت میں ‘ نماز میں ‘ زکوۃ میں اور روزے میں ‘ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انسان میں شرم گاہ پیدا کی اور فرمایا میں اس امانت کو تمہارے پاس چھپا کر رکھ رہا ہوں ‘ اس کی حفاظت کرنا ‘ ہاں اگر اس کا حق ادا کرنا ہو ‘ یہ بہت وسیع معاملہ ہے ‘ زبان کی امانت یہ ہے کہ اس کو جھوٹ ‘ چغلی ‘ غیبت ‘ کفر ‘ بدعت اور بےحیائی کی باتوں میں نہ استعمال کرے ‘ آنکھ کی امانت یہ ہے کہ اس سے حرام چیز کی طرف نہ دیکھے ۔ کان کی امانت یہ ہے کہ اس سے موسیقی ‘ فحش باتیں ‘ جھوٹ اور کسی کی بدگوئی نہ سنے ‘ نہ دین اور خدا اور رسول کے خلاف باتیں سنے ‘ ہاتھوں کی امانت یہ ہے کہ ان سے چوری ‘ ڈاکہ ‘ قتل ‘ ظلم اور کوئی ناجائز کام نہ کرے ‘ منہ میں لقمہ حرام نہ ڈالے ‘ اور پیروں کی امانت یہ ہے کہ جہاں جانے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے وہاں نہ جائے اور تمام اعضاء سے وہی کام لے جن کاموں کے کرنے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الانسان ‘ انہ کان ظلوما جھولا ۔ (الاحزاب ‘ ٧٢) 
ترجمہ : ہم نے آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں پر اپنی امانت کو پیش کیا انہوں نے اس امانت میں خیانت کرنے سے انکار کیا اور اس میں خیانت کرنے سے ڈرے ‘ اور انسان نے اس میں خیانت کی بیشک وہ ظالم اور جاہل ہے ۔ 

تمام مخلوق کی امانت کو ادا کرنا ‘ اس میں یہ امور داخل ہیں : اگر کسی شخص نے کوئی امانت رکھوائی ہے تو اس کو واپس کرنا ‘ ناپ تول میں کمی نہ کرنا ‘ لوگوں کے عیوب بیان نہ کرنا ‘ حکام کا عوام کے ساتھ عدل کرنا ‘ علماء کا عوام کے ساتھ عدل کرنا بایں طور پر کہ انکی صحیح رہنمائی کرنا ‘ تعصب کے بغیر اعتقادی مسائل کو بیان کرنا ‘ اس میں یہود کیلیے بھی یہ ہدایت ہے کہ سیدنا محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے جو دلائل تورات میں مذکور ہیں ان کو نہ چھپائیں ‘ اور بیوی کےلیے ہدایت ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت اور اس کے مال کی حفاظت کرے اور جس شخص کا گھر میں آنا اسے ناپسند ہو اس کو نہ آنے دے ‘ تاجر ذخیرہ اندوزی نہ کریں ‘ بلیک مارکیٹ نہ کریں ‘ نقلی دوائیں بنا کر لوگوں کی جان سے نہ کھیلیں ‘ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ نہ کریں ‘ ٹیکس نہ بچائیں ‘ اسمگلنگ کر کے کسٹم ڈیوٹی نہ بچائیں ۔ سودی کاروبار نہ کریں ‘ ہیروئن ‘ چرس اور دیگر نشہ آور اور مضر صحت اشیاء کو فروخت نہ کریں ‘ بیروکریٹس رشوت نہ لیں ‘ سرکاری افسران اپنے محکمہ سے ناجائز مراعات حاصل نہ کریں ‘ ڈیوٹی پر پورا وقت دیں ‘ دفتری اوقات میں غیر سرکاری کام نہ کریں ۔ آج کل شناختی کارڈ ‘ پاسپورٹ مختلف اقسام کے لائسنس اور ٹھیکہ داروں کے بل غرض کوئی کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہوتا جب ان کاموں کا کرنا ان کی سرکاری ڈیوٹی ہے تو بغیر رشوت کے یہ کام نہ کرنا سرکاری امانت میں خیانت ہے ‘ اسی طرح ایک پارٹی کے ممبر کو عوام میں اس پارٹی کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں ممبربننے کے بعد وہ رشوت لے کر لوٹا کریسی کی بنیاد پر پارٹی بدل لیتا ہے تو وہ بھی عوام کے انتخاب اور ان کی امانت میں خیانت کرتا ہے ‘ حکومت کے ارکان اور وزراء جو قومی خزانے اور عوام کے ٹیکسوں سے بلاوجہ غیر ملکی دوروں پر غیر ضروری افراد کو اپنے ساتھ لے جا کر اللے تللے اور عیاشیاں کرتے ہیں وہ بھی عوام کی امانت میں خیانت کرتے ہیں ‘ اسکول اور کالجز میں اساتذہ اور پروفیسر حضرات پڑھانے کی بجائے گپ شب کر کے وقت گزار دیتے ہیں ۔ یہ بھی امانت میں خیانت ہے ‘ اسی طرح تمام سرکاری اداروں میں کام نہ کرنا اور بےجا مراعات حاصل کرنا اور اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو نوازنا ‘ کسی اسامی پر رشوت یا سفارش کی وجہ سے نااہل کا تقرر کرنا یہ بھی امانت میں خیانت ہے ، کسی دنیاوی منفعت کی وجہ سے نااہل کو ووٹ دینا یہ بھی خیانت ہے ۔ اگر ہم گہری نظر سے جائزہ لیں تو ہمارے پورے معاشرے میں خیانت کا ایک جال بچھا ہوا ہے اور ہر شخص اس نیٹ ورک میں جکڑا ہوا ہے ۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحت افراد کے متعلق سوال ہوگا ‘ حاکم نگہبان ہے اور اس سے اپنے عوام کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ اور مرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے اور اس سے اپنے اہل کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اور اس سے امور خانہ کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ نوکر اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ اور ایک شخص اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ اور تم میں سے ہر شخص (کسی نہ کسی چیز کا) نگہبان ہے اور اس سے اس چیز کے متعلق جواب طلبی ہوگی ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٨٩٣)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٢٩)(سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٢٩٢٨)(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٧١١،چشتی)(مسند احمد ج ٢ ص ٥)

امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس شخص نے کسی آدمی کو کسی جماعت کا امیر بنایا حالانکہ اس کی جامعت میں اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بندہ تھا تو بنانے والے نے اللہ ‘ اس کے رسول اور جماعت مسلمین سے خیانت کی ‘ اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ لیکن امام بخاری اور مسلم نے اس کو روایت نہیں کیا ۔ (المستدرک ج ٤ ص ٩٣۔ ٩٢)

علامہ علی متقی بن حسام الدین ہندی متوفی ٩٧٥ ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس آدمی نے کسی شخص کو مسلمانوں کا عامل بنایا حالانکہ وہ شخص جانتا تھا کہ اس سے بہتر شخص موجود ہے جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا زیادہ جاننے والا ہے تو اس آدمی نے اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور تمام مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ۔ (کنز العمال ج ٦ ص ٧٩)

ان دونوں حدیثوں کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے : ⬇

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس شخص کو بغیر علم کے فتوی دیا گیا تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا ‘ اور جس شخص نے اپنے بھائی کی رہنمائی کسی چیز کی طرف کی حالانکہ اس کو علم تھا کہ اہلیت اور صلاحیت اس کے غیر میں ہے تو اس نے اپنے بھائی کی ساتھ خیانت کی ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٦٥٧)

انسان کا اپنے نفس کے ساتھ امانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کےلیے اس چیز کو پسند کرے جو دین اور دنیا میں اس کے لیے زیادہ مفید اور نفع آور ہو ‘ اور غلبہ غضب اور غلبہ شہوت کی وجہ سے ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے مآل کار دنیا میں اس کی عزت وناموس جاتی رہے اور آخرت میں وہ عذاب کا مستحق ہو ‘ انسان کی زندگی اور صحت اس کے پاس اللہ کی امانت ہے وہ اس کو ضائع کرنے کا مجاز نہیں ہے ‘ اس لیے سگریٹ پینا ‘ چرس ‘ ہیروئن اور کسی طرح تمباکو نوشی کرنا ‘ افیون کھانا ‘ یہ تمام کام صحت اور انسانی زندگی کے لیے مضر ہیں ‘ اسی طرح شراب پینا یا کوئی نشہ آور مشروب کھانا اور پینا ‘ نشہ آور دوائیں استعمال کرنا یہ بھی انسان کی صحت کےلیے مضر ہیں اور آخرت میں عذاب کا باعث ہیں ‘ اور یہ تمام کام اپنے نفس کے ساتھ خیانت کے زمرہ میں آتے ہیں ‘ ناجائز ذرائع سے آمدنی حاصل کرنا ‘ لوگوں پر ظلم کرنا یہ بھی دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب ہیں اور اپنی ذات کے ساتھ خیانت کرنا ہے ‘ فرائض اور واجبات کو ترک کرکے اور حرام کاموں کا ارتکاب کرکے خود کو عذاب کا مستحق بنانا یہ بھی اپنی ذات کے ساتھ خیانت ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کا مکلف کیا ہے کہ وہ خود بھی نیک بنے اور اپنے گھر والوں کو بھی نیک بنائے : یایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا ۔ (سورہ التحریم : ٦) 
ترجمہ : اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ ۔

اگر کوئی شخص خود نیک ہے اور پابند صوم وصلوۃ ہے لیکن اس کے گھر والے اور اس کے ماتحت لوگ بدکار ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احکام پر عمل نہیں کرتے اور وہ ان کو برے کام ترک کرنے اور نیک کام کرنے کا حکم نہیں دیتا تب بھی وہ بری الذمہ نہیں ہے اور اخروی عذاب کا مستحق ہے اور اپنے نفس کے ساتھ خیانت کر رہا ہے کیونکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کا نگہبان ہے اور ہر شخص ان کے متعلق جواب دہ ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو ۔ (سورہ النساء : ٥٨)

اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی شخص کو حاکم بنایا جائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عدل سے فیصلہ کرے ‘ ہم اس جگہ قضاء کے متعلق احادیث بیان کریں گے تاکہ معلوم ہو کہ اسلام میں قضاء کے متعلق کیا ہدایات ہیں ۔ قضاء کے آداب اور قاضی کے ظلم اور عدل کے متعلق احادیث : ⬇

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت معاذ کو یمن کی طرف بھیجا ‘ آپ نے پوچھا تم کیسے فیصلہ کرو گے ‘ انہوں نے کہا میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا ‘ آپ نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں (مطلوبہ حکم) نہ ہو ؟ انہوں نے کہا پھر میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا ‘ آپ نے پوچھا اگر رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت میں مطلوبہ حکم نہ ہو ؟ انہوں نے کہا پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا ‘ آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرستادہ کو توفیق دی ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٢)سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٣٥٩٢)

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے سجستان میں اپنے بیٹے کی طرف خط لکھا کہ تم دو آدمیوں کے درمیان غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرنا ‘ کیونکہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کوئی شخص غصہ کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ١٧٥٨،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧١٧)(سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٩)(سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٨٩)

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب تمہارے پاس دو شخص مقدمہ پیش کریں تو جب تک تم دوسرے شخص کا موقف نہ سن لو پہلے کے لیے فیصلہ نہ کرو ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٦)(سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٣٥٨٢)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٣١٠)

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : قاضیوں کی تین قسمیں ہیں ایک جنت میں ہوگا اور دو دوزخ میں ہوں گے ‘ جنت میں وہ قاضی ہوگا جو حق کو پہچان لے اور اس کے مطابق فیصلہ کرے ‘ اور جو حق کو پہچاننے باوجود اس کے خلاف فیصلہ کرے وہ دوزخ میں ہوگا ‘ اور جو شخص جہالت سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے وہ بھی دوزخ میں ہوں گا ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٧٣،چشتی)

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جب حاکم اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور صحیح نتیجہ پر پہنچے تو اس کےلیے دو اجر ہیں اور جب وہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور غلط نتیجہ پر پہنچے تو اس کےلیے ایک اجر ہے ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٧٤)

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب اور اس کے نزدیک سب سے مقرب شخص امام عادل ہوگا اور سب سے زیادہ مبغوض اور سب سے دورامام ظالم ہوگا ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٤)
 
حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب تک قاضی ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ ظلم کرے تو اللہ اس کے ساتھ نہیں ہوتا اور شیطان اس سے چمٹ جاتا ہے ۔ (سنن ترمذی : ١٣٣٥)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس امت کو پاک نہیں کرتا جس میں اس کے کمزور کا حق اس کے طاقت ور سے نہ لیا جائے ۔ (اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے ‘ اس کی سند میں المثنی بن صباح ہے یہ ضعیف راوی ہے ‘ ایک روایت میں ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے اور ایک روایت میں کہا ہے اس کی حدیث لکھی جائے گی اور اس کو ترک نہیں کیا جائے گا ‘ اور دوسرے کے نزدیک یہ متروک ہے) ۔ (کشف الاستار عن زوائد البزار ‘ رقم الحدیث : ١٣٥٢)
 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی فیصلہ میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لعنت کی ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدی ١٣٤١)

امام طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا فیصلہ میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر اللہ نے لعنت کی ہے ۔ (المعجم الکبیر ج ٢٣ ص ٣٩٨)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس دن کسی کا سایہ نہیں ہوگا اس دن سات آدمی اللہ کے سائے میں ہوں گے ۔ عدل کرنے والا حاکم ‘ وہ شخص جو اللہ کی عبادت میں جوان ہوا ‘ جس کا دل مسجدوں میں معلق رہا ‘ وہ دو شخص جو اللہ کی محبت میں ملیں اور اللہ کی محبت میں جدا ہوں ‘ وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھ سے آنسو بہیں ‘ وہ شخص جس کو خوب صورت اور بااختیار عورت گناہ کی دعوت دے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ‘ وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے حتی کہ اس کے بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے کہ اس نے دائیں ہاتھ سے کیا دیا ہے ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٦٠،چتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٣١)(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ٢٣٩١)(صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٣٥٨)(مسند الطیالسی رقم الحدیث : ٢٤٦٢)(مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٩)(صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث : ٤٤٦٩)(سنن کبری للبیہقی : ج ٣ ص ٦٥)(شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٧٣٥٧)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : چار آدمیوں سے اللہ تعالیٰ بغض رکھتا ہے : جو بہت قسمیں کھا کر سودا بیچے ‘ متکبر فقیر ‘ بوڑھا زانی ‘ اور ظالم حاکم ۔ (صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث : ٥٥٣٢‘ شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٧٣٦٥)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : عدل کرنے والے حاکم کا ایک دن ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے اور زمین میں حد کو قائم کرنا اس زمین پر چالیس روز کی بارش سے زیادہ نفع آور ہے ۔ (المعجم الکبیر ‘ رقم الحدیث : ١١٩٣٢)(سنن کبری للبیہقی ج ٨ ص ١٦٢)(شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٧٣٧٩) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday, 26 April 2022

منافقین کی پہچان حصّہ دوم

منافقین کی پہچان حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منافق کی پہچان کی وضاحت اس طرح کی ہے : چار باتیں جس میں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں منافق کی ایک نشا نی رہے گی ۔ یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جب امانتدار بنا یا جائے تو خیانت کرے ، جب بولے تو جھوٹ بولے ، جب معاہدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ، جب جھگڑا کرے تو گالی دے ۔ (صحیح البخاری باب علامۃ المنافق)

بد قسمتی سے ہمارے نام نہاد مسلم معاشرہ میں یہ رزائل بہت تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ اس منا فقانہ طرز عمل کو چالاکی اور ہوشیاری سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں ہمیں اپنا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے ۔

امانت میں خیانت

اس حدیث مبارک میں منافق کی پہلی خصلت امانت میں خیانت بتا ئی گئی ہے ۔ امانت کی پاسداری دراصل مومن کی پہچان ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مومن کے اندر ہر عادت ہو سکتی ہے جھوٹ اور خیانت کے سوا ۔ (رواہ احمد عن ابی امامہ ورواہ البزار)

امانت میں خیانت کی درج ذیل شکلیں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ، اس فہرست میں مزید اضافہ ممکن ہے : ⬇

امانت میں خیانت یعنی کم مال واپس کرنا، اچھے مال سے خراب مال بدل لینا ۔

اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی بھی امانت میں خیانت ہے ۔

ناپ تول میں کمی کرنا بھی امانت میں خیانت ہے ۔

راز بھی امانت ہے ، اس کی حفاظت نہ کرنا خیانت ہے ۔

وقت کا ضیاع ، کام چوری اور غیر متعلق امور سے دلچسپی بھی خیانت ہے ۔

رشوت لے کر کام کرنا اور ناحق فائدہ پہنچانا بھی خیانت ہے ۔

کذب بیانی

منافق کی دوسری خصلت کذب بیانی کہی گئی ہے، اس کی درج ذیل مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں : ⬇

اللہ کے معاملے میں جھوٹ بولنا یعنی حلال کو حرام اور حرام کو حلال بتا نا ۔

اللہ کے رسول کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا ،

جھوٹی خبریں ، اور جھوٹے واقعات بیان کرنا ، سنسنی خیز صحافت بھی اسی زمرے میں شامل ہے ۔

جھوٹی قسمیں ، جھوٹے وعدے ، جھوٹے مقدمات قائم کرنا۔ جھوٹی گواہی دینے والے کے تعلق سے ارشاد خدا وندی ہے : جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو حقیر قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں ان کےلیے آخرت میں کوئی حصّہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا ۔(سورہ آل عمران: ۷۷)

اس معاملے کی سختی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نا فرمانی کرنا، سنو! جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا۔ آپ بار بار یہی دہراتے رہے یہاں تک کہ راوی نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپ خاموش ہو جاتے ۔ (بخاری، مسلم، ترمذی)

جھوٹی قسم کھاکر تجارت کو فروغ دینا، غلط طریقے سے سامان بیچنا ،اور خریدار کو فریب دینا بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے، اس ضمن میں نبیؐ کا ارشاد ہے:’’ تین ایسے آدمی ہیں جن کی طرف روز قیامت اللہ تعالی نہ دیکھے گا ، نہ ان کا تزکیہ کرے گا ، اس روز ان کو درد ناک عذاب ہوگا (۱) تہبند کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا (متکبر) ، (۲) احسان جتانے والا ، (۳) جھوٹی قسم کھاکر اپنی تجارت کو فروغ دینے والا ۔

ایک اور انتہائی درجہ بد اخلاقی کی جیتی جاگتی تصویر جس میں نوجوان طبقہ خاص طور سے ملوث ہے، بھولی بھالی پاک دامن عورتوں پر بد چلنی کا الزام لگانا ، حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے : بے شک جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہوگی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے ۔ (النور: ۳۳)

اسلامی معاشرہ کی اصل روح تو یہ ہے کہ دوسروں کے واقعی عیبوں پر بھی پردہ ڈالا جائے اور کسی بھی مومن یا مومنہ کی سرِ بازار پگڑی نہ اچھالی جائے۔ ورنہ نفرت، بغض وکینہ وغیرہ سے معاشرہ کا پاک رہ جانا بڑا ہی مشکل ہو گا ۔ اگر اتفاقاً کسی کی کوئی غلط حرکت سامنے آبھی جائے تو خلوت میں حکمت کے ساتھ اسے سمجھانا ہی افضل ہے ۔

بد عہدی یا معا ہدہ شکنی

منافق کی تیسری خصلت بد عہدی یا معا ہدہ شکنی ہے ۔ سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور عہد کو پورا کر و کیونکہ عہد کی پرسش ہونی ہے ۔ (سورہ بنی اسرائیل)

اس عہد میں ہر قسم کا عہد شامل ہے خواہ وہ کسی معا ہدے کی صورت میں وجود میں آئے ، لیکن عادتاً اور عرفاََ اُن کو عہد ہی سمجھا اور مانا جاتا ہو ، جس نوعیت کا بھی عہد ہو ، اگر وہ خلاف شریعت نہیں ہے تو اس کو پورا کرنا ضروری ہے ۔ عہد کی دو قسمیں ہیں : ⬇

اللہ اور بندے کے درمیان یعنی ہر شخص کا اللہ سے یہ عہد کہ وہ سچا پکا مومن ہوگا اور جملہ معاملات میں شریعت الہی کی اتباع کرے گا ۔ یہی بات سورۃ المائدۃ کی پہلی آیت میں بھی کہی گئی ہے ، ارشاد ربانی ہے : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، بندشوں کی پوری پابندی کرو ۔ ( سورۃ المائدۃ، آیت:۱)

یعنی ان حدود اور قیود کی پابندی کرو جو اس سورہ میں تم پر عائد کی جارہی ہیں اور جو بالعموم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں ۔

عہد کی دوسری قسم وہ ہے جو بندوں کے درمیان ہے ، اس کی مثال ہے کام چوری کرنا ، دھوکہ دینا ، وعدہ پورا نہ کرنا ، وغیرہ ۔

بد زبانی و بد کلامی

منا فق کی چوتھی خصلت بد زبانی اور بد کلامی ہے، یعنی وہ مخاصمت کے وقت آپے سے باہر ہو جاتا ہے، نبیؐ نے ارشاد فرمایا : لوگ جہنم میں اپنی بد زبانی کے سبب جائیں گے ۔ (ترمذی)

جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ وہاں اہل ایمان کوئی لا یعنی اور لغو یات نہیں سنیں گے ، جیسا سورۃ الواقعۃ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی ۔ (سورۃ الواقعۃ: ۲۵۔۲۶)

سطور بالاکی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم غیر شعوری طور سے ہی سہی منافقت کے مہلک مرض میں مبتلا تو نہیں ہو رہے ہیں ؟

عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کےلیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّؕ-وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠ ۔ (سورہ منافقون آیت نمبر 8)
ترجمہ : کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اُسے جو نہایت ذلت والا ہے اور عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں ۔

یَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں ۔ یعنی منافق کہتے ہیں : اگر ہم اس غزوہ سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا ۔ منافقوں نے اپنے آپ کو عزت والا کہا اور مسلمانوں کو ذلت والا ، اللّٰہ تعالیٰ ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں ، اگر وہ یہ بات جانتے تو ایسا کبھی نہ کہتے ۔منقول ہے کہ یہ آیت نازل ہونے کے چند ہی روز بعد عبد اللّٰہ بن اُبی منافق اپنے نفاق کی حالت پر مر گیا ۔ (تفسیر خازن المنافقون : ۸، ۴/۲۷۴)

عبد اللّٰہ بن اُبی منافق کے بیٹے کا عشق رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)

عبد اللّٰہ بن اُبی کے بیٹے کا نام بھی عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ تھا اور یہ بڑے پکے مسلمان اور سچے عاشقِ رسول تھے ، جنگ سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ سے باہر تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور باپ سے کہنے لگے اس وقت تک مدینہ میں داخل ہونے نہیں دوں گا جب تک تو اس کا اقرار نہ کرے کہ تو ذلیل ہے اور محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز ہیں ۔ اس کو بڑا تعجب ہوا کیونکہ یہ ہمیشہ سے باپ کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنے والے تھے مگر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں باپ کی کوئی عزت و محبت دل میں نہ رہی ۔ آخر اس نے مجبور ہوکر اقرار کیا کہ واللّٰہ میں ذلیل ہوں اور محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز ہیں ، اس کے بعد مدینہ میں داخل ہوسکا۔( سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،غزوۃ بنی المصطلق ،۲/۳۹۳،چشتی)(مدارج النبوۃ، قسم سوم، باب پنجم، ۲/۱۵۷)

اس آیت سے معلوم ہوا

(1) ہر مومن عزت والا ہے کسی مسلم قوم کو ذلیل جاننا یا اسے کمین کہنا حرام ہے۔

(2) مومن کی عزت ایمان اور نیک اعمال سے ہے ، روپیہ پیسہ سے نہیں ۔

(3) مومن کی عزت دائمی ہے فانی نہیں اسی لئے مومن کی لاش اور قبر کی بھی عزت کی جاتی ہے ۔

(4) جو مومن کو ذلیل سمجھے وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ذلیل ہے ، غریب مسکین مومن عزت والا ہے جبکہ مالدار کافر بد تر ہے ۔

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ (سورہ حضرات آیت نمبر 13)
ترجمہ : اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ : بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔

آیت کے اس حصے میں وہ چیز بیان فرمائی جارہی ہے جو انسان کے لئے شرافت و فضیلت کا سبب ہے اور جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت حاصل ہوتی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تم میں سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں جاننے والا اور تمہارے باطن سے خبردار ہے ۔

شانِ نزول : نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے ، وہاں ملاحظہ فرمایا کہ ایک حبشی غلام یہ کہہ رہا تھا : جو مجھے خریدے اس سے میری یہ شرط ہے کہ مجھے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِقتداء میں پانچوں نمازیں ادا کرنے سے منع نہ کرے ۔ اس غلام کو ایک شخص نے خرید لیا ، پھر وہ غلام بیمار ہوگیا تو نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی عیادت کے لئے تشریف لائے ، پھر اس کی وفات ہوگئی اور رنبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی تدفین میں تشریف لائے ، اس کے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا تو اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۱۵۶، جلالین، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۴۲۸،چشتی)

عزت اور فضیلت کا مدار پرہیزگاری ہے

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و فضیلت کا مدار نسب نہیں بلکہ پرہیزگاری ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نسب پر فخر کرنے سے بچے اور تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اسے عزت و فضیلت نصیب ہو ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : فتحِ مکہ کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلِیَّت کا غرور اور ایک دوسرے پر خاندانی فخر دور کر دیا ہے اور اب صرف دو قسم کے لوگ ہیں (1) نیک اور متقی شخص جو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معزز ہے ۔ (2) گناہگار اور بد بخت آدمی ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ذلیل و خوار ہے ۔ تمام لوگ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘ ۔
ترجمہ : اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو ، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحجرات، ۵/۱۷۹، الحدیث: ۳۲۸۱)

حضرت عداء بن خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں حجۃ الوداع کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کے منبر ِاقدس کے نیچے بیٹھا ہوا تھا ، آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی ، پھر فرمایا ’’ بے شک اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى ۔
ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ‘‘ ۔

ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ۔

تو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے ،کسی کا لے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر فضیلت حاصل ہے بلکہ فضیلت صرف تقویٰ و پرہیزگاری سے ہے (تو جو مُتَّقی اور پرہیز گار ہے وہ افضل ہے) ۔ (معجم الکبیر، عداء بن خالد بن ہوذہ العامری، ۱۸/۱۲، الحدیث: ۱۶،چشتی)

حضر ت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جب قیامت کا دن ہوگا تو بندوں کواللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اس حال میں کہ وہ غیرمختون ہوں گے اوران کی رنگت سیاہ ہوگی ، تواللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : ’’اے میرے بندو ! میں نے تمہیں حکم دیا اور تم نے میرے حکم کو ضائع کردیا اورتم نے اپنے نسبوں کو بلند کیا اور انہی کے سبب ایک دوسرے پر فخر کرتے رہے ، آج کے دن میں تمہارے نسبوں کو حقیر و ذلیل قراردے رہاہوں ، میں ہی غالب حکمران ہوں ، کہاں ہیں مُتَّقی لوگ ؟ کہاں ہیں متقی لوگ ؟ بیشک اللہ تعالیٰ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔ (تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ علیّ، حرف الالف من آباء العلیین، ۶۱۷۲-علیّ بن ابراہیم العمری القزوینی، ۱۱/۳۳۷)

مسلمانوں کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ امام ابن ماجہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو :

عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ ، وَيَقُولُ: مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی ﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے ، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت ﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2: 1297، رقم 3932 ، چشتی)(طبراني، مسند الشاميين، 2: 396، رقم: 1568)(منذري، الترغيب والترهيب، 3: 201، رقم: 3679)

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یصف اھل النار فیمُرُبِھِم ُ الرجل من اھل الجنۃ فیقول الرجل منھم یا فلان! اما تعرفنی اناالذی سقیتک شربَۃً و قال بعضھم اناالّذی وھبتُ لک وضوءً فیشفعہ لہ فید خلہ الجنۃ ۔ (ابن ماجہ:3685،مشکوٰۃ،494)
ترجمہ : گنہگار دوزخیوں کو دوزخ میں بھیجنے کیلئے علیحدہ کر دیا جائے گا وہ صفِ بستہ کھڑے ہوں گے کہ ایک جنتی بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کے قریب سے گزرے گاتو دوزخی اپنے اس نیک صالح انسان کو پہچان لیں گے کوئی کہے گا آپ مجھے نہیں پہچانتے فلاں موقع پر میں نے آپ کو پانی پلایا تھا کوئی کہے گا میں نے آپ کو وضو کیلئے پانی لا کر دیا تھا اتنے سے تعارف اور معمولی سی خدمت پر ہی وہ نیک انسان ان کی شفاعت کرے گا جو قبول کی جائے گی اور وہ انہیں اپنے ساتھ جنت میں لے جائے گا ۔

دینی نشر و اشاعت کے مشن کو آگے بڑھانے میں ہمارا ساتھ دیجیے

الفیض فاؤنڈیشن و ادارہ پیغام القرآن پاکستان کے زیرِ انتظام دور دراز دیہاتوں میں غریب و نادار بچوں کو مفت عصری و دینی تعلیم دی جاری ہے ۔ دین کا درد رکھنے والے اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب و نادار بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، استاذہ کرام کے وظاٸف ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر : ⬇ 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ، جزاكم اللهُ‎ خیراً کثیرا آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday, 25 April 2022

منافقین کی پہچان حصّہ اوّل

منافقین کی پہچان حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : قرآن کریم کی معروف اصطلا حات میں سے ایک اصطلاح منافق بھی ہے ۔ اسلامی سو سائٹی میں جو عناصر بظاہر مسلمان نظر آتے ہیں لیکن باطن میں وہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں ، ایسے افراد کو منافق کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے یعنی یہ’’ دوست نما دشمن‘‘ کا کردار کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ۔
 ترجمہ : اور ضرور الله ایمان والوں کوظاہر کردے گا اور ضرور منافقوں کوظاہر کردے گا ۔ (سورہ العنکبوت آیت نمبر 11)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَاِذَا لَقُوۡا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡاۤ اٰمَنَّا ۖۚ وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰى شَيٰطِيۡنِهِمۡۙ قَالُوۡاۤ اِنَّا مَعَكُمۡۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَهۡزِءُوۡنَ ۔ (سورۃ البقرة آیت نمبر 14)
ترجمہ : اور جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم ایمان لے آئے اور جب یہ اپنے شیطانوں کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں : یقیناً ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔

اس آیت میں  بزرگانِ دین کی طرح ایمان لانے کے حکم سے معلوم ہوا کہ ان کی پیروی کرنے والے نجات والے ہیں اوران کے راستے سے ہٹنے والے منافقین کے راستے پر ہیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ ان بزرگوں پر طعن و تشنیع کرنے والے بہت پہلے سے چلتے آرہے ہیں۔ اس آیت کی روشنی میں صحابہ و ائمہ اور بزرگانِ دین رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق اپنا طرزِ عمل دیکھ کر ہر کوئی اپنا راستہ سمجھ سکتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے راستے پر ہے یا منافقوں کے راستے پر ؟ نیز علماء و صلحاء اور دیندار لوگوں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی بدزبانیوں سے بہت رنجیدہ نہ ہوں بلکہ سمجھ لیں کہ یہ اہلِ باطل کا قدیم دستور ہے ۔ نیز دینداروں کو بیوقوف یا دقیانوسی خیالات والا کہنے والے خود بے وقوف ہیں ۔

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے ایسے مقبول بندے ہیں کہ ان کی گستاخی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیا ہے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے  بارے میں حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُم  کو گالی گلوچ نہ کرو ، (ان کا مقام یہ ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے کسی صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے ایک مُد (ایک چھوٹی سی مقدار) بلکہ آدھا مُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، باب قول النبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ : لو کنت متخذا خلیلاً، ۲ / ۵۲۲، الحدیث: ۳۶۷۳)

اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء اللہ کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ اللہ  تعالیٰ نے فرمایا : جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے ، اسے میں نے لڑائی کا اعلان دے دیا ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۲،چشتی)

اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کی بے ادبی اور گستاخی کرتے ہیں اور اللہ  تعالیٰ کے اولیاء کے بارے میں غلط عقائد و نظریات رکھتے ہیں ۔

امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بعض یہودی (یعنی منافق) جب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اصحاب سے ملاقات کرتے تو کہتے : ہم تمہارے دین پر ہیں ‘ اور جب اپنے اصحاب سے ملتے جو کافروں کے سردار تھے ‘ تو کہتے یقیناً ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘ ہم تو صرف مذاق کرتے ہیں ۔ (جامع البیان ج ١ ص ١٠١ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

علامہ خازن اس آیت کے شان نزول میں لکھتے ہیں : روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ سامنے سے صحابہ کرام (رض) ان کی طرف آرہے ہیں ‘ اس نے اپنی قوم سے کہا : دیکھو میں ان بیوقوفوں کو کس طرح تم سے واپس کرتا ہوں ‘ اس نے حضرت ابوبکر (رض) کا ہاتھ پکڑ کر کہا : مرحبا ! اے بنو تیم کے سردار ! شیخ الاسلام ‘ غار میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے رفیق ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لیے اپنی جان اور مال کو خرچ کرنے والے ‘ پھر حضرت عمر (رض) کا ہاتھ پکڑ کر کہا : مرحبا ! اے بنو عدی کے سردار ! فاروق ‘ دین میں قومی ‘ اپنی جان اور مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ‘ پھر حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر کہا : مرحبا ! اے رسول اللہ کے عم زاد ! آپ کے داماد ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سوا تمام بنو ہاشم کے سردار حضرت علی (رض) نے فرمایا : اے ابی ! اللہ سے ڈر ‘ نفاق نہ کر ‘ منافق اللہ کی بدترین مخلوق ہیں ‘ عبداللہ بن ابی نے کہا : اے ابوالحسن ! ذرا ٹھہرئیے ‘ خدا کی قسم ! میں نے یہ باتیں از راہ نفاق نہیں کہیں ‘ ہمارا ایمان آپ ہی کی طرح ہے ‘ پھر صحابہ کرام (رض) کے جانے کے بعد عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا : تم نے دیکھا میں نے ان کو کیسے بیوقوف بنایا ! (معاذ اللہ) صحابہ کرام (رض) نے واپس آکر یہ واقعہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو سنایا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر خازن ج ١ ص ٣٠۔ ٢٩‘ مطبوعہ دارالکتب العربیہ ‘ پشاور،چشتی)

علامہ خفاجی نے اس روایت پر حسب ذیل تبصرہ کیا ہے : اس حدیث کو واحدی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ‘ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند بیان کر کے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے اور کہا : یہ سلسلۃ الذھب نہیں ہے بلکہ سلسلۃ الکذب ہے (یعنی جھوٹی سند ہے) اور اس حدیث کے موضوع ہونے آثار ظاہر ہیں ‘ کیونکہ محدثین کی تصحیح کے مطابق نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مدینہ آتے ہی شروع میں سورة بقرہ نازل ہوئی تھی اور ہجرت کے دوسرے سال میں حضرت علی (رض) کی حضرت سیدہ فاطمہ (رض) سے شادی ہوئی تھی ‘ اور اس حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن ابی نے حضرت علی (رض) کو رسول اللہ کا داماد کہا : (عنایۃ القاضی جلد ١ صفحہ ٣٣٩‘ مطبوعہ دار صادر بیروت ١٣٨٣ ھ)
 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جب یہ اپنے شیاطین سے خلوت میں ملتے ہیں۔ (البقرہ : ١٤) 
علامہ ابو اللیث سمرقندی نے لکھا ہے کہ شیاطین سے مراد یہود کے پانچ قبیلے ہیں : کعب بن اشرف مدینہ میں ‘ ابوبردہ اسلمی بنو اسلم میں ‘ ابوالسوداء شام میں ‘ عبد الدار جہینہ میں سے اور عوف بن مالک بنواسد سے ‘ ابوعبیدہ نے کہا : ہر وہ شخص جو گمراہ اور سرکش ہو وہ شیطان ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ ان کے ساتھ استہزاء فرماتا ہے ۔ (البقرہ : ١٥) 
اللہ تعالیٰ کے استہزاء کی توجیہ :
علامہ راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ قصدا مذاق کرنے کو استہزاء کہتے ہیں اور استہزاء کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت ہو تو اس کا معنی استہزاء کی جزا دینا ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ایک مدت تک مہلت دیتا ہے ‘ پھر اچانک ان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ‘ اس کو استہزاء اس لیے فرمایا ہے کہ منافقین اس دھوکے میں تھے کہ وہ مسلمانوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے نفاق اور سرکشی کے باوجود ان پر مسلمانوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے نفاق اور سرکشی کے باوجود ان پر مسلمانوں کے احکام جاری کئے گئے اور ان سے مواخذہ نہیں کیا گیا لیکن حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ان کے نفاق کا علم تھا اور آخرت میں ان کے ساتھ استہزاء کیا جائے گا ۔
حافظ جلال الدین سیوطی (رح) لکھتے ہیں : امام ابن المنذر (رح) نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا ہے کہ دوزخ میں دوزخیوں سے کہا جائے گا کہ دوزخ سے نکلو اور دوزخ کے دروازے کھول دیئے جائیں گے ‘ جب وہ درزخ کے کھلے ہوئے دروازے دیکھیں گے تو وہ دوزخ سے نکلنے کے لیے بھاگیں گے اور مومن جنت میں اپنے تختوں پر بیٹھے ہوئے یہ منظر دیکھ رہے ہوں گے اور جب کفار دروازوں کے قریب پہنچیں گے تو وہ دروازے بند ہوجائیں گے اور مومن ان پر ہنسیں گے۔ ١ (حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ ‘ درمنثور ج ١ ص ٣١‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران) جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : فالیوم الذین امنوا من الکفار یضحکون علی الارآئک ینظرون ھل ثوب الکفار ما کانوا یفعلون ۔ (المطففین : ٣٦۔ ٣٤) 
ترجمہ : تو آج (قیامت کے دن) ایمان والے کافروں پر ہنستے ہیں وہ (عالی شان) تختوں پر بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کافروں کو ان کے کیے ہوئے کاموں کا کیا بدلہ ملا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے منافقین کے استہزاء کی جزاء (سزا) کو استہزاء صورۃ فرمایا ہے حقیقت میں یہ استہزاء نہیں ہے ‘ اس کی نظیر یہ آیت ہے : وجزؤا سیءۃ مثلھا ۔ (الشوری : ٤٠) 
ترجمہ : اور برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے ۔
حالانکہ برائی کا بدلہ حقیقت میں عدل و انصاف ہوتا ہے برائی نہیں ہوتی لیکن کسی چیز کا بدلہ صورۃ اسی کی مثل ہوتا ہے اس لیے اس کو برائی فرمایا ‘ اسی طرح منافقین کے استہزاء کا بدلہ حقیقۃ استہزاء نہیں صورۃ مماثل ہونے کی وجہ سے اس کو استہزاء فرمایا ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ قَالَ : آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَـلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ ۔ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ بات کرے تو جھوٹ بولے گا ۔ وعدہ کرے گا تو خلاف ورزی کرے گا اور امانت اس کے پاس رکھی جائے تو خیانت کرے گا ۔ (بخاري، الصحيح، 1: 21، رقم: 33، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامةچشتی)(مسلم، الصحيح، 1: 78، رقم: 59، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)

عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو: أَنَّ النَّبِيَّ قَالَ : أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِيهِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّی يَدَعَهَا : إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ ۔
ترجمہ : حضرت عبدﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے ، یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے ۔ جب امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑے تو بیہودہ بکے ۔ (بخاري، الصحيح، 1: 21، رقم: 34)(مسلم، الصحيح، 1: 78، رقم: 58)

قرآن و حدیث میں منافقین کی درج ذیل علامات مذکور ہیں : ⬇

دعوی ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا ۔
محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالتِ محمدی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان اس قدر ضروری نہ سمجھنا ۔
دھوکہ دہی اور مکرو فریب کی نفسیات ۔
یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہیں ۔
یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں ، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔
قلب و باطن کا بیمار ہونا
جھوٹ بولنا ۔
نام نہاد اصلاح کے پردے میں فساد انگیزی یعنی مفسدانہ طرزِ عمل کے باوجود خود کو صالح اور مصلح سمجھنا ۔
دوسروں کو بے وقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔
امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا ۔
اجماع امت یا سواد اعظم کی پیروی نہ کرنا ۔
کردار کا دوغلا پن اور ظاہر و باطن کا تضاد ۔
اہل حق کے خلاف مخفی سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا ۔
اہل حق کے استہزاء کی نفسیات
مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور ان کی تحقیر و تمسخر کے در پے ہونا ۔
باطل کو حق پر ترجیح دینا
سچائی کو روشن دیکھتے ہوئے بھی اس سے آنکھیں بند کر لینا
تنگ نظری ، تعصب اور عناد میں اس حد تک پہنچ جانا کہ کان ، حق سن نہ سکیں ، زبان حق کہہ نہ سکے اور آنکھیں ، حق دیکھ نہ سکیں ۔
اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کرنا ۔
اہل حق کی کامیابیوں پر دنگ رہ جانا اور ان پر حسد کرنا ۔
مفاد پرستانہ طرزِ عمل یعنی مفادات کے حصول کے لیے اہل حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا ۔
حق کے معاملے میں نیم دلی اور تذبذب کی کیفیت میں مبتلا رہنا ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فضیلتِ شبِ قدر حصّہ دوم

فضیلتِ شبِ قدر حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
” لیلۃ القدر “ میں قرآن مجید کا آسمان دنیا کی طرف نازل ہونا ۔ القدر : 1 میں ” انزلناہ “ کی ضمیر منصوب قرآن مجید کی طرف راجع ہے ، ہرچند کہ اس سورت میں اس سے پہلے قرآن مجید کا ذکر نہیں ہے ، کیونکہ قرآن مجید کا معنی ہر پڑھنے والے کو معلوم ہے اور اس کا ذکر اس کے ذہن میں مرتکز ہے ، درج ذیل آیات میں قرآن مجید کے نزول کا ذکر ہے : (اورہ البقرہ : 185) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کو نازل کیا گیا ۔

(سورہ الدخان : 3-1) حامیم ۔ کتاب مبین کی قسم ۔ ہم نے اس کتاب کو برکت والی رات میں نازل کیا ہے ۔
اس آیت میں ” لیلۃ مبارکۃ سے مراد ” لیلۃ القدر ‘ ہے ۔ شعبی نے کہا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو نازل کرنے کی ابتدائ ” لیلۃ القدر “ میں کی ہے، ایک قول یہ ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) امین (علیہ السلام) نے پورے قرآن مجید کو لیلتہ القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف بیت العزۃ میں نازل کیا، پھر حضرت حضرت جبریل (علیہ السلام) اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر نازل کرتے رہے اور یہ مدت تئیس (23) سال ہے ۔

الماوردی نے کہا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : قرآن مجید رمضان کے مہینہ میں لیلتہ القدر اور لیلتہ مبارکہ میں اللہ کی طر سے آسمان دنیا میں مکمل نازل ہوا، پھر مکرم فرشتوں نے اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے بیس راتوں میں حضرت جبریل (علیہ السلام) پر نازل کیا، پھر حضرت جبریل (علیہ السلام) نے تھوڑا تھوڑا کر کے بیس سال میں ہمارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر نازل کیا اور حضرت جبریل (علیہ السلام) مختلف مہینوں اور مختلف ایام میں حسب ضرورت نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر نازل کرتے تھے ۔ (النکث و العیون ج 6 ص 311، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

علامہ ابن العربی نے کہا ، (رح) یہ قول باطل ہے ، حضرت جبریل (علیہ السلام) اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کسی فرشتے کا واسطہ نہیں ہے اور نہ حضرت جبریل (علیہ السلام) اور سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے درمیان کوئی واسطہ ہے ۔ (احکام القرآن ج 4 ص 328، دارالکتب العلمیہ، بیروت 1408 ھ)
صحیح بات یہ ہے کہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف مکمل نازل ہوا ، پھر امر اور نہی اور حلال اور حرام اور مواعظ اور قصص اور لوگوں کے سوالات کے جوابات میں حسب ضرورت سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر تئیس (23) سال تک تھوڑا تھوڑا کر کے حضرت جبریل کے واسطے سے نازل ہوتا رہا ۔

امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی 235 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ پورا قرآن ساتویں آسمان سے آسمان دنیا کی طرف رمضان میں نازل ہوا ، پھر اللہ تعالیٰ جس چیز کو نازل فرمانا چاہتا، نازل فرما دیتا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 6 صفحہ 44 ۃ رقم الحدیث :30178 دارالکتب العلمیہ بیروت 1416 ھ،چشتی)

ابوقلابہ بیان کرتے ہیں کہ آسمانی کتابیں چوبیس رمضان کو نازل ہوئی ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :30180)

ابوالعالیہ ابوالجلد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) کے صحیفے یکم رمضان کی شب میں نازل ہوئے اور زبور چھ رمضان کو نازل ہوئی اور انجیل اٹھارہ رمضان کو نازل ہوئی اور قرآن چوبیس رمضان کو نازل ہوا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :30182)

ابو قلابہ بیان کرتے ہیں کہ تورات اس دن نازل ہوئی جب رمضان میں چھ دن رہتے تھے اور قرآن چوبیس رمضان کو نازل ہوا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :30179)

بعض مقامات اور بعض اوقات میں عبادت کے اجر میں اضافہ

اس رات میں جو فضیلت رکھی گئی ہے ، ہم کو معلوم نہیں کہ وہ اس رات میں عبادت کی وجہ سے فضیلت ہے یا اس رات میں فرشتوں کے نزول کی وجہ سے فضیلت ہے، یا اس رات میں طلوع فجر تک سلامتی کے نزول کی وجہ سے فضیلت ہے یا اس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتداء کی وجہ سے فضیلت ہے یا فی نفسہ اس رات میں فضیلت رکھی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات پر عبادت کرنے کی فضیلت رکھی ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا : مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنا دوسری جگہ ایک لاکھ نمازیں پڑھنے کے برابر ہے اور میری مسجد ، مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا، دوسری جگہ سوا مسجد حرام کے ایک ہزار نمازیں پڑھنے کے برابر ہے ۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث :1406) ، ان مقامات اور جگہوں کو عبادات کے لئے خاص کرلیا گیا اور ان مقامات پر عبادات کرنے کے ثواب کو بڑھا دیا گیا، اسی طرح بعض اوقات کو بھی عبادات کے لئے خاص کرلیا گیا اور ان اوقات میں عبادات کے اجر وثواب کو بڑھا دیا گیا، جیسے رمضان کے مہینہ میں نوافل کا ثواب فرائض کے برابر ہے اور فرائض کے ثواب کو ستر درجہ بڑھا دیا گیا، اسی طرح لیلتہ القدر کی عبادت کو ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ کردیا گیا ۔

لیلتہ القدر میں ” قدر “ کے معانی

القدر : 3-2 میں فرمایا اور آپ کیا سمجھے کہ شب قدر کیا ہے ؟ ۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو لیلتہ القدر کی تعیین کا علم تھا یا نہیں ؟

امام بخاری فرماتے ہیں کہ امام ابن عینیہ نے کہا : قرآن مجید کی جس آیت میں کسی چیز کے متعلق فرمایا : ” وما ادرک “ اس کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم دے دیا ہے اور جس کے متعلق فرمایا ہے :” وما یدریک “ اس کا علم آپ کو نہیں دیا ۔ (صحیح البخاری ص 418، شرکتہ دارالارقم، بیروت، لبنان)

ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے لیلتہ القدر کے متعقل سوال کیا، جو میرے دوست تھے ، انہوں نے کہا : ہم نے رمضان کے متوسط عشرہ میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ساتھ اعتکاف کیا ، آپ بیس رمضان کی صبح کو باہر آئے اور آپ نے ہمیں خطبہ دیا اور آپ نے فرمایا : مجھے لیلتہ القدر دکھائی گی تھی ، پھر بھلا دی گئی، اب تم اس کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں ، پس جس نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ساتھ اعتکاف کیا تھا وہ لوٹ جائے ، ہم لوٹ گئے اور ہم آسمان میں کوئی بادل نہیں دیکھتے تھے ، پھر اچانک بادل آیا اور بارش ہوئی اور مسجد کی چھت ٹپکنے لگی اور اس کی چھت میں کھجور کی شاخیں تھیں ، اور نماز کی اقامت کہی گئی ، پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہے تھے ، حتیٰ کہ میں نے آپ کی پیشانی پر مٹی کا نشان دیکھا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2016، سنن ابو دائود رقم الحدیث : 1382، سنن نسائی رقم الحدی :1356 السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : 3342، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1775،چشتی)

حضرت عبادہ بن الصامت ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہمیں لیلتہ القدر کی خبر دینے کے لئے باہر آئے اس وقت دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، آپ نے فرمایا : میں تمہیں لیلتہ القدر کی خبر دینے کے لئے آیا تھا ، پس فلاں اور فلاں آپس میں لڑ پڑے تو لیلتہ القدر کی تعیین اٹھا لی گی اور ہوسکتا ہے کہ یہ تمہارے لئے بہتر ہ، پس تم اس کو انتیسویں شب، ستائیسویں شب اور پچیسویں شب میں تلاش کرو ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2023

شارحین نے کہا ہے کہ صرف اس سال ننبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے لیلتہ القدر کی تعیین کا علم اٹھا لیا گیا تھا اور دوسرے سال آپ کو پھر اس کا علم عطا کردیا گیا ۔ (فتح الباری ج 4 ص 778، عمدۃ القاری ج 11 ص 197 فیضا لباری ج 3 ص 183،چشتی)

اس سال شب قدر کی تعیین کے علم کو اٹھانے کی حکمت یہ تھی کہ آپ کے لئے لیلتہ القدر کی تعیین کو مخفی رکھنے کا عذر ہوجائے کیونکہ اگر آپ کو علم ہوتا اور آپ نہ بتاتے تو یہ آپ کی رحمت کے خلاف تھا اور اگر بتا دیتے تو یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ لیلتہ القدر کی تعیین کو مخفی رکھا جائے تاکہ اللہ کے بندے لیلتہ القدر کی تلاش میں رمضان کے آخری عشرہ کی ہر طاق رات جاگ کر عبادت میں گزاریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا عبادت میں جاگنا پسند ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی چیزوں کو مخفی رکھا ہے ، مثلاً اللہ کے ولی کو مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ ہر شخص کے متعلق یہ گمان کر کے کہ ممکن ہے یہی اللہ کا ولی ہو، اس کی تعظیم اور تکریم کریں، جمعہ کی جس ساعت میں دعا قبول ہوتی ہے، اس کو مخفی رکھا تاکہ مسلمان جمعہ کی ہر ساعت میں دعا کرتے رہیں کہ ممکن ہے یہی قبولیت کی ساعت ہو، موت کے وقت کو مخفی رکھا تاکہ انسان ہر وقت نیک کاموں میں مشغول رہے اور برے کاموں سے مجتنب رہے تاکہ اس کو موت آئے تو نیک کام کرتے ہوئے آئے نہ کہ خدا نخواستہ برے کام کرتے ہوئے اس کو موت آئے، اسی طرح قیامت کے وقت کو بھی مخفی رکھا، تاکہ ہر لمحہ لوگ ڈرتے رہیں کہ کہیں اسی وقت قیامت نہ آجائے اور لیلتہ القدر کو بھی مخفی رکھا تاکہ کوئی عادی مجرم اس رات کو بھی گناہوں میں گزار دے تو اس کے نامہ اعمال میں یہ نہ لکھا جائے کہ اس نے اس عظیم رات کی دانستہ بےتوقیری کی ہے ۔

لیلتہ القدر کے فضائل

امام مالک بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے معتمد اہل علم سے سنا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو سابقہ امتوں کی عمریں دکھائی گئیں تو آپ نے اپنی امت کی عمروں کو کم سمجھا اور یہ کہ وہ اتنے عمل نہیں کرسکیں گے جتنے لمبی عمر والے لوگ کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو لیلتہ القدر عطا کی ، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (موطاء امام مالک رقم الحدیث :721 باب الیلتہ القدر)

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا، جو اللہ کی راہ میں ایک ہزار سال ہتھیار پہنے رہا، مسلمانوں کو اس پر بہت تعجب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :” انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ۔ وما ادرک مالیلتہ القدر ۔ لیلۃ القدر خیر من الف شھر ۔ “ (سورہ القدر : 3-1) ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :19424، تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 593)

علی بن عرروہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ذکر کیا کہ بنی اسرائیل کے چار شخصوں نے اسی سال تک اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کی کہ پلک جھپکنے کی مقدار بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی ، اور ان کے نام بتائے، حضرت ایوب، حضرت زکریا، حضرت حزقیل بن العجوز اور حضرت یوشع بن نون علیہم السلام ، یہ سن کر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اصحاب کو تعجب ہوا، تب آپ کے پاس حضرت جبریل (علیہ السلام) آئے اور کہا : اے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ آپ کی امت کو اس پر تعجب ہے کہ ان لوگوں نے اسی سال عبادت کی اور پلک جھپکنے کی مقدار بھی نافرمانی نہیں کی، اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز نازل کی ہے، پھر آپ کے سامنے سورة القدر : 3-1 آیات تلاوت کیں اور کہا : یہ اس سے افضل ہے جس پر آپ کو اور آپ کیا مت کو تعجب ہوا، پھر رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور آپ کے اصحاب خوش ہوگئے ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :19426 تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 593)

امام ویلمی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کو لیلتہ القدر عطا کی ہے اور اس سے پہلی امتوں کو عطا نہیں کی ۔ (الدرالمنثور ج 8 صفحہ 522 داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1415 ھ،چشتی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا : جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے روزے رکھے، اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے اور جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے لیلتہ القدر میں قیام کیا تو اللہ سبحانہ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2014، سنن نسائی رقم الحدیث :2206 مسند احمد ج 2 ص 503،چشتی)

رمضان کی ستائیسویں شب کے لیلتہ القدر ہونے پر دلائل

زربن جیش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب سے کہا : اے ابوالمنذر ! ہمیں لیلتہ القدر کے متعلق بتایئے کیونکہ حضرت ابن معسود یہ کہتے ہیں کہ جو شخص پورا سال قیام کرے گا، وہ لیلتہ ال قدر کو پالے گا، حضرت ابی بن کعب نے کہا : اللہ ابوعبدالرحمان پر رحم فرمائے، ان کو خوب معلوم ہے کہ لیلتہ القدر رمضان میں ہے ، لیکن انہوں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ وہ تم کو اس کی تعیین بتالئیں اور تم اس پر تکیہ کرلو، اور اس ذات کی قسم جس نے قرآن کو سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر نازل کیا ہے، لیلتہ القدر رمضان کی ستائیسویں شب ہے، ہم نے پوچھا : اے ابوالمنذر ! آپ کو اس کا کیسے علم ہوا ؟ انہوں نے کہا : اس علامت سے جس کی ہم کو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے خبر دی ہے ، ہم نے اس کو یاد رکھا اور اس کا شمار کیا ، ہم نے پوچھا : وہ کیا علامت ہے ؟ انہوں نے کہا : اس کی صبح کو سورج بغیر شعائوں کے طلوع ہوتا ہے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : 220 صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : 2101 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :3689 سنن ابو دائود رقم الحدیث :1378 سنن ترمذیر قم الحدیب :793 سنن بیہقی ج 4 ص 312)

حضرت ابی بن کعب، امام حمد بن حنبل اور جمہور علماء کا یہ نظریہ ہے کہ لیلتہ القدر رمضان کی ستائیسویں شب ہے اور امام ابوحنیفہ اور بعض شافعیہ سے بھی یہی روایت ہے۔ حضرت ابی بن کعب ان شاء اللہ کہے بغیر قسم اٹھا کر کہتے تھے کہ یہ رمضان کی ستائیسویں شب ہے۔ حضرت عبدا للہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عدد طاق ہے اور طاق اعداد میں سات کا عدد زیادہ پسندیدہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سات زمینیں اور سات آسمان بنائے، سات اعضاء پر سجدہ مشروع کیا، طواف کے ساتھ پھیرے مقرر کئے اور ہفتہ کے ساتھ دن بنائے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ سات کا عدد زیادہ پسندیدہ ہے تو پھر یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی ساتویں رات ہونی چاہیے۔ حافظ ابن حجر اور امام رازی نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ استدلال بھی نقل کیا ہے کہ لیلتہ القدر کے حرف نو ہیں اور یہ لفظ قرآن مجید میں تین بار ذکر کیا گیا ہے، جن کا حاصل ضرب ستائیس ہے، اس لئے یہ رات ستائیسویں ہونی چاہیے۔ امام رازی نے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ قرآن مجید کی اس سورة مبارکہ میں ” ھی حی مطلع الفجر “ (القدر : 5) میں ” ھی ‘ ضمیر لیلتہ القدر کی طرف لوٹ رہی ہے اور یہ اس سورت کا ستائیسواں کلمہ ہے، اس اشارے سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ لیلتہ القدر رمضان کی ستائیسویں شب ہے ۔

لیلتہ القدر میں عبادت کا طریقہ

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا :” من قام لیلۃ القدر ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ “ جس شخص نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ اجر وثواب کی نیت سے قیام کیا، اس کے پچھلے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ اس حدیث کی روشنی میں لیلتہ القدر کی اصل عبادت قیام نماز ہے، اس لئے اس رات زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھنے اور توبہ و استغفار میں کوشش کرنی چاہیے، بندہ خضوع و خشوع اور سوز گداز سے نماز پڑھے ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلے میں اپنی کو تاہیوں، تقصیروں اور گناہوں کو یاد کر کے روئے اور گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور بار بار استغفار کرے ۔

بعض صالحین نے اس رات کی عبادت کے مخصوص طریقے بتائیے ہیں ۔ علامہ اسماعیل حقی لکھتے ہیں : بعض صالحین لیلتہ القدر میں لیلتہ القدر کے قیام کی نیت سے دس دو گانے پڑھتے تھے۔ بعض اکابر سے یہ بھی مقنلو ہے جس شخص نے ہر رات لیلتہ القدر کی نیت سے دس آیات تلاوت کیں، وہ لیلتہ القدر کی برکات سے محروم نہیں ہوگا۔ امام ابواللیث نے بیان کیا کہ لیلتہ القدر کی کم از کم نماز دو رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ ہزار رکعات ہیں اور متوسط سو رکعات ہیں اور ہر رکعت میں متوسط قرأت یہ ہے کہ سورة فاتحہ کے بعد سو مرتیہ ” انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ‘ کی سورت پڑھے، اس کے بعد تین بار ” قل ھو اللہ احد “ کی سورت پڑھے پھر دو رکعات کے بعد سلام پھیر دے اور درود شریف پڑھ کر دوسرے دو گانے کے لئے اٹھے، اس طرح جتنے نفل چاہے پڑھے، علامہ اسماعیل حقی لکھتے ہیں کہ نوافل کی جماعت بلا کراہیت جائز ہے بشرطیکہ فرئاض کی طرح اذان اور اقامت نہ کریں۔ ” شرح نقایہ “ وغیرہ میں ” محیط “ کے حالے سے یہ عبارت ہے :” لیلۃ القدر صلوۃ الرغائب “ اور شعبان کی پندرہویں شب میں نوافل میں امام کی اقتداء کرنا مطلقاً مکروہ نہیں ہے کیونکہ جو چیز مومنوں کے نزدیک حسن ہو، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی حسن ہوتی ہے، اس لئے اس پر اعتراض کرنے والے ان لوگوں کے قول کی طرف بالکل توجہ نہ کرو، جن کو عبادت کا ذوق ہے نہ دعائوں کا شوق ہے۔ (روح البیان ج 10 ص 581، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1421 ھ،چشتی)

امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی 235 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : عامر بیان کرتے ہیں کہ لیلتہ القدر کا دن اس کی شب کی مثل ہے اور اس کی شب اس کے دن کی مثل ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 253 رقم الحدیث : 8693 دارالکتب العلمیہ، بیروت 1416 ھ،چشتی)

پاکستان میں جس تاریخ کو شب قدر ہوتی ہے ، سعودی عرب میں اس سے ایک دن یا دو دن پہلے شب قدر ہوتی ہے ، میرا گمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ملک کے رہنے والوں کو ان کے حساب سے شب قدر کی عبادت کا اجر عطا فرمائے گا ۔ ابن المسیب نے کہا : جس شخص نے لیلتہ القدر میں مغرب اور عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی ، اس نے لیلتہ القدر سے اپنا حصہ پا لیا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : 8694 دارالکتب العلمیہ، بیروت)

ثواب میں اضافہ

شب قدر میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادتوں سے زیادہ دیا جاتا ہے ، اس سلسلہ میں یہ سوال کیا جاتا ہے : کیا اس ایک رات میں بعادت کرنے کے بعد انسان ایک ہزار ماہ کی عبادتوں سے آزاد ہوجاتا ہے ؟ اسی طرح ایک نماز کا ثواب دس نمازوں کے برابر ہے اور کعبہ میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے تو کیا کعبہ میں ایک نماز پڑھنے سے ایک کم ایک لاکھ نمازیں انسان سے ساقط ہوجاتی ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شب قدر کی عبادت نفلی ہے اور ہزار ماہ میں جو فرائض اور واجبات ہیں، یہ نفلی عبادت ان کے قائم مقام نہیں ہوسکتی رہا یہ کہ ایک فرض کا ثواب اس فرض کی دس مثلوں کے برابر ہوتا ہے یا کعبہ کی ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے مساوی ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اس فرض کے ادا کرنے کا مکلف ہے جو دس مثلوں کے یا ایک لاکھ مثلوں کے مساوی ہے، ان مثلوں میں سے کوئی ایک مثل اس فرض کے مساوی نہیں، جو دس یا ایک لاکھ مثلوں کے برابر ہے، لہٰذا ان مثلوں سے فرض کی تکلیف ساقط نہیں ہوسکتی اس لئے ایک نماز پڑھ کر انسان دس نمازوں سے بری ہوسکتا ہے، نہ شب قدر کی عبادت سے ہزار ماہ کی عبادتوں سے عہدہ برآ ہوسکتا ہے ۔

گناہ میں اضافہ

ایک بحث یہ بھی غور طلب ہے کہ جس طرح شب قدر میں عبادت کرنے سے ثواب بڑھ جاتا ہے، کیا اس طرح شب قدر میں گناہ کرنے سے سزا بھی زیادہ ہوتی ہے، اس کی تحقیق یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو قطعی طور پر شب قدر کا علم ہوجائے اور پھر وہ اس رات میں قصداً گناہ کرے تو یقینا اس کا یہ گناہ اور راتوں کے گناہوں سے بڑا گینا ہے اور وہ زیادہسزا کا مستحق ہے، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قرآن مجید میں ہے کہ ” من جآء بالسیئۃ فلا یجزی الا مثلھا “ (سورہ الانعام : 160) جو شخص جتنی برائی کرے گا اسے اتنی برائی ہی کی سزا ملے ی، پھر اس رات میں قصداً گناہ کرنے والا کیوں زیادہ سزا کا مستحق ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شب قدر میں گناہ کرنے والے کی دو زیادتیاں ہیں، ایک گناہ کی اور ایک شب قدر کے تقدس کو پامال کرنے کی، جس طرح گھر میں گناہ کی بہ نسبت حرم کعبہ میں وہ گناہ کرنا زیادہ بڑا ہے ، اسلئے جو شخص شب قدر میں گناہ کرے گا، اس کو اسی گناہ کی سزا ملے گی لیکن ظاہر ہے کہ اس رات کا جرم اور اتوں کے جرم کی بہ نسبت زیادہ ہے ۔

شب قدر کو مخفی رکھنے کی حکمتیں

اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کو اپنی حکمت سے مخفی رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کس عبادت سے راضی ہوتا ہے، اس کو مخفی رکھا تاکہ بندہ تمام عبادات میں کوشش کرے ، کس گناہ سے نارضا ہوتا ہے ، اس کو مخفی رکھا تاہ بندہ ہر گناہ سے باز رہے ۔ ولی کی کوئی ملامت مقرر نہیں کی اور اسے لوگوں کے درمیان مخفی رکھاتا کہ لوگ ولی کے شائبہ میں ہر انسان کی تعظیم کریں۔ قبولیت توبہ کو مخفی رکھا تاکہ بندے مسلسل توبہ کرتے رہیں۔ موت اور قیامت کے وقت کو مخفی رکھا تاکہ بندے ہر ساعت میں گناہوں سے باز رہیں اور نیکی کی جدوجہد میں مصروف رہیں۔ اسی طرح لیلتہ القدر کو مخفی رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ رمضان کی ہر رات کو لیلتہ القدر سجھ کر اس کی تعظیم کریں اور اس کی ہر رات میں جاگ جاگ کر عبادت کریں ۔

امام رازی تحریر فرماتے ہیں : اگر اللہ تعالیٰ اس رات کو معین کر کے بتادیتا تو نیک لوگ تو اس رات میں جاگ کر عبادت کر کے ہزار ماہ کی عبادتوں کا اجر حاصل کرلیتے ہیں اور عادی گنہگار اگر شامت نفس اور اپنی عادت سے مجبور ہو کر اس رات بھی کوئی گناہ کرلیتا تو وہ ہزار ماہ کے گناہوں کی سزا کا مستحق ہوتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس رات کو مخفی رکھا تاکہ اگر کوئی عادی گنہگار اس رات بھی کوئی گناہ کر بیٹھے تو لیلتہ القدر سے لاعلمی کی بناء پر اس کے ذمہ لیلتہ القدر کی احترام شکنی اور ہزار ماہ کے گناہ لازم آئیں، کیونکہ علم کے باوجود گناہ کرنا لاعلمی سے گناہ کرنے کی بہ نسبت زیادہ شدید ہے۔ روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مسجد میں داخل ہوئے، وہاں ایک شخص کو سوئے ہوئے دیکھا۔ آپ نے حضرت علی ؓ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، وہاں ایک شخص کو سوئے ہوئے دیکھا آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا اسے وضو کے لئے اٹھا دو انہوں نے اٹھا دیا۔ بعد میں علی ؓ نے پوچھا : یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ! آپ تو نیکی کرنے میں خود پہل کرتے ہیں ، آپ نے اس کو خود کیوں نہیں جگا دیا ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا : اگر میرے اٹھانے پر یہ انکار کردیتا تو یہ کفر ہوتا اور تمہارے اٹھانے پر انکار کرنا کفر نہیں ہے تو میں نے تم کو اٹھانے کا اس لئے حکم دیا کہ یہ انکار کر دے تو اس کا قصور کم ہو، غور کرو ! جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی گنہگاروں پر رحمت کا یہ حال ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کیا عالم ہوگا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ آسان ہے کہ نیکو کار لیلتہ القدر کی جستجو میں رمضان کی متعدد راتیں جاگ کر کھنگال ڈالیں، یہ بھی گوارا ہے کہ اس تلاش میں ان سے لیلتہ القدر چوک جائے لیکن یہ گوارا نہیں ہے کہ لیلتہ القدر بتلا دینے سے کوئی گنہگار بندہ اپنے گناہ کی ہزار گنا زیادہ سزا پائے، اللہ ! اللہ ! وہ اپنے بندوں کا کتنا خیال رکھتا ہے، پھر گنہگار بندوں کا !
تیسری وجہ یہ ہے کہ جب لیلتہ القدر کا علم نہیں ہوگا اور بندے رمضان کی ہر رات کو لیلتہ القدر کے گمان میں جاگ کر گزاریں گے اور رمضان کی ہر رات میں عبادت کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا : اسی ابن آدم کے متعلق تم نے کہا تھا کہ یہ زمین کو خونریزی اور گناہوں سے بھر دے گا، ابھی تو اس کو لیلتہ القدر کا قطعی علم نہیں ہے، پھر بھی عبادت میں اس قدر کوشش کر رہا ہے اگر اسے لیلتہ القدر کا علم قطعی ہوتا کہ کون سی رات ہے، پھر اس کی عبادتوں کا کیا عالم ہوتا !

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اس رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے نازل ہوتے ہیں۔ یہ رات طلوع فجر ہونے تک سلامتی ہے ۔ (سورہ القدر : 5-4)

امام عبدالرحمان بن محمد بن ادریس ابن ابی حاتم رازی متوفی 327 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : کعب بیان کرتے ہیں کہ سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان کے اس کنارے پر ہے، جو جنت کے قریب ہے، پس اس کے نیچے دنیا ہے اور اس کے اوپر جنت ہے اور جنت کسری کے نیچے ہے، اس میں فرشتے ہیں جن کی تعداد کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور سدرہ کی ہر شاخ پر فرشتے اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہے ہیں اور جبریل (علیہ السلام) کا مقام اس کے وسط میں ہے، اللہ تعالیٰ ہر لیلتہ القدر میں حضرت جبریل کو ندا کرتا ہے کہ وہ سدرۃ المنتہی کے فرشتوں کے ساتھ زمین پر نازل ہوں اور ان میں سے ہر فرشتے کو مئومنین کے لئے شفقت اور رحمت دی جاتی ہے، پھر وہ غروب آفاتب کے وقت حضرت جبریل کے ساتھ زمین پر نازل ہوتے ہیں، پھر زمین کے ہر حصہ پر فرشتے سجدہ اور قیام میں مئومنین اور مئومنات کے لئے دعا کرتے ہیں، سوا ان مقامات کے جہاں یہودیوں اور عیسائیوں کا معبد ہو یا آتش کدہ ہو یا بت خانہ ہو یا کچرا کنڈی ہو یا جس گھر میں کوئی نشہ کرنے والا ہو یا جس جبریل ہر مئومن سے مصافحہ کرتے ہیں اور اس کی علامت یہ ہے کہ اس وقت ہر مئومن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کا دل بہت نرم ہوجاتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس وقت حضرت جبریل اس سے مصافحہ کر رہے ہیں ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج 10 ص 3453 رقم الحدیث : 19428 مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1417 ھ،چشتی)

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی 606 ھ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اس رات میں فرشتے نازل ہوتے ہیں، اس آیت کے ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ تمام فرشتے نازل ہوتے ہیں، بعض مفسرین نے کہا : وہ آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں، لیکن اکثر مفسرین کا مختار یہ ہے کہ وہ زمین پر نازل ہوتے ہیں، کیونکہ بہت احادیث میں یہ وارد ہے کہ تمام ایام میں فرشتے مجالس ذکر میں حاضر ہوتے ہیں ، پس جب عام ایام میں فرشتے زمین پر نازل ہوتے ہیں تو اس عظیم الشان رات میں تو فرشتے بہ طریق اولیٰ زمین پر نازل ہوں گے پھر اس میں اختلاف ہے کہ فرشتے کس لئے زمین پر نازل ہوتے ہیں اور اس میں درج ذیل اقوال ہیں :
(1) بعض نے کہا : فرشتے اس لئے نازل ہوتے ہیں کہ بشر کی عبادت اور اطاعت میں اس کی کوشش کو دیکھیں ۔
(2) فرشتوں نے کہا تھا : وما نتنزل الا بامر ربک (سورہ مریم : 64) ہم صرف آپ کے رب کے کم سے نازل ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس رات اللہ تعالیٰ ان کو زمین پر نازل ہونے کا حکم دیتا ہے ۔
(3) اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ آخرت میں اہل جنت کے پاس فرشتے نازل ہوں گے : یدخلون علیہم من کل باب۔ سلم علیکم (الرعد : 24-23) فرشتے ان کے پاس ہر دروازے سے آئیں گے۔ اور کہیں گے : تم پر سلام ہو۔
اللہ تعالیٰ نے لیلتہ القدر میں فرشتوں کو نازل ہونے کا حکم دے کر یہ ظاہر فرمایا کہ آخرت کی عزت افزائی تو الگ رہی، اگر تم دنیا میں بھی میری عبادت میں مشغول رہو گے تو یہاں بھی اس رات میں فرشتے تمہاری زیارت کے لئے آئیں گے۔ روایت ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا : فرشتے اس رات کو اس لئے نازل ہوتے ہیں کہ ہم پر سلام پڑھیں اور ہماری شفاعت کریں، سو جس کو ان کا سلام پہنچے گا اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (تفسیر کبیرج 11 ص 233، داراحیائالتراث العربی، بیروت 1415 ھ)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں، روح کے متعلق حسب ذیل اقوال امام رازی نے ذکر کئے ہیں :
(1) روح بہت بڑا فرشتہ ہے، وہ اتنا بڑا ہے کہ تمام آسمان اور زمینیں اس کے سامنے ایک لقمہ کی طرح ہیں۔
(2) روح سے مراد مخصوص فرشتوں کی ایک جماعت ہے، جس کو عام فرشتے صرف لیلتہ القدر کو ہی دیکھ سکتے ہیں۔
(3) وہ اللہ کی ایک خاص مخلوق ہے جو نہ فرشتوں کی جنس سے ہے، نہ انسانوں کی جنس سے ہے، ہوسکتا ہے وہ اہل جنت کے خادم ہوں۔
(4) اس سے مراد خاص رحمت ہے، کیونکہ رحمت کو بھی روح فرمایا ہے : قرآن مجید میں ہے : سورہ یوسف : 87) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔
(5) اس سے مراد بہت بزرگ اور مکرم فرشتہ ہے۔
(6) ابونحیج نے کہا : اس سے مراد کراماً کاتبین ہیں، جو مئومن کے نیک کام لکھتے ہیں اور برے کاموں کے ترک کرنے کو لکھتے ہیں۔
(7) زیادہ صحیح یہ ہے کہ روح سے مراد حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں، ان کی خصوصیت کی وجہ سے ان کو عام فرشتوں سے الگ ذکر کیا ہے۔ (تفسیر کبیرج 11 ص 234 داراحیاء التراث العربی، بیروت 1415 ھ،چشتی)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں : القطب الربانی الشیخ عبدالقادر الجیلانی، ” غنیتہ الطالبین “ میں فرماتے ہیں : حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اللہ تعالیٰ لیلتہ القدر میں حضرت جبرائیل کو حکم دیتا ہے کہ وہ سدرۃ المنتہی سے ستر ہزار فرشتے لے کر زمین پر جائیں، ان کے ساتھ نور کے جھنڈے ہوتے ہیں، جب وہ زمین پر اترتے ہیں تو جبرائیل (علیہ السلام) اور بقای فرشتے چار جگہوں پر اپنے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں، کعبہ پر، سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے روضہ پر بیت المقدس کی مسجد پر اور طور سینا کی مسجد پر، پھر جربائیل (علیہ السلام) کہتے ہیں کہ زمین پر پھیل جائو، پھر فرشتے تمام زمین پر پھیل جاتے ہیں اور جس مکان یا خیمے یا پتھر پر یا کشتی میں غرض جہاں بھی کوئی مسلمان مرد یا عورت ہو، وہاں فرشتے پہنچ جاتے ہیں ۔ ہاں ! جس گھر میں کتا یا خنزیر یا شراب ہو یا تصویروں کے مجسمے ہوں یا کوئی شخص زنا کاری سے جنبی ہو، وہاں نہیں جاتے۔ وہاں پہنچ کر فرشتے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں، کلمہ پڑھتے ہیں اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی امت کی لیلتہ القدر تھی۔ آسمان دنیا کے فرشتے کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے آج محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی حاجات آسمان دنیا کے فرشتے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حوامت محمدیہ کی مغفرت فرمائی ہے، اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرشتے دوسرے آسمان پر جاتے ہیں اور وہاں اسی طرح گفتگو ہوتی ہے، علی ہذا القیاس، سدرۃ المنتہی جنت الماوی جنت نعیم، جنت عدن اور جنت الفردوس سے ہوتے ہوئے وہ فرشتے عرش الٰہی پر پہنچیں گے، وہاں عرش الٰہی آپ کی امت کی مغفرت پر شکریہ ادا کرے گا اور کہے گا : اے اللہ ! مجھے خبر پہنچی ہے کہ گزشتہ رات تو نے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی امت کے صالحین کو بخش دیا اور گنہگاروں کے حق میں نیکو کاروں کی شفاعت قبول کرلی، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے عرش ! تم نے سچ کہا، محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی امت کے لئے میرے پاس بڑی عزت اور کرامت ہے اور ایسی نعمتیں ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی کے دل میں ان نعمتوں کا کبھی خیال آیا۔ (روح المعانی جز 30 ص 349-350، دارالفکر، بیروت)

فرشتوں کے زمین پر نزول کے بارے میں مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ زمین پر انسانوں کی عبادات کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سورت میں فرماتا ہے : ” تنزل المئکۃ والروح فیھا باذن ربہم، فرشتے اور جبریل امین اللہ تعالیٰ کی اجازت سے زمین پر نازل ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بشمول جبرائیل تمام فرشتے اللہ تعالیٰ سے زمین پر آنے کی پہلے اجازت طلب کرتے ہیں، پھر اس کے بعد زمین پر اترتے ہیں اور یہ چیز انتہائی محبت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ پہلے وہ ہماری طرف راغب اور مائل تھے اور ہم سے ملاقات کی تمنا کرتے تھے، لیکن اجازت کے منتظر تھے اور جب اللہ تعالیٰ سے اجازت مل گئی تو قطار درق طار صف باندھے زمین پر اتر آئے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے اس قدر گناہوں کے باوجود فرشتے ہم سے ملاقات کی تمنا کیوں کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو ہمارے گناہوں کا پتا نہیں چلتا کیونکہ جب وہ لوح محفوظ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مسلمانوں کی عبادات کو تفصیل کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جب گناہوں کا پتا نہیں چلتا کیونکہ جب وہ لوح محفوظ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مسلمانوں کی عبادات کو تفصیل کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جب گناہوں پر پہنچتے ہیں تو لوح محفوظ پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور اس وقت فرشتوں کی زبان سے بےاتخیار یہ کلمات نکلتے ہیں : سبحان ہے وہ ذات جس نے نیکیوں کو ظاہر کیا اور گناہوں کو چھپالیا ۔ (تفسیر کبیرج 11 ص 234-235 دار احیاء التراث العربی، بیروت)

اگر یہ کہا جائے کہ فرشتے خود عبادات سیم الا مال ہیں، تسبیح، تقدیسا ورت ہلیل کے تونگر ہیں، قیام، رکوع اور سجود کون سی عبادت ہے جو ان کی جھولی میں نہیں ہے، پھر انسانوں کی وہ کون سی عبادت ہے جسے دیکھنے کے شوق میں وہ انسانوں سے ملاقات کی تمنا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے زمین پر اترنے کی اجازت طلب کرتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی شخص خود بھوکا رہ کر اپنا کھانا کسی اور ضرورت مند کو کھلا دے، یہ وہ نادر عبادت ہے جو فرشتوں میں نہیں ہوتی، گناہوں پر توبہ اور ندامت کے آنسو بہانا اور گڑگڑانا، اللہ تعالیٰ سے معافی چاہنا، اپنی طبعی نیند چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی یاد کے لئے رات کے پچھلے پہر اٹھنا اور خوف خدا سے ہچیکاں لے لے کر رونا، یہ وہ عبادت ہے جس کا فرشتوں کے ہاں کوئی تصور نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : گناہ گاروں کی سسکیوں اور ہچکیوں کی آواز اللہ تعالیٰ کو تسبیح اور تہلیل کی آوازوں سے زیادہ پسند ہے، اس لئے فرشتے یاد خدا میں آنسو جانے والی آنکھوں کے دیکھنے اور خوف خدا سے نکلنے والی آہوں کے سننے کے لئے زمین پر اترتے ہیں ۔
امام رازی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ آخرت میں فرشتے مسلمانوں کی زیارت کریں گے اور آ کر سلام عرض کریں گے ” الملائکۃ یدخلون علیھم من کل باب سلام علیکم “ فرشتے (جنت کے) ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور آ کر سلام کریں گے اور لیلۃ القدر میں یہ ظاہر فرمایا کہ اگر تم میری عبادت میں مشغول ہو جائو تو آخرت تو الگ رہی دنیا میں بھی فرشتے تمہاری زیارت کو آئیں گے اور آ کر دنیا میں بھی تم کو سلام کریں گے۔ امام رازی نے دوسری وجہ یہ لکھی ہے کہ انسان کی عادت ہے کہ وہ علماء اور صالحین کے سامنے زیادہ اچھی اور زیادہ خضوع و خشوع سے عبادت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس رات فرشتوں کو بھیجتا ہے کہ اے انسانوچ تم عبادت گزاروں کیم جلس میں زیادہ عبادت کرتے ہو، آئو ! اب ملائکہ کی مجلس میں خضوع اور خشوع سے عبادت کرو۔ (تفسیر کبیرج 11 ص 235، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کی پیدائش کے وقت فرشتوں نے اعتراض کی صورت میں کہا تھا کہ اسے پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے جو زمین میں فسق و فجور اور خون ریزی کرے گا ؟ اس رات اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ان کی امیدوں سے بڑھ کر اجر وثواب کا وعدہ کیا، اس رات کے عبادت گزاروں کو زبان رسالت سے مغفرت کی نوید سنائی، فرشتوں کی آمد اور ان کی زیارت اور سلام کرنے کی بشارت دی، تاکہ اس کے بندے یہ رات جاگ کر گزاریں، تھکاوٹ اور نیند کے باوجود اپنے آپ کو بستروں اور آرام سے دور رکھیں، تاکہ جب فرشتے آسمان سے اتریں تو ان سے کہا جاسکے : یہی وہ ابن آدم ہے، جس کی خونریزیوں کی تم نے خبر دی تھی، یہی وہ شر رخا کی ہے، جس کے فسق و فجور کا تم نے ذکر کیا تھا، اس کی طبیعت اور خلقت میں ہم نے رات کی نیند رکھی ہے، لیکن یہ اپنے طبعی اور خلقی تقاضوں کو چھوڑ کر ہماری رضا جوئی کے لئے یہ رات سجدوں اور قیام میں گزار رہا ہے، تم نے فسق و فجور اور خن ریزی دیکھی تھی، ہماری خاطر راتوں کو جاگ کر سجدہ کرنے والی جبینیں نہیں دیکھی تھیں، ہماری یاد کے سبب آنکھوں میں مچلنے والے آنسو نہیں دیکھے تھے، دیکھوچ اللہ تعالیٰ بڑے مان سے تمہاری عبادت دکھانے کے لئے آسمان سے فرشتے اتارتا ہے، کہیں تم یہ رات گناہوں میں گزار کر اس کا مان نہتوڑ دینا ۔

مفسرین لکھتے ہیں کہ شب قدر میں عبادت کرنے والے انسان کو جس وقت روح الامین آ کر سلام کرتا ہے اور اس سے مصافحہ کرتا ہے تو اس پر خوف خدا کی ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے، یاد خدا سے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور خشیت الٰہی سے بدن کا رونگٹا رونگٹھا کھڑا ہو جاتا ہے ، امام رازی فرماتے ہیں : فرشتوں کا سلام کرنا، سلامتی کا ضامن ہے ۔ سات فرشتوں نے آ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سلام کیا تھا تو ان پر نمرود کی جلائی ہوئی آگ سلامتی کا باغ بن گئی تھی ۔ شب قدر کے عابدوں پر جب اس رات لاتعداد فرشتے آ کر سلام کرتے ہیں تو کیونکہ نہ یہ امید کی جائے کہ جہنم کی آگ ان پر سلامتی کا باغ بن جائے گی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فضیلتِ شبِ قدر حصّہ اوّل

فضیلتِ شبِ قدر حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : رمضان المبارک کا آخری عشرہ نہایت عظیم الشان اور اہم ہے ۔ شب قدر ، قدر و منزلت والی رات ہے ۔ اس رات کی بے شمار برکات ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس رات کے بے شمار فضائل و برکات موجود ہیں ۔ شب قدر کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کے متعلق قرآن کریم میں مکمل سورت نازل ہوئی ہے ۔  رب تبارک و تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے : اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ ، وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ ، لَیْلَةُ الْقَدْرِ١ۙ۬ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ ، تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ١ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ ، سَلٰمٌ١ۛ۫ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠  ۔
ترجمہ : بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا کیا ہے شب قدر ، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر (ہے) اس میں فرشتے اور جبرئیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے ۔  وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک ۔ (سورۂ قدر، پارہ 30)

اس رات کو لیلتہ القدر اس لئے فرمایا ہے کہ ” قدر “ کا معنی تقدیر ہے :” خلق کل شیء فقدرہ تقدیراً ۔ (سورہ الفرقان : 2)

اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کا مناسب اندازہ کیا اس رات میں اللہ تعالیٰ آئندہ سال کے لئے جو امور چاہتا ہے وہ مقدر فرما دیتا کہ اس سال میں کتنے لوگوں پر موت آئے گی، کتنے لوگ پیدا ہوں گے اور لوگوں کو کتنا رزق دیا جائے گا، پھر یہ امور اس جہان کی تدبیر کرنے والے فرشتوں کو سونپ دیئے جاتے ہیں اور وہ چار فرشتے ہیں : اسرافیل، میکائیل، عزرائیل اور جبریل (علیہم السلام) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : لوح محفوظ سے لکھ دیا جاتا ہے کہ اس سال کتنا رزق دیا جائے گا اور کتنی بارشیں ہوں گی، کتنے لوگزندہ رہیں گے اور کتنے مرجائیں گے، عکرمہ نے کہا : لیلتہ القدر میں بیت اللہ کا حج کرنے والوں کے نام اور ان کے آباء کے نام لکھ دیئے جاتے ہیں ، ان میں سے کسی نام کی کمی کی جاتی ہے اور نہ کسی نام کا اضافہ کیا جاتا ہے ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب میں مستقبل میں ہونے والے امور کے متعلق فیصلے فرماتا ہے اور ان فیصلوں کو ان فرشتوں کے حوالے کردیتا ہے جو ان کو نافذ کرتے ہیں ۔

اس رات کو لیلتہ القدر فرمانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ’ دقدر “ کا معنی عظمت اور شرف ہے ” وما قدرواللہ حق قدرہ (الانعام : 91) انہوں نے اللہ کی ایسی قدر نہیں کی جیسی قدر کرنی چاہیے تھی ، جیسے کہتے ہیں کہ فلاں آدمی کی بہت قدر و منزلت ہے ، زہری نے کہا : اس رات میں عبادت کرنے کی بہت قدر و منزلت ہے اور اس کا بہت زیادہ اجر وثواب ہے ، ابو وراق نے کہا : جس شخص کی کوئی قدر و منزلت نہ ہو ، جب وہ اس رات کو عبادت کرتا ہے تو وہ بہت قدر اور عظمت والا ہوجاتا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس رات کو لیلتہ القدر اس لئے فرمایا ہے کہ اس رات میں بہت قدر و منزلت والی کتاب ، بہت عظیم الشان رسول پر ، بہت عظمت والی امت کے لئے نازل کی گئی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس رات کو لیلتہ القدر اس لئے فرمایا ہے کہ اس رات میں بہت قدر و منزلت والے فرشتے نازل ہوتے ہیں او ایک قول یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ بہت خیر اور برکت اور مغفرت نازل فرماتا ہے ، سہل نے کہا : اس رات کو لیلتہ القدر فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے مئومنین کے لئے رحمت کو مقدر کردیا ہے ۔

خلیل نے کہا، ” قدر “ کا معنی تنگی بھی ہے، جیسا قرآن مجید کی اس آیت میں ہے : ومن قدر علیہ رزقہ (سورہ الطلاق : 7) جس شخص پر اس کا رزق تنگ کردیا گیا ۔ اس رات میں اتنی کثرت سے فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ زمین ان سے تنگ ہوجاتی ہے ۔ (الجامع لا حکام القرآن جز 20 ص 116 دارالفکر، بیروت، 1415 ھ،چشتی)

شبِ قدر شرف و برکت والی رات ہے، اس کو شبِ قدر اس لئے کہتے ہیں  کہ اس شب میں  سال بھر کے اَحکام نافذ کئے جاتے ہیں  اور فرشتوں  کو سال بھر کے کاموں اورخدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات کی دیگر راتوں  پر شرافت و قدر کے باعث اس کو شبِ قدر کہتے ہیں  اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں  نیک اعمال مقبول ہوتے ہیں  اور بارگاہِ الٰہی میں  ان کی قدر کی جاتی ہے اس لئے اس کو شبِ قدر کہتے ہیں ۔ (تفسیر خازن ، القدر، تحت الآیۃ: ۱، ۴/۳۹۵)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جس نے اس رات میں  ایمان اور اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرکے عبادت کی تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے سابقہ (صغیرہ) گناہ بخش دیتا ہے ۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب قیام لیلۃ القدر من الایمان، ۱/۲۵، الحدیث: ۳۵)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رمضان کا مہینہ آیا تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک تمہارے پاس یہ مہینہ آیا ہے اور اس میں  ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں  سے بہتر ہے ، جوشخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ تمام نیکیوں سے محروم رہا اور محروم وہی رہے گا جس کی قسمت میں  محرومی ہے ۔ (ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب ما جاء فی فضل شہر رمضان، ۲/۲۹۸، الحدیث: ۱۶۴۴)

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ یہ رات عبادت میں  گزارے اور اس رات میں  کثرت سے اِستغفار کرے ، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں :،میں  نے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ،  اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ : لیلۃ القدر کون سی رات ہے تو ا س رات میں  مَیں  کیا کہوں ؟ ارشاد فرمایا : تم کہو ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘اے اللّٰہ !، بے شک تو معاف فرمانے والا ، کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں  کو بھی معاف فرما دے ۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۸۴-باب، ۵/۳۰۶، الحدیث: ۳۵۲۴)

نیزآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں : ’’اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ کونسی رات لیلۃ القدر ہے تو میں  اس رات میں  یہ دعا بکثرت مانگوں گی’’ اے اللّٰہ میں  تجھ سے مغفرت اور عافیت کا سوال کرتی ہوں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعائ، الدعاء با العافیۃ، ۷/۲۷، الحدیث: ۸)

شبِ قدر سال میں  ایک مرتبہ آتی ہے

یاد رہے کہ سال بھر میں  شبِ قدر ایک مرتبہ آتی ہے اور کثیر روایات سے ثابت ہے کہ وہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں  ہوتی ہے اور اکثر اس کی بھی طاق راتوں  میں  سے کسی ایک رات میں  ہوتی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک  رمضان المبارک کی ستائیسویں  رات شبِ قدر ہوتی ہے اور یہی حضرتِ امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ۔ (تفسیر مدارک، القدر، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۳۶۴،چشتی)

شبِ قدر کو پوشیدہ رکھے جانے کی وجوہات

امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے شب ِقدر کو چند وجوہ کی بناء پر پوشیدہ رکھا ہے :

(1) جس طرح دیگر اَشیاء کو پوشیدہ رکھا،مثلاً اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رضا کو اطاعتوں  میں  پوشیدہ فرمایا تاکہ بندے ہر اطاعت میں  رغبت حاصل کریں ۔ اپنے غضب کو گناہوں  میں  پوشیدہ فرمایا تاکہ ہر گناہ سے بچتے رہیں ۔ اپنے ولی کو لوگوں  میں  پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ سب کی تعظیم کریں ۔ دعاء کی قبولیت کو دعاؤں  میں  پوشیدہ رکھاتا کہ وہ سب دعاؤں  میں  مبالغہ کریں۔ اسمِ اعظم کو اَسماء میں  پوشیدہ رکھا تاکہ وہ سب اَسماء کی تعظیم کریں ۔ اورنمازِ وُسطیٰ کو نمازوں  میں  پوشیدہ رکھا تاکہ تمام نمازوں  کی پابندی کریں  ۔تو بہ کی قبولیت کوپوشیدہ رکھاتاکہ بندہ توبہ کی تمام اَقسام پر ہمیشگی اختیار کرے اور موت کا وقت پوشیدہ رکھا تاکہ بندہ خوف کھاتا رہے ، اسی طرح شب ِقدر کوبھی پوشیدہ رکھاتا کہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں ۔

(2) گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ،’’اگر میں  شبِ قدر کو مُعَیَّن کردیتا اور یہ کہ میں  گناہ پر تیری جرأت کو بھی جانتا ہوں  تواگرکبھی شہوت تجھے اس رات میں  گناہ کے کنارے لا چھوڑتی اور تو گناہ میں مبتلا ہوجاتا تو تیرا اس رات کو جاننے کے باوجود گناہ کرنا لاعلمی کے ساتھ گناہ کرنے سے زیادہ سخت ہوتا۔ پس اِس وجہ سے میں  نے اسے پوشیدہ رکھا ۔

(3) گویا کہ ارشاد فرمایا میں  نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ شرعی احکام کا پابند بندہ اس رات کی طلب میں  محنت کرے اور اس محنت کا ثواب کمائے ۔

(4) جب بندے کو شبِ قدر کا یقین حاصل نہ ہوگا تووہ رمضان کی ہر رات میں  اس امید پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں  کوشش کرے گا کہ ہوسکتا ہے کہ یہی رات شب ِقدر ہو ۔ ( تفسیر کبیر، القدر، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱/۲۲۹-۲۳۰)

وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ (۲) لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ (۳) ۔
ترجمہ : اور تم نے کیا جانا کیا شبِ قدر ۔ شبِ قدر ہزار مہینوں  سے بہتر ۔

یہاں سے شبِ قدر کے عظیم فضائل بیان کئے جا رہے ہیں ، چنانچہ شبِ قدر کی ایک فضیلت یہ ہے کہ شب ِ قدر ان ہزار مہینوں  سے بہتر ہے جو شبِ قدر سے خالی ہوں  اور اس ایک رات میں  نیک عمل کرنا ہزار راتوں  کے عمل سے بہتر ہے ۔ (تفسیر خازن، القدر، تحت الآیۃ:۳، ۴/۳۹۷، مدارک، القدر، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۳۶۴)

ہزار مہینوں  سے بہترایک رات

حضرت مجاہد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار مہینے راہِ خدا  عَزَّوَجَلَّ میں  جہاد کیا ،مسلمانوں  کو اس سے تعجب ہوا تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ۖ(۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ(۲) لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ‘‘ ۔

ترجمہ : بیشک ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں  نازل کیا ۔ اور تجھے کیا معلوم کہ شبِ قدرکیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں  سے بہتر ہے ۔ ( سنن الکبری للبیہقی، کتاب الصیام، باب فضل لیلۃ القدر، ۴/۵۰۵، الحدیث: ۸۵۲۲)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ نے میری امت کو شبِ قدر کا تحفہ عطا فرمایا اور ان سے پہلے اور کسی کو یہ رات عطا نہیں  فرمائی ۔ (مسند فردوس، باب الالف ۱/۱۷۳ الحدیث: ۶۴۷،چشتی)

صدر الافاضل حضرت علاّمہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے حبیب (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ) پر کرم ہے کہ آپ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) کے اُمتی شبِ قدر کی ایک رات عبادت کریں  تو ان کا ثواب پچھلی اُمت کے ہزار ماہ عبادت کرنے والوں  سے زیادہ ہو ۔ (خزائن العرفان، القدر، تحت الآیۃ: ۳، صفحہ ۱۱۱۳)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے دو فائدے حاصل ہوئے ، ایک یہ کہ بزرگ چیزوں سے نسبت بڑی ہی مفید ہے کہ شبِ قدر کی یہ فضیلت قرآن کی نسبت سے ہے، اصحابِ کہف کے کتے کو ان بزرگوں  سے منسوب ہو کر دائمی زندگی ، عزت نصیب ہوئی ، دوسرا یہ کہ تمام آسمانی کتابوں سے قرآن شریف افضل ہے کیونکہ تورات و انجیل کی تاریخِ نزول کو یہ عظمت نہ ملی ۔ (تفسیر نور العرفان، القدر، تحت الآیۃ: ۳، ص۹۹۰،چشتی)

تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ (۴) سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠ (۵) ۔
ترجمہ : اس میں  فرشتے اور جبریل اترتے ہیں  اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے ۔ وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک ۔

شبِ قدر  کی دوسری فضیلت یہ ہے کہ اس رات میں  فرشتے اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ہر اس کام کے لیے جو اللّٰہ تعالیٰ نے اِس سال کے لئے مقرر فرمایا ہے آسمان سے زمین کی طرف اترتے ہیں  اور جو بندہ کھڑا یا بیٹھا اللّٰہ تعالیٰ کی یاد میں  مشغول ہوتا ہے اسے سلام کرتے ہیں  اور اس کے حق میں  دعا و اِستغفار کرتے ہیں ۔ (تفسیر خازن، القدر، تحت الآیۃ: ۴، ۴/۳۹۷-۳۹۸)

حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا ’’جب شبِ قدر ہوتی ہے تو حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام فرشتوں  کی جماعت میں  اترتے ہیں  اور ہر اس کھڑے بیٹھے بندے کو دعائیں  دیتے ہیں  جو اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو ۔ ( شعب الایمان، الباب الثالث والعشرون من شعب الایمان... الخ، فی لیلۃ العید و یومہا، ۳/۳۴۳، الحدیث: ۳۷۱۷)

شبِ قدر  کی تیسری فضیلت یہ ہے کہ یہ رات صبح طلوع ہونے تک سراسر بلاؤں  اور آفتوں  سے سلامتی والی ہے ۔ (تفسیر خازن، القدر، تحت الآیۃ: ۵، ۴/۳۹۸، مدارک، القدر، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۳۶۴)

حضرت مالک بن اَنَس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ساری مخلوق کی عمریں دکھائی گئیں ، نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی اُمت کی عمر سب سے چھوٹی  پائیں تو غمگین ہوئے کہ میرے اُمتی اپنی کم عمری کی وجہ سے  پہلے کی اُمتوں کے جتنے نیک اعمال نہیں کرسکیں گےچنانچہ اللہ پاک نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شبِِ قدر عطا فرمائی جو دیگر اُمّتوں کے  ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (تفسیر کبیر،جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 231 ، تحت الآیۃ :3)

شبِ قدر  میں عبادت کرنے کی فضیلت

نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : جوشخص شبِ قدر میں ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ (صحیح بخاری ، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 626 ، حدیث نمبر 1901)

 حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کی وضاحت میں لکھتے ہیں : رمضان میں روزوں کی برکت سے گناہ ِصغیرہ معاف ہوجاتے ہیں اور تراویح کی برکت سے گناہِ کبیرہ ہلکے پڑ جاتے ہیں اور شبِ قدر کی عبادت کی برکت سے درجے بڑھ جاتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح ، جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 134)

علامہ عبد الرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیث کی وضاحت میں نقل کرتے ہیں کہ رمضان کے روزوں اور قیام کےذریعے  ہونے والی  مغفرت  تو ماہِ رمضان کے آخر میں ہوتی ہے جبکہ شب قدر میں قیام کے سبب  ہونے والی بخشش کومہینے کے اِختتام تک مؤخر نہیں کیا جاتا ۔ (فیض القدیر ، جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 248، تحت الحدیث:8902)

 شبِ قدر کب ہوتی ہے ؟

محترم قارئین کرام : اللہ کریم  نے اپنی مَشِیَّت (مرضی) کے تَحت شَبِ قَدر کو پوشیدہ رکھا ہے ۔ لہٰذا ہمیں یقین کے ساتھ نہیں معلوم کہ شَبِ قَدر کون سی رات ہوتی ہے ۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : ”شَبِِ قَدْر کو رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ (بخاری جلد 1 صفحہ 661 ، حدیث : 2017،چشتی)

اگرچہ بُزُرگانِ دین اور مُفَسِّرین و مُحدِّثین رَحِمَھُمُ اللہُ تعالٰی اجمعین کا شبِ قَدْر کے تَعَیُّن میں اِختِلاف ہے ، تاہَم بھاری اکثریَّت کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستّائیسویں شَب ہی شَبِِ قَدْرہے ۔ سیّدالْقُرَّاء حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک ستّائیسویں شبِ رَمَضان ہی ”شَبِِ قَدْر“ ہے ۔ (صحیح مسلم ، صفحہ نمبر 383 ، حدیث نمبر 762)

شبِ قدر کے نوافل

فقیہ ابواللّیث ثمر قندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : شبِ قد ر کی کم سے کم دو ، زیادہ سے زیادہ ہزار اور درمیانی تعداد 100رکعتیں ہیں ، جن میں قراءت کی درميانی مقدار یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورهٔ قدر پھر تین بار سورۂ اخلاص  پڑھےاورہر دو رکعت پر سلام پھیر کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر دورد ِ پاک پڑھے ۔ (روح البیان، جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 483)

شبِ قدر کی دعا

اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ۔
ترجمہ : اے اللہ بے شک تو معاف فرمانے والا ، کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے ۔ (جامع ترمذی ، جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 306 ، حدیث نمبر 3524)

اللہ پاک ہمیں شبِ قدر کی برکتیں عطا فرمائے آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فیض و برکاتِ شبِ قدر

فیض و برکاتِ شبِ قدر
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : شب کا معنی رات ، قدر کا معنی قدرو منزلت ، اندازہ ، فیصلہ کرنا اور تنگی ہے ۔ اس میں سال بھر کےلیے فیصلے کئے جاتے ہیں اسی لیے اسی لیلۃ الحکم بھی کہتے ہیں ۔ علاوہ ازیں اس رات اتنی کثرت سے زمین پر فرشتے اترتے ہیں کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے اسی لیے اسے شب قدر یعنی تنگی کی رات ۔ قدر و منزلت مالی رات ا س لیے کہلاتی ہے کیونکہ جو بھی خوش بخت مومن اس رات کو عبادت کرتا ہے اللہ عزوجل کے ہاں اس کی قدرومنزلت بڑھ جاتی ہے ۔

سميت بها للعظمة والشرف، لان العمل فيه يکون ذا قدر عندالله ۔ (تفسير مظهری)
ترجمہ : اس رات کو شرف و عظمت والی شب اس لئے کہتے ہیں کیونکہ اس رات کو کیا جانے والا ہر عمل خیر اللہ تعالیٰ کے ہاں قدرو منزلت والا ہوجاتا ہے ۔

اسی طرح علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ یوں بیان کی ہے ۔ سميت بذالک لانه انزل فيها کتابا ذا قدر علی رسول ذي قدر علی امة ذات قدر ۔ (تفسير قرطبی، حضرت امام ابو عبدالله محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی)
ترجمہ : اسے شب قدر اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑی قدرو منزلت والی کتاب ، بڑی قدر و منزلت والے رسول پر اور بڑی قدرو منزلت والی امت پر نازل فرمائی ۔

نزول قرآن کی رات

قرآن مجید میں ارشاد ہوا : انا انزلناه فی ليلة القدر ۔ (القدر،97:1)
ترجمہ : ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔

قرآن مجید ایک ہی مرتبہ نازل نہیں ہوا بلکہ اس کا نزول 23 برس پر محیط ہے۔ سب سے پہلے قرآن حکیم کا نزول شب قدر ماہ رمضان میں سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات سے ہوا ۔

شب قدر کی فضیلت

شب قدر وہ عظیم رات ہے جو نزول قرآن کی رات ہے اور یہی وہ رات ہے جس کی فضیلت میں رب العالمین نے پوری ایک سورت نازل کر دی ہے. جس کا مقام ایک ہزار مہینوں (تراسی سال چار مہینے) سے بہتر ہے : اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ.{1} وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ {2} لَيْلَةُ الْقَدْرِ ڏ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ {3} تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ {4} سَلٰمٌ هِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ {5} ۔
ترجمہ : یقیناً ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا ۔ تو کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اس (میں ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل ) اترتے ہیں ۔ یہ رات سراسرسلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک (رہتی ہے) ۔ (القدر:5-1)

اس آيت کا شان نزول امام سيوطى نے نقل كيا کيا ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے ذکر فرمايا ايک مرد کا جو بنى اسرائيل کى قوم ميں سے تھا اور جس نے ہزار مہينے اللہ تعالى کے راستے يعنى جہاد ميں ہتھيار لگائے تھے پس تعجب کيا مسلمانوں نے اس بات سے اور افسوس کيا کہ ہم کو يہ نعمت کسى طرح ميسر ہو سکتى ہے سو نازل فرمائيں اللہ تعالى نے يہ آيتيں انا انزلناہ فى ليلة القدر وما ادرک ماليلة القدر ليلة القدر خير من الف شہر ۔ يعنى يہ شب قدر بہتر ہے ان ہزار مہينوں سے جن ميں اس مرد نے اللہ تعالى کے راستہ ميں ہتھيار لگائے تھے يعنى جہاد کيا تھا ۔ اور دوسرى روايت ميں ہے کہ بنى اسرائيل ميں ايک مرد تھا جو رات کو عبادت کرتا تھا صبح تک پھر جہاد کرتا تھا يعنى لڑتا تھا دشمن دين سے دن ميں شام تک سو عمل کيا اس نے ہزار مہينے يہى عمل کہ رات و عبادت کرتا تھا اور دن کو جہاد کرتا تھا پس نازل فرمائى اللہ تعالى نے آیة ليلة القدر خير من الف شہر۔ يعنى ان ہزار مہينوں سے جن ميں اس مرد نے عبادت و جہاد کيا تھا يہ رات بہتر ہے آھ اے بھائيو اور بہنو اس مبارک رات کى قدر کرو کہ تھوڑى سى محنت ميں کس قدر ثواب ميسر ہوتا ہے اور اس رات ميں خاص طور پر دعا قبول ہوتى ہے اگر تمام رات نہ جاگ سکو تو جس قدر بھى ہو سکے جاگو يہ نہ کرو کہ پست ہمتى سے بالکل ہى محروم رہو ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلانے کے لئے اپنے اقوال و افعال سے اس بابرکت رات کی فضیلت کو واضح فرمایا تاکہ قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے سند بن جائے ۔

چنانچہ آئمہ و محدثین صحاح ستہ نے اپنی اپنی کتب میں لیلۃ القدر کی فضیلت پر باقاعدہ ابواب اور فصول قائم فرمائے ہیں ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں (رمضان کی) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : اری رؤياکم قد تواطأت فی السبع الاواخر، فمن کان متحريها فليتحرها فی السبع الاواخر.(صحيح بخاری، کتاب فضل ليلة القدر، رقم الحديث:1911،چشتی)
ترجمہ : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس لئے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے ۔

اسی طرح ایک روایت جو کہ حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف میں بیٹھے پھر بیس تاریخ کی صبح کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اعتکاف سے نکلے اور ہمیں خطبہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : انی اريت ليلة القدر ثم انسيتها او نسيتها فالتمسوها فی العشر الاواخر فی الوتر وانی رايت انی اسجد فی ماء وطين فمن کان اعتکف مع رسول فليرجع ۔ (صحيح بخاری، کتاب فضل ليلة القدر، رقم الحديث:1912)
ترجمہ : مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی لیکن بھلادی گئی یا میں خود بھول گیا۔ اس لئے تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے (خواب میں) کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کررہا ہوں ۔ اس لئے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ پھر لوٹ آئے اور اعتکاف میں بیٹھے ۔

خیر ہم نے پھر اعتکاف کیا اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل آیا اور بارش اتنی ہوئی کہ مسجد کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا جو کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر نماز کی تکبیر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیچڑ میں سجدہ کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ کیچڑ کا نشان میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشانی پر دیکھا ۔

شب قدر کو تلاش کرو

شریعت نے شبِ قدر کی تعیین نہیں فرمائی بلکہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے رکھ دیا گیا۔ اس کی حکمتیں تو اللہ رب العزت ہی بہتر جانتا ہے ۔ تاہم علماء کرام نے اپنی بصیرت سے اس کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ زیادہ عبادت کرسکے ۔ اگر اس کی تعیین فرمادی جاتی تو امت مسلمہ کا ہر فرد صرف اسی متعین شدہ ایک ہی رات شب بیداری کرتا اور عبادت کرتا۔ تاہم اس کی تعیین نہ ہونے سے مفاد یہ ہے کہ لوگ کم از کم اسے پانے کے لئے پانچ طاق راتیں جاگیں گے اور اپنے خدا کے حضور استغفار کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکار مدینہ، سرور قلب و سینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بہت سی احادیث مبارکہ میں اسے تلاش کرنے کا حکم دیا ہے ۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں پورا ایک باب قائم فرمایا ہے: ’’باب تحری ليلة القدر فی الوتر من العشر الاواخر‘‘ یعنی عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر کو تلاش کرنے کا باب۔ چنانچہ اس سلسلہ میں صدیقہ کائنات حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : تحرواليلة القدر فی الوتر من العشر الآواخر ۔ (متفق عليه. صحيح البخاری، رقم الحديث:1913، صحيح المسلم، رقم الحديث: 1165،چشتی)
ترجمہ : شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔

اسی طرح ایک روایت حضرت ابوسعید خدری سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تلاش کرو اور اسے اکیسویں ، تئیسویں اور پچیسویں رات میں ڈھونڈو۔ (راوی کہتا ہے) میں عرض گزار ہوا کہ اے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ آپ اس شمار کو ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا : ہاں ، میں نے نویں ، ساتویں اور پانچویں کہا ہے یعنی جب اکیسویں رات گزر جائے تو اس کے ساتھ والی نویں ہے اور جب تیئسویں گزر جائے تو اس کے ساتھ والی ساتویں ہے اور جب پچیسویں گزر جائے تو اس کے ساتھ والی پانچویں ہے ۔ (سنن ابوداؤد، باب فی لیلۃ القدر، رقم الحدیث:1369)

شب قدر اور معمول مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

اگر روایات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم شب قدر کا خاص اہتمام فرماتے اور عبادت کرتے ۔ چنانچہ موضوع کی مناسبت سے چند روایات حوالہ قرطاس کی جاتی ہیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب رمضان کے (آخری عشرہ) کے دس دن باقی رہ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنا کمر بند کس لیتے اور اپنے اہل خانہ سے الگ ہوکر (عبادت و ریاضت) میں مشغول ہو جاتے ۔ (مسند احمد بن حنبل، رقم الحدیث:24422)

حضرت علی المرتضیٰ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں گھر والوں کو (عبادت کے لئے) جگاتے ۔ (جامع ترمذی، باب ماجاء فی لیلۃ القدر، رقم الحدیث:774)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں (عبادت کی) جس قدر کوشش فرماتے اتنی دوسرے دنوں میں نہ فرماتے ۔ (جامع ترمذی باب ماجاء فی لیلۃ القدر رقم الحدیث775،چشتی)

شب قدر کے وظائف

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: شب قدر کا کیا وظیفہ ہونا چاہئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان الفاظ میں تلقین فرمائی ۔

اللهم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ۔
ترجمہ : اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے ۔ پس مجھے (بھی) معاف فرمادے ۔

علاوہ ازیں علماء کرام نے اور بھی مختلف اوراد و وظائف تحریر فرمائے ہیں ۔ جن میں سے چند حسب ذیل ہیں : ⬇

بارہ (12) رکعت نماز تین سلام سے پڑھیں ۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ القدر ایک مرتبہ اور سورہ الاخلاص سات بار پڑھیں اور سلام کے بعد سات سو مرتبہ استغفار پڑھیں ۔ استغفرالله ربی من کل ذنب واتوب اليه ۔

دو (2) رکعت نماز نفل پڑھیں ۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۃ القدر تین تین مرتبہ اور سورہ اخلاص پانچ پانچ مرتبہ پڑھیں۔ بعد از سلام سورۃ اخلاص 7 مرتبہ پڑھیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ۔

چار (4) رکعت نماز دو سلام (یعنی دو دو رکعتیں) سے پڑھنی ہیں ۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ التکاثر ایک ایک بار اور سورہ اخلاص تین تین مرتبہ پڑھنی ہے ۔ قبر سے چھٹکارا ہوگا ۔ ان شاء اللہ ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کی آمد پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ ماہ جو تم پر آیا ہے ، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے ۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ ساری خیر سے محروم رہا ۔ اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتاً محروم ہو ۔ (سنن ابن ماجه)

شب قدر کا نام شب قدر اس لیے پڑا کہ یہ قدر یعنی مقام ومرتبے سے بنا ہوا ہے . کہتے ہیں فلاں عظیم القدر ہے یعنی مرتبے والا ہے .

یا یہ قدر یعنی تقدیر سے بنا ہے کیونکہ اس میں اس سال ہونے والی تمام چیزوں کی تقدیر لکھی جاتی ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے سب کچھ لکھا جاتا ہے. یہ اللہ تعالٰی کی حکمت، اس کی مضبوط کاریگری اور تخلیق کا بیان ہے .

کہتے ہیں کہ یہ نام اس لیے پڑا کہ اس رات میں عبادت کا بہت عظیم مرتبہ ہے . نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان ہے : قال رسول الله صلي الله عليه واله وسلم من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه ۔
ترجمة : جو شب قدر میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں . (متفق علیہ)

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةُ الْقَدْرِ مَا أَقُولُ فِيهَا ؟ قَالَ: قُولِي: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي ۔
ترجمة : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ”پڑھو «اللهم إنك عفو كريم تحب العفو فاعف عني» ” اے اللہ تو عفو و درگزر کرنے والا مہربان ہے ، اور عفو و درگزر کرنے کو تو پسند کرتا ہے ، اس لیے تو ہمیں معاف و درگزر کر دے ۔ (سنن الترمذي ، چشتی)

راجح بات یہ ہے کہ یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے اور ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ﻓﺎﻟﺘﻤﺴﻮﻫﺎ ﻓﻲ اﻟﻌﺸﺮ اﻷﻭاﺧﺮ ﻓﻲ اﻟﻮﺗﺮ ۔
ترجمة : اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ (صحیح بخاری )

شب قدر کی علامات

اس رات کے بعد صبح کو سورج میں تپش نہیں ہوتی. حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ﻭﺃﻣﺎﺭﺗﻬﺎ ﺃﻥ ﺗﻄﻠﻊ اﻟﺸﻤﺲ ﻓﻲ ﺻﺒﻴﺤﺔ ﻳﻮﻣﻬﺎ ﺑﻴﻀﺎء ﻻ ﺷﻌﺎﻉ ﻟﻬﺎ ۔
ترجمة : اس رات کی نشانی یہ ہے کہ سورج اس کی صبح بالکل سفید طلوع ہوتا ہے اس میں کوئی تپش نہیں ہوتی ۔ (صحیح مسلم)

اس رات موسم بالکل معتدل رہتا ہے نہ بہت سرد نہ بہت گرم . نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں : ليلة القدر ليلة سمحة طلقة لا حارة ولا باردة تصبح الشمس صبيحتها ضعيفة حمراء ۔
ترجمة : شب قدر وہ رات ہے جو بالکل نرمی اور سادگی والی رات ہوتی ہے نہ گرم نہ ٹھنڈی، سورج اس کی صبح کو ہلکا سرخ ہوتا ہے ۔ (صحیح الجامع،چشتی)

اس رات چاند کسی تھالی کے ٹکڑے کی مانند طلوع ہوتا ہے. اللہ کے نبی صل اللہ علیہ و سلم صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : أَيُّکُمْ يَذْکُرُ حِينَ طَلَعَ الْقَمَرُ وَهُوَ مِثْلُ شِقِّ جَفْنَةٍ ۔
ترجمة : تم میں سے کسی کو یاد ہے کہ جس وقت چاند طلوع ہوا (وہ کیسا تھا) لیلةالقدر وہ رات ہے کہ جس میں چاند طشت کے ایک ٹکڑے کی طرح طلوع ہوتا ہے ۔ (صحیح مسلم )

صحیح احادیث سے صرف یہی علامات ثابت ہیں باقی عوام میں اس رات کے تعلق سے جو بہت ساری باتیں رائج ہیں ان کی کوئی اصل نہیں ہے .

امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الدعاء في الليلة أحب إلي من الصلاة”،وإذا كان يقرأ وهو يدعو ويرغب إلى الله في الدعاء والمسألة لعله يوافق ۔
ترجمة : اس رات میرے نزدیک دعا نماز سے زیادہ محبوب ہے. جب کہ وہ قرآن پڑھتے ہوئے دعا کرتا ہو اور اللہ کی طرف دعا اور سوال کرنے میں رغبت رکھتا ہو تو شاید اس رات کا اجر پا لے ۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ويُستحب أن يُكثر فيها من الدعوات بمهمات المسلمين، فهذا شعار الصالحين، وعباد الله المؤمنين الموحدين ۔ (شرح مسلم)
ترجمة : مستحب یہ ہے کہ اس رات مسلمانوں کے اہم امور کے تعلق سے زیاد سے زیادہ دعا کریں . یہی صالحین اور اللہ کے مومن موحد بندوں کا شعار ہے .

رجب المرجب ، شعبان المعظم ، رمضان المبارک اور اس ميں تین راتں بابرکت ہيں اس لے شب معراج ، شب برات ، ليلة القدر اس لے اس مہینوں میں برکت ہيں ۔

دعا : اے اللہ ہم سب کو شب قدر کی اس عظیم نعمت کا فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرماء آمین . اللهم تقبل منا ومنكم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...