نماز میں رفع یدین سنت ہے یا نہیں؟اس بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے ۔ہر ایک کے پاس ان کی موید احادیث موجود ہیں۔لیکن یہ مسئلہ سب کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ کوئی نماز میں رفع یدین کرے یا نہ کرے نماز بہر حال ہوجائے گی ۔یعنی یہ ضروریات میں سے نہیں۔مگر کچھ لوگ اس غیر ضروری مسئلے کو لے کر جگہ جگہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ وفساد کی آگ بھڑ کانے میں مصروف رہتے ہیںاس لیئے ہم مستند دلائل کے ساتھ اس مضمون کو پیش کر رہے ہیں آہل ایمان خود پڑھیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ اصل معاملہ کیا ہے؟
کتب احادیث میں کئی ایسی روایتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺنے نماز میں رفع یدین کیا۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ:میں نے دیکھا کہ جب رسول اللہ ﷺنماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے ۔اور ایسے ہی کرتے اس وقت جب آپ رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے۔(صحیح بخاری، کتاب الاٰذان،باب رفع الیدین اذا کبّر واذارکع واذا رفع، حدیث: ۷۳۶)یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔(سنن ابوداود،حدیث:۷۴۴)ان دونوں روایتوں سے ثابت ہوا کہ حضور ﷺنے نماز میں رفع یدین کیا۔لہذا اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔
کتب احادیث میں ایسی بھی روایتیں موجود ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺنماز میں رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت برا ء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضور ﷺ جب نماز شروع کر تے تو اپنے دونوں ہا تھوں کو کانوں تک اٹھاتے پھر دوبارہ ایسا نہ کرتے۔(ابوداود،کتاب الصلاۃ،باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع ،حدیث:۷۵۰۔مصنف عبد الر زاق،حدیث:۲۵۳۰۔مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۴)
حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فر مایا :کیا میں تم لو گوں کو رسولِ اکرم ﷺ کے نماز پڑھنے کی طرح نماز نہ پڑ ھا دوں ؟راوی کہتے ہیں: پھر انہوں نے نماز پڑھائی،تو صرف ایک مر تبہ (یعنی شروع میں )ہاتھ اٹھا یا پھر دوبارہ ایسا نہ کیا۔(ترمذی،کتاب الصلاۃ عن رسول اللہ ﷺ،باب ما جاء ان النبی ﷺ لم یرفع الا فی اول مرّۃ ، حدیث: ۲۵۷ ۔ نسائی،حدیث:۱۰۵۸۔ ابوداود،حدیث:۷۴۸۔مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۴۱)
یہ حدیث تمام محدثین کے نزدیک صحیح ہے لہذا ثابت ہوا کہ حضور ﷺنے نماز میں رفع یدین نہ کیا ۔لہذا اس میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس صورت میں تمام مسلک کے علماء کے نزدیک قاعدہ ہے کہ پہلے یہ دیکھاجائے کہ اس میں سے کون پہلے کی ہے اور کون بعد کی؟ (یعنی کون منسوخ ہے اور کون ناسخ)۔پھر جو منسوخ ہو اس پر عمل نہ کیا جائے کیو نکہ بہت ساری ایسی باتیں ہیں جو شروع شروع میں جائز تھیں ،خود حضور ﷺنے بھی کیا مگر بعد میں اس سے منع فر مادیا۔جیسے شروع میں حضور ﷺاور صحابہ کرام نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی مگر بعد میں منع فر مادیا گیا اور خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑ ھنے کا حکم دیا گیا۔اس لئے حضور ﷺ سے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے ثابت ہونے کے باوجود کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
آپ احادیث کی تمام کتا بوں کا مطالعہ کر لیجئے ۔ایک حدیث بھی ایسی نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو کہ رفع یدین نہ کرنے کی حدیث منسوخ ہے یہاں تک کہ کوئی ضعیف سے ضعیف حدیث بھی ایسی نہیں ہے ۔حدتویہ ہے کہ کسی موضوع حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا۔ جب کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رفع یدین کی حدیث منسوخ ہے اور خود حضور ﷺنے بعد میں اس سے منع فر مادیا۔چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیںکہ:رسول اللہ ﷺ ہماری طرف تشریف لائے اور فر مایاکہ:کیا وجہ ہے کہ میں تم کو سر کش گھوڑے کی دم کی طرح ’رفع یدین‘کر تے ہوئے دیکھتا ہوں؟نماز سکون کے ساتھ پڑھا کرو۔( صحیح مسلم ،کتاب الصلاۃ،باب الامر بالسکون فی الصلٰوۃ ، حدیث :۴۳۰)
کچھ لوگ اس حدیث سے یہ سمجھتے ہیں کہ:نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ کرام جو دائیں اور بائیں طرف ہاتھ اٹھاتے تھے اس سے حضور نے منع فر مایا۔یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے کیو نکہ حضور ﷺ نے جب ان کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فر مایا:اسکنوا فی الصلوۃ۔نما زمیں سکون سے رہو۔’’نماز میں‘ ‘کا لفظ خود بتا رہاہے کہ حضور ﷺنے نماز میں رفع یدین سے منع فر مایا۔اگر’’ نماز میں ‘‘ کے لفظ سے’’ نماز سے باہر ‘‘مراد لینا درست ہو جائے تب تو زمین بول کر آسمان مراد لینا بھی صحیح ہو جائے گا جب کہ یہ کوئی نہیں مانتا۔ لہذا اس سے نماز سے باہر رفع یدین بھی مراد لینا درست نہیں ہو سکتا ۔نیزفقیہ امت سیدنا عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رفع یدین کیا تو ہم نے رفع یدین کیا اور آپ ﷺ نے رفع یدین چھوڑ دیا تو ہم نے بھی چھوڑ دیا۔(فتح القدیر ، جلد :۱،صفحہ،۲۷۰،۲۷۱)ان دونوں روایتوں سے معلوم ہو گیا کہ رفع یدین کرنے سے خود حضور ﷺنے منع فر مادیا۔ لہذا اب وہ سنت نہیں رہا۔
آپ ﷺ کے وصال کے بعد اکابر صحابہ کرام نے کس پر عمل کیا ۔پھر اکابر صحابہ نے جس پر عمل کیا اسی پر عمل کیا جائے گا کیو نکہ صحابہ کرام آپ ﷺ کے آخری عمل کے مطابق ہی عمل کیا کرتے تھے۔(صحیح مسلم،کتاب الصیام ، باب جواز الصوم والفطر فی شھر رمضان للمسافر الخ ،حدیث: ۱۱۱۳)
کتب احادیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اکابر صحابہ و تابعین نے رفع یدین نہ کرنے والی حدیث پر عمل کیا۔اس لئے اب جائز نہیں کہ کوئی رفع یدین کرنے والی حدیث پر عمل کرے۔رہی بات وہ روایتیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اکابر صحابہ نے رفع یدین نہ کیا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کر تے ہیں کہ :میں نے حضور ﷺ ،حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی،یہ سب حضرات صرف نماز کے شروع ہی میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔(سنن دار قطنی،باب ماجاء فی رفع الیدین عند التکبیر ، جلد:۲؍ص:۵۲،حدیث:۱۱۳۳۔مسندِابو یعلی،۸/۴۵۳،حدیث:۵۰۳۹۔سنن الکبریٰ للبیہقی،۲/۷۹)
جلیل القدر تابعی حضرت اسود کہتے ہیں کہ :میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز ادا کیا تو آپ نے صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھایا اور پھر دوبارہ نہ اٹھا یا۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلاۃ،باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود ، حدیث : ۲۴۶۹)
حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی تکبیر کے وقت اٹھاتے تھے ۔پھر اس کے بعد نہیں اٹھاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث : ۲۴۵۷،شرح معانی الاثار،حدیث:۱۳۵۳،موطا امام محمد،حدیث:۱۰۵،۱۰۹)
حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے پھر کبھی نہیں اٹھاتے تھے۔اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طر ح مروی ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث:۲۴۵۸۔ (شرح معانی الاثار،حدیث: ۱۳۶۳،،مصنف عبد الرزاق،حدیث:۲۵۳۳)
حضرت ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے ساتھ رہنے والے تمام حضرات اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھا تے تھے مگر صرف نماز کے شروع میں،اورمشہور زمانہ محدث وکیع ابن الجراح کے الفاظ یہ ہیں کہ:وہ حضرات پھر دوبارہ ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث:۲۴۶۱)
ان تمام روایتوں سے ثابت ہوگیا کہ حضرت ابو بکر،حضرت عمر،حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم نماز میں رفع یدین نہیں کیاکرتے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امت میں حضور ﷺکی سنتوں کو سب سے زیادہ جاننے والے یہی حضرات ہیں۔تو رفع یدین کی حدیث ہوتے ہوئے جب ان لوگوں نے اس پر عمل نہ کیا تو پھر دوسرا کیسے کر سکتا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس کے علاوہ مزے کی بات یہ ہے کہ جس صحابی رسول ﷺسے رفع یدین کرنے کی حدیث مشہوراور مروی ہے انہوں نے خود اس پر عمل نہ کیا ۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے رفع یدین کیا ۔ مگر وہ خود اس پر عمل نہ کرتے تھے چنانچہ حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ:میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے اپنے ہاتھوں کونہ اٹھایامگر صرف نماز کی پہلی تکبیر ہی کے وقت ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ، باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث:۲۴۶۷ ، شرح معانی الاثار، حدیث: ۱۳۵۷)
اب آپ خود سوچیں !کہ جنہوں نے حضور ﷺکے بارے میں بتایا کہ آپ ﷺنے رفع یدین کیا ،وہ خود کیوں نہیں کرتے تھے ؟کیا اس لئے کہ وہ جان بوجھ کر حضور ﷺکی مخالفت کرتے تھے؟ایک صحابی کے بارے میں کوئی مسلمان ایسا گمان کیسے کر سکتا ہے؟تو ظاہر ہے کہ یہی وجہ ہوگی کہ آپ ﷺنے کیا مگر بعد میں منع فرما دیا۔ یا پھر حضور ﷺنے کبھی رفع یدین بھی کیا مگر زیادہ تر آپ نے نہ کیا۔اس لئے انہوں نے آپ ﷺ کے اسی عمل کے مطابق عمل کیا۔جو آپ کے نزدیک زیادہ صحیح تھا۔
آج ایک طبقہ رفع یدین نہ کرنے والوں پر طعن و تشنیع کرتے ہیں کہ یہ لوگ حضور ﷺکے طر یقے کے مطابق نماز نہیں پڑ ھتے ہیں یہاں تک کہ انہیں گا لیاںبھی دیتے ہیں۔جبکہ حضور ﷺ اوراکابر صحابہ کا بھی یہی طر یقہ تھاجیسا کہ اوپر گذرا۔نیز حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خاص اسی چیز کو دکھانے کے لئے کہ حضور ﷺکیسے نماز پڑ ھتے تھے۔ جب نماز پڑ ھی تو آپ نے رفع یدین نہ کیا جیسا کہ یہ بھی اوپر مکمل حوالہ کے ساتھ گذرا۔اور اس حدیث کے صحیح ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق بھی ہے ۔
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ حقیقت میں کن کو گا لیاں دیتے ہیں؟اوراحادیث طیبہ سے مذکورہ حقائق سامنے آنے کے بعدکیا یہ لوگ اس لائق ہیں کہ ان کی باتوں پر کان دھرا جائے؟چلتے چلتے آخر میں اس سلسلے کا مشہور منا ظرہ جو سید نا امام اعظم ابو حنیفہ اور مشہور فقیہ سیدنا امام اوزاعی کے درمیا ن مکہ شریف میں ’’دارالحناطین‘‘کے اندرہو ا تھا ۔اس کی روداد باذوق قارئین کی ضیافت طبع کے لئے نذر ہے ۔ واللہ الھادی الی سواء السبیل۔
سفیان بن عیینہ بیان کرتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام اوزاعی مکۃ المکر مہ میں دار الحناطین کے اندر ملے ،توامام اوزاعی نے امام اعظم ابو حنیفہ سے کہا :کیا بات ہے کہ آپ لوگ رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھنے کے بعد رفع یدین نہیں کر تے ہیں ؟امام اعظم نے کہا :کیو نکہ اس بارے میں کو ئی صحیح حدیث نہیں ۔
امام اوزاعی:آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ اس بارے میں کو ئی صحیح حدیث نہیں ۔یہ لیجئے میں آپ کے سامنے صحیح حدیث پیش کر تا ہوں ’’مجھ سے بیا ن کیا زہری نے انہوں نے سالم سے اور سالم نے اپنے والد حضرت عبد اللہ بن عمر سے وہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ جب نماز شروع کرتے تو ہاتھ اٹھا تے اور رکوع کے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت۔
امام اعظم:مجھ سے حدیث بیان کیا حماد نے انہوں نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے علقمہ اور اسود سے انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ حضور ﷺ صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے بعد کبھی ہا تھ نہ اٹھاتے ۔
امام اوزاعی:آپ نے جو حدیث پیش کی اسے میری حدیث پر کیا فوقیت ہے ؟جس کی وجہ سے آپ نے اِس حدیث پر عمل کیا اور میری حدیث کو چھوڑ دیا؟
امام اعظم:کیونکہ حماد ،زہری سے زیادہ بڑے عالم و فقیہ ہیں ۔اور ابرا ھیم نخعی سالم سے بڑے فقیہ ہیں ،رہی بات علقمہ کی تو وہ سالم کے والد حضرت عبد اللہ بن عمر سے علم میں کم نہیں ۔اور اسود تو وہ بڑے متقی اور فقیہ ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو کئی اعتبار سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بڑھ چڑ ھ کے ہیں ،قرأت میں ،حضور ﷺ کے ساتھ رہنے میں ۔کہ یہ بچپن سے حضور ﷺ کے ساتھ رہے۔حاصل یہ کہ ہماری حدیث کے راوی آپ کے حدیث کے راویوں سے علم و فضل میں زیادہ ہیں اس لئے میں نے اس پر عمل کیا اور اس کو چھوڑ دیا۔
امام اوزاعی :خاموش ہو گئے۔(الجامع الرضوی ،صفحہ :۳۹۸)
الحمد للہ : مسئلہ خوب واضح ہو گیا کہ رفع یدین کرنا حضور ﷺ سے ثابت تو ہے مگر یہ منسو خ ہو چکا تھا،یا حضور ﷺ کا آخری عمل یہ نہ تھا اس لئے اب یہ سنت نہ رہا۔
آخری بات:امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی رفع یدین کے قائل ہیں ۔تو یاد رکھیںکہ ان کے پاس بھی دلائل یقینا ہیں مگر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی طرح نہیں۔جیسا کہ تفصیل سے اوپر بیان ہوا ۔لیکن اُس گروہ کا امام شافعی سے کوئی تعلق نہیں کیو نکہ اُن کا عقیدہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے عقائد کے بالکل خلاف ہیں ۔نیز امام شافعی مجتہد ہونے کی وجہ سے مختلف احادیث کے پیش نظر فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اور بالفرض اگر ان سے خطا بھی ہو جائے تو انہیں گناہ نہیں بلکہ اجتہاد کا ثواب ملے گا جیسا کہ حضور ﷺنے فر مایا ہے کہ :جب مجتہد اجتہاد کرتاہے تو صحیح فیصلہ پر دوثواب اور غلط پر ایک ثواب دیا جاتاہے ۔(صحیح بخاری ،کتاب التوحید،باب اجر الحاکم اذااجتھد فأصاب أو أخطاء ، حدیث :۷۳۵۲)
اِس کے علاوہ احادیث سے مسائل کے استنباط واستخراج کے لئے ان کے پاس کچھ مقررہ اصول ہیں جن کی روشنی میں وہ کوئی شرعی موقف اختیار کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں وہ نام نہاد’’ تجدد ‘‘ اور ’’نفسانیت ‘‘کو نہیں بلکہ مسلمہ اصول کو مدِّ نظر رکھتے ہیں اور اجتھاد کرتے ہیں اسی لئے ہم ان کا احترام دل وجان سے کرتے ہیں اورانہیں حق مانتے ہیں ۔مگر وہ (وہابی،غیر مقلد)جو حقیقت میں نوعمر ، کمزور عقل اور جاہل لوگوں کی ایک ٹولی ہے اور جن کا شعار صحابہ رضی اللہ عنہم ،اولیاء اوربز رگان امت علیہم الرّحمہ کی گستاخی کرنا اور مسلمانوں میں فتنہ وفساد پھیلانا ہے۔ ان کی مذمت بسیار کرتے ہیں۔ کیو نکہ الفتنۃ اشد من القتل۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment