Tuesday, 27 June 2017

دم درود اور تعویذ قرآن و حدیث کی روشنی میں




حدیث پر عمل کا دعوی اسی وقت درست ہے جب عمل بھی ہو, اپنے مطلب کی حدیث لے لینے والا اور دوسری کو چھوڑ دینے والا حدیث کا پیروکار نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف اور دشمن حدیث ہے, ایسے لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق ہیں جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اخیر زمانے میں کچھ لوگ ایسی باتیں لائیں گے جن کو تم اور تمھارے باپ دادا نے نہ سنا ہوگا, ایک حدیث بیان کرنا اور دوسری چھوڑ دینا بلا شبہ حدیث کا غلط مطلب بیان کرنا اور نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہے اس لیے کہ کثیر احادیث ایسی ہیں جن کا مطلب دوسری احادیث سے ہی واضح ہوتا ہے.

تعویذ اور جھاڑ پھونک کی قرآن و احادیث کی روشنی میں کیا حقیقت ہے ہم ذیل میں اسے بیان کرتے ہیں.قرآن پاک میں اللّٰه تعالی ارشاد فرماتا ہے " وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ھُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِیْنَ "
یعنی ہم قرآن کی وہ آیتیں اتارتے ہیں جو مؤمنین کے لیے شفا اور رحمت ہیں

اولًا اس آیت مبارکہ ہی سے دم اور تعویذ کا ثبوت ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کو مومنین کے لیے شفا اور رحمت قرار دیا ہے، اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ پڑھ کر کسی پر دم کردیا جائے یا تعویذ بنا کر مریض کے گلے میں لٹکا دیا جائے ، اس آیت پر غور کرنے کے بعد کوئی بھی ذی عقل تعویذ و دم کو ناجائز و حرام نہیں کہہ سکتا مگر وہی قرآن جن کے حلق سے نیچے نہیں اترتا.

تعویذ اورجھاڑ پھونک وہ ممنوع و ناجائز ہیں جس میں جہالت بھرے الفاظ اور شرکیہ کلمات ہوں اور جس میں یہ باتیں نہ ہوں بلکہ قرآنی آیات اور سنت سے ثابت دعاؤں کے ذریعہ ہو وہ بلا شبہ جائز و مستحسن ہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جھاڑ پھونک (دم) فرمایا کرتے تھے.

بخاری شریف میں ہے: 5412 حدثنی احمد ابن ابی رجاء حدثنا النضر عن ھشام بن عروۃ قال اخبرنی ابی عن عائشۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرقی یقول امسح الباس رب الناس بیدک الشفاء لا کاشف لہ الا الا انت ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دم کرتے تو کہا کرتے تکلیف کو مٹا دے اے لوگوں کے رب شفا تیرے دست قدرت میں ہے,اس مشکل کا آسان کرنے والا تیرے سوا کوئی نہیں.

اس حدیث پاک میں صاف طور پر مذکور ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم دم فرمایا کرتے تھے.

نيز بخاری اور مسلم دونوں کی روایت ہے : عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : " أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَوْا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ العَرَبِ ، فَلَمْ يَقْرُوهُمْ ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ لُدِغَ سَيِّدُ أُولَئِكَ ، فَقَالُوا : هَلْ مَعَكُمْ مِنْ دَوَاءٍ أَوْ رَاقٍ ؟ فَقَالُوا: إِنَّكُمْ لَمْ تَقْرُونَا ، وَلاَ نَفْعَلُ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا ، فَجَعَلُوا لَهُمْ قَطِيعًا مِنَ الشَّاءِ ، فَجَعَلَ يَقْرَأُ بِأُمِّ القُرْآنِ ، وَيَجْمَعُ بُزَاقَهُ وَيَتْفِلُ ، فَبَرَأَ ، فَأَتَوْا بِالشَّاءِ ، فَقَالُوا: لاَ نَأْخُذُهُ حَتَّى نَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلُوهُ ، فَضَحِكَ وَقَالَ: ( وَمَا أَدْرَاكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ؟ خُذُوهَا ، وَاضْرِبُوا لِي بِسَهْمٍ ) " رواه البخاري ( 5736 ) ، ومسلم ( 2201 ) . یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحاب عرب کے کسی قبیلہ کے پاس گئے تو انھوں نے صحابہ کی طرف توجہ نہیں کی اسی درمیان ان کے سردار کو بچھو یا سانپ نے ڈس لیا, انھوں نے پوچھا کیا تمھارے پاس کوئی دوا یا دم کرنے والا ہے؟ اصحاب رسول نے فرمایا تم نے ھماری طرف توجہ نہیں دی, اور ہم دم نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اجرت مقرر نہ کرو تو انھوں نے بکری کا ایک ریوڑ مقرر کر دیا تو وہ سورہ فاتحہ پڑھنے لگے اور تھوک جمع کرکے تھوکتے ایسا کرنے سے وہ سردار شفا یاب ہوگیا. اس قبیلہ کے لوگوں نے ریوڑ پیش کیا تو اصحاب نے کہا کہ ہم یہ اس وقت لیں گے جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں گےپھر حضور سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا تمھیں کیا معلوم کہ وہ جھاڑ پھونک ہے؟ بکری لے لو اور ایک حصہ میرے لیے نکالو۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اس حدیث پاک میں واضح طور پر مذکور ہے کہ صحابی نے جھاڑ پھونک فرمائی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اسے غلط قرار نہیں دیا بلکہ اس کی اجرت بھی قبول کرنے کا حکم دیا. اس دونوں حدیثوں سے ثابت ہوا کہ جھاڑ پھونک جائز ہے بشرطیکہ قرآنی آیات اور دعاے ماثورہ کے ذریعہ ہو

نیز مسلم شریف میں ہے: وعَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : " نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقَى ، فَجَاءَ آلُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ ! إِنَّهُ كَانَتْ عِنْدَنَا رُقْيَةٌ نَرْقِي بِهَا مِنَ الْعَقْرَبِ ، وَإِنَّكَ نَهَيْتَ عَنِ الرُّقَى ، قَالَ: فَعَرَضُوهَا عَلَيْهِ ، فَقَالَ: ( مَا أَرَى بَأْسًا ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ ) رواه مسلم ( 2199 ) . یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا تو عمرو بن حزم کی آل حضور کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس ایک دم تھاجسے ہم بچھو کے کاٹنے پر کرتے تھے اور آپ نے دم کرنے سے منع فرمادیا ہے, حضور نے فرمایا وہ دم مجھے بتاؤ پھر فرمایا میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا, تم میں سے جو اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے تو اسے پہنچانا چاہیے ۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جھاڑ پھونک میں اگر شرکیہ بات نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح سے مسلمان بھائی کو نفع پہنچانے کی ترغیب دلائی ہے

مسلم شریف کی ایک اور حدیث ملاحظہ کیجیے جس میں حضور نے صاف طور فرمایا کہ جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شرک نہ ہو

وعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ : " كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ ! كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : ( اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ ) " رواه مسلم ( 2200 ) .یعنی صحابی عوف بن مالک کا بیان ہے کہ ہم زمانہ جاھلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ اسے کیسا گمان کرتے ہیں؟ فرمایا: اپنی جھاڑ پھونک,دم مجھے بتاؤ, دم یا جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں کوئی شرک نہ ہو.(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ظاہر ہے کہ دم.جھاڑ پھونک اور دعا تعویذکرنے والے قرآنی آیات اور سنت سے ثابت دعاؤں کے ذریعہ کرتے ہیں ان کا یہ کام بالکل درست ہے اور حدیث سے اس کا قوی ثبوت ہے, کوئی اگر اب جھاڑ پھونک کو غلط قرار دیتا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہے اور صریح و مرفوع احادیث کا انکار کرتا ہے. اور یاد رہے کہ حضور نے فرمایا ہے کہ جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو اسے اپنا ٹھکانہ جھنم میں بنانا چاہیے. اب منکرین اپنے ایمان کا اندازہ لگائیں,

تعویذ اور دم دونوں ہم معنی ہیں : مصباح اللغات میں ہے: عَوَّذَ تَعْوِیْذًا وَاَعَاذَ اِعَاذَۃً الرجل. حفاظت کی دعا کرنا اور اعیذک باللہ کہنا, منتر کرنا گلے میں تعویذ لٹکانا (ص: 583)رقی یرقی الرُّقی: منتر, تعویذ (ص: 310)

حدیث میں یہ دونوں الفاظ آئے ہیں : جس طرح دم کرنے میں کوئی حرج نہیں اسی طرح لٹکانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہم اس تعلق سے بھی حدیث پیش کرتے ہیں : امام احمد بن حنبل اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حدثنا يزيد ، أخبرنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا كلمات يقولهن عند النوم ، من الفزع : " بسم الله ، أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وعقابه ، ومن شر عباده ، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون " قال : فكان عبد الله بن عمرو يعلمها من بلغ من ولده أن يقولها عند نومه ، ومن كان منهم صغيرا لا يعقل أن يحفظها ، كتبها له ، فعلقها في عنقه .

ورواه أبو داود ، والترمذي ، والنسائي ، من حديث محمد بن إسحاق ، وقال الترمذي : حسن غريب ۔ (سنن ابی داؤد ج: 2 ص: 187 مطبوعہ مطبع مجتبائی پاکستان لاہور)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چند کلمات سکھائے جن کو ہم خوف اور دہشت کی وجہ سے سوتے وقت پڑھتے تھے وہ کلمات یہ تھے بسم الله ، أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وعقابه ، ومن شر عباده ، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون. حضرت عبد اللہ بن عمرو بالغ بچوں کو سوتے وقت ان کلمات کے پڑھنے کی تلقین کرتے اور جو کم سن بچے ان کلمات کو یاد نہیں کر سکتے تھے ان کے گلے میں ان کلمات کو لکھ کر ان کا تعویذ ڈال دیتے

ایک صحابی کا تعویذ لٹکانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ کوئی بھی صحابی نہ تو خلاف رسول کوئی کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے برداشت کر سکتے ہیں, معلوم ہوا کہ دم,جھاڑ پھونک تعویذ میں کوئی حرج نہیں

حدیث پر عمل کا دعوی کرنے والوں سے میرا کہنا ہے کہ وہ اپنی سوچ کا محاسبہ کریں اور غور کریں کہ وہ کتنا حدیث پر عمل کر رہے ہیں اور ان کا ایمان کہاں تک سلامت ہے. کیا یہی حدیث پر عمل ہے کہ ایک حدیث کو لے لیا جائے اور اور دوسری کو چھوڑ دیا جائے؟ یہی تمھارا ایمان ہے؟ حدیث کا انکار اور پھر بھی اس پر عمل کا دعوی؟(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...