Sunday 25 June 2017

عید آئی ہے لیکن میری کہاں ہے

0 comments
رکھیے .ٹھریئے : ذرا ایک منٹ .انہیں اس طرح نظر انداز مت کیجیے .معاشرے کی غلاظت میں لتھڑے ہوۓ پھٹے پرانے اور گندے کپڑوں میں ملبوس کچرا چننے والے یہ بچے بھی ہمارے ہی بچے ہیں .اگر آپ یہ نہیں مانتے تو کتنی دیر لگ سکتی ہے .ہمارے بچوں کو ان کی جگہ لینے میں ؟

مجھے ڈر ہے کہ فقط آپ کو آپکی نمازیں اور روزے ہی قیامت کے دن خدا کے غضب سے محفوظ نہیں رکھہ پائیںگے .اگر آپ کے پڑوسی بھوکے سوتے ہوں .

اپنے بچوں کے لیے عید کی خریداری یقینا' خوشی کا احساس دیتی ہے .لیکن رشتدار یا غیر رشتدار غریبوں کو ایسے وقت میں یاد رکھنا حقیقی خوشی پانے کا بہترین موقع ہے .صرف خوشی اور حقیقی خوشی کا فرق بیان کرنے سے سمجھ نہیں آسکتا .جب تک اسے بذات خود تجربہ سے محسوس نا کیا جاے .

خوش تو عام طور پر سب ہی ہوتے ہیں .جب انہیں صحت پیسہ یا پھر خوش کرنے والی کسی بھی چیز کی کوئی کمی نہیں ہوتی. لیکن ایسے بہت سے خوش لوگوں کے قریب ہوکر دیکھے .ایک نامعلوم سی اداسی ان کی خوشی میں مضمر ہوا کرتی ہے جبکہ حقیقی خوشی ہمیشہ ہر طرح کے غم کے کھٹکے اور ملاوٹ سے پاک ہوتی ہے .

غریب غربا .یتیموں .بیواؤں معزوروں اور مسکینوں کی داد رسی کرنا ویسے تو ریاست کا کام ہے .لیکن چونکہ ہمارے ہاں ایسے کاموں کے لیے ریاست نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی .تو آپ کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے اس حوالے سے متحرک رہنے کی .

وقت بڑا ہی سفاک ہوا کرتا ہے .بڑے ہی نامور لوگوں کو بے نام قبروں میں دفن کردیا ہے تاریخ نے .شدّاد کی جنت ہو کہ قارون کا خزانہ سب یہیں رهگیا .اگر ساتھ گیا تو صرف اور صرف اپنا عمل .

کبھی کبھی سوچتا ہوں .شداد اور ہم میں سے بہت سے لوگوں میں بس یہی فرق ہے .اس کے پاس دولت اور وسائل زیادہ تھے .جس سے اسنے اپنے تخیل کی جنت تعمیر کی .اور ہم اس کے مقابلے پر کم دولت اور حاصل تھوڑے وسائل سے ہی اپنی اپنی جنتوں کی تعمیر میں جٹے ہوۓ ہیں ..سسکتی ہوئی انسانیت کو مکمل نظر انداز کیے ہوۓ .کسی کی پرواہ کے بغیر .

یاد رکھیے .اگر اسکی جنت وہ ساتھ نہیں لے جاسکا .تو بے شک ہماری جنتیں بھی یہیں رهجائینگی ..جائز طریقے سے اپنی خوشی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا بلکل بھی نا جائز نہیں .ضرور عید کی خوشیاں منائیں .لیکن اگر آپ اپنی خوشی کو حقیقی خوشی میں بدلنے کے خواہش مند ہیں تو اسکا صرف ایک ہی طریقہ ہے .خوشی کے ایسے موقع پر اپنی خوشی میں .حاجت مندوں کو بھی شریک کرنا ۔

عید کا سماں ہے ، ہر انسان شاداں و فرحاں ہے ، بچے اجلے لباس پہنے اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل کود میں مگن ہیں ، ایک بچہ افلاس و یاس کی تصویر بنے آبدیدہ نگاہوں سے حسرت کے ساتھ بچوں کو کھیلتے اور خوش ہوتے دیکھ رہا ہے ۔
ایک انتہائی شفقت بھری آواز پر بچہ چونک گیا ۔ بیٹا آپ نے نئے کپڑکیوں نہیں پہنے؟ یہ سوال سن کر بچے کی آنکھوں میں آنسو تیز ہو گئے ، کہنے لگا مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے ۔ اصرار پر کہنے لگا کہ میرے والدین نہیں ہیں، کون مجھے نہلا دھلا کر تیار کرے گا، کون میرے لئے نئے کپڑے لائے گا؟۔ یہ سن کر سوال کرنے والا آبدیدہ ہو گیا، پیار سے پوچھا۔ کیا تم یہ نہ چاہو گے کہ میں تمہارا باپ بن جاؤں، فاطمہ تمہاری بہن ہو، علی تمہارے چچا ہوں، اور حسن اور حسین تمہارے بھائی (رضوان اللہ علیہم اجمعین)۔بچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان گیا۔آپ اسے ساتھ لے گئے، نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنائے ، یہ سب دیکھ کر بچے کی چہرے پر بھی بشاشت آ گئی، اک حوصلہ ملا کہ اس کا بھی کوئی ہے۔ بچہ گیا اور دوسرے بچوں میں گھل مل گیا۔
یہ ایک چھوٹا سا واقعہ اپنے اندر خوشی کے سب سے بڑے موقع کے حوالے سے ہمارے لئے مشعل را ہ ہے۔ رحمت کائنات، فخر موجودات سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں درس دیا کہ”عید صرف خوش ہونے کا ہی نہیں بلکہ خوش کرنے کا نام ہے، اور اصلی خوشی وہی ہے جو دوسرے کے چہرے پر سجائی جائے“۔

عید کیا ہے ؟ : ایک تہوار ، خوشی کا تہوار ۔ خوشی کا تہوار وہ قدر مشترک ہے جو ہر قوم اور مذہب میں پائی جاتی ہے،اور ہر قوم کے کچھ دن اور مواقع ایسے ہیں جن میں وہ خوشی مناتے ہیں، انداز اپنے اپنے مذہب، تہذیب اور روایات کے مطابق ہوتے ہیں۔
اسلام ایک مکمل اور فطری دین ہے ،فطرت انسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نے بھی اپنے پیرو کاروں کے لئے خوشی اورغم کے حوالے سے نہ صرف تعلیمات دی ہیں بلکہ خوشی اور تفریح کے مواقع بھی مہیا کیے ہیں ۔ اسلام صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس لئے دیگر اقوام کے مقابلے میں ہماری خوشیاں منانے کا انداز بھی ذرا مختلف ہوتا ہے۔
عہد رسالت میں دیکھیں تو عید کے دن مسجد نبوی کے صحن میں نیزہ بازی کے مقابلے ہو رہے ہیں، مختلف فن کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کندھے پر ٹھوڑی رکھ کر دیکھتی رہتی ۔۔
نہ صرف بچوں کو بلکہ بڑوں کی تفریح کا بھی خیال رکھنا ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل ہے اور اس میں ہمارے لئے تعلیمات ہیں ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اگر ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں، اپنے خوشی منانے کے طریقے کو دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ صحت مند تفریح کے بجائے اغیار کی تقلید میں اس طرح کی محافل کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں بیہودگی اور فحاشی کے تمام مظاہر خوشی کے نام پر سجائے جاتے ہیں۔
صحت مند تفریح کے بجائے مضر صحت و اخلاق سرگرمیاں سر عام کی جاتی ہیں، سینما گھروں میں رونق اور بوڑھے والدین گھروں پر اکیلے۔ اپنے بچوں کے سوا کسی کے بچوں کا کوئی احساس نہیں، افلاس زدہ بچوں کو اپنے ساتھ گھر لا کر نئے کپڑے پہنانا تو کجا انہیں اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے، کپڑے خراب ہو جائیں گے، جراثیم لگ جائیں گے۔

بلا شبہ عید ایک خوشی کا موقع ہے اور ہمیں خوش ہونے کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ روزہ بھی منع کردیا گیا ہے اور فرمایا کہ ”یہ کھانے پینے اور خوش ہونے کے دن ہیں“۔
لیکن اگر ایک نظر ہم امت مسلمہ کی حالت پر دوڑائیں تو کیا اس کے بعد بھی ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم پھلجھڑیاں اڑائیں، قہقہے لگائیں، شادیانے بجائیں، سویاں کھائیں، فلمیں دیکھیں اور ناچیں گائیں؟ کیا ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہمیں اپنوں کا احساس ہے نہ وعدوں کا پاس؟ کیا نبوی طریقہ خوشی ہمارے لئے قابل عمل نہیں، کیا ہمیں یہ نہیں سکھایا گیا کہ خوش ہونا ہی نہیں بلکہ خوش کرنا بھی ہے۔
اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں، لاچار ہیں، بے بس ہیں، ظالم طاقتور ہے، ہم اپنے بھائیوں کے لئے ، اپنی بہنوں کے لئے اپنی ماؤں اور بیٹیوں کے لئے کچھ نہیں کر سکتے ۔ انہیں پنجہ ظلم سے آزادی نہیں دلا سکتے تو کم از کم اس عید کے موقع پر ان مظلوموں کے لئے چند گھڑیاں مختص تو کر سکتے ہیں، جن میں ہم بارگاہ رب العزت میں دست دعا دراز کریں ، کہ اللہ انہیں ظلم سے نجات دلائے، اللہ ظلم کی کمر توڑ دے۔ اللہ تعالی افغانستان، کشمیر، فلسطین، اور دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمان مظلوم ہیں ان کو ظلم سے نجات دے، ظلم کی سیاہ رات چھٹ جائے اور آزادی کا نور ان پر سایہ فگن ہو ۔
عید کا دن اہل پاکستان سے درخواست کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ
افلاس ہے رقص کناں جن کی ٹوٹی پھوٹی کٹیاوں میں
تم اپنی عید منا کر ان کو بھول نہ جانا دعاوؤں میں
وہ افغانی کہساروں میں جن کے ماں باپ شہید ہوئے
ان معصوموں کی چیخیں ہر سو، پھیل رہی ہیں فضاؤں میں
بھارت کے ظلم کی دھوپ میں وہ کشمیری قافلے پا پیادہ
ہے جن کی طلب کہ آکر بیٹھیں ، پاکستان کی چھاؤں میں
وہ بنگلہ دیشی کیمپوں میں جو روز دعائیں کرتے ہیں
اس پاکستان سے الفت کی زنجیر ہے جن کے پاؤں میں
اس مسجد اقصی کی چھت پر اور صحن میں جن کا بسیرا ہے
وہ سارے کبوتر جو محصور ہیں ، خوں آشام بلاؤں میں
تم اپنی عید منا کر ان کو بھول نہ جانا دعاؤں میں​

آئیے مل کر عہد کریں کہ اس عید پر کسی بچے کے آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دیں گے، کسی غریب کو تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیں گے، تاکہ کوئی غربت کا مارا یہ نہ کہے کہ :
عید آئی ہے لیکن میری کہاں ہے
میری خاموشی میری زباں ہے
کپڑے پھٹے ہیں جوتے پرانے
عید آگئی ہے مجھ کو رلانے
(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔