Thursday, 22 June 2017

انبیاء کرام علیہم السّلام و اولیاء کرام علیہم الرّحمہ سے مد مانگنا

اولیاء اللہ اور انبیاء کرام سے مدد مانگنا جائز ہے جبکہ اس کا عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو رب تعالٰی ہی کی ہے یہ حضرات اس کے مظہر ہیں اور مسلمان کا یہ ہی عقیدہ ہوتا ہے کوئی جاہل بھی کسی ولی کو خدا نہیں سمجھتا۔
غیر اللہ سے مدد ماگنے کا ثبوت قرآنی آیات احادیث صحیحہ اور اقوال فقہاء و محدثین اور خود مخالفین کے اقوال سے ہے ہم ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ بیان کرتے ہیں۔
قرآن کریم فرماتا ہے۔وادعو شھداءکم من دون اللہ ان کنتم صدقین (پارہ 1 سورہ 2 آیت23)ترجمہ:“اور اللہ کے سوا اپنے سارے حمائتیوں کو بلا لو۔“
اس میں کفار کو دعوت دی گئی ہے کہ قرآن کی مثل ایک سورہ بنا کر لے آؤ اور اپنی امداد کے لئے اپنے حمائیتوں کو بلا لو۔ غیر اللہ سے مدد لینے کی اجازت دی گئی۔
قال من انصاری الی اللہ قال الحواریون نحن انصاراللہ۔ (پارہ3 سورہ 3 آیت 52)
ترجمہ:“کہا مسیح نے کون ہے جو مدد کرے میری طرف اللہ کی کہا حواریوں نے ہم مدد کریں گے اللہ کے دین کی۔“
اس میں فرمایا گیا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے خطاب کرکے فرمایا کہ میرا مددگار کون ہے۔ حضرت مسیح نے غیراللہ سے مدد طلب کی۔
وتعاونوا علی البر والتقوٰی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ۔(پارہ 6 سورہ 5 آیت2)
“مدد کرو ایک دوسرے کی اوپر نیک کاموں کے اور تقوٰی کے اور نہ مدد کرو ایک دوسرے کی اوپر گناہ اور زیادتی کے۔“
اس آیت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا گیا۔
ان تنصرواللہ ینصرکم (پارہ 26 سورہ 47 آیت7)
“اگر مدد کرو گے تم اللہ کے دین کی مدد کرے گا وہ تمہاری۔“
اس میں خود رب تعالٰی نے جو کہ غنی ہے اپنے بندوں سے مدد طلن فرمائی۔ رب تعالٰی نے میثاق کے دن ارواح انبیاء سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں عہد لیا۔
لتؤ منن بہ ولتنصرنہ (پارہ 3 سورہ 3 آیت 81 )
“کہ تم ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا۔“
معلوم ہوا کہ اللہ کے بندوں کی مدد میثاق کے دن سے حکم ہے۔
استعینو بالصبر والصلوٰۃ ۔ (پارہ 2 سورہ 2 آیت 153)
“مدد طلب کرو ساتھ صبر اور نماز کے ۔“
اس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ نماز اور صبر سے مدد حاصل کرو اور نماز و صبر بھی تو غیر اللہ ہیں۔
واعینونی بقرۃ “مدد کر میری ساتھ قوت کے۔“
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ذوالقرنین نے دیوار آہنی بناتے وقت لوگوں سے مدد طلب فرمائی۔
رب تعالٰی فرماتا ہے۔ایدک بنصرہ و بالمؤمنین (پارہ 10 سورہ 8 آیت 62)
“اے نبی رب نے آپ کو اپنی مدد اور مسلمانوں کے ذریعے قوت بخشی۔“
فرماتا ہے۔فان اللہ ھو مولہ مولاہ وجبریل و صالح المؤمنین والملئکۃ بعد ذلک ظھیر (پارہ 28 سورہ 66 آیت4)
“یعنی رسول کے مددگار اللہ اور جبرئیل اور متقی مسلمان ہیں بعد میں فرشتے ان کے مددگار ہیں۔“
فرماتا ہے۔انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین امنوا الذین یقیمون الصلوٰۃ ویؤتون الزکوٰۃ وھم راکعون (پارہ 6 سورہ 5 آیت55)
“یعنی اے مسلمانوں تمہارا مددگار اللہ اور رسول اور وہ مسلمان ہیں جو زکوٰۃ دیتے ہیں نماز پڑھتے ہیں۔“
فرماتا ہے والمؤمنون والمؤمنت بعضھم اولیآء بعض دوسری جگہ فرماتا ہے نحن اولیاءکم فی الحیوۃ الدنیا وفی الاخرۃ معلوم ہوا کہ رب تعالٰی بھی مددگار ہے اور مسلمان بھی آپس میں ایک دوسرے کے مگر رب تعالٰی بالذات مددگار اور یہ بالعرض ۔ موسٰی علیہ السلام کو جب تبلیغ کے لئے فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا تو عرض کیا۔
واجعل لی وزیرا من اھلی ھرون اخی اشدد بہ ازری (پارہ 16 سورہ 20 آیت 3029)
“خدایا میرے بھائی کو نبی بناکر میرا وزیر کردے میری پشت کو ان کی مدد سے مضبوط کر دے۔“(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
رب تعالٰی نے یہ نہ فرمایا کہ تم نے میرے سوا سہارا کیوں لیا میں کیا کافی نہیں ہوں۔ بلکہ ان کی درخواست منظور فرمالی۔ معلوم ہوا کہ بندوں کا سہارا لینا سنت انبیاء ہے۔
مشکوٰۃ باب السجود فضلہ میں ابن کعب اسلمی سے بروایت مسلم ہے کہ حضور علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا۔سل فلقت اسئلک مرافقتک فی الجنۃ قال او غیر ذلک فقلت ھو ذالک قال فاعنی علی نفسک بکشرۃ السجود
“کچھ مانگ لو میں نے کہا کہ میں آپ سے جنت میں آپ کی ہمراہی ہی مانگتا ہوں۔ فرمایا کچھ اور مانگنا ہے میں نے کہا صرف یہ ہی فرمایا کہ اپنے نفس پر زیادہ نوافل سے میری مدد کرو۔“
اس سے ثابت ہوا کہ حضرت ربیعہ نے حضور سے جنت مانگی۔ تو یہ نہ فرمایا کہ تم نے خدا کے سوا مجھ سے جنت مانگی تم مشرک ہو گئے بلکہ فرمایا وہ تو منظور ہے کچھ اور بھی مانگو۔ یہ غیر خدا سے مدد مانگنا ہے۔ پھر لطف یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی فرماتے ہیں اغنی اے ربیعہ تم بھی اس کام میں میری اتنی مدد کرو زیادہ نوافل پڑھا کرو یہ بھی غیراللہ سے مدد طلب ہے۔ اسی حدیث پاک کے ماتحت اشعتہ اللمعات میں ہے۔ “واز طلاق سوال کہ فرمودسل و تخصیص نہ کرو بمطلوبہ بے خاص معلوم مے شود کارہمہ بدست ہمت و کرامت اوست ہرچہ خواہدد باذن پروردگار خود ہدہد۔“فان من جودک الدنیا وضرتھا،ومن علومک علم اللوح والقلم“اگر خیریت دنیا و عقبٰی آرزو داری،بدر گاہش بیا و ہرچہ می خواہن تمنا کن !“
سوال کو مطلق فرمانے سے کہ فرمایا کچھ مانگ لو۔ کسی خاص چیز سے مقید نہ فرمایا۔ معلوم ہوتا ہے کہ سارا معاملہ حضور ہی کے ہاتھ کریمانہ میں ہے۔ جو چاہیں جس کو چاہیں اپنے رب کے حکم سے دیدیں۔ کیونکہ دنیا و آخرت آپ ہی کی سخاوت سے ہے اور لوح و قلم کا علم آپ کے علوم کا ایک حصہ ہے اگر دنیا و آخرت کی خیر چاہتے ہو تو ان کے آستانے پر آؤ اور جو چاہو مانگ لو۔
خانہ کعبہ میں 360 بت رہے اور تین سو سال تک رہے پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ کعبہ پاک ہوا رب تعالیٰ نے بتا دیا کہ جب میرا گھر کعبہ میرے محبوب کے مداوا کے پاک نہیں ہو سکتا۔ تو تمہارا دل ان کی نظر کرم کے بغیر پاک نہیں ہو سکتا۔
نور الانوار کے خطبہ میں خلق کی بحث میں ہے۔ ھو ا الجودا بالکونین والتوجہ الی خالقھا یعنی دونوں جہان اوروں کو بخش دینا اور خود خالق کی طرف متوجہ ہو جانا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خلق ہے اور ظاہر ہے کہ دونوں دوسروں کو وہ ہی بخشے گا جو خود ان کا مالک ہوگا۔ ملکیت ثابت ہوئی۔ شیخ عبدالحق کی ان عبارات نے فیصلہ کر دیا کہ دنیا و آخرت کی تمام نعمتیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مانگو، مال مانگو، جنت مانگو، جہنم سے پناہ مانگو، بلکہ اللہ کو مانگو۔ ایک صوفی شاعر خوب فرماتے ہیں۔
محمد از تو مے خواہم خدارا خدایا از تو عشق مصطفٰی را
یارسول اللہ میں آپ سے اللہ کو مانگتا ہوں
اور اے اللہ میں تجھ سے رسول اللہ کو مانگتا ہوں
اشعتہ اللمعات کی طرح مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اسی حدیث کے ماتحت فرمایا ہے فعطی لمن شآء ماشآء کہ حضور علیہ السلام جس کو چاہیں دے دیں تفسیر کبیر جلد سوم پارہ 7 سورہ انعام زیر آیت ولو اسرکوا الحبط عنھم ماکانوا یعملون ہے۔
وثالثھا الانبیآء وھم الذین اعطاھم اللہ تعالٰی من العلوم والمعارف مالا جلہ یقدرون علی التصرف فی بواطن الخلق وارواحھم وایضا اعطاھم من القدرۃ والمکنۃ مالا جلہ یقدرون علی التصرف فی ظواھر الخلق
تیسرے ان میں انبیاء ہیں یہ وہ حضرات ہیں جن کو رب نے علوم اور معارف اس قدر دئیے ہیں۔ جن سے وہ مخلوق کی اندرونی حالت اور ان کی ارواح پر تصرف کر سکتے ہیں اور ان کو اس قدر قدرت و قوت دی ہے جس سے مخلوق کے ظاہر پر تصرف کر سکتے ہیں۔
اسی تفسیر کبیر پارہ الم واذ قال ربک للمئکۃ اس کی تفسیر میں ہے کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ جو کوئی جنگل میں پھنس جائے تو کہے۔
اعینونی عبداللہ یرحمکم اللہ “اے اللہ کے بندو میری مدد کرو رب تم پر رحم فرمائے۔“
تفسیر روح البیان سورہ مائدہ پارہ 6 زیر آیت ویسعون فی الارض فسادا ہے کہ شیخ صلاح الدین فرماتے ہیں۔ مجھ کو رب نے قدرت دی ہے کہ میں آسمان کو زمین پر گرادوں اگر میں چاہوں تو تمام دنیا والوں کو ہلاک کردوں اللہ کی قدرت سے لیکن ہم اصلاح کی دعاء کرتے ہیں۔
مثنوی شریف میں ہے۔
اولیاء راست قدرت ازالہ
تیر جستہ باز گرواند زراہ !
اولیاء کو اللہ سے یہ قدرت ملی ہے
کہ چھوٹا ہوا تیر واپس کرلیں
اشعۃ اللمعات شروع باب زیارت القبور میں ہے امام غزالی گفتہ ہر کہ استمداد کردہ شور بوے درحیات استمداد کردہ مے شودبوے بعد از وفات یکے از مشائخ گفتہ دیدم چہارکس راز مشائخ کہ تصرف می کنند در قبور جود مانند تسر فہا ایشاں درحیات خود یا بیشتر۔ قومے مے گویند کہ امداد جی قومی نزاست ومن مے گویم کہ امداد میت قوی ر اولیاء را تصرف درا کون حاصل است وآں نیست مگر ارواح ایشاں راوارواح باقی است۔“ امام غزالی نے فرمایا کہ جس سے زندگی میں مدد مانگی جاتی ہے اس سے ان کی وفات کے بعد بھی مدد مانگی جاوے ایک بزرگ نے فرمایا کہ چار شخصوں کو ہم نے دیکھا کہ وہ قبروں میں بھی وہ ہی عمل در آمد کرتے ہیں جو زندگی میں کرتے تھے یا زیادہ ایک جماعت کہتی ہے کہ زندہ کی مدد زیادہ قوی ہے اور میں کہتا ہوں کہ مردہ کی امداد زیادہ قوی اولیاء کی حکومت جہانوں میں ہے اور یہ نہیں مگر انکی روحوں کو کیونکہ ارواح باقی ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حاشیہ مشکوٰۃ باب زیارت القبور میں ہے۔واما الاستمداد باھل القبور فی غیر النبی علیہ السلام اوالانبیاء فقد انکرہ من الفقھاء واثبتہ المشائخ الصوفیہ وبعض الفقھاء قال الامام الشافعی قبر موسی الکاظم تریاق مجرب لاجابۃ الدعاء وقال الامام الغزالی من یستمد فی حیاتہ یستمد بعد وفاتہ
“نبی علیہ السلام و دیگر انبیائے کرام کے علاوہ اور اہل قبور سے دعاء مانگنے کا بہت سے فقہائے نے انکار کیا اور مشائخ صوفیہ اور بعض فقہاء نے اس کو ثابت کیا ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ موسٰی کاظم کی قبر قبولیت دعاء کیلئے آزمودہ تریاق ہے اور امام محمد غزالی نے فرمایا کہ جس سے زندگی میں مدد مانگی جا سکتی ہے اس سے بعد وفات بھی مدد مانگی جا سکتی ہے۔“
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم یا دیگر انبیائے کرام سے مدد مانگنے میں تو کسی کا اختلاف نہیں۔ قبور اولیاء اللہ سے مدد مانگنے میں اختلاف ہے علمائے ظاہربین نے انکار کیا صوفیاء کرام اور فقہاء اہل کشف نے جائز فرمایا۔
حصن حصین صفحہ 202 میں ہے۔ وان ارادعو نافلیقل یا عباداللہ اعینونی یا عباداللہ اعینونی یا عباداللہ اعینونی “جب مدد لینا چاہے تو کہہ اے اللہ کے بندو میری مدد کرو، اے اللہ کے بندو میری مدد کرو اے اللہ کے بندو میری مدد کرو۔“اس کی شرح الحزرالشمین میں ملاعلی قاری اسی جگہ فرماتے ہیں۔اذا انفلتت دآبۃ احدکم بارض فلاۃ فلیناد یاعبداللہ احبسوا“یعنی جب جنگل میں کسی کا جانور بھاگ جائے تو آواز دو کہ اے اللہ کے بندو اسے روک دو۔“عباداللہ کے ماتحت فرماتے ہیں۔المرادبھم المئکۃ والمسلمون من الجن او رجال الغیب المسمون بابدال“یعنی بندوں سے یا تو فرشتے یا مسلمان یا جن یا رجال الغیب یعنی ابدال مراد ہیں۔“پھر فرماتے ہیں۔ ھذا حدیث حسن یحتاج الیہ المسافرون وانہ مجرب“یہ حدیث حسن ہے مسافروں کو اس حدیث کی سخت ضرورت ہے اور یہ عمل مجرب ہے۔“
شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر فتح العزیز صفحہ 20 پر فرماتے ہیں۔ “باید فہمید کہ استعانت از غیر بوجہے کہ اعتماد باشد اور اعوان الہی نداند حرام است واگر التفات محض بجانب حق است داورایکے از مظاہر عون الہی دانستہ و بکار خانہ اسبابی و حکمت او تعالٰی درآں نمودہ بغیر استعانت ظاہر ہر نماید دوراز عرفان نخواہد بو دودشرح نیز جائز و رواست در انبیاء و اولیاء ایں نوع استعانت تعبیر کردہ اند درحقیقت این نوع استعانت بغیر نیست بلکہ استعانت بحضرت حق است لاغیر۔“ سمجھنا چاہئیے کہ کسی غیر سے مدد مانگنا بھروسہ کے طریقہ پر کہ اس کو مدد الہی نہ سمجھے حرام ہے اور اگر توبہ حق تعالیٰ کی طرف ہے اس کو اللہ کی مدد کا ایک مظہر جان کو اور اللہ کی حکمت اور کارخانہ اسباب جان کر اس سے ظاہری مدد مانگی تو عرفان سے دور نہیں ہے اور شریعت میں جائز ہے اور اس کو انبیاء و اولیاء کی مدد کہتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ حق تعالیٰ کے غیر سے مدد مانگنا نہیں ہے لیکن اس کی مدد سے ہے۔
تفسیر عزیزی سورہ بقرہ صفحہ 460 میں شاہ عبدالعزیز فرماتے ہیں۔ “افعال عادی الہی رامثل بخثیدن فرزند توسیع رزق و شفاء مریض دا مثال ذالک را مشرکان نسبت بہ ارواح خبیثہ اصنام نمایند کافرمی شوید۔ از تاثیر الہی یا خواص مخلوقات ادمی دانند ازادویہ و مغافیر یا دعائے صلحاء بندگان اوکہ ہمہ از جناب اور درخواستہ انجاج مطلب می کناندمی فہمند و درایماں ایشاں خلل نمی افتند۔ “اللہ کے کام جیسے لڑکا دینا رزق بڑھانا بیمار کو اچھا کرنا اور اس کی مثل کو مشرکین خبیث روحوں اور بتوں کی طرف نسبت کرتے ہیں اور کافر ہو جاتے ہیں اور مسلمان ان امور کو حکم الہی یا اس کی مخلوق کی خاصیت سے جانتے ہیں جیسے کہ دوائیں یا مغافیر یا اس کے نیک بندوں کی دعائیں کہ وہ بندے رب کی بارگاہ سے مانگ کر لوگوں کی حاجت روائی کرتے ہیں اور ان مومنین کے ایمان میں اس سے خلل نہیں آتا ۔
بستان المحدثین میں شاہ عبدالعزیز صاحب شیخ ابو العباس احمد زردنی کے یہ اشعار نقل کرتے ہیں۔
انا لمریدی جامع لشتاتہ
اذا مامطی جور الزمان بنکبتہ !
وان کنت فی ضیق وکرب وحشتہ
فناد بیاز زوق ات بسرعتہ !
میں اپنے مرید کی پراگندگیوں کو جمع کرنے والا ہوں جبکہ زمانہ کی مصیبتیں اس کو تکلیف دیں۔ اگر تو تنگی یا مصیبت یا وحشت میں ہو تو پکار کہ اے زروق ! میں فوراً آؤں گا۔
تفسیر کبیر روح البیان و خازن میں سورہ یوسف زیر آیت فلبث فی السبحن بضع سنین ھے الاستعانہ بالناس فی دفع الضرر والظلم جائزۃ اور خازن زیر آیت فانساہ الشیطن ھے الاسعانتہ بالمخلوق فی دفع الضرر جائز مصیبت دور کرنے کیلئے مخلوق سے مدد لینا جائز ہے۔
درمختار جلد سوم باب اللقطہ کے آخر میں کمی ہوئی چیز تلاش کرنے کیلئے ایک عمل لکھا۔ان الانسان اذا ضاع لہ شیئی واردان یردہ اللہ علیہ فلبقف علی مکان عال مستقبل القبلۃ ویقرء الفاتحہ ویھدی ثوابھا للنبی علیہ السلام ثم یھدی ثوابھا لسیدی احمد ابن علوان یقول یاسیدی یا احمد ابن علوان ان تم یرد علی ضالتی والا نزعتک من دیوان الاولیاء فان اللہ یرد ضالتہ ببرکتہ۔ترجمہ:“جس کسی کی کوئی چیز کوئی ہو جاوے اور وہ چاہے کہ خدا وہ چیز واپس ملا دے تو کسی اونچی جگہ پر قبلہ کو منہ کر کے کھڑا ہو اور سورہ فاتحہ پڑھ کر اس کا ثواب نبی علیہ السلام کو ہدیہ کرے پھر سیدی احمد ابن علوان کو پھر یہ دعاء پڑھے اے میرے آقا اے احمد ابن علوان اگر آپ نے میری چیز نہ دی تو میں آپ کو دفتر اولیاء سے نکال لونگا۔ پس خدا تعالیٰ اس کی گم ہوئی چیز ان کی برکت سے ملادے گا۔“
اس دعاء میں سید احمد ابن علوان کو پکارا بھی ان سے مدد مانگی ان سے گمی ہوئی چیز بھی طلب کی اور یہ دعاء کس نے بتائی حنفیوں کے فقیہ اعظم صاحب درمختار نے حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ نعمان میں فرماتے ہیں۔
یا اکرم الثقل،ین یا کنز الورٰی
بدلی بجودک وارضنی برضاک
انا طامع بالجود منک لم یکن
لابی حنیفہ فی الانام سواک !
“اے موجودات سے اکرم اور اور نعمت الٰہی کے خزانے جو اللہ نے آپ کو دیا ہے مجھے بھی دیجئے اور اللہ نے آپ کو راضی کیا ہے مجھے بھی راضی فرما دیجئے۔ میں آپ کی سخاوت کا امیدوار ہوں آپ کے سوا ابو حنیفہ کا خلقت میں کوئی نہیں۔ اس میں حضور علیہ السلام سے صریح مدد لی گئی ہے۔“
قصیدہ بردہ میں ہے
یا اکرم الخلق مالی من الوذبہ
سواک عند حلول الحادث العمم
“اے تمام مخلوق سے بہتر میرا آپکے سوا کوئی نہیں
جس کی میں پناہ لوں مصیبت کے وقت
اگر ہم ان علماء فقہاء کا کلام جمع کریں۔ جس میں انہوں نے حضور علیہ السلام سے مدد مانگی ہے۔ تو اس کیلئے دفتر درکار ہیں صرف اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ نیز ہم سفر برائے زیارت قبور میں شامی کی عبارت نقل کریں گے۔ جس میں امام شافعی فرماتے ہیں جب مجھے کوئی حاجت پیش ہوتی ہے تو امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مزار پر آتا ہوں ان کی برکت سے کام ہو جاتا ہے۔ نزہۃ الخاطر الفاتر فی ترجمہ سیدی الشریف عبدالقادر ملا علی قاری صفحہ 61 میں حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ قول نقل فرمایا۔
من استغاث بی فی کریۃ کشف عنہ ومن نادانی باسمی فی شدۃ فرجت عنہ ومن توسل بی الی اللہ فے حاجۃ قضیت۔ترجمہ:“یعنی جو کوئی رنج و غم میں مجھ سے مدد مانگے تو اس کا رنج و غم دور ہوگا اور جو سختی کے وقت میرا نام لیکر مجھے پکارے تو وہ شدت دفع ہوگی اور جو کسی حاجت میں رب کی طرف مجھے وسیلہ بنائے تو اس کی حاجت پوری ہوگی۔“
پھر اسی جگہ ہے کہ حضور غوث پاک نماز غوثیہ کی ترکیب بتاتے ہیں کہ دو رکعت نفل پڑھے۔ ہر رکعت میں 11، 11 بار سورہ اخلاص پڑھے۔ سلام پھیر کر 11 بار صلوٰۃ و سلام پڑھے پھر بغداد کی طرف (جانب شمال) 11 قدم چلے ہر قدم پر میرا نام لیکر حاجت عرض کرے اور دو شعر پڑھے۔
ایدرکنی ضیم وانت دخیرتی
واظلم فی الدنیا وانت نصیری
دعار علی حامی الحمی وھو منجدی
اذا ضاع فی البیداء عقال بعیری
یہ کہہ کر ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وقد جرب ذالک مرار افصح یعنی بارہا اس نماز غوثیہ کا تجربہ کیا گیا۔ درست نکلا کہئیے کہ حضور غوث پاک مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں کہ مصیبت کے وقت مجھ سے مدد مانگو اور حنفیوں کے بڑے معتبر عالم ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اسے بغیر تردید نقل فرما کر فرماتے ہیں اس کا تجربہ کیا گیا بالکل صحیح ہے۔ معلوم ہوا کہ بزرگوں سے بعد وفات مدد مانگنا جائز اور فائدہ مند ہے۔
یہاں تک تو ہم نے قرآن آیات اور احادیث اور اقوال فقہاء و علماء مشائخ سے ثبوت دیا اب منکرین کے گھر سے ثبوت ملاحظہ ہوں۔
مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندیوں کے شیخ الہند اپنے ترجمہ قرآن میں جس کے چار پاروں کا حاشیہ انہوں نے لکھا باقی کا مولوی شبیر احمد صاحب نے۔ اس میں ایاک نستعین کے ماتحت فرماتے ہیں “ہاں اگر کسی مقبول بندے کو واسطہ رحمت الٰہی اور غیر مستقبل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے۔ کہ یہ استعانت در حقیقت حق تعالٰی ہی سے استعانت ہے۔ “بس فیصلہ ہی کردیا۔ یہ ہی ہمارا دعوٰی ہے کوئی مسلمان بھی کسی نبی ی ولی کو خدا نہیں جانتا نہ خدا کا فرزند محض وسیلہ مانتا ہے۔
فتاوٰی رشیدیہ جلد اوّل کتاب الخطر والا باحتہ صفحہ 64 پر ایک سوال و جواب ہے۔
سوال:۔ اشعار اس مضمون کے پڑھنے۔ “یارسول اللہ کبریا فریاد ہے+ یا محمد مصطفٰی فریاد ہے+ مدد کر بہر خدا حضرت محمد مصطفٰی+ میری تم سے ہر گھڑی فریاد ہے+ کیسے ہیں ؟
الجواب:۔ ایسے الفاظ پڑھنے محبت میں اور خلوت میں بایں خیال کہ حق تعالیٰ آپ کی ذات کو مطلع فرما دیوے یا محض محبت سے بلا کسی خیال کے جائز ہیں۔ فتاوٰی رشیدیہ جلد سوم صفحہ5 پر ہے کہ مولوی رشید احمد صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ ان اشعار کو بطور وظیفہ یا ورد پڑھنا کیسا ہے۔
یارسول اللہ انظر حالنا
یارسول اللہ اسمع قالنا !
اننی فی بحر ھم مغرق
خذیدی سھل لنا اشکالنا
یا قصیدہ بردہ کا یہ شعر وظیفہ کرنا۔
یا اکرم الخلق مالی من الوذبہ
سواک عند حلول الحادث العمم
جواب دیا کہ ایسے کلمات کو نظم ہوں یا نثر ورد کرنا مکروہ تنزیہی ہے کفر و فسق نہیں۔
ان دونوں عبارتوں میں حضور علیہ السلام سے مدد مانگنے کو کفر و شرک نہیں بلکہ جائز، زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی کہا+ قصائد قاسمی صفحہ نمبر 5 و 7 میں مولوی قاسم صاحب یو مدد مانگتے ہیں۔
مدد کر اے احمدی کہ تیرے سوا
نہیں ہے قاسم بیکس کا کوئی حامی کار
اس میں حضور علیہ السلام سے مدد مانگی ہے اور عرض کیا ہے آپ کے سوا میرا کوئی بھی حامی نہیں یعنی خدا کو بھی بھول گئے+ ترجمہ صراط مستقیم اردو خاتمہ تیسرا افادہ صفحہ 103 مولوی اسمٰعیل صاحب فرماتے ہیں۔ اسی طرح ان مراتب عالیہ اور مضاصب رفیعہ صاحبان عالم مثال اور عالم شہادت میں تصرف کرنے کے ماذون مطلق اور مجاز ہوتے ہیں۔
حاجی امداد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کلیات امدادیہ میں یوں فرماتے ہیں۔
جہاز امت کا حق نے کر دیا ہے آپکے ہاتھوں
تم اب چاہے ڈباؤ یا تراؤ یارسول اللہ
فتاوٰی رشیدیہ جلد اول کتاب البدعات صفحہ 99 میں ہے۔ اور بعض روایات میں جو آیا ہے۔ اعینونی یا عباداللہ یعنی اے اللہ کے بندو میری مدد کرو۔ تو وہ فی الواقع کسی میت سے استعانت نہیں بلکہ عباداللہ جو صحرا میں موجود ہوتے ہیں ان سے طلب اعانت ہے کہ حق تعالٰی نے ان کو اسی کام کے واسطے وہاں مقرر کیا ہے۔
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگلوں میں کچھ اللہ کے بندے اللہ کی طرف سے اسی لئے رہتے ہیں کہ لوگوں کی مدد کریں ان سے مدد مانگنا جائز ہے+ مدعٰی ہمارا بھی یہ ہے کہ اللہ کے بندوں سے استمداد جائز ہے۔ رہا یہ فیصلہ کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مدد فرما سکتے ہیں یا کہ نہیں ہم اس کے متعلق بہت کچھ عرض کر کے اور آئندہ عقلی دلائل میں بھی بیان کرینگے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مولوی محمود حسن (صاحب اولہ کاملہ میں صفحہ 12 پر) فرماتے ہیں۔ “آپ اصل میں بعد خدا مالک عالم ہیں جمادات ہوں یا حیوانات، بنی آدم ہوں یا غیر بنی آدم۔ القصہ آپ اصل میں مالک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عدل و مہر آپکے ذمہ واجب الادانہ تھا۔“صراط مستقیم دوسری ہدایت کا پہلا افادہ صفحہ 60 میں مولوی اسمٰعیل صاحب فرماتے ہیں۔ “ اور حضرت مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کیلئے شیخین پر بھی ایک گونہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپ کے فرماں برداروں کا زیادہ ہونا اور مقامات ولایت بلکہ قطبیت و غوثیت اور ابدالیت اور انہی جیسے باقی خدمات آپ کے زمانہ سے لیکر دنیا کے ختم ہونے تک آپ ہی کی وساطت سے ہوتا ہے اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارات میں آپ کو وہ دخل ہے جو عام ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں۔
اس عبارت سے صاف معلوم ہوا کہ سلطنت امیری ولایت غوثیت حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے لوگوں کو ملتی ہے دیوبندیوں کے پیرو مُرشد حاجی امداد اللہ صاحب اپنی کتاب ضیاءالقلوب میں فرماتے ہیں اس مرتبہ میں پہنچ کر بندہ خدا کا خلیفہ ہوکر لوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ باطن میں خدا ہو جاتا ہے اس کو برزخ کہتے ہیں اور اس میں وجوب و امکان مساوی ہیں۔ کسی کو کسی پر غلبہ نہیں اس مرتبہ پر پہنچ کر عارف عالم پر منصرف ہو جاتا ہے۔ (ضیاء القلوب مطبوعہ کتب خانہ اشرفیہ راشد کمپنی دیوبند صفحہ 29 کے مراتب کا بیان) غور کرو پیر صاحب نے بندہ کو باطن میں خدا مان لیا عالم میں منصرف۔
یکشنبہ 9 جولائی 1961ء کے جنگ راولپنڈی میں خبرشائع کہ صدر پاکستان محمد ایوب خاں صاحب امریکہ کے دورے پر کراچی سے روانہ ہوئے تو مولانا احتشام الحق صاحب دیوبندی نے صدر کے بازو پر امام ضامن باندھا اور 10 جولائی 61ء دو شنبہ کے جنگ میں مولانا کا فوٹو شائع ہوا جس میں آپ صدر کے بازو پر امام ضامن باندھ رہے ہیں۔ امام ضامن کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام کا روپیہ مسافر کے بازو پر باندھتے ہیں امام ضامن اس کے ضامن ہیں۔ ان کے سپرد کرتے ہیں۔ جب مسافر بخیریت واپس آوے تب اس روپیہ کی فاتحہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام کی جاوے جن کے سپرد مسافر کیا گیا تھا۔ دیکھو اس میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی مدد بھی لی گئی۔ ان فاتحہ بھی کی گئی ان کی نذر بھی مانی گئی۔ جناب صدر کو ان کے سپرد بھی کیا سبحان اللہ کیسا ایمان افروز کام ہے خدا کا شکر ہے کہ دیوبندی بھی اس کے قائل ہوگئے۔
امداد الفتاوٰی مصنفہ مولوی اشرف علی تھانوی صاحب جلد4 کتاب العقائد والکلام صفحہ 99 میں ہے “جو استعانت و استمداد باعتقاد علم و قدرت مستقل ہو وہ شرک ہے اور جو باعتقاد علم و قدرت غیر مستقل ہو اور وہ علم قدرت کسی دلیل سے ثابت ہو جائے تو جائز ہے۔ خواہ مستمد منہ حی ہو یا میت“ بس فیصلہ ہی فرما دیا کہ مخلوق کو غیر مستقل قدرت مان کر ان سے استمداد جائز ہے۔ اگرچہ میت ہی سے مانگی جائے یہ ہی ہم کہتے ہیں۔
مولوی اشرف علی صاحب نےاپنی کتاب نشر الطیب کے آخر میں شیم الحبیب کے عربی کے اشعار کا ترجمہ کیا جس کا نام شیم الطیب رکھا۔ جس میں حضور علیہ السلام سے بے دریغ امداد مانگی اشعار حسب ذیل ہیں۔
ٰٰیا شفیع العباد خذبیدی
“دستگیری کیجئے میری نبی“
انت فی الضطرار معتمدی
“کشمکش میں تم ہی ہو میرے ولی“
لیس لی ملجاء سواک اغث
“جز تمہارے ہے کہاں میری پناہ“
مسنی الضر سیدی سندی
“فوج کلفت مجھ پہ آ غالب ہوئی“
غشنی الدھر ابن عبداللہ
“ابن عبداللہ زمانہ ہے خلاف“
کن مغیثا فانت لی مدری
“اے مرے مولٰی خبر لیجئے مری“
“نام احمد چوں حصینے شد حصین“
“پس چہ باشد ذات آں روح الامین“
“نشر اطیب فی ذکر ابن الحبیب
(شیم الطیب ترجمہ شیم الحبیب مصنف حکیم الامت دیوبندعلامہ اشرف علی صاحب تھانوی صفحہ 145)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comment:

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...