اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تم (رمضان البارک کی )مطلوبہ گنتی پوری کرو اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے ہدایت دی تاکہ تم شکرادا کرو. احادیث مبارکہ میں آیا ہے کہ عید الفطر کی رات فرشتے حکم الہٰی سے راستوں اور گلیوں میں ندا کرتے ہیں: ’’اے مسلمانو! تمہیں اِس ماہ مبارک کے روزے رکھنے کا حکم تھا، تم بجالائے۔ تمہیں راتوں میں نماز پڑھنے کا حکم ملا ،تم کا ربندر ہے، اب اُٹھو اور عید گاہ میںجاکر اپنے پروردگار کے سامنے صف بستہ مؤدب کھڑے ہو، جب تم وہاں سے لوٹو گے تو تمہارے سب گناہ بخشے ہوئے ہوں گے۔‘‘ حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ عید الفطر کی رات کو فرشتے گلی کُوچوں میں صدادیتے ہیں، جسے جِنّ و انسان کے سوا تمام مخلوق سُنتی ہے :’’ اے امت محمدؐ اپنے پروردگار کے حضور آئو۔ تمہارا پروردگار بے حد بخشنے والا ہے۔ چھوٹی سی نیکی بھی قبول کرلیتا ہے۔ اور بہت بڑا گناہ معاف کردیتا ہے۔‘‘ جب لوگ عیدگاہ میںصف بستہ باادب حاضر ہوتے ہیں توا للہ تعالیٰ پوچھتا ہے ’’اے فرشتو! بتائو کہ محنت سے اپنا کام کرنے والے مزدور کا معاوضہ کیا ہونا چاہیے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: ’’یااللہ! معاوضہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری دی جائے۔‘‘ ارشاد ہوتا ہے: ’’اے فرشتو! گواہ رہو، میں اپنے نیک بندوں کو رمضان کے روزے اور راتوں کی نمازوں کے بدلے اپنی خوش نُودی اور ان کے گناہوں کی مغفرت سے مالا مال کرتا ہوں۔‘‘ پھر فرماتا ہے: ’’اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، مجھے اپنی عزّت و جلال کی قسم، اس موقع پر اپنی دینی و دُنیاوی حاجت جو کچھ مجھ سے مانگوگے، قطعاً تمہیں دوں گا۔‘‘ یہ سُن کر فرشتے خوش ہوتے ہیں اور اُمّت کو بشارت دیتے ہیں۔ ‘‘(تذکرہ الوعظین)حضرت انسؓسے روایت ہے کہ عید الفطر کی صبح حضرت جبرائیل ؑ حسبِ ارشاد ِالٰہی آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے ستّر ہزار فرشتوں کی فوج تیار کرتے ہیں۔ سب کے ہاتھ میں جھنڈیاں ہوتی ہیں۔ حضرت اسرافیلؑ دائیں اور میکائیلؑ بائیں صف میں ہوتے ہیں ،یہ فرشتے عرش کے نیچے آتے ہیں۔ جہاں نور کی قندیلیں آویزاں ہیں اور انبیاؑء و شہدا ء اور صلحاء کی اَرواح قیام پذیر ہیں۔ اُن کے درمیان ایک نہایت نورانی قندیل ہے۔ جس کی روشنی چاند سورج کی روشنی پر بھی غالب ہے اور چاند سورج کو بھی اُس سے روشنی پہنچتی ہے۔ اس قندیل کی چوڑائی ستّر ہزار برس کی راہ اورلمبائی کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ حضرت جبرائیلؑ ملائکہ ؑ کو لے کر حضور اکرم ﷺ کے حضور میںاللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ٔدُرود و سلام پیش کرکے اَدب سے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم متوجّہ ہوکر فرماتے ہیں: ’’ جبرائیل ؑ! کیاقیامت برپا ہوگئی۔‘‘ وہ کہتے ہیں:’’ابھی نہیں۔‘‘ حضوراکرم ﷺ فرماتے ہیں: ’’پھر کیسے آنا ہوا۔ ‘‘وہ عرض کرتے ہیں: ’’آج عید کا دن ہے، آج وہ دن ہے کہ رحمتِ الٰہی جوش زن ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
آج رمضان کے روزے داروں تراویح و تسبیح پڑھنے والوں اور فقراء و مساکین کوصدقہ دینے والوں کو ثواب عظیم ملے گا۔ سب لوگ صدقۂ فطرہ ادا کرکے میدان عیدگاہ میں دو گانۂ عید ادا کرنے کے لیے جمع ہوں گے یارسول اللہ ﷺ ! اگر آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آج اپنی اُمّت کی شادمانی ملا حظہ فرمانے کے لیے دنیا میں تشریف لے چلیں‘‘ حضورِاکرم ﷺ دریافت فرماتے ہیں: ’’عرشِ الٰہی کی جانب یہ آواز کیسی بلند ہورہی ہیں؟‘‘ حضرت جبرائیل ؑ جواب دیتے ہیںکہ انبیء اؑ شہداء و مومنین و صالحین کی اَرواح ہیں، جو آج کے مبارک دن کی خوشی میںمشغول ہیں اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں التجا کرتی ہیں کہ اگر آپ ﷺ دُنیا کی طرف تشریف لے جائیں تو ہمیں بھی ہم رکابی میں چلنے کی اجازت ملے، کیوںکہ ُدنیا میں اپنے متعلقین سے ہمارے دل لگے ہیں، آج حضور اکرمﷺ کے طفیل میں اُنہیںدیکھ آئیں گے۔‘‘ رسولؐ اللہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’اے پاک روحو! اگر تمہارا یہی ارادہ ہے تو میرے ساتھ آئو۔‘‘ حضور سرور کائناتؐ اپنی اُمّت کو دیکھنے کے لیے دُنیامیں تشریف لاتے ہیں۔ تزک و احتشام سے اس مبارک جلوس کا زمین پر نزول ہوتا ہے۔ امام نمازِ عید سے فارغ ہوتا ہے تو سب ارواح واپس چلی جاتی ہیں۔ ا س کے بعد اُن کے پس ماندگان میں سے جو شخص مساکین اور محتاجوں کو کھانا اور خیرات دے کر اس کا ثواب میّت کو بخشتا ہے وہ میّت خوش ہوکر اُس کے لیے دُعائے خیر کرتی ہے۔ ایک مرتبہ عیدکے دن آنحضرت سروردو عالمؐ کے گھرمیں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا، جب آپؐ عیدگاہ جانے لگے، توحضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا:’’ آج آپ ؐ کی کسی بی بی کے یہاں کچھ کھانے کو نہیں ہے۔‘‘ آپؐ نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا: ’’یہ وہ وقت ہے کہ مجھ پر اتمامِ نعمت ہوا،یہ وہ ساعت ہے کہ مجھ پر فقر کا اطلاق پورا ہوا۔تم غم گین نہ ہو۔‘‘ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’میں اس سے خوش ہوں، مگر عادت کے موافق فقرا،بیوائیں اور یتیم آئیں گے۔ اُن سے شر مندگی ہوگی۔‘‘ آپؐ نے فرمایا:’’ہمیں اور اُنہیں اللہ تعالیٰ دے گا۔‘‘ یہ کہہ کر آپؐ عیدگاہ تشریف لے گئے ، جب واپس آئے تو دیکھا کہ آپؐ کے دروازے سے فقراء کھانا لیے جاتے ہیں۔ جب آپ ﷺ گھر میں تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا : ’’صحابہ کرامؓ کو بلا لیجیے آکر کھانا کھالیں۔‘‘ آپؐ نے پوچھا:’’ یہ کہاں سے آیا۔‘‘ انہوںنے فرمایا :’’حضرت عثمانؓ نے ساٹھ اونٹ آٹے، دس اونٹ روغن اور دس اونٹ شہد ، سوبکریاں اور پانچ سو دینار نقد بھیجے ہیں۔‘‘ آپؐ نے جوشِ شفقت و رحمت سے فرمایا:’’اے اللہ تعالیٰ !عثمانؓ بن عفان پر حساب آسان کردے۔‘‘ حضرت جبرائیل ؑ نے حاضر خدمت ہوکر کہا: ’’اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی دُعا حضرت عثمان ؓ کے حق میں قبول کی، اُنؓ سے روزِقیامت حساب نہ ہوگا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’جو کوئی عید کے دن بیوہ کو ہانڈی چڑھوا دے، یعنی کچھ دے ،جسے وہ پکا کر کھائے، اللہ تعالیٰ اُس سے ایک برس کاحساب نہ پوچھے گا۔‘‘ حضرت سعید ابنِ جبیرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یومِ فطر کا اکرام کیا کرواور معاصی اور ضرر سے بچاکرو۔‘‘ اکرام سے مراد غسل کرنا، کپڑے بدلنا، ناخن ترشوانا، مونچھیں کم کرنا، مسواک کرنا،خوش بُو ملنا،صدقہ ٔ فطر دینااور نماز کے لیے باہر آنا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے: ’’جس نے عید الفطر پر عطر ملا ،اُس کو دوزخ کی آگ مَس نہ کرے گی۔‘‘ ایک اور حدیثِ مبارکہ ہے: ’’جس نے یومِ فطر کو غسل کیا وہ دہشت ِنفخ صور سے امن میں ہوگیا۔‘‘ اور فرمایا:’’جس نے عید کی نماز پڑھی،وہ وعید سے امن میںہوگیا۔‘‘ آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے عید کے دن غریبوں، مسکینوں، یتیموں، محتاجوں، ضرورت مندوں، بیوائوں کو اس خوشی میں شریک کرنے کے لیے صدقۂ فطرادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ صدقۂ فطر ادا کرنے کے تین فائدے ہیں، روزوں کا قبول ہونا، موت کی سختی سے محفوظ ہونااور عذاب ِقبر سے امن پانا۔(تذکرۃ الوعظین) ایک روایت میں ہے سرور کائنات علیہ التحیتہ والصّلوٰت نے فرمایا: ’’اے مومنو! ضحیہ کو اپنا مرکب بنائو اور صدقہ ٔ فطر کو اپنا توشہ کرو اور جنّت کو آراستہ کرو۔ صدقۂ فطر دینے والے کے تمام روزے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور تمام گناہ بخشش دیتا ہے اور مرنے کے بعد فرشتے اس کی قبر کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ وہ قیامت کے دن بُراق پر سوار ہوکر جنّت میںجائے گا۔‘‘‘ یہ بھی وارد ہے: ’’صدقۂ فطر ادا کرنے والے کو ہر دانے کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ایک سال کی عبادت کا ثواب دیتا ہے اور ہردانے کے بدلے میں جنّت میں اس کے لیے ایک گھر بناتا ہے ۔ ہر دانے کے بدلہ میں اسے ایک حور عطافرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’بے شک ،اُس نے نجات پائی، جس نے تزکیۂ نفس کیا ،رمضان میں روزے رکھے اور اپنے پرورگار کا ذکر کیا، رمضان میں تراویح ادا کی اور نماز پڑھی، دوگانۂ عید ادا کیا۔‘‘ علاوہ دن کے شبِ عید الفطر کے فضائل بھی بہ کثرت ہیں، جس طرح دن میں نماز اور نیک کاموں کا کثیر اَجر ملتا ہے۔ اسی طرح رات میںبھی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا ثواب بے حد ہے۔(انیس الواعظین)جو شخص عید الفطر کی نماز کے بعد چار رکعت نماز نفل اس طرح پڑھے کہ پہلی رکعت میںسورۂ ٔفاتحہ کے بعد سورہ ٔاعلیٰ، دوسری رکعت میں سورہ ٔفاتحہ کے بعد سورۂ شمس پڑھے، تیسری رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃاللیل پڑھے، چوتھی رکعت میں سورہ ٔفاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے پچاس سال پچھلے اور پچاس سال آئندہ کے گناہ معاف فرماتا ہے، ایک قرآن کا ثواب ملتا ہے اور دُنیا بھرکے تمام یتیموں کو کھانا و کپڑا دینے کا ثواب ملتاہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment