Thursday, 22 June 2017

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں وہابیوں کا عقیدہ

وہابی عقائد کے مطابق اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا کافر ہیں یامشرک! اور اس میں وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں جو نبی کریم ﷺ کی ظاہری وفات کے بعد آپ ﷺ سے شفاعت طلب کرتے تھے اور آپ ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے جاتے تھے یا اسے جائز سمجھتے تھے، یا دوسروں کو یہ اعمال انجام دیتے ہوئے دیکھتے،مگر بیزاری کا اظہار نہیں کرتے تھے، حتی کہ جو لوگ اس کے جواز کے قائل تھے اور وہ انہیں کافر یا مشرک اور ان کی جان و مال وغیرہ کو حلال نہیں قرار دیتے تھے وہ بھی اسی حکم میں ہیں ۔
یہ بات وہابی عقائد کا لازمہ ہے اور ان کا موجودہ نظریہ بھی یہی ہے۔
لیکن یہ لوگ اپنی باتوں کے دوران صحابہ رضی اللہ عنہم کا جو احترام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،در حقیقت ان باتوں کے ذریعے یہ لوگ سادہ لوح عوام کو فریب دیتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے یہ اپنا اصل عقیدہ بیان کرنے سے ڈرتے ہیں لہذا ان کے خوف کی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کے مسئلے کو صحیح انداز سے بیان نہیں کرتے ۔
وہابیوں نے نبی کریم ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد زندہ رہ جانے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ آپ ﷺ کی ظاہری حیات طیبہ میں آپ ﷺ کے ساتھ رہنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی ان کی گستاخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے. بانی وہابیت محمد بن عبد الوہاب نجدی کے یہ الفاظ ملاحظہ پڑھیئے لکھتا ہے:
""اگرچہ بعض صحابہ آنحضرت (ص) کی رکاب میں جہاد کرتے تھے، آپ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، زکوٰۃ دیتے تھے، روزہ رکھتے تھے اور حج کرتے تھے پھر بھی وہ کافر اور اسلام سے دور تھے ۔ (الرسائل العملیۃ التسع، مؤلفہ محمد بن عبد الوہاب، رسالۂ کشف الشبہات، ص۱۲۰، مطبوعہ ۱۹۵۷ء )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں وہابیوں کے اس عقیدہ کی تائید ان چیزوں سے بھی ہوتی ہے جو کچھ ان کے علماء اور قلم کاروں نے یزید ملعون کی تعریف اور حمایت میں تحریر کیا ہے۔ جب کہ تاریخ میں یزید جیسا ،صحابہ رضی اللہ عنہم کا اور کوئی دشمن نہیں دکھائی دیتا جس نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جان و مال اور عزت و آبرو کو بالکل حلال کر دیا تھا نیز یزید جیسا اور کوئی ایسا شقی نہیں ہے جس نے تین دن تک اپنے لشکر کے لئے (واقعہ حرّہ میں) مدینہ کے مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو ،سب کچھ حلال کردی ہو۔
چنانچہ تین دنوں کے اندر مدینہ میں جو لوگ بھی مارے گئے وہ صحابہ رضی اللہ عنہم یا ان کے گھر والے ہی تھے اور جن عورتوں اور لڑکیوں کی عزت تاراج کی گئی ان سب کا تعلق بھی صحابہ رضٰ اللہ عنہم کے گھرانوں سے ہی تھا. یہی وجہ ہے کہ آئندہ سال مدینہ کی ایک ہزار کنواری لڑکیوں کے یہاں ایسے بچوں کی ولادت ہوئی جن کے باپ کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔
واقعہ حرّہ سے پہلے یزید کی سب سے بڑی بربریت کربلا میں سامنے آئی جب اس نے خاندان رسالت و نبوت کی اٹھارہ (۱۸) ہستیوں کو تہ تیغ کر ڈالا جن کے درمیان نبی کریم ﷺ کے پیارے نواسے اور آپ ﷺ کے دل کے چین حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نیز ان کے بیٹے، بھتیجے اور دوسرے اعزاء و اقرباء حتی کہ 6 مہینے کا شیر خوار بچہ بھی تھا۔رضی اللہ عنہم ۔
یزید کا ایک بڑا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے مکۂ مکرمہ پر حملہ کر کے خانۂ کعبہ میں آگ لگوائی۔
جی ہاں! وہابی حضرات اسی یزید ملعون کے قصیدہ خواں ہیں! اب اس کا راز کیا ہے ؟ یہ کون بتائے ۔
ہو سکتا ہے (شاید) صحابہ اور ان کی عورتوں اور بچوں رضٰ اللہ عنہم کے اوپر ظلم و تشدد اور ان کے ساتھ اس ناروا سلوک کی بنا پر ہی یہ لوگ یزید ملعون کی تعریف کرتے ہوں ۔
مزید تعجب یہ کہ! یزید نماز نہیں پڑھتا تھا. اور شراب پیتا تھا۔انہیں اُس کی صرف اِسی حرکت کی بنا پر اسے کافرقرار دے دینا چاہیے مگر وہ پھر بھی اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسے معذور قرار دیتے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے؟ کہ یزید کی ان تمام حرکتوں کو جاننے کے باوجود یہ لوگ اسے کچھ نہیں کہتے؟ بلکہ اس کی تعریف کرتے ہیں مگر جن لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے شفاعت طلب کرلی یا وہ آپ ﷺ کی زیارت کی نیت سے آپ ﷺ کی قبر مبارک پر چلے گئے ان کو کافر قرار دیدیا، چاہے وہ بڑے بڑے صحابہ، تابعین یا مجتہدین کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہی کیوں نہ ہوں؟۔
کیا یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ یزید نے نبی کریم ﷺ کی اہلبیت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا خون بہایا، ان کی عزت و آبرو کو مدینۃ المنورہ و کربلا میں تاراج کیا اور ان کی ناموس کو ظالموں کے لئے مباح کر دیا تھا ؟ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...