Friday, 30 June 2017

کرامات اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ بعد از ممات

کرامات اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ بعد از ممات

مصنف کے حالات : آپ کا نام نامی اسم گرامی سید محمد زکریا شاہ بنوری ،والد کا نام سید مزمل شاہ بنوری اور دادا کا نام سید میر احمد شاہ بنوری حنفی پشاوری تھا۔ سید محمد زکریا شاہ بنوری ’’آغا جی‘‘ کے لقب سے مشہور تھے ،آپ کا سلسلہ نسب حضرت سید آدم شاہ بنوری(اجل خلفاء حضرت مجدد الف ثانی سرہندی)سے جا ملتا ہے۔ حضرت آغا جی ذہن کے معقول اور دل کے صوفی تھے۔ انہوں نے معقول و منقول کی کتابیں اکابر علماء سے پڑھیں جو اپنے زمانہ میں فنون کے امام سمجھے جاتے تھے ۔لیکن ہندوستان کی کسی درسگاہ سے باقاعدہ سند یافتہ نہیں تھے۔ آغا جی صاحب مصنف تھے، انہوں نے کرامات اولیاء کے ثبوت میں ایک کتابچہ کشف الغمہ عربی میں تحریر کیا جو ان کی حیات میں شائع ہوا اور جس کا ترجمہ حضرت علامہ مولانا سید محمد امیر شاہ قادری الگیلانی نے ’’کرامات اولیاء بعد ازممات اولیاء‘‘ کے عنوان سے آج سے تقریباً 30 سال قبل شائع کروایا تھا، ادارہ ہذا اس کو دوبارہ شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہاہے۔

آغا جی پر حق تعالیٰ کا جو خصوصی انعام تھاوہ ان کے رویائے صادقہ تھے، جس کو قرآن پاک نے ’’لھم البشرٰی فی الحیٰوۃ الدنیا‘‘ فرمایا ہے، یعنی اس دنیا میں سچے خواب ایک مومن کیلئے حق تعالیٰ کی طرف سے اس کی خوشنودی کا نشان ہیں۔ آغا جی نے ایک ایک خواب کو بڑے اہتمام سے قلمبند کیا اور اس ضخیم مجموعہ کانام ’’المبشرات‘‘ تجویز فرمایا۔ المبشرات کو وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے، یہاں تک فرمایا کہ اگر شرع اجازت دیتی تو وصیت کرتا کہ اس کو میرے ساتھ دفن کیا جائے ،وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ان کے مبشرات منظر عام پر آئیں کیونکہ

میانِ عاشق و معشوق رمزیست

ان کا ایک رسالہ ’’نفس و روح ‘‘ان کی حیات میں شائع ہو چکا تھا، جو ان کی دقت نظر اور فہم رسا پر گواہ ہے ۔’’مطالع الانوار فی فضائل اہل بیت النبی المختار‘‘بھی آپ کی تصنیف ہے جو آپ نے فصیح عربی میں حب آلِ نبیؐ کا ترکہ چھوڑاہے ۔اسی طرح ’’ایفاح‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں وحدۃ الوجود و شہود اور مشکلات کلام پر علمی کرامت بھی شستہ اردو زبان میں چھوڑی ہے۔

حضرت سید آدم بنوریکی اولاد میں ہونے کی وجہ سے آغاجی کو روحانی ترقی کا شوق و ذوق ورثہ میں ملاتھا، اپنی اس پیاس کو بجھانے کیلئے وہ تلاشِ شیخ میں نکلے۔ گنج مرادآباد میں حاضر ہو کر قطب ارشاد شاہ فضل رحمنکی زیارت کی پھر شاہ جہاں پور آئے اور حضرت میاں جی صاحب چشتیکی خدمت میں کچھ عرصہ رہے، یہاں روحانی سیر کے بڑے مشاہدے حاصل ہوئے، پھر بھی طبیعت کا جھکاؤ ارادت تک نہ پہنچ سکا۔ یہاں سے نکل کر سارے ہندوستان بلکہ عراق تک کاسفر اسی غرض سے کر ڈالامگر قضائے الٰہی کا فیصلہ ان کے حق میں یہی تھا جس پر صادق آئے کہ

نظر ہے ابر کرم درخت صحرا ہوں

کیا خدا نے نہ محتاجِ باغباں مجھ کو

ت بخشی کہ تمام ادیان پر غالب فرمایا۔

اس بات پر دکھ نہیں کہ غیر مسلم اعتراض کرے اور انکار کی راہ تلاش کرے مگر دکھ تو اس وقت ہوتا ہے جب باغبان ہی گل چیں بن جاتا ہے، اس گھر کو گھرکے چراغ ہی خود آگ دکھانے لگے۔ وہ لوگ جو خود کو ضابطہ اسلام کا پابند کہہ کر بھی اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حضرت رسول اکرمکو اپنا ہادی اور پیشوا مان کر حضورکے ارشادات سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ حضورکی حدیث کو حجت تسلیم کر کے احادیث کا انکار کرتے ہیں ۔کیا یہ دین اسلام کے ساتھ کھلی دشمنی نہیں کرتے اور حضورکی اتباع سے بغاوت نہیں کرتے؟

رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

‚عوام تو ہیں ہی عوام،علماء کا یہ عالم ہے کہ علی الاعلان کرامات اولیاء اﷲ کا انکارکرتے ہیں اور کرامت اولیاء اﷲ تسلیم کرنے والوں کو مشرک اور بدعتی کالقب دینے میں ذرا سی جھجک بھی محسوس نہیں کرتے۔

کافی دنوں سے خیال تھا کہ اس مسئلہ پر ایک رسالہ لکھوں ؍اتفاقاً ایک روز حضرت علامہ مولانا سید زکریا شاہ صاحب بنوری مدظلہ العالی سے اس مسئلہ پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے اپنا عربی میں تحریر کردہ یہ رسالہ مرحمت فرمایا جس کا ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہاہوں۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس رسالہ سے لوگوں کے اعتقادات کو درست فرما دے اور اہل حق اہل سنت والجماعت پر قائم رکھے —-آمین!

نا سپاسی ہوگی اگر مولانا مولوی حافظ عبدالحمید صاحب نقشبندی کا بھی شکریہ ادا نہ کروں جنہوں نے ترجمہ کرنے اور ترتیب دینے میں مدد فرمائی۔

فقیر) محمد امیر شاہ قادری گیلانی) یکہ توت پشاور

خطبہ : بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اے میرے مالک و مولیٰ! میں ہر حال میں تیری صفت و ثناء کرنے والا ہوں اور تو ہر حال میں تعریف کیا گیا ہے، اے مالک حقیقی
اپنے محبوب نبی مختارپر درود بھیج اور اُن کی آل اور اُن کے اصحاب پر بھی رحمت بھیج جو کہ قیامت کے روز اس امت مرحومہ کی شفاعت کریں گے۔

اما بعد، یہ فقیر جو کہ برائیوں اور خطاؤں کا پتلا ہے اور جس کی کنیت ابو الحامد ہے اور جو (سید ذکریا شاہ بنوری رضوی، حنفی ، نقشبندی ، پشاوری کے نام سے مشہور ہے) عرض پرداز ہے کہ واعظ کی ایک مجلس میں سید السادات حضرت سید شیخ ابو محمد محی الدین عبدالقادرجیلانی صکی کرامات بعد الموت کا ذکر آیا تو بعض اصحاب مجلس نے کہا کہ موت کے بعد کسی ولی سے کرامات کا صدور ناممکن ہے اور حضرت شافع المحشرکی اس حدیث سے استدلال کیا کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے اور بطور شہادت صاحب (بداء الامالی فی التوحید) کاجو قول پیش کیا کرامات الولی بدار دنیا یعنی ولی کی کرامات اس دنیا میں ہی ثابت ہیں۔لیکن بعض نے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کچھ چیدہ چیدہ اولیاء کرام کی کرامات کا صدور بعد الموت ان آنکھوں سے دیکھا گیا ہے اور مقدم الذکر نظریہ غلط ہے کیونکہ مشاہدہ سے اس کا خلاف ثابت ہے ۔پس میں نے ارادہ کیا کہ اس بارے کچھ لکھوں تا کہ جھوٹ اور سچ کھوٹے اورکھرے میں تمیز ہوجائے اسلئے بارگاہِ رب تعالیٰ سے اجازت لے کر (یعنی استخارہ کے بعد) میں نے اس اہم کام کو شروع کیا۔

وما توفیقی الا باﷲ علیہ توکلت و الیہ انیب

پہلا باب : کرامت کی تعریف

یہ باب اس بارے میں باندھا گیا ہے کہ خرقِ عادت اور کرامت اصطلاحاً معنی کے لحاظ سے ایک ہی چیز ہے ۔

(۱) حضرت امام عمر نسفی نے اپنی کتاب (عقائد) میں لکھا ہے کہ کراماتِ اولیاء حق ہے پس کرامت خرقِ عادت کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔

(۲) علامہ تفتازانی نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ولی کی کرامت خرقِ عادت کے طور پر اس سے ظاہر ہوتی ہے ( نبوت کا دعویٰ کرنے کے بغیر) اور اسی بارے کچھ آگے چل کر وہ فرماتے ہیں کہ خرقِ عادت کی نسبت اگر حضور سرور کونینکے ساتھ ہو تووہ معجزہ ہوگا اور اگر یہ خرقِ عادت اس کی امت کے بعض آدمیوں کی طرف منسوب ہو تو اس کو کرامت کہیں گے۔

(۳) حضرت علامہ زکریاانصاری شافعی کی مشہور تصنیف ’’شرحِ منفرجہ‘‘ میں مذکورہے کہ کرامت وہ خرقِ عادت ہے جوکہ ایک ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوجو کہ نبوت کا دعویٰ نہ کرے اورکرامت کا ثبوت ہی یہی ہے کہ وہ ایک ولی سے صادر ہو۔

(۴) حضرت علامہ شہاب الدین احمد شجاعی نے اثبات کرامات الاولیاء کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے اس میں آپ رقمطراز ہیں۔ ان کے الفاظ کا بعینہٖ یہ ترجمہ ہے کہ پس تو سمجھ لے کہ کرامات کرامت کی جمع ہے اوروہ ایسی خرقِ عادت ہے جو نہ تو نبوت کے ساتھ تعلق رکھے اور نہ نبوت سے پہلے زمانہ سے متعلق ہو اوروہ ایسے شخص سے ظاہر ہو۔

(الف) جس کا ظاہر اصلاح پر مبنی ہو۔(ب) وہ کسی نبی کا متبع ہو۔

(ج) اس کی شریعت کا پابند ہو۔(د) اس کا اعتقاد صحیح ہو۔

ھ) اس کے اعمال صالح ہوں ( خواہ اعمالِ صالح کا اس کو علم ہو یا نہ ہو)۔

(۵) اور رسالہ قشیریہ میں مصنف نے کچھ تقریر کے بعد کراماتِ اولیاء کے بارے اس طرح لکھا ہے: کرامت ایک ایسا فعل ہے جو کہ بیشک حادث ہے کیونکہ قدیم کی تعریف یہ ہے کہ وہ خاصہ باری تعالیٰ کا ہو اور کرامت خرقِ عادت ہے۔ (جلد ۱، صفحہ۱۶۹)

(۶) حضرت علامہ ابراہیم بیجوری (کفایت العوام فی علم الکلام) کے حاشیہ بر تحت قول ایدیھم بالمعجزاتمیں ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی نے اس قول کی تشریح کرتے ہوئے خرقِ عادت کی تمام قسمیں مندرجہ ذیل طور پر منظوم کر دی ہیں:

(الف) اگر تو کوئی امر خرقِ عادت کے طور پر واقع ہوتے ہوئے دیکھے تو اگر وہ کسی نبی کی طرف سے صادر ہو تو اس کو معجزہ کہیں گے۔

(ب) اور اگر وہ خرقِ عادت اس نبی سے قبل از بعثت صادر ہو تو اس کو ارہاص کہیں گے اور یہ آثار تابعین سے ثابت ہے۔

(ج) اور اگر وہ کسی وقت کسی ولی سے ظاہر ہو تو ازر وئے تحقیق صاحبان فراست کے نزدیک وہ کرامت ہے۔

(د) اور اگر عوام میں سے کسی ایک سے یہی خرقِ عادت ظاہر ہو تو اس کو حق سمجھو اور شارحین کے نزدیک اس کا مشہور نام معونت ہے۔

(ھ) اور اگر کسی فاسق سے ایک کام اس کی مرضی کے مطابق بطورِ نقص عادت ظاہر ہو جائے تو شارحین کی اصطلاح میں اس کو استدراج کہتے ہیں۔

(و) مندرجہ بالا امور کے سوا کوئی خرقِ عادت اہانت ہے ، کرامت نہیں بن سکتی اور جو شخص واقفیت حاصل کرنا چاہے اس کو جاننا چاہئے کہ خرقِ عادت کی تمام قسموں کا مندرجہ بالا ہی خلاصہ ہے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ خرقِ عادت اور کرامت مترادف الفاظ ہیں اور جس نے گوہر افشانی کی ہے کہ خرقِ عادت اور ہے کرامت اور ہے یا یوں کہا کہ خرقِ عادت ہے اور کرامت نہیں تو اس پر اس دعوے کیلئے ثبوت واجب ہے کیونکہ کسی مقصد کی جیت اور ہار امتحان کے وقت دلیل کی جانچ اور پڑتال پر موقوف ہے۔

دوسرا باب : کراماتِ اولیاء بعد از ممات

یہ باب اس بارے میں ہے کہ شہید کی طرح ولی کی کرامت بھی اس کے انتقال کے بعد منقطع نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی کرامت بعد الممات حال حیات کی کرامت سے زیادہ اظہر اور قوی ہوتی ہیں ۔

صاحب تفسیر مظہری آیت ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ آیہ مبارکہ شہدائے بدر کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو کہ تعداد میں چودہ اصحاب تھے ،ان میں سے چھ مہاجرین سے اور آٹھ انصار سے تھے۔ اس وقت لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ شہید مر جاتا ہے اور دنیا کی نعمتوں سے محروم کیا جاتا ہے پس اﷲ جل شانہ نے یہ آیت نازل کی اور فرمایا ’’بل احیاء ‘‘ بلکہ وہ زندہ ہیں یعنی ﷲ تعالیٰ ان کے ارواح کو اجسام کی طاقت عطا فرماتا ہے۔ پس وہ زمین پر آسمانوں پر اور جنت میں جہاں چاہیں چلے جاتے ہیں اور اپنے احباب کی مدد کرتے ہیں اور ان کے دشمنوں کو تباہ کرتے ہیں (ان شاء اﷲ تعالیٰ ) اسی زندگی کی وجہ سے زمین ان اجسام کو نہیں کھا سکتی۔

حضرت امام بغوی فرماتے ہیں کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی ارواح رات بھر عرش کے نیچے رکوع و سجود کرتی رہتی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ ارشاد مصطفویہے کہ شہداء جس وقت جام شہادت نوش کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کو خوبصورت جسم عطا فرماتا ہے۔ پھر شہید کی روح کو حکم ہوتا ہے کہ اس نئے جسم میں داخل ہو جا پھر وہ شہید اپنے پہلے جسم کی طرف دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، پھر وہ یہ سوال اسی غرض سے کرتا ہے کہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ شہداء سنتے ہیں اور پھر ان کی طرف دیکھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ شہداء دیکھتے ہیں۔ پھر اس کیلئے پاک بیویاں یعنی حورعین آکر اس کو اپنے ساتھ لے جاتی ہیں۔ ابن مندہ نے اس حدیث کو مرسلا ًروایت کیا اور صحیح مسلم میں ابن مسعود سے یہ حدیث مرفوعاً نقل ہے کہ شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے قالب لے کر جنت میں جہاں سے چاہیں کھاتی اور پیتی ہیں اور پھر وہ نور کی قندیلوں میں عرش کے نیچے پناہ لیتی ہیں۔

علماء کی ایک جماعت اس طرف چلی گئی ہے کہ یہ زندگی شہداء کے ساتھ مختص ہے لیکن میرے نزدیک حق یہ ہے کہ صرف شہداء کے ساتھ ہی اس کا تعلق نہیں ہے بلکہ انبیاء کی حیات ان سے زیادہ قوی ہے اور خارج میں اس کے آثار اس قدر شدت کے ساتھ ظہورو پذیر ہیں کہ نبی کے وصال کے بعد اس کی ازواج مطہرات کے ساتھ نکاح جائز نہیں (خلاف شہداء ) اور صدیق بھی درجہ میں شہداء سے افضل ہیں۔ اس کے بعد صلحاء و اولیاء ہیں جو کہ شہداء کے ساتھ مذکور ہیں۔ قرآن حکیم میں اسی ترتیب سے یہ مراتب مذکور ہیں من النبیین و الصدیقین و الشہداء و الصالحین یعنی انبیاء پھر صدیق، پھر شہداء اور پھر صالحین میں سے ۔اور اسی لئے صوفیاء کرام فرماتے ہیں ارواحنا، اجسادنا و ارواحنایعنی ہماری ارواح ہمارے جسم میں اور ہمارے جسم ہماری ارواح ہیں اور نہایت ہی کثرت سے اولیاء اﷲ سے ثابت ہے کہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو کہ اپنے احباب کی مدد فرماتے رہتے ہیں اور انکے اعداء کو مٹاتے رہتے ہیں اور جن کو اﷲ تعالیٰ چاہے ان کی ہدایت بھی فرماتے رہتے ہیں، حضرت مجدد الف ثانی بھی فرماتے ہیں کہ اولیاء اﷲ کو نبوت کی وراثت سے کمالات حاصل ہوتے ہیں۔

میں کہتا ہوں کہ شریعت نے صدیقوں اور مقربوں کو جو یہ خطاب دیئے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ان کو اپنی بارگاہِ عالیہ سے وجود بخشتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور شہداء اور بعض صالحین کے وجود کو مٹی نہیں کھاتی۔ اس کلام کی تفصیل حد سے زیادہ ہے یہاں تک کہ صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ مروزی حضرت قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ مجھ کو یہ خبر ملی ہے کہ مٹی اس وجود پر قبضہ نہیں کر سکتی جس سے کوئی گناہ صادر نہ ہوا ہو۔ میرے خیال میں اس جملے کا مصداق ولی اﷲ ہیں کیونکہ اولیاء اﷲ گناہوں سے محفوظ ہوتے ہیں اور مغفرت باری ان کو اس طرح ڈھانپ لیتی ہے کہ انکے قلوب اور ان کے اجسام پاک ہو جاتے ہیں، واﷲ اعلم۔ یہاں صاحب تفسیر مظہری کا بیان ختم ہو تا ہے۔ (صفحہ۱۲۱)

میری رائے میں صاحب تفسیر مذکور نے جو حدیث بیان کی ہے (کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے ارواح کو اجساد کی قوت دی ہے اور وہ زمین پر وآسمان پر اور جنت میں چلتے ہیں الخ)۔ اس میں کرامت بعد الموت کیلئے واضح دلیل پائی جاتی ہے کیونکہ سرور عالمکا ارشاد گرامی مذکورہ بالا دو حدیثوں میں صاف ظاہر ہے کہ شہید کو جب دوسرا جسم عطا کیا جاتا ہے توگویا وہ اس طرح ہوتا ہے اور یہ کہ ان کی ارواح سبز پرندوں کے قالب میں جنت میں پھرتی اور غذا حاصل کرتی رہتی ہیں اور پھر عرش کے نیچے قنادیل میں پناہ لیتی ہیں، یہ سب کرامات ہیں جو کہ بعد الموت ثابت ہیں۔

حضرت امام حافظ العظیم منذری نے اپنی کتاب ’’الترغیب والترہیب‘‘ میں اس طرح نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس صفرماتے ہیں کہ ایک صحابی نے ایک قبر کے اوپر ایک خیمہ نصب کیا، ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ قبر ہے، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ایک ایسے شخص کی قبر ہے جو کہ سورہ ملک کی تلاوت کر رہا ہے۔ اس صحابی نے یہ تلاوت سنی یہاں تک کہ وہ سورہ ختم ہو گئی۔اس کے بعد وہ حضور سرور عالمکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اﷲ تعالیٰ کے پیارے رسول !میں نے ایک قبر پر خیمہ نصب کیا لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ یہ قبر ہے، بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایک شخص کی قبر ہے جس نے سورہ ملک کی تلاوت فرمائی ، میں اس کو سنتا رہا حتیٰ کہ سورہ ختم ہو گئی ۔ حضورنے ارشاد فرمایا کہ یہ سورہ ملک عذاب قبر سے نجات دینے اور روکنے والی ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث غریب ہے اور شارح فاضل فیومی نے کہا کہ اس کو حاکم نے بھی روایت کیا ہے– الخ ۔ حضرت شیخ الاسلام علامہ شہاب الدین احمد بن احمد حمویاس کلام کو اپنی کتاب موسوم بہ ’’نفحات القرب والاتصال باثبات التصرف اولیاء اﷲ تعالیٰ والکرامت بعد الانتقال ‘‘میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سورہ ملک کی تلاوت سے یہ ثابت ہے کہ حضور سرور عالمنے جو تقریر فرمائی وہ اس شخص مذکور کی کرامت بعد الموت پر ایک واضح دلیل ہے کیونکہ حضور نے میت کا سورہ ملک کی تلاوت کرنا اقرار کر کے فرمایا کہ یہ عذاب قبر کیلئے مانع ہے اور نجات دینے والی ہے اور حضور کی تقریر جیسا کہ اصول کی کتابوں میں وارد ہے احکام کے ثابت کرنے میں شرعی دلیل ہے اور جو کچھ ہم نے لکھا ہے اور جس چیز کو ہم نے دلائل سے ثابت کر دیا ہے وہ قاضی القضات اوشی حنفی کے اس قول کے منافی نہیں ہے جو کہ انہوں نے کتاب ’’بدر الامالی‘‘ میں دوبارہ عقائد منظوم کیا ہے اور وہ قول یہ ہے۔

کرامات الولی بدار دنیا

–لھا کون فھم اھل النوال

ºاہل علم کے نزدیک ولی کی کرامت کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ہے ۔نہ کسی ظاہر روایت سے اور نہ کسی نص سے ثابت ہو سکتا ہے کہ اولیاء اﷲ کی کرامات بعد موت منقطع ہو جاتی ہیں اور نہ ہی ثابت ہو سکتا ہے کہ ان کی کرامات کسی خاص حالت کے ساتھ مختص ہیں کیونکہ دنیا سے مراد وہ تمام مخلوقات عالم ہیں جن میں جواہر اور اعراض بھی شامل ہیں اور دار دنیا دار آخرت سے پہلے ہے۔

قاضی القضات اوشیکے مذکورہ بالا کلام میں جو دنیا کا لفظ وارد ہوا ہے وہ آخرت کے مقابل ہے اور آخرت سے مراد وہ زمانہ ہے جو کہ قبروں سے اٹھنے کے بعد کا ہے اس سے پہلے کا زمانہ ہرگز مراد نہیں ہے۔ یہاں تک کہ یہ زمانہ جس کو دنیا کہتے ہیں موت سے لے کرحشر تک ہے۔ قاضی القضات کے قول سے بظاہر کسی قدر تعارض کا احتمال پیدا ہوتا ہے لیکن دلیل اس کی تائیدنہیں کرتی کیونکہ ابن قیم نے ابی یعلی سے نقل کیا ہے کہ عذاب قبر دنیا سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہ حشر سے پہلے واقع ہوتا ہے اور موت کے بعد سلسلہ حیات کے منقطع ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کی مدت بھی نامعلوم ہے اس نظریہ کی تائید الجلال نے ’’شرح الصدور‘‘ میں کی ہے اور پھر اس قول کی دوسری تائید ہناد بن سری نے زہد میں بذریعہ حدیث کی ہے جس کے راوی مجاہد ہیں اور وہ فرماتے ہیں کہ کفار کو عذاب آخرت سے پہلے شروع میں ایک اونگھ آئے گی جس میں وہ نیند جیسی لذت پاتے ہیں اور یہ حالت قیامت کے دن تک رہتی ہے جبکہ اچانک قبروں سے آوازسنی جائے گی اور کافر یہ کہے گا اے افسوس ہم کو اپنی خوابگاہوں سے کس نے اٹھایا۔ اس وقت اس کے ساتھ مومن کی قبر سے یہ آواز آئے گی کہ یہ وہ وعدہ ہے جو کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ فرمایا تھا اور کتاب ’’مواہب لدنیہ‘‘ میں صحیح اسناد کے ساتھ یہ قصہ مذکور ہے کہ حضرت ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ کیا قیامت کا دن دنیا سے ہے یا کہ آخرت سے ۔پس آپ نے جواب دیا کہ اس کا وہ نصف حصہ جس میں کہ قبروں سے جدائی ہوتی ہے اور امتحان واقع ہو تا ہے وہ دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا دوسرا نصف حصہ جس میں کہ دوزخیوں کو دوزخ کی طرف اور جنتیوں کو جنت کی طرف لے جاتے ہیں وہ آخرت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس حدیث کے وہ راوی جو کہ حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں عکرمہص جو کہ ان کے آزاد کردہ غلام تھے۔

پس جب قیامت کا دن اس وقت واقع ہوگا جب کہ برزخ اور جو کچھ اس سے متعلق ہے سب فنا ہو جائیں گے اور پھر یوم قیامت کا پہلا نصف حصہ دنیا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے تو اب حدیث صحیح کی رو سے حقیقتاً ثابت ہوا کہ برزخ دنیا سے ہے اور اس کلیہ کی رو سے دار دنیا سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اولیاء اﷲ کی کرامات کا وقوع بعد از موت جوازاً ثابت ہے ۔

اسی لئے جہاں اس شعر کی کئی ایک حضرات نے تشریحات کی ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی میرے نظریہ کی تردید نہیں کی اور کسی نے اس شعر کا مطلب یہ نہیں لیا کہ مرنے کے بعد اولیاء کی کرامات منقطع ہو جاتی ہیں بلکہ اس کتاب ( بدء الامالی) کے شارح حضرت علامہ جلال البخاری نے ایک عجیب نکتہ بیان فرماکے تمام مشکلات کو حل کر دیا ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ دنیا کی قید اس واسطہ لگائی گئی ہے کہ معتزلہ کار د ثابت ہو جائے ،ہمارے اور ان کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے ۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ دار آخرت تو تمام مومنین کیلئے محل کرامت ہے اسلئے اولیاء اﷲ کی کرامات کا ظہور اس دنیا میں بعد الموت زیادہ مفید طلب اور بدرجہ اتم ایک کمال ہے۔

ایک اور شارح علیہ الرحمہ یعنی علامہ سمہووی اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے اور دار دنیا کے عقدہ کو حل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عقلاً اولیاء اﷲ کی کرامات بعد از موت کو کرامات قبل الموت سے زیادہ ظاہر اور روشن ہونا چاہئے کیونکہ ان کی روح موت کے بعد دنیا کی آلائشوں سے صاف ہو جاتی ہے اور وہ زیادہ لطیف اور نورانی ہو جاتی ہے اور اس دعویٰ کی دلیل مشاہدہ ہے جو کہ کثیر الوقوع ہے ۔یہ معنی ناظم (قاضی القضاہ) کے شعر میں پوشیدہ ہے کیونکہ ان کا قول ( بدار دنیا) قبل موت اور بعض الموت دونوں پر صادق آتا ہے ۔

اب ان دلائل سے ظاہر ہو گیا کہ جس نے زیر بحث شعر سے یہ نتیجہ نکالا کہ انتقال کے بعد اولیاء اﷲ کی کرامات کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ کو بھی اس کا قائل ثابت کرنے کی کوشش کی اور وہ ایک وہم میں مبتلا ہے اور ہدایت کے راستہ سے بھٹکا ہوا ہے کیونکہ حضرت امام ابو حنیفہ سے نہ مرفوعاً نہ اصولاً کوئی ایسا قول ثابت ہے جس سے نفی کرامت بعد المومت ثابت ہو ۔اس کے قطع نظر تینوں مذاہب یعنی شافعیہ ، مالکیہ ، حنبلیہ کی کسی کتاب میں ایک حرف بھی ثابت نہیں ہوا جو کہ ان حضرات کی کرامات بعد الموت کی نفی کر سکے پھر جو شخص یہ دعویٰ کرے اور ایسی نفی کو ثابت کرنا چاہے تو ہ اپنی دلیل پیش کرے اور میدان میں آجائے کیونکہ آدمی کی جیت یا ہار کامیابی یا ذلت کا پتہ میدان میں چلتا ہے۔

امام ہمام عالی مقام حضرت ابو حنیفہ کی طرف جو اس قول کی نسبت کی گئی ہے تو ان کی کرامات کا وقوع بذاتِ خود بعد الممات ثابت ہے ۔دیکھئے کتاب شرح مقدمہ امام ابو لیث سمرقندی حنفیمصنفہ فاضل کرمانی دربارہ کرامات امام ابو حنیفہ بعد المومت۔آئمہ مجتہدین روایت کرتے ہیں کہ امام مذکور کو غسل دینے لگے تو آپکے پہلو پر ایک سطر لکھی ہوئی نظر آئی

یا ایتھا النفس المطمئنہ ارجعی الٰی اربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی و ادخلی جنتی (الفجر:۳۰) یعنی اے تسلی یافتہ روح اپنے رب کی طرف چل، درآنحالیکہ تو راضی اور راضی کی گئی ہے پس میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں پہنچ جا۔پھر دائیں ہاتھ پر یہ لکھا ہوا نظر آیا ادخل الجنۃ بما کنتم تعلمون یعنی اپنے اعمال صالحہ کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جا۔بائیں ہاتھ پر یہ لکھا ہوا نظر آیا انا لا نضیح اجر من احسن عملاً یعنی ہم نیکو کاروں کے اعمال کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔اور آپ کے بطن مبارک پر لکھا ہوا تھا یبشرھم ربھم برحمتہ منہ و رضوان و جنات لھم فیھا نعیم مقیمیعنی ان کو اپنا رب اپنی رحمت اور رضوان اور باغات عطا کرنے کی خوشخبری دیگا۔ ان باغات میں سے ان کیلئے ہمیشہ کیلئے نعمتیں ثابت ہوں گی ۔جب ان کو جنازہ پر رکھا تو ایک ہاتف کی آواز سنائی دی گئی جو با آواز بلند کہہ رہا تھا ’’ اے اپنے لمبے قیام سے راتوں کو جاگنے والے زیادہ تہجد پڑھنے والے اور زیادہ روزے رکھنے والے اﷲ تعالیٰ نے تجھ کو بہشت عطا کی ہے ‘‘اور جب قبر میں رکھے گئے تو ہاتف کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’ تیرے لئے جنت کے باغ اور باغیچے اور جنت کی نعمتیں ہیں‘‘۔ اس قدر بیان جواوپر گزر چکا ہے وہ موت کے بعد کی کرامات کے ثبوت کے متعلق تھا۔

تصرفِ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ

نوٹ: تصرف اولیاء کے متعلق جاننا چاہئے کہ جو تصرف ان کی زندگی کے دوران میں ثابت ہو وہ ان کی کرامات میں سے ہے، اور وہ ہر ایک زمانہ میں اس قدر کثرت سے مشاہدہ کیا جا چکا ہے کہ اس میں کوئی شک باقی نہیں رہتا اور سوائے ایک ہٹ دھرم انسان کے دوسرا کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا۔

علامہ تاج الدین سبکی فرماتے ہیں کہ تصرفِ اولیاء ان کی مختلف کرامات سے ایک کرامت ہے۔ اگر ان کی کرامات کو جنس قرار دیا جائے تو ان کے تصرف کو نوع قرار دیں گے۔ دنیا میں تو ان کی کرامات سے کسی کو انکار نہیں ہے کیونکہ ان میں سے بعض نے بڑے بڑے کام کئے جو عقلاً محال تھے ۔اب جب کرامات موت کے بعد منقطع نہیں ہو سکتیں جیسا اوپر گزر چکا ہے تو تصرف جو کرامات کی نوع ہے کس طرح مرنے کے بعد ساقط ہوگا۔ پھر تصرف کے بارے میں ایک نکتہ قابل ذکر یہ ہے کہ یہ تصرف اﷲ تعالیٰ کے اِذن اور مشیت سے واقع ہوتا ہے اور از روئے تخلیق و ایجاد نہیں ہوتا بلکہ اس ایجاد اور تخلیق میں اس کا کوئی شریک ہی نہیں ہے اور ذات باری اس تصرف سے ان کی عزت بڑھاتا ہے اور خرقِ عادت کے طور پر ان کے ہاتھوں اور زبانوں سے تصرف کراتا ہے۔ یہ تصرف کبھی الہام سے ،کبھی نیند سے ،کبھی ان کی دعا سے ،کبھی ان کے فعل اور اختیار سے اور کبھی بغیر قصد شعور اور اختیار کے واقع ہو جاتا ہے۔ یہ تصرف کبھی کبھی ایک ہونہار بچے سے بھی ثابت ہو جاتا ہے، کبھی اولیاء اﷲ کے توسل سے جو کہ ان کی زندگی میں طلب کیا جائے، یا بعد از ممات ہو، تصرف ثابت ہوتا ہے اور یہ سب خداوند تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے ہیں۔اولیاء اﷲ سے سوال کرنے سے لوگوں کا یہ مقصد معاذ اﷲ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ وہ معاذ اﷲ قبل الموت یا بعد الموت ایجاد و تخلیق کے مالک ہیں یا مستقل طور پر تصرف کرتے ہیں بلکہ مسلمان کیلئے یہ ارادہ تو درکنار اس کے دل میں کبھی یہ خیال بھی نہیں گزرے گا کہ اولیاء اﷲ کا تصرف از روئے خلق و ایجاد مستقل طور پر ہے۔ جب کسی عاقل کو یہ گمان تک نہیں ہو سکتا تو کس طرح اس تصرف کو تلبیس فی الدین و تشویش علی الموحدین قرار دے سکتے ہیں یعنی اس سے دین میں شرک کا شائبہ نہیں پایا جاتا اور نہ ہی توحید کے قائلوں پر کوئی حرف آسکتا ہے۔علامہ تاج الدین سبکی کا کلام ختم ہوا جو اس سے واقفیت حاصل کرنا چاہے اس کو چاہئے کہ مذکورہ بالا رسالہ دیکھ لے تا کہ اس پر مکمل حالات ظاہر ہو جائیں اور اﷲ تعالیٰ ہی ہر ایک قسم کی اچھائی اور خوبی کا رستہ دکھانے والا ہے۔

آخرت کی منزلوں میں سے برزخ

کا پہلی منزل ثابت ہونے والی حدیث کی تشریح

سرورِ عالم کے ارشاد گرامی کے متعلق یعنی برزخ آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے ۱؂ اتنا جتلا دینا ضروری ہے کہ حضورنے یہ تشبیہ مثال کے طور پر بیان فرمائی۔

اور وجہ تشبیہ یہ ہے یعنی مرنے کے بعد انسان اپنے اعمال کا مکلف نہیں رہتا چونکہ نہ تو برزخ میں اور نہ آخرت میں وہ اپنے اعمال کا مکلف ہے، اسلئے یہ تشبیہ دیدی ۔ حضرت علامہ امیر شیخ عبدالسلام مالکی کی کتاب ’’الجوہرہ دربارہ علم الکلام ‘‘کی تشریح کرتے ہوئے صفحہ ۱۲۹ مطبوعہ مصر پر رقمطراز ہیں کہ جب کرامت کا صدور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ولی کی حیات اور موت کا سوال ہی اُٹھ جاتا ہے ۔ ایک دن شیخ المشائخ علامہ شیخ محمدشوبری سے مندرجہ ذیل سوالات کئے گئے:

(۱) اولیاء کرام کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، کیا ان کے وجود پر دلائل قائم کئے جا سکتے ہیں؟

(۲) کیا ان کی کرامات ثابت ہیں؟

۱؂ :پہلی منزل سے مراد یہ نہیں ہے کہ برزخ آخرت میں شامل ہو گئی ہے کیونکہ حضرت ابن عباس صکی حدیث اس مفہوم کی صاف تردید کررہی ہے اور وہ گزشتہ سطورمیں مفصل بیان کی گئی ہے۔ لفظ منزل کی تشریح کیلئے فاضل مصنف رسالہ ہذا نے حضرت ابن عباس کی حدیث کو کافی سمجھا ہے۔ ویسے عقلاً بھی یہ بات بعید ازقیاس ہے کہ پہلی منزل کو منزل مقصود سمجھا جائے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان اگر سترہ منازل ہیں تو جو شخص مکہ معظمہ سے ایک منزل طے کر لے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مدینہ منورہ پہنچ گیا جس کا کل فاصلہ مکہ معظمہ سے۲۰۰میل ہے، تو ۱۳میل طے کرنے سے وہ منزل مقصود پر نہیں پہنچا بلکہ اس پہلی منزل کا شمار مکہ میں ہے اور وہ اس مکہ کے قرب و جوار ہی میں ہے کیونکہ الحق للقریب ثم للبعید اس مفہوم کی تشریح بذریعہ حدیث حضرت ابن عباس نے فرما دی ہے بلکہ اُن کے قول کے مطابق تو روزِ قیامت کا پہلا نصف حصہ بھی دنیا سے متعلق ہے، کماسیاتی۔ ہاں اگر مسافر نصف سے زیادہ فاصلہ طے کر لے تو پھر اس کی منازل مدینہ کے قریب متصور ہوں گی۔

(۳) کیا ان کا تصرف موت کے بعد منقطع ہو جاتا ہے ؟

(۴) کیا کسی ولی کے متعلق لفظ سید کا اطلاق جائز ہے ؟ مثلاً یوں کہا جائے اے میرے سید احمد بدوی یا کسی اور ولی کے حق میں اسی طرح کے القاب استعمال کئے جاویں تو جائز ہے ؟

(۵) کیا ان کا توسل جائز ہے ؟

(۶) کیا اوتاد، نجبا، اور نقبا وغیر ہم کا وجود ثابت ہے ؟

(۷) مندرجہ بالا سات امور کے انکار کرنے والے پر کیا جرم اور کیا سزا وارد ہے؟

(۸) کیا ولی کے انتقال کے بعد اس کی ولایت کے باقی رہنے پر فتویٰ لگایا جا سکتا ہے ؟ اس خیال سے کہ شاید اس کا خاتمہ ایمان پر نہ ہوا ہو، کیا ایسے فتویٰ سے گریز کرنا چاہئے؟

(۹) کیا اولیاء کرام کی قبروں اور اُن کے آستان فیض نشان کو چومنا جائز ہے؟

(۱۰) کیا یہ بات ثابت ہو سکتی ہے کہ نبی کیلئے جو خرقِ عادت معجزہ ہے وہ ولی کیلئے کرامت ہے؟

(۱۱) اگر ایک شخص یہ قسم کھا لے کہ سیدی احمد بدوی اور کوئی ولی اﷲ کے دوستوں میں سے ہے تو کیا اس کی یہ قسم درست ہے یا کہ کفارہ دے گا؟

کیا مندرجہ بالا امور کیلئے کوئی دلیل ہے، مفصل طور پر جواب دے کر مستفید فرمائیے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کا گھر جنت میں بنائے۔

پس شیخ مشائخ الاسلام نے مندرجہ ذیل جواب دیا:

سب تعریفیں مالک الملک کیلئے ثابت ہیں جو کہ بھلائی کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔ اولیاء اﷲ کی کیا شان ہے، سبحان اﷲ وہ واقعی اﷲ کے دوست ہیں، اﷲ تعالیٰ کو جس طرح انہوں نے پہچانا کسی نے نہ پہچانا کیونکہ وہ ہمیشہ اس کی عبادت کرتے رہتے ہیں ،گناہوں سے بچتے رہتے ہیں، دنیا کی لذات اور شہوات میں کبھی بھی محو نہیں ہوتے، سطح ارض پر ہمیشہ موجود ہوتے ہیں، جیسا کہ حضور سرور کونین کی حدیث سے ثابت ہے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت تک میری امت سے ایسے ٹولے پیدا ہوتے رہیں گے جو کہ حق پر غالب رہیں گے اور جو ان کے فضائل آگے بیان ہوں گے وہ اس سے بھی زیادہ ہیں، ان کی کرامات ثابت ہیں اور ان کا تصرف موت کی وجہ سے منقطع نہیں ہو سکتا بلکہ باقی رہتا ہے۔ یہ کہنا بھی جائز ہے کہ میرے سردار حضرت احمد بدوی یا ایسے اور حضرات اﷲ کے دوست ہیں۔ نیز یہ قسم کے طور پر بھی کہنا جائز ہے کیونکہ ربع مسکون یعنی تمام دنیا میں ان کی شہرت ہوگئی اور ان کے ذکر خیر نے کئی کانوں کو مستفیض کر دیا ہے ،اﷲ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ان کا توسل جائز ہے نیز انبیاء ، مرسلین، اولیاء ، علماء و صالحین سے مصیبت کے وقت امداد طلب کرنا (بعد الموت) بھی جائز ہے کیونکہ انبیاء کے معجزات اور اولیاء کی کرامات موت کے بعد منقطع نہیں ہوسکتیں۔ انبیاء کی شان تو یہ ہے کہ وہ زندہ ہوتے ہیں ،اپنی قبروں میں نمازیں ادا کرتے ہیں اور حج بھی کرتے ہیں، اس پر بہت سی روایات وارد ہیں۔ پس ان سے فریاد رسی کرانا اور ان کا فریاد رس بننا معجزہ کے طور پر ہے ۔اور شہید بھی اﷲ کے اسی طرح زندہ ہیں۔ آنکھوں نے ظاہر باہر ان کو دیکھا ہے۔ اگر انبیاء نمازیں ادا کرتے یا حج کرتے ہیں تو شہداء کفار سے جہاد کرتے دیکھے گئے (بعد از شہادت) اب اولیاء اﷲ کا حال سُنئے۔ ان سے مصیبت کے وقت امداد چاہنا ان کی ایک کرامت کا ثبوت ہے کیونکہ محققین اس پر قائم ہیں کہ اولیاء اﷲ سے بارادہ یا بے ارادہ ایسے امور بطور خرقِ عادت پیدا ہوتے ہیں جن کی نسبت باری تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے۔ اس جواز پر دلیل یہ ہے کہ سب امور ممکن ہیں، ان کے واقع ہونے کے جواز سے استحالہ پیدا نہیں ہوتا تو جب محال نہیں تو ہر ایک چیز جو محال نہ ہو جائز الوقوع ہوتی ہے اور ان امور کے جائز الوقوع ہونے پر حضرت مریم علیہا السلام کے قصہ میں ان کے غیبی رزق کی دلیل ہے ۲؂ جو کہ قرآن حکیم میں مذکورہ ہے۔

دوسری دلیل حضرت ابو بکر صدیق صاور ان کے مہمانوں کا قصہ ہے جو کہ صحیح حدیث میں وارد ہے۔

تیسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر صنے دریائے نیل میں کچھ لکھ کر پھینکا تو وہ جاری ہوگیا۔

چوتھی دلیل حضرت عمر نے مقام نہاوند کی طرف لشکر بھیج کر مدینہ میں منبر پر بیٹھے ہوئے امیر جیش کو نہاوند میں دیکھا، لشکر اعدا کو بھی دیکھا کہ پہاڑ کے پیچھے تاک لگائے تیار بیٹھے ہیں، پھر اس خطرے کو بھانپ کر امیر جیش ساریہ کو بہ آواز بلند پکارا اور فرمایا اے ساریہ ! الجبل الجبل، پھر طرفہ یہ کہ ساریہ نے بھی حضرت عمر کی آواز کو سنا حالانکہ دونوں کے درمیان دو ماہ کی مسافت تھی۔

پانچویں دلیل حضرت خالد صنے زہر کو پی لیا اور کچھ ضرر نہ پہنچا، اس کے بعد صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین اور ما بعدہم اتنے حضرات سے اسقدر کرامات ثابت ہوئیں کہ ہر زمانہ میں ان کرامات کے مجموعے کا متواتر اور مسلسل ہونا اس قدر زیادہ رہا ہے کہ کسی کو انکار کی جرات ہی نہیں ہو سکتی۔

اکابرین آئمہ میں سے ایک امام سے یہ سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے اولیاء اﷲ کی کرامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ایک ولی کی یہ کرامت بھی ہو سکتی ہے کہ کسی چیز کو کہے ’’ تو ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے‘‘ کیا یہ بات درست ہے یا نہ اور جو اس سے انکار کرے اسکا عقیدہ کیا ہے، باطل ہے یا نہ اور جو کچھ اس ولی نے دعویٰ کیا ہے کیا وہ بذاتِ خود صحیح ہے یا باطل۔

پس اس کے جواب میں امام مذکورہ بالا نے فرمایا کہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ اﷲ تعالیٰ خرقِ عادت کے طور پر ولی کی کرامات اس کے ہاتھ پر خود ظاہر کرتا ہے اور جب یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جو چیز نبی کیلئے معجزہ بن سکتی ہے وہ ولی کیلئے کرامت بن سکتی ہے یعنی دونوں میں اتحاد ثابت ہے تو اب کوئی اشکال نہ رہا بلکہ کرامت کا رجوع اﷲ تعالیٰ کی قدرت کی طرف ثابت ہوگیا۔ پس جو کلمات ولی کے منہ سے صادر ہوئے وہ صحیح ہیں۔

٭ ۲؂ سیپارہ سوم سورہ آل عمران میں تنزیل اسطرح وارد ہے کلما دخل علیھا زکریا المحراب، و جد عندھا رزقاََ قال یامریم انٰی لک ھذا، قالت ھومن عند اﷲ(ال عمران37:3)

ہاں ایک بات ضرور یاد رکھنے کے قابل ہے ، اگر اس کا یہ خیال ہے کہ ولی مستقل طور پر ایسا کام کر سکتا ہے تو وہ شخص کافر ہے۔ ہمارے شیخ حضرت رملی فرماتے ہیں کہ کرامات کا انکار کرنا ناممکن ہے۔ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اولیاء کی کرامات کا ثبوت درحین حیات و بعد الممات دونوں حالتوں میں موجود ہے اور موت اس سلسلہ کرامات کو توڑ نہیں سکتی جو انکار کرے وہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں معرض عتاب میں ہے اور اﷲ پاک کی ناراضگی سے ا سکو ڈرنا چاہئے، اﷲ تعالیٰ اپنے قہر سے ہم کو بچا لے ، پھر حضرت علامہ شوبری رحمتہ اﷲ علیہ نے جن کا لقب شیخ المشائخ الاسلام ہے ، ابدال ، اقطاب ، نجبا، و نقباء وغیرہم کے وجود کا ثبوت دیا، جو صاحب شوق رکھتے ہیں وہ اس رسالہ کو ملاحظہ فرمائیں۔

اس کے بعد شیخ المشائخ حضرت علامہ شوبری نے فرمایا کہ ولی کی موت کے بعد اس کی ولایت منقطع نہیں ہو سکتی، جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے، ولی اﷲ کی تو بڑی شان ہے، ایک مسلمان ۳؂کے متعلق بھی یہ خیال نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس خیال کی طرف رجوع ہی نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی عقلمند کی یہ شان ہے کہ وہ ایسا گمان دل میں لا سکے ۔

اس کے بعد اولیاء اﷲ کی قبروں اور آستانوں کے چومنے کے بارے میں فرمایا کہ ان کے جواز کے برخلاف کوئی دلیل نہیں ہے۔ اگر کسی آستان فیض نشان کو تبرک کے طور پر چوم لیا جائے تو مکروہ بھی نہیں؍ علامہ رملی کا فتویٰ موجود ہے اور جس نے یہ قسم اٹھائی کہ حضرت سید احمد بدوی یا ان جیسا کوئی اور ولی اﷲ جو کہ ولایت میں مشہور ہو، اﷲ تعالیٰ کا دوست ہے تو وہ اپنی قسم میں سچا ہے ، حانث نہیں ہو تا کیونکہ اس نے ظاہر حال کو دیکھ کر قسم اٹھائی ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ اس کیلئے دلیل پیش کرو تو ہم یہ کہیں گے کہ یہ بات ظاہر ہے، اور دلیل کی محتاج نہیں ہے، اور دلیل طلب کرنے والا منکر اور ہٹ دھرم ہے۔ اسلئے اس کی طرف توجہ کرنا یا اس کے ساتھ ایسی بحث کرنا عبث ہے، آج کل تقدس کی بیماری ایسے لوگوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔ جو اپنے آپ کو اہل علم سمجھتے ہیں ،اﷲ تعالیٰ ہم کو نفس امارہ کے شر سے بچائے اور ہم اُسی سے پناہ

مانگتے ہیں ہم کو برے اعمال اور گمراہ کن افعال سے محفوظ رکھے ، نہ گناہ سے بچنے کی طاقت

۳؂ : سورۂ حشر ، اٹھائیسویں پارہ میں اس قول کی تائید اور تشریح موجود ہے۔ باری تعالیٰ فرماتا ہے والذین جاء و من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان (الحشر :۱۰)

رکھتے ہیں اور نہ نیکی کرنے کی توفیق رکھتے ہیں، محض اﷲ تعالیٰ کی توفیق کے محتاج ہیں، جو کہ بڑی شان والا اور اعلیٰ مرتبے والا ہے۔ اس جگہ علامہ شوبری کا کلام ختم ہو جاتا ہے۔

علامہ شہاب الدین احمد بن احمد شجاعی نے اپنے رسالہ موسوم بہ ’’ا ثبات الکرامات‘‘ میں بڑی تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر بحث کی ہے اور انہوں نے اس فرقہ کو جو اولیاء اﷲ کی کرامات بعد الممات سے انکاری ہے گمراہ کہا ہے، اور وہ ایسے انکار کرامت بعد الموت پر بہت تعجب ظاہر کرتے ہیں اور شیخ عبدالوہاب شعرانی نے اپنے طبقات میں ذکر کیا ہے کہ سید شمس الدین حنفی نے اپنی مرض موت میں فرمایا کہ جس کسی کو کوئی حاجت پیش آجائے وہ میری قبر کے پاس آکر حاجت طلب کرے تو میں اس کی حاجت کو پورا کردوں گا۔ یہ اپنے زمانہ کے قطب تھے اور فرماتے تھے میرے مرنے کے بعد مٹی میرے تصرف کیلئے باعث حجاب نہیں بن سکتی۔ اور ہر وہ آدمی جس کو تھوڑی سی مٹی اپنے دوستوں سے چھپا لے وہ آدمی نہیں ہے بعض فضلاء نے یہ فرمایا کہ انہوں نے جب مرض موت میں اپنے مرنے سے قبل یہ فرما دیا تو واقعی ایسا کر سکتے تھے۔ اسی طرح کتاب موسوم بہ’’ نفحات القرب والا تصال‘‘ میں مذکور ہے اور اس میں اس ذکر سے پہلے چند سطریں اور بھی لکھیں ۔

اب کرامات بعد الممات اور تصرف فی الحیات و بعد الممات کا منکر دو باتوں سے خالی نہیں ہے: یا تو اولیاء اﷲ کی کرامات کی تصدیق کرے گا یا تکذیب۔ اگر وہ تکذیب کرے تو اس کے ساتھ بحث کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ ایسی چیز کو جھٹلاتا ہے جس کو اہل سنت و الجماعت نے بین دلائل سے ثابت کر دیا ہے اور اگر وہ تصدیق کرتا ہے تو موت کے بعد کی کرامت اور دونوں قسموں کا تصرف یعنی جو حین حیات میں اور مرنے کے بعد ثابت ہو، یہ سب کرامات کے ضمن میں ہیں۔

حضرت علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ معتزلہ کرامات کا انکار کر دیں تو اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ وہ اس سے زیادہ فساد کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے تو احادیث متواترہ کا بھی انکار کیا ہے اور قرآنی نصوص کے بھی منکر ہیں۔ منکر و نکیر کے سوال اور عذابِ قبر سے انکار کرتے ہیں۔ حوض اور میزان اور ایسے اور امور کی بھی تکذیب کرتے ہیں انہوں نے اپنے فاسد عقول کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ پر افتراء باندھا اور اس کی آیات و اسماء و صفات کی تکذیب کر دی جو چیز ان کے فاسد اور باطل مقدر کے مطابق نہ اتری اس کو ٹھکرا دیا۔ اگر اس میں قرآن حکیم سنت اور اجماع کی تکذیب بھی ہو جائے تو وہ پرواہ نہیں کرتے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا غضب ان پر مسلط ہے اور ان کے قبائح اور فاسد عقائد ان کو گھیر چکے ہیں۔ تعجب تو اس قوم پر ہے جو اپنے آپ کو اہل سنت و الجماعت کہتی ہے اور اس کے باوجود ایسی باتوں کے انکار میں مبالغہ کرتی ہے۔ اس انکار سے اس قوم کے افراد اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوگئے، انہوں نے اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق بنا دیا اور ایک قسم کا وبال اور نقصان ان پر واجب ہو گیا۔ اُنہیں میں سے بہت قسموں کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ بعض تو ان میں ایسے ہیں کہ وہ مشائخ صوفیہ کرام اور ان کے تابعین کا انکار کرتے ہیں اور بعض ان میں ایسے لوگ ہیں جو مجمل طور پر ان پر اعتماد رکھتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ صاحب کرامات ہوتے ہیں لیکن جب ان میں سے کسی ایک شخص کی مثال پیش کی جاتی ہے یا اس کی کرامت کو دیکھتے ہیں تو انکار کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے ان کے دل میں ایسا خیال پیدا کر دیا اور وہ اس کے دھوکہ میں اور تلبیس میں آگئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو شیطان نے اپنی تلبیس میں گھیر لیا ہے اور اسی کو ہٹ دھرمی اور نعمت الٰہی سے محروم ہو جانا کہتے ہیں، اور ’’روض الریاحین‘‘ میں مذکور ہے کہ کرامات کے ضمن میں لوگوں کی بہت سی قسمیں ہوگئی ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو اس کا مطلق انکار کرتے ہیں اور یہ مذہب بہت مشہور ہے ۔ یہ لوگ ہدایت اور پاکیزگی سے منہ پھیرنے والے ہیں اور بعض ان میں سے ایسے لوگ ہیں جو اپنے زمانے کے اولیاء کے ماسوا پہلے زمانہ کے اولیاء کی کرامات کی تصدیق کرتے ہیں اور وہ بنی اسرائیل کے مانند ہیں جنہوں نے حضرت موسیٰ کی تصدیق کی حالانکہ ان کو نہیں دیکھا تھا۔ اور حضرت خاتم النبیینکی تکذیب کی حالانکہ ان کو دیکھ بھی لیا تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ ان کی شان تمام انبیاء سے ارفع ہے۔ اور تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو کہ اولیاء اﷲ کی تصدیق تو کرتے ہیں لیکن ایک خاص مقررہ ولی کی تصدیق نہیں کرتے اور یہ لوگ اولیاء اﷲ کی امداد سے محروم ہو جاتے ہیں کیونکہ جو شخص ایک خاص ہستی کو تسلیم نہیں کرتا وہ اس سے ہرگز اور کبھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اس جگہ پر ’’روض الریاحین‘‘ کا کلام ختم ہوا۔

حضرت علامہ شہاب الدین اس کلام کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ آج کل دیارِ روم میں ایک ٹولہ پیدا ہوا ہے جو کہ زادلیہ کے نام سے مشہور ہے۔ وہ اولیاء کی کرامت کو اس وقت مانتے ہیں جب تک وہ زندہ ہوں اور ان کی وفات کے بعد ان کی کرامات کا انکار کر دیتے ہیں اور ان کے تصرف کا کلیتہً انکار کرتے ہیں۔ یعنی یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اولیاء اﷲ کا تصرف نہ زندگی میں ثابت ہے اور نہ مرنے کے بعد اور بلا مبالغہ یہ لوگ معتزلہ کی طرح ہیں اور انکار میں ان کے مساوی ہیں۔ پس یہ لوگ ہلاکت کی طرف جا رہے ہیں۔ حضرت علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ تصوف کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ایسے لوگ ضرور سزا کے مستوجب ہونگے کیونکہ ہم نے اولیاء اﷲ کی کرامات سے بہت سے عجائبات دیکھے ہیں اور یہ عجائبات ان کی زندگی کے ساتھ اور زمانہ بعد الموت کے ساتھ ایک جیسا تعلق رکھتے ہیں۔ ان عجائبات کا مشاہدہ منکرین کیلئے ہلاکت کو واجب قرار دیتا ہے۔ اب اس کے بعد اولیاء اﷲ اور مقربین باری تعالیٰ کے ساتھ فاسد اعتقاد رکھنے والوں اور گمراہوں کے سوا کوئی اور شخص انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اﷲ ہم کو ان اولیاء اﷲ کے وجود سے نفع بخشے ۔اس جگہ علامہ شہاب الدین کا کلام ختم ہوتا ہے۔

اور علامہ ثانی سعد الدین تفتازانی اپنی کتاب ’’شرح مقاصد‘‘ میں اس ضمن میں چند سطور لکھ کر آخر میں یوں رقم طراز ہیں:

’’ الغرض اولیاء اﷲ کی کرامات کا ظاہر ہونا ایسا ہے کہ جیسا کہ انبیاء سے معجزات کا صادر ہونا اور اگر اہل بدعت اس کا انکار کر دیں تو کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ وہ خود تو اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ کرامات کا اطلاق ان پر ہو، اور نہ انہوں نے ایسی باتیں اپنے بڑوں سے کبھی سنی ہیں، خواہ وہ عبادت میں کتنی ہی کوشش کریں اور کتنا ہی برائیوں سے بچیں پس کرامات کا صدور اولیاء اﷲ سے ہی ہوتا ہے اور اہل بدعت اس بات سے ناواقف ہیں کہ کرامات کا صدور عقیدت کی صفائی ،دل کی پاکیزگی اور طریقت کی پیروی پر مبنی ہے۔ پس یہ لوگ اپنے گوشتوں کو کھاتے ہیں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ تعجب تو اہل سنت و الجماعت کے بعض فقہا کے قول پر ہوتا ہے جن کے سامنے جب یہ ذکر کیا گیا کہ حضرت ابراہیم بن ادہم کو ایک ہی وقت میں ترویحہ کے دن بصرہ اور مکہ مکرمہ میں دیکھا گیا تو انہوں نے یہ فتویٰ دے دیا کہ جو کوئی اس کے جواز کا قائل ہو وہ کافر ہے ۔اس کے برعکس امام نسفی علیہ الرحمہ نے کیسا ہی منصفانہ فتویٰ دیا ہے جب کہ ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ کعبہ اولیاء اﷲ میں سے کسی ایک ہستی کا طواف کرے تو انہوں نے فرمایا کہ اہلسنّت و الجماعت کے نزدیک اولیاء اﷲ کیلئے خرق عادت کرامت کے طور پر ثابت ہے اور حضرت امام یافعی نے فرمایا کہ ہم کو معلوم ہے کہ کعبہ اپنی جگہ پر قائم ہے اور اس سے جدا نہیں ہوتا لیکن خرقِ عادت وہی ہے جو عقل میں نہ آسکے۔ اور حضرت امام سبکی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میں منکر کرامات پر ہرگز تعجب نہیں کرتا ہوں لیکن جب استاذ ابو اسحاق اسفرائینی کا انکار یاد آتا ہے تو میرا تعجب بڑھ جاتا ہے چونکہ وہ اہل سنت و الجماعت کے اکابر علماء میں سے ہیں اسلئے جس انکار کی نسبت ان کی طرف کی گئی ہے وہ جھوٹ ہے اور جو کچھ ان کے متعلق ذکر کیا گیا ہے وہ کسی اور شخص کے متعلق ہے جو کہ اپنی کتابوں میں یہ لکھتا ہے کہ جو چیز بطور خرقِ عادت نبی کیلئے معجزہ بن سکتی ہے وہ ولی کیلئے کرامت نہیں بن سکتی ۔کرامت خرق عادت نہیں بن سکتی وہ تو زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ دعا مانگی، قبول ہوگئی ، بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں پانی چاہا، مل گیا، کسی تنگ وادی میں دشمن کی فوج کو شکست دیدی، یا ایسے اور کام سر زد ہوں اور بس امام حلیمی نے اس نظریہ کرامت پر تنقید کی اور استاذ قشیری نے بھی ان جملوں پر تنقید کی اور کہا کہ کرامت صرف اس پر ہی ختم نہیں ہوتی کہ بغیر باپ کے بیٹا پیدا ہو جائے یا پتھر کو تبدیل کر کے چوپایہ بنا دیا جائے بلکہ کرامت کا مقام اس سے بھی بڑھ کر ہے۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ کرامات کے بارے میں یہ مذہب سب سے زیادہ انصاف پر مبنی ہے۔ علامہ تاج الدین سبکی نے اپنی کتاب ’’جمع الجوامع‘‘ میں علامہ قشیری کے اس مقالہ کی تشریح کی ہے اور اس مقصد کی طرف رجوع کیا ہے۔ صرف زر کشی نے اپنی رائے اس طرح دی ہے کہ علامہ قشیری نے جو کچھ لکھا ہے وہ ضعیف مذہب ہے لیکن جمہور اس کے خلاف ہے اور خود معترض کا بیٹا ابو انصر اس کے خلاف ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب ’’المرشد‘‘ میں بیان دیا ہے اور امام الحرمین نے اپنی تصنیف ’’ارشاد‘‘ میں یہ ذکر کیا ہے اور حضرت امام نووی نے شرح مسلم میں باب البر والصلہ میں اس طرح لکھا ہے کہ مختلف قسم کی کرامات بطورِ خرقِ عادت اولیاء اﷲ سے ظاہر ہو سکتی ہیں اور ان کا جواز ثابت ہے اور جس نے کرامات کے امتناع کے بارے میں کچھ کہا یا یہ دعویٰ کیا کہ وہ صرف مستجاب الدعوات ہونا یا اور اس قسم کی چند معمولی باتیں ہیں، اس نے غلط کہا اور مشاہدہ اور محسوسات کا انکار کیا حالانکہ بعض کرامات تقلیب الاعیان کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جس سے قلب ماہیت ثابت ہوتی ہے۔ محقق تفتازانی نے شرح مقاصد میں کچھ ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ امام الحرمین نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک مختار مذہب یہ ہے کہ تمام خوارق عادات کرامات بن سکتے ہیں اور معجزات سے ان کا فرق اس طرح کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق نبوت کے دعویٰ کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ کرامات ولی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ ہاں بعض معجزات کے بارے میں بھی نص وارد ہو چکی ہے کہ کوئی شخص اس طرح کی خرقِ عادت نہیں دکھا سکتا مثلاً معجزۂ قرآن اور یہ بات ہمارے نظریہ کے منافی نہیں کیونکہ جو چیز نبی کیلئے معجزہ بنتی ہے وہ ولی کیلئے کرامت ہے۔ اور قرآن کا معجزہ ایک خاص معجزہ ہے۔ مصنففرماتے ہیں کہ اسی طرح اسرا اور بیداری میں معراج جو کہ روح اور جسم دونوں کے ساتھ ہوا تھا ، یہ خاص معجزات ہیں۔ اور پانچ اشیاء کا علم جو کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے لئے مختص کیا ہے اس کے بارے میں یہ فقیر کہتا ہے کہ اس کے متعلق ایک تحقیق ہے اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ ایک ولی اﷲ وہ پانچ اشیاء اس طرح جانتا ہے کہ اس کو اﷲ تعالیٰ نے آگاہ کر دیا ہے اور اُسے اطلاع بخشی ہے تو اس میں کیا حرج ہے اور کونسی چیز اس نظریہ کو منع کرنے والی ہے اور اس طرح اس پر مستقل طور پر عالم الغیب ہونے کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں کوئی بات ایسی نہیں پائی جاتی جو اس کے علم کو مستقل طور پر ثابت کرنے کی قوت رکھے اور ایسے ولی اﷲ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایسا علم عطا ہو سکتا ہے جس میں اس کے فرشتے بھی شریک ہوں ۔اب جب فرشتے بھی اس میں شریک ہو سکتے ہیں تو یہ ایک وجہ سے محال و ناممکن نہیں ہو سکتا پھر اس جگہ میں چند ایسی حکایات درج کرتا ہوں جو کہ ایسی کرامات سے تعلق رکھتی ہیں جن سے قلب ماہیت ثابت ہوتی ہے اور وہ بھی ایسی ہیں جو کہ نہایت معتبر ہیں اور ان کا بیان اس لحاظ سے بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بعض اشخاص کے ذہن میں یہ چیز مشکل سے سمجھ میں آتی ہے اور یہ امر اس بیان سے واضح ہو جائے گا۔

حکایت نمبر ۱: ہمارے شیخ یافعیحضرت سہل صکے متعلق حکایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ یعقوب بن لیث امیر خراسان کو ایک بیماری لاحق حال ہوئی۔ تمام طبیب اس کا علاج کرنے سے قاصر و عاجز ہوگئے۔ کسی نے اس یعقوب بن لیث کو کہہ دیا کہ آپ کی ولایت میں ایک خدا کا نیک بندہ موجود ہے جن کا اسم گرامی سہل بن عبداﷲ ہے، اور اگر آپ ان کو اپنے پاس بلائیں تو آپ کیلئے دعا کریں گے، مجھے امید واثق ہے کہ آپ کو صحت کامل عطا ہوگی۔ پس امیر خراساں نے ان کو طلب کر کے کہا میرے لئے دعا کرو۔ حضرت سہل صنے فرمایا میری دعا تیرے حق میں کس طرح قبول ہو سکتی ہے حالانکہ تو ہمیشہ ظلم کرتا رہتا ہے ۔ یہ سن کر یعقوب (امیر خراساں) نے توبہ کی نیت کی، ظلم کو ترک کرنے کا عہد کیا، رعیت کے ساتھ حسن سلوک کا عہد کیا، اور قید خانے سے تمام مظلوموں کو آزاد کر دیا۔ پھر حضرت سہل صنے ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگی: اے منعم حقیقی جس طرح تو نے اس کو گناہوں کی وجہ سے ذلت دکھائی تھی، اب اس کو طاعت کی وجہ سے عزت دکھا اور اس کی مشکل دور کر۔ پس وہ اسی وقت شفا یاب ہوا اور اس طرح بشاش نظر آتا تھا جیسا کہ کسی کے غموں کا عقدہ کھل جاتا ہے۔ پھر حضرت سہل صکی خدمت میں بہت سا مال بطورِ نذرانہ پیش کیا لیکن انہوں نے قبول نہ کیا۔ جب آپ واپس آئے تو راستہ میں کسی نے عرض کیا کہ کاش آپ وہ پیش کردہ مال لے کر فقیروں میں تقسیم کر دیتے۔ پھر آپ نے اس میدان کے کنکروں کی طرف نظر کی تو وہ تمام جواہرات بن گئے پھر فرمایا جو مال تم چاہتے تھے ، تمہارے سامنے موجود ہے جتنا چاہو لے لو۔ پھر فرمایا جس کو اﷲ تعالیٰ اپنی بارگاہ سے ایسے خزانے بخش دے تو وہ امیر خراساں یعقوب بن لیث کا محتاج کب ہو سکتا ہے۔

آنانکہ خاک رابنظر کیمیا کنند

=سگ را ولی کنند مگس را ہما کنند

Aآیا بود کہ گوشہ چشمے بما کنند

(مترجم)

اس حکایت سے تقلیب الاعیان کی کرامت ایک ولی کے ہاتھ سے ثابت ہوئی۔

حکایت نمبر۲: کرامات جو کہ ’’ قلب الاعیان‘‘ کے عنوان کے تحت صادر ہوتی ہے،اس کی دوسری مثال مندرجہ ذیل ہے:

حضرت شیخ عیسیٰ ہتار کے متعلق روایت ہے (ہا کے نیچے زیر ہے اور تا مخفف پڑھو) کہ ایک دن وہ ایک بد کار عورت کے پاس سے گزرے اور کہنے لگے کہ آج عشاء کے بعد میں تیرے پاس آؤں گا۔ وہ عورت یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور زینت و سنگار کر کے بیٹھ گئی۔ جب عشاء کی نماز ہو گئی تو حضور اس کے گھر تشریف لے آئے تو اس کے پاس ہی دو رکعت نماز نفل ادا کی ۔جب واپس ہونے لگے تو اس عورت نے کہا میں خیال کرتی ہوں کہ آپ واپس جا رہے ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ مقصود حاصل ہوگیا، اب میں جاتا ہوں ۔کچھ دیر کے بعد ایک آنے والا ایسا آیا کہ اس بدکار عورت کو دھتکارنے لگا اور اس کو اس خبیث کام سے منع کرنے میں کامیاب ہوا۔ وہ عورت شیخ کے پیچھے چلی گئی اور اس کے ہاتھ پر توبہ کر کے پاک دامن بن گئی۔ پھر حضرت شیخ عیسیٰ ہتار نے اس کا نکاح ایک غریب اور مسکین شخص کے ساتھ کر دیا اور لوگوں کو کہا کہ اس کے ولیمہ پر صرف آٹا لے کر اس کو گھی میں بھون لو، اور لوگوں کو کھلاؤ ، بازار سے سالن مت خریدو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا ، تمام فقیر و مساکین بھی آگئے، شیخ نے کہا ذرا ٹھہر جاؤ میں کسی شخص کا انتظار کر رہا ہوں کہ وہ آجائے اور جو چیز میں چاہتا ہوں وہ لے آئے۔ اب اس عورت کی ہمسائیگی میں ایک امیر شخص تھا جو کہ اس کا دوست تھا، اس کو خبر ہوئی تو اس نے بطور تمسخر شراب کے دو برتن شراب سے بھر کر شیخ کے پاس بھیج دیئے اور یہ پیغام بھیجا کہ شیخ کو کہہ دینا کہ جو کچھ میں نے سنا اس سے بہت خوش ہوا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پاس سالن نہیں، یہ دو مٹکے لے لو ان میں سالن ہے ۔جب یہ قاصد شیخ کے پاس دو مٹکوں کے ساتھ پہنچا تو شیخ نے فرمایا تو نے تو بڑی دیر لگا دی ہے۔ پھر حضرت شیخ عیسیٰ ہتار نے پہلے ایک مٹکے کو پکڑا اس کو انڈیلا ،اس سے بجائے شراب کے شہد خالص نکلا۔ اسی طرح دوسرے کو الٹایا تو اس سے عربی طعام نکلا۔ پھر قاصد کو کہا بیٹھو اور تم بھی کھاؤ۔

قاصد کا بیان ہے کہ میں نے اُس شہد جیسا ذائقہ کسی شہد میں نہ پایا اور اس عربی طعام جیسا رنگ کسی کھانے میں نہیں دیکھا، پھر ان کی خوشبو سے میرا دماغ معطر ہوا۔ یہ قاصد واپس چلا گیا، اپنے امیر کو تمام قصہ سنایا تو امیر نے بھی آکر یہ طعام کھایا۔ اس کو اس کرامت سے بہت تعجب ہوا اور اس نے فوراً شیخ کے ہاتھ پر بیعت کر کے توبہ کر لی ۔اس کرامت سے بھی قلب اعیان ثابت ہوا۔

حکایت نمبر ۳:یہ حکایت ایک شخص نے یوں بیان کی ہے کہ ایک دفعہ ایک چٹیل اور وسیع بیابان میں پھر رہا تھا کہ اچانک میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ کانٹے دار درخت سے تازہ خرما کھا رہا ہے۔ میں نے اسے سلام کیا تو میرے سلام کا جواب دے کر کہنے لگا آگے آؤ اور تم بھی کھاؤ ،جب میں نے اس کانٹے دار درخت کی کھجوروں پر ہاتھ ڈالا تو وہ اپنی اصلی حالت میں آگئیں یعنی اس طرح کانٹے بن گئیں۔ یہ آدمی مسکرایا اور کہنے لگا اگر تو نے زندگی میں کسی بھوکے کو پوشیدہ طور پر خرما کھلایا ہوتاتو آج میں تم کو ظاہر طور پر اس وسیع بیابان میں تازہ اور تر خرما کھلاتا۔

یہ حکایات مندرجہ بالا امام الحافظ العلامہ الدمیری الشافعی نے اپنی مشہور تصنیف ’’حیات الحیوان‘‘ میں تحریر کی ہیں اور وہ فرماتے ہیں کہ اولیاء اﷲ کی ایسی کرامات بے شمار ہیں اور میں نے بے پایاں اور گہرے سمندر سے صرف ایک قطرہ لیا ہے اور حاصل کلام یہ ہے کہ اولیاء اﷲ کے آگے دنیا ایک بڑھیا کی شکل میں پیش ہوتی ہے اور ان کی خدمت کرتی ہے جیسا کہ قریب ہے کہ اسی باب میں ان شاء اﷲ تعالیٰ یہ بیان بھی جلدی آجائیگا اور ان تمام کرامات کی علت غائی جس پر ایمان لانا واجب ہے یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے پھر جب وہ ہر چیز پر قادر ہے تو خرقِ عادت جو کہ اس کی طرف سے ہے کس طرح محال عقلی ہو سکتی ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی تصنیف ’’شرح مشکواۃ المصابیح‘‘ میں زیارت قبور کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ماسواء (روضہ اطہر) باقی اولیاء اﷲ کی قبور پر جا کر مدد طلب کرنا اکثر فقہاء کے نزدیک درست نہیں کیونکہ فقہاء کہتے ہیں کہ زیارتِ قبور سے صرف یہ مراد ہے کہ مردوں کے لئے دعا کرو اور استغفار پڑھو۔ قرآن مجید کی تلاوت اور دعا سے ایصال ثواب کر کے ان کو فائدہ پہنچاؤ فقط لیکن صوفیا عظام کے تمام مشائخ نے استمداد باہل قبور کو درست ثابت کیا ہے۔ اور فقہا نے بھی ثابت کیا ہے اور محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اس امر کی حلاوت اور چاشنی سے اہل کشف اور اولیاء اﷲ جو کہ اہل کمال ہیں وہی واقف ہیں، ان کو اس میں کسی قسم کا شک نہیں کہ یہ استمداد مبنی بر فوائد عظیمہ ہے ۴؂کیونکہ ان کو مقدس ارواح سے فیضان ہوا ہے اور جن کو یہ فیض حاصل ہوا ہے ان کا ایک فرقہ مشہور ہے جس کا نام اویسیہ ہے۔

۴؂ :کتاب زبدۃ المقامات میں مصنف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جن کو امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی کی دو سال کی صحبت نصیب تھی، حضرت مجدد الف ثانی استمداد قبور اہل اﷲ کے قائل تھے نیز شاہ ولی اﷲ صاحب نے اپنی تصنیف ’’انتباہ فی سلاسل اولیاء اﷲ‘‘ میں کشف قبور کا طریقہ بھی تحریر فرمایا ہے جس سے ثابت ہوا کہ وہ بھی استمداد قبور اولیاء اﷲ کے قائل تھے:

مظہر اوصاف حق ہیں اولیاء

5 ان کی ہے امداد امدادِ خدا

(مترجم)

(۱) پھر فقیہ شافعی فرماتے ہیں کہ موسیٰ کاظم کی قبر اجابت دعا کیلئے تریاق ہے۔

(۲) حجۃ الاسلام محمد بن محمد الغزالی فرماتے ہیں کہ جس ولی اﷲ سے زندگی میں مدد لی جاتی تھی اس کے مرنے کے بعد بھی اس سے مدد لی جا سکتی ہے۔

(۳) مشائخ عظام میں سے ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے چار مشائخ کو دیکھا کہ وہ اپنی قبروں میں تصرف فرما رہے ہیں اور وہ ایسا تصرف ہے جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے اور زیادہ کثرت سے ہے۔ ایک تو معروف کرخی، دوم حضرت سید الشیخ عبدالقادر جیلانیہیں، اور دو اس طرح کے اور حضرات ہیں

(۴) سید احمد بن رادق (جنہوں نے کتاب ’’فصوص الحکم‘‘ کی شرع لکھی ہے جو کہ شیخ محی الدین ابن عربی کی تصنیف ہے اور وہ دیار مغرب میں سب سے بڑے فقہاء اور عالم صوفیاء کے گروہ میں سے گنے جاتے ہیں) فرماتے ہیں کہ ایک دن شیخ ابو العباس خضری نے پوچھا کہ کیا زندہ کی مدد زیادہ قوی ہے یا مردہ کی۔ تو میں نے یہ کہا کہ حضور لوگ تو یہی کہتے ہیں کہ زندہ کی مدد زیادہ قوی ہے لیکن میں تو یہ کہتا ہوں کہ مردہ کی مدد زیادہ طاقتور ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ پیوست ہیں، اس طائفہ پاک کی کرامات بیشمار ہیں اور بہت اہل سنت و الجماعت کی کتابوں میں نقل کی جا چکی ہیں نیز حدیث و قرآن میں اور نہ ہی سلف کے اقوال سے ان کرامات کی تردید ثابت ہو سکتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات معلوم ہوتی ہے جو کراماتِ اولیاء کی نفی کرے۔

یہ کس طرح ہو سکتا ہے کیونکہ شرعِ محمدی میں روح باقی رہتی ہے اور اس کو علم و شعور دیا گیا ہے اور اپنے زائرین کو جانتی اور پہچانتی ہے۔ خاص کر کاملین کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُن کو قرب اور خاص حضوری حاصل ہے، مرنے کے بعد یہ قرب اور حضوری بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور وہ کرامات پر ثابت قدم رہتے ہیں کیونکہ اب ان کی حالت دنیا کی حالت سے زیادہ فیض رساں ہے۔

متصرف حقیقی تو باری تعالیٰ ہی ہے اور ہر ایک چیز اس کی قدرت سے صادر ہوتی ہے لیکن اولیاء اﷲ زندگی میں اور موت کے بعد دونوں حالتوں میں اس کے جلال میں فنا نہیں، اس میں پھر کیا تعجب ہے کہ ایک شخص کو اﷲ تعالیٰ سے ایک ولی کی وساطت اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس کے قرب کی وجہ سے ایک چیز اس ولی کی وفات کے بعد اس طرح دی گئی جس طرح کہ اسی ولی کی زندگی کے وقت اس کو اس کی وساطت سے ملی تو اس میں کوئی بُعد عقلی نہیں ہے کیونکہ دونوں حالتوں میں یہ کام اور یہ تصرف اﷲ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہو رہا ہے۔

ان دونوں حالتوں میں اس فعل اور تصرف کے صدور کی نوعیت میں کوئی فرق نہیں اور نہ ہی کوئی شرعی دلیل ایسا فرق ثابت کر سکتی ہے۔

ازروئے علم کلام و اصولِ فقہ

کثیر من الفقہاء کے کثیر کے لفظ پر عالمانہ تنقیداور

شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی عبارت کے متعلق ایک تنبیہ

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے اس قول سے کہ بہت سے فقہاء نے اہل قبور سے مدد مانگنا درست نہیں سمجھا، کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہل قبور سے مدد مانگنے والوں کی تعداد تھوڑی ہے۔ اکثر نا واقف حضرات کثیر کے مقابلہ میں قلیل لاتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے، کثرت مقابل کا لفظ وحدت ہے اور یہ وہ کثیر کا لفظ ہے جو واحد کے مقابل آتا ہے۔ ثبوت کیلئے حضرت علامہ تفتازانی کی تشریح پیش کی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی تصنیف ’’مختصر المعانی‘‘ میں صاحب تخلیص کے اس قول کی تصریح کی ہے المجاز العقلی فی القرآن کثیر یعنی مجاز عقلی کی مثالیں قرآن حکیم میں کثیر ہیں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ مثالیں فی نفسہٖ بہت ہیں اور اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ اس کے مقابل کی صفت جس کو حقیقۃُالعقلیہ کہتے ہیں وہ قلیل ہوگی۔

اصول فقہ کی کتاب تلویح میں اس کثیر کے لفظ کی تشریح بھی اس طرح کی ہے کہ مشترک وہ ہے جو کثیر کا معنی دیتا ہے اور کثیر کیلئے وضع کیا گیا ہے، تو اب کثرت سے وہ کثرت مراد ہے جو کہ قلت کے مقابلہ میں نہ ہو بلکہ وحدت کے مقابلہ میں ہو۔ اگر ہم یہ کہہ دیں کہ ہمارے علاقہ میں حاجی بہت ہیں (کثیر ہیں) اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جنہوں نے حج نہیں کیا وہ ان کے مقابلہ میں تھوڑے ہیں بلکہ وہ تو بے شمار ہوں گے۔ اسی طرح شیخ مذکور کے قول میں جو کثرت کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ بیشمار اور بہت فقہاء نے انکار کیا، دیکھئے آگے چل کر شیخ موصوف خود باب الاسراء میں اسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ میری مراد کثیر سے بعض فقہاء مراد ہے جو استمداد باہل القبور کا انکار کرتے ہیں۔ اب یہ بعض جو انکار کرتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ کیا آپ استمداد باہل قبور سے اس واسطہ انکار کرتے ہیں کہ وہ سنتے نہیں، اور ان کو اپنے زائرین کا علم اور شعور نہیں ہے تو یہ نظریہ باطل ہے جیسا کہ پیچھے ثابت ہو چکا ہے اور اگر وہ اس واسطہ انکار کرتے ہیں کہ اولیاء اﷲ کو ممات کے بعد قدرت حاصل نہیں ہوتی اور تصرف نہیں کر سکتے بلکہ اب وہ تصرف کرنے سے رک گئے کیونکہ اُن پر موت اور اس کی تکالیف وارد ہو گئی ہیں مثلاً سوال منکر و نکیر، تکلیف نزع وغیرہ تو اب وہ تصرف سے رک گئے ہیں تو یہ کلیہ غلط ہے خاص کر اﷲ تعالیٰ کے متقی بندوں کے بارے میں ایسا خیال کرنا جو کہ اس کے دوست ہیں بلکہ اب تو یہ بھی ممکن ہے کہ انکے ارواح کو برزخ میں اعلیٰ رتبہ اور ارفع مقام و منزلت مل جائے اور دعا و شفاعت پر ان کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے قدرت مل جائے اور جس طرح قیامت کے دن ان کو شفاعت کا حق ملے گا اسی طرح برزخ میں ان کے ارواح ممکن ہیں کہ اﷲ تعالیٰ سے قدرت حاصل کر کے اپنے زائرین اور متوسلین کی حاجات کیلئے دعا کریں پھر اگر اس کی نفی کرتے ہو تو دلیل کونسی ہے۔

علامہ بیضاوی نے والنازعات غرقًا سے لے کر فالمدبرات امرًا تک کی آیت کی عجیب لطیف تشریح کی ہے، فرماتے ہیں (نازعات) نفوسِ فاضلہ کے صفات سے متصف ہیں کیونکہ وہ بدنوں میں ڈوبی ہوئی جانوں کو نکالتے ہیں اور یہ بہت مشکل ہے بلکہ نازعات فی الناقوس سے بھی زیادہ مشکل ہے پھر اب یہ ارواح یا ملائکہ آسمان پر تیرتے ہیں اور نہایت پاکیزہ اور مقدس احاطوں کی طرف سبقت لے جاتے ہیں ،یہ نزع کے بعد کے واقعات ہیں۔ پھر وہ عالم الملکوت اور حظائر قدس میں تیرنے کی وجہ سے اتنا شرف اور اتنی طاقت حاصل کر لیتے ہیں کہ مدبّرات کا خطاب ان کو مل جاتا ہے اور مدبرات امراً کا معنی یہ ہے کہ وہ کاموں کی تدبیر کرتے ہیں پھر اس تفسیر کو اس قدر وضاحت اور تفصیل سے بیان کیا ہے کہ آخر میں یہ فرما دیا کہ اگر کوئی یہ خیال کرے کہ اولیاء اﷲ تعلقاتِ دنیا چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے تو پہلی حالت اور اپنی کرامات سے بھی علیحدہ ہوگئے تو پہلے اس کیلئے دلیل کا پیش کرنا ضروری ہے ،پھر آئے ۔ان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ صدمات اور تکالیف جو ان کے مرنے کے بعد پیش آئیں مثلاً سوال منکر و نکیر وغیرہ انہوں نے ان کو تصرف بعد از ممات سے باز رکھا تو یہ تو کلیہ نہیں بن سکتا کیونکہ اس نظریہ کیلئے ہمیشگی اور استمرار ثابت نہیں اور قیامت تک ہمیشہ کیلئے یہ صدمات اور یہ تکالیف ان پر وارد نہیں ہو سکتیں تو مدعا یہ نکلا کہ ایسا نظریہ کلیہ نہیں بن سکتا اور مدد طلب کرنے کا فائدہ عام ہے بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اولیاء اﷲ میں سے بعض حضرات عالم قدس میں جذب ہو جانا قبول کریں اور اﷲ جل جلالہ کی ذات میں اس طرح فنا ہو جائیں کہ ان کو خود اس کا شعور نہ ہو اور پھر وہ دنیا کے عالم کی طرف توجہ فرماویں۔ اس میں تصرف استعمال کر کے امورِ دنیا کی تدبیر بنائیں جیسا کہ دنیا میں بعض مجذوب اس کام کیلئے مامور ہیں اور اُن کے حال کا مشاہدہ کرنے سے صاف پتہ چل جاتا ہے اور بعض مشائخ بھی ایسے ہیں کہ وہ اس کام پر متمکن ہیں لیکن کلی طور پر ان امور کا انکار کر دینا اور مطلق نفی کر دینا ہرگز ہرگز اس کیلئے کوئی دلیل نہیں بلکہ اس کے خلاف دلائل قائم کئے جا سکتے ہیں اور اس کلام کی اتنی مفصل اور طویل تشریح بیضاوی نے کی ہے کہ ہر ایک وہاں سے مطالعہ کر کے سیر ہو سکتا ہے اور اس جگہ اس قدر لکھ دینا کافی ہے۔

ہمارے نظریہ پر منطقی اور عقلی دلائل

اب ہم چند عقلی دلائل پیش کرتے ہیں تا کہ طالب یہ سمجھ جائے کہ مرنے کے بعد اولیاء اﷲ کیلئے خرقِ عادت بطورِ کرامت ایسے افعال کیلئے جن کو دیکھ کر عقل حیران رہ جائے ثابت ہے جیسا کہ اوپر نقلی طور پر ثابت کر چکے ہیں۔ اب عقلی طور پر ہم علامہ شہاب الدین کا قول پیش کرتے ہیں جو انہوں نے کتاب ’’نفخات القرب والاتصال‘‘ میں درج کیا ہے۔

سو علامہ شہاب الدین صاحب فرماتے ہیں کہ اگر تو یہ مجھ سے سوال کرے کہ مرنے کے بعد کرامت کے واقع ہونے کی کیا دلیل ہے تو میں یہ کہو ں گا کہ امر ممکن ہے اور ہر ایک ممکن جائز الوقوع ہے یعنی واقع ہو سکتا ہے، تبھی تو ممکن بنا۔ پس کرامت بھی مرنے کے بعد واقع ہو سکتی ہے یعنی جائز الوقوع ہے۔ اب اگر ہم کرامت بعد موت کو جائز الوقوع قرار نہ دیں تو دو ممکنات میں سے ایک کی ترجیح لازم آتی ہے اور وہ بلامر حج ہے اور یہ محال ہے اور اگر ہم کہیں کہ اس کرامت بعدالموت کے وقوع کیلئے عدم جواز ثابت ہے تو یہ تو اﷲ تعالیٰ سے مخلوق ہے اور اس کی تمام مخلوقات ممکنات سے ہیں اور وہ ممکنات اس کی قدرت اور طاقت کے ما تحت ہیں۔ ازروئے ایجاد و عدم اس کی قدرت تمام ممکنات سے وابستہ ہے تو پھر باری تعالیٰ کی قدرت کا عاجز ہو جانا ثابت ہوگا جو کہ محال ہے پھر اگر آپ یہ فرمائیں کہ ایک چیز کے واقع ہونے کے امکان سے اسکا حقیقت میں واقع ہونا ثابت نہیں ہوتا تو پھر اس کے وقوع کی دلیل کہاں ہے؟ تو میں کہوں گا کہ ہاں بعد از ممات کرامات اولیاء اﷲ کا وقوع ہو چکا ہے اور اس وقوع کو ہم نے نہایت بسط سے اور براہن قاطع سے بحوالہ کتاب الترغیب والترہیب مصنفہ حافظ عبدالعظیم المنذری ابھی ابھی اوپر ثابت کیا ہے۔

نتیجہ: اولیاء اﷲ کی بے شمار کرامات بعد الممات واقع ہیں اور وہ ہر ایک زمانہ میں لا تعداد ہیں، اب سوائے ہٹ دھرم اور باطل عقیدہ رکھنے والے حضرات کے اور کوئی ان میں کسی قسم کا شک نہیں کر سکتا اسلئے اب ہم انتقال کے بعد کی چند کرامات بیان کر کے مضمون کو ختم کر دیتے ہیں ۔ الخ صفحہ۱۴۰

خاتمہ: وہ کرامات جو کہ اولیاء اﷲ کی ممات کے بعد واقع ہوئی ہیں اور جن کو مشائخ صوفیاء نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور ہر زمانہ میں مشہور ہیں وہ اتنی ان گنت ہیں کہ ان کا کسی عدد میں حصر (محدود) کر دینا ناممکن ہے۔ کتاب موسم بہ ’’اجوبہ‘‘ میں آئمہ فقہاء ،فقہاء کے اماموں اور صوفیاء کرام کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ تمام کے تمام اپنے مقلدین اور متبعین کو ہر ایک حال میں ملاحظہ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے ایک اپنے مقلد یا متبع کی جان کنی کے وقت ، امتحان منکر و نکیر کے وقت ، نشر ، حشر ، میزان ، پل صراط اور حساب کی منزلوں میں پورے طور پر مدد فرماتے ہیں اور اس کی آخرت کی منازل میں سے کسی ایک منزل سے غافل نہیں ہوتے اور جب ہمارے شیخ الاسلام شیخ ناصر الدین القاضی فوت ہوگئے تو ایک نیکو کار نے ان کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ جب دو فرشتوں نے مجھ کو قبر میں سوالوں کا جواب دینے کیلئے بٹھلایا تو ان کے پاس امام مالک تشریف لے آئے اور کہنے لگے کہ ایسے شخص سے تم یہ سوال کرتے ہو کہ تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو یا نہ، یہ تو ان سوالوں کے جوابات کا محتاج ہی نہیں، تم دونوں اس سے دور ہو جاؤ ، پس وہ دونوں مجھ سے غائب ہوگئے اور جب مشائخ صوفیہ اپنے تمام مریدوں کا خیال آخرت اور دنیا کے خطرناک واقعات اور مصائب میں رکھتے ہیں تو جو مذہبوں کے امام ہیں اور اس عالم کیلئے باعث تسکین ہیں گویا کہ اوتاد ہیں اور بہ نفس نفیس دین کے ارکان ہیں اور سرور کائنات کی امت کے امین اور شارعین ہیں، ان کا کیا کہنا ، ان کا تصرف کس قدر زیادہ اور کرامات کس قدر واضح ہونگی ، اﷲ تعالیٰ ان سب پر راضی ہوا۔

کرامت نمبر ۱:عارف صمدانی سید عبدالوہاب شعرانی نے بھی ایک ایسا ہی ذکر کیا ہے۔ یہ بیان ان کی تصنیف ’’میزان الکبریٰ‘‘ جلد اول صفحہ نمبر ۴۷۰میں موجود ہے۔ امام العالم جو کہ صاحب شریعت اور صاحب حقیقت بھی ہیں اور جن کا اسم گرامی ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازان القشیریہے فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ عبدالرحمان السلمی سے سنا، انہوں نے منصور بن عبداﷲ اور انہوں نے ابو جعفر بن قیس مصری سے اور انہوں نے ابو سعید الحزاز سے سنا جو یہ کہتے تھے کہ میں ایک دفعہ مکہ معظمہ میں تھا، اﷲ تعالیٰ اس کو سلامت رکھے، پس میں بابِ بنی شیبہ سے گزرا ،میں نے ایک جوان خوش شکل و خوش منظر کو دروازہ کے پاس مرا ہوا دیکھا، جب میں نے ایک نظر اس کے چہرہ کی طرف پھیری تو وہ مسکرائے اور فرمایا کہ اے ابو سعید تو نے اس بات کو نہ جانا کہ اولیاء اگر مر بھی جاویں تو زندہ ہوتے ہیں ،وہ تو صرف ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف نقل کر جاتے ہیں۔

کرامت نمبر۲: اور اسی طرح امام قشیری نے باب الکرامات الاولیاء کے بارے میں لکھا ہے کہ میں نے محمد بن عبداﷲ صوفی سے سنا اور انہوں نے الحسین بن احمد انصاری سے سنا اور انہوں نے دقی سے سنا اور انہوں نے احمد بن منصور سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ مجھ کو میرے استاد ابو یعقوب السوسی نے کہا کہ میں نے خود اپنے ایک مرید کو غسل دیا تو اس نے میرے انگوٹھے کو مضبوط پکڑ لیا اور وہ تختہ غسل پر تھا ،پس میں نے کہا اے بیٹے میرا ہاتھ چھوڑ دے، مجھے معلوم ہے کہ تو مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے اور تیری موت تیرے لئے صرف نقل مکانی ہے، پس میرا ہاتھ یہ سننے کے بعد چھوڑ دیا۔

کرامت نمبر۳:پھر میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ابو بکر احمد بن محمد الطرطوسی سے سنا ،انہوں نے ابراہیم ابن شیبان سے اور انہوں نے فرمایا کہ میرے ساتھ ایک جوان جو کہ نہایت پاکباز اور نیک نیت تھا سفر میں شریک ہوگیا۔ کچھ دنوں کے بعد فوت ہوگیا، میں اس کی محبت سے بہت وابستہ ہوگیا تھا۔ پس میں نے اس کے غسل کیلئے خود تیاری کی اور میں نے گھبرا کر یہ غلطی کی کہ پہلے بائیں طرف اس کو غسل دینا شروع کیا تو اس نے وہ طرف مجھ سے ہٹا کر اپنی دائیں طرف پیش کر دی۔ پس میں نے اس کو کہا کہ اے میرے چھوٹے بیٹے تو نے درست کام کیا ہے ،مجھ سے غلطی واقع ہوئی تھی۔

کرامت نمبر ۴ :پھر میں نے ان سے سنا کہ وہ فرماتے تھے میں نے ابو نجم مقری بروعی شیرازی سے سنا ،انہوں نے دقی سے سنا، انہوں نے احمد بن منصور سے اور انہوں نے ابو یعقوب سوسی سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ ایک دن میرے پاس ایک مرید آیا (مکہ معظمہ میں) اور کہنے لگا اے استاذ میں کل ظہر کے وقت مر جاؤں گا پس مجھ سے یہ دینار لے لیں۔ ان سے نصف دینار میری قبر کھودنے پر صرف کریں اور باقی نصف میرے کفن پر لگائیں۔ پھر جب دوسرا دن آیا تو پہلے اس نے آکر طواف خانہ کعبہ کیا پھر ایک طرف ہوگیا اور فوت ہوگیا۔ میں نے اس کو غسل دیا، کفنایا اور لحد میں رکھا۔ پھر اس نے اپنی دونوں آنکھیں کھولیں، پھر میں نے اس سے پوچھا کہ کیا مرنے کے بعد بھی زندگی ہوتی ہے، اس نے جواب دیا کہ میں زندہ ہوں اور اﷲ تعالیٰ کا ہر ایک دوست زندہ ہوتا ہے۔(صفحہ۱۷۰)

کرامت نمبر ۵:امام الاوحد العالہ العلامہ (یکتاء زمان و فہام) موسوم بہ شیخ شہاب الدین احمد لابشہیاپنی کتاب ’’المستظرف‘‘ جو کہ ہر ایک فن اور ہر ایک لحاظ سے ’’المستظرف‘‘ ہے میں کراماتِ اولیاء کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حسن بصری سے حکایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک سائل مسجد میں آیا اور اس نے سوال کیا کہ مجھے روٹی کا ایک ٹکڑا کھلا دو، انہوں نے اس کو کچھ نہ کھلایا، اﷲ تعالیٰ نے ملک الموت کو حکم دیاکہ اس کی روح کو قبض کرو کیونکہ یہ بھوکا ہے۔ ملک الموت نے اس کی روح کو بحکم باری قبض کیا پھر جس وقت مؤذن مسجد کے پاس آیا تو اس نے اس کو مردہ پایا۔ اور اس کی خبر لوگوں کو دیدی ، پھر ان لوگوں نے مل کر اس کو دفن کرنے کی تیاریاں شروع کیں۔ جس وقت یہ مؤذن مسجد کے اندر داخل ہوا تو اس کا کفن محراب میں پایا جس پر یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ کفن تمہاری طرف پھینکا جاتا ہے تم ایک بری قوم کے افراد ہو، تم سے ایک فقیر نے کھانا طلب کیا تو تم نے اس کو نہ کھلایا حتیٰ کہ وہ بھوک کی وجہ سے مر گیا اور وہ ہمارے پیارے دوستوں میں سے ایک تھا ،ہم اپنے دوست کو غیروں کے حوالہ نہیں کرتے۔ (صفحہ ۱۳۱جزء اول)

کرامت نمبر ۶:اور اسی طرح اسی کتاب کے باب جودوسخا میں لکھا ہے کہ حکایت کی جاتی ہے کہ عرب کی ایک قوم کے افراد اپنے سخی اصحاب کی ایک قبر کے پاس پہنچے تا کہ اس کی زیارت کریں پس اس کی قبر کے نزدیک رات گزاری ،رات کو ان میں سے ایک شخص نے صاحب قبر کو خواب میں دیکھا کہ یہ بات تجھ کو پسند ہے کہ اپنا اونٹ میری تیز رفتار اونٹی لے کر مجھ پر بیچ دے، اور یہ صاحب قبر ایک تیز رفتار سواری کی اونٹنی چھوڑ کر مرا تھا، اور زیارت کرنے والے کے پاس ایک موٹا اونٹ تھا، اس نے کہا کہ مجھے یہ سودا منظور ہے اور خواب میں ہی اپنا اونٹ اس کی تیز رفتار اونٹنی کے عوض بیچ دینے پر راضی ہوگیا۔ جب وعدہ پکا ہو گیا تو صاحب قبر نے اس کے اونٹ کو پکڑا اور خواب میں ذبح کرنا شروع کیا، زائر فوراً بیدار ہو گیا اور اس نے دیکھا کہ اس کے اونٹ کی گردن سے خون جاری ہے، پس اُٹھا اور ذبح کر کے مکمل کیا، پھر اس کے گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کیا، پھر اس کو پکایا اور سب نے کھایا، پھر وہاں سے کوچ کر گیا اور سفر کرنے لگے، جب دوسرا دن ہوا اور وہ حالت سفر ہی میں تھے تو ان کے سامنے چند سوار آموجود ہوئے ۔ان میں سے ایک جوان آگے بڑھا اور اس نے پکارا کہ کیا تم میں سے فلاں بن فلاں کوئی شخص ہے۔ اونٹ کے مالک نے کہا کہ ہاں میں وہی شخص ہوں جس کا تو نے نام لیا ہے، اس نے پوچھا کہ فلاں میت پر تو نے کیا کوئی چیز بیچی ہے، میں نے کہا کہ ہاں میں نے اس کے آگے اپنا اونٹ اس کی تیز رفتار اونٹنی کے بدلہ بیچا تھا۔ اس نے کہا یہی اس کی وہ اونٹنی ہے اس کو لے لو اور میں اس کا لڑکا ہوں اور میں نے اپنے باپ کو آج رات خواب میں دیکھا کہ مجھ کو کہتا ہے کہ اگر تو میرا بیٹا ہے تو میری یہ تیز رفتار اونٹنی فلاں آدمی کے حوالہ کر آؤ۔

نتیجہ: عبرت کی نظر سے دیکھئے کہ اس سخی شخص نے اپنے مہمانوں کی اپنی موت کے بعد کس طرح ضیافت کی (صفحہ۱۴۷) اور اتنا کافی سمجھ کر ہم اپنے رسالہ کو ختم کرتے ہیں کیونکہ سب سے اچھا کلام وہ ہوتا ہے جو کہ مختصر اور جامع ہو اور ہم اﷲ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم کو نیک اعمال کی توفیق بخشے اور ہماری آخرت کو ہماری دنیا سے بہتر بنا دے اور ہم کو ان لوگوں میں داخل کر دے جو کہ شریعت مصطفویہاور طریقت نبویہکی پیروی کرنے والے اور ہم کو نیک اور پسندیدہ لوگوں کی راہ پر چلائے اور ہادی کونین علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بہترین صلوۃ وسلام ہو۔

اس رسالہ سے فراغت بروز پیر مورخہ 17 ربیع الثانی ۱۳۳۷؁ھ،یہ تاریخ ہجرت حضور نبی کریمسے ہے جو کہ اگر اس دنیا میں قدم رنجہ نہ فرماتے تو دونوں جہاں مفقود ہوتے۔ حضوراور ان کی آل پر رب المشرقین کی طرف سے درود ہو آمین۔پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاہور پاکستان۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...