Friday 30 June 2017

حیات النبی ترجمہ تحفۃ الفحول فی استغاثۃ بالرسول

0 comments
حیات النبی ترجمہ تحفۃ الفحول فی استغاثۃ بالرسول
از : حضرت محدثِ اعظم مولانا مولوی محمد ایوب صاحب حنفی پشاوری(مرحوم)

مترجم:(فقیر) محمد امیرشاہ قادری گیلانی پشاور

پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاہور پاکستان

معنون : اس کوشش کو اپنے استاذِ محترم ، عالم اجل، فاضل اکمل، شیخ التفسیر و الحدیث، خطیب اسلام، حامل علومِ تصوف حضرت مولانا مولوی الحاج حافظ گل فقیر احمد صاحب خلیفہ مجاز حضرت قبلۂ عالم گولڑوی کے نام نامی و اسم گرامی سے معنون کرتا ہوں۔

گر قبول افتد زہے عز و شرف ، سگ درگاہِ عالیہ قادریہ سید حسن صاحب

(فقیر) سید محمد امیر شاہ قادری گیلانی یکہ توت پشاور
۱۵ شعبان المعظم ۱۳۸۲؁ھ…… ۲۵نومبر ۱۹۶۲؁ء

تعارف : اگر چہ صوبہ سرحد کی تاریخ کے اوراق ان علماء کرام اور مشائخ عظام کی مبارک زندگیوں سے یکسر خالی پڑے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی انتہائی کوششوں اور کاوشوں سے اس شجرۂ طیبہ (دین اسلام) کی قرآن و حدیث کی اشاعت کر کے آبیاری کی۔ اپنی زندگی کے آرام و آسائش کو اسی درخت مبارکہ کی پرورش کرنے پر نچھاور کیا، اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اس کی حفاظت کی، ہرطرح کے کفر و شرک، بدعات سئیہ اور رسم و رواج سے تحریر تقریر اور عملی طور پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ذریعہ انتہائی سعی کرکے محفوظ رکھنے کی امکانی کوشش کی۔ ان علماء کرام کے شاگردانِ رشید اور مشائخ کرام کے خلفاء عظام ایک جیتی جاگتی پاکیزہ زندگی لئے ہوئے صوبہ سرحد کے شہرشہر، گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ میں موجود ہیں۔ انہی نفوس قدسیہ کی برکت سے آج جگہ جگہ قرآن و حدیث کے درس جاری ہیں،ہدایت و معرفت کی مشعلیں فروزاں ہیں۔ یہ ہمت و استقامت کے پیکر اپنی بے بضا عتی اورکم مائیگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قرآن و حدیث کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں۔

جس وقت دہلی میں حضرت علامہ امام شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی موطا امام مالک کی شرح مصفیٰ مسویٰ فارسی و عربی میں لکھ رہے تھے، عین اسی وقت یعنی ۱۱۳۱؁ ھ میں حضرت شیخ المشائخ محدثِ جلیل قطب الا قطاب علامہ اجل سید شاہ محمد غوث صاحب قادری گیلانی ۱؂ بن ابوالبرکات سید حسن صاحب قادری گیلانی پشاور میں بخاری شریف کی مفصل شرح فارسی میں تحریر فرما رہے تھے اور حدیث شریف کا درس دے رہے تھے۔ نیز آپکے بھائی حضرت صدرالمدرسین شیخ المحدثین علامہ سید زین العابدین قادری گیلانی ۲؂ پچپن بر س

۱؂:حضرت محدث کبیر سید شاہ محمد غوث قادری گیلانی ۱۷ ربیع الاول۱۱۷۳ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کا مزار اقدس بیرون دلی دروازاہ لاہور مرجع خلائق ہے۔

۲؂: حضرت سید زین العابدین قادری گیلانیکی وفات ۱۱۶۹ھ میں ہوئی اور آپ کا مزار ہزارہ میں بمقام حویلیاں موضع سلطان پور میں مرجع خلا ئق ہے۔

تک یعنی ۱۱۱۴؁ھ سے لے کر ۱۱۶۹؁ ھ تک پشاور اور ہزارہ میں صحاحِ ستہ کا درس فرماتے رہے۔

حضرت علامہ شیخ اکمل سید میر عیسیٰ شاہ صاحب ۱۲۲۷؁ھ سے لے کر ۱۲۴۸؁ھ تک کشمیر، پنجاب،ہزارہ میں درسِ حدیث دینے کے بعد ۱۲۴۸؁ھ سے لے کر ۱۲۶۹؁ھ تک مستقل طور پر پشاور شہر میں حدیث شریف کا درس پڑھاتے رہے۔ آپ کے جلیل القدر فرزند حضرت علامہ سید غلام صاحب المعروف ’’میرجی صاحب ‘‘ ۱۲۶۹؁ھ سے لے کر ۱۲۸۳؁ھ تک قرآن و حدیث کا درس پڑھاتے رہے۔ اس دور میں پشاور شہر علم و عرفان کا مرکز تھا۔ جس طرف بھی نظر اٹھتی ہے علم و عرفان کے آفتاب نظر آتے ہیں جو کہ قرآن و حدیث اور فقہ حنفی کو اپنی عالمانہ ضیاء باریوں سے منور کر رہے ہیں اور گم گشتہ بادیہ ضلالت کی اپنی نورانی شعاعوں سے راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں۔ عقائد حقہ اہلسنّت و جماعت کے یہ وہ مضبوط و مستحکم قلعے تھے کہ جب بھی کبھی عقائد باطلہ کا کفرزا سیلاب اٹھا، تو ان قلعوں سے ٹکرا کر خود بخود پاش پاش ہو گیا۔ پشاور ان علماء ربانین کے وجودوں سے بقعہ نو ر بناہوا تھا۔

پشاور شہر میں استاذ الاساتذہ ،عمد ۃ المحدثین، علامہ دوران و اعظ خوش بیان شارح صحیح البخاری حضرت حافظ محمد احسن صاحب المعروف حافظ دراز صاحب محدث جلیل عالم اجل فاضل اکمل مولانا مولوی مفتی محمداحسن صاحب ۱؂ ساکن کوٹلہ رشید خان علاقہ گنج پشاور۔ قطب وقت سند المحدثین مولانا مولوی حافظ مفتی محمد عظیم ۲؂ صاحب المعروف ’’حافظ جی صاحب گنج والے‘‘ مفسر قرآن شارح حدیث مولانا بالفضل اولیٰنا حضرت حافظ غلام جیلانی۳؂ المشہور ’’میاں صاحب آسیا والے‘‘ حضرت عظیم البرکت مولانا مولوی مفتی برکت اﷲ صاحب۴؂ ۔ کریمپورہ پشاور ،حضرت عمدۃ المفسّرین والمحدثین، فقیہ عصر، خطیب اسلام، شاعربے بدل ، صوفی باصفا، استاذ الاساتذہ میاں نصیر احمد صاحب ۵؂ المعروف ’’میاں صاحب قصہ خوانی‘‘

۱؂:مولوی مفتی محمد احسن صاحب بروز ہفتہ ۸ شعبان المعظم ۱۲۸۳ہجری فوت ہوئے۔

۲؂:حافظ محمد عظیم صاحب نے ۱۲۷۵ھ میں وفات پائی ۔

۳؂:حافظ غلام جیلانی کی وفات بروز بدھ ۹ شوال ۱۲۷۸ھ کو ہوئی۔

۴؂:مولوی مفتی برکت اﷲ صاحب نے ۱۴جمادی الاول ۱۲۸۵ ھ کو انتقال فرمایا۔

۵؂:میاں نصیر احمد صاحب ۸ رجب المرجب ۱۳۰۸ھ بروز شنبہ واصل بحق ہوئے۔

حضرت علامہ سید السادات فخر علماء مولانا مولوی سید اکبر شاہ صاحب ساکن بھانہ ماڑی پشاور۱؂،حضرت شیخ المشائخ علامہ وقت قطب ارشاد حضرت سیّداکبر شاہ صاحب المعروف ’’آغاپیر جان صاحب‘‘ یکہ توت پشاور ۲؂ ۔ حضرت علامہ مولانا مولوی مفتی محمد غیور صاحب چاہ کا لا پشاور۔ حضرت محدث کبیر، استاذ الاساتذہ فقیہ عصر مولانا مولوی پیر علی شاہ صاحب ڈھکی نعل بندی پشاور ،حضرت مولانامولوی صاحبزادہ شکرالدین صاحب موچی پورہ پشاور، حضرت محدث جلیل مولانا مولوی عبدالرب صاحب ساکن موضع دارمنگی پشاور صاحبانِ درس و افتاء تھے۔ یہ تو صرف پشاور کی کیفیت ہے کہ تقریباً ہر علاقہ میں علماء کرام قرآن و حدیث اور دوسرے علوم متداولہ کی ترویج واشاعت میں مصروف نظر آرہے ہیں۔

معلوم نہیں کہ باقی صوبہ سرحد میں کتنے علماء کرام کس کس مقام پر یہ خدمت سر انجام دے رہے ہوں گے ۔تاریخ کا طالب علم اگر صوبہ سرحد کے اس تاریخی پہلو پر کچھ بھی محنت کرے تو علماء اور مشائخ کی مکمل تاریخ مرتب ہو سکتی ہے۔ اور یہ قرآن، حدیث اور فقہ کی اس علاقہ میں جو اشاعت ہوئی ہے، اس کی بھی ایک تاریخ بن جائے گی نیز یہ ایک نہایت ہی اہم خدمت ہو گی۔ یہ انتہائی بد قسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ یہاں کے علماء اور مشائخ جنہوں نے اس علاقہ میں مذہبی تعلیمی بیداری کے ساتھ سیاسی بیداری بھی پیدا کی، کے متعلق کوئی تاریخی دستاویز نہیں۔ کاش کہ کوئی بالغ نظر عالم صوبہ سرحد کے اس اہم تاریخی پہلو پر توجہ کرے ؟

۱۲۹۰؁ ھ سے لیکر ۱۳۳۵؁ھ تک پشاور شہر اور صوبہ سرحد میں محدث جلیل، مفسّر عظیم حضرت علامہ مولانا مولوی محمد ایوب صاحب نوراﷲ مرقدہٗ علماء کرام کی صف اوّل میں نظر آتے ہیں۳؂ ۔ آپ پشاور شہر سے مشرقی جانب تقریباً پندرہ میل کے فاصلہ پر موضع زخی چارباغ علاقہ اکبر پورہ میں حضرت مولانا لطیف اﷲ صاحب کے گھر ۱۲۵۰؁ ھ میں تولد ہوئے۔ آپ قبیلہ بے سود

۱؂:مولو ی سید اکبر شاہ صاحب کی تاریخ وفات ۱۴رجب المرجب بروز دوشنبہ ۱۳۱۲ھ ہے۔

۲؂:حضرت سید اکبر شاہ قادری گیلانی المعروف آقا پیر جان صاحب ۲۷جمادی الثانی بروز سہ شنبہ ۱۳۱۵ھ کو واصل بحق ہوئے۔

۳؂:مولوی محمد ایوب کے اس رسالہ تحفت الفحول فی الاستغاثہ باالرسول کا عربی سے اردو ترجمہ کیا جا رہا ہے اسلئے اس فقیر نے ضروری سمجھا کہ آپ کی ذات گرامی قدر کا تعارف بھی ہدیہ ناظرین کرایا جائے۔

سے تعلق رکھتے ہیں ۔ چونکہ آپ کے والد علماء کے گھر انے سے تعلق رکھتے تھے اور خود بھی عالم تھے لہٰذا آپ کی تعلیم و تربیت پر انہوں نے پوری پوری توجہ دی۔

مولانا محمد ایوب صاحب ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد صوبہ سرحد کے مشاہیر علماء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور علوم متداولہ کی تکمیل کی۔ جناب حضرت شیخ اکمل، علامہ صاحبزادہ صاحب۱؂ اتمانزئی (علاقہ چارسدہ) اور حضرت استاذ کل مولانا مولوی سعید احمد صاحب المشہور ’’کافور ڈھیری مولانا صاحب‘‘ کی خدمت میں حاضر ہو کر علوم متداولہ کی تکمیل کی ۔ حضرت علامہ محدثِ جلیل ’’مولانا صاحب ڈاگی یار حسین‘‘ کی خدمت میں رہ کر حدیث شریف کی تکمیل کی۔

جب آپ نے ان اکابر و اعاظم علماء سے علومِ اسلامیہ سے فراغت حاصل کرلی تو حرمین شریفین میں تشریف لے گئے۔ وہاں کے محدثین کرام سے حدیث شریف پڑھ کر سند حدیث حاصل کی اسی لئے آپ کی سند مبارک ’’ سند مکی‘‘ کہلاتی ہے جو مسمٰی ہے ثبت امیری سے، اس سندحدیث کی صرف دو نقلیں ہوئیں جو کہ بطورِ سند ایک اس فقیر کے استاذ محدثِ اعظم، فقیہ بے نظیر ، خطیب اسلام حضرت علامہ حافظ گل فقیر احمد صاحب۲؂ مدظلہ العالی اور دوسری عم محترم عالم و فاضل ، فخر علماء ، سیّد السادات حضرت آقا سیّد مقبول شاہ صاحب ساکن چاہ کالا پشاور نوراﷲ مرقدہ کو مرحمت فرمائیں۔ آپ چار بار زیارت بیت اﷲ شریف سے مشرف ہوئے اور آخری بار دو برس تک کا شانۂ اقدس حضور شفیع المذنبین صاحبِ لواء حمد، مالک شفاعت کبریٰ احمد مجتبیٰ محمد مصطفیکے قریب درسِ حدیث شریف پڑھایا۔

حرمین شریفین سے واپس تشریف لا کر پشاور شہر میں مستقل سکونت اختیار کی۔ پشاور کے مشہورتاجر سیٹھی کریم بخش مرحوم نے آپ کو ’’مدرسہ تعلیم القرآن ‘‘ محلہ جٹان پشاور میں صدر

۱؂:حضرت علامہ صاحبزادہ صاحب علم منقول و معقول میں یگانہ ٔ روزگار تھے، آپ نے میر زاہدکی شرح تہذیب میر زاہد امور عامہ پر بہترین حواشی لکھے ہیں۔

۲؂:حضرت گرامی مرتبت مولوی گل فقیر احمد صاحب نے بکمال شفقت و مہربانی اس فقیر کو ۲۷ رجب المرجب ۱۳۸۲ھ بروز منگل سند حدیث ’’ثبت ِمیری‘‘ مرحمت فرمائی اگر چہ یہ فقیر اس قابل نہ تھا۔ نیز اپنے برخوردار حافظ عالم و فاضل مولوی بشیر احمد صاحب اور مولانا مولوی حافظ عبدلحمید صاحب کو بھی اجازت مرحمت فرمائی۔

مدرس بنایا۔ ۱۲۹۰؁ ھ سے لے کر ۱۳۳۵؁ ھ تک پشاور میں حضورکی حدیث شریف کی اشاعت و ترویج آپ ہی کی ذاتِ ستودہ صفات کی کوششوں کی رہین منت ہے۔صوبہ سرحد، افغانستان، بخارا، غزنی، ہرات، قندھار، وزیر ستان، سوات، باجوڑ اور تمام علاقوں سے سینکڑوں طلباء آپ کے درس میں حاضر ہوئے اور فارغ التحصیل ہو کر لوگوں کی ہدایت کا سبب بنے۔ آپ ہی کی ذاتِ گرامی تھی جس کی سعی سے ان علاقوں میں حدیث مبارک کی ایمان افروز مشعلیں روشن ہوئیں اور علم و حکمت کے دریا بہے جن سے شائقین علوم اسلامیہ سیراب ہوئے۔ آپ کے شاگردوں میں جلیل القدر علماء محدث، مفسّر، فقیہ اور مفتی پیدا ہوئے جن کے اسماء سے صوبہ سرحد کا ہر ایک شہری واقف ہے۔ شیخ الاسلام مفتی اعظم سرحد، فقیہ عصر، حضرت علامہ مولانا مولوی آقاسیّد حبیب شاہ صاحب خطیب جامع مسجد مہابت خان، استاذ محترم گرامی قدر عالی مرتبت ، محدث اعظم خطیب اسلام، عالم علوم باطنی حضرت علامہ مولوی گل فقیر احمد صاحب چشتی خطیب جامع مسجد میاں صاحب قصّہ خوانی ۔ حضرت محدث جلیل، فقیہ بے نظیر، شاعر بے بدل، عارف با ﷲ حضرت مولانا مولوی سیّد مقبول شاہ صاحب ، استاذِ محترم عزتِ مآب شیخ التفسیر والحدیث صدر المدرسین، محدثِ عظیم ، فقیہ اعظم، واعظِ بے نظیر، حضرت مولانا مولوی صاحبزادہ حافظ علی احمد جان صاحب نقشبندی خطیب جامع مسجد کچہری ہا۔ حضرت علامہ استاذ عالم اجل، فاضل اکمل، مولانا مولوی عبدالجلیل صاحب صدر الحدیث ساکن اتمان زئی، حال صدر مدرس صحاح شریف دارالعلوم چارسدہ، حضرت علامہ مولانا مولوی علی اﷲ صاحب المعروف ’’صریخ مولانا صاحب‘‘۔ حضرت علامہ اجل مولانا مولوی سیف الرحمان صاحب المعروف میاں صاحب نصیر زئی دوآبہ، حضر ت علامہ مولانا مولوی حافظ عبداﷲ صاحب ساکن موضع لنڈی اور صوبہ سرحد کے مشہور و معروف عالم با عمل حضرت علامہ مولانا مولوی محمد غفران صاحب المشہور’’شہباز گڑھے مولانا صاحب‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ غرضیکہ آپ کے شاگردوں نے بھی اپنی تمام عمر قرآن و حدیث اور علوم متداولہ کی تعلیم، اشاعت، اور خدمت دین محمدیکیلئے وقف کی اور جو بقید حیات ہیں اس وقت بھی دین اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہیں۔

سلسلہ درس تدریس کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا محمد ایوب صاحب نے تصنیف و تالیف کو بھی جاری رکھا۔ چنانچہ آپ نے درسی کتب پر حواشی لکھے۔شرح نخبتہ الفکر اور شرح تہذیب پر لکھے ہوئے حواشی طلباء کیلئے بہت نفع بخش ہیں۔ رسالہہدیتہ المسلمین لزیارۃ سیّد المرسلین مواہب المنان فی مناقب ابی حنیفۃ النعمان درالحکمۃ فی ظھر الجمعہ، حدیقۃ النصیحہ فی الخلۃ و العزلۃ۔عیون الادلۃ لرویۃ الاھلۃ حلیۃ الاولیاء و جلوۃ الا صفیاء۔ تحفۃ الفحول فی الاستغاثۃ بالرسول۔

اسی طرح مختلف مسائل پر آپ کے کئی رسائل لکھے ہوئے ہیں اور آپ کی تمام تحریریں عربی میں ہیں۔بروز چہار شنبہ (بدھ) عشاء کی نماز کے دوران سجدہ کے اندر بتاریخ ۷ ربیع الثانی ۱۳۳۵؁ ھ میں آپکی روح مبارکہ قفسِ عنصری سے عالم جاودانی کی طرف پرواز کر گئی۔ اس وقت آپکی عمر ۸۵ بر س تھی۔ اس آفتا ب علم کو اپنے آبائی قبرستا ن موضع زخی چار باغ میں دفن کیا گیا۔ آپکے تین فرزند تھے۔ ایک تولاولد فو ت ہوئے، دوا ور جناب مولانا محمد نعمان صاحب اور مولوی حکیم عبداﷲ جا ن صاحب تھے۔ ہر دو عالم و فاضل تھے۔ حکیم عبداﷲ جان صاحب تو قومی اور سیاسی کارکن بھی تھے۔ اتمان زئی میں حکمت کی دکان کرتے تھے۔ آپ کے صاحبزادہ مولانا مولوی حکیم عبدالباری صاحب والد کی جگہ حکمت کی دکان کرتے ہیں اور مدرس بھی ہیں۔(فقیر ) سید محمد امیر شاہ قادری یکم شعبان ۱۳۸۲ھ

یٰا َ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُ وْنَ (الحجرات:۲)

لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَ سُوْلٌ مِنْ َنْفُسِکُمْ عَزِیِزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ
(التوبہ: ۲۸)

بِسْمِ اﷲ ِ الرَّحمٰنِ الرَّحَیْمِ : الحمد اﷲ الکریم المجیب دعاء المتضرع والصلٰوۃ والسلام علٰی رسولہ الشفیع المشفع و علٰی اٰلہ و اصحابہ المتوسلین بہ فی المھمات المستغیثین بحضرتہ فی انجاح الحاجات کیف لا وقد ارشد ھم اﷲ سبحانہ و تعالٰی بتوقیر ذاتہٖ صلی اﷲ علیہ و اٰلہ و سلم و اتباع النور المنزل و جعلھا

وسیلۃ لفلاحھم و سببا لصلاحھم فی الدارین

اﷲ تعالیٰ اپنی کتاب مبین (قرآن مجید) میں ارشاد فرماتے ہیں

فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوْ النُّوْرَ

الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ اُولٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ( الاعراف:۱۵۸)

ترجمہ: تو وہ جو اس پر (محمدمصطفی ) ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور (یعنی قرآن مجید) کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اترا ،وہی بامراد ہوئے۔

حضورکے ادب و احترام سے یہ بھی مراد ہے کہ مومن سیّد دو عالم کو ان کی بزرگانہ صفات اور اعلیٰ اوصاف کے ساتھ نہایت ہی تعظیم سے ندا کرے۔ اسی ضمن میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کو حکم دیا کہ وَلَا تَجْعَلُوْا دُعآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعآءِ بَعْضُکُمْ بَعْضًاط (النور:۶۳)یعنی رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

تمام اہلِ تفسیر نے فرمایا ہے کہ حضور سیّد دو عالم کو ان کے ذاتی اسمِ گرامی سے ندا نہ کرو جیسے تم لوگ باہم دگر ایک دوسرے کو ان کے ذاتی ناموں سے پکارتے ہو لہٰذا آپ کو یا محمد کہہ کر ندا نہ کرو ، بلکہ نہایت ہی تعظیم کرتے ہوئے یا نبی اﷲ یا رسول اﷲ کہہ کر پکارو۔ نیز یہ آنجنا بکی خصوصیات سے ہے کہ آپ کا نامِ نامی و اسم گرامی سوائے ان دعاؤں کے جو ماثورہ ہیں، نہ پکارا جائے چنانچہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے جب اس اہم مسئلہ کو سمجھ لیا تو مقدسین کی یہ جماعت حضور کو زندگی میں اور وصال کے بعد اسی طرح مخاطب کیا کرتے تھے۔ اور اس موضوع پر بکثرت احادیث صحیحہ ہیں جو کہ امت مرحومہ کے سرتاج کے ساتھ مخاطبہ کے بارے میں وارد ہیں۔

علا مہ اجل شیخ اکمل جلال الدین سیوطیاپنی کتاب مستطاب اکلیل فی معانی التنزیلمیں ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے ظاہر الفاظ حضور کے وصال شریف کے بعد بھی اب تک اسی طرح مداومت کا حکم رکھتے ہیں جس طرح حیاتِ مبارکہ میں تھے۔ بخاری شریف کی وہ روایت جو کہ آپ کے وصال کے متعلق ہے اس کی تائید کرتی ہے اور وہ روایت یہ ہے:’’ حضرت ابو بکر صدیق ص نے حضور کے چہرۂ اقدس سے چادر کو ہٹایا، جھک کر بوسہ دیا، روئے، پھر فرمایا یا نبی اﷲ میرا باپ آپ پر قربان ہو، اﷲ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ ’’ اور محدث ابن المنیرنے یہ عبارت زیادہ کی ہے جو کہ مواہب شریف میں ہے‘‘۔ ہمیں بھی اپنے پروردگار کے ہاں یاد فرمانا اور امام احمد کی روایت ہے حضور نبی کریمکی پیشانی پر بوسہ دے کر فرمایا ہائے نبی، دوبارہ بوسہ دے کر فرمایا ہائے بزرگ، اور تیسری بار بوسہ دیکر فرمایاہائے دوست۔ جب حضرت ابو بکر ص کے کہنے پر حضور نبی کریم کی وفات کا حضرت عمر ص کو یقین آگیا تو حضرت عمر ص روئے اور کہا یا رسول اﷲ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ حضرت ابو بکر ص اور حضرت عمر صامت محمدیہ کے آئمہ دین اور خلفاء راشدین مہدیین سے ہیں، اور یقینا ان ہر دو گرامی قدر حضرات نے حضور نبی کریم کو وصال کے بعد ندا کی اور اُن ہر دو کی تخصیص پر کوئی قرینہ نہیں بلکہ بغیر کسی شک و شبہ کے بغیر ان حضرات کے امت محمدیہ میں ہر ایک کا حضور کو وصال کے بعد بھی پکارنا جائز ہے۔

نیز ابن المنیر نے جو عبارت زیادہ بیان کی ہے اس سے بنی اکرمکے ساتھ آپ کے وصال کے بعد تمام امت کا آپ سے استغاثہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ چونکہ حضرت ابو بکرص اور حضرت عمر ص خلفاء راشدین مہدیین سے ہیں اور خلفاء راشدین دین اسلام کے احکام و مصالح کو تما م امت سے زیادہ جانتے اور سمجھتے ہیں اسلئے ان کا ارشاد اور عمل تمام امت کیلئے قابلِ عمل ہے۔ نیز اسلئے بھی قابل عمل ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایاہے :’’ کہ تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور میرے خلفاء راشدین المہدیین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑے رہو — الخ ‘‘ بلکہ نیک لوگوں سے استعانہیعنی مدد طلب کرنا بھی جائز ہے۔

حضرت امام بخارینے اپنی صحیح میں باقاعدہ طور پر ایک باب بعنوان الاستغاثۃ بالضعفآء و الصالحین باندھا ہے جس میں انہوں نے ایک حدیث بطریق مصعب کے نقل کی ہے کہ مصعب فرماتے ہیں رسول اکرمنے فرمایا ھل ترزقون الا بضعفائکم یعنی تم کو رزق نہیں دیا جاتا مگر تمہارے مسکینوں کی وجہ سے۔

حضرت امام بخاری نے آپ کو آپ کے وصال کے بعد ندا کر نے کے بارے میں حضرت انس سے ایک روایت بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضورکا وصال ہوا۔ آپ کی صاحبزادی سیّدہ فاطمہ زہرا رضی اﷲ عنہا نے فرمایا:’’ہائے افسوس اے میرے باپ، آپ کے رب نے آپ کی دعا قبول فرمالی! ہائے افسوس اے میرے باپ، آپ کی جگہ جنت الفردوس ہو!ہائے افسوس اے میرے باپ، آپ کی موت کی فریاد ہم جبرئیل سے کریں گے!‘‘

آپکی چچی جنا بہ صفیہ رضی اﷲ عنہا نے آپ کے متعلق بہت اشعار ایسے پڑھے جن میں آپ کو ندا تھی اور انہوں نے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی موجودگی میں یہ اشعار پڑھے اور کسی ایک صحابی نے بھی انکار نہیں کیا، ان میں سے ایک شعر یہ ہے :

یَا رَسُوْلَ اﷲ اَنْتَ رِجآئْنَا

[وَ کُنْتَ بِنَا بُرّاً وَ لَمْ تَکُ جَافِیْاَ

ترجمہ: اے اﷲ تعالیٰ کے رسول! آپ ہماری امید کی جگہ ہیں اور آپ ہمارے محسن ہیں اور ہم پر جفا کرنے والے نہیں تھے۔

امام بخاری نے اپنی صحیح میں ام العلاء سے روایت کی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ عثمان بن مظعون ہمارے پاس رہے، بیمار ہو گئے اور ہم نے ان کی تیمارداری کی یہاں تک کہ فوت ہو گئے۔ ہم نے ان کو انہی کے کپڑوں میں لپیٹ دیا۔ حضو ر تشریف لائے تو میں نے کہا ’’لقد رحمک اﷲ اباالسائب‘‘؂۱ یعنی اے ابا السائب اﷲ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے ‘‘ الخ اس حدیث سے تمام مردوں کو ندا کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ نیز علامہ عینی۲؂ نے بخاری شریف کی شرح میں بھی اسکی تصریح کی ہے۔

طبرانی نے ابی امامہ سے روایت کی ہے کہ دفن کرنے کے بعد میّت کو ان الفاظ سے تلقین کرے: اے عبداﷲ بن امتہ اﷲ ! وہ عہد یاد کر کہ جس پر تو اس دنیا سے جائے توگواہی دے ان لا الہ الا اﷲ وحدہٗ لا شریک لہ و ان محمداً عبدہ و رسولہٗ میں اﷲ کی توحید پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد کی نبوت پر راضی ہوں (الحدیث)۔پس اس حدیث سے بھی میّت کو ندا کرنا ثابت ہے۔

اہلسنّت و جماعت کے نزدیک شرعاً و عقلاً دنیا میں، برزخ میں، اور عقبیٰ میں بلکہ حضور نبی کریمکے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے بھی سید دو عالمکے ساتھ استغاثہ۳؂ استعانۃ۴؂ التوسل۵؂ التشفع ۶؂ یہ امور جائز ہیں۔ یہودی مومنین کے متعلق اﷲ تعالیٰ

ارشاد فرماتا ہے:وَ کَانُوْا مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلیَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا(البقرہ: ۸۹)

ترجمہ:اور اس سے پہلے وہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے۔

تفسیر خازن اور دوسری تفاسیر میں موجود ہے:

’’یعنی کانوا قبل مبعث البنی صلی اﷲ علیہ و اٰلہ وسلم یستنصرون اﷲ علٰی مشرکی العرب فی الحروب، و یقولون اللھم انصرنا بالنبی المبعوث فی اٰخرالزمان الذی نجد صفتہ فی

التورات فینصرون انتھی‘‘

ترجمہ :حضور سیّد دوعالمکے معبوث ہونے سے پہلے جبکہ کفار مکہ اور مومن یہودیوں کے

۱؂یعنی یا ابا السائب، بحذفِ حرف النداء و ھذہ کنیتہٖ

۲؂: اسمہ‘ بدرالدین ۳؂: فریاد رسی کرنا۴؂: مدد طلب کرنا

۵؂: وسیلہ بنانا۶؂: شفیع بنانا

درمیان لڑائیاں چھڑ جاتیں تو مومن یہود کفار مکہ پر اﷲ تعالیٰ سے فتح طلب کرتے ہوئے ان الفاظ کے ساتھ دعا کرتے کہ اے اﷲ اس نبی اکرم کے طفیل جو آخر زمانہ میں مبعوث ہو گا، جس کی صفت ہم نے تورات میں پائی ہے ،ہم کو فتح عطا فرما۔ پس وہ فتحیاب ہو جاتے۔

’’ فتح الرحمن فی تر جمۃ القرآن‘‘ میں ہے کہ

’’جس وقت حضور کی پیدائش سے پہلے خیبر کے یہودی بنی غطفان کے ساتھ لڑتے تھے تو اﷲ سے ان الفاظ کے ساتھ فتح طلب کرتے: اللھم افتح لنا و انصرنا علٰی اعدائنا الکافرین بحق محمد النبی لموعود فی اٰخر الزمانیعنی اے اہمارے رب ہمارے کافر دشمنوں پر حضرت محمد جو آخری زمانہ کے نبی موعود ہیں کی برکت سے ہمیں فتح عطا فرما اور ہماری مدد کرپس آپ کے وسیلہ سے ان کو اﷲ تعالیٰ فتح نصیب فرمایا کرتا تھا‘‘۔

احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور کا توسل حضر ت آدم ں نے بھی کیا ہے ۔ حاکم نے اپنی مستدرک میں حضرت عمر صسے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا جس وقت آدم ں سے (بظاہر) خطا سرزد ہوئی تو حضرت آدم ں نے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی یَا رَبِّ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ محمد صلی اﷲ علیہ و اٰلہ وسلم مَا غَفَرْتُ لَیْ۔ اے اﷲ میں حضور اکرم کے وسیلہ سے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے بخش دیں۔ فقال اﷲ یا اٰدم انہ لاحب الخلق الی اذا سئلتنی بحقہ فقد غفرت لک ولو لا محمد لما خلقتک تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم میرے تمام مخلوق میں جس کا وسیلہ تو نے دیا ہے مجھے بہت ہی زیادہ محبوب ہے۔ اگر محبوب ( )نہ ہوتے تو تجھے بھی پیدا نہ فرماتا۔

اگر نام محمد را نیاوردے شفیع آدم

نہ آدم یافتے توبہ نہ نوح از غرق نجینا

علامہ ابن حجر مکی فرماتے ہیں کہ بِحَقِّہٖ سے مراد حضور کا وہ مرتبہ اور مقام ہے جو کہ اﷲ تعالیٰ کے حضور میں آپ کو حاصل ہے۔ اس حدیث کو بیہقی نے بھی اسنادِ صحیحہ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ علامہ ذہبی نے فرمایا ہے کہ اس بات کو اپنے پر لازم ٹھہرالے کیونکہ حضور مجسمہ نورِ ہدایت ہیں۔

حضور اکرمکی اس دنیا میں تشریف لانے کے بعد کی زندگی مبارکہ میں آپ سے مدد طلب کرنا واقع اور ثابت ہے۔ استعانت کے ثبوت میں یہ ایک روایت کافی ہے جو کہ ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے کی ہے عثمان بن حنیف سے انہوں نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے یعنی اس کی اسناد کو صحیح کہا ہے۔ حضور کی خدمت میں ایک اندھا آیا فقال ادع اﷲ تعالٰی ان یعافینی قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان شئت دعوت لک و ان شئت صبرت لک فھو خیر لک قال فادع اﷲ فامرہ ان یتوضا و یحسن وضوۂ و یصلی رکعتین و یدعو بھذ الدعا اللھم انی اسئلک و اتوجھہ الیک بنبیک نبی الرحمۃ یا محمد انی تو جھت بک الی ربی فی حاجتی فتقضی اللھم فشفعہ فی و فی روایۃ قال ان کان لک حاجۃ فمثل ذالک قال عثمان بن حنیف فو اﷲ ماتفرقنا حتی دخل علینا الرجل کان لم یکن بہ ضرر قط

ترجمہ: عرض کی اے اﷲ کے پیارے رسولمیرے لئے خداوند تعالیٰ کے حضور میں دعا فرمائیں کہ مجھ کو شفا بخشے یعنی (بینا ہو جاؤں) ۔حضور سرور کونین نے فرمایاکہ اگر تم بینائی کیلئے دعا کرانا چاہتے ہو تو میں دعا کروں گا۔ اگر تم صبر کر لو تو وہ تمہارے لئے اچھا ہو گا۔ اس صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اﷲ آپ دعا فرمائیے ۔ پھر حضور نے اسے ارشاد فرمایا کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز نفل پڑھو اور بعد از فراغت یہ دعا پڑھو۔ ’’اے اﷲ تعالیٰ میں تیرے دربار میں اپنا سوال اس طرح پیش کرتا ہوں کہ تیرے حبیب پاک جو کہ رحمت للعالمین ہیں کا وسیلہ پیش کرتا ہوں اور اے اﷲ کے پیارے رسول (محمد) میں نے اپنی اس حاجت کے بارے میں آپ کو اپنے رب کے ہاں وسیلہ گردانا ہے پس آپ پورا کردیں۔ اے میرے اﷲ میری اس حاجت کے بارے میں ان کی ذاتِ پاک کو شفیع بنا دے اور ایک روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ اگر تم کو کوئی حاجت پیش آجاوے تو انہی الفاظ سے دعا مانگو۔ حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس آدمی کو ہم سے رخصت ہوئے کچھ دیر نہیں لگی تھی کہ وہی شخص ہمارے پاس اس حالت میں واپس آیاکہ اس پر نابینائی کا عارضہ کبھی لاحق ہی نہیں ہوا تھا۔

بخاری نے اپنی تاریخ میں اخراج کیا کہ شیخ مناوی نے تَوَ جَھّْتُ بِکَ کے معنی اِسْتَعَنْتُ بِکَیعنی آپ کی ذات بابرکات کے وسیلہ سے میں نے مدد طلب کی کے ہیں۔ حضورکی ذات بابرکات کے ساتھ مشکلات کے اوقات میں اپنی امت کیلئے اس حدیث میں ارشاد ہے کہ مدد طلب کرے، شفاعت طلب کرے حضوروصال شریف سے پہلے بھی اور بعد بھی اور اسی طرح جو لوگ آپ سے بظاہر غائب ہوں ان کی مشکلات کا ندا کے ساتھ آسان ہونا بھی ثابت ہے۔

نیز اسی روایت کی وہ روایت بھی تصدیق کرتی ہے جو بیہقی اور طبرانی نے عثمان بن حنیف سے نقل کی ہے:

’’ان رجلا کا ن یختلف الٰی عثمان بن عفان فی حاجۃ فکان لا یلتفت الیہ ولا ینظر فی حاجۃ فشکٰی ذالک لابن حنیف فقال لہ توضاء وصل رکعتین ثم قال اللھم انی و اتوجھہ الیک بنبییک — الخ — و تذکر حاجتک فانطق الرجل ففعل ذالک ثم اتی باب عثمان بن عفان فجاء ہ البواب حتٰی اخذ بیدہ فادخلہ علٰی عثمان فاجلسہ معہ علی الطنفسہ فقال ما حاجتک فذکر حاجۃ فقضھا لہ — انتھٰی‘‘

ترجمہ: اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی حاجت کیلئے حضرت عثمان صبن عفان کی خدمت میں بار بار حاضر ہوتا تھا اور عثمان صبن عفان اس کی طرف نہ توجہ فرماتے تھے اور نہ ہی اس کی حاجت کو سنتے تھے تو اس شخص نے اس با ت کا شکوہ حضرت ابن حنیف کے آگے کیا۔ انہوں نے اس کو کہا کہ وضو کر کے دو رکعت نماز نفل ادا کرو پھر دعا کیلئے یہ کہو اللھم– الخ اور اپنی ضرورت کا ذکر کرو۔پس وہ آدمی چلا گیا اور ایسے ہی کیا۔ پھر حضرت عثمان صبن عفان کے دروازہ پر حاضر ہوا۔ دربان آیا اور اس کو ہاتھ سے پکڑ کر حضر ت عثمان صکے پاس لے گیا، حضرت عثمان صنے اس کو اپنے قریب مسند پر بٹھایا اور فرمایا کہ تمہاری کیا حاجت ہے پس اس شخص نے اپنی ضرورت بیان کی تو انہوں نے اس کو پورا کر دیا۔

آپ کے وصال شریف کے بعد بلا تاخیر مشکل کا آسان ہونا سیّد دو عالمکی استعانت سے حاصل ہوتاہے۔ ابو سعید سمعانی بعض حافظان حدیث سے روایت کرتے ہیں کہ حضر ت علی صسے یہ روایت ہے

انہ قال جاء اعرابی بعد دفنہ صلی اﷲ علیہ و الہ وسلم بثلٰثۃ ایام الٰی قبرہ الشریف فرمٰی بنفسہ علی القبر و قال فیما انزل اﷲ علیک قو لہ تعالٰی وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذ ظَّلَمُوْ ٓا اَنْفُسَھُمْ جَآءُ وکَ فَاَسْتَغْفَرَوُا اَﷲَ وَاَسْتَغْفََرَ لَھُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اَﷲَ تَوَّابًا رَّحِیمًا– و قد ظلمت نفسی و جئتک لتستغفر لی الٰی ربی فنودی من القبر

الشریف ان قد غفرلک —انتھی

ترجمہ: حضور کے وصال شریف کے تین دن کے بعد ایک اعرابی آپ کے مزار پُر انوار پر حاضر ہوا۔ پس قبر شریف سے لپٹ گیا اور عرض کرنے لگاکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے حق میں یہ آیت نازل کی ہے:’’ اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب آپ کے حضور حاضر ہوں پھر اﷲ سے معافی چاہیں اورر سول انکی شفاعت فرمائے تو ضرور اﷲ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں (النساء: ۶۴) ‘‘اور تحقیق میں نے اپنے آپ پرظلم کیا ہے۔ اور آپ کی خدمت اقدس میں آگیا ہوں تاکہ آپ اپنے رب تعالیٰ کے حضور میں میری بخشش طلب کریں پس آپ کی قبر مبارک سے ندا آئی یہ کہ ’’تجھے بخش دیا‘‘ اور یہ حضورکی حیات ِ مبارکہ مع وجود پاک پر نص قطعی ہے اور قبر شریف میں اس وجود اطہر کے ساتھ حیاتِ جسمانی حقیقی دنیوی کے طور پر اہلسنّت و جماعت کا کلی اتفاق ہے۔ (مزید تحقیق آگے بیان کی جائے گی)۔

شیخ علی سمہودی مدنی نے اپنی کتا ب ’’خلاصتہ الوفا ‘‘میں اپنے اصحاب سے حکایت نقل کی ہے عتبٰیسے ،انہوں نے فرمایا کہ میں حضورکے مزار اقدس کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے السلام علیک یا رسول اﷲ کہااور عرض کی کہ میں نے سنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے ولو انھم اذ ظلموا نفسھم الخ نیز آپ کے حضور میں اپنے گناہ بخشوا نے اور اﷲ تعالیٰ کے حضور میں آپ کی سفارش کروانے آیا ہوں اور پھر یہ شعر پڑھے:

یا خیر من دفنت فی القاع اعظمہ

;قد طاب من طیبھن القاع والا کم

ترجمہ: اے مجسمہ خیر آپ کا وجود پاک جو اس سر زمین میں مد فون ہے۔ اس کی خوشبو سے ٹیلے اور میدان معطر ہو گئے ہیں۔

نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ

1فیہ العفاف والجود والکرم

ترجمہ: اس قبر شریف پر میری جان قربان ہو جس میں آپ جلوہ افروز ہیں اور جس میں عفت، بخشش اور عطا ہے۔

یہ اشعار پڑھنے کے بعد وہ چلا گیا اور مجھ پر نیندکا غلبہ ہوا۔ میں خواب میں حضور کی زیارت سے مشرف ہوا۔ آپ نے ارشاد فرمایا اے عتبیٰ اس اعرابی کو مل اور اس کواس بات کی خوشخبری سنا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا! جب میں اس کی تلاش میں نکلا تو مجھے نہ ملا۔

ابن ابی شیبہ اسنادِ صحیحہ کے ساتھ مالک الدار خازن، حضرت عمر صسے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین عمر فاروق صکی خلافت کے دور میں لوگ قحط سے دوچار ہوئے تو حضرت بلال بن حارث نے حضور کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اﷲ استسقی لامتک فانھم قد ھلکوا (اے اﷲ تعالیٰ کے رسول آپ کی امت ہلاک ہو رہی ہے اس کیلئے پانی طلب کیجئے)۔حضرت بلال کو خواب میں رحمت عالم نے مشرف فرما کر حکم دیا حضرت عمر فاروق صکی خدمت میں جا اور میرا سلام کہہ اور اسکو کہہ تمام امور میں دانائی اور سنجیدگی اختیار کر، نیز یہ بھی کہہ وہ قحط زدہ لوگ پانی دئیے گئے۔ میں حضرت عمر صکی خدمت میں حاضر ہوا اور تمام بات کہہ دی تو حضرت عمر صروئے اور کہا کہ یا اﷲ میں تو وہی کرتا ہوں جو میرے بس میں ہے۔

دارمی نے اپنی مسند میں ابی الجوزا سے روایت کی ہے کہ اہل مدینہ پر شدید قسم کا قحط پڑا۔ لوگ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں شکایت لے کر آئے۔ ام المومنین رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ جاؤ اور سیّد پاک کی قبر مبارک کی چھت کو اوپر سے گول دائرہ کی شکل میں پھاڑ دو تاکہ آسمان اور قبر کے درمیان چھت نہ رہے۔ ان لوگوں نے اسی طرح کیا۔ بارش برسی اور اتنی برسی کہ خوب گھاس اُگی۔اونٹ اس طرح فربہ ہو گئے گویا کہ چربی سے پھٹے جاتے تھے۔ اسی لئے اس بر س کا نام ہی عام الفتق پڑگیا۔ الفاضل المراغی نے کہا ہے کہ جب کبھی خشک سالی ہوتی ہے تو اہل ِ مدینہ کا یہی طریقہ ہے ۔ شیخ السمہودی المدنی نے کہا ہے کہ آج کل حضورکی قبر شریف کا دروازہ کھول دیتے ہیں تاکہ وجہہ مبارک نظر آئے اور یہی طریقہ ہے۔

حضور نبی اکرمکے ساتھ استغاثہ جائز ہی نہیں بلکہ امرِ واقع ہے۔ حضور سیّدالبشر، شفیع المحشرنے اس بارے میں جو خبر دی ہے مومن کیلئے وہی کافی ہے۔ اما م بخاری نے اپنی صحیح میں باب الکسوف میں مرفوعاً روایت کی ہے:

’’ان الشمس تدنو یوم القیامۃ فجینا ھم کذالک استغاثوا بآدم ثم بموسٰی ثم بمحمدٍ فیشفع لیقضی بین الخلق فیومئذ یبعثہ اﷲ مقامًا محمودًا یحمد ہ اھل الجمع کلھم —انتھی‘‘

ترجمہ: قیامت کے دن جب سورج قریب ہو جائیگا تو اس دن جبکہ لوگ اس حالت میں ہوں گے کہ وہ پہلے حضرت آدم سے فریادرسی چاہیں گے پھر حضرت موسیٰ سے پھر حضورسے۔ پس حضور شفاعت کریں گے تاکہ اﷲ تعالیٰ فیصلہ فرما وے مخلوق میں۔ پھر اسی دن اﷲ تعالیٰ حضورکو ایسا مقام محمود عطا فرمائیگا کہ تمام اہل محشر حضورکی تعریف کرنے لگیں گے لہٰذا تمام امتوں کیلئے آخرت کے دن حضور کاشفاعت کبریٰ فرمانا حضور سے استغاثہ کرنا ہے اور شفاعت صغریٰ امت محمد یہکیلئے مختص ہے۔ امام مسلم اپنی صحیح میں عبداﷲ بن عمرو بن العاص سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے اپنے دونوں ہاتھ مبارک اٹھا کر فرمایا اللھم امتی امتی وبکٰی یعنی اے میرے اﷲ میری امت میری امت اور روئے۔ فقال اﷲ یا جبرئیل اذھب الی محمدٍ و اسئلہ ما یبکیک و ھو اعلمیعنی اﷲ تعالیٰ نے جبرئیل کو حکم دیا کہ حضر ت محمد مصطفی کے پاس جا اور ان سے پوچھ کہ آپ کیوں روتے ہیں حالانکہ وہ جانتا ہے پس جبرئیل آئے پوچھا سو حضور نے بتا دی وہ بات جو کہی تھی کہ اﷲ خوب جانتا ہے پھر اﷲ تعالیٰ نے جبرئیل کو حضور کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ حضور کو کہہ اَنَا سَنُرْ ضیْکَ فِیْ اُمَتِّکَ وَلاَ نُسُوْکَ عنقریب آپ کی امت کے متعلق ہم آپکو راضی کر دیں گے اور نہ ہی آپ کو بھلائیں گے۔

امام بخاری۱؂ نے اپنی کتا ب کے باب الغلول میں حضور سے جو روایت کی ہے جس میں لَا اَمْلِکْ لَکَ شَیْءًا فرمایا اس شخص کیلئے ہے جو قیامت کے دن کہے یا رسو ل اﷲ اغثنی یا رسول اﷲ میری مدد کیجئے (اس سے ملکیت کی نفی نہیں ہوتی) کیونکہ امام قسطلانی نے فرمایا ہے کہ میں تیری مغفرت کیلئے نہیں ہوں اور یہ بھی انتہائی زجر کی بنا پر فرمایا ورنہ آپ گنہگاروں کیلئے صاحب شفاعت ہیں اور کیوں نہ ہوں جبکہ آپ نے ارشاد فرمایا: شِفَاعَتِیْ لِاَھْلِ الْکبَائر مِنْ اُمتِّی یعنی میری شفاعت ان لوگوں کیلئے ہے جو میری امت میں گناہِ کبیرہ کرتے ہیں۔ اس حدیث کو ابو داؤد، ترمذی، حاکم اور ان کے علاوہ دوسرے محدثین نے بھی ذکر کیاہے اور جو روایت معجم کبیر میں طبرانی نے حضور سے نقل کی ہے کہ وہ مجھ سے مدد نہیں چاہیں گے اور سوائے اس کے نہیں کہ اﷲ تعالیٰ سے مدد چاہیں گے۔ یہاں حضورکا نفی کرنا ان باتوں کا ہے جو آپ کی بشری طاقت کے تحت نہیں ہیں

۱؂: بخاری شریف نور محمد اصح المطابع دہلی صفحہ۴۳۲، میں تیرے لئے کچھ نہیں کرتاکیونکہ میں نے تجھے تبلیغ کی تھی (الحدیث باب الغلول)۔

جیسے گناہوں کا بخشوانا ، ارشاد خداوندی ہے وَمَنْ یَغْفُر الذَّنُوْبَ اِلاَّ اﷲ ط

مسلمان کی شان کے یہ بات مناسب ہی نہیں ہے کہ وہ ان تمام امور میں جو کہ حضور سیّد پاککے لائق ہیں اور آپ کے زیر قدرت ہیں اور جو کہ آپ کے منصب شریف کے متعلق ہیں اور آپ کے تصرف منیف کے تحت ہیں، کسی قسم کی گفتگو کرے جبکہ اﷲ تعالیٰ نے ساری زمین کے جملہ خزانوں کی تمام چابیاں صاحب ِ لولاککے دست تصرف میں عطا فرما کر آپکو تمام کائنا ت میں تقسیم کرنے کے اختیارات مرحمت فرمائے۔

امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم سے روایت کی ہے کہ حضور نبی کریم نے فرمایا ’’مجھے وہ چیز عطا کی گئی ہے کہ جو مجھ سے پہلے انبیاء کرام گزر چکے ہیں، ان میں سے کسی کو بھی وہ نہیں دی گئی ۔ نیز تمام روئے زمین کے خزانوں کا تصرف مجھے دیا گیا۔‘‘ علامہ علقمی نے تصریح کے ساتھ لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

حاکم نے ابی ہریرہ صسے روایت کی ہے کہ سیّد دو عالم نے فرمایا ’’میں ابو القاسم ہوں۔ اﷲ تعالیٰ عطا فرماتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔ اور یہ حدیث بھی صحیح ہے۔ علامہ عزیزی نے اسکی تصریح فرمائی۔ حضرت علامہ قسطلانی نے اس کی شرح میں فرمایا کہ بعض علماء نے ’’خزائن الارض‘‘ سے ـ’’ جہان کے اندر ہر شے ‘‘ مراد لی ہے۔ یعنی تمام چیزوں کے خزانے جو کہ جہان میں ہیں، حضور کو عطا کئے گئے ہیں تا کہ حسب حیثیت و طلب ہر ایک کو تقسیم فرماویں۔ در حقیقت اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم کو جو کچھ مرحمت فرمایا اور آپ کو جو جو انعامات سے سرفراز فرمایا اپنی مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دئیے، جیسا کہ حضور کا سیّد المرسلین ہونا، خاتم النبییّن ہونا۔(یعنی تمام انبیاء سے آخری ہونا) ،قیامت کے دن رب العا لمین کے حضور میں تمام امتوں کا شفاعت کرنے والا ہونا، وغیرہ وغیرہ۔

وصال کے بعد قبل از حشر قبر کی زندگی میں تمام انبیاء برابر ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی اپنی کتاب مستطاب ’’انباء الا ذکیاء بحیات الا نبیاء‘‘ میں فرماتے ہیں کہ احادیث متواترہ اور علم قطعی سے بنی اکرم و انبیاء کرام کی زندگی ہمارے علماء (علماء اہلسنّت و جماعت) کے نزدیک دلائل سے ثابت ہے۔ جیسا کہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت انس صسے روایت کی ہے کہ نبی کریم معراج کی رات حضرت موسیٰں پر گزرے، اس حال میں کہ حضرت موسی ٰں اپنی قبر شریف میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ نیز اس حدیث کو ابو نعیم نے ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ ں اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔

ابی یعلیٰ نے اپنی مسند میں اور بیہقی نے اپنی کتاب حیات الا نبیاء میں حضرت انس سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا کہ’’ انبیاء کرام زندہ ہیں اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں‘‘۔ نیز ابو داؤد اور بیہقی نے اوس الثقفی صسے روایت کی ہے کہ سیّد دو عالمنے فرمایا ’’یقینا اﷲ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے‘‘۔ بیہقی نے کہا کہ انبیاء کے وصال کرنے کے بعد ان کی زندگی ثابت کرنے کیلئے دلائل موجو د ہیں۔ چنانچہ واقعہ معراج بیان کرتے ہوئے ابی ہریرہ صسے روایت کرتے ہیں کہ حضورجماعت انبیاء میں ہر ایک جماعت کو ملے ۔ انہوں نے حضورسے گفتگو کی اور حضورنے ان سے گفتگو کی، حضورنے حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السلام کو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے دیکھا۔ پس جب نماز کا وقت آیا تو پھر حضورنے ان کی امامت کے فرائض بھی سر انجام دیئے۔

ابن حبان نے اپنی صحیح میں اوس بن اوس سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ یقینا تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتاہے پس مجھ پر کثر ت سے درود پڑھا کرو۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اﷲ ! ہمارا درود آپ پر کس طرح پیش کیا جائے گا جبکہ آپ مٹی میں ہوں گے۔ حضور نے فرمایا اِنَّ اﷲ َ حَرَّمَ عَلیَ الْاَرْضِ اَنْ تاْکُلَ اَجْسَادَ الْاَ نْبِیآءِ یعنی اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کے اجساد کا کھانا زمین پر حرام کر دیا ہے۔ ابن ماجہ نے ابی الدرداء سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ ہر ایک کا درود جس وقت وہ درود پڑھنے سے فارغ ہو تاہے مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے پوچھا حضور آپ کے وصال فرمانے کے بعد بھی پیش کیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا ہاں یقینا اﷲ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے اجساد کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ اﷲ کے انبیاء زندہ رہتے ہیں، جبھی انبیاء وصال کرتے ہیں یعنی بعد اس کے ان پر ایک آن کیلئے موت طاری ہوتی ہے۔ ان کے ارواح مقدسہ ان پر لوٹا دیئے جاتے ہیں اور ان کی زندگی شہداء کی زندگی کی طرح ہوتی ہے۔ ۱؂ ( یہاں پر ابن ماجہ کا کلام ختم ہوتا ہے)

امام قرطبی نے تذکرہ میں لکھا ہے کہ یہ بات قطعاً صحیح ہے کہ انبیاء کے جسموں کو زمین نہیں کھاتی۔ معراج کی رات نبی اکرم بیت المقدس میں تمام انبیاء سے ملے۔ جس جس نے آپ کو سلام کیا۔ آپ نے ہر ایک کو سلام کا جواب دیا۔ سوائے اس کے اور بھی بہت سے دلائل ہیں جن سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام کے وصال کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہم سے غائب ہیں اس حیثیت سے کہ انکو ہماری آنکھیں نہیں پاتیں، اگرچہ وہ زندہ موجود ہیں فرشتوں کی طرح پس جس طرح فرشتے زندہ موجود ہیں ہم میں سے ان کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ مگر اﷲ تعالیٰ جس کو مخصوص کرے اپنی کرامت کے ساتھ— انتھی (لہٰذا انبیاء کرام بھی اسی طرح زندہ موجود ہیں، مگر انہیں ہم نہیں دیکھ سکتے) ۔

شیخ تقی الدین سبکی نے فرمایا ہے کہ انبیاء اور شہدا کی قبر کی زندگی بعینہٖ دنیوی زندگی کی طرح ہے اور اس پر موسیٰ ں کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا ثبوت کیلئے کافی ہے۔ چونکہ نماز پڑھنے کیلئے جسم ضروری ہے اور معراج شریف کی رات یہ تمام صفتیں انبیاء کرام میں کلی طور پر موجود تھیں لہٰذا ان کی حیات ثابت ہے۔

جناب شیخ علی القاری درۃ المضیبہ فی زیارۃ المصطفویۃ میں تحریر فرماتے ہیں کہ

۱؂ : انبیاء کرام کی زندگی شہداء کی طرح نہیں ہوتی کیونکہ ان کی زندگی معنوی روحانی ہے اور انبیاء کرام کی زندگی دنیوی، حقیقی اور جسمی ہے جیسا کہ شیخ محقق علی الاطلاق عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اﷲ الباری نے اپنی کتاب مستطاب ’’اشعۃ اللمعات شرح مشکواۃ ‘‘میں فرمایا ’’و حیات انبیاء متفق علیہ است ہیچ کس را در وے خلافے نیست، حیات جسمانی، حقیقی دنیوی نہ حیات روحانی معنوی چنانکہ شہدا را است —انتھی‘‘۔ صاحب مظاہر حق (شرح مشکوۃشریف) جلد اوّل ۴۵۶؂ سطر ۲۰تا۲۲ میں تحریر فرماتے ہیں ’’اور اخیر حدیث کا حاصل یہ ہے کہ زندہ ہیں انبیاء قبروں میں یہ مسئلہ متفق علیہ ہے کسی کو اس میں اختلاف نہیں کہ حیات انکو وہاں حقیقی جسمانی دنیا کی سی ہے، نہ حیات معنوی روحانی جیسے شہداء کو ہے اور سوائے انکے اور اموات (مردے) بھی سنتے ہیں، سلام اور کلام اور عرض(پیش) ہوتے ہیں۔ اعمال اقربا ان کے بعض ایام میں۔‘‘

جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ (موت کے بعد) شہداء کی زندگی حقیقی زندگی ہوتی ہے۔ ایک قول تو یہ ہے کہ یہ زندگی روح کیلئے ہے۔ اور دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ زندگی جسم کیلئے بھی ہے۔ اس لحاظ سے ان کا جسم گلتا سٹرتا نہیں اور ان کے بدن میں خون کی موجودگی اور بد ن کی تازگی جیسی علامتیں موجود ہوتی ہیں جن کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ ان تمام احادیث سے ہمارے حضور کی حیات جسم اقدس اور روح مبارک کے ساتھ اسی ہئیت کے ساتھ جس طرح وصال سے پہلے آپ کا وجو د پاک تھا بغیر کسی تبدیلی کے ثابت ہے۔

علامہ شیخ علی القاری ’’درۃ المضیہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ان احادیث سے جان لیا گیا ہے کہ حضور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہیں۔ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حضورزندہ ہیں اور ان کا جسم زمین نہیں کھا سکتی اور تمام انبیاء بھی اسی طرح زندہ ہیں۔ نیز تمام علماء کا اس پر اجماع ہے۔ پس ثابت ہو گیا کہ نبی اکرم کے وجود مبارک میں کوئی اور کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی اور اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں جیسا کہ دنیا میں زندہ تھے۔

احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے ابو ذر غِفاری سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمنے فرمایا :’’میں وہ چیز دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے‘‘۔ حضور نبی کریم کی اس دنیا میں خلافِ عادت دیکھنے اور سننے کی ایک خاص کیفیت تھی جس پر یہ حدیث نص ہے۔ اس بارے میں بہت سی احادیث موجود ہیں کہ حضور بطور معجزہ کے وہ سب کچھ سنتے تھے جو تم نہیں سن سکتے ہو اور وہ سب کچھ دیکھ سکتے تھے جو تم نہیں دیکھ سکتے ہو۔

بخاری شریف میں اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نے (ایک بار) حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا۔ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو میں نے نہ دیکھی ہو مگر دیکھ لیا میں نے اسکو اس جگہ یہاں تک کہ جنت اور جہنم کو بھی دیکھ لیا۔بخاری شریف میں ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا۔’’ میں نے جنت کو دیکھااور انگور لیا اور اگر میں اس کو لے لیتا تو تم ضرور اس سے کھاتے رہتے اور وہ ختم نہ ہوتا۔ مجھ کو جہنم دکھائی گئی آج ایسا ڈراؤنا منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا، میں نے اکثر عورتوں کو جہنم میں دیکھا۔ عرض کیا گیا کیوں اے اﷲ کے رسول! فرمایا انکے کفر کے سبب۔ عرض کیا گیا، کیا وہ اﷲ کا انکار کرتی ہیں، ارشاد فرمایا وہ اپنے خاوندوں کی نافرمانی کرتی ہیں۔‘‘

عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ فرمایا’’ میں تمہارا ہر اول (فرط) ہوں اور تم پر حاضر ہوں، بیشک تمہارے ساتھ حوض کا وعدہ کیا گیا ہے اور بلاریب میں اس جگہ سے حوض کو دیکھ رہا ہوں ۔‘‘

مسلم اور ترمذی میں جابر صسے روایت ہے ،فرماتے ہیں کہ حضور نے فرمایا

’’جب میں معراج کو راتوں رات لے جایا گیا تو قریش نے مجھے جھٹلایا۔(اس وقت) میں حجر (حطیم) کے قریب کھڑا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے لا کر کھڑا کردیا۔ میں نے ان کی پوچھی ہوئی تمام نشانیاں بتانی شروع کردیں گویا اس کو میں اب بھی دیکھ رہا ہوں۔‘‘

بخاری شریف میں ابی ہریرہ صسے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا ’’کیا تم میرے اس قبلہ کو دیکھتے ہو۔

فواﷲ لا یخفی علی خشوعکم ولا رکوعکم انی لا راکم من ورآء ظھری

(حاشیہ بخاری شریف)

ترجمہ: ا ﷲ کی قسم کہ (نمازمیں) تمہاری قلبی کیفیت اور حالت اور تمہارا رکوع بھی مجھ سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی ضرور دیکھتا ہوں۔‘‘ (حاشیہ بخاری شریف )

امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کی ہے ‘ وہ فرماتے ہیں

’’کَانَ رسُول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یَریَ باللَّیل فی الّظُلْمَۃ کَمَا یَرَی بِالنَّھَارِ فِی الضَّوْٓ ءِ ‘‘

یعنی سیّد دو عالمجس طرح دن کو روشنی میں دیکھا کرتے تھے، اسی طرح رات کی تاریکی میں یعنی بغیر کسی قسم کی روشنی کے ہر ایک چیز کو دیکھا کرتے تھے۔

شیخ علامہ محمد الحفنی نے شرح میں لکھاکہ اﷲ تعالیٰ نے حضورکی قوتِ بصارت کو کامل فرمایا۔سیّد دو عالمکا بطورِ معجزہ سننا بھی بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔ بخاری شریف میں حضور کا ارشاد ہے، فرماتے ہیں کہ مجھے یہاں تک لے جایا گیا کہ میں استویٰ تک پہنچا اَسْمعُ مَرِیْر اَلاَقْلاَ مِ کہ میں قلم(الٰہی) کی آواز سن رہا ہوں۔

مسلم شریف میں ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جبرئیل ایک دن حضور نبی اکرمکے قریب بیٹھے تھے کہ حضورنے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی اور سرِاقدس اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا فقال جبریل علیہ السلام ھذا باب من السمآء فتح الیوم لم یفتح قط الا الیوم ( جبرئیل ں نے عر ض کیا آسمان کے دروازوں میں سے یہ ایک وہ دروازہ ہے جو آج کے دن ہی کھولا گیاہے، اس سے پیشتر کبھی بھی نہیں کھولا گیا تھا)۔

ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں انس بن مالک صسے روایت کی ہے کہ حضورنے فرمایا

’’آسمان (بوجۂ کثرتِ ملائکہ کے) چرچر کرنے لگا اور اس کو چرچر کرنا چاہئے تھا۔ مجھے قسم ہے اس ذات مقدس کی جس کے قبضہ قدرت میں محمدکی جان ہے ،آسمان میں ایک بالشت بھر بھی ایسی جگہ نہیں جہاں ایک نہ ایک فرشتہ سجدہ کناں نہ ہو۔‘‘

’’شعب الایمان‘‘ میں بیہقی نے اس حدیث کو اخراج کیا ہے کہ ابی ہریرہ صکہتے ہیں کہ رسول اﷲنے فرمایا’’ میری قبر کے پاس جو مجھ پر درود پڑھتا ہے میں اس کے درود کو خود سنتا ہوں اور جو شخص دور سے مجھ پر درود پڑھتا ہے تو وہ مجھے پہنچا دیا جاتا ہے۔‘‘

حضرت انس صسے روایت کی گئی ہے کہ رسول اﷲنے فرمایا ہے کہ ’’جس نے جمعہ کے دن اور رات پچھتر ۷۵ بار درود پڑھا اﷲ تعالیٰ اس کی سو ضرورتیں پوری کرتا ہے: ستر آخرت میں اور تیس دنیا میں۔ اﷲ تعالیٰ نے اس درودپر ایک فرشتہ مقرر فرمایا ہے جو اس درود کو قبر میں بعینہٖ میرے سامنے پیش کرتا ہے جس طرح تمہارے لئے کوئی دوست تحفہ تحائف پیش کرتا ہے۔ وہ فرشتہ مجھے بتاتا ہے کہ درود پڑھنے والے کا کیانام ہے، اس کا نسب کیاہے،اس کا قبیلہ کیا ہے۔ پھر میں اس کو اپنے پاس روشن کتا ب میں درج کر لیتا ہوں۔‘‘ اور ایک روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں۔

اِنَّ عِلْمِیْ بَعْدَ الْمَوْتِ کعِلْمِیْ فِی الْحَیَاۃ —الحدیث

ترجمہ:وصال شریف کے بعد میرا علم ایسا ہی ہو گا جیسا کہ زندگی میں تھا۔

شیخ محمد عابد السندھی نے اپنی شرح مسند امام ابو حنیفہمیں کہا کہ علماء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ حضور اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں، اپنی زیارت کرنے والوں کو پہچانتے ہیں، اس کی طرف دیکھتے ہیں، اس پر خبردار ہیں، بسا اوقات اﷲ تعالیٰ زائر کے دل کی خبر آپ کو دیتا ہے اور جو کچھ اس کے دل میں ہے اس کی بھی اطلاع دیتا ہے اور جس کو یہ حضوری حاصل ہو وہ ہر کمال کے ساتھ مزّین ہے — انتھٰی

شیخ علی القاری نے کتا ب مستطاب عین العلم اور درۃ المضیۃ فی زیارۃ المصطفوّیہ میں حضورسے روایت کیا ہے کہ آپ کی اُمت میں سے جو امتی آپ کی قبر مبارک پر حاضر نہ ہوسکتے ہوں اور آپ پر سلام بھیجیں تو اﷲ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کو مقرر کیا ہے جو آپ کو وہ سلام آپ کی قبر شریف میں پہنچا دیتا ہے۔ پس تو خوب سمجھ لے کہ ان احادیث سے معلوم ہو گیا ہے کہ آپ ہمیشگی کے ساتھ زندہ ہیں۔ یہ بات عادتاً محال ہے کہ دنیا میں کوئی وقت بھی ایسا نہیں کہ سلام بھیجنے والے آپ پر سلام نہ بھیج رہے ہوں چاہے دِن ہو یا رات ۔ لہٰذا ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حضور اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں اور ان کے جسم اطہر کو زمین نہیں کھا سکتی اور اسی طرح تمام انبیاء کا حال ہے اور اسی پر اجماع ہے — انتہیٰ۔ اور حضرت علی القاری رحمہ اﷲ الباری نے فرمایا کہ حضور کی زیارت شریف کے عظیم ترین فوائدمیں ایک فائدہ ہے کہ حضورکی زیارت شریف کرنے والا جب دُور سے درود و سلام پڑھے تو حضورکو ذریعہ سے یہ درود و سلام پہنچتاہے۔

ابن ابی شیبہ اور دوسرے راویوں نے اسناد جید کے ساتھ حضور سے روایت کیا ہے کہ فرمایا’’ جس شخص نے میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود پڑھا میں اس کو سنتا ہوں اورجس شخص نے مجھ پر دُور سے درود پڑھا وہ مجھے پہنچا یا جاتا ہے۔ ‘‘(شیخ علی القاری کا کلام یہاں ختم ہوتا ہے)۔

مندرجہ بالا حدیث میں سلام کا ذکر نہیں صرف درود کا ذکر ہے مگر ابو داؤ د نے اسناد صحیح کے ساتھ ابی ہریرہ صسے روایت کیا ہے کہ’’ حضور نے فرمایا مَا مِنْ اَحَدٍ یُسَلِّمْ عَلَّیَ اِلاَّ رَدَّ اﷲ ُ رُوْحِیْ حَتّٰی اَرُدَّ عَلَیْہِ السَّلَا مکوئی شخص ایسا نہیں ہے جو مجھ پر سلام بھیجتا ہو مگر اﷲ نے مجھ پر میری روح لوٹائی ہے تاکہ میں اس کو سلام کا جواب دوں۔‘‘ بعض اوقات اس حدیث میں روح کا جسدا قدس سے جدا ہونا متوہم ہوتا ہے۔ یہ کوئی تردد کی بات نہیں کیونکہ گزشتہ احادیث بھی اس وہم کے مخالف ہیں نیز میں نے اس وہم کے متعلق کئی بار سوچا تو مجھ پر اﷲ تعالیٰ نے کئی طریقوں سے اس اشکال کو حل فرمایا ہے۔ ان میں سے زیادہ قوی جواب یہ ہے کہ حضور کا ارشاد رَدَّ اﷲُ عَلَّی رُوْحِی (اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر میری روح لوٹائی ہے) جملہ حالیہ ہے اور جس وقت حال فعل ماضی میں واقع ہو تو لفظ قَدْ مقدر ہوتا ہے جیسے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَوْ جَآء اکُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُکُمْ یعنی قَدْ حَصِرَ ت اسی طرح یہاں بھی قَدْ مقدر کیا جائے گا اور یہ جملہ ( رَدَّ اﷲ عَلیَّ رُوْحِیْ) لفظ سلام سے پہلے ماضیہ ہے اور ہر ایک سلام بھیجنے والے کے سلام سے پہلے واقع ہے اور کلمہ حتیٰ جو ہے یہ تعلیل کیلئے نہیں بلکہ عطف ہے ’’واو‘‘ کے معنی میں۔پس حدیث کی تقدیر یوں ہوگی ما من احد یسلم علی الا قد رد اﷲ علی روحی قبل ذالک السلام وارد علیہ۔ لہٰذا یہ توجیہہ جو ہم نے بیان کی ہے۔ اس سے یہ اشکال خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ بلحاظ معنی اس قول کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ رد کے معنی حال یا استقبال کے ہوں تو مسلمانوں پر حضور کا سلام رد کے تکرار سے لازم آتا ہے نیز تکرار رد روح اور بدن کی جدائی کو مستلزم ہے۔ اس جدائی پر دو اشکال وارد ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جسد مبارک کو روح مبارک کے نکلنے سے تکلیف کا ہونا اور دوسرا یہ کہ تکرار ردّ قرآن مجید کے صریحاً مخالف ہے کیونکہ دو موتیں اور دو زندگیاں قرآن مجید سے ثابت ہیں اور یہ تکرار رد بہت موتوں کو مستلزم ہے اور یہ باطل ہے۔ نیز یہ بات احادیث متواترہ گزشتہ کے بھی مخالف ہے اور جو بات قرآن مجید اور احادیث متواترہ سے مخالف ہو تو اس کی تاویل واجب ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ حدیث وجہہ مذکور پر محمول کی جائے ۔ پھر علامہ سیوطی نے کتا ب’’ انبیاء بحیا ۃ الانبیاء‘‘ کے آخر میں فرمایا کہ میں نے اس حدیث کو لفظ قَدْ کے ساتھ کتا ب ’’حیات الانبیاء ‘‘(جو کہ بیہقی نے لکھی ہے) میں دیکھا ہے (اِلاَّ قَدْ رَدّ اﷲ ُ عَلَّی رُوْحِیْ) پس یہا ں پر لفظ قَدْ تصریحاً موجود ہے۔ جب وہاں پر یہ عبارت دیکھی تو میں نے اﷲ تعالیٰ کی بہت ہی تعریف کی، نیز یہ بات بھی قوی ہے کہ لفظ قَدْ کا حذف اس کے اضمار پر محمول ہے اور یہ کہ قَدْ کا حذف کرنا تصرف رواۃ میں سے ہے۔ پس مراد اس حدیث کی جس پر اخبار موجود ہیں( اَنَّ اﷲ َ یَرُّ د اِلَیْہِ رُوْ حَہٗ بَعْدَالْمَوْتِ) لہٰذا آپ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئے۔ اسلئے اگر کوئی آپ پر سلام بھیجے تو آپ بھی بسبب اس زندگی مبارک کے جو آپ میں موجود ہے اس پر رد سلام کرتے ہیں۔ پس یہ حدیث ان تمام احادیث کے موافق ہو گئی جن میں حضور کا قبر شریف میں زندہ ہونا بیان کیا گیا ہے۔ فللہ الحمد و المنۃ یہا ں پر علامہ سیوطی کا کلام ختم ہوتا ہے۔

’’الدرۃ المضیبہ فی زیارۃ المصطفویۃ‘‘میں شیخ علی القاری فرماتے ہیں کہ امام احمد نے اس حدیث کو ابن قدامہ سے ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے ما من احد یسلم علی عند قبری اگر یہ ثابت ہو جائے کہ سلام کرنے والے کیلئے قبر شریف کے قریب فضیلت کی خصوصیت کی واضح دلیل ہے اور اگر نہیں تو بوجہہ قبر شریف کے روبرو ہونے کے سلام عرض کرنے والے کو بغیر واسطہ کے سلام کے خطاب اور جواب سے ممتاز کیا گیا ہے۔ ’’خلاصتہ الوفا‘‘ میں حضرت امام سمہودی مدنی نے فرمایا کہ اگر مسئلہ مذکورہ ثابت ہو تو بہتر ورنہ یہ توصحیح ہے کہ قبر شریف کے پاس رہ کر سلام کرنے والا آمنے سامنے ہو نے کی بناء پر ممتاز ہوا۔ اس خطا ب کے ساتھ جو مستد عی ہے کہ حضور پر نوراسکو جواب سے سرفراز فرمائیں گے۔

امام بخاری کے اکابر مشائخ سے ایک شیخ جناب حضرت عبداﷲ المقبری فرماتے ہیں کہ یہ حدیث باب زیارت رسول سے ہے یعنی اِذَ ا زَارَنِیْ فَسَلِّمُ عَلَیَّ اَرُدُّ عَلَیْہِ السَّلَا م نیز امام سمہودی فرماتے ہیں کہ پہلی حدیث کی تائید میں یہ بات بھی ہے کہ عرف عام میں سلام کی حقیقت یہ ہے کہ جس کو سلام کیا جائے وہ سامنے اور قریب ہو۔ اس کو سلام تحیت کہتے ہیں۔ سلام تحیت کا مطلب یہ ہیکہ سلام کرنے والا جواب کا آرزومند ہے جس کو سلام کیا گیا وہ خود جواب دے یا قاصد کے ذریعہ ، نہ اس سلام کی طرح جس سے ہم دعا کا قصد کریں رسول اکرم کے واسطے ، خواہ وہ بلفظ غیب ہو یا بصیغہ حاضر ہو۔

بیہقی نے فرمایا کہ حدیث کا یہ معنی ہے کہ اِلاَّ قَدْ رَدَّ اﷲ ُ عَلَّیَ رُوْحِیْ حَتّٰی اَرُدَّ عَلَیْہ اور بعضوں نے یہ کئے ہیں۔ یہ خطاب ان لوگوں کی فہم کے اندازہ کے مطابق ہے کیونکہ البتہ روح کو لوٹانے میں ضروری ہے تا کہ سنے گویا کہ فرمایا کہ جیسے سننا چاہئے تھا۔ پوری توجہ کے ساتھ سنتا ہوں اور پوری توجہ کے ساتھ جواب سے سرفراز فرماتا ہوں۔ اور سلام کے جواب دینے پر بھی دلالت کرتا ہے جبکہ سلام کرنے والا سلام کرے اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ سلام کا جواب دینے کے بعد روح قبض ہو جاتی ہے اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں کیونکہ اسے موتو ں کا باربار آنا لازم ہوتا ہے جو کہ غیر محدود ہے اور جو حدیث نسائی اور دیگر کتا بوں میں آئی ہے ’’ اِنَّ الِلَّہِ مَلٰئِکَۃٌ سَیَّاحِیْنَ فِی الْاَرْضِ یُبَلِّغْ فِیْ مِنْ اُمَّتِیْ السَّلاَمَ اور دیگر احادیث میں ہے کہ عَرْضِ الْمَلِکَ لِصَلٰوۃِ الْاُمَّۃِ وَ سَلَا مُ ھا عَلَیْہ۔ یہ ان اشخاص کے حق میں ہیں جو حضو ر پر دُور سے سلام بھیجتے ہیں۔

علامہ سیوطی نے اپنی کتا ب مستطاب ’’حیات الانبیاء‘‘ میں لکھا ہے جس سے یہ مراد لی جا سکتی ہے ’’کہ روح سماعت سے کنا یہ ہو اور حدیث کی مراد یوں ہو گی کہ رب تبارک و تعالیٰ آپ پر خرق عادت کے طور پر آپ کو وہ قوتِ سماع عطا فرماتاہے کہ جہاں بھی کوئی شخص آپ کی خدمت عالیہ میں ہدیتہ سلام پیش کرتا ہے چاہے وہ دور ہی کیوں نہ ہو، بغیر کسی ذریعہ اور واسطہ کے آپ خود اس کو سن لیتے ہیں اور اس سے وہ سماعت مراد نہیں جو عادت کے طور پر ہو۔‘‘

حضورکیلئے دنیا میں بھی بطورِ معجزہ کے سننا ثابت ہے (جو کہ عادی سماعت کے علاوہ ہے) جیسے نبی اکرمآسمان کی آواز سنتے تھے اور یہ خرقِ عادت کبھی کبھی آپ سے الگ بھی ہو جاتی اور اسکے لوٹ آنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوتی۔ آپ کی برزخ کی زندگی اور دنیوی زندگی میں کوئی فرق نہیں ہے اور انہوں نے اپنی کتاب مستطاب میں فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ اگر ان دونوں سلاموں پر تفصیلاً گفتگو کی جائے تو سلام اوّل جو کہ سلام تحیت ہے صیغہ تخاطب کے ساتھ کیا جائے گا۔ کیونکہ اس سلام میں جواب طلب کرنے کی استدعا کی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ سلام صیغہ غائب سے مخاطب نہ ہو گااور اس سلام کو حضور بغیر کسی واسطہ یا ذریعہ کے بھی سنتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں۔ دوسرا سلام دعائیہ، حضور اس سلام کو اپنی قبر شریف کے قریب سے سنتے ہیں اور دور سے اس کو فرشتہ حضور کی خدمت اقدس میں پیش کرتا ہے۔ لہٰذا ان تمام احادیث مختلفہ کو جو کہ پہلے گزر چکی ہیں نہایت ہی اعلیٰ وجہ تطبیق ہے اور حضور کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی پر اپنی قبر شریف میں دلالت کرتی ہیں اور اس پر یہ حدیث جو کہ بخاری، مسلّم اور دوسرے محدثین نے بھی نقل کی ہے۔ مَنْ رَآنِیْ فِیْ الْمَنَا مِ فَسَیَرَانِیْ فِی الْیَقْظَۃ فَسیرَ وَلاَ یَتَمَثَّلُ الشَّیْطَانُ بِیْ یعنی امام ابو محمد بن ابی جمرہ نے اپنی تعلیق میں ( جس نے اس بخاری کی حدیث کا انتخاب کیا ہے) کہا ہے کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے اس حدیث سے کہ ’’جس نے مجھے نیند میں دیکھا قریب ہے کہ وہ بیداری میں مجھے دیکھے گا اور شیطان میری شکل اختیار نہیں کر سکتا‘‘۔کیا یہ حدیث آپ کی حیات اور بعد وصال کے عموم کی متقاضی ہے یا کہ صرف وصال شریف سے پہلے پردال ہے اور کیا یہ ہر شخص کیلئے ہے یا خاص اس شخص کیلئے جس میں اہلیت اور اتباع سنت ہو۔ اس کے بعد فرمایا (جلال الدین سیوطی نے) لفظ عموم پر جاری ہوتا ہے جو تخصیص کا دعویٰ بغیر کسی مخصص کے آپ کی طرف سے کرے ۔ پس وہ حق سے روگردان ہے اور گمراہی کا خواہاں اور جو شخص اس کا انکا ر کرتا ہے( یعنی بیداری میں دیکھنے کا) پس وہ اﷲ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پر ایمان نہ لا کر جاہل بنتا ہے۔ اور وہ یقین نہیں رکھتا اس صادق و مصدوق پر جو کہ وحی الٰہی سے بولتے ہیں۔ (اس بات کو تنویرالملک میں علامہ سیوطی نے نقل کیا ہے ۔)

علامہ ابن حجر نے العزیزی سراج المنیر شرح جامع صغیر کے بیان کو نقل کر کے کہا ’’یہ بات بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اس بنا پر لازم آتا ہے کہ بیداری میں دیکھنے والے آپ کے صحابہ ہوں اور قیامت تک صحا بیت کا سلسلہ باقی رہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ملازمہ ممنوع ہے اس لئے کہ صحابیت کیلئے عالم دنیا میں دیکھنا ضروری ہے اور یہ بات وصال شریف سے پہلے حاصل تھی۔ نیز حضور کو وصال کے بعد دیکھناتو عالم برزخ کی بات ہے اور صحابی ہونا اس سے ثابت نہیں ہوتا اور آئمہ کرام کی ایک جماعت حضور کو بیداری کے عالم میں دیکھنے کے ممکن ہونے اور واقع ہونے کی قائل ہیں۔

علامہ سیوطی نے تنویر الملک میں لکھا ہے کہ عام لوگو ں کیلئے اکثر یہ بات واقع ہوئی ہے کہ ان کی روح (یعنی جس نے حضور کو خواب میں دیکھا ہے) جسم سے نہیں نکلتی جب تک حضور کے وعدہ شریف کے مطابق مرنے سے پہلے حضور کو دیکھ نہ لیں اور جو خاص لوگ ہیں ان کو طویل عمر میں حضور کی سنت کی محافظت کے اور پیروی میں انتہائی کوشش کرنے کے طفیل ، اپنے مراتب کے مطابق زیارت حاصل ہوتی ہے۔

شیخ محمد الحفنی نے اپنی تعلیقات میں جو جامع صغیر پر ہے اس حدیث سے غافل ہو کر کہا ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک ان کو بیداری میں کیسے دیکھ سکتا ہے جبکہ وہ اپنے حجرہ شریفہ میں ہیں۔ حضور کسی ایک کیلئے نہ تو باہر تشریف لاتے ہیں اور نہ ہی آتے ہیں اور اگرچہ ان کے مراتب کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں یعنی وہ کشف کے طور پر دیکھتا ہے نیز اس شخص اور حضور نبی کریمکے درمیان تمام حجابات اٹھ جاتے ہیں ۔ حضورکے دیکھنے کی برکت سے اﷲ تعالیٰ سبحانہ اس کو بزرگی سے نوازتا ہے۔

الدرالمنتظم سے خلاصتہ الو فاء میں امام سمہودی نے نقل کیا ہے کہ جس وقت حضور نے وصال فرمایا تو اپنی امت میں ان کیلئے اپنی رحمت کو چھوڑ دیا کیونکہ آپ نے اﷲ تعالیٰ سے اپنی امت میں قیامت تک رحمت کی دعا کی۔

اور جو حدیث ’’ انا اکرم علٰی ربی من ان یترکنی فی قبری بعد ثلاث‘‘ اس حدیث کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور حدیث ابن ابی لیلیٰ کی جو یہ ہے ’’ان الانبیاء لا یترکون فی قبورھم بعد اربعین لیلۃ‘‘ الحدیث ابن ابی لیلیٰ بہت ہی حافظہ کا کمزور ہے۔ پھر سمہودی نے فرمایا ہمارا قطعی یقین ہے کہ زمین کو آپ کے جسم مبارک کاشرف حاصل ہے۔ ہر وقت ہم آپ کی صحبت سے شرف حاصل کر سکتے ہیں یہا ں تک کہ اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہو۔

ابن المسیب نے جو روایت کی ہے کہ ما مکث بی بعد الموت فی الارض اکثر من اربعین یوماًء الدرۃ المضئیۃ میں علامہ علی القاری نے فرمایا کسی نوعیت سے یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

ابن جوزی نے سعید بن المیسب سے روایت کی ہے کہ حرہ کی رات کو میں نے مسجدنبوی میں دیکھا (جبکہ مسجد نبو ی میں بغیر میرے کوئی نہیں تھا) جس وقت بھی نماز کا وقت آتا تھا حضور نبی کریمکی قبر شریف سے اذان کی آواز آتی تھی اور اقامت نماز ہوتی تو میں بھی نماز پڑھتا۔ اس واقعہ کو امام سمہودی نے خلاصۃ الو فاء میں ذکر کیا ہے۔

ابن حجر مکی کے شاگرد علامہ عبدالقادر فاکہی کتاب ’’مفاخرالا سلام‘‘ سے اپنی کتاب ’’حسن التوسل لزیارۃ افضل الرسل ‘‘میں اس حدیث کو نقل فرماتے ہیں کہ حضورکی زیارت کرنے والا ابھی مدینہ منورہ سے کافی دور ہوتا ہے کہ مقررہ فرشتے زائر کا درود حضور نبی کریمکی خدمت اقدس میں حاضر کرتے ہیں اور عر ض کرتے ہیں کہ یا رسول اﷲ وہ اشخاص آپ کی زیارت کو آرہے ہیں جن کا ہدیہ درود و سلام ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ حضور ارشاد فرمائیں گے انکو خوش آمدید کہو، جو سوار ہو ان کو میری طرف سے مصافحہ کرو اور جو پیدل ہو اس کو معانقہ کرو، اگر مدینہ منورہ حائل نہ ہوتا تو میں ان کو خود چل کر ملتا، میں ان کا حق اس دن پورا کرونگا جس دن سوائے میری محبت کے اور کوئی وسیلہ نہ ہو گا — انتہیٰ ۔

ابی حجرہ نے کہا حضورکو خواب میں دیکھنے سے انکار کرنے والا اسلئے انکار کرتا ہے کہ بیداری میں دیکھنے کا منکر ہے۔ جو شخص اولیاء کرام کی کرامات کی تصدیق کرتا ہے تو بہتر اور جو شخص کرامات اولیاء کو جھٹلاتا ہے تو اس سے بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ یقینا یہ شخص اس چیز کی تکذیب کرتا ہے جو سنت (رسول) سے ثابت ہے۔ نیز اگر یہ تصدیق کرتاہے تو یہ اسی تصدیق کرنے والے گروہ سے ہے کیونکہ اولیاء کیلئے خرقِ عادت کے طور پر عالم بالا اور عالم زیرین کے حقائق کھل جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ جب اس کی تصدیق کرتا ہے تو پھر کس طرح (رویت رسول) کا انکار کرے گا۔ سلف اور خلف سے یقینا یہ بات آج تک ایسی ہی چلی آرہی ہے کہ حضورنیند میں دیکھے گئے ہیں اور وہ لوگ جو اس حدیث کی تصدیق کرتے ہیں انہوں نے حضورکو خواب میں دیکھنے کے بعد پھر بھی بیداری میں دیکھا ہے اور جن مسائل میں یہ حضرات پریشان تھے حضورسے (بالمشافہ) پوچھا تو حضورنے ان کی پریشانی دور فرما کر اور مشکلات حل کر کے ان کو مطلع فرمایا اور جس طرح حضورنے واضح طور پر بتایا وہ مسئلہ اسی طرح بغیر کسی قسم کی کمی بیشی کے پورا ہوا۔ (انتھی کلامہ)

علامہ سیوطی نے بعض مجامیع سے تحریر کیا ہے کہ جب میرے سردار احمد رفاعینے حج کرنے کے بعد مدینہ منورہ کی حاضری دی ،کچھ دیر توقف کے بعد حجرہ شریفہ کی طرف متوجہ ہو کر یہ اشعار پڑھے

فِیْ حَالَۃِ البُعْدِ رُوْحِیْ کُنْتُ اُرْسِلُھَا

وَ ھٰذِہٖ دَوْلَۃُ الْاَشِْبَاحِ قَدْ حَضَرَتْ

فَقَبَّلَالْاَرْضَ عَنِّیْ َ فَھَنَّنِیْ ناَئِبَتِی

فَامْدُدْ یَدَکَ تَحْطِنِیْ بِھَا شَفَتِیْ

ترجمہ: جب میں یہاں سے دور تھا تو اس وقت اپنی روح کو بھیجا کرتا تھا وہ میری نیابت کرتے ہوئے اس مقدس سر زمیں کو بوسہ دیا کرتی تھی اور آج میں جسم و جاں کے ساتھ آپکی خدمت میں حاضر ہوں حضور اپنا دست مبارک نکالئے تا کہ میرے لب بوسہ دے کر فیضیاب ہو جائیں۔

جب یہ اشعار پڑھے تو سیّد پا ککا دست مبارک قبر شریف سے باہر رونق افروز ہوا تو دست مبارک پر سیّد احمد رفاعی نے بوسہ دیا۔شیخ برہان الدین البقاعی کہتے ہیں کہ امام ابوالفضل النووی نے مجھے بیان کیا کہ سیّد نورالدین یحییٰ کے باپ عفیف الدین جس وقت حضورکے روضہ منورہ پر حاضر ہوئے تو عرض کیا السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اﷲ و برکاتہ جو شخص حضورکے روضہ میں حاضر تھا، آپ کی قبر شریف سے اس نے سنا کہ حضورنے فرمایا و علیک السلام یا ولدی۔

حافظ محب الدین بن البخاری نے اپنی کتاب تاریخ میں کہا ہے کہ مجھے ابو احمد داؤد علی بن احمد بن ہبتہ اﷲ بن سلمۃ نے خبر دی ہے کہ ابو الفرج المبارک بن عبد اﷲ بن محمد المنصور نے ہم سے یہ بات بیان کی کہ ہمارے شیخ ابوالنصر عبدالواحد بن عبد الملک بن محمد بن ابی سعید الصوفی الکرخی نے فرمایا کہ میں نے حج کیا اور حضور کی زیارت سے مشرف ہوا تو حضور کے حجرہ مبارکہ کے قریب میں بیٹھا ہواتھا کہ حضرت شیخ ابو بکر الدیار بکری تشریف لائے اور حضور نبی کریمکے حضور میں حاضر ہوئے اور عر ض کیا السلام علیک یا رَسُوْل اﷲجتنے لوگ وہاں موجود تھے ان سب نے سناکہ حضورکے حجرہ مبارک کے اندر سے آواز آئی وعلیک السلام یا ابابکر (تنویر الملک کی عبارت ختم ہوئی)۔

اﷲ تعالیٰ کے فضل کا امید وار محمد ایوب بن محمد لطیف اﷲ الحنفی پشاوری اس رسالہ ’’تحفۃ الفحول فی الا ستغاثہ بالرسول ‘‘کو جمع کرنے والا کہتا ہے جب میں چوتھی بار مناسک حج سے فراغت حاصل کر کے مدینہ منورہ کو پہنچا تو حضورکے چہرہ انور کی طرف منہ کرکے اور قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہوا اور حضورکی بارگاہِ اقدس میں قبولیت کی امید رکھتے ہوئے اس رسالہ کو میں نے تحفتاً پیش کیا اور اﷲ تعالیٰ کی بارگاہِ کریم میں اپنے بڑے بڑے گناہوں کی بخشش کیلئے دعا کی کہ اﷲ تعالیٰ اس رسالہ کو میری بخشش کا اچھا وسیلہ بنا اور یہ کہ بیداری میں، میں رؤف و رحیم رسول اکرمکو دیکھوں اُسی طرح جس طرح کہ بچپن میں دیدارِ پُر انوار سے مجھ کو خواب میں مشرف کیا گیا تھا تا کہ رسول اکرم کی حدیث شریف (جس میں کسی کو خلاف نہیں ) کی حقانیت روشن ہو۔

۱۳۲۸؁ ہجری محرم الحرام کے آخری دن میں چاشت کے وقت یہ تحفہ سیّد دو عالمکی بارگاہ معلّٰی میں پیش کیا گیا— الَحَمْدُ لِلّٰہ ثم الَحَمْدُ لِلّٰہ

سگِ درگاہ عالیہ قادریہ حضرت سیّد حسن صاحب قادری

(فقیر ) محمد امیر شاہ قادری

۲۷جمادی الآخر ۱۳۸۲؁ ہجری؍۲۵ نومبر ۱۹۶۲؁ء

بروز اتوار ۔بوقت ۸ بج کر ۲۰ منٹ عشاء

( یہ ترجمہ مکمل ہوا)(پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔