Sunday, 25 June 2017

مسلہ ایصال ثواب احادیث مبارکہ کی روشنی میں

ایصالِ ثواب کا جواز صراحتا احادیث طیبہ میں مذکور ہے۔اس لئے مسلمان اپنے ماں باپ اور دیگر خویش و اقارب کے وفات کے بعد ان کے نام سے طرح طرح کے نیک کاموں کا ثواب ان کی روح کو پہونچاتے ہیں جو بلاشبہ جائز اور میت کے لئے نجات ومغفرت اور بلندی درجات کا سبب ہے۔مگر افسوس اب اس جائز عمل کو بھی لوگ اپنی طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں ۔اس لئے ذیل میں ہم مختلف احادیث طیبہ کی روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہیں ۔اللہ تعالی قبول حق کی تو فیق عطا فر مائے۔

ایصال ثواب کا مطلب یہ ہے کہ کسی نیک کام جیسے تلاوت قرآن ،صدقات وخیرات وغیرہ کا ثواب میت کی روح کو پہنچانا۔بلا شبہ جائز ہے۔اس کا جائز ہونا متعدد احادیث صحیحہ سے ثا بت ہے۔ان میں سے کچھ یہ ہیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :ایک آدمی نے حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا :میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقت نزاع)گفتگو کر سکتی تو صد قہ کرتی ۔اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب پہونچے گا آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں۔(بخاری ،حدیث:۱۳۲۲،مسلم،حدیث:۱۰۰۴،ابوداود،حدیث:۲۸۸۱)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :ایک شخص نے حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا :میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے مال چھوڑا ہے مگر اس کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی کیا ہے ۔اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ صدقہ کرنا اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا ؟آپ ﷺ نے فر مایا :ہاں۔(مسلم،حدیث:۱۶۳۰،نسائی،حدیث:۳۶۵۲،ابن ماجہ،حدیث:۲۷۱۶،مسند احمد بن حنبل،حدیث:۸۸۲۸،صحیح ابن خزیمہ،حدیث:۲۴۹۸)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :ایک شخص نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ!میری والدہ انتقال کر چکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا ؟آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں۔اس نے عرض کیا :میرے پاس ایک باغ ہے آپ گواہ رہے میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کردیا۔(تر مذی،حدیث:۶۶۹،ابوداود،حدیث:۲۸۸۲،نسائی،حدیث:۳۶۵۵)

:حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی والدہ انتقال کر گئی تو انہوں نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ!میری والدہ انتقال کر گئی ہے ۔کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں ؟فر مایا :ہاں !انہوں نے عرض کیا :تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا؟آپ ﷺ نے فرمایا:پانی پلانا۔پس مدینہ منورہ میں یہ سعد کی پانی کی سبیل ہے۔
(نسائی،حدیث:۳۶۶۲،۳۶۶۶،ابن ماجہ،حدیث:۳۶۸۴،مسند احمد بن حنبل،حدیث:۲۲۵۱۲)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلئہ جحنیہ کی ایک خاتون نے حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا :میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک انتقال کر گئی ۔کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟فر مایا :ہاںتم اس کی طرف سے حج کرو۔بھلا بتائو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں ؟اللہ تعالی کا حق ادا کیا کرو،کیو نکہ اللہ تعالی زیادہ حقدار ہے کہ اس سے وفاء کی جائے۔(بخاری، حدیث:۱۷۵۴،نسائی،حدیث:۲۶۳۲،صحیح ابن خزیمہ،حدیث:۳۰۴۱)

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں بیٹھا ہواتھا کہ ایک عورت نے حاضر ہو کر عرض کیا:میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہوگئی ہے ۔آپ ﷺ نے فر مایا:تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹادی ہے۔اس عورت نے عرض کیا :یارسول اللہ ﷺ!میری ماں پر ایک مہینے کے روزے باقی تھے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟فر ما یا:ہاں،اس کی طرف سے روزے رکھو۔اس نے عرض کیا :میری ماں نے حج کبھی نہیں کیا تھا ،کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کر لوں؟آپ ﷺ نے فر مایا :ہاں،اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو۔ (مسلم،حدیث:۱۱۴۹،ترمذی،حدیث:۶۶۷،سنن الکبری ،حدیث:۶۳۱۴،۶۳۱۶)

ان احادیث مبارکہ سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہوگیا کہ میت کی طرف سے ہر نیک کام کرکے اس کا ثواب پہونچانا صحابہ وصحابیات رضی اللہ عنھم و عنھن میں رائج ومعمول تھا جس کی اجازت خود اللہ کے رسول ﷺ نے دیاتھا،اس لئے اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ بھی نہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

احکام شر عیہ دو طرح کے ہیں۔ایک وہ جس کے لئے شریعت میں وقت ،ہیئت اور مقدار مقرر ہے۔جیسے نماز،روزہ،زکوۃ اور حج وغیرہ ۔ان کا حکم یہ ہے کہ شریعت نے جو وقت اور ہیئت ومقدار مقرر کردیا ہے اسی وقت اور ہئیت ومقدار کے ساتھ اِن عبادتوں کو کوئی انجام دے سکتا ہے اور اگر خلاف کیا تو ادا نہ ہوگی۔دوسرے وہ جن کے لئے شریعت نے کوئی خاص وقت ،ہئیت اور مقدار متعین نہ کیا ۔جیسے تلاوت قرآن ،ذکر خدا ورسول،درود شریف اور دوسرے نیک کام ۔ان کا حکم یہ ہے کہ کرنے والا جس وقت ،جس ہئیت اور مقدار میں چاہے کرے اسے اس کا ثواب ملے گا بشر طیکہ کوئی خاص وقت یا ہئیت سے شریعت نے منع نہ کیا ہو۔ایصال ثواب بھی اسی دوسری قسم میں سے ہے۔تو آدمی جب چاہے کرے میت کو اس کا ثواب پہونچے گا۔رہی بات ،تیجہ ،دسواں ،بیسواں یا چالیسواں وغیر ہ کی یہ تعیین عرفی ہے شرعی نہیں جو بلا شبہ جائز ہے۔مشہور احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے پیر کے دن کو روزہ رکھنے کے لئے خاص فر مایا تھا،ہر سال شہدائے احد کی قبروں پر تشریف لے جاتے تھے ،اس کے علاوہ آپ ﷺ نے اپنے ہر کام کے لئے اوقات مقرر فر مایا تھا ۔اس لئے اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ہاں یہ ضروری ہے کہ ان تاریخوں کو آدمی ضروری نہ سمجھے کہ اس تاریخ کو نہیں کیا تو اب ہوگی ہی نہیں۔اور الحمد للہ ایسا کوئی جاہل سے جاہل آدمی بھی نہیں سمجھتا۔اس لئے اس پر طعن کرنا در حقیقت احادیث مبارکہ پر طعن کرنا ہے۔اور بلاوجہ مسلمانوں کے درمیا ن تفرقہ ڈالنا ہے جو سخت مذموم ہے۔

قرآن خوانی پر اجرت لینا دینا منع ہے ۔چنانچہ جب پڑھنے والے نے ان روپیوں کے بدلے پڑھا تو یہ خود حرام ہے اور حرام کام پر ثواب نہیں ملتا ۔تو جب خود پڑ ھنے والے کو ثواب نہیں ملا تو پھر اسے دوسرے تک پہونچانا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ہاں اگر اخلاص کے ساتھ ایصال ثواب کی غرض سے قرآن شریف کی تلاوت کر کے یا کسی دوسرے سے کراکے ،ایصال ثواب کرے جس میں روپئے پیسے کی کو ئی بات نہ ہو تو بلا شبہ جائز ہے۔نیز پڑھنے والے نے اخلاص کے ساتھ بغیر اجرت کی نیت سے پڑھا مگر بعد میں صاحب خانہ نے قرآن شریف پڑھنے کی اجرت کی نیت سے نہیں بلکہ محبتاََ تحفہ کے طور پر کچھ دیا تو پھر اس کے جائز ہونے میں کو ئی کلام نہیں ۔ (مکمل تفصیل دیکھئے۔فتاوی رضویہ،جلد:۴؍ص:۲۲۱)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...