عید کا پیغام اہلِ اسلام و انسانیت کے نام
جو بندے اطاعت و اتباع ، عبادت و تقوی کے ساتھ خوشی مناتے ہیں وہ اللہ تعالی کے محبوب ہیں اور جو تکبر و نافرمانی کے ساتھ اظہار خوشی کرتے ہیں وہ اللہ تعالی کے پاس مبغوض وناپسند ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ ۔
ترجمہ : یقیناً اللہ تعالیٰ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔ (سورۃالقصص آیت نمبر 76)
دینِ اسلام کے سایۂ رحمت و ظلِ عاطفت میں رہنے والوں کو خالق کائنات نے بے عدد خوشیاں اور کئی عیدیں عطافرمائیں ہیں، جن میں مشہور عید یں یہ ہیں : (1) عیدالفطر (2) عیدالاضحی(3) عیدُالاعیاد (عید میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) (4) عید المومنین (جمعہ )
عیدُ الاضحیٰ اللہ عزوجل سے محبت ، ابستگی ، وفاداری ، وفا شعاری اور خواہش نفس پر خواہش رب کو مقدم رکھنے کے تجدید عہد و پیمان کا دن ہے ، جس طرح اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حکم ِ ربی پر سر تسلیم خم کر تے ہوئے سچی وفاداری اور غلامی کا ثبوت دیا تھا اور اپنے زبانی قول پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اللہ عزوجل کی محبت میں آگ میں داخل ہو کر ، دعوتِ دین کی خاطر وطن عزیز کو خیر باد کہہ کر ، اللہ عزوجل کی مرضی پر اکلوتے فرزند اور ان کی ماں کو بے آب و دانہ وادی میں چھوڑ دیا اور پھر لخت جگر ، نور نظر ، آنکھوں کی ٹھنڈک اور بڑ ھاپے کا سہارا اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلاتے ہوئے عملی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے زبان حال و قال سے کہا تھا : میری نماز اور میری تمام عبادات (جیسے قربانی وغیرہ) اور میری پوری زندگی اور پھر میری موت سب اللہ کےلیے ہے ۔
عید الاضحی کے موقع پر ہر مسلمان قربانی اسی جزبہ کے ساتھ اور اسی ارادہ و عہد کے ساتھ قربانی کرے کہ اے اللہ ! جس طرح خلیل ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ سے سچی اور پکی وفاداری کا اظہار کیا تھا ، آپ کے حکم پر سر جھکایا تھا ، اپنی مرضی کو آپ کی مرضی کے تا بع کیا تھا اور آپ کی منشا پر سب کچھ قربان کیا تھا ، اسی طرح میں بھی آج آپ کے نام پر آپ کے خلیل و حبیب علیہما السلام کی اتباع میں جانور کے گلے پر چھری چلا رہا ہوں ، ان شاء اللہ زندگی کے ہر موڑ پر اور قدم بقدم آپ کی مرضی کےلیے خواہشات کے گلے پر چھری چلا تا رہوں گا اور آپ کا سچا و پکا وفادار بن کر زندگی گزاروں گا اور وفادار بن کر ہی دنیا سے جاؤں گا ، قربانی اسی تجدید عہد کا نام ہے ، قربانی کے بعد دیگر مواقع پر اگر ہم نے اس عہد و پیمان کو یاد نہیں رکھا اور رب کی مرضیات کوچھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرتے رہے تو جان لو کہ ہم نے جو قربانی کی تھی بس وہ ایک رسم سمجھ کر کی تھی وفاداری سمجھ کر نہیں ، کیونکہ سچا وفادار تو وہ ہے جو جان دے سکتا ہے لیکن وفاداری چھوڑ نہیں سکتا ہے ۔
امت مسلمہ قربانی کے ساتھ جذبۂ قربانی کو بھی زندہ رکھے ، عید الاضحی اور حج شعائر اللہ کے تحفظ اور انبیاء کی نشانیوں کی تکریم کے مظہر ہیں عیدِ قربان شیطانوں سے نجات کا درس دیتی ہے مسلمان شیطانی قوتوں کی دوستی کے دیوانے ہوئے جا رہے ہیں ان کی تجوریاں بھر رہے ہیں
خاکوں کی اشاعت رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام اور پیغام سے خوف کی علامت ہے سازش کا مقابلہ اتحاد اور مغربی قوتوں کے بائیکاٹ سے کیا جائے ۔
قربانی محض ریت و رواج نہیں بلکہ تجدید ایمان و عمل اور اللہ کے ماسواء کی محبت کو قربان کرنے کا نام ہے سنتِ ابراہیمی کی تعمیل میں شجاعت و مردانگی حق پرستی حق آگہی کے جلوے نظر آتے ہیں کمال عبدیت کا عکس معلوم ہوتا ہے اپنے لاڈلے کی گردن پر اپنے ہی ہاتھوں چھری چلائی ہے اس میں گویا تعلیم ہے کہ آپ اس وقت تک موحد نہیں بن سکتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان و مال قربان نہ کردو : ⬇
یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی
امتِ مسلمہ سے آج اسی جذبہ فداکارانہ اور بے لوث عشق کے ساتھ جانوروں کی قر بانی مطلوب ہے لیکن افسوس صدافسو س کہ مادیت و صارفیت کے اس دور میں مسلمانوں نے اسباب و ذرائع کو مقا صد پر فوقیت دے رکھی ہے ، دنیاوی مال و متاع ، مادہ پرستی ، جاہ و منصب ، عیش و آرام ، خواہشات کی اتباع ، چند روز ہ زندگیوں کی آسا نیاں ، اور اس کی خوشیاں ہی ہم مسلمانوں کی نظروں میں مقصود حیات بن کر رہ گئی ہے ، ایسے میں اگر ہم سے حقیقی قربا نی کا مطالبہ ہوتا ہے ، تو ہما رے قدم لرزنے لگتے ہیں ، قلوب پر رعشہ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے دنیاوی عیش و آرام اور لذت و نشاط کی خاطر جانی و مالی قربانی سے راہِ فرار اختیار کرنا نہ دنیاوی زندگی کی فلاح کا ضامن ہے اور نہ ہی اخروی حیات میں کامیاب ہونے کی دلیل ہے ۔ کامیاب مومن وہی ہے جس کا مطمح نظر اپنی جان و مال کو مر ضیات الہی پر قربان کر دینا ہو ، قربانی خواہ جان کی ہو یا مال کی ، نفس کی ہو کہ خواہشات کی ، وقت کی ہو کہ چاہت کی یہ ایک مشکل امر ہے ۔ جس کا انجام دینا آسان نہیں ، قربانی قوموں کے عروج و زوال کی ضامن ہے ، حیات فانی کو حیات جاودانی میں تبدیل کرنے کا اشا رہ ہے ، قربانی سراپا اطاعت ، ایثار اور اظہارِ محبت کی انتہا ہے ۔ قربانی کو کسی بھی قوم کی ارتقاء و ارتفاع میں راہِ حیات خیال کیا گیا ہے ، قربانی مذہبی و ملی تشخص کی علامت ہے ، قربانی باپ اور بیٹے کی محبت و اتفاق رائے کا حسین درس دیتی ہے ، قربا نی کر نے والا نوازشاتِ الہی کا مستحق ہوتا ہے ، قربانی سے سنتِ ابراہیمی کی تجدید ہوتی ہے ، قربانی امیدوں کے ساتھ جانفشانیوں کا حوصلہ عطا کرتی ہے ، قربانی اسلامی تہذیب و تمدن اور روایت و ثقافت کی شناخت ہے ، عید قرباں کے موقع پر یقیناً انسانی جان کی قربانی مطلوب نہیں ہے ، لیکن ہر ایمانی قلب میں ان تمناٶں کی انگڑائیاں ضرور مچلنی چا ہیے ۔
آئیے سنت ابراہیمی علیہ السلام کی ادا ئیگی کے حسین موقع پر ہم یہ عہد کریں کہ راہِ خدا میں ہر طرح کی قربانی کےلیے ہمہ وقت تیار رہیں گے ، اپنی انا اور غرور کو خاک میں مِلا دیں گے ۔ اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا خیال کریں گے ۔ ملت اسلامیہ کی سربلندی کےلیے ہمہ وقت مستعد و تیار رہیں گے ۔ عالمِ اسلام پر کسی طرح کی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے ۔ جب جہاں جس وقت جس حال میں جیسی قربانی طلب کی جائے گے ہم بلا تذبذب و ہچکچاہٹ پیش کرنے کےلیے خوشی خوشی آمادہ رہیں گے ۔ انسانیت کا احترام جذبہء اخوت بدلہ اور انتقام سے نفرت بڑائی سے پاک اللہ عزوجل پر بھروسہ حق کی نصرت و حمایت باطل کے خلاف صدا برابری اور مساوات کردار سازی پاک بازی جان لیواؤں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ملک میں صالح نظام اور درست معاشرہ کےلیے قربانی کا جذبہ لے کر آتا ہے ۔
احادیثِ مبارکہ میں عیدالفطر کے فضائل وارد ہیں جن میں سے ایک حدیث شریف ذکر کی جارہی ہے جس کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں ذکرفرمائی ہے:
عَنْ سَعِيدِ بن أَوْسٍ الأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ وَقَفَتِ الْمَلائِكَةُ عَلَى أَبْوَابِ الطُّرُقِ ، فَنَادَوْا : اغْدُوا يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى رَبٍّ كَرِيمٍ يَمُنُّ بِالْخَيْرِ ، ثُمَّ يُثِيبُ عَلَيْهِ الْجَزِيلَ ، لَقَدْ أُمِرْتُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَقُمْتُمْ ، وَأُمِرْتُمْ بِصِيَامِ النَّهَارِ فَصُمْتُمْ ، وَأَطَعْتُمْ رَبَّكُمْ ، فَاقْبِضُوا جَوَائِزَكُمْ ، فَإِذَا صَلَّوْا ، نَادَى مُنَادٍ : أَلا إِنَّ رَبَّكُمْ قَدْ غَفَرَ لَكُمْ ، فَارْجِعُوا رَاشِدِينَ إِلَى رِحَالِكُمْ ، فَهُوَ يَوْمُ الْجَائِزَةِ ، وَيُسَمَّى ذَلِكَ الْيَوْمُ فِي السَّمَاءِ يَوْمَ الْجَائِزَةِ ۔ (معجم کبیر طبرانی حدیث نمبر 616،چشتی)
ترجمہ : سیدنا سعیدبن اوس انصاری رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب عیدالفطرکا دن آتا ہے توفرشتے چوراہوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اورنداء دیتے ہیں : اے مسلمانوں کی جماعت !رب کریم کی جانب چلو؛جوخیرسے نوازتاہے ،پھراجرعظیم عطافرماتاہے، یقیناًتمہیں رات میں عبادت کرنے کا حکم دیاگیا توتم نے عبادت کی اور تمہیں دن میں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا توتم نے روزے رکھے، تم نے اپنے رب کی اطاعت کی، اب اپنے انعامات حاصل کرلو!پھرجب لوگ نمازعید اداکرتے ہیں تو ایک آوازدینے والاآوازدیتاہے،سنو!بے شک تمہارے پروردگار نے تمہیں بخش دیا ،اب تم اپنے گھرلوٹ جاؤ !اس حال میں کہ تم ہدایت والے ہو،تویہ یوم الجائزۃ (انعام کا دن)ہے اور آسمان میں اس دن کویوم الجائزۃ (انعام کا دن) کہاجاتاہے ۔
غنیۃ الطالبین میں ہے : قال وہب بن منبہ رحمہ اللہ:خلق اللہ الجنۃ یوم الفطر،وغرس شجرۃ طوبی یوم الفطر،واصطفی جبریل علیہ السلام للوحی یوم الفطر،والسحرۃ وجدوا المغفرۃ یوم الفطر ۔
ترجمہ : حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے عید الفطر کے دن جنت پیدا فرمائی اور اسی دن درخت طوبی لگا یا اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کو وحی کیلئے منتخب فرمایااوراسی دن حضرت موسی علیہ السلام کے مقابل آنے والے جادوگروں کو توبہ نصیب ہوئی ۔ (الغنیۃ لطالبی طریق الحق جلد 2 صفحہ 18،چشتی)
حقیقی عید کیا ہے ؟
زبدۃ المحدثین ، خاتمۃ المحققین حضرت ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں : بے شک عید کی خوشی منانا بھی مسنون ہے ، لیکن کیا معلوم کہ ہمارے لیے یہ عید ہے یا وعید ؟
حضرات ! اصلی عید تو اس روز ہوگی جس روز وہ جانِ جہاں ہم پر نظر فرمائیں گے ۔
عید گاہ ِ ما غریباں کوئے تو
انبساطِ عید دیدن روئے تو
صد ہلال عید قربانت کنم
اے ہلالِ ما خم ِ ابروئے تو
ہم غریبوں کی عیدگاہ، اے دوست تیری گلی ہے اور عید کی خوشی ہمیں تیرے چہرے کو دیکھنے سے ملتی ہے ۔
عید کے سو (100)چاند میں تجھ پر قربان کرتا ہوں، ہماری عید کا چاند تیرے ابرو کا خم ہے ۔
عید کی خوشی منانا چاہیے اس لیے کہ یہ بھی سنت ہے ۔
مگر صاحبو ! عید تو اس روز ہوگی جب ہم خدائے تعالی سے ملیں گے ، اس حالت میں کہ ہم اس سے راضی اور وہ ہم سے راضی ۔
ہمیشہ اسی کوشش میں رہنا چاہے ۔
یہ عید اور اس کی خوشی دونوں فانی ہیں ، خدا کرے کہ وہ دن آئے جس میں دل کی اصلاح ہوکر دل' دلدار کا ہوجائے ، وہ دن حقیقی عید کا ہے ، یہ عید بھی باقی اور اس کی خوشی بھی باقی ۔
عید کے دن مغفرت ہوتی ہے اس لئے وہ خوشی کا دن ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ بندے عید کے دن خداکے دربار (عیدگاہ) میں جاتے ہیں تو وہاں سے بخشے بخشوائے گھروں کو واپس ہوتے ہیں ۔
بعض لوگ خلافِ شریعت اُمور کے مرتکب ہوکر عید کی نماز کےلیے آتے ہیں ، ان سب خرافات سے باز آکر سرفرازیوں کے مستحق بن کر آنا چاہیے ۔ (مواعظ ِ حسنہ حصہ اول صفحہ 277)
حضرت صالح رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہر عید کے روز اپنے اہل و عیال کو اکٹھا کرتے اور سب مل کر روتے بیٹھتے ، لوگوں نے اس بارے میں دریافت کیا کہ آپ ایسا کیوں کرتےہیں ؟ فر مانے لگے : میں غلام ہوں ، اللہ تعالی نے ہمیں نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم فرمایا ہے ، ہمیں معلوم نہیں کہ وہ ہم سے پورا ہوایا نہیں ؟ عید کی خوشی منانا اُسے مناسب ہے جو عذاب الہی سے امن میں ہو ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عید کے دن گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اتنا روئے کہ ریش مبارک تر ہوگئی ، لوگوں نے دریافت کیا تو فرمایا : جس کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے روزے قبول ہوئےیا نہیں وہ عید کیسے منائے ۔(مواعظِ حسنہ حصہ دوم صفحہ 315،چشتی)
عید منانے کا طریقہ
مومن کی عید یہ نہیں ہوتی کہ وہ اس میں کھیل کود کرے اور لہوولعب میں مشغول رہے بلکہ وہ اللہ تعالی کی عبادت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت میں عید مناتا ہے ۔
اور عید کا مفہوم ہی طاعت وعبادت ، فرحت ومسرت ، سلامتی و راحت ہے ، تقاضہ عقل کے مطابق اس دن عبادت میں تخفیف ہونی چاہیے تھی اس کے برخلاف اللہ تعالی نے امت پر ایک اور نماز اضافہ واجب فرمائی ، جس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ بندے جب ایک جا جمع ہو جائیں تو معاشرہ میں افرا تفری وانتشار پیدا ہونے کے بجائے رب کریم کی عبادت میں رہ کر انسانی معاشرہ کو اپنے اجتماع سے امن و سلامتی کا پیغام دیں ۔
عیدگاہ جاتے وقت راستہ میں میانہ آواز میں تکبیر کہنا سنت ہے ‘ تکبیر اس لیے مقرر کی گئی ہے کہ بشری تقاضے کے مطابق جب کثیر اجتماع ہوتا ہے تو بلاوجہ آوازیں بلند ہوتی ہیں اور راہ گیروں کےلئے اذیت کا سبب بنتی ہیں اور رفتہ رفتہ بات جھگڑے و فساد تک پہنچ جاتی ہے ، معاشرتی ومعاشی فضا کو تکدر سے دور کرنے کےلئے تکبیرکہنے کا حکم دیا گیا ، اس کے علاوہ عید کے دن نماز اور تکبیروں سے مومن بندے ذکر خدا وندی کرکے اس کی برکتوں اوررحمتوں سے عالم کو فیض یاب بناتے ہیں کیونکہ جب ابرِ کرم برستا ہے تووہ رحمت عامہ بن کر سب کو اپنے سایہ میں لیتا ہے ۔
عید کے دن مالدار ، صاحب نصاب مومن پر صدقۂ فطر (ایک کلو 106 گرام گیہوں یا اس کی قیمت) اداکرنا واجب ہے تاکہ غریب ، نادار و محتاج افراد بھی عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہیں‘ اس کے علاوہ ہر خطہ کے مسلمان نماز عید کے بعد فقراء ومساکین میں گھر واپس ہونے تک راستہ بھر اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہ عمل مسلمانوں کی سخاوت ‘ملت سے محبت اور ان پر مہربانی کو عیاں کرتا ہے ، اس طرح عید کی ابتداء سے انتہا ء تک مسلمانوں کا ہر عمل دنیا میں امن وسلامتی قائم کرنے کا پیام افرادِ وطن کے نام دیتا ہے ۔
عید کی خصوصی دعاء
امام طبرانی کی معجم اوسط میں عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعامنقول ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کو تعلیم دینے کےلیے یہ دعاء فرمائی : ⬇
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : كَانَ دُعَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ الْعِيْدَيْنِ " اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ عِيْشَةً تَقِيَّةً ، وَمِيْتَةً سَوِيَّةً ، وَمَرَدًّا غَيْرَ مُخْزٍ وَلَا فَاضِحٍ ، اَللَّهُمَّ لَا تُهْلِكْنَا فَجْأَةً ، وَلَا تَأْخُذْنَا بَغْتَةً ، وَلَا تُعَجِّلْنَا عَنْ حَقٍّ وَّلَا وَصِيَّةٍ ، اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْعَفَافَ وَالْغِنَى ، وَالتُّقَى وَالْهُدَى ، وَحُسْنَ عَاقِبَةِ الْآخِرَةِ وَالدُّنْيَا ، وَنَعُوْذُ بِكَ مِنَ الشَّكِّ وَالشِّقَاقِ ، وَالرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ فِيْ دِيْنِكْ ، يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبّْ! لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنْكَ رَحْمَةْ ، إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابْ ۔
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت انہوں نے فرمایا : عیدین کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ دعاء فرماتے : اے اللہ ! ہم تجھ سے پرہیزگار زندگی اور بہترحالت میں حسن خاتمہ کا سوال کرتے ہیں ، ایسا انجام مانگتے ہیں جوذلیل اوررسوا کرنے والانہ ہو ، اے اللہ !توہمیں اچانک ہلاک نہ فرما، فوراًہمارا مؤاخذہ نہ فرما اور کسی حق کی ادائیگی یا وصیت پوری کرنے سے پہلے ہمیں عجلت میں مت ڈال ، اے اللہ !ہم تجھ سے پاکدامنی و بے نیازی ‘ پرہیزگاری وہدایت مانگتے ہیں اور دنیا و آخرت کے اچھے انجام کا سوال کرتے ہیں ، ہم شک و اختلاف ‘تیرے دین میں ریاء کاری اور شہرت سے تیری پناہ میں آتے ہیں ، اے دلوں کو پھیر نے والے !ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا مت کر ، اور ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما ، بے شک تو ہی خو ب عطافرمانے والا ہے ۔ (معجم اوسط طبرانی باب العین حدیث نمبر 7787)
یہ عید کے موقع سے مناسبت رکھنے والی ایسی جامع دعاء ہے کہ اس میں ان تمام چیزوں کی درخواست ہے، جوہر کسی کیلئے دنیاو آخرت میں مسرت وشادمانی ، امن وسلامتی اور اتحاد واتفاق کا باعث ہوتی ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمام اہلِ اسلام کو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ و طفیل راہ حق پر گامزن رکھے اور اس عیدِ سعید کی بھر پُور خوشیاں عطا فرمائے آمین بجاہ نبی الکریم صلی اللہ تعالیٰ و بارک وسلم علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین ، سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)