اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے کا مدلّل جواب
دیوبندی عقیدہ رشید احمد گنگوہی صاحب لکھتے ہیں : جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ کےلیئے ثابت ہے کثیر دلائل سے ثابت ہوتا ہے لہٰذا امکانِ کذب ثابت ہوا ۔ (یعنی جھوٹ بولنا) ۔ (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ نمبر 237 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)
دیوبندی عقیدہ رشید احمد گنگوہی صاحب لکھتے ہیں : جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ کےلیئے ثابت ہے کثیر دلائل سے ثابت ہوتا ہے لہٰذا امکانِ کذب ثابت ہوا ۔ (یعنی جھوٹ بولنا) ۔ (تالیفاتِ رشیدیہ صفحات 98 ، 99 ادارہ اسلامیات لاہور)
یعنی گنگوہی نے مانا کہ اللہ تعالی جھوٹ بولتا تو نہیں پر بول سکتا ہے معاذ اللہ ۔
دیوبندیوں کے شیخ الہند محمود الحسن لکھتے ہیں : اللہ جھوٹ بول سکتا ہے مگر بولتا نہیں ، اور تمام برے افعال اللہ کر سکتا ہے قدرت باری تعالیٰ میں داخل ہیں مگر کرتا نہیں ۔ (الجھدُ المقل صفحہ نمبر 41)
خلیل احمد انبیٹھوی بحکم رشید احمد گنگوہی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے پر قادر ہے مگر بولتا نہیں ، جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ کےلیئے ثابت ہے کثیر دلائل سے ثابت ہوتا ہے لہٰذا امکانِ کذب ثابت ہوا (یعنی جھوٹ بولنا) ۔ (براہین قاطعہ صفحہ نمبر 274 بحکم رشید احمد گنگوہی دیوبندی)
خلیل احمد انبیٹھوی دیوبندی لکھتا ہے : اللہ تعالیٰ کےلیئے جھوٹ بولنے کا عقیدہ جدید نہیں ہے قدیم ہے ۔ (براہین قاطعہ صفحہ نمبر 6 مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ دیوبند)
دیوبندی عقیدہ : مولوی عاشق الہٰی بلند شہری دیوبندی لکھتا ہے : جو کچھ بندے کر سکتے ہیں وہ اللہ بھی کر سکتا ہےاگر یہ نہ مانا جاے تو پھر بندوں کی قدرت اللہ سے زیادہ ہوگی ۔ (تذکرۃ الخلیل صفحہ نمبر ۱۴۶ مولوی عاشق الہٰی بلند شہری دیوبندی مطبوعہ مکتبۃ الشیخ بہادر آباد کراچی)
اسی طرح دیوبندیوں کے مولوی خلیل احمد انبیٹھوی لکھتے ہیں کہ : امکان کذب کا مسئلہ تو اب کسی نے نہیں نکالا بلکہ قدماء میں اختلاف ہوا ہے کہ خلف وعید آیا جائز ھے یا نہیں ؟ ۔ (براہین قاطعہ ص2 مطبوعہ دیوبند)
انبیٹھوی نے صاف صاف جھوٹ اور فریب سے کام لیا ہے جبکہ اہل حق میں کبھی اس مسئلہ میں اختلاف نہ ہوا ۔
امام الوہابیہ ودیابنہ اسماعیل دہلوی اللہ تعالی کے جھوٹ بول سکنے پر بڑے زورشور سے قائل ہیں لکھتے ہیں : عقیدہ -پس لانسلم کہ کذب مذکور محال بمعنی مسطور باشد الی قولہ الا لازم آید کہ قدرت انسانی زائد ازقدرت ربانی باشد ۔
ترجمہ : پس ہم نہیں تسلیم کرتے کہ اللہ تعالی کا جھوٹ محال بالذات ہو ورنہ لازم آئے گا کہ انسانی قدرت رب تعالی کی قدرت سے زائد ہوجاےگی ۔ (یک روزہ صفحہ 17 اسماعیل دہلوی مطبوعہ فاروقی کتبخانہ ملتان)
شیخ الاسلام وہابیہ غیرمقلدین مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں کہ : عقیدہ - اللہ تعالی جھوٹ بولنے پر قادر ہے کہناعین ایمان ہے ۔ (اخبار اہلحدیث امرتسرص2 27اگست 1915ء)
اسی طرح ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ : عقیدہ-امکان کذب باری کفر نہیں ھے ۔ (شمع توحید ص 12)
اہلِ سنت و جماعت کا عقیدہ
اہلِ سنت کہتے ہیں کہ کذب کے تحتِ قدرتِ باری تعالیٰ ہونے سے بندوں کے جھوٹ کی تخلیق اور اس کے باقی رکھنے یا نہ رکھنے پر قدرتِ خداوندی کا ہونا مراد ہے یا یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ بذاتِ خود صفتِ کذب سے متصف ہوسکتا ہے ۔ اگر پہلی شق مراد ہے تو اس میں آج تک کسی سنی نے اختلاف نہیں کیا ۔ پھر یہ کہنا کہ امکانِ کذب کے مسئلہ میں شروع سے اختلاف رہا ہے ، باطل محض اور جہالت و ضلالت ہے اور اگر دوسری شق مراد ہو تو اس سے بڑھ کر شانِ اُلوہیت میں کیا گستاخی ہوسکتی ہے کہ معاذاللہ ! اللہ تعالیٰ کے متصف بالکذب ہونے کو ممکن قرار دیا جائے ۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کے جھوٹا ہونے کو ممکن قرار دیا جائے) اہلِ سنت کے نزدیک ایسا عقیدہ کفرِ خالص ہے ۔ جھوٹ ‛غیبت‛آلائش‛ اور نقص اوصاف ذمیمہ میں سے ہے ۔ اور اللہ کریم پر جھوٹ کا الزام لگانے والا ظالم ہے ۔ اور اللہ تعالی میں عیب نقص اور اوصاف ذمیمہ کا ہوسکتا تسلیم کرنا کسی مسلمان کو گنوارا نہیں کیونکہ اللہ کریم کی ذات ہر قسم کےعیب ونقص سے پاک ہے ۔
دیابنہ اور وہابیہ کے باطل عقیدے کا جواب
اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 20)
ترجمہ : بیشک اللہ ہر شئے پر قادر ہے ۔
عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ : اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے ۔ شے اسی کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ چاہے اور جو مشیت یعنی چاہنے کے تحت آسکے ۔ ہر ممکن چیز شے میں داخل ہے اور ہر شے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے اورجو ممکن نہیں بلکہ واجب یامحال ہے اس سے اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور قدرت کا تعلق ہی نہیں ہوتا جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات واجب ہیں اس لیے قدرت کے تحت داخل نہیں مثلا یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنا علم ختم کرکے بے علم ہوجائے یا معاذاللہ جھوٹ بولے ۔ یاد رہے کہ ان چیزوں کا اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تحت نہ آنا اس کی قدرت میں نقص و کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ان چیزوں کا نقص ہے کہ ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے متعلق ہوسکیں ۔
ہم یہاں ازالہء اوہامِ حضراتِ مخالفین کو اکثر عبارات ایسی نقل کررہے ہیں کہ امتناع کذبِ الہٰی پر تمام اشعریہ و ماتریدیہ کا اجماع ثابت کریں، جس کے باعث اس وہم عاطل کا علاجِ قاتل ہوکہ معاذ اللہ یہ مسئلہ قدیم سے مختلف فیہ ہے ، حاشا للہ ! بلکہ بطلانِ امکان پر اجماع اہل حق ہے جس میں اہلسنت کے ساتھ ساتھ معتزلہ وغیرہ فرقِ باطلہ بھی متفق ، ہیں ۔
موجودہ دور میں گزشتہ ادوار میں خوارج کے بیش بہا عقائد پائے جاتے ہیں جس میں سے ایک یہ مسئلہ امکانِ کذب ہے ۔ اس کا آسان مفہوم یہ ہے کہ کچھ (گمراہ فرقے) یہ کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا بھی اللہ کی ایک صفت ہے لیکن اس نے کبھی جھوٹ بولا نہیں ۔ (معاذ اللہ)۔ اور دلیل وہ یہ لاتے ہیں کہ اگر جھوٹ کو اللہ کی قدرت و اختیار نہ مانا جائے گا تو یہ توہینِ ربوبیت ہے۔
اس جاہلانہ عقیدے کے رد میں ہم یہاں پر علمائے اہلسنت وجماعت کا مشترکہ عقیدہ مستند کتابوں سے حوالوں وترجموں کے ساتھ بتا دیتے ہیں کہ اس کے بارے میں ہمارا کیا مؤقف ہے ۔ اکثر عبارتیں علمائے اشعریہ کی ہوں گی تاکہ معلوم ہوکہ مسئلہ خلافی نہیں اور وہ عبارات جن میں بنائے کلا حسن و قبح عقلی کے انکار پر ہو کہ یہ اصول ِ اشاعرہ سے ہے ۔ تو لاجرم مسئلہ اشاعرہ وماتریدیہ کا اجماعی ہوا اگرچہ عند التحقیق صرف حسن وقبح بمعنی استحقاق مدح و ثواب و ذم وعقاب کی شرعیت وعقلیت میں تجاذب آرا ہے ، نہ بمعنی صفت کمال وصفت نقصان کہ بایں معنی باجماع عقلاً عقلی ہیں ۔
ہم اس کی فقہی بحث کی سخت زبان کو علماء پر چھوڑ کر یہاں عام لوگوں کو سمجھانے کی خاطر فی ڈائریکٹ تفاصیل پیش کررہے ہیں ۔ سب سے پہلے عقیدہ اہلسنت وجماعت پیش کر رہے ہیں ۔
ہم اہلسنت وجماعت (بشمول، اشعریہ، ماتریدیہ) اور ہمارے علاوہ (معتزلہ ) کا مشترکہ اجماع امت اس بات پر ہے کہ جھوٹ ایک نقص ایک عیب ہے ، جبکہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ ہر قسم کے عیوب سے پاک و منزہ ہے ۔ لہٰذا جو لوگ یہ گمان رکھتے ہیں (جواوپر بیان ہوا) وہ غلطی پر ہیں اور ان کو تجدیدِ ایمان کرنی واجب ہے ۔
شرح مقاصد کے مبحث کلام میں ہے : الکذب محال باجماع العلماء لان الکذب نقص باتفاق العقلاء وھو علی اللہ تعالیٰ محال ۔
ترجمہ : جھوٹ باجماع علماء محال ہے کہ وہ باتفاقِ عقلاء عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال ۔
اسی شرح المقاصد کی بحث حسن و قبیح میں ہے ۔ قدبینا فی بحث الکلام امتناع الکذب علی الشارع تعالیٰ ۔
ترجمہ : ہم بحث کلام میں ثابت کرآئے کہ اللہ عزوجل پر کذب محال ہے ۔
اسی کی بحث تکلیف بالمحال میں ہے : محال ھو جہلہ او کذبہ تعالیٰ عن ذٰلک
ترجمہ؛ اللہ تبارک و تعالیٰ کا جہل یا کذب دونوں محال ہیں برتری ہے اُسے ان سے۔
اسی میں یہ بھی تحریر ہے : الکذب فی اخبار اللہ تعالیٰ فیہ مفاسد لاتحصیٰ ومطاعن فی الاسلام لاتخفی منہا مقال الفلاسفۃ فی المعاد ومجال الملاحدۃ فی العناد وھٰھنا بطلان ما علیہ الاجماع من القطع بخلود الکفار فی النار، فمع صریح اخبار اللہ تعالیٰ بہ فجواز الخلف وعدم وقوع مضمون ھٰذا الخبر متحمل، ولما کان ھٰذا باطلا قطعا علم ان القول بجواز الکذب فی اخباراللہ تعالیٰ باطل قطعاً۔ ملتقطاً ۔
ترجمہ : یعنی خبر الٰہی میں کذب پر بے شمار خرابیاں اور اسلام میں آشکارا طعن لازم آئے گے، فلاسفہ حشر میں گفتگو لائیں گے، ملحدین اپنے مکابروں کی جگہ پائیں گے، کفار کا ہمیشہ آگ میں رہنا کہ بالاجماع یقینی ہے، اس پر سے یقین اٹھ جائیں گے کہ اگرچہ خدا نے صریح خبریں دیں مگر ممکن ہے کہ واقع نہ ہوں، اور جب یہ امور یقیناً باطل ہیں تو ثابت ہوا کہ خبر الٰہی میں کذب کو ممکن کہنا باطل ہے۔
نوٹ : اور یہی اسماعیل دہلوی کی وہابی ازم اور دیوبندی ازم کیوجہ سے آج ہو رہا ہے ، ہم سے مباحث میں بڑی بار اس بیوقوفانہ بات کو عیسائی اور یہودی مباحثین نے اٹھایا یہ ہمارا ذاتی تجربہ ہے ، کہ اس ایک گمراہ جہنمی عقیدے کی وجہ سے کتنی زبانیں کھل گئیں واقعی اسلاف نے سچ لکھا ہے ۔
شرح عقائد نسفي جو کہ سنیوں کے عقائد کی ایک جامع مفصل کتاب ہے اور جس سے دینی علم سیکھنے والا بچہ بچہ واقف ہے اس میں علامہ سعد الدین تفتازانی الحنفی رضی اللہ عنہ نے لکھا ہے : کذب محال علی اللہ سبحانہ وتعالیٰ ۔ یعنی جھوٹ اللہ پر محال ہے ۔ (شرح عقائد النسفی ، طباعت، المدینۃ العلمیۃ دعوۃ الاسلامیۃ، کراچی پاکستان ص ۱۶۲،چشتی)
طوالع الانوار کی فرع متعلق بمبحث کلام میں ہے : الکذب نقص والنقص علی اللہ تعالیٰ محال۔ یعنی ۔ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال۔ ( طوالع الانوار للبيضاوي، ص ۱۸۲ طبع قديم، دارالکتبه، ابي الثنا شمس الدين ابن محمد بن عبدالرحمن الاصفهاني، و حاشيه السيد الشريف علي بن محمد الجرجاني )
مواقف کی بحث کلام میں ہے : انہ تعالیٰ یمتنع علیہ الکذب اتفاقا اما عند المعتزلۃ فلان الکذب قبیح وھو سبحانہ لایفعل القبیح واما عندنافلانہ نقص والنقص علی اللہ محال اجماعا ۔
ترجمہ : یعنی اہلسنت وجماعت ومعتزلہ سب کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کذب محال ہے ، معتزلہ تو اسلیئے محال کہتے ہیں کہ کذب برا ہے اور اللہ تعالیٰ برا فعل نہیں کرتا اور ہم اہلسنت کے نزدیک اس دلیل سے ناممکن ہے کہ کذب عیب ہے اور ہرعیب اللہ تعالیٰ پر بالاجماع محال ہے۔
مواقف وشرح مواقف کی بحث میں لکھا ہے : مدرک امتناع الکذب منہ تعالیٰ عندنا لیس ھو قبحہ العقلی حتی یلزم من انتفاء قبحہ ان لا یعلم امتناعہ منہ اذلہ مدرک اٰخرو قدتقدم ۔
ترجمہ : یعنی ہم اشاعرہ کے نزدیک کذب الٰہی محال ہونے کی دلیل قبح عقلی نہیں ہے کہ اس کے عدم سے لازم آئے کہ کذبِ الٰہی محال نہ جاناجائے بلکہ اس کے لیئے دوسری دلیل ہے کہ اوپر گزری، یعنی وہی کہ جھوٹ عیب ہے اور اللہ تعالیٰ میں عیب محال ۔
انہیں کی بحث معجزات میں ہے : قدم فی مسئلۃ الکلام من موقف الالٰھیات امتناع الکذب علیہ سبحانہ وتعالیٰ ۔
ترجمہ : یعنی ہم موقف الٰہیات سے مسئلہ کلام میں بیان کرآئے کہ اللہ تعالیٰ کا کذب زنہار ممکن نہیں ۔
وہ حوالہ جات جن میں یہی مسلہ سبھی آئمہ محدثین و مفسرین علیہم الرّحمہ نے لکھا ہے : (الامام مسعود بن عمر بن عبدالله الشهير بسعد الدين التفتازاني، ۷۱۴، ۷۹۳ هجري، الجز الخامس، شرح المقاصد، ص ۲۳۱و ۱۵۴ و ۱۵۵، طباعت عالم الکتب بيروت)۔(مطالع الانظار علي متن طوالع الانوار ، تاليف شمس الدين بن محمود بن عبدالرحمن الاصفهاني ويليه حاشيه السيد الشريف علي بن محمد الجرجاني ص ۱۸۳ بدارالکتب)۔(شرح العقائد النسفيه مع حاشيه جمع الفوائد، المدينۀ العلميه الدعوۀ الاسلاميۀ،کراچي پاکستان، ص ۱۶۲)۔(شرح المواقف ، قاضي عضدالدين عبدالرحمن الايجي المتوفي ۷۵۶هجري، تاليف سيد شريف علي بن محمد الجرجاني ومعه حاشيته السياکوټي والحلبي ص ۱۱۵، جز ۸، مرصد الرابع، المقصد السابع، في انه تعالي متکلم و ص ۲۱۴ مقصد الخامس في الحسن والقبح، صفحه ۲۶۳ المرصد الاول مقصد الثالث ، دارالکتب العلميه بيروت،چشتی)۔(شرح المقاصد، المبحث السادس، دارالمعارف النعمانيه لاهور ۲/۱۰۴ و قال وتمسکوا بوجوه ۲/۱۵۲ ، و المبحث الخامس، ۲/۱۵۵، و المبحث الثاني عشر ۲/۲۳۸)۔(شرح العقائد النسفيه ، دارالاشاعت العربيه قندهار افغانستان ص ۷۱)۔(مواقف مع شرح المواقف، المقصد السابع، منثورات الشريف الرضي قم ايران، ۱۰۱ و ۱۰۰ .مجلد ۸ ، و، المرصد السادس المقصد الخامس، ۱۹۳، الموقف السادس في السمعيات ۲۴۰)
امام المحقق علی الاطلاق کمال الدین محمد ، مسایرہ میں لکھتے ہیں : یستحیل علیہ تعالیٰ سمات النقص کالجہل والکذب ۔ یعنی ۔ جتنی نشانیاں عیب کی ہیں ، جیسے جہل و کذب سب اللہ تعالیٰ پر محال ہیں ۔ اسی طرح ایک اور جگہ اس کی شرح مسامرہ میں لکھتے ہیں : لا خلاف بین الاشعریۃ وغیرھم فی ان کل ما کان وصف نقص فالباری تعالیٰ منزہ عنہ وھو محال علیہ تعالیٰ والکذب وصف نقص ۔
ترجمہ : یعنی اشاعرہ وغیرہ کسی کو اس میں اختلاف نہیں کہ جو کچھ صفتِ عیب ہے باری تعالیٰ اس سے پاک ہے اور وہ اللہ تعالیٰ پر ممکن نہیں اور کذب صفت عیب ہے ۔ (کتاب المسامرۃ فی شرح المسایرۃ، للکمال بن ابی شریف بن الھمام الحنفی (رض)۔ الجزالاول والثانی، صفحہ نمبر 143 اور 239 ، المکتبه الازهريۀ للتراث بجامعته الازهرشريف، مصر)(و المسايره متن المسامرته ، ختم المصنف کتابه ببيان عقيده اهلسنت اجمالاً ، المکتبته التجاريته الکبري مصر ص ۳۹۳ و اتفقو علي ان ذلک غير واقع ، ص ۳۹۳)
امام فخرالدین الرازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں : قولہ تعالیٰ فلن ،،،،،، الیٰ منہ محال ۔ عربی کے لیئے اصل تفسیر دیکھیں دیکھیں۔
ترجمہ : اللہ عزوجل کا فرمانا کہ اللہ ہرگز اپنا عہد جھوٹا نہ کریگا دلالت کرتا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ سبحانہ اپنے ہروعدہ و، وعید میں جھوٹ سے منزہ ہے ، ہمارے اصحاب ِ اہلسنت وجماعت اس دلیل سے کذبِ الٰہی کو ناممکن جانتے ہیں کہ وہ صفتِ نقص ہے اور اللہ عزوجل پر نقص محال، اور معتزلہ اس دلیل سے ممتنع مانتے ہیں کہ کذب قبیح لذاتہ ہے تو باری عزوجل سے صادر ہونا محال ، غرض ثابت ہوا کہ کذبِ الٰہی اصلاً امکان نہیں رکھتا ۔ (التفسیر الکبیر، امام رازی، الجز الثالث (۳) صفحہ نمبر143 ، زير تفسير آيت ۸۰ سوره البقره، طبع قديم المکتبته البهيه مصر،چشتی)
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وتمت کلمت ربک صدقا وعدلا لا مبدل لکلمٰتہ وھو السمیع العلیم ۔ ( آیت ۱۱۵ سوره الانعام )
ترجمہ : پوری ہے بات تیرے رب کی سچ اور انصاف میں کوئی بدلنے والا نہیں، اس کی باتوں کا، اور وہی ہے سنتا جانتا ہے۔
اعلم ان ھذہ الاٰیۃ علی ان کلمۃ اللہ موصوفۃ بصفات کثیرۃ (الی ان قال) الصفۃ الثانیۃ من صفات کلمۃ اللہ کونھا صدقا والدلیل علیہ ان الکذب نقص والنقص علی اللہ تعالیٰ محال ۔
ترجمہ : یہ آیت ارشاد فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بہت صفتوں سے موصوف ہے ، ازانجملہ اس کا سچا ہونا ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ کذب عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال ۔ ( مفاتیح الغیب، یعنی تفسیر امام رازی ، تحت آیت سورہ الانعام ۱۱۵ المطبعته البهيته المصريه ج ۱۳ ص ۱۶۰ تا ۱۶۱ طبع اول )
یعنی حاصل ِ کلام یہ ہے کہ اہلسنت و جماعت کا اجماع ہے کہ یہ چیز یعنی جھوٹ (امکانِ کذب) بلکہ اسکا امکان بھی محال اور ناممکن ہے پھر ایسا عقیدہ اسلام میں رائج کرنا بدعتِ سیئہ اور کھلی گمراہی وجہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ دیوبند چونکہ خود کو سنی بھی کہتی ہے لہٰذا اس پر زیادہ فرض بنتا ہے کہ اب اسکو مانے بھی کیونکہ ہم نے اشعریہ اور ماتریدیہ دونوں کے عظیم اماموں اور اسلاف کے اقوال لکھ دیئے ہیں اور اسکی روشنی میں بخوبی آپ لوگ فیصلہ خود کرسکتے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ ۔
وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیۡثًا : ترجمہ : ۔ اوراللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّسے زیادہ کس کی بات سچی یعنی اس سے زیادہ سچا کوئی نہیں اس لیے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کاجھوٹ بولنا ناممکن و محال ہے کیونکہ جھوٹ عیب ہے اور ہر عیب اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے محال ہے، وہ جملہ عیوب سے پاک ہے۔
اِمکانِ کِذب کا رد : مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی کلام میں جھوٹ کا ممکن ہونا ذاتی طور پر محال ہے اوراللہ تعالیٰ کی تمام صفات مکمل طور پر صفاتِ کمال ہیں اور جس طرح کسی صفتِ کمال کی اس سے نفی ناممکن ہے اسی طرح کسی نقص و عیب کی صفت کا ثبوت بھی اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی فرمان وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیۡثًا ۔ ترجمہ : اوراللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔
ا س عقیدے کی بہت بڑی دلیل ہے ،چنانچہ اس آیت کے تحت علامہ عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں اِستِفہامِ انکاری ہے یعنی خبر، وعدہ اور وعید کسی بات میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچا نہیں کہ اس کا جھوٹ تو بِالذَّات محال ہے کیونکہ جھوٹ خود اپنے معنی ہی کی رو سے قبیح ہے کہ جھوٹ واقع کے خلاف خبر دینے کا نام ہے ۔ (تفسیر مدارک ، النساء، تحت الآیۃ : ۸۷ ، صفحہ نمبر 243 ، چشتی)
علامہ بیضاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ اس آیت میں اس سے انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہتعالیٰ سے زیادہ سچا ہو کیونکہ اس کی خبر تک تو کسی جھوٹ کو کسی طرح راہ ہی نہیں کہ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال ہے ۔ (بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۸۷، ۲/۲۲۹)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : فَلَنۡ یُّخْلِفَ اللہُ عَہۡدَہٗۤ(بقرہ:۸۰) ترجمہ : تو اللہہرگز وعدہ خلافی نہیں کرے گا ۔
اس آیت کے تحت امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر وعدہ اور وعید میں جھوٹ سے پاک ہے ، ہمارے اصحاب اہلِ سنت و جماعت ا س دلیل سے کذبِ الٰہی کو ناممکن جانتے ہیں کیونکہ جھوٹ صفتِ نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے اور مُعتَزِلہ اس دلیل سے اللہ تعالیٰ کے جھوٹ کو مُمْتَنِع مانتے ہیں کیونکہ جھوٹ فِی نَفْسِہٖ قبیح ہے تو اللہ تعالیٰ سے ا س کا صادر ہونا محال ہے۔ الغرض ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا جھوٹ بولنا اصلاً ممکن ہی نہیں ۔ (تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:۸۰، ۱/۵۶۷،چشتی)
شاہ عبدُ العزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ا س آیت کے تحت فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کی خبر اَزلی ہے ، کلام میں جھوٹ ہونا عظیم نقص ہے لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں ہر گز راہ نہیں پا سکتا کہ اللہ تعالیٰ تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، اس کے حق میں خبر کے خلاف ہونا سراپا نقص ہے ۔ (تفسیر عزیزی مترجم، البقرۃ، تحت الآیۃ:۸۰، ۲/۵۴۷)
اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الْعَلِیۡمُ ﴿۱۱۵﴾ (سورہ انعام : ۱۱۵)
ترجمہ : اور سچ اور انصاف کے اعتبار سے تیرے رب کے کلمات مکمل ہیں ۔ اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں :یہ آیت ا س چیز پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بہت سی صفتوں کے ساتھ موصوف ہے، ان میں سے ایک صفت اس کاسچا ہو نا ہے اور ا س پر دلیل یہ ہے کہ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال ہے ۔ مزید فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث کے دلائل کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کذب کو محال مانا جائے ۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۵/۱۲۵،چشتی)
نیز جھوٹ فِی نَفسِہٖ دو باتوں سے خالی نہیں ، یا تو وہ نقص ہو گا یا نہیں ہو گا اور یہ بات ظاہر ہے کہ جھوٹ ضرور نقص ہے اور جب یہ نقص ہے تو بالاتفاق اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہو گیا کیونکہ وہ ہر نقص و عیب سے پاک ہے۔ دوسری صورت میں اگر جھوٹ کو نقص و عیب نہ بھی مانا جائے تو بھی یہ اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے کیونکہ اگر جھوٹ نقص نہیں تو کمال بھی نہیں اوراللہ تعالیٰ نہ صرف نقص و عیب سے پاک ہے بلکہ وہ ہر اس شئے سے بھی پاک ہے جو کمال سے خالی ہو اگرچہ وہ نقص وعیب میں سے نہ بھی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت صفتِ کمال ہے اور جس میں کوئی کمال ہی نہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفت کس طرح ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ لوگوں کے جھوٹ بولنے پر قادر ہونے اور اللہ تعالیٰ کے لئے جھوٹ ناممکن و محال ہونے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ لوگوں کی قدرت مَعَاذَاللہ ، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بڑھ گئی یعنی یہ کہنا کہ بندہ جھوٹ بول سکے اور اللہ تعالیٰ جھوٹ نہ بول سکے ، اس سے لازم آتا ہے کہ انسان کی قدرت مَعَاذَاللہ ، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بڑھ جائے گئی ، یہ بات سراسر غلط ہے نیز اگر یہ بات سچی ہو کہ آدمی جو کچھ کر سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ بھی کر سکتا ہے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جس طرح نکاح کرنا اور بیوی سے ہم بستری کرنا وغیرہ انسان کی قدرت میں ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی مَعَاذَاللہ یہ کر سکتا ہے ، یونہی اگر وہ بات سچی ہو تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جس طرح آدمی کھانا کھانے ، پانی پینے ، اپنے آپ کو دریا میں ڈبو دینے ، آگ سے جلانے ، خاک اور کانٹوں پر لٹانے کی قدرت رکھتا ہے تو پھر یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ بھی اپنے لئے کر سکتا ہو گا ۔ ان صورتوں میں انسان ہر طرح خدائی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سب باتیں اپنے لئے کر سکتا ہو تووہ ناقص و محتاج ہوا اور ناقص و محتاج خدا نہیں ہو سکتا اور اگر نہ کر سکا تو عاجز ٹھہرے گا اور کمالِ قدرت میں آدمی سے کم ہو جائے گا اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا ۔ جبکہ ہمارا سچا خدا سب عیبوں سے اور محال پر قدرت کی تہمت سے پاک اور مُنَزَّہ ہے،نہ کوئی ممکن اس کی قدرت سے باہر ہے نہ کسی کی قدرت ا س کی قدرت کے ہمسر ، نہ اپنے لئے کسی عیب و نقص پر قادر ہونا اس کی قُدُّوسی شان کے لائق ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment