نجدیوں کے مسلمانوں پر مظالم خود نجدیوں کی زبانی
محترم قارئین : آج کل کچھ لوگ سعودی سعودی کرتے ہیں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اس مختصر مضمون میں ایسے لوگوں کو آئینہ دیکھانے کےلیئے یہ مختصر مضمون نجدیوں کی کتابوں سے ترتیب دیا ہے جس میں نجدیوں کے مسلمانوں پر بے انتہاء مظالم کی چند جھلکیاں پیش کی ہیں تاکہ سادہ لوح مسلمان اِن ظالم ، فتنہ پرور ، تفرقہ و فساد پھیلانے والے ان خارجی نجدیوں کی اصلیت کو پہچانیں اور اِن کے فریب سے بچیں آیئے مضمون پڑھتے ہیں :
شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد مدنی دیوبندی لکھتے ہیں : محمد بن عبدالوھاب نجدی ابتدا تیرھویں صدی نجد عرب سے ظاھر ہوا اور چونکہ یہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا اس لئے اس نے اھل سنت والجماعت سے قتل و قتال کی ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا رہا ان کے اموال کہ غنیمت کا مال اور حلال سمجھا گیا ان کے قتل کرنے کو باعث ثواب و رحمت شمار کرتا رہا اھل حرمین کو خصوصا اور اھل حجاز کو عموما اس نے تکلیف شاقہ پہنچائیں سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کے الفاظ استعمال کئے بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑا اور ہزاروں آدمی اس کے اور اس کی فوج کے ہاتھوں شھید ہو گئے-الحاصل وہ ایک ظالم و باغی خونخوار فاسق شخص تھا اس وفہ سے اھل عرب کو خصوصا اس کے اتباع سے دلی بغض تھا اور ہے اور اس قدر ہے لہ اتنا قوم یہود سے ہے نہ نصاری سے نہ مجوس سے نہ ہنود سے ۔ (الشہاب الثاقب ص221 دارالکتاب غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور،چشتی)
شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد مدنی دیوبندی لکھے ہیں : محمدبن عبد الوہاب نجدی کا عقیدہ تھا جملہ اہلِ عالم و مسلمانانِ دیار کافر ہیں انہیں قتل کرنا اور اُن کے مال لوٹنا حلال بلکہ واجب ہیں ۔ (الشہاب الثاقب صفحہ نمبر 222 شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد مدنی دیوبندی)
ابن سعود نے وہابی افکار و نظریات کی توسیع میں سب سے پہلا معرکہ سعودی عرب کے موجودہ دار السلطنت ریاض کے والی امیر دہم بن دواس کے خلاف قائم کیا جو کہ سعودی وہابی اشتراک کے سخت خلاف تھا ، مسلسل تیس سال تک جنگی کشمکش جاری رہی حتیٰ کہ 1773ء میں عبد العزیز بن محمد بن سعود نے ریاض کو فتح کر لیا ۔ اس تیس سالہ جنگ میں 1700 نام نہاد موحدین مارے گئے اور 2300 مظلوم مسلمان تہہ تیغ ہوئے ۔ ( سید سردار محمد حسنی سوانح حیات سلطان عبد العزیز آل سعود صفحہ نمبر 42 ، 43)
شاہ سعود کے ہاتھوں اسلامی وراثتوں کی تباہی اور مسلمانوں کا قتل عام
جب اہل حساء پر شاہ سعود کی فوج کے مظالم کی انتہاء ہو گئی تو اہل حساء کے دلوں میں ان کا زبر دست رعب بیٹھ گیا اور وہ انتہائی خوف زدہ ہو گئے اور شاہ سعود نے مقام طف میں احساء کے پانی کے ذخیرہ پر قبضہ کر لیا اور کافی طویل مدت تک اہل حساء پر پانی بند رکھا یہاں تک کہ اہل حساء کے سردار نے مجبور ہو با دل ناخواستہ اہل حسا کی جانب سے سعود کے ہاتھوں پر بیعت کی پیشکش کی تو سعود شہر سے باہر ایک چشمہ پر جا کر بیٹھ گیا اور لوگوں نے وہاں جا کر اس کے ہاتھوں پر بیعت کی ۔ اس کے بعد انہوں نے احساء کا رخ کیا اور وہاں مزارات پر جتنے بھی گنبد بنے ہوئے تھے ان سب کو منہدم کر دیا اور ان کے تمام آثار و باقیات کو مٹا دیا ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ ریاض جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 98،چشتی)
شاہ سعود نے نواسہ رسول حضرت امام حسن ، حضرت طلحہ اور دیگر صحابہ کرام و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے مزارات اور آثار و باقیات کو بھی مٹایا اور بے شمار مسلمانوں کا بے دریغ خون ناحق بھی بہایا :
عثمان بن بشیر نجدی لکھتا ہے : اس کے بعد سعود نے جامعہ زبیر پر حملہ کیا اور جامع مسجد کے قرب و جوار میں اور شہر کے باہر مزارات پر جس قدر گنبد اور آثار موجود تھے ان سب کو توڑ دیا یہاں تک کہ حضرت امام حسن اور حضرت طلحہ (رضی اللہ عنہما) کے مزارات پر بنے گنبد کو بھی منہدم کر دیا اور ان کی قبروں کا نام و نشان تک مٹا دیا ۔ سقوط درعیہ کے بعد حضرت امام حسن اور حضرت طلحہ (رضی اللہ عنہما) کے مزارات پر دوبارہ گنبد بنا دئے گئے تھے ۔ لہٰذا سعود نے نجدی فوج کو دوبارہ بہیمہ کے قصر پر دھاوا بول دینے کا حکم دیا اور انہوں نے دوبارہ تمام قبروں کو زمین بوس کر دیا اور اس کے حامیوں کو تہہ تیغ کر ڈالا ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ ریاض ج1، ص 132)
سرزمین کربلا پر وہابی نجدی افواج کے انسانیت سوز مظالم
مسعود عالم ندوی لکھتا ہے : اور اس سال 1214 ھ میں سعود نے نجد، حجاز اور تہامہ سے ایک لشکر جرار لیکر سرزمین کربلا کا رخ کیا اور بلد الحسین کے باشندوں پر پوری شدت کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ یہ واقعہ ذی قعدہ کا ہے۔ مسلمانوں (وہابی نجدی فوج) نے اس شہر پر دھاوا بول دیا۔ فوجی اس کی دیواروں پر چڑھ گئے اور جبراً اس میں داخل ہو گئے اور کثرت کے ساتھ وہاں کے باشندوں کو گھروں اور بازاروں میں تہہ تیغ کر دیا اور اس قبہ کو منہدم کر دیا جو ان کے اعتقاد کے مطابق حسین رضی اللہ عنہ کی قبر پر بنایا گیا تھا۔ قبہ اور اس کے آس پاس موجود چڑھاوے کی تمام چیزوں کو ضبط کر لیا۔ قبہ زمرد، یاقوت اور جواہر سے آراستہ تھا۔ اور اس کے علاوہ شہر کے اندر جو بھی مال و متاع تھا سب کو اپنے قبضے میں لے لیا اور وہ شہر میں ایک پہر سے زیادہ نہیں ٹھہرے بلکہ ظہر کے وقت تمام مال و اسباب لیکر وہاں سے نکل آئے، اس حملےمیں اس شہر کے تقریباً دو ہزار آدمی قتل کئے گئے ۔ ( مسعود عالم ندوی محمد بن عبد الوہاب صفحہ نمبر 77،چشتی)
عثمان بن بشیر نجدی لکھتا ہے : 1216ھ میں سعود اپنی طاقتور فوج اور گھڑ سوار لشکر جرار اور تمام نجدی غارت گروں کو لیکر بہ قوت تمام سرزمین کربلا پر حملہ آور ہوا اور ذی قعدہ میں نجدی سورماؤں نے بلد حسین کا محاصرہ کر لیا اور شہر کی تمام گلیاں اور بازار اہلیان شہر کی لاشوں سے بھرے پڑے تھے ، قتل عام سے فارغ ہو کر انہوں نے امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی قبر مبارک کے قبہ کو منہدم کر دیا ۔ روضہ کے اوپر زمرد ، ہیرے اور یاقوت کے جو نقش و نگار بنے ہوئے تھے ، وہ سب لوٹ لیئے ۔ اس کے علاوہ شہر کے اندر لوگوں کے گھروں میں جو مال و متاع ، اسلحہ ، کپڑے حتیٰ کہ چارپائیوں سے بستر تک لوٹ لیئے ۔ اور یہ سب مال و متاع لوٹ کر تقریباً دو ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد وہ نجد واپس لوٹ گئے ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ، ریاض ج1، ص 121-122)
طائف میں شاہ سعود کی قتل و غارت گری
عثمان بن بشیر نجدی لکھتا ہے : سعود نے اپنے ایک کمانڈر عثمان کو سرزمین طائف کو لوٹنے پر مامور کیا ۔ طائف کا امیر غالب شریف قلعہ بند ہو گیا ۔ نجدیوں نے اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ۔ یہاں تک کہ وہ جان بچا کر مکہ کی طرف نکل بھاگا ۔ عثمان نے طائف کی گلیوں اور بازاروں کو مسلمانوں کی لاشوں سے بھر دیا اور دو سو سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا اور طائف کے گھروں سے مال و متاع ، سونا چاندی ، اسلحہ اور تمام قیمتی اشیاء جن کا شمار حد بیان سے باہر ہے ، لوٹ کر نجدیوں میں تقسیم کیا اور اس کا پانچواں حصہ عبد العزیز کے پاس بھیجا جس کے صلہ میں اس کو طائف اور حجاز کا امیر مقرر کر دیا گیا ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ، ریاض ج1، ص 123)
مکہ اور طائف کی فتح کے بعد سعود کے مزید مظالم
عثمان بن بشیر نجدی لکھتا ہے : ثم ان سعوداً و المسلمین رحلو من العقیق و نزلوا المفاصل فاحرموا منھا بعمرۃ و دخل سعود مکۃ و استولی علیھا و اعطیٰ اھلھا الامان و بذل فیھا من الصدقات و العطاء الاھلھا شیئا کثیراً فلما فرغ سعود و المسلمون من الطواف و السعی فوق اھل النواحی یھدمون القباب التی بنیت علی القبور و المشاھد الشرکیۃ ۔
ترجمہ : پھر سعود اپنے ساتھیوں کو لیکر مقام عقیق سے روانہ ہوا اور مفاصل پہنچ کر عمرہ کے لئے احرام باندھا ۔ مکہ پہنچ کر اہل مکہ کو امان دی اور زر کثیر خرچ کیا ۔ عمرہ سے فارغ ہو کر سعود اور اس کے تمام نجدی ساتھیوں نے مکہ کے تمام مزارات کے گنبد گرا دیئےاور متبرک مقامات کی تمام علامات کو مٹا دیا ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ ، ریاض ج1، ص 123) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment