رشید احمد گنگوہی دیوبندی کی نبوت کی طرف پیش قدمی
قُطبُ العالم دیوبندی رشید احمد گنگوہی دیوبندی کہتا ہے : آپ نے کئی مرتبہ بحیثیت تبلیغ یہ الفاظ زبان فیض ترجمان سے فرمائے سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد گنگوہی کی زبان سے نکلتا ہے اور بقسم کہتا ہوں میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانے میں ہدایت و نجات موقوف ہے میرے اتباع پر ۔ (تذکرۃ الرشید جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 17)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم بھی قسم کھا کرفرما رہے ہیں اور دیوبندی رشید احمد گنگوہی بھی قسم کھا کر کہہ رہے ہے اب بتاؤ یہ نبوت کا دعوٰی نہیں تو اور کیا ہے ؟
مزید اسی کتاب میں لکھتے ہیں : مولوی یحیحی صاحب بولے کہ حضرت ایک خادم تھا مولوی محمد اسماعیل صاحب کا جب اس کا انتقال ہو گیا تو کسی نے اس کو خواب میں دیکھا کہ سارے بدن میں آگ لگی ہے مگر ہتھیلیاں سالم اور محفوظ ہے اس نے پوچھا کیوں بھئی کیا حال ہے اس نے کہا کیا کہوں اعمال کی سزا مل رہی ہے سارے بدن کو تکلیف ہے مگر یہ ہاتھ حضرت مولانا کے پاؤں کو لگے تھے اس لیے حکم ہوا کہ ان میں آگ لگاتے ہمیں شرم آتی ہے ۔ ( آگ لگاتے کس کو شرم آئی اللہ کو) ۔ (تذکرۃ الرّشید جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 72)
نعوذ باللہ یہ وہ عقیدے تھے جو غلام احمد قادیانی کو نبی کا اعلان کرنے میں مددگار ثابت ہوئے اسی لیئے کہا گیا کہ قادیانی ہی کافر کیوں ؟ ؟ ( کیا ہے یہ رشید احمد گنگوہی کی اتباع اور نجات اخروی)
اب قرآن اور حدیث سے دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا یے اگر اگر آخرت کی نجات چاہتے ہو تو نبی کی اتباع کرو اور نبی خود اپنی زبان مبارک سے کہہ رہے ہے کہ لکھو قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میری زبان سے حق کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا اب فیصلہ کرو ایک طرف یہ ہی الفاظ دیوبندیوں کے بزرگ استعمال کر رہے ہیں دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسّلم کون نبی اور کس کی اتباع پر نجات ۔
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۔
ترجمہ : اے محبوب ! تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ (سورہ العمران آیت نمبر 31)
محترم قارئین : یہی وجہ ہے کہ ان کے ماننے والوں کو بیت اللہ اور مسجد حرام میں جاکر بھی چین نہ آیا اور گنگوہ کا راستہ پوچھتے پھرتے رہے آخر وہ کونسا حق ہے کہ ایک بار سن لینے کے بعد مسجد حرام میں بھی گنگوہ کا راستہ پوچھتے پھرتے رہے آئیں وہ حق آپ تک پہنچاتے ہیں جسکے لکھنے کے بعد انکے ماننے والے فرماتے ہیں کہ رشید احمد گنگوہی کا قلم عرش سے اوپر چلتا ہے ۔(ﺗﺬﮐﺮۃ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ،ﺟﻠﺪ ﺩﻭﻡ،چشتی)
اب جب وہ قلم ان کی کتابوں پر چلا تو دیکھیں کیا کیا رنگ بکھیرے ہیں ملاحظہ ہوں :
پہلے یہ بتائیں کیا آپ کو معلوم ہے کہ رشید احمد گنگوہی صاحب ہیں کون ؟
ارے جناب من یہ رشید احمد گنگوہی وہی ہیں جن کے متعلق ان کے ماننے والے فرماتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسّلم بھی ہماری خواب میں رشید احمد گنگوہی کی صورت میں آتے ہیں ۔ (علمائے دیوبند کے واقعات و کرامات صفحہ نمبر 57 حافظ مومن خان عثمانی دیوبندی مطبوعہ المیزان اردو بازار لاہو)
اب اتنی معتبر شخصیت ہیں تو پھر ان کی زبان سے حق تو نکلنا ہی تھا انکے قلم سے عرش سے پرے تو چلنا ہی تھا ان کے ماننے والوں نے خانہ کعبہ میں جا کر بھی گنگوہ کا راستہ تو پوچھنا ہی تھا ۔
رشید احمد گنگوہی صاحب کمال کی شخصیت تھیں ان کی کمال شخصیت پر سنیوں نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام ہے داڑھی والی دلہن یہ کتاب کس موضوع پر ہے یہ ایک بڑی دلچسپ داستان ہے اس میں رشید احمد گنگوہی صاحب اور قاسم نانوتوی صاحب کے نکاح کا بھی تذکرہ ہے (تذکرۃ الرشید صفحہ 283 جلد دوم)
اور ساتھ میں الٹا لیٹنے کا بھی تذکرہ موجود ہے لگے ہاتھوں وہ بھی سنا دوں تاکہ حق بولنے والے کے حق بیان کرنے سے پہلے ان کی کرامات سے بھی آپ خوب واقف ہوں جنکا قلم عرش سے پرے چلتا ہے ۔
ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﮔﻨﮕﻮﮦ ﮐﯽ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﻤﻊ ﺗﮭﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﮔﻨﮕﻮﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﺎﻧﻮﺗﻮﯼ کے ﻣﺮﯾﺪﻭ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﺳﺐ ﺟﻤﻊ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﻣﺠﻤﻊ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻓﺮﻣﺎﺗﮭﮯ۔ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﮔﻨﮕﻮﮨﯽ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﺎﻧﻮﺗﻮﯼ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺍٓﻣﯿﺰ ﻟﮩﺠﮧ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺫﺭﺍ ﻟﯿﭧ ﺟﺎﺋﻮ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﺎﻧﻮﺗﻮﯼ ﮐﭽﮫ ﺷﺮﻣﺎ ﺳﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﺩﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﺖ ﻟﯿﭧ ﮔﺌﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﻮ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺎﺷﻖ ﺻﺎﺩﻕ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﻠﺐ ﮐﻮ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﮨﺮ ﭼﻨﺪ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺎﮞ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﺩﻭ ۔ (ﺣﮑﺎﯾﺎﺕ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﻋﺮﻑ ﺍﺭﻭﺍﺡ ﺛﻼﺛﮧ صفحہ نمبر 228 ﺣﮑﺎﯾﺖ ﻧﻤﺒﺮ 304،چشتی)
یاد رہے یہ رشید احمد گنگوہی صاحب اتنے کامل اور عامل تھے کہ اگر کوئی بچہ یا لڑکا ان کے بستر پر لیٹ جاتا تو آپ خوشبو سونگھ کر بتا دیتے کہ بچہ لیٹا ہے یا لڑکا ۔ (ﺗﺬﮐﺮﺓ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﻣﻄﺒﻮﻋﮧ ﺩﺍﺭﺍﻟﮑﺘﺎﺏ، جلد دوم)
آئیں اب اس حق کی جانب متوجہ ہوتے ہیں جس کی جانب رشید احمد گنگوہی صاحب نے اپنے ماننے والوں کی رہنمائی فرمائی ہے رشید احمد گنگوہی صاحب فتاوی رشیدیہ صفحہ نمبر 598 میں فرماتے ہیں کوا کھانا ثواب ہے ۔
جب اہلسنت کے اکابرین نے عوام اہلسنت کو اور ان کو بتایا کہ بستیوں میں گھومنے والا کالا کوا حرام ہے حلال وہ ہے جسے عقعق کہتے ہیں یہ پرندہ حلال کھاتا ہے اور یہ تقریباََ سرخ رنگ کا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں وہ کوا نہیں پایا جاتا اور یہی مسئلہ اسی طرح بہار شریعت میں بھی موجود ہے اس پر اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت رحمۃ اللہ علیہ نے ایک پورا رسالہ مرتب کیا اور رشید احمد گنگوہی سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ تمھیں زاغ معروفہ کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے یہ کوا حلال نہیں آپ نے دفع زیغ زاغ کے نام سے رسالہ مرتب کیا جس میں آپ نے رشید احمد گنگوہی سے اس حلال شدہ دیوبندی کوے پر 40 سوال کیے جس کا آج تک کوئی دیوبندی سپوت جواب نہ دے سکا ۔
چونکہ دیوبند کا عقیدہ ہے کہ حق وہی ہے جو رشید احمد گنگوہی صاحب کے منہ سے نکل گیا اور سچ وہی ہے جو رشید صاحب کی قلم سےبیان ہوگیا جس کی وجہ سے اہل دیوبند نے اپنی غلطی قبول نہ کی بلکہ تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ کوا اگر عقعق نہیں بھی ہے تب بھی حلال ہے ۔
یہاں ان بے چاروں کا قصور نہیں جن کے بارے رشید احمد گنگوہی صاحب فرماتے ہیں کہ شیعہ کافر نہیں چاہے وہ صحابہ کو کافر کیوں نہ کہیں معاذ اللہ جب ان کے بھائی یعنی اہل تشیع کوے کو حرام نہیں مانتے تو یہ کیسے مان سکتے ہیں حوالہ ملاحظہ ہو :
ﺯﺭﺍﺭﮦ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺿﺎ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﻮّﺍ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺣﺮﺍﻡ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﺍﻡ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﻮ ـ (ﺗﮩﺬﯾﺐ ﺍﻻﺣﮑﺎﻡ ، ﺟﻠﺪ 9 ، ﺹ 18 ، ﻓﯽ ﺍﻟﺼﯿﺪ ﺍﻟﺦ) ، (ﻭﺳﺎﺋﻞ ﺍﻟﺸﯿﻌﮧ ، ﺟﻠﺪ 16 ، ﺹ 396 ، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻻطعمۃ ﻭ ﺍﻻﺷﺮبۃ)
آج سمجھ آیا کہ حسین احمد مدنی نے شیعہ اور دیوبندیوں کے درمیان مناظرہ رکوانے کے لیئے شیعہ سنی (دیوبند) بھائی بھائی کا نعرہ کیوں لگوایا تھا
No comments:
Post a Comment