Sunday 10 February 2019

مسلمانوں پر نجدیوں کے انسانیت سوز مظالم اِن خارجی دہشت گردوں کو پہچانیئے

0 comments

مسلمانوں پر نجدیوں کے انسانیت سوز مظالم اِن خارجی دہشت گردوں کو پہچانیئے

محترم قارئین : نجدیوں نے فرقہ وارانہ تعصب و انتہا پسندی کی بنیاد پر غیر وہابی امن پسند مسلمانوں کے خلاف شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی اور ان کے ہم رکاب ابن سعود کے انسانیت سوز مظالم جو ہم اس سے پہلے مضامین میں عرض کر چکے ہیں وہ ان کے ان وحشت ناک مظالم کے مقابلے میں انتہائی معمولی معلوم ہوتے جن کا ذکر ذیل میں علامہ جمیل عراقی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ کتاب ‘‘الفجر الصادق’’ کے حوالے سے اب ہم پیش کر رہے ہیں ۔ ان انسانیت سوز مظالم کی داستان پڑھنے کے بعد اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں جاری داعش اور اس جیسی انتہاء پسند دہشت گرد تنظیموں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی ایک ٹھوس بنیاد شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے معمولات اور اصول و معتقدات پر ہے ۔ اور ان کی تمام تر دہشت گردانہ سرگرمیاں نظریہ وہایت کی عملی توسیع ہیں ۔

علامہ جمیل رحمۃ اللہ علیہ عراقی الفجر الصادق میں لکھتے ہیں : شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی نفرت انگیز سرگرمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے کثیر تعداد میں علمی کتب کو نذر آتش کروایا ۔ ثانیاً اس نے کثیر تعداد میں علماء حق کو قتل کروایا ، اور اسی طرح اس کے ہاتھ عوام و خواص میں سے بے شمار لوگوں کے خون ناحق سے رنگے ہوئے ہیں ، نیز وہ ان کے قتل کو حلال اور ان کے مال و اسباب کو لوٹنا جائز مانتا تھا ۔ ثالثاً اس نے اولیاء اللہ کی قبروں کو مسمار کیا ۔ رابعا اس کا اس سے بھی زیادہ قابل نفرت کارنامہ یہ ہے کہ اس نے احساء میں اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی قبروں کو بیت الخلاء میں تبدیل کروا دیا ۔ وہ لوگوں کو دلائل الخیرات اور دیگر ذکر و اذکار سے منع کرتا تھا ۔

اسی طرح محفل میلاد اور مسجد کے میناروں میں اذان کے بعد درود شریف پڑھنے سے بھی منع کرتا تھا ۔ جو مسلمان یہ مبارک و مستحسن کام کرتے انہیں قتل کروا دیتا ۔ نماز کے بعد دعا مانگنے سے بھی منع کرتا تھا ۔ انبیاء علیہم السّلام ، اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ اور ملائکہ کے وسیلے سے دعا مانگنے کو صراحۃً کفر کہتا تھا ۔ نیز اس کا یہ بھی ماننا تھا کہ جو کوئی بھی کسی شخص کو مولانا یا سید کہے وہ کافر ہے ۔

وہابیہ کے انتہائی بدترین مظالم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے طائف پر غلبہ حاصل کر کے مسلمانوں کے قتل عام کا بازار گرم کر دیا ، یہاں تک کہ ضعیف اور کمزور و ناتواں لوگوں کی بھی نہیں بخشا، اور مسلمانوں کے اس قتل عام میں انہوں نے امیر و مامور اور عوام و خواص کا کوئی فرق نہیں کیا۔بلکہ ان کے مظالم کی انتہا یہ تھی کہ وہ ماؤں کے سامنے ان کے شیر خوار بچوں کو ذبح کر دیا کرتے تھے۔ ایک جگہ چند لوگ قرآن کی تلاوت میں مشغول تھے اور انہوں نے ان تمام مسلمانوں کو اسی حالت میں قتل کر دیا ۔ گھروں میں قتل و غارت گری سے فارغ ہو کر انہوں نے دکانوں اور مسجدوں کا رخ کیااور مسجد کے اندر نمازیوں کو اس طرح عین حالتِ نماز میں قتل کیا کہ کوئی حالت قیام میں تھا ، کوئی رکوع میں اور کوئی سجدے میں تھا، حتیٰ کہ بیس یا پچیس لوگوں کے سوا تمام اہل طائف کو انہوں نے تہ تیغ کر دیا ۔

انہوں نے ایک دن میں دو سو ستر مسلمان قتل کیئے اور دوسرے اور تیسرے دن بھی ان کے ہاتھ سے اتنے ہی مسلمان قتل کیئے گئے ۔ انہوں نے تیسرے دن اہل طائف کو بلایا اور انہیں امان دینے کے بہانے دھوکے سے ان کے تمام ہتھیار چھین لیئے ، ان تمام کو برفانی وادی میں لے گئے اور مردوں اور عورتوں کے کپڑے اتروا کر وہیں تڑپتا چھوڑ گئے ، ان کا مال و متاع لوٹ لیا اور کتابوں کو سر عام پھینک دیا ۔

ان کتابوں میں قرآن مجید کے متعدد نسخے ، صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور حدیث و فقہ کی ہزاروں دیگر کتابیں تھیں ۔ کافی عرصہ تک یہ کتابیں اپنی عظمت و حرمت کی صدائیں دیتی رہیں اور نجدی ان مقدس اوراق کو اپنے قدموں تلے روندتے رہے لیکن کسی بھی شخص کو اس بات کی قطعی اجازت نہیں تھی کہ وہ ان اوراق کو زمین سے اٹھائے ۔ اس کے بعد انہوں نے طائف کے گھروں میں آگ لگا دی اور ایک خوبصورت اور آباد شہر کو برباد کر کے ایک چٹیل میدان بنا دیا ۔ اور یہ واقعہ 1217 ہجری میں وقوع پذیر ہوا ۔ (علامہ جمیل عراقی رحمۃ اللہ علیہ الفجر الصادق صفحہ نمبر 21 ، 22،چشتی)

علامہ ابی حامد بن مرزوق رحمۃ اللہ علیہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے چند عقائد فاسدہ اور افعال مذمومہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : جیسا کہ ہم ابتداء میں ہی یہ ذکر کر چکے ہیں کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے بنیادی عقائد چار ہیں:

(1) اللہ کو مخلوق سے مشابہ ماننا ۔

(2) الوہیت و ربوبیت کو صفت واحدہ ماننا ۔

(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم نہ کرنا ۔

(4) تمام (غیر وہابی) مسلمانوں کی تکفیر کرنا ۔

مذکورہ چاروں عقائد میں شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی ابن تیمیہ کا مقلد ہے اور ابن تیمیہ پہلے عقیدے میں کرامیہ اور مجسمہ کا مقلد ہےاور چوتھے عقیدے میں خوارج کا مقلد ہے ، جبکہ دوسرا اور تیسرا عقیدہ اس کی اپنی اختراع ہے ۔ پہلے اس نے الوہیت و ربوبیت میں وحدت کا عقیدہ تراشا اور اس کے اوپر اپنے تیسرے عقیدے یعنی تنقیص رسالت کی بنیاد رکھی ۔

شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر درود پڑھنے کو ناپسند کرتا تھا اور درود سننے سے اسے تکلیف ہوتی تھی۔ اور خاص طور پر جمعہ کی رات درود شریف پڑھنے سے لوگوں کو منع کرتا تھا اور مسجد کے میناروں پر بہ آواز بلند درود پڑھنے سے بھی روکتا اور جو شخص درود شریف پڑھتا اسے سخت اذیت دیتا، یہاں تک کہ ایک مرتبہ اس نے ایک نابینا اور صالح موذن کو صرف اس بات پر تہ تیغ کروا دیا کہ اس نے مسجد کے مینار پر اذان کے بعد درود شریف پڑھا تھا ۔

ابن تیمیہ نے تکفیر مسلمین کے اپنے عقیدے کو اپنی کتابوں میں کتاب و سنت کی اصطلاحات اور علماء کی عبارتوں کے پردے میں چھپا رکھا تھا، لیکن شیخ نجدی نے ان تمام احتیاطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تکفیر مسلمین کا فتویٰ دے دیا اور اس کی بنیاد ابن تیمیہ پر رکھی ۔

شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کا کہنا تھا کہ مسجد کے میناروں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر درود شریف پرھنے کا گناہ ایک فاحشہ کسبیہ کے گھر میں مزامیر بجانے سے بھی زیادہ ہے ، اور اپنے پیروکاروں کو فریب دیتا تھا کہ توحید کی حفاظت کا طریقہ صرف یہی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے درود شریف کی عام کتابوں اور خاص طور پر دلائل الخیرات کو جلوا دیا ، اس کا کہنا تھا کہ یہ بدعت ہے اور توحید کی محافظت کا بس یہی ایک راستہ ہے ۔ اور وہ اپنے پیروکاروں کو فقہ ، حدیث اور تفسیر کی کتابیں مطالعہ کرنے سے روکا کرتا تھا اور اس نے ہر شخص کو اپنی اپنی عقل کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کی اجازت دے رکھی تھی ، چنانچہ اس کے متبعین ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ اور وہ قرآن سے جو معانی و مطالب اخذ کرتے اسی پر عمل کرتے اور دوسروں کو بھی اس پر مجبور کرتے ۔ (شیخ ابی حامد بن مرزوق رحمۃ اللہ علیہ التوسل بالنبی و جہلۃ الوہابیین صفحہ نمبر 244 ، 245) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔