اکابرینِ دیوبند کا تعارف ذرا غور سے پڑھیئے
محترم قارئین : اکابرین دیوبند کیسے تھے چند مثالیں دی جارہی ہے جس سے قارئین حضرات خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اکابرین دیوبند کیسے تھے ۔
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
محترم قارئین : اکابرین دیوبند میں اسمٰعیل دہلوی کو بہت بڑا مقام حاصل ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اسمٰعیل دہلوی کی کتاب تقویة الایمان ان دیوبندیوں کے نزدیک عین اسلام ہے ( نعوذ باللہ )ملاحظہ ہو) (فتاویٰ رشدیہ صفحہ نمبر 219, ایمان اور کفر کےمسائل کا بیان, ناشر دارالاشاعت کراچی)
جبکہ اس کتاب تقویة الایمان نے ہند کی سرزمین سے امن وشانتی کو تار تار کردیا اور گھر گھر میں اس کتاب نے وہ فساد افتراق انتشار پیدا کردیا جسکی تاریخ ہند میں نہیں ملتی اور اسمٰعیل دہلوی نے اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ اس کتاب یعنی تقویة الایمان کی اشاعت سے شورش ہوگی (ملاحظہ ہو ارواح ثلاثہ صفحہ نمبر 68حکایت نمبر 42 کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
خیر حضرات اب ملاحظہ کریں دیوبندی اکابر اسمٰعیل دہلوی کیسے تھے ؟ تو آپ کو بتا دوں کہ اسمٰعیل دہلوی ہر قسم کے کھیل کھیلتے تھے یہاں تک کہ پتنگ بھی اڑاتے تھے حد تو یہ ہیکہ شطرنج بھی کھیلتے تھے دلیل دیوبندی کتاب سے ملاحظہ کریں دیوبندی مولوی نے اپنے اکابر کے کھیل کی کہانی لکھی خود کی زبانی چنانچہ لکھا اسمٰعیل دہلوی کے بارے میں کہ : اور کھیل بھی ہر قسم کے کھیلتے تھے پتنگ بھی اڑاتے تھے شطرنج بھی کھیلتے تھے ۔ (حوالہ ارواح ثلٰثہ صفحہ نمبر 77حکایت نمبر 52کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
اسی طرح اسمٰعیل دہلوی دوسرے کو چھیڑا بھی کرتے تھے چنانچہ دیوبندی مولوی نے اپنے اکابر کے چھیڑا چھیڑی کی کہانی لکھی اپنی زبانی لکھا اسمٰعیل دہلوی کے تعلق سے کہ : مولوی وجیہ الدین صاحب بھی مولانا اسماعیل صاحب کے ساتھ جہاز میں تھے اور دونوں مل کر حاجیوں کیلئے آٹا پیسا کرتے تھے آٹا پیستے ہوئے مولانا ان کو چھیڑا کرتے تھے کبھی آٹا ان کے منھ پر مل دیتے تھے کبھی پیٹ پر کبھی کوئی اور مزاق کرتے رہتے تھے ۔ (حوالہ ارواح ثلٰثہ صفحہ نمبر 65حکایت نمبر 49کتب خانہ نعیمیہ دیوبند ،چشتی)
محترم قارئین : ان سب حرکتوں کا نتیجہ تھا کہ دیوبندیوں وہابیوں کے امام اسمٰعلیل دہلوی ایک حدیث کا معنی تک نہیں سمجھ پاتا تھا چنانچہ ثبوت کیلئے دیوبندی مولوی کی عبارت ملاحظہ ہو ارواح ثلٰثہ کتاب سے لکھا کہ : شاہ عبد القادر صاحب نے فرمایا بابا ہم تو سمجھتے تھے کہ اسماعیل عالم ہوگیا مگر وہ تو ایک حدیث کے معنی بھی نہ سمجھا ۔ (حوالہ ارواح ثلٰثہ صفحہ نمبر 81حکایت نمبر 56کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
محترم قارئین : اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی لوگ تھے جو شرارتی تھے اور کمر بند دوسرے کا کھولنے میں ماہر تھے حوالہ نوٹ کریں کتاب کا نام ملفوظات حکیم الامت جلد 11 صفحہ 70 میں دیوبندی نے اپنے اکابرین کی ایک دلچسپی سے بھرپور کہانی خود کی زبانی لکھی ہے ملاحظہ کریں لکھا ہے : مولانا یعقوب صاحب کے صاحبزادے کے کمر بند کو مولانا قاسم نانوتوی کھول دیتے تھے ۔ اس لئے میں کہتا ہوں بانی کا جب یہ عالم ہے پیروکاروں کا عالم کیا ہوگا ۔
اچھا سوال پیدا ہوتا ہے بانی دیوبند قاسم نانوتوی کمر بند کیوں کھولتا تھا ؟ کیا کرنے کیلئے؟ کیا دیکھنے کیلئے ؟
اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے لوگ بھی تھے جو کھانے کیلئے چھپٹا چھپٹی بھی کرتے تھے ۔ (حوالہ ملفوظات حکیم الامت صفحہ 70 جلد 11)
اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے لوگ بھی تھے جو جوتیاں چوری کرلیا کرتے تھے اور جوتی چوری کر کے چھوپا دیا کرتے تھے ۔ (حوالہ ملفوظات حکیم الامت جلد 11صفحہ 73)
اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے لوگ بھی تھے جو چپل چور بھی تھے اکابرین دیوبند میں ایسے بھی لوگ تھے جو اپنے ماما کی رکابی میں کتے کا پلہ ڈال دیا کرتے تھے اکابرین دیوبند میں ایسے بھی لوگ تھے کہ اپنے ہی بھائی کے سر پر پیشاب کرتے تھے اکابرین دیوبند میں ایسے بھی لوگ تھے جوپہلے علم حاصل کرتے تھے پھر بھول جایا کرتے تھے ۔ (حوالہ نوٹ کریں ملفوظات حکیم الامت جلد چہارم صفحہ 261 ) ۔ دیوبندی مولوی نے خود لکھا اپنے اکابر کی چوری کی کہانی خود کی زبانی فرمایا : ایک مرتبہ میرٹھ میں میاں الٰہی بخش صاحب مرحوم کی کوٹھی میں جو مسجد تھی سب نمازیوں کے جوتے جمع کر کے اس کے شامیانہ پر پھینک دیئے نمازیوں میں غل مچا کہ جوتے کیا ہوئے ؟
محترم قارئین : اپ کو یاد ہے اس سے قبل بھی میں نے آپ حضرات کو بتا آیا ہوں کہ اکابرین دیوبند جوتے چوری کرکے چھپا دیا کرتے تھے اب یہ دوسرا جوتا چور اکابر ہے دیوبندیوں کا ۔
اب دوسرا حوالہ نوٹ کریں (ملفوظات حکیم الامت جلد چہارم صفحہ یہی 261، چشتی) ۔ لکھا ہے دیوبندی مولوی نے خود کی زبانی اپنے اکابر کے کہانی ۔ لکھا ہے کہ : ہماری سوتیلی والدہ کے بھائی بہت ہی نیک اور سادہ آدمی تھے والد صاحب نے ان کو ٹھیکہ کے کام پر رکھ چھوڑا تھا ایک مرتبہ کمریٹ سے گرمی میں بھوکے پیاسے پریشان گھر آئے اور کھانا نکال کر کھانے ۔
میں مشغول ہو گئے گھر کے سامنے بازار ہے میں نے (یعنی دیوبندیوں کے حکیم الامت) سڑک پر سے ایک کتا کا پلہ چھوٹا سا پکڑ کر گھر آکر ان کی دال کی رکابی میں رکھ دیا بچارے روٹی چھوڑ کر کھڑے ہو گئے ۔
اب کیا کہا جائے دیوبندی کے حکیم الامت نے اپنے ماما کے دال کی رکابی میں کتا کا پلہ ہی ڈال دیا تو بچارے کھاتے کیسے ؟ اور قارئین آپ کو پتہ ہے یہ صرف دیوبندیوں کے اکابر نہیں مجدد بھی ہیں ۔
تیسرا حوالہ نوٹ کریں ملفوظات حکیم الامت جلد چہارم صفحہ 262 دیوبندی مولوی نے اپنے مجدد کے پیشاب کی کہانی خود کی زبانی لکھی لکھا ہے کہ : فرمایا میں (یعنی دیوبندی حکیم الامت) ایک روز پیشاب کر رہا تھا بھائی صاحب آئے (دیوبندی حکیم الامت کے بھائی) آکر میرے سر پر پیشاب کرنا شروع کر دیا ایک روز ایسا ہوا کہ بھائی پیشاب کر رہے ہیں میں نے ان کے سر پر پیشاب کرنا شروع کر دیا ۔
محترم قارئین : کچھ سمجھ آیا کہ نہیں بات یہ ہوئی کہ دیوبندی مجدد کے سر پر دیوبندی مجدد کے بھائی نے پیشاب کی اور غصہ میں آکر بدلہ لینے کیلئے دیوبندی مجدد دیوبندی حکیم الامت نے اپنے بھائی کے سر پر بھی پیشاب کر دیا ۔
دیوبندی کے حکیم الامت جو ہے جن کو دیوبندی مجدد کہتے ہیں وہ تو بقول دیوبندی کے عالم تھے مگر بعد میں جاہل ہو گے تھے سب بھول گے تھے چوتھا حوالہ بھی نوٹ کریں ملفوظات حکیم الامت جلد چہارم صفحہ ہے 306 دیوبندی مولوی نے اپنے حکیم الامت کی جہالت کی کہانی لکھی خود کے قلم سے لکھا کہ : اس واقعہ کو ختم کر کے پھر فرمایا خدا کا فضل و کرم ہے کہ یہ درس و تدریس کا کام اور جگہ اچھا ہو رہا ہے اب ہر شخص ایک ہی کام میں لگ جائے اس کی کون ضرورت ہے اور میں تو اب اس کام کا رہا ہی نہیں سب بھول بھال گیا جو کچھ لکھا پڑھا تھا۔
یعنی دیوبندی مجدد بعد میں جاہل ہو گئے تھے کچھ یاد نہیں رہا یاد بھی کیسے رہے بھائی کے سر پر پیشاب جو کیا ماما کی دال کی رکابی پر کتا کا پلہ جو ڈالا نمازیوں کے چپل جو چوری کی ۔
اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جن کو ننگاہ ہو کر گھومنے کا بڑا شوق تھا اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جن کو اپنا عضو تناسل پکڑوانے میں بڑا لطف ملتا تھا اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو اپنے پیچھے کے مقام یعنی دُبر میں اُنگلی ڈلوانے کے بڑے شوقین تھے اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو خود کو بھڑوا کہلاتے اور اور ساتھ میں اپنے بھڑوا ہونے کا پرچار بھی کروانے کے شوقین تھے حوالہ نوٹ کریں ملفوظات حکیم الامت جلد 9۔صفحہ 212 دیوبندی مولوی نے خود اپنے نوکے قلم سے اپنے اکابر کی لطف اندوز کھانی جو حقیقت پر مبنی ہے بیان کی ہے ( واقعہ تو طویل ہے بس مفہوم نقل کرتا ہوں کہ : اشرف علی تھانوی (یعنی دیوبندی فرقہ کے حکیم الامت) کے ماموں صاحب کانپور آئے عبد الرحمٰن صاحب اشرف علی تھانوی کے ماموں سے ملنے آئے مل کر بڑے خوش ہوئے پھر عبدالرحمٰن صاحب نے اشرف علی تھانوی کے ماموں سے واعظ کرنے کی فرمائش کی پہلے پہل تو اشرف علی تھانوی کے ماموں نے انکار کیا جب عبد الرحمٰن نے بار بار اصرار کیا تو اشرف علی تھانوی کے ماموں نے کہا واعظ کرونگا مگر اسکی ایک شرط ہے عبدالرحمٰن صاحب نے کہا شرط کیا ہے کہا شرط یہ ہے کہ میں میں بالکل ننگاہ ہوکر بازار میں سے نکلوں اس طرح کہ ایک شخص تو آگے سے میرے عضو تناسل کو پکڑ کر کھینچےاور دوسرا پیچھے سے اُنگلی کرے اور ساتھ میں لڑکوں کی فوج ہو اور وہ یہ شور مچاتے جائیں بھڑوا ہے رے بھڑوا بھڑوا ہے رے بھڑوا۔اس وقت میں عقائق و معارف بیان کرونگا ۔
اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو انسان نہیں بلکہ فرشتہ تھے محترم قارئین آپ کو سن کر حیرانی ہوئی ہوگی لیکن میں آپ حضرات کو اور حیران کن بات بتانے جا رہا ہوں کہ اکابرین دیوبند صرف فرشتہ ہی نہیں بلکہ اکابرین دیوبند میں تو ایسے تھے جو فرشتہ مقرب تھے حوالہ نوٹ کریں ارواح ثلاثہ حکایت نمبر 241صفحہ نمبر 192 لکھا قاسم نانوتوی دیوبندی کے تعلق سے کہ : انسانیت سے بالا درجہ ان کا دیکھا وہ شخص ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر ہوا تھا ۔
محترم قارئین : آپ کو یاد ہے یہ وہی قاسم نانوتوی ہے جو شرافت کی حد پار کرکے دوسرے کا کمر بند کھولتے ہیں اور یہاں دیکھا آپ حضرات نے وہی کمر بند کھولنے والا فرشتہ مقرب ہے ۔
اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو گنوارتھے( یعنی جاہل) اور اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو بالکل کالے موٹے (یعنی بھینس) تھے آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں کیسی کیسی باتیں کر رہا ہوں اکابرین دیوبند اور جاہل گنوار اکابرین دیوبند اور بھینس جبکہ قارئین آپ نے بہت سے دیوبندی کو دوسرے کے اکابر کو جاہل کہتے سنا ہوگا یہاں تک کہ دیوبندی تو آج کل کالا حضرت کہتے نہیں تھکتے تو حضرات قارئین یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہ رہا کہ دیوبندی اکابر جاہل گنوار تھے بلکہ یہ بات تو دیوبندی نے خود کہا ہے اور دیوبندی اکابر بالکل کالے کلوٹے موٹے بھینس تھے اور یہ بات بھی میں خود نہیں کہ رہا بلکہ یہ بات بھی دیوبندی نے خود کہا ہے حوالہ نوٹ کریں ارواح ثلاثہ حکایت نمبر 242صفحہ نمبر 192 دیوبندی مولوی نے خود کے قلم سے اپنے اکابرین کی خوبی بیان کی لکھا ہے کہ : نانوتوی اور فیض الحسن یہ دونوں ہمعصر تھے اور بہت ہی بے تکلف تھے ایک دفعہ انہوں نے (یعنی فیض الحسن نے) غایت بے تکلفی میں ہمعصرانہ طریق پر نانوتوی کو فرمایا بے جا گنوار کے لونڈے تجھے ان چیزوں یعنی علوم سے کیا واسطہ تو جاکر ہل جوت کھیتی کر اس کے جواب میں نانوتوی نے ہنس کر فیض الحسن سے کہا ایک بھینسا تو موجود ہے (یعنی فیض الحسن بھینسا) دوسرا ہو جائے گا تو ہل جڑے گا)
محترم قارئین : کچھ بات سمجھ آئی کہ نہیں ؟ ۔ دیوبندی اکابر جاہل ہے گنوار ہے اور یہ فضول میں دوسرے کو جاہل کہتے ہیں دوسری بات دیوبندی کے اکابر کالے کلوٹے ہیں بھینس ہیں اس بنا پر دیوبندی اپنے اکابر فیض الحسن کو کالا حضرت بول کر پکارتے ہیں یا پھر دیوبندی آپنے اس کالا حضرت فیض الحسن کو چھپانا چاہتے ہیں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔
اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی اکابر تھے جو جاہل تھے اور صرف جاہل ہی نہیں بلکہ اکابرین دیوبند تو اجہل تھے حوالہ نوٹ کریں کتاب کا نام اکابر دیوبند کیا تھے تقی عثمانی دیوبندی کی کتاب صفحہ نمبر 33 دیوبندی کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی کا واقعہ لکھا ہے اور اشرف علی تھانوی خود اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ : رہا جاہل ہونا اس کا البتہ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں جاہل بلکہ اجہل ہوں ۔
اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جن کے اندر ساری گندگی بھری ہوئی تھی قارئین حضرات آپ پریشان ہونگے کہ اکابرین دیوبند اور ان کے اندر ساری گندگی بھری ہوئی تھی یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ اورساری گندگی بھری ہوئی تھی اس کا صاف مطلب ہے کہ اکابر دیوبند میں ایسے بھی تھے جو گندگی کے بھنڈار تھے ؟ جی بالکل ایسا ہی ہے حوالہ نوٹ کریں کتاب کا نام ہے اکابر کا مقام تواضع صفحہ نمبر 76 ادارہ اسلامیات لاہور کراچی سے کتاب چھپی ہے دیوبندی نے خود اپنے قلم سے لکھا ہے کہ : ان کے اکابر کہا کرتے تھے کہ میں کیا ہوں میرے اندر ساری گندگی بھر ہوئی ہے ۔
اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو پاخانہ کے اندر حقّہ نوشی کرتے تھے اور رات میں اٹھ اٹھ کر حقہ پیتے رہتے تھے حوالہ نوٹ کریں نقش حیات مکمل خود نوشت وسوانح حیات حسین احمد مدنی حصہ اول صفحہ نمبر 103 حسین احمد ٹانڈوی نے خود اپنے قلم سے اپنے والد صاحب کے بارے میں لکھا کہ : والد صاحب مرحوم کو حقّہ کی اس قدر عادت تھی کہ پاخانہ میں بھی حقّہ لے کر جاتے تھے اور رات میں اٹھ اٹھ کر پیا کرتے تھے ۔
اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو گالیاں اور بدعاء دیا کرتے تھے چنانچہ رشید احمد گنگوہی کے استاذ محمد بخش جب حج کرکے واپس ہوئے تو لوگوں نے پوچھا کہ حضرت ہمارے لیئے بھی دعا کی کہ نہیں تو رشید احمد گنگوہی کے استاذ محمد بخش نے جواب دیا لوگوں کو : ہاں گالیاں بھی دی تھیں اور بدعا بھی کی تھی ۔ )حوالہ تذکرة الرشید جلد دوم صفحہ نمبر 349 مصنف عاشق الٰھی بلند شہری,کتب خانہ اشاعت العلوم)
محترم قارئین : اب نتیجہ آپ حضرات خود نکالیں کہ دیوبندی کے اکابرین کی حالت یہ ہے تو اصاغرین کی حالت کیا ہوگی جب دیوبندی کے اکابرین اپنے لوگوں کو گالیاں اور بدعاء دیا کرتے ہیں تو غیروں پر کیا ستم ڈھاتے ہونگے ۔ یاد رہے ہم نے یہ کچھ نمونے بطور الزام پیش کر دیئے ورنہ ہمیں ضرورت نہیں تھی کیونکہ آجکل دیوبندی صحابہ رضون اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بارے بولتا نظر آتا ہے کہ وہ تو ایسے تھے تو کوئی دیوبندی مثلا ابو عیوب دیوبندی (ہم اہل سنت وجماعت سنی حنفیوں) کے اکابرین پر جملے کستا ہوا نظر آتا ہے کہ وہ ایسے تھے تو ویسے تھے توہم نے بس آئینہ دکھایا ورنہ مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے دیوبندیوں ہوش کے ناخن لو ورنہ اسی طرح تمہاری حقیقت سب کے سامنے آتی رہینگی اور تم سب دیوبندی وہابی کہیں منہ دکھانے لائق نہیں رہو گے ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment