Friday 8 February 2019

محمد بن عبد الوہاب نجدی کے گمراہ کُن عقائد کا رد اُسی کے بھائی کی زُبانی

0 comments
محمد بن عبد الوہاب نجدی کے گمراہ کُن عقائد کا رد اُسی کے بھائی کی زُبانی

محترم قارئین : یہ بات اکثر قارئین کے لیئے باعث حیرت ہو سکتی ہے کہ ایک طرف تو محمد بن عبد الوہاب نجدی پوری دنیا کو (نام نہاد) خالص توحید پرستی کا درس دینے کے خمار میں ظلم عدوان کی حد تک تجاوز کرتے ہوئے اور وہابی نظریہ توحید سے اعراض کرنے والوں کو تہہ تیغ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، لیکن جب خود اُن کے بھائی علاّمہ سلیمان بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1208ہجری) ان کے نومولود توحیدی افکار و نظریات کی علمی گرفت کرتے ہیں تو شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی اور ان کی پوری جماعت صم بکم عمی کی تصویر بنی ہوئی نظر آتی ہے ۔ جبکہ علمی دیانت داری اور غیرت دینی کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر ان کی فکری اور نظریاتی بنیادیں جادۂ حق و صداقت کی رہنمائی کرتی ہیں تو انہیں علماء حق کے اعتراضات کا مدلل اور معقول جواب دینا چاہیئے ، اور اگر وہ ان علماء حق کی علمی گرفت سے خود کو نہیں بچا سکتے اور ان کے اعتراضات کا معقول جواب نہیں دے سکتے تو انہیں اپنے تمام فتنہ پرور اور شرانگیز توحیدی افکار و نظریات سے رجوع کر لینا چاہیئے ، اور ان کی تبلیغ و اشاعت کے اپنے تمام مقاصد شریرہ سے دست بردار ہو جانا چاہیئے ۔

محترم قارئین : ہم شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی تکفیر مسلمین کے رد میں اُن کے بھائی علاّمہ سلیمان بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1208ہجری) کی ایک شہر آفاق تصنیف ‘‘الصواعق الٰہیۃ’’ سے چند اقتباسات پیش کر رہے ہیں پڑھیئے اور فیصلہ خود کیجیئے :

علاّمہ سلیمان بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : تمہارے عقائد اور تکفیر کے باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ توحید و رسالت کی گواہی کے بعد اسلام کا سب سے عظیم رکن نماز ہے ، اس کے باوجود جو شخص ریاکاری اور نام و نمود کے لیئے نماز ادا کرتا ہے اس کے بارے میں فقہاء کا قول ہے کہ اللہ اس شخص کی نماز قبول نہیں فرمائے گا : میں دوسرے شرکاء کی نسبت اپنے شرک سے زیادہ بے نیاز ہوں ۔ جس شخص نے اپنے کسی عمل میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک کر لیا میں اس کے عمل اور شرک سے بے نیازی کا اعلان کرتا ہوں ۔ نیز، قیامت کے دن اللہ ریاکار سے فرمائے گا : جا ، جا کر اپنا اجر اس سے طلب کر جس کے لیئے تو نے عمل کیا تھا ۔ ایسے شخص کے تعلق سے فقہاء نے فرمایا کہ ریاکاری میں انجام دیا گیا اس کا یہ عمل باطل ہے ، اور یہ نہیں کہا کہ اس کا قتل کرنا اور اس کا مال و اسباب لوٹنا جائز ہے ، جبکہ تم اس سے بہت خفیف اور معمولی بات کو کفر قرار دیتے ہو ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تم فقہاء اسلام اور ان کی عبارتوں کی تقلید نہیں کرتے بلکہ تم نے از خود جو سمجھا ہے بس اسی کو حق مانتے ہواور اسے ضروریات دین قرار دیکر اس کے منکروں کو کافر قرار دیتے ہواور جن مشتبہ عبارات سے تم استدلال کرتے ہو وہ محض تمہاری مغالطہ آرائی ہے ۔ ہمارا تم سے مطالبہ ہے کہ تم اپنے خود ساختہ مذہب کی تائید میں فقہاء اسلام میں سے کسی کی بھی نص صریح پیش کرو، اور اگر تم کوئی ایسی عبارت پیش کرنے سے قاصر ہو اور محض مسلمانوں کو سب وشتم اور ان کی تکفیر کرتے ہو تو ہم تمہارے شر سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں ۔
مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں تمہارا موقف اس لیئے بھی درست نہیں ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا اور نذر و نیاز کرنا قطعاً کفر نہیں ، چہ جائیکہ اس کے مرتکب مسلمان کو ملت اسلامیہ سے ہی خارج کر دیا جائے ۔ طبرانی نے روایت کیا ہے کہ اگر کوئی شخص مدد چاہتا ہو تو یوں کہے کہ اے اللہ کے بندوں میری مدد کرو ۔ اس حدیث کو فقہاء اسلام نے کثرت کے ساتھ اپنی مستند کتابوں میں نقل کیا ہے اور اس کی اشاعت عام ہے ۔ نیز معتمد فقہاء میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا ، چنانچہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نےاپنی کتاب الاذکار میں اور ابن القیم اپنی کتاب ‘‘الکلم الطیب’’ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ابن مفلح نے اس حدیث کو اپنی کتاب ‘‘کتاب الآداب’’ میں ذکر کے لکھا ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے پانچ مرتبہ حجِ بیت اللہ کیا ہے ایک بار میں پیدل جا رہا تھا اور راستہ بھو ل گیا میں نے کہا اے عباد اللہ مجھے راستہ دکھاؤ میں یونہی کہتا رہا یہاں تک کہ میں صحیح راستہ پر آ لگا ۔
لہٰذا میرا کہنا یہ ہے کہ جو شخص کسی غائب یا فوت شدہ ولی یا بزرگ کو پکارتا ہے تو تم اس کی تکفیر کرتے ہو ، بلکہ تمام اپنے قیاس فاسدہ میں اتنے جری ہو کہ کہتے ہو کہ ایسے شخص کا شرک ان مشرکین کے شرک سے بھی بڑا ہے جو بحر و بر میں عبادت کے لیئے غیر اللہ کو پکارتے تھے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی علی الاعلان تکذیب کرتے تھے ۔ کیا تم اس حدیث کی نص اور اس کے مقتضی پر علماء اور ائمہ کے عمل کو اس شخص کے حق میں اصل نہیں مانتے جو بزرگوں اور نیک و صالحین کو پکارتا ہے اور محض اپنے فاسد قیاس سے اسے شرک اکبر قرار دیتے ہو ، انا للہ و انا الیہ راجعون ، جبکہ شہادت قائم ہو جانے کے بعد حدود ساقط ہو جاتی ہیں ، لہٰذا اس مستند اور قوی اصل کی بنیاد پر ایسے شخص سے تکفیر کیوں ساقط نہیں ہو گی ۔ نیز، مختصر الروضہ میں ہے : جو شخص توحید و رسالت کی گواہی دیتا ہے اسے کسی بدعت کے ارتکاب کی بناء پر کافر نہیں کہا جائے گا اور ابن تیمیہ نے بھی اس قول کو ترجیح دی ہے ۔ (شیخ سلیمان بن عبد الوہاب متوفی 1208ھ ، اردو ترجمہ الصواعق الٰہیہ صفحہ 34-35)

علاّم سلیمان بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں

عامۃ المسلمین کی تکفیر کی بنیاد پر تم نے اپنے مذہب کی جو عمارت تعمیر کی ہے اس کے بطلان پر صحیح بخاری کی وہ حدیث شاہد ہے جسے معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے روایت کیا ہے : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اللہ جس شخص کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فقیہ بنا دیتا ہے اور یہ امت ہمیشہ صحیح دین پر قائم رہے گی یہاں تک کہ قیامت آ جائے ۔ اس حدیث سے ہمارا موقف اس طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تا قیام قیامت امت کے دین مستقیم پر قائم رہنے کی خبر دی ہے ، اور حقیقت حال یہ ہے کہ تم جن امور کو بنائے کفر قرار دیتے ہو وہ ابتداء اسلام سے لیکر آج تک تمام عالم اسلام میں مروج اور مشہور ہیں ۔ پس اگر اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کے مقابر بڑے بڑے بت ہوتے اور ان سے استمداد اور استغاثہ کرنے والے کافر ہوتے تو تمام امت صحیح دین پر قائم نہ ہوتی ، بلکہ ساری امت کافر ہوتی اور تمام بلاد اسلام بلاد کفر بن جاتے جن میں علی الاعلان بتوں کی پرستش ہو رہی ہوتی یا بتوں کی عبادت پر اسلام کے احکام جارے ہوتے۔ نیز، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فرمان کے مطابق اس امت کے دین صحیح پر قائم ہونے کی حدیث کس طرح درست ہوتی اور یہ بات بالکل ظاہر ہے ۔ (شیخ سلیمان بن عبد الوہاب متوفی 1208ھ ، اردو ترجمہ الصواعق الٰہیہ صفحہ نمبر 40،چشتی)

چند صفحات کے بعد علاّم شیخ سلیمان بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد سر زمین عرب پر جس پہلے فتنے نے سر ابھارا وہ شیخ نجدی کا فتنہ ہے جس نے عام مسلمانوں کے درمیان صدیوں سے رائج معمولات کو کفر اور مسلمانوں کو کافر قرار دیا ، بلکہ شیخ نجدی نے ان لوگوں کو بھی کافر کہا جو ان مسلمانوں کو کافر نہ مانے ۔ حالانکہ حرمین شریفین اور یمن کے علاقوں میں یہ معمولات صدیوں سے رائج ہیں ۔ بلکہ تحقیق کے ساتھ یہ بات ہمارے علم میں آئی ہے کہ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کا وسیلہ ، ان کی قبروں سے توسل و استمداد اور اولیاء اللہ کو پکارنا ، یہ تمام امور سب سے زیادہ یمن اور حرمین شریفین میں مروج ہیں ۔ اور ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ جتنا عظیم فتنہ سرزمینِ نجد میں پیدا ہوا اتنا بڑا فتنہ اب تک کسی زمانے میں کسی بھی جگہ ظاہر نہیں ہوا ۔ اور اے (شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی) تمہارا یہ کہنا کہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر تمہاری اتباع واجب ہے اور جو شخص تمہارے مذہب کی اتباع کرے اور اس کے پاس اس مذہب کے اظہار اور دوسرے مسلمانوں کی تکفیر کی طاقت نہ ہو اس پر واجب ہے کہ وہ تمہارے شہر کی طرف ہجرت کرے اور یہ کہ تم ہی طائف منصورہ ہو ، یہ تمام باتیں ، حدیث کے خلاف ہیں ، کیوں کہ حضور اکر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ نے قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کا علم عطا فرما دیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے امت پر گزرنے والے تمام واقعات کی خبر دے دی ہے ۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو معلوم ہوتا کہ سر زمین مسیلمہ یعنی شہر نجد مآل کا دار الایمان بنے گا اور طائفہ منصورہ اسی شہر میں ہوگا اور ایمان کے چشمے اسی شہر سے جاری ہوں گے ، حرمین شریفین اور یمن بلاد کفر بن جائیں گے جن میں بتوں کی پرستش کی جائے گی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ضرور اس کی خبر دیتے اور ہل مشرق اور بالخصوص نجد کے لیئے ضرور دعا فرماتے اور حرمین شریفین اور اہل یمن کے لییے بد دعا فرماتے ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم امت کو اس امر سے باخبر کرتے کہ وہاں کہ باشدے بت پرستی کریں گے اور ان متبرک علاقوں کے لوگوں سے بیزاری کا اظہار فرماتے ، جبکہ ایسا نہیں ہوا ، بلکہ اس کے بر عکس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اہل مشرق کےلیئے بالعموم اور نجد کے بارے میں بالخصوص خبر دی ہے کہ وہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا اور اس شہر سے فتنے نمودار ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نجد کےلیئے دعا کرنے سے بھی انکار فرمایا اور یہ بات تمہارے زعم کے یکسر برعکس ہے ۔ بلکہ تمہارے نزدیک تو کافر وہ ہیں جن کےلیئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دعا فرمائی تھی ، اور تمہارے عقیدے میں وہ علاقہ دار الایمان ہے اور وہاں ہجرت کرنا واجب ہے جس کےلیئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دعا کرنے سے انکار فرما دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ خبر دی تھی کہ وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور فتنوں کا ظہور ہوگا ۔ (شیخ سلیمان بن عبد الوہاب متوفی 1208ھ، اردو ترجمہ: الصواعق الٰہیہ صفحہ 43-45)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔