Friday 8 February 2019

شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی کہانی مفتی مکّہ کی زبانی

0 comments
شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی کہانی مفتی مکّہ کی زبانی

محترم قارئین : مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم شیخ نجدی کے دعوتی مناہج اور تبلیغی معاملات پر کچھ روشنی ڈالیں تاکہ وہابیت کی فطرت مزید اجاگر ہو سکے ۔

مفتی مکّہ سید احمد زینی دحلان مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1304ہجری) لکھتے ہیں : ابتداءً شیخ نجدی مدعیٔ نبوت مسیلمہ کذاب ، سبحاح ، اسود عنسی اور طلیحہ اسدی  جیسے بے دین اور گمراہ  گر لوگوں کی کتابوں کا  بڑے شوق و انہماک کے ساتھ مطالعہ کیا کرتا تھا ، لہٰذا ، اس کے دل میں بھی دعوہ نبوت کا  شوق پیدا ہوا ۔ اسی لیئے اس نے اگر چہ اپنے دعویٰ  نبوت کو مخفی رکھا لیکن اس نے اپنا دعوتی اور تبلیغی مشن اسی نہج پر جاری رکھا اور اسے علیٰ الاعلان کبھی بھی دعویٰ نبوت کے اظہار کا موقع نہ مل سکا ، لیکن اس نے اپنا طور طریقہ نبوت کا ہی اپنائے رکھا ۔ جو اس کے ہم عقیدہ باہر سے اس کے پاس آتے انہیں یہ مہاجر کہتا  اور اپنے شہر والوں کو انصار کہتا ۔ اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا شخص اگر  پہلے سے حج کیا ہوا ہوتا تو یہ اسے دوبارہ حج کرنے کا حکم دیتا اور کہتا کہ جب تم نے پہلا حج کیا تب تم مشرک تھے  اسی لیئے تمہارا وہ حج مقبول نہ ہوا اور نہ ہی تجھ سے فریضہ حج ساقط ہوگا ۔ اور جب کوئی اس کے دین میں شامل ہونے کا ارادہ کرتا تو وہ اس سے کلمہ شہادتین پڑھواتا اور اس سے یہ مطالبہ کرتا کہ اس بات پر گواہی دو کہ تم اس سے پہلے کافر تھےاور اس بات پر بھی گواہی دو کہ تمہارے ماں باپ بھی کافر تھے اور اکابر علماء کے نام لے لے کر کہتا کہ گواہی دو کہ وہ سب کافر تھے ، لہٰذا ، جب وہ ان سب باتوں کی گواہی دیتا تو وہ اس کا ایمان قبول کرتا ، ورنہ قتل کروا دیتا ۔ اور شیخ نجدی بصراحت کہتا تھا کہ چھ سو سالوں سے تمام امت کافر ہے ، اور وہ ہر اس شخص کی تکفیر کرتا تھا جو اس کی اطاعت تسلیم نہ کرے ، اگر چہ وہ متقی و پرہیزگار ہی کیوں نہ ہو ، اور وہ ایسے تمام افراد کو مشرک قرار دیکر قتل کر ڈالتااور ان کے مال و متاع کو لوٹنے کا حکم دیتا ۔ اور جو شخص اس کی اتباع تسلیم کر لیتا اسے مومن قرار دیتا اگر چہ وہ بد ترین فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو ۔

شیخ نجدی مختلف حیلوں اور بہانوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین و تنقیص کا عادی تھا ، اس لئے کہ اس کا ماننا تھا کہ خالص تصورِ توحید کو محفوظ رکھنے کا یہی ایک طریقہ ہے ، اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :

(1) شیخ نجدی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ‘‘طارش’’ کہتا تھا جس کا معنیٰ لغت میں چٹھی رساں یا ایلچی ہے ۔

(2) صلح حدیبیہ کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ اس میں اتنے جھوٹ بولے گئے ہیں ، چنانچہ اس کے اَتباع بھی اس کے سامنے یہی باتیں کہتے اور وہ انہیں سن کر خوش ہوتا ۔

(3) اس کے پیروکاروں میں سے ایک نے اس کے سامنے کہا کہ  میری لاٹھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بہتر ہے اس لئے کہ یہ سانپ وغیرہ کو مارنے میں کام آسکتی ہے ، اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فوت ہو چکے ہیں اور اب ان میں کوئی نفع باقی نہ رہا وہ محض ایک ایلچی تھے جو اس دنیا سے چلے گئے ۔

(4) شیخ نجدی کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر درود شریف پڑھنا سخت ناپسند تھا ، اور اسے درود شریف سننے سے تکلیف ہوتی تھی ۔

(5) جمعہ کی رات کو درود شریف پڑھنے اور میناروں پر بلند آواز سے درود شریف پڑھنے سے روکتا تھا ، اور اس طرح درود شریف پڑھنے والے کو سخت سزائیں دیتا تھا ، یہاں تک کہ اس نے ایک خوش الحان نابینا مؤذن کو درود شریف پڑھنے کے جرم میں قتل کروا دیا ۔

(6) اس کا کہنا تھا کہ کسی فاحشہ عورت کے کوٹھے پر ستار بجانے سے اتنا گناہ نہیں جتنا  بڑا گناہ مسجد کے میناروں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر درود پاک پڑھنا ہے ۔

(7) اس کے بد ترین کارناموں میں سے ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے دلائل الخیرات اور درود شریف کی دوسری کتابوں کو جلوا دیااور انہیں پڑھنےکو بدعت قرار دیا ۔

(8) اس نے فقہ ، تفسیر اور حدیث کی کتابیں نظرِ آتش کروا دی تھیں ۔

(9) اس نے اپنے تمام پیروکاروں کو اپنی رائے سے قرآن کریم کی تفسیر گڑھنے کی اجازت دے رکھی تھی ۔ وہ اپنے کسی پیروکار کو قرآن کریم پڑھنے کا حکم دیتا ، پھر وہ از خود اس کی تفسیر کرتا اور اپنے فہم سے کی ہوئی تفسیر کو تمام کتابوں اور علماء کی تصریحات پر مقدم رکھتا ۔

(10) قرآن میں جو آیتیں منافقین اور مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں انہیں وہ مسلمانوں پر منطبق کرتا تھا ۔ شیخ نجدی قرآن کریم کی ان تفاسیر کو حجت نہیں مانتا جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، صحابہ کرام ، اخیار ، تابعین رضی اللہ عنہم  اور ائمہ تفاسیر سے منقول ہیں ۔ جس طرح وہ قرآن کریم کے علاوہ احادیث، صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم  کی تاویلات اور ائمہ مجتہدین کے فتاویٰ کو نہیں مانتا اسی طرح یہ ان مسائل کو نہیں مانتاجن کا استنباط قرآن کریم اور احادیث سے کیا گیا ہو ، نیز وہ قیاس اور اجماع کو بھی حجت نہیں مانتا ۔

(11) شیخ نجدی اپنے عُمال اور کارگزاروں کو لکھا کرتا تھا کہ تم سب خود اجتہاد کرو اور اپنے تدبر سے احکام جاری کیا کرو اور ان کتابوں کی طرف نہ دیکھوں کیوں کہ ان میں حق اور باطل دونوں ہیں ، حالآنکہ اس کے تمام عمال اور کارگزار بدترین جاہل تھے ۔

(12) اس نے ایسے بے شمار علماء ، صالحین اور عامۃ المسلمین کو تہہ تیغ کیا جنہوں نے اس کے نومولود دین کو مسترد کیا ۔

(13) جو مال حاصل ہوتا تھا اس کی زکوٰۃ وہ اپنی مرضی کے مطابق تقسیم کرتا تھا۔

(14) شیخ نجدی کے اتباع خود کو کسی مذہب کا پابند نہیں جانتے تھے ، البتہ عوام کو دھوکہ دینے کے لیئے خود کو حنبلی مذہب سے منسوب کرتے تھے ۔

(15) شیخ نجدی نماز کے بعد دعا کرنے سے روکتا تھا ، اس کا کہنا تھا کہ کیا تم اللہ سے اپنی عبادت کی اُجرت مانگ رہے ہو ۔

مفتی مکّہ سید احمد زینی دحلان مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں : شیخ نجدی نے اپنے نئے دین کی تبلیغ و اشاعت کی ذمہ داری محمد بن سعود کو سونپی تھی جو عرب کے شرق اور غرب میں  شیخ نجدی کی دعوت عام کر رہا تھا اور علیٰ الاعلان کہتا تھا کہ تم سب لوگ مشرک ہو ، تمہارا قتل جائز ہے اور تمہارا مال و متاع لوٹنا مباح ہے ۔  صرف شیخ نجدی سے بیعت ہونا ہی اس کے نزیک مسلمان ہونے کا ایک واحد معیار تھا ۔ اگر چہ اس کے ہاتھوں پر بیعت کرنے والا نصوص شرعیہ کا مخالف اور اجماع امت کا تارک ہو ،  اور اس کے نزدیک شرک کا معیار  شیخ نجدی کی موافقت اور متابعت نہ کرنا تھا، اگر چہ کوئی نص صریح پر عمل پیرا اور اجماع امت کا پابند ہی کیوں نہ ہو ۔  محمد بن سعود علی الاعلان کہتا تھا کہ ائمہ اربعہ کے اقوال غیر معتبر ہیں ۔ کہتا شریعت ایک تھی انہوں نے چار مذہب بنا دیئے ۔  کبھی کہتا ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کے علاوہ کسی چیز پر عمل نہیں کریں گے ۔ وہ اکابر علمائے حنابلہ کی توہین کرتا اور کہتا کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ مصری شامی اور ہندی کون ہیں ؟

واضح ہو کہ شیخ نجدی کا خود کو حنبلی مذہب سے منسوب کرنا محض عوام کو دھوکہ دینے کے لیئے تھا ، اس لئے کہ حنبلی علماء نے اس کے رد میں کتابیں تحریر کی ہیں ، حتیٰ کہ خود اس کے بھائی سلیمان بن عبد الوہاب نے شیخ نجدی کے عقائد باطلہ کے رد میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے ، ان شاء اللہ، آئندہ ہم ان کا ذکر تفصیل کے ساتھ کریں گے ۔ (سید احمد زینی دحلان مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 1304ہجری ترجمہ، خلاصۃ الکلام فی بیان امراء البلد الحرام صفحہ نمبر 329-333) ۔ )طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔