Friday 31 March 2023

فضائل و مسائل زکوٰۃ حصّہ سوم

0 comments

فضائل و مسائل زکوٰۃ حصّہ سوم

زکوٰۃ ہر مسلمان ، عاقل ، بالغ ، آزاد اور صاحب نصاب شخص پر واجب ہے جب نصاب پورا ہونے کے بعد اس پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے ۔ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے ۔ سونا چاندی میں چالیسواں حصہ نکال کر بطور زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے یہ ضروری نہیں کہ سونا چاندی کی زکوٰۃ میں سونا چاندی ہی دی جائے بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ بازار کے بھاؤ سونے چاندی کی قیمت لگاکر روپیہ زکوٰۃ میں دیں ۔ اگر کسی کے پاس تھوڑی چاندی اور تھوڑا سونا ہے اور سونا چاندی میں سے کوئی بھی الگ سے بقدر نصاب نہیں تو ایسی صورت میں دونوں کو ملاکر ان کی مجموعی قیمت نکالی جائے گی اور جس نصاب (سونا یا چاندی) کو بھی وہ پہنچے اس پر زکوٰۃ واجب ہے ۔
   
جن زیورات کی مالک عورت ہو خواہ وہ میکے سے لائی ہو یا اس کے شوہر نے اس کو زیورات دیکر مالک بنادیا ہو تو ان زیورات کی زکوٰۃ عورت پر فرض ہے اور جن زیورات کا مالک مرد ہو یعنی عورت کو صرف پہننے کےلیے دیا گیا ہے مالک نہیں بنایا تو ان زیورات کی زکوٰۃ مرد کے ذمہ ہے عورت پر نہیں ۔
   
تجارتی مال اور سامان کی قیمت لگائی جائے گی اس سے اگر سونے یا چاندی کا نصاب پورا ہو تو اس کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی ۔

اگر سونا چاندی نہ ہو ، نہ مال تجارت ہو بلکہ صرف نوٹ اور روپے ہوں تو کم سے کم اتنے روپے پیسے اور نوٹ ہوں کہ بازار میں ان سے ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جا سکتی ہو تو وہ صاحب نصاب ہے اور اس شخص کو نوٹ اور روپے پیسوں کی زکوٰۃ ، کل چالیسواں حصہ نکالنا فرض ہے ۔

اگر شروع سال میں نصاب پورا تھا اور آخر سال میں بھی نصاب پورا رہا ۔ درمیان سال میں کچھ دنوں مال گھٹ کر نصاب سے کم رہ گیا تو یہ کمی کچھ اثر نہ کرے گی بلکہ اس شخص کو پورے مال کی زکوٰۃ دینا پڑے گی ۔

روپے پیسوں کی زکوٰۃ میں روپے پیسے ہی دینا ضروری نہیں بلکہ جتنے روپے زکوٰۃ کے نکلتے ہیں اگر ان کا غلہ ، کپڑا ، کتابیں یا کوئی بھی سامان خرید کر مستحق زکوۃ کو دے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ۔
   
کرایہ پر اٹھانے کےلیے ویگنیں ، موٹریں ، بسیں ، ٹرک اسی طرح دیگیں ، دریاں ، گدے ، کرسیاں ، میزیں ، پلنگ ، مسہریاں یا کرایہ پر اٹھانے کےلیے مکانات اور دکانوں سے حاصل شدہ آمدنی اگر بقدر نصاب ہو اور اس پر سال گزر جائے تو پھر اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی ۔

میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ۔ یونہی کوئی شخص اپنے والدین ، اوپر تک اور اپنی اولاد کو نیچے تک زکوٰۃ ، عشر ، فطرانہ اور فدیہ کفارہ کی رقم یا جنس وغیرہ نہیں دے سکتا ۔ ان کے علاوہ غریب رشتہ داروں مثلاً بہن بھائی اوران کی اولاد ، چچا ، پھوپھی ، ماموں ، خالہ اور ان کی اولاد اگر غریب ومستحق ہوں تو ان کو زکوٰۃ وعشر فطرانہ ، فدیہ وغیرہ دینا دوگنا ثواب ہے ۔ اوّل فرض ادا کرنے کا دوم صلہ رحمی اور رشتہ داری کا لحاظ کرنے کاجب یہ تسلی ہو جائے کہ یہ شخص غریب و مستحق ہے اس کو بقدر ضرورت دیدیں ۔ دیتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ و عشر وغیرہ ہے بلکہ نہ بنانا بہتر ہے تاکہ اس کی عزت ونفس مجروح نہ ہو ۔

زکوٰۃ و صدقات میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے اقرباء کو دے پھر ان کی اولاد ، پھر دوسرے رشتہ داروں کو پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے پیشہ والوں کو پھر اپنے گاؤں اور شہر کے رہنے والوں کو ۔ (فتاویٰ عالمگیری،چشتی)

زکوٰۃ کے متعلق چند ضروری سوالات اوران کے جوابات : ⬇

سوال : کن کن چیزوں پر زکوٰۃ فرض ہے ؟

1 ۔ فیکٹری، مشینوں نہ زمین پر فقط تیار شدہ مال کی مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے ۔ یونہی اس کے رامیٹریل یعنی خام مال کی مالیت پر بھی زکوٰۃ فرض ہے ۔

2 ۔ مکان یا دکان کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں، ہاں اگر اس کا کرایہ آتا ہے تو باقی مال کے ساتھ وہ بھی شامل ہوجائے گا پھر اگر حد نصاب تک ہے تو سب پرزکوٰۃ ہوگی۔ ورنہ نہیں ۔

3 ۔ گاڑی اگر گھریلویا کمرشل استعمال کےلیے ہے تو اس پر زکوٰۃ نہیں اس کی آمدنی کو باقی مال کے ساتھ جمع کریں گے اور نصاب ہوا تو اس کے حساب سے زکوٰۃ ہوگی ورنہ نہیں ۔ ہاں اگر گاڑیوں کی خرید و فروخت کرتا ہے مثلاً اپنا شو روم ہے اور گاڑیاں اس کی اپنی ملکیت ہیں تو یقیناً یہ مال تجارت ہے ۔ ان کی مالیت پر مقررہ شرائط کے تحت زکوٰۃ فرض ہوگی ۔

سوال : کیا سیونگ سر ٹیفکیٹ اور قرض پر زکوٰۃ ہے ؟

جواب : آپ کی ملکیت میں جتنا سرمایہ ہے خواہ نقد خواہ سونا چاندی خواہ مال تجارت خواہ واجب الوصول قرض جس کی وصولی کی امید ہو ۔ ان سب کو جمع کرکے ، سال گزرنے پر سب کی زکوٰۃ فرض ہے۔ سیونگ سر ٹیفکیٹ ہو یا انعامی بانڈز ، یہ اور اس جیسی اور تمسکات مالیہ مال ہی ہے ۔ سب کی مالیت پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے ۔

سوال : کیا قرض کو زکوٰۃ میں بدلا جا سکتا ہے ؟

جواب : اگرمقروض غریب ومفلس ہے۔ صاحب نصاب نہیں ، تو بیشک وہ قرض زکوٰۃ سے بدلا جا سکتا ہے ۔ لیکن اگر وہ غنی ہے صاحب نصاب ہے تو چونکہ اس کےلیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ، لہٰذا یہ قرض بطور زکوٰۃ اسے دینا جائز نہیں ۔ پہلی صورت ہے تو یقیناً زکوٰۃ کا مستحق ہے ، اسے کچھ اور بتانے کی ضرورت نہیں ۔ صرف یہ کہہ دیں کہ آپ میرے قرض سے سبکدوش ہیں ۔ اب اس کی فکر نہ کریں۔ تاکہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔

سوال : کیا مزارع سے اگر حکومت زکوٰۃ لے لے تو مالک بری الذمہ ہوجائے گا ؟ ۔ کیا سکنی جائیداد پر زکوٰۃ ہے ؟ ۔ کیا خالی پلاٹ پر زکوٰۃ ہے ؟ ۔ کچھ بارانی زمین ہے جس پر کبھی بارش ہو جائے تو کوئی پیداوار ہو جاتی ہے ورنہ نہیں کیا اس پر بھی زکوٰۃ ہے ؟ ۔ ایک ایکڑ بیٹے کے نام پر ہے۔ جس کی ادائیگی کردی ہے کیا اس پر بھی زکوٰۃ ہے ؟ ۔ گھریلو سامان جن میں کرسیاں ، برتن ، چارپائیاں ہیں کیا ان پر بھی زکوٰۃ ہے ؟

مندرجہ بالا سوالوں کا جواب : مزروعہ اراضی پر کوئی شرعی ٹیکس نہیں ۔ ہاں اس کی پیدوار پر ہے ۔ اگر زمین بارانی ہے ۔ یا چشموں کے پانی سے سیراب ہوتی ہے اور پانی پر کوئی خرچ نہیں آتا ، تو اس کی کل پیداوار پر دسواں حصہ عشر (10/ 1) فرض ہے ۔ اگر سیراب کرنے کےلیے پیسے خرچ ہوتے ہیں مثلاً نہری پانی پر آبیانہ ، یاٹیوب ویل کاخرچہ ، تو ایسی زمین کی پیداوار پر نصف عشر یعنی بیسواں حصہ (20/ 1) عشرفرض ہے ۔ یہ عشر ہر فصل پر لازم ہے ۔ خواہ سال میں ایک بار ہویا دویا زیادہ ۔ اگر زمین ہے مگر پیداوار نہیں دیتی اس پر کسی قسم کے واجبات نہیں ، خواہ ہزار ایکڑ ہو ۔ پلاٹ ، مکان ، دکان ، گھر کے برتن ، بستر ، کپڑے ، اور برتنے کی گھریلو اشیاء خواہ جتنی چیزیں ہوں ان پر زکوٰۃ نہیں ۔ ہاں اگریہی اشیاء یا اور چیزیں مال تجارت کے طور پر ہیں ، تو مال تجارت کی تمام مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے ۔ زمین ، پلاٹ ، مکان ، دکان پر کوئی زکوٰۃ نہیں خواہ بیچنے کےلیے ہوں خواہ رہائش کےلیے ۔ خواہ کرائے کےلیے ، ہاں ان کی آمدنی جب نصاب کو پہنچے ، اس آمدنی پر زکوٰۃ ہے۔ یہی حال ہے ۔ کارخانے وغیرہ کا کہ اس کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں۔ جو مصنوعات اس میں تیار ہوتی ہیں ان پر زکوٰۃ ہے۔ اس خام مال پر زکوٰۃ ہے۔ جس سے مصنوعات تیارہوتی ہیں۔ اس مشینری پر نہیں جس پر مال تیار ہوتا ہے ۔ حکومتی ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد جو رقم بچی ہے اس پر زکوٰۃ ہے ۔ سونا و چاندی خواہ زیورات کی صورت میں ہوں یا ڈلی وغیرہ کی صورت میں خواہ اس سے تجارت کریں ، خواہ نہ کریں ، جب بقدرِ نصاب ہوں ، اور سال گذر جائے ، ان پر زکوٰۃ فرض ہے ۔ اگر مزروعہ زمین کی کل پیداوار پر اوپر مذکورہ طریق پر حکومت عشر لیتی ہے تو آپ بری الذمہ ، اگر اس نے اس میں حد رکھی ہے اور اس سے کم میں نہیں لیتی تو آپ ساری پیداوار سے عشرادا کریں ۔ یعنی جتنے حصے کا حکومت نے نہیں لیا ، اس کا آپ ادا کریں جو حکومت نے شرعی نصاب کے مطابق لیا ہے وہ ادا ہو گیا ۔

سوال : ایک شخص کی سالانہ آمدنی 50,000 ہے اور تقریباً 50,000 کا مقروض بھی ہوجاتا ہے جبکہ اس کی زمین قریباً 4 لاکھ کی ہے ۔ اس پر زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ کار کیا ہے ؟

جواب : جس آدمی کی آمدنی پچاس ہزار روپے ہے ۔ اس پر قرض بھی تقریباً اتنا ہی ہے ، تو معلوم ہوا کہ اس کے پاس کچھ نہیں ۔ لہٰذا زکوٰۃ اس پر فرض نہیں ، قرض منہا کر کے جو رقم بچ جائے اگر وہ نصاب کو پہنچتی ہے تو سال گزرنے پر اس پر زکوٰۃ دینا فرض ہے ۔ اگر قرض سے بچا ہی کچھ نہیں تو زکوٰۃ کس چیز پر ؟ ۔ زمین کی کل پیداوار پر ، ہر فصل پر ، عشر ادا کرنا فرض ہے ۔ اگر زمین بارانی ہے تو پیداوار کا دسواں حصہ 1/10 اگر نہری یا ٹیوب ویل سے سیراب ہوتی ہے تو نصف عشر یعنی بیسواں حصہ 1/20 فرض ہے ۔ اس کے علاوہ زمین کی مالیت پریا مکان دکان وغیرہ کی مالیت پر کوئی زکوٰۃ نہیں ۔ (عامہ کتب فقہ)

سوال : ایک ساتھی نے میٹرسے کم بے شمار کپڑے کے پیس فلاحی ادارے کو بھیجے ہیں ۔ اس ساتھی نے یہ کپڑا زکوٰۃ کے طور پر بھیجا ہے ۔ مگر اس وقت اس کا کوئی مصرف نہیں کیا ایسا کرنے سے زکوٰۃ کی ادائیگی ہوجائے گی ۔

جواب : میٹر سے کم کپڑا بظاہر کسی مصرف کا نہیں۔ اس لیے بیکار ہے ۔ اس سے ان کی زکوٰۃ ہرگزادا نہ ہوگی قرآن کریم میں واضح ارشاد ہے : لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ ۔ (سورہ آلِ عمران : 3 / 92)
ترجمہ : تم ہرگز نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک راہ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو۔ اور تم جو کچھ خرچ کرو، اللہ اس کو جانتا ہے ۔

وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۔ (سورہ البقرۃ : 2 / 272)
ترجمہ : تم جو اچھی چیز خرچ کرو، تو تمہارا اپنا بھلا ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ۔ (سورہ البقرۃ : 2 / 267)
ترجمہ : اے ایمان والو! اپنی عمدہ اور پاک کمائے ہوئے مالوں میں سے خرچ کرو! اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا، اور اس میں سے گھٹیا چیز خرچ کرنے کا ارادہ بھی نہ کرو، کہ تمہیں ملے تو نہ لو، جب تک اس میں آنکھیں بند نہ کرلو، اور جان رکھو کہ اللہ بے پرواہ سراہا گیا ہے ۔

اللہ عزوجل کے ارشادات پڑھیں اور بار بار پڑھیں ۔ ایسے کپڑے کے پیس اللہ کے نام پر دینے والے بھائی کو اللہ کے حضور توبہ کرنا چاہیے ۔ اظہار ندامت کرنا چاہیے ۔ اور متعلقہ ادارے سے بھی معذرت کرنا چاہیے ۔ اور خوف خدا کے پیش نظر آئندہ محتاط رہنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ عمدہ مال دے ۔ آپ اپنے اور اپنے عیال کےلیے اچھا لباس منتخب فرمائیں اور مالک کے نام پر گھٹیا اور بیکار مال دیکر اپنے دینی فرض سے سبکدوش ہونے کی سوچیں ؟ اور دل کو جھوٹی تسلی دے کر مطمئن کریں ۔ غلط بات ہے زکوٰۃ کی صورت میں یہ عبادت متعین شرح سے سال کے بعد فرض ہوتی ہے ۔ اسے خوشدلی سے ادا کرنا چاہیے ۔ ان پِیسوں کے دینے سے جو کسی کام نہ آئیں زکوٰۃ ہرگز ادا نہ ہوگی ان کی نہ قدر ہے نہ قیمت زکوٰۃ مال پر ہے بیکار چیز پر نہیں تاوان سمجھ کر بے دلی اور تنگدلی سے نہیں دینا چاہیے ۔ زکوٰۃ وعشر تو فرض ہیں ۔ نفلی صدقہ وخیرات بھی جب اس طرح دیا جائے قبول نہیں ہوتا ۔ الٹا اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ دے اور انصاف کرنے کی توفیق دے آمین ۔

سوال : وہ دینی درس گاہیں جو بچوں سے باقاعدہ فیسیں لیتی ہیں کیا ان کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟

جواب : ماڈل سکولز یا ایسے تعلیمی ادارے جہاں طلباء سے فیس لی جاتی ہے ان میں زکوٰۃ فنڈ جمع کرنا تاکہ نادار اور ضرورت مند طلبہ کی ضروریات پوری کی جائیں ۔ بالکل درست بلکہ مناسب تر ہے تاکہ ان طلبہ کی بروقت امداد کی جائے اور وہ سکون و اطمینان سے علم حاصل کرسکیں ۔ قرآن کریم میں مصارف زکوٰۃ آٹھ بیان ہوئے ہیں : إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۔ (سورہ التوبه : 9 / 60)
ترجمہ : زکوٰۃ تو صرف محتاجوں، مسکینوں اور جمع کرنے پر مقرر ملازموں اور جن کے دلوں کو اسلام کی طرف مانوس کرنا ہو، اور مملوکوں کی گردنیں چھوڑانے، اور قرض داروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کےلیے ہے ۔

فقہائے کرام فرماتے ہیں : ان طالب العلم یجوزله اخذ الزکاة ولو غنیااذا فرغ نفسه لافادة العلم و استفادته لعجزه من الکسب والحاجة داعیهّ الی مالابد منه ۔ (الدار المختار والرد المختار صفحہ 240 جلد 2،چشتی)
ترجمہ : طالب علم خواہ امیر ہو زکوٰۃ لے سکتا ہے ، جب اس نے اپنے آپ کو علم پڑھانے اور پڑھنے کےلیے وقف کررکھا ہے کہ وہ رزق کمانے سے عاجز ہے ، اور ضروریات زندگی کے حاصل کرنے کی مجبوری اس کے جائز ہونے کا سبب ہے ۔

لہٰذا آپ اپنے تعلیمی ادارے کی ضروریات بالخصوص نادار طلبہ کی ضروریات پوری کرنے کےلیے زکوٰۃ وصول کرسکتے ہیں ۔ تمام مذہبی اور دیگر رفاہی ادارے زکوٰۃ پر ہی چل رہے ہیں ۔ آپ کےلیے بہتر ہوگا کہ زکوٰۃ فنڈ سے نادار طلبہ کے اخراجات پورے کریں ۔ خواہ کتب وسٹیشنری ہو ۔ خواہ فیس و خوراک و پوشاک اور دوا وغیرہ کی صورت میں ہو ۔

سوال : کیا کسی ادارے کو مشین وغیرہ خرید کر دی جا سکتی ہے جس میں کوئی سیدہ بھی کام سیکھنے آتی ہو ؟

جواب : زکوٰۃ کی رقم سے کسی رفاہی ادارے کےلیے مشین وغیرہ خرید کر دینا اسی طرح جائز ہے جس طرح کسی حاجت مند شخص کو انفرادی طور پر ۔ یہ مشین یا مشینیں دراصل اس ادارے کی ملکیت ہوتی ہیں ۔ چاہے استعمال کوئی بھی کرے ۔ سید ہو یا سید زادی کچھ فرق نہیں پڑتا ۔

سوال : کیا زکوٰۃ کی رقم اپنے چھوٹے بھائی کو دی جا سکتی ہے جو بے روز گار ہو ؟

جواب : بہن ، بھائی ، چچا ، ماموں ، خالہ ، پھوپھی یا ان کی اولاد ، اگر غریب ہیں اور حاجت مند ہیں۔ تو ان کو زکوٰۃ دینا دوہرا ثواب ہے ۔ ایک صلہ رحمی کا دوسرے ادائیگی فرض کا ہاں اپنے اصول یعنی والدین ، دادا ، دادی ، نانا ، نانی اور ان سے اوپر والے اور اپنے فروع یعنی اولاد مثلاً بیٹا ، بیٹی ، پوتا ، پوتی ، نواسہ ، نواسی اور ان کی اولاد، کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ۔ یونہی میاں بیوی ایک دوسرے کو عشر زکوٰۃ فطرانہ فدیہ مال کفارہ نہیں دے سکتے ۔

سوال : اگر کسی خاتون کے پاس پندرہ سولہ تولے سونا ہے ۔ اولاد میں سے اگر کوئی بیمار ہو جائے یا ان کی تعلیم پر زکوٰۃکی رقم خرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟

جواب : اگر یہ اولاد نابالغ ہے اور نادار ہے اور اس کے والدین مالدار صاحبِ نصاب ہیں تو اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں کیونکہ نابالغ اولاد کا نان نفقہ والدین کے ذمہ ہے اور وہ مالدار ہیں ۔ اور اگرکسی کی اولاد بالغ ہے نادار ہے ، والدین صاحبِ نصاب ہیں تو اس اولاد کو مال زکوٰۃ دیا جاسکتا ہے ۔ اپنی اولاد بیمار ہو یا تندرست ، چھوٹی ہو یا بڑی اس کو زکوٰۃ وغیرہ دینا جائز نہیں ۔ والدین ، اولاد یا میاں بیوی، ایک دوسرے کو زکوٰۃ و عشر فطرانہ ، فدیہ کفارہ کی رقم یا جنس نہیں دے سکتے ۔ والدین میں ماں ، باپ ، دادی ، دادا ، اوپر تک ۔ نانا ، نانی اوپر تک ۔ اولاد ۔ میں بیٹا ، بیٹی ۔ اور ان کی اولاد نیچے تک سب شامل ہیں ۔ باقی رشتہ داروں کو دے سکتے ہیں ۔ بلکہ غریب عزیزوں ۔ رشتہ داروں کوصدقہ ، خیرات ، زکوٰۃ وغیرہ دینا بہ نسبت دوسرے غرباء کے ، افضل ہے کہ فرض بھی ادا ہوجاتا ہے اور صلہ رہمی بھی ۔

سوال : اگر سالی جس کے پاس پندرہ سولہ تولے سونا ہے تو کیا اس کی اولاد پر اگر وہ غریب ہو تو ان کو زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے یا نہیں ۔ اور سالی کی ایکسیڈنٹ میں ٹانگ ٹوٹ گئی ہے کیا زکوٰۃ کے پیسوں سے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں ؟

جواب : جو مرد یا عورت رہنے کےلیے مکان ، پہننے کےلیے لباس برتنے کےلیے برتن ، فرنیچر ، سفر کےلیے سواری ۔ بیماری کےلیے علاج ، اہل وعیال کےلیے کھانا پینا تعلیم ، نلکا ، بجلی کے اخراجات نکال کر صاحبِ نصاب ہے ۔ عاقل و بالغ ہے مال پر سال گزر گیا ہے تو اس مال پر ڈھائی فیصد زکوٰۃ فرض ہے ۔ اور جس شخص پر زکوٰۃ فرض ہے زکوٰۃ لینے کا مستحق کیسے ہو سکتا ہے ؟ رہی یہ بات کہ دیہاتی لوگ اس سونے کو بچیوں کی یا بچوں کی امانت سمجھتے ہیں۔ اس سے زکوٰۃ دینے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ بہن ، بھائی ، ماموں ، چچا ، سالی ، سانڈو یعنی برادران لاء ۔ وغیرہ یا ان کی اولاد جو بھی غریب ہے ضرورت مند ہے آپ اس پر زکوٰۃ کا مال خرچ کر سکتے ہیں ۔ سالی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اس کی ٹانگ ٹوٹ چکی ہے وغیرہ وغیرہ آپ زکوٰۃ فنڈ سے سالی ، سالہ وغیرہ کی مدد کر سکتے ہیں بلکہ ضرور ایسا کریں ۔ چونکہ اس کے پاس 15 ۔ 16 تولہ سونا موجود ہے لہٰذاوہ زکوٰۃ فنڈ سے اعانت نہیں لے سکتی لیکن اگر اس کا خاوند یا اولاد ہے اور یہ مستحقین زکوٰۃ ہیں تو وہ زکوٰۃ لے سکتے ہیں ۔ کیونکہ سالی کا سونا اسی کا ہے ۔ اس کی اولاد یا خاوندکا نہیں لہٰذا وہ اگر ضرورت مند ہیں اور صاحبِ نصاب نہیں تو آپ ان کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں ۔ آپ سالی کی جو بھی مدد کرنا چاہیں وہ بجائے اسے دینے کےلیے اس طرح دے دیں ۔ امید ہے کہ آپ کے تمام سوالات کے جواب ہو گئے ہیں ۔

سوال : کیا زکوٰۃ ، فطرانہ یا قربانی کی کھالوں کی رقم مدرسہ کے کتب خانہ یا لائبریری جو عام مسلمانوں کےلیے بنائی جائے پرخرچ کرنا جائز ہے ؟

جواب : زکوٰۃ کی ادائیگی کےلیے تملیک شرط ہے ۔ یعنی کسی مستحق کو مالک بنانا ۔ حکومت اگر مستحقین میں تقسیم کرنے کےلیے زکوٰۃ وصول کرے تو اسے دینا جائز ہے ۔ جیسا کہ ابتدائے اسلام میں ہوتا تھا کہ زکوٰۃ ، عشر اور فطرانہ حکومت اسلامی خود وصول کر کے مستحقین کی کفالت کرتی تھی ۔ یہی بہتر اسلامی طریقہ ہے ۔ آج کل حکومت زکوٰۃ تو لیتی ہے مگر وہ ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی ، جو اس کے ساتھ عائد ہوتی ہیں ۔ بہرحال زکوٰۃ و فطرانہ کے مستحق غرباء و مساکین ، مسافر بیوگان اور یتامیٰ ہیں ۔ ان کو ترجیح دیں ۔ باقی گنجائش ہوتو لائبریری و مدرسہ پر بھی یہ رقم خرچ کی جا سکتی ہے ۔

سوال : کیا زکوٰۃ کی رقم فلاح عامہ کے کاموں پر خرچ کی جا سکتی ہے ؟

جواب : رفاہی اداروں کےلیے زکوٰۃ خرچ کی جاسکتی ہے مثلاً محتاج گھر ، یتیم خانے ، دینی مدارس ، سکولز ، کالجز ، جامعات ، فنی ٹریننگ کے سینٹرز ، دیگر تعلیمی ادارے ، ہسپتال میں غریب مریضوں کی علاج و خوراک پر یہ سب رفاہی ادارے ہیں ۔ البتہ سڑکوں کی تعمیر ، نالیوں کی مرمت وغیرہ پر خرچ نہیں کی جا سکتی ۔ زکوٰۃ کے علاوہ بھی ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں ، باقی کام ان سے کریں ۔

سوال : میری ایک بھتیجی ہے جس کا والد فوت ہو گیا ہے ۔ کیا میں اپنی زکوٰۃ کی رقم سے اس کی مالی مدد کر سکتا ہوں ۔ یا اس کے نام بینک میں جمع کروا سکتا ہوں تاکہ جب اس کی شادی کا مرحلہ آئے تو وہ تمام رقم اس کی والدہ کو یا اس رقم سے سامان خرید کر اس کو دے دیا جائے ؟

جواب : آپ زکوٰۃ یا دیگر صدقات، جو بھی دیں آپ کے بہن ، بھائی یا ان کی غریب و مستحق اولاد اس کی زیادہ حقدار ہے ۔ لہٰذا آپ بلا شبہ اپنی بھتیجی کی ضروریات پر مال زکوٰۃ صرف کر سکتے ہیں ۔

سوال : جیل خانہ جات میں مختلف جرائم میں سزا پانے والے قیدیوں کو جیل کی سزا کے علاوہ جرمانہ بھی ہوتا ہے ۔ جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں ان کو اصل سزا قید کے علاوہ مزید قید کا ٹنی پڑتی ہے ۔ عموماً نہایت غریب ، نادار اور مفلس خاندانوں کے افراد جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے اصل قید کے بعد مقید ہی رہتے ہیں اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے رائے طلب کی ہے کہ کیا ایسے لوگوں کو زکوٰۃ یا بیت المال سے رقم دے کر قید سے رہائی دلوائی جاسکتی ہے ۔

جواب : اگر قیدی صاحب حیثیت ہے ، جیسے بڑے بڑے مالدار ، سرمایہ دار ، جاگیردار ، تاجر یا ملازم ، وہ تو جرمانہ اپنے گھر سے دیدیتے ہیں اور جان چھڑا لیتے ہیں ، مگر غریب ونادار قیدی جرمانہ ادا نہیں کر سکتے اور مزید عرصہ قید بھگتتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو مال زکوٰۃ دیکر آزاد کیا جا سکتا ہے ۔ یہ لوگ فقیر ، مسکین اور فی الرقاب ، تینوں مصارف میں شامل ہیں ۔ گو فی الرقاب نزولِ قرآن کے وقت لونڈی غلام کے معنوں میں استعمال ہو مگر آج کے دور میں مفلس اسیروں کو بھی اس عام صنف میں شامل کر لیا جائے تو میرے نزدیک اس کی گنجائش موجود ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ بیت المال یا زکوٰۃ فنڈ سے نادار غریب لاوارث قسم کے قیدی اگر جرمانہ ادا کر کے رہائی پا سکتے ہیں تو ان کو زکوٰۃ یا بیت المال سے جرمانہ کی رقم دے کر رہائی دلائی جا سکتی ہے ۔ (ماخوذ کتبِ فقہ و فتاویٰ)

الحَمْدُ ِلله الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دور دراز دیہاتوں میں غریب بچوں کو مفت عصری و دینی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے : ⬇

رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں دین کا درد رکھنے والے اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ : الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : محمد جواد اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ، 03215555970 ، جزاكم اللهُ‎ خیراً کثیرا آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday 30 March 2023

فضائل و مسائل زکوٰۃ حصّہ دوم

0 comments
فضائل و مسائل زکوٰۃ حصّہ دوم
اسلام نے دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کےلیے اخلاق اور قانون دونوں سے کام لیا ۔ زکوٰۃ کی صورت میں نقد اور عشر کی صورت میں زمین سے پیدا ہونے والی اجناس پر مقرر و متعین شرح سے آمدنی کا ایک حصہ صاحب ثروت لوگوں سے قانوناً لے کر ضرورت مندوں کی کفالت کا بندوبست کیا اور یہ کام اسلامی حکومت کے اولین فرائض میں شامل کر دیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۔
ترجمہ : وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو زمین میں اختیار و اقتدار دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں ۔ (سورہ الحج، 22 : 41)

توخذ من اغنیاهم فترد علی فقرائهم ۔
ترجمہ : زکوٰۃ ان کے امیروں سے لی جائے اور ان کے غریبوں پر لوٹا دی جائے گی ۔ (متفق علیہ)

زکوٰۃ کے نصاب

مال مویشی

اگر سال کا اکثر حصہ مفت چر کر گزارا کریں تو سائمہ کہلاتے ہیں ۔ ان پر مقرر شرح سے سال گزرنے پر زکوٰۃ وصول کی جائے گی۔ اگر سال کا اکثر حصہ قیمتی چارہ ڈالا جائے تو علوفہ کہلاتے ہیں ان پر زکوٰۃ نہیں ۔

زرعی پیداوار

اگر زمین بارانی ہے یا چشموں کے پانی سے مفت سیراب ہوتی ہے تو اس کی کل پیداوار میں سے دسواں حصہ وصول کیا جائے گا ۔ یہ مسلمان سے لیں تو عشر، غیر مسلم سے لیں تو خراج ۔ اگر زمین قیمتاً سیراب ہو جیسے ٹیوب ویل یا نہری پانی جس پر آبیانہ وصول کیا جاتا ہے تو کل پیداوار پر نصف عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ وصول کیا جائے ۔ غیر مسلموں سے زمین کی پیداوار پر خراج وصول کیا جائے گا ، جو اسلامی حکومت ان پر مقرر کرے گی ۔ پھل سبزیاں اور غلے وغیرہ کا ایک ہی حکم ہے ۔

سونا چاندی یا مال تجارت

سونا چاندی ، مال تجارت یا روپیہ پیسہ (کرنسی) ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ، کے برابر مالیت کے ہوں اور ضروریات اصلیہ سے زائد ہوں ، ضروریات اصلیہ رہائش ، لباس ، خوراک ، سواری ، علاج ، تعلیم وغیرہ ہیں اور اس مال پر سال گزر جائے تو ایسے مال سے اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی ۔

مصارف زکوٰۃ

ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ۔ (سورہ التوبہ، 9 : 60)
ترجمہ : زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کےلیے جو محتاج اور نرے نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو) اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے ۔

اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے : ⬇

1 ۔ فقراء
2 ۔ مساکین
3 عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے)
4 ۔ مؤلفۃ القلوب
5 ۔ غلام کی آزادی
6 ۔ مقروض
7 ۔ فی سبیل اللہ
 8 ۔ مسافر

قرآن کریم میں زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے ہیں احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہوجائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہو جائے گا ۔ خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے ۔

زکوٰۃ کا پہلا اور دوسرا مصرف فقیر و مسکین

فقیر اور مسکین دونوں ہی مالی ضروریات کےلیے دوسروں کے مالی تعاون کے محتاج ہیں دونوں کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے فقیر سے بڑھ کر مسکین خستہ حال ہوتا ہے فقیر تنگدست ہوتا ہے تہی دست نہیں ہوتا مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ، فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ مال ہوتا ہے مگر ضروریات زندگی اس سے پوری نہیں ہوتیں ۔ (بدائع الصنائع 2 : 43،چشتی)(فتاویٰ عالمگیری 188)(تفسیر کبیر 107 طبع ایران)(احکام القرآن للحبصاص 3 : 122)(روح المعانی 15 : 120)(ہدایہ : 163)(الجامع الاحکام القرآن للقرطبی 7 : 157)

تیسرا مصرف والعاملین علیہا

وہ لوگ جو زکوٰۃ و عشر جمع کرنے پر مامور ہوں ، ان سب کو زکوٰۃ فنڈ سے اجرت یا تنخواہ دی جائے گی خواہ امیر ہوں خواہ غریب ۔

ان مایستحقه العامل انما یستحقه بطریق العمالته لابطریق الزکاة بدلیل ان یعطی وان کان غنیا بالا جماع ولو کان ذلک صدقته لما حلت للغنی ۔
ترجمہ : عامل جو زکوٰۃ لینے کا مستحق ہے وہ صرف اپنے کام کی بناء پر اس کا حقدار ہے نہ کہ زکوٰۃ کی حیثیت سے دلیل یہ ہے کہ اسے تنخواہ ملے گی گو غنی وامیر ہو اس پر امت کا اجماع ہے اگر یہ صدقہ ہوتا تو امیر کے لئے جائز نہ ہوتا ۔ (بدائع الصنائع 2 : 44،چشتی)(فتح القدیر 2 : 204)(تفسیر کبیر 16 : 115)

امااخذ طلمه زماننا من الصدقات والعشور والخراج والجبایات و المصادرات فالا صح انه یسقط جمیع ذلک عن ارباب الاموال اذا نوواعند الدفع التصدق علیھم ۔
ترجمہ : رہا ہمارے دور کے ظالم حکمرانوں کو زکوٰۃ و عشر خراج جزیہ اور محصولات لینا تو صحیح تر یہ ہے کہ مالدار لوگ ان کو مال دیتے وقت ان پر صدقہ کی نیت کرلیں ، تو ان سے شرعی مالی واجبات ساقط ہوجائیں گے ۔ (فتاویٰ عالمگیری، 1 : 190)

گویا ان کو دوبارہ ادا نہیں کرنا پڑے گا جیسے آج کل حکومت زبردستی زکوٰۃ بینکوں سے کاٹ لیتی ہے اور افسر شاہی شیر مادر سمجھ کر اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہمراہ ڈکار لیے بغیر سب کچھ ہڑپ کر جاتی ہے ۔ اسی لیے حقیقت شناس لوگ بینکوں پر بھروسہ نہیں کرتے اپنے طور پر زکوٰۃ کی رقم اس کے مصارف میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ ہی احسن طریقہ ہے ۔

اموال ظاہرہ واموال باطنہ

مال دو طرح کا ہے ایک ظاہری جیسے مویشی غلہ مال تجارت وغیرہ اس کی زکوٰۃ اسلامی حکومت وصول کرتی ہے ۔ دوسرا باطنی یا پوشیدہ مال جیسے زیورات یا نقدی اس کی زکوٰۃ ہر شخص خود ادا کرتا ہے ۔

فی زمانہ چونکہ زکوٰۃ وعشر کا نظام حکومت کی طرف سے شرعی اصول کے مطابق نہیں اور چونکہ اس سے ضرورت مندوں ، محتاجوں ، مسکینوں کی کفالت عامہ کی ذمہ داری بھی حکومت نہیں لیتی نہ اس کے شرعی مصارف میں صرف کرتی ہے ۔ بلکہ دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ میں بھی لوٹ مار اور افسر شاہی کے اللوں تللوں کی بھرمار ہے ۔ نہ وصولی میں شرعی اصولوں کی پابندی ہے نہ صرف کرنے میں اس لیے محتاط مسلمان اپنے طور پر اپنے مالوں کی زکوٰۃ مناسب مصارف میں خود صرف کرتے ہیں یہ بالکل جائز ہے ۔ حالانکہ زکوٰۃ امراء سے لے کر فقراء پر صرف کرنے کےلیے فرض کی گئی ہے تاکہ غریب ومسکین حاجت مندوں کی باعزت کفالت ہو ۔

بنی ہاشم پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں کہ یہ لوگوں کے مال کا میل کچیل ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ کبھی خود اپنی ذات پر مال زکوٰۃ صرف کیا نہ اپنے خاندان بنی ہاشم پر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان بنی ہاشم پر زکوٰۃ و عشر کا مال حرام فرمادیا ۔ حضور بھی زکوٰۃ کی وصولی و تقسیم کا کام بلا معاوضہ کرتے تھے اور اپنے خاندان کےلیے بھی یہ حکم تھا کہ ان میں سے جو کوئی بلا معاوضہ یہ خدمت کرنا چاہے کرے ، لیکن زکوٰۃ میں سے معاوضہ لے کریہ خدمت انجام نہیں دے سکتا ۔ ہاں زکوٰۃ کے محکمہ میں کام کرنے والا ہاشمی زکوٰۃ فنڈ کے علاوہ تنخواہ پائے تو یہ جائز ہے ۔ البتہ زکوٰۃ کے علاوہ ان تحائف دیئے جاسکتے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد 1 صفحہ 188)

چوتھا مصرف ، مؤلفة القلوب

زکوٰۃ وعشر کاچوتھا مصرف مؤلفتہ القلوب ہیں یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا ، مائل کرنا ، مانوس کرنا ۔ اس حکمِ خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور مال دے کر ان کی مخالفت ختم کی جا سکتی ہے یا ایسے نادار کافر جن کی مالی امداد کرکے ان کو اسلام کی طرف مائل کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجہ میں پہلے ان کا جوش عداوت ٹھنڈا ہوگا اور بالآخر وہ اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ یا وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوں اور ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو امکان ہے کہ وہ اپنی کسمپرسی اور کمزوری کی بناء پر پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے ۔ ایسے لوگوں کو و قتی عطیات یا مستقل وظائف مال زکوٰۃ سے دے کر ان کو اسلام کا مطیع وفرماں بردار یا کم ازکم بے ضرر دشمن بنالیا جائے ایسے لوگوں کو مال زکوٰۃ دینا جائز ہے خواہ وہ غریب ہوں خواہ مالدار اس بات میں تو کسی کا اختلاف نہیں کہ قرآن کریم میں زکوٰۃ و عشر کے جو آٹھ مصارف ذکر کیے گئے ہیں ان میں ’’مؤلفتہ القلوب‘‘ کا حصہ بھی شامل ہے اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤلفة القلوب کو اپنی حیات ظاہری میں مالی وظائف دیا کرتے تھے ۔ مثلاً خاندان بنی امیہ میں سفیان بن حرب ، نبی مخزوم میں حارث بن ہشام، عبدالرحمن بن یربوع ، نبی جمح میں صفوان بن امیہ ، بنی عامر بن لوئی میں سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزیٰ ، بنی اسد بن عبدالعزیٰ میں حکیم بن حزام، بنی ہاشم میں ابوسفیان بن الحارث بن عبدالمطلب ، فزارہ عینیہ بن حصن ، بنی تمیم میں اقرع بن حابس ، بنی نصر میں مالک بن عوف ، بنی سلیم میں عباس بن مرد اس، ثقیف میں علاء بن حارثہ ، بنی حارثہ ، بنی سہم میں عدی بن قیس، ان میں سے بعض کو 100 اونٹ اور بعض کو 50 ملے ۔

لیکن جب خلافت صدیقی میں عینیہ بن حصن اپنا حصہ لینے آئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی : الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۔ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے سو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے ۔ دوسری روایت میں ہے عینیہ اور اقراع ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس زمین مانگنے آئے ۔ آپ نے ان کو تحریر لکھ دی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے چاک کر دیا ، اور فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں یہ کچھ اس لیے دیتے تھے کہ تم اسلام سے مانوس ہو جاؤ ۔ اب اللہ نے اسلام کو غلبہ دے دیا ہے اور اسے تم لوگوں سے مستغنی کر دیا ہے ، اسلام پر قائم رہو گے تو ٹھیک ، ورنہ ہمارے تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی وہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر آئے اور کہنے لگے آپ خلیفہ ہیں یا عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی اور کسی صحابی نے انکار نہیں کیا ۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 8 : 114،چشتی)(بدائع الصنائع 2 : 45)(فتح القدیر 1۔ 200)(تفسیر کبیر 16 : 111)

کیا مؤلّفة القلوب کا حصہ منسوخ ہو چکا ہے ؟

امام رازی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : الصحیح ان هذا الحکم غیر منسوخ وان للامام ان یتألف قوما علی هذا الوصف ویدفع الیهم سهم المؤلّفة ۔
ترجمہ : صحیح یہ ہے کہ حکم منسوخ نہیں اور امام کا حق ہے کہ ایسے لوگوں کو اسی طرح مانوس کرتا رہے اور ان کو مؤلّفتہ القلوب کا حصہ دیتا رہے ۔ (تفسیر کبیر جلد 16 صفحہ 111)

جیسا کہ عرض کیا گیا ہے مصارف زکوٰۃ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مصرف مؤلّفة القلوب کا مقرر فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مد میں زکوٰۃ و عشر کی آمدنی خرچ فرمائی ۔ اور کبھی اسے منسوخ نہ فرمایا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان تمام حضرات کے وہ وظائف بند کر دیے جو تالیف قلب کے طور پر وہ اس سے پہلے وصول کرتے تھے ۔ بعض ائمہ کرام علیہم الرحمہ (جیسے احناف) کا موقف یہ ہے کہ مؤلّفة القلوب کا حصہ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے ایسا ہوا اور کسی نے اس پر اختلاف یا انکار نہ کیا پس معلوم ہوا کہ اس مصرف کے سقوط پر اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے اور چونکہ اجماع دلیل قطعی ہے ۔ لہٰذا قرآن کا نسخ اس سے جائز ہے بعض ائمہ نے فرمایا پہلے تالیف قلب کی ضرورت تھی لہٰذا یہ مصرف بحال رہا ۔ جب اسلام کو قوت حاصل ہو گئی تو کسی کی تالیف قلب کی ضرورت نہ رہی پس حکم جاتا رہا ۔ ہمارے نزدیک تالیف قلب کی آج بھی اتنی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی ابتدائے اسلام میں ۔ آج بھی ضرورت اس امرکی ہے کہ اس فنڈ میں سے غریبوں کی مدد کر کے ان کے عقیدہ کو بچایا جائے ۔ مسلمانوں کو مال کی لالچ میں مرتد ہونے سے اور غیر مسلم غریبوں کی مالی اعانت کرکے انہیں مسلمان کیا جائے ۔ خصوصاً اس دور میں جبکہ غیر مسلم امیر ممالک اور ان کی ایجنسیاں غریبوں کو مرتد کرنے پر اربوں ڈالر اور بعض پٹرول کی دولت سے مالا مال شرق اوسط کے ممالک لوگوں کو بدعقیدہ کرنے پر پانی کی طرح پیسہ بہارہے ہیں ۔ پختہ صحیح العقیدہ صاحبانِ ثروت مسلمانوں کو اپنی دولت اور عشر و زکوٰۃ غریب وفادار غیر مسلموں کی اصلاح پر خرچ کرنی چاہیے ۔ بیروزگار و بیمار لوگوں کی مالی اعانت کرنی چاہیے ۔ یونہی نادار و مفلس مسلم و غیر مسلموں کے بچوں کی تعلیم وتربیت پر زکوٰۃ و عشر کی رقوم خرچ کرناچاہیے نیز ذمی شہریوں سے جزیہ و خراج وصول کرکے ذمی طلباء و غربا کی ہر طرح کی مالی اعانت کی جائے اور ان کو ضروریات زندگی مہیا کی جائیں ۔ یہ سب اسلامی فلاحی حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے ۔

امیروں اور ڈانواں ڈول لوگوں پر خرچ کرکے ان کو مخالفینِ اسلام کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچایا جائے ۔ نومسلموں کی مالی اعانت کر کے ان کو اسلام کی طرف مائل و مانوس کیا جائے۔ مال کے خواہش مندوں کو مالی مدد دیکر اسلام پر کار بند کیا جائے ۔ دشمن قوتوں کی مالی اعانت کر کے ان کے شر سے ملک و ملت کو بچایا جائے غیر مسلم قوتیں مال دے کر مسلمانوں کے عقیدے خراب کرتی اور ان کو مرتد کرتی ہیں ۔ اسلام بھی ان پر مال خرچ کرکے ان کو مسلمان ہونے کی ترغیب دیتا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع اس بات پر ہوا تھا کہ اس دور میں مؤلّفة القلوب کو کچھ دینے کی ضرورت نہ رہی تھی ۔

آج بھی ضرورت نہ ہو تو آپ کو کسی نے مجبور نہیں کیا کہ ضرور مؤلّفة القلوب کا مصرف پیدا کریں ۔ لیکن ضرورت ہو تو پھر آپ اس مد میں زکوٰۃ صرف کر سکتے ہیں ۔ جیسے دوسری مدات ہوں تو زکوٰۃ صرف کریں کوئی مدنہ ہو تو چھوڑ دیں بیت المال میں مال جمع کرا دیں ۔ یہ قرآنی حکم کا نسخ نہیں بلکہ علت نہ رہنے سے حکم ختم ہو گیا ، جیسے تیمم اس وقت تک کر سکتے ہیں جب تک پانی استعمال کرنے کی قدرت نہ ہو ۔ جونہی پانی پر قدرت حاصل ہوئی تیمم کا حکم ختم ۔ حکم علت کے ساتھ رہا ۔ ہمیشہ کےلیے منسوخ ہوا نہ ہر صورت میں نافذ ! یہی معاملہ ہے مؤلّفة القلوب کا جہاں جب ضرورت ہو صرف کریں ضرور ت نہ ہو مت کریں ۔ جیسے آئمہ احناف علیہم الرحمہ نے فرمایا : ان المقصود بالدفع الیهم کان اعزاز الاسلام لضنعفه فی ذلک الوقت لغلبه اهل الکفر فکان الاعزازیه فی الدفع فلما تبدل الحال بغلبته اهل الاسلام صار الااعزاز هو المقصود وهو باق علی جاله فلم یکن نسخا کالمتیم ۔ الخ (فتح القدیر شرح ہدایہ لابن الھمام ہے الکفایہ للخوارزمی 2 : 201)
ترجمہ : اس وقت اسلام کمزور تھا لہٰذا مؤلّفتہ القلوب کو زکوٰۃ دینے کا مقصد اسلام کو قوت دینا تھا ۔ کیونکہ کافر غالب تھے پس اعزاز اسلام ان کو زکوٰۃ دینے کا مقصد اسلام کو قوت دینا تھا۔ اہل اسلام کے غلبہ سے جب صورت حال بدل گئی اب غلبہ اہل اسلام ان کو زکوٰۃ نہ دینے میں ہوگیا پس اس (ابتدائی) زمانہ میں ان (مؤلّفتہ القلوب) کو دینا اور اس پچھلے دور میں نہ دینا (جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے کیا) غلبہ دین کے بمنزلہ ذریعہ و وسیلہ ہوا ۔ اصل مقصود غلبہ دین ہے اور وہ اسی طرح اب بھی باقی ہے ۔ پس نسخ نہ ہوا ۔ جیسے تیمم (کہ مجبوری کے وقت جائز ہو گیا اور مجبوری نہ رہی تو ختم ہو گیا نہ ہمیشہ کےلیے جائز نہ منسوخ) ۔ (شرح ہدایہ للخوارزمی فتح القدیر شرح ہدایہ لعلامہ ابن ہمام 2 : 201 طبع پاکستان)

پانچواں مصرف ۔  وفی الرقاب

گردنیں چھڑانے میں اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا ، کمزور ، نادار ، اور پسماندہ انسانوں کو طاقتور لوگ اپنا غلام بنالیتے تھے ۔ یونہی لڑائیوں اور جنگوں میں غالب قوم ، مغلوب قوم کو اپنا غلام بناکر ان کے گھر بار زمین جائیداد یہاں تک کہ ان کی جانوں کی مالک بن جاتی تھی اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قرار دیا جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل غلام تھے ان کو قانوناً و اخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا ۔ جس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا اس لعنت سے پاک ہو گئی جو مالک اپنے غلاموں لونڈیوں کو بلا معاوضہ آزاد کرنے پر آمادہ نہ تھے ۔ ان کو مالی معاوضہ دے کر غلاموں کو آزادی دلائی گئی ۔ مالک اپنے مملوک سے آزادی کےلیے جو مالی معاوضہ طلب کرے اسے بدل کتابت کہاجاتا ہے غلام مطلوبہ رقم ادا کر کے آزادی سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور وہ رقم مال زکوٰۃ سے دی جا سکتی ہے ۔ یونہی جو مسلمان آج کل ظالم و غاصب کافروں سے اپنی اپنی آئندہ نسلوں کی بقاء وآزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ محکوم و مظلوم مسلمان بھی مال زکوٰۃ کے مستحق ہیں ۔ اور اس قرآنی مصرف میں شامل ہیں ۔

چھٹا مصرف ۔ الغارمین

’’والغارمین‘‘ اور قرضداروں کو یعنی مال زکوٰۃ سے قرض داروں کے قرض بھی ادا کیے جا سکتے ہیں ۔

ساتواں مصرف ۔ وفی سبیل اللہ

’’اور اللہ کے راستے میں‘‘ امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مجاہدین مراد لیے ہیں اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ عازمین حج جو راستے میں مالی مدد کے محتاج ہوں ۔ کچھ علماء کے نزدیک طالب علم مراد ہیں ۔ امام کاسانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ۔ وہ ’’فی سبیل اللّٰه ‘‘ عبارة عن جمیع القرب فید خل فیه کل من سعی فی طاعة اللّٰه و سبیل الخیرات اذا کان محتاجا‘‘ ۔ فی سبیل اللہ سے مراد ہے تمام نیکی کے کام ، اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ و دو کرے ۔ جب کہ (زکوٰۃ کا) حاجت مندہو ۔ (بدائع الصنائح، 2 : 45،چشتی)(تفسیر روح المعانی، 10 : 123)(درمختار مع ردالمختار للشامی، 2 : 343)

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان ظاهر اللفظ لایو جب القصر علی کل الغزاة ۔ ظاہر لفظ مجاہدین پر حصر لازم نہیں کرتا ۔ (تفسیر کبیر16 : 113 طبع بیروت)

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ساتواں مصرف قرآن کریم میں فی سبیل اللہ بیان فرمایا گیا ہے۔ بعض فقہاء کرام نے اس سے حج اور جہاد پر جانے والے وہ لوگ مراد لئے ہیں جو سفر اور متعلقہ ضروریات کے سلسلہ میں مالی تعاون کے طالب ہیں ان پر زکوٰۃ صرف کی جاسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ کتاب و سنت میں براہ راست یہ وضاحت نہیں کی گئی ۔ لہٰذا مجاہدین سے مراد اگر عام معنی مراد لیا جائے تو زیادہ مناسب ہے یعنی وہ لوگ جو دین اسلام کی سر بلندی کےلیے جد و جہد میں مصروف ہیں خواہ وہ جہد فوجی میدان میں ہو خواہ تعلیمی میدان میں ، خواہ تبلیغی و تربیتی میدان میں جہاد کا مفہوم قتال و غزاء سے عام ہے ۔ پس جو لوگ ان محاذوں پر مصروف کار ہیں اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں تو زکوٰۃ سے ان کے وقتی یا مستقل وظائف مقرر کیے جا سکتے ہیں ۔

آٹھواں مصرف ’’ابن سبیل‘‘ مسافر

زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف مسافر ہے ۔ خواہ گھر میں مالدار ہو مگر سفر میں تنگدست ہو جائے اور مالی تعاون کا محتاج ہو ، تو زکوٰۃ سے اس کی مالی مدد کی جائے گی ۔ المراد الذی انقطعت به الاسباب فی سفره عن بلده ومستقره وماله فانه یعطی منها وان کان غنیا فی بلده ۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے وسائل واسباب گھر ٹھکانہ اور مال سے دور سفر میں ہونے کی وجہ سے اس کی دسترس سے باہر ہیں ۔ اس کو مال زکوٰۃ سے دیاجائے گا اگرچہ اپنے شہر میں امیر ہو ۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 8 : 119،چشتی)(بدائع الصنائع کاسانی 2 : 46)(ہدایہ مع فتح القدیر لعلامہ ابن الھمام 2 : 204 ردالمختار شامی ج 2 : 343)

زکوٰۃ کی ادائیگی کےلیے ضروری ہے کہ متعلقہ فرد یا جماعت کو زکوٰۃ کا مالک بنادیا جائے تاکہ مالدار کا دینا اور حقدار کا لینا ثابت ہو جائے ۔ اسے تملیک یعنی مالک بنانا کہتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کےلیے یہ شرط ہے ۔ (عامہ کتب فقہ) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)

الحَمْدُ ِلله الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دور دراز دیہاتوں میں غریب بچوں کو مفت عصری و دینی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے : ⬇

رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں دین کا درد رکھنے والے اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ : الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : محمد جواد اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ، 03215555970 ، جزاكم اللهُ‎ خیراً کثیرا آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday 29 March 2023

فضائل و مسائل زکواۃ حصّہ اوّل

0 comments
فضائل و مسائل زکواۃ حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی نشوونما کےلیے زمین اور آسمان سے اس کی ضروریات زندگی ، خوراک ، پوشاک ، رہائش اور سماجی و تمدنی کفالت کا ایسا معقول و وافر انتظام کیا ہے کہ اپنی مخلوق کو کسی بات میں کسی کا محتاج نہ رکھا لیکن ابتدائے خلق سے نسل انسانی کے دشمن شیطانی عناصر نے خدا کے پیدا کیے ہوئے وسائل رزق پر غاصبانہ تسلط کررکھا ہے ۔ ایک محدود و حقیر طبقہ روزی کے سرچشموں پر قابض ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ عام لوگوں کو بھی زندگی کی آسائشیں میسر ہوں ۔ اللہ کے رزق سے وہ بھی متمع ہوں ، وہ عزت و وقار سے زندہ رہیں ۔ یہی وہ مشکل گھاٹی ہے جس کا قرآن کریم نے ان الفاظ میں ذکر کیا : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ ۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ ۔ فَكُّ رَقَبَةٍ ۔ أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ ۔ يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ ۔ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ ۔ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ۔ أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ ۔
ترجمہ : پھر بے تامل گھاٹی میں نہ کودا ۔ اور تم نے کیا جانا وہ گھاٹی کیا ہے۔ کسی مملوک کی گردن چھڑانا ، یا بھوک کے دن کھانا کھلانا ، رشتہ دار یتیم کو، یا خاک نشین مسکین کو، پھر ہوجائے ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے آپس میں صبر کی وصیتیں کیں اور آپس میں مہربانی کی وصیتیں کیں ۔ یہی دائیں طرف والے (جنتی) ہیں ۔ (سورہ البلد، 90 : 11، 18)

دیکھا ، غربت ، بھوک ، تنگی ، پسماندگی ، بیماری و لاچاری میں گرفتار انسانوں کی طرف توجہ کرنا اور ان کے مسائل و مصائب کو حل کرنا کتنا مشکل لیکن ضروری فریضہ ہے گویا دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرنا ہے ۔

قیامت کے منکر

أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ ۔ فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ ۔ وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ ۔
ترجمہ : تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے پھر وہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہیں دیتا ۔ (الماعون، 107 : 1، 3)

جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے ۔

مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ۔ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ۔ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ۔
ترجمہ : تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ وہ بو لے ہم نماز نہ پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہ دیتے تھے ۔ (المدثر، 74 : 42۔ 44)

جھٹلانے والے مالدار

قرآنی نظام ربویت چونکہ ہر ضرورت مند کی ضرورت کا کفیل ہے لہذا جو امیر کبیر مالدار لوگ اس نظام کے قیام میں رکاوٹ ڈالیں، وہ ایک طرف اللہ کے دشمن ہیں اور دوسری طرف عام انسان کے بدخواہ، وہ چاہتے ہیں ہم بلا روک ٹوک اللہ کی نعمتوں پر سانپ بن کر بیٹھے رہیں اور عوام دانے دانے کو ہمارے محتاج ہوں۔ ان کی عزت، آبرو، آزادی، یہاں تک کے ان کی زندگی و موت بھی ہمارے ہاتھوں میں گروی ہو۔ اس ظالمانہ سوچ اور ذہنیت رکھنے والوں کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے : وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا ۔
ترجمہ : مجھے اور ان جھٹلانے والے مالداروں کو چھوڑ دو، اور ان کو تھوڑی مہلت دو ۔ (سورہ المزمل، 73 : 11)

مال کے پجاری

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ۔ يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَـذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! بے شک بہت پادری اور جوگی، لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں خوشخبری سنادو درد ناک عذاب کی جس دن وہ (مال) تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں، پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں، یہ ہے وہ جسے تم نے اپنے لئے جوڑ رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا ۔ (سورہ التوبہ، 9 : 34، 35)

کیا کچھ خرچ کریں ؟

وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوِ ۔
ترجمہ : اور (یا رسول اللہ) تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ تم فرماؤ جو ضرورت سے زائد بچ جائے ۔ (سورہ البقرہ، 2 : 219)

ضرورت سے زائد حاجت مندوں کو دو تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات پوری کرسکیں ۔

غریبی وجہ کفر ہوسکتی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : کادا الفقر ان یکون کفرا ۔ ’’قریب ہے غریبی کفر ہوجائے‘‘۔ (بیہقی)

زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال میں حق ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان فی المال لحقا سوی الزکوٰة ۔
ترجمہ : بے شک مال میں زکوٰۃ کے علاوہ (بھی) حق ہے ۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

امیروں کے مال میں غریبوں کا حق ہے ۔

وَفِیْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ۔
ترجمہ : اور ان کے مالوں میں حق ہے مانگنے والے اور بے نصیب کا ۔
 (سورہ الذاریت، 51 : 19)

مالداروں کے مالوں میں غریبوں کا حق ہے کہہ کر بتادیا کہ ضرورت مند کو لینے میں عار نہیں اور مالدار کو دینے میں احسان نہیں۔ وہ اپنا حق لے رہا ہے یہ اپنا فرض ادا کررہا ہے ۔

غریبوں پر ترس نہ کرنے والوں کیلئے مقام تفکر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : عذبت إمراة فی هرة امسکتها حتی ماتت من الجوع فلم تکن تطعمها ولا ترسلها فتاکل من خشاش الارض ۔
ترجمہ : ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا ۔ جسے اس نے باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ بھوک سے مرگئی ، نہ اس کو کھلاتی تھی اور نہ چھوڑتی کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی ۔ (بخاری ومسلم بحوالہ مشکوۃ : 168)

جانوروں پر رحم بھی مغفرت کا باعث ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : غفرلا مراة موسة مرت بکلب علی رأس رکی یلهث کاد یقتله العطش فنزعت خفها و ثقة بخمارها فنزعت له من الماء فغفرلها بذلک قیل ان لنا فی البهائم اجرا قال فی کل ذات کبدرطبة اجر ۔
ترجمہ : ایک بدکار عورت کی بخشش ہو گئی صرف اتنی بات پر کہ اس کا گذر ایک کتے کے قریب سے ہوا جو کنویں کے کنارے گیلی مٹی پر منہ مار رہا تھا، لگتا تھا کہ پیاس اسے مار دیگی، عورت نے اپنا موزہ (یا جوتا) اتارا ، اسے اپنے دوپٹے سے باندھا اس کے لئے پانی نکالا (اور پلایا) اسی سے اس کی بخشش ہو گئی ۔ عرض کی گئی کیا جانوروں کی خدمت میں بھی ہمارے لیے اجرو ثواب ہے ؟ فرمایا ہر دھڑکتے دل والی (زندہ) چیز کی خدمت میں اجرو ثواب ہے ۔ (متفق علیہ بحوالہ مشکوۃ، 147)

زکوٰة اسلام کا بنیادی رکن ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ پاک ہے : اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے ، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکات ادا کرنا ، حج کرنا او ررمضان کے روزے رکھنا ۔ (بخاری شریف، کتاب الایمان باب دعا ء کم ایمانکم حدیث نمبر۸،ج۱،ص۱۴،چشتی)

زکوٰة کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں نماز اور زکوٰة کا ایک ساتھ 32 مرتبہ ذکر آیا ہے ۔ (ردالمحتار کتاب الزکاۃ جلد ۳ صفحہ ۲۰۲)

علاوہ ازیں زکوٰة دینے والا خوش نصیب دنیوی واُخری سعادتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے ۔ زکوٰة کی فرضیت قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ اللہ پاک قرآنِ حکیم میں ارشاد فرماتا ہے : وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ۔
ترجمہ : اور نماز قائم رکھو اور زکات دو ۔ (پ ۱،البقرۃ:۴۳)

اس آیت میں نمازو زکوٰة کی فرضیت کا بیان ہے ۔

خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا ۔
ترجہ : اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے مال میں سے زکات کی تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو ۔ (پ۱۱، التوبۃ:۱۰۳)

اس آیت میں جو صدَقہ وارِد ہوا ہے اس کے معنٰی میں مفسِّرین کے کئی قول ہیں : ⬇

ایک تو یہ کہ وہ صدَقہ غیر واجِبہ تھا جو بطورِ کَفّارہ کے اِن صاحبوں نے دیا تھا جن کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے ۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اس صدَقہ سے مراد وہ زکات ہے جو ان کے ذمّہ واجب تھی ، وہ تائب ہوئے اور انہوں نے زکات ادا کرنی چاہی تو اللہ پاک نے اس کے لینے کا حکم دیا ۔ امام ابوبکر رازی جصاص رحمۃ اللہ علیہ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدَقہ سے زکات مراد ہے ۔ (خازن و احکام القرآن بحوالہ خزائن العرفان،چشتی)

زکوٰة 2 ہجری میں روزوں سے قبل فرض ہوئی ۔ (الدرالمختار،کتاب الزکات،ج۳،ص۲۰۲)

زکوٰة کا فرض ہونا قرآن سے ثابت ہے ، اس کا اِنکار کرنے والا کافر ہے ۔ (الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الزکات ،الباب الاول،ج۱،ص۷۰ ۱)

فرضیتِ زکوٰة احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ⬇

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اللہ پاک نے اس پر مامور کیا ہے کہ مَیں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ یہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کو ئی سچا معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)خدا کے سچے رسول ہیں ، ٹھیک طرح نماز ادا کریں ، زکوٰة دیں ، پس اگر ایسا کر لیں تو مجھ سے ان کے مال اور جا نیں محفوظ ہو جائیں گے سواے اس سزا کے جو اِسلام نے (کسی حد کے سلسلہ میں) ان پر لازم کر دی ہو ۔ (صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب فان تابواواقامواالصلوۃ،حدیث نمبر ۲۵ جلد ۱ صفحہ ۲۰،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طر ف بھیجا تو فرمایا : ان کو بتاؤ کہ اللہ پاک نے ان کے مالوں میں زکوٰة فرض کی ہے مال داروں سے لے کر فقرا کو دی جائے ۔ (سنن الترمذی، کتاب الزکاۃ ،باب ما جاء فی کراھیۃ اخذ خیار المال فی الصدقۃ ،حدیث نمبر ۶۲۵ جلد ۲ صفحہ ۱۲۶)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصالِ ظاہری ہو گیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور کچھ قبائل عرب مرتد ہو گئے (کہ زکوٰة کی فرضیت سے انکار کر بیٹھے) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ لوگوں سے کیسے معاملہ کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَیں لو گوں سے جہاد کرنے پر ما مور ہوں جب تک وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ نہ پڑھیں ۔ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا اقرار کر لیا اس نے اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کر لیا مگر یہ کہ کسی کا حق بنتا ہو اور وہ اللہ پاک کے ذمے ہے ۔ (یعنی یہ لوگ تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنے والے ہیں ، ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا) ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم! مَیں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکوٰة میں فرق کرے گا (کہ نماز کو فرض مانے اور زکاۃ کی فرضیت سے انکار کرے) اور زکوٰة مال کا حق ہے بخدا اگر انہوں نے (واجب الاداء) ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں دیا کرتے تھے تو مَیں ان سے جنگ کروں گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : وﷲ ! میں نے دیکھا کہ ﷲ پاک نے صدیق کا سینہ کھول دیا ہے ۔ اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق ہے ۔  (صحیح البخاری ،کتاب الزکاۃ،باب وجوب الزکوۃ،حدیث نمبر ۱۳۹۹، ۱۴۰۰، ج۱،ص۴۷۲،۴۷۳)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف کلمہ گوئی اِسلام کےلیے کافی نہیں ، جب تک تمام ضروریاتِ دِین کا اِقرار نہ کرے اور امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا بحث کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کے علم میں پہلے یہ بات نہ تھی ، کہ وہ فرضیت کے منکر ہیں یہ خیال تھا کہ زکوٰة دیتے نہیں اس کی وجہ سے گنہگار ہوئے ، کا فر تو نہ ہوئے کہ ان پر جہاد قائم کیا جائے ، مگر جب معلوم ہو گیا تو فرماتے ہیں میں نے پہچان لیا کہ وہی حق ہے ، جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سمجھا اور کیا ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ حصہ ۵ صفحہ ۸۷۰،چشتی)

تکمیل ایمان کا ذریعہ

زکوٰة دینا تکمیلِ ایمان کا ذریعہ ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکات ادا کرو ۔(الترغیب والترھیب کتاب الصدقات باب الترغیب فی اداءِ الزکوٰۃ حدیث نمبر۱۲، ج۱، ص۳۰۱ )

ایک مقام پر ارشاد فرمایا : جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اپنے مال کی زکات ادا کرے ۔ (المعجم الکبیر حدیث نمبر ۱۳۵۶۱،ج۱۲،ص۳۲۴)

رحمتِ الہٰی کی برسات

زکوٰة دینے والے پر رحمتِ الہٰی کی برسات ہوتی ہے ۔ سورۃُ الاعراف میں ہے : وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ ۔
ترجمہ : اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کےلیے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکات دیتے ہیں ۔
(پ۹،الاعراف۱۵۶)

تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول

زکوٰة دینے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔ قرآنِ پاک میں مُتَّقِیْن کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۔
ترجمہ : اور ہماری دی ہوئی روزی ميں سے ہماری راہ ميں اٹھائيں ۔
(پ۱،البقرۃ:۳)

کامیابی کا راستہ

زکوٰة دینے والا کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فلاح کو پہنچنے والوں کا ایک کام زکات بھی گنوایا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾ ۔
ترجمہ : بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ زکات دینے کا کام کرتے ہیں ۔ (پ ۱۸،المؤمنون ۱تا۴)

نصرتِ الہٰی کا مستحق

اللہ تعالیٰ زکوٰة ادا کرنے والے کی مدد فرماتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۴۰﴾اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالْمَعْرُوۡفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾ ۔
ترجمہ : اور بے شک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بے شک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے، وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں قابو دیں تو نماز برپا رکھیں اور زکات دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے لئے سب کاموں کا انجام۔(پ ۱۷،الحج:۴۰،۴۱)

اچھے لوگوں میں شمارہونے والا

زکوۃ ادا کرنا اللہ کے گھروں یعنی مساجد کو آباد کرنے والوں کی صفات میں سے ہے چناں چہ ارشاد پاک ہے : اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللہَ ۟ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الْمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۸﴾ ۔
ترجمہ : اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکات دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں ۔
(پ۱۰،التوبۃ: ۱۸)

غربا کے دل میں خوشی داخل کرنے کا ثواب

زکوٰة کی ادائیگی سے غریب لوگوں کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے اور ان کے دل میں خوشی داخل ہوتی ہے ۔

بھائی چارے کا بہترین اظہار

زکوٰة دینے کا عمل اخوتِ اسلامی کی بہترین تعبیر ہے کہ ایک غنی مسلمان اپنے غریب مسلمان بھائی کو زکوٰة دے کر معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ مہیا کرتا ہے ۔ نیز غریب مسلمان بھائی کا دل کینہ و حسد کی شکارگاہ بننے سے محفوظ رہتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے غنی مسلمان بھائی ، بہن کے مال میں اس کا بھی حق ہے چنانچہ وہ اپنے بہن ، بھائی کے جان ، مال اور اولاد میں برکت کےلیے دعاگو رہتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مؤمن کےلیے مؤمن مثل عمارت کے ہے، بعض بعض کو تقویت پہنچاتا ہے ۔ (صَحِیْحُ الْبُخَارِیْ،کتاب الصلوۃ،باب تشبیک الاصابع…الخ،حدیث نمبر ۴۸۱ جلد ۱ صفحہ ۱۸۱،چشتی)

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مصداق

زکوٰة مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ مضبوط بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے اسلامی معاشرے میں اجتماعیت کو فروغ ملتا ہے اور امدادِ باہمی کی بنیاد پر مسلمان اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ عظیم کا مصداق بن جاتے ہیں : مسلمانوں کی آپس میں دوستی اور رحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے ، جب جسم کا کوئی عضو بیمار ہو تا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو تا ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب،باب تراحم المؤمنین ..الخ،حدیث نمبر ۲۵۸۶،ص۱۳۹۶،چشتی)

مال کا پاک ہونا

زکوٰة دینے سے مال پاک ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مال کی زکوٰة نکال کہ وہ پاک کرنے والی ہے، تجھے پاک کردے گی ۔ (المسند للامام احمد بن حنبل مسند انس بن مالک ،حدیث نمبر ۱۲۳۹۷ جلد ۴ صفحہ ۲۷۴،چشتی)

بُری صفات سے چھٹکارا

زکوٰة دینے سے لالچ وبخل جیسی بُری صفات سے (اگر دل میں ہوں تو) چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے اور سخاوت وبخشش کا محبوب وصف مل جاتا ہے ۔

مال میں برکت

زکوٰة دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ مَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿۳۹﴾ ۔
ترجمہ : اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ۔ (پ۲۲،سبا:۳۹ )

ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے : مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنۡدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۲۶۲﴾ ۔
ترجمہ : ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیں، ہربال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کےلیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے، وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر دیے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ (انعام) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم ۔ (پ۳،البقرۃ:۲۶۱،۲۶۲)

پس زکوٰة دینے والے کو یہ یقین رکھتے ہوئے خوش دلی سے زکات دینی چاہیے کہ اللہ پاک اس کو بہتر بدلہ عطا فرمائے گا ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا ۔ (المعجم الاوسط حدیث نمبر ۲۲۷۰،ج۱،ص۶۱۹)

اگرچہ ظاہری طور پر مال کم ہوتا لیکن حقیقت میں بڑھ رہا ہوتا ہے جیسے درخت سے خراب ہونے والی شاخوں کو اُتارنے میں بظاہر درخت میں کمی نظر آرہی ہے لیکن یہ اُتارنا اس کی نشوونما کا سبب ہے ۔ زکوٰة دینے والے کی زکوٰة ہر سال بڑھتی ہی رَہتی ہے ۔ یہ تجرِبہ ہے ۔ جو کسان کھیت میں بیج پھینک آتا ہے وہ بظاہِر بوریاں خالی کر لیتا ہے لیکن حقیقت میں مع اضافہ کے بھر لیتا ہے ۔ گھر کی بوریاں چوہے ، سُرسُری وغیرہ کی آفات سے ہلاک ہو جاتی ہیں یا یہ مطلب ہے کہ جس مال میں سے صَدَقہ نکلتا رہے اُس میں سے خرچ کرتے رہو، اِن شاءَ اللہ بڑھتا ہی رہے گا، کُنویں کا پانی بھرے جاؤ ، تو بڑھے ہی جائے گا ۔ (مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد ۳ صفحہ ۹۳،چشتی)

شر سے حفاظت

زکات دینے والا شر سے محفوظ ہوجاتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے :
جس نے اپنے مال کی زکوٰة ادا کردی بے شک اللہ پاک نے اس سے شر کو دور کر دیا ۔ (المعجم الاوسط باب الالف من اسمہ احمد حدیث نمبر ۱۵۷۹ جلد ۱ صفحہ ۴۳۱)

حفاظتِ مال کا سبب

زکوٰة دینا حفاظتِ مال کا سبب ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مالوں کو زکوٰة دے کر مضبوط قلعوں میں کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج خیرات سے کرو ۔ (مراسیل ابی داؤد مع سن ابی داؤد باب فی الصائم یصیب اھلہ صفحہ ۸)

حاجت روائی

اللہ پاک زکوٰة دینے والوں کی حاجت روائی فرمائے گا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو کسی بندے کی حاجت روائی کرے اللہ پاک دین و دنیا میں اس کی حاجت روائی کرے گا ۔ (صحیح مسلم کتاب الذکر والدعائ،باب فضل الاجتماع ….الخ، حدیث نمبر۲۶۹۹، صفحہ ۱۴۴۷،چشتی)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : جو کسی مسلمان کودنیاوی تکلیف سے رہائی دے تو اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبت دور فرمائے گا ۔ (جامع الترمذی ،کتاب الحدود،باب ماجاء فی السترعلی المسلم،حدیث نمبر، ج۳، ص۱۱۵)

دُعاؤں کی حصول یابی

غریبوں کی دعائیں ملتی ہیں جس سے رحمتِ خداوندی اور مدد الہٰی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمھیں اللہ پاک کی مدد اور رزق ضعیفوں کی برکت اور ان کی دعاؤں کے سبب پہنچتا ہے ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجہاد باب عن استعان بالضعفاء،الخ، حدیث نمبر،۲۸۹۶، ج۲،ص۲۸۰)

زکوٰة نہ د ینے کے نقصانات

زکوٰة کی عدم ادائیگی کے متعدد نقصانات ہیں جن میں چند یہ ہیں : ⬇

(1) ان فوائد سے محرومی جو اسے ادائیگیِ زکوٰة کی صورت میں مل سکتے تھے ۔

(2) بخل یعنی کنجوسی جیسی بُری صفت سے (اگر کوئی اس میں گرفتار ہو تو) چھٹکارا نہیں مل پائے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمانِ پاک ہے : سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جو سخی ہوا اس نے اس درخت کی شاخ پکڑ لی ، وہ شاخ اسے نہ چھوڑے گی یہاں تک کہ اسے جنت میں داخل کر دے اور بخل آگ میں ایک درخت ہے ، جو بخیل ہوا ،اس نے اس کی شاخ پکڑی ، وہ اسے نہ چھوڑے گی ، یہاں تک کہ آگ میں داخل کر ے گی ۔ (شعب الایمان باب فی الجودِ والسخاء حدیث نمبر ۱۰۸۷۷ جلد ۷ صفحہ ۴۳۵،چشتی)

مال کی بربادی کا سبب ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : خشکی وتری میں جو مال ضائع ہوا ہے وہ زکات نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوا ہے ۔ (مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ،حدیث نمبر ۴۳۳۵ جلد ۳ صفحہ ۲۰۰)

ایک مقام پر ارشاد فرمایا : زکوٰة کا مال جس میں ملا ہوگا اسے تباہ وبرباد کردے گا ۔ (شعب الایمان باب فی الزکوٰۃ فصل فی الاستعفاف حدیث نمبر ۳۵۲۲ جلد ۳ صفحہ ۲۷۳)

بعض ائمہ نے اس حدیث کے یہ معنی بیان کیے کہ: زکوٰۃ واجب ہوئی اور ادا نہ کی اور اپنے مال میں ملائے رہا تو یہ حرام اُس حلال کو ہلاک کر دے گا اور امام احمد رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ معنی یہ ہیں کہ مال دار شخص مالِ زکاۃ لے تویہ مالِ زکاۃ اس کے مال کو ہلاک کر دے گا کہ زکات تو فقیروں کے لیے ہے اور دونوں معنی صحیح ہیں ۔ (بہار شریعت جلد ۱ حصہ ۵ صفحہ ۸۷۱)

زکوٰة ادا نہ کرنے والی قوم کو اجتماعی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو قوم زکوٰة نہ دے گی اللہ پاک اسے قحط میں مبتلاء فرمائے گا ۔ (المعجم الاوسط حدیث نمبر ۴۵۷۷ جلد ۳ صفحہ ۲۷۵،چشتی)

ایک اورمقام پر فرمایا : جب لوگ زکوٰة کی ادا ئیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ پاک بارش کو روک دیتا ہے اگر زمین پر چوپا ئے مو جود نہ ہو تے تو آسمان سے پا نی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب العقوبات حدیث نمبر۴۰۱۹،ج۴،ص۳۶۷)

زکوٰة نہ دینے والے پر لعنت کی گئی ہے جیسا کہ حضرت سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : زکوٰة نہ دینے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ۔ (صَحِیْحُ ابْنِ خُزَیْمَۃ کتاب الزکاۃ باب جماع ابواب التغلیظ،ذکر لعن لاوی …الخ،حدیث نمبر ۲۲۵۰ جلد ۴ صفحہ ۸)

بروزِقیامت یہی مال وبال جان بن جائے گا ۔ سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے : وَالَّذِیۡنَ یَکْنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۙ فَبَشِّرْہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِجَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوۡبُہُمْ وَظُہُوۡرُہُمْ ؕ ہٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنۡفُسِکُمْ فَذُوۡقُوۡا مَاکُنۡتُمْ تَکْنِزُوۡنَ ۔
ترجمہ : اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہيں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ ميں خرچ نہيں کرتے انہيں خوش خبری سناؤدرد ناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ ميں پھر اس سے داغيں گے ان کی پیشانياں اورکروٹيں اور پیٹھيں يہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا ۔ (پ۱۰،التوبۃ:۳۴،۳۵)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس کی زکوٰة ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا جس کے سر پر دو چتیاں ہوں گی (یعنی دو نشان ہوں گے)، وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ۔پھر اس (یعنی زکات نہ دینے والے) کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا : ”میں تیرا مال ہوں،میں تیرا خزانہ ہوں ۔” اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبْخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰىہُمُ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ ۔ اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ، ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کےلیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا ۔ (پ۴، اٰل عمران:۱۸۰) ۔ (صحیح البخاری،کتاب الزکات ، باب اثم مانع الزکوٰۃ،حدیث نمبر ۱۴۰۳ جلد ۱ صفحہ ۴۷۴،چشتی)

حساب میں سختی کی جائے گی

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فقیر ہر گز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر اغنیاء کے ہاتھوں ، سن لو ایسے مالداروں سے اللہ تعالیٰ سخت حساب لے گا اور انہیں درد ناک عذاب دے گا ۔ (مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ حدیث نمبر ۴۳۲۴ جلد ۳ صفحہ ۱۹۷)

عذابِ جہنم میں مبتلا ہوسکتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ لوگ دیکھے جن کے آگے پیچھے غرقی لنگوٹیوں کی طرح کچھ چیتھڑے تھے اور جہنم کے گرم پتھر اور تھوہر اور سخت کڑوی جلتی بدبو دار گھاس چوپایوں کی طرح چرتے پھرتے تھے ۔ جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی : یہاں پر مالوں کی زکوٰة نہ دینے والے ہیں اور اللہ پاک نے ان پر ظلم نہیں کیا ، اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں فرماتا ۔ (الزواجر کتاب الزکوٰۃ الکبیرۃ السابعۃ الثامنۃ والعشرون …. الخ جلد ۱ صفحہ ۳۷۲،چشتی)

ایک مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : زکوٰة نہ دینے والا قیامت کے دن دوزخ میں ہوگا ۔ (مجمع الزوائد ،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوۃ،حدیث نمبر۴۳۳۷،ج۳،ص۲۰۱)

ایک اور مقام پر فرمایا : دوزخ میں سب سے پہلے تین شخص جائیں گے ان میں سے ایک وہ مال دار جو اپنے مال میں اللہ پاک کا حق ادا نہیں کرتا ۔ (صحیح ابن خزیمہ، کتاب الزکوٰۃ،باب لذکر ادخال مانع الزکات النار ۔ الخ ، حدیث نمبر ۲۲۴۹ جلد ۴ صفحہ ۸)

اللہ عزوجل ہم میں سے جو صاحب نصاب ہیں انہیں اپنے مال کی زکوٰة نکالنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ مستحقین تک اسے پہنچانے کی توفیق بخشے ۔ اور خصوصاً ہم خادمانِ امت کو زیادہ سے زیادہ خدمات دینیہ و علمیہ کی توفیق خیر مرحمت فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم علیہ اکرم الصلاۃ و افضل التسلیم ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)

الحَمْدُ ِلله الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دور دراز دیہاتوں میں غریب بچوں کو مفت عصری و دینی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے : ⬇

رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں دین کا درد رکھنے والے اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ : الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : محمد جواد اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ، 03215555970 ، جزاكم اللهُ‎ خیراً کثیرا آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday 27 March 2023

فضائل و مناقب ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

0 comments
فضائل و مناقب ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
محترم قارئینِ کرام : ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں ۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ ان کے والد کا نام خویلد بن اسد تھا جوکہ قریش کے بہت مالدار سردار تھے ۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی ۔ انہوں نے اپنا کاروبار تجارت اور مال اپنی وفات سے پہلے اپنی اس ذہین اور معاملہ فہم بیٹی کے سپرد کر دیا تھا ۔ سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقدِ نکاح میں آنے والی خوش نصیب خاتون  ام المؤمنین حضرت خدیجۃُ الکبری رضی اللہ عنہا ہیں ، آپ کا نام خدیجہ بنتِ خویلد ، والِدہ کا نام فاطمہ ہے ۔ (اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 81)

آپ کی کنیت اُمُّ الْقَاسِم ، اُمِّ ھِند اور القاب الکبریٰ ، طاھِرہ اور سَیِّدَۃُ قُرَیْش ہیں ، آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت عامُ الفیل سے 15سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی ۔ عقدِ نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار و عمل سے مُتاثِر ہو کر  آپ رضی اللہ عنہا نے پیغامِ نکاح بھیجا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمایا ، یوں یہ بابرکت نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ شام سے واپسی کے 2 ماہ 25 دن بعد منعقد ہوا ۔ (المواہب اللدنیہ جلد 1 صفحہ 101) ۔ اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر  مبارک 40 برس تھی ۔ (الطبقات الکبرٰی جلد 8 صفحہ 13)

رب عزوجل کا سلام ایک بار جبریلِ امین علیہ السلام نے بارگاہِ رِسالت میں حاضر ہو کر عرض کی : یا رَسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا برتن لارہی ہیں جس میں کھانا اور پانی ہے جب وہ آجائیں تو انہیں ان کے رب کا اور میراسلام کہہ دیں اور یہ بھی خوشخبری سنا دیں کہ جنت میں ان کےلیے موتی کا ایک گھر بنا ہے جس میں نہ کوئی شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 565 حدیث نمبر 3820)

نماز سے محبت آپ رضی اللہ عنہا نمازکی فرضیت سے پہلے بھی نماز ادا فرماتی تھیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 5 صفحہ 83)

جذبۂ قُربانی آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی ساری دولت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر قربان کردی اور اپنی تمام عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خِدمَت کرتے ہوئے گزار دی ۔ (سیرت مصطفے صفحہ 95)

جود و سخا آپ رضی اللہ عنہا کی سخاوت کا عالم یہ تھا کہ ایک بار قحط سالی اور مویشیوں کے ہلاک ہونے کی وجہ سے حضرتِ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں تو آپ نے انہیں 40 بکریاں اور ایک اُونٹ تحفۃً پیش کیا ۔ (الطبقات الكبرٰى جلد 1 صفحہ 92)

خصوصیات : (1) عورتوں میں سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا نےاسلام قبول کیا ۔ (الاستیعاب جلد 4 صفحہ 380) ۔ (2) آپ رضی اللہ عنہا کی حَیَات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی اور سے نِکاح نہ فرمایا ۔(صحیح مسلم صفحہ 1016 حدیث نمبر 6281) ۔ (3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد سِوائے حضرتِ ابراہیم رضی اللہ عنہا کے آپ رضی اللہ عنہا ہی سے ہوئی ۔ (المواہب اللدنیہ جلد 1 صفحہ 391)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ عزوجل کی قسم خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب لوگوں نے میرا انکار کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کےلیے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور انہیں کے شکم سے اللہ تعالٰی نے مجھے اولاد عطا فرمائی ۔ (الاصابہ جلد 8 صفحہ 103)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے گھر بیٹھے اپنی ذہانت و قابلیت اور معاملہ فہمی کی بدولت اپنی تجارت کو چار چاند لگا دیے ۔ کبھی کبھار وہ قسمت و مقدر کے بارے میں سوچا کرتیں کہ پتا نہیں اللہ کو کیا منظور ہے ۔ ایک طرف اللہ نے انہیں بھائیوں سے محروم کر دیا تو دوسری طرف انہیں ازدواجی زندگی میں پے در پے صدمات برداشت کرنا پڑے ۔ ان کے پہلے خاوند ابو ہالہ بن زرارہ تھے جو شادی کے کچھ ہی عرصے بعد فوت ہوگئے ۔ ان سے ان کے دو بیٹے تھے ۔ ان کی دوسری شادی بنو مخزوم کے بہت خوش خلق نوجوان عتیق بن عابد سے ہوئی لیکن وہ بھی نہایت مختصر عرصے بعد داغِ مفارقت دے گئے ۔ ان سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو صحابیہ بھی ہیں اور ان کا نام ہند رضی اللہ عنہا بیان کیا گیا ہے ۔

نسب شریف

ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بنتِ خویلد بن اسدبن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی ۔ آپ کا نسب حضور پر نور شافعِ یوم النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب شریف سے قصی میں مل جاتا ہے ۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت ام ہند ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہا کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن العصم قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھیں ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم در ذکر ازواج مطہرات وی ، جلد ۲ صفحہ ۴۶۴،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کل سات بچے عطا فرمائے تھے ۔ ان میں حضرت سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ جو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ باقی سب بچے حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ یہ بھی کمال ہے کہ اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو بیٹے اور چار بیٹیاں اس عظیم خاتون سے مرحمت ہوئیں لیکن دونوں بیٹے قاسم اور عبداللہ بچپن ہی میں اللہ نے واپس لے لیے جبکہ بیٹیاں حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا ، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن جوانی کی عمر کو پہنچیں ۔

حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : خير نسائها خديجة بنت خويلد و خير نسائها مريم بنت عمران ۔
ترجمہ : (اپنے زمانہ کی عورتوں میں) سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد ہیں ، اور (اپنے زمانہ کی عورتوں میں) سب سے افضل مریم بنت عمران ہیں ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح ، 5: 702،رقم: 3877،چشتی)

اسی طرح ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھے جتنا رشک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر ہوا اتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی دوسری زوجہ پر نہیں ہوا ۔ حالانکہ میں نے ان کا زمانہ نہیں پایا ۔ اس رشک کی وجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں کثرت سے یاد کرنا ہے ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بکری ذبح کرتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گوشت کا ہدیہ بھیجتے ۔ (ترمذی الجامع الصحیح، رقم الحدیث:3876)

نکاح کے بعد پچیس برس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں رہیں اور نبوت کے دسویں سال پینسٹھ برس کی عمر میں انتقال فرمایا ۔ ان کے انتقال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود قبر مبارک میں اتر کر ان کو دفن فرمایا تھا۔

حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ بن صعیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوطالب کا انتقال ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باہر جانا بہت کم کردیا اور گھر میں ہی قیام فرمارہے تھے ۔ ادھر قریش کو ایذا رسانی کا وہ موقعہ ہاتھ آگیا جو انہیں کبھی میسر نہیں ہوا تھا اور نہ ہی وہ اس کی امید کرسکتے تھے ۔ (الوفاء، امام عبدالرحمن ابن جوزی، ص258)

صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں جبرائیل علیہ السلام نے حاضرہوکرعرض کیا: اے اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دستر خوان لارہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں ان سے ان کے رب کا سلام فرمانا ۔ (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھا الحدیث ۲۴۳۲،ص۱۳۲۲)

مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،سیدہ فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ تعالیٰ عنہا امراه فرعون ہیں ۔ (المسندللامام احمدبن حنبل،چشتی)(مسند عبداللہ بن عباس الحدیث ۲۹۰۳ جلد ۱ صفحہ ۶۷۸)

سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مالدار ہونے کے علاوہ فراخ دل اور قریش کی عورتوں میں اشرف وانسب تھیں ۔ بکثرت قریشی آپ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے خواہشمند تھے لیکن آپ رضی اللہ عنہا نے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا بلکہ سیدہ رضی اللہ عنہا نے سرکار ابدِ قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا اور اپنے چچا عمرو بن اسد کو بلایا ۔ سردارِ کُل جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے چچا ابوطالب ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگر رؤساء کے ساتھ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لائے ۔ جناب ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا ۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ رضی اللہ عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ سونا تھا ۔ (مدارج النبوت قسم دوم باب دوم درکفالت عبد المطلب الخ جلد ۲ صفحہ ۲۷)

بوقتِ نکاح سیدہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس برس اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد،تسمیۃ النساء ... الخ ، ذکرخدیجہ بنت خولید جلد ۸ صفحہ ۱۳)

جب تک آپ رضی اللہ عنہا حیات رہیں آپ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا ۔ (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ ، باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا الحدیث ۲۴۳۵ صفحہ ۱۳۲۴)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہوئی ۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے ۔ فرزندوں میں حضرت قاسم اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہما کے اسمائے گرامی مروی ہیں جب کہ دختران میں سیدہ زینب ، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہن ہیں ۔ (السیرۃالنبویۃلابن ہشام،حدیث تزویج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدیجۃ ، اولادہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صفحہ ۷۷،چشتی)(اسدالغابۃ،کتاب النساء ، خدیجۃ بنت خولید جلد ۷ صفحہ ۹۱)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر اتنا رشک نہیں کرتی جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر ، حالانکہ وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پاچکی تھیں ، لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کا (کثرت سے) ذکر فرماتے ہوئے سنتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم فرمایا کہ خدیجہ کو موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجیے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی بکری ذبح فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی سہیلیوں کو اتنا گوشت بھیجتے جو اُنہیں کفایت کر جاتا ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبی، باب : تزويج النبي صلی الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1388، الرقم : 3605، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1888، الرقم : 2435، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 58، الرقم : 24355، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 307، الرقم : 14574)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آ کر عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خدیجہ ہیں جو ایک برتن لے کر آرہی ہیں جس میں سالن اور کھانے پینے کی چیزیں ہیں ، جب یہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب کا اور میرا سلام کہیے اور انہیں جنت میں موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجیے ، جس میں نہ کوئی شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف ہو گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم : 3609، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1887، الرقم : 2432، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم : 32287،چشتی)

حضرت اسماعیل سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بشارت دی تھی ؟ انہوں نے جواب دیا ، ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں (جنت میں) ایسے محل کی بشارت دی تھی جو موتیوں سے بنا ہو گا اور اس میں نہ شورو غل ہوگا اور نہ کوئی اور تکلیف ہو گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم : 3608، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1887، الرقم : 2433، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم : 32288)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت مریم ہیں اور (اسی طرح) اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت خدیجہ ہیں ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1388، الرقم : 3604، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1886، الرقم : 2430، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم : 32289،چشتی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت طلب کرنا سمجھ کر کچھ لرزہ براندام سے ہوگئے۔ پھر فرمایا : خدایا ! یہ تو ہالہ ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے رشک ہوا ۔ پس میں عرض گزار ہوئی کہ آپ قریش کی ایک سرخ رخساروں والی بڑھیا کو اتنا یاد فرماتے رہتے ہیں ، جنہیں فوت ہوئے بھی ایک زمانہ بیت گیا ہے کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کا نعم البدل عطا نہیں فرما دیا ہے ؟ ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم : 3610، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1889، الرقم : 2437، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 7 / 307، الرقم : 14573)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی زوجہ مطہرہ پر اتنا رشک نہیں آتا جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر، حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہیں ہے ، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر ان کا ذکر فرماتے رہتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی بکری ذبح فرماتے تو اس کے اعضاء کو علیحدہ علیحدہ کر کے انہیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ملنے والی عورتوں کے ہاں بھیجتے ۔ کبھی میں اتنا عرض کر دیتی کہ دنیا میں کیا حضرت خدیجہ کے سوا اور کوئی عورت نہیں ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : ہاں وہ ایسی ہی یگانہ روزگار تھیں اور میری اولاد بھی ان سے ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم : 3607،چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر رشک نہیں کیا، سوائے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے (یعنی میں ان پر رشک کیا کرتی تھی) اور میں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ نہیں پایا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی بکری ذبح کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ اس کا گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے ہاں بھیج دو ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ایک دن غصہ میں آگئی اور میں نے کہا : خدیجہ ، خدیجہ ہی ہو رہی ہے ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خدیجہ کی محبت مجھے عطا کی گئی ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1888، الرقم : 2435، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 467، الرقم : 7006)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں فرمائی یہاں تک کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1889، الرقم : 2436، و الحاکم في المستدرک، 3 / 205، الرقم : 4855، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 429، الرقم : 1475)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا کہ میں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر رشک کیا ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کا کثرت سے ذکر فرمایا کرتے تھے حالانکہ میں نے ان کو کبھی بھی نہیں دیکھا تھا ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1889، الرقم : 2435)

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کسی عورت پر اس قدر رشک نہیں کیا جس قدر کہ میں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر رشک کیا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا میری شادی سے تین سال پہلے وفات پا چکی تھیں (اور میں یہ رشک اس وقت کیا کرتی تھی) کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردگار نے حکم فرمایا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں خولدار موتیوں سے بنے ہوئے گھر کی خوشخبری دے دو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی بکری ذبح کرتے تھے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو گوشت بھیجا کرتے تھے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1888، الرقم : 2435،چشتی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے (اتباع و اقتداء کرنے کے) لیے چار عورتیں ہی کافی ہیں ۔ مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فرعون کی بیوی آسیہ ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : فضل خديجة، 5 / 702، الرقم : 3878، و أحمد في المسند، 3 / 135، الرقم : 12414، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 464، الرقم : 7003، و الحاکم في المستدرک، 3 / 171، الرقم : 4745)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب مکہ مکرمہ والوں نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو حضرت زینب (بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ابوالعاص کے فدیہ میں مال بھیجا جس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وہ ہار بھی تھا جو انہیں (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے) جہیز میں ملا تھا جب ابو العاص سے ان کی شادی ہوئی تھی ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرط غم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل بھر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہو گئی فرمایا : اگر تم مناسب سمجھو تو اس (حضرت زینب) کے قیدی کو چھوڑ دیا جائے اور اس کا مال اسے واپس دے دیا جائے ؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (ابو العاص) سے عہد و پیمان لیا کہ زینب کو آنے سے نہیں روکے گا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ اور ایک انصاری کو بھیجا کہ تم یاجج کے مقام پر رہنا یہاں تک کہ زینب تمہارے پاس آ پہنچے۔ پس اسے ساتھ لے کر یہاں آ پہنچنا ۔ (أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في فداء الأسير بالمال، 3 / 62، الرقم : 2692، وأحمد في المسند، 6 / 276، الرقم : 26405، و الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 428، الرقم : 1050)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے درآنحالیکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ حضرت خدیجہ پر سلام بھیجتا ہے اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : بیشک سلام اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جبرائیل علیہ السلام پر سلامتی ہو اور آپ پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں ۔ (أخرجه النسائي في السنن الکبري، 6 / 101، الرقم : 10206، و الحاکم في المستدرک، 3 / 206، الرقم : 4856)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین پر چار خطوط کھینچے اور دریافت فرمایا ؛ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جنت کی بہترین عورتیں ہیں جو کہ حضرت خدیجہ بنت خویلد ، حضرت فاطمہ بنت محمد ، آسیہ بنت مزاحم جو کہ فرعون کی بیوی ہے اور حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ عنھن ہیں ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 293، الرقم : 2668، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 470، الرقم : 7010، و الحاکم في المستدرک، 2 / 539، الرقم : 3836)

امام ابن شہاب زہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا عورتوں میں سے سب سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 203، الرقم : 4844، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 367، الرقم : 12859، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 30، الرقم : 16،چشتی)

امام ابن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نماز فرض ہونے سے پہلے خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلی خاتون تھیں جو اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے برحق ہونے) کی تصدیق کی ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 203، الرقم : 4845، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 249، الرقم : 1099، و ابن عبدالبر في التمهيد، 8 / 51، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 117، والزهري في الطبقات الکبري، 8 / 18، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 220)

حضرت ربیعہ سعدی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت حذیفہ یمانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مسجد نبوی میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا تمام جہاں کی عورتوں سے پہلے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 203، الرقم : 4846، والمناوي في فيض القدير، 3 / 431، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 116)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کبھی بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتے تو ان کی خوب تعریف فرماتے : آپ فرماتی ہیں کہ ایک دن میں غصہ میں آ گئی اور میں نے کہا کہ آپ سرخ رخساروں والی کا تذکرہ بہت زیادہ کرتے ہیں حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سے بہتر عورتیں اس کے نعم البدل کے طور پر آپ کو عطا فرمائی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر بدل عطا نہیں فرمایا وہ تو ایسی خاتون تھیں جو مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے اور میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اپنے مال سے اس وقت میری ڈھارس بندھائی جب لوگ مجھے محروم کر رہے تھے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جبکہ دوسری عورتوں سے مجھے اولاد عطا فرمانے سے محروم رکھا ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 117، الرقم : 24908، والطبراني في المعجم الکبير، 23 / 13، الرقم : 22، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 8، والعسقلاني في الإصابة، 7 / 604، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 117، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 224،چشتی)

حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتے تھے تو ان کی تعریف اور ان کےلیے استغفار و دعائے مغفرت کرتے ہوئے تھکتے نہیں تھے ۔ پس ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ فرمایا تو مجھے غصہ آ گیا یہاں تک کہ میں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو اس بڑھیا کے عوض (حسین و جمیل) بیویاں عطا فرمائی ہیں ۔ پس میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ شدید جلال میں آ گئے ، (یہ صورتحال دیکھ کر) میں نے اپنے دل میں کہا : اے اللہ اگر آج تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصہ کو ٹھنڈا کر دے تو میں کبھی بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا برے لفظوں میں تذکرہ نہیں کروں گی ۔ پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری یہ حالت دیکھی تو فرمایا : تم ایسا کیسے کہہ سکتی ہو ؟ حالانکہ ، خدا کی قسم ! وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے اور میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور میری اولاد بھی ان کے بطن سے پیدا ہوئی جبکہ تو اس سے محروم ہے ، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ماہ تک اسی حالت (یعنی قدرے ناراضگی کی حالت میں) صبح و شام آتے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 13، الرقم : 21، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 112، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 31، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 224،چشتی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کوئی چیز پیش کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے اس کو فلاں خاتون کے گھر لے جاؤ کیونکہ یہ خدیجہ کی سہیلی ہے ، اس کو فلاں خاتون کے گھر لے جاؤ کیونکہ یہ خدیجہ سے محبت رکھتی تھی ۔ (أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 90، الرقم : 232، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 41، الرقم : 40،چشتی)

آپ رضی اللہ عنہا تقریباً پچیس سال حضور پرنور شافع یو م النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات رہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کا وصال بعثت کے دسویں سال دس (10) ماہ ِ رمضان المبارک کو ہوا ۔ اور مقبرہ حجون میں مدفون ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی ۔ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی ۔ اس سانحہ پر رحمت عالمیان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ ملول و محزون ہوئے ۔ (مدارج النبوت قسم پنجم باب دوم در ذکر ازواج مطہرات جلد ۲ صفحہ ۴۶۵)

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے ۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لیے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیاں تھیں ۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا الحدیث ۲۴۳۵ صفحہ ۱۳۲۳)

وصال شریف آپ رضی اللہ عنہا تقریباً 25 سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریکِ حیات رہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کا وصال بعثت (یعنی اعلانِ نبوت) کے دسویں سال دس رمضان المبارک میں ہوا آپ مکہ مکرمہ کے قبرستان جنّتُ المعلیٰ میں مدفون ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی نمازِ جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی (یعنی شرعاً اس کا آغاز نہ ہوا تھا) ، بوقتِ وفات آپ کی عمر مُبارَک 65 برس تھی ، آپ کی وفات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت غمگین ہوئے ۔ (مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 465) ۔ جس سال آپ کی وفات ہوئی اسے ’’عام الحزن (غم کا سال)‘‘ قرار دیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فضائل و مسائل اور دلائل تراویح حصّہ نمبر 6

0 comments

فضائل و مسائل اور دلائل تراویح حصّہ نمبر 6

ائمہ احناف آٹھ تراویح کے قائل تھے کا جواب : فقیر کی ایک پوسٹ پر ایک پُر جوش کاپی پیسٹر غیر مقلد وہابی نے وہابیہ کے ایک فورم سے ایک مضمون کاپی کر کے کمنٹ میں پیسٹ کیا ہوا تھا جسے فقیر نے دیکھا وہ یہ کہ : امام اعظم ابو حنیفہ ، امام ابن ہمام ، علامہ ابن نجیم حنفی ، امام طحطاوی ، ملا علی قاری ، علامہ سیوطی علیہم الرّحمہ یہ تمام حضرات آٹھ رکعات تراویح کے قائل تھے ۔ ان غیر مقلدین کے مکّاری اور جھوٹ کا پردہ ہم کئی بار چاک کر چکے ہیں مگر یہ لوگ یہودیانہ فطرت سے باز نہیں آتے آدھے حوالے دینا حوالہ جات میں کتر و بیونت کرنا جھوٹ بولنا غیر مقلد وہابی مذہب کی کی گھٹی میں شامل کیا جاتا ہے اگر یہ لوگ جھوٹ نہ بولیں تو غیر مقلدیت اپنی موت آپ مر جائے گی آیئے ان کے جھوٹ و مکّاری کے پرخچے اڑتے اور منافقت عیاں ہوتے دیکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں اصل حقائق و دلائل : ⬇

غیر مقلدین کے اعتراض جھوٹ اور مکر و فریب کا جواب : ⬇

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : مسند امام اعظم سے جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث نقل کی ہے وہ تہجد کے متعلق ہے نہ کہ تراویح کے ۔خود حدیث میں صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باللیل کے الفاظ موجود ہیں جن کا معنیٰ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رات کی نماز تیرہ رکعات ہوتی تھی اور رات کی نماز سے مراد تہجد ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نماز تہجد تیرہ رکعات ہوتی تھی وتر بھی اس میں شامل ہوتے تھے ۔

حدیث مبارک میں لفظ صلوۃالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باللیل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام صاحب تو نماز تہجد کی رکعات ثابت کر رہے ہیں نہ کہ نماز تراویح کی ۔

مناسب ہے کہ آپ کے سامنے امام صاحب رحمہ اللہ کا مسلک بھی نقل کر دیا جائے تاکہ بات کھل کر سامنے آجائے ۔ کتاب الآثار لابی یوسف میں روایت موجود ہےابو حنیفۃ عن حماد عن ابراھیم ان الناس کا نو ایصلون خمس ترویحات فی رمضان ۔
ترجمہ : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حماد سے وہ ابراھیم سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک لوگ رمضان میں پانچ ترویحے یعنی بیس رکعات پڑھاتے ۔

فتاوی قاضی خان میں ہے : التراویح سنۃ مؤکدۃ للرجال والنساء توارثھا الخلف عن السلف من لدن تاریخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الیٰ یومنا و ہٰکذا رویَ الحسن عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ انہا سنۃ لاینبغی ترکھا ۔۔۔۔وقد واظب علیھا الخلفاء الراشدون رضی اللہ عنہم وقال علیہ السلام علیکم بسنتی وسنۃالخلفاء من بعدی ۔ (فتاویٰ قاضی خان برھامش فتاویٰ عالمگیریہ جلد 1 صفحہ 332،چشتی)
ترجمہ: نماز تراویح مردوں اور عورتوں کےلیے سنت مؤکدہ ہےحضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک ہر دور کے اخلاف) بعد والوں (نے اپنے اسلاف) پہلے والوں (سے اس کو توارث سے پایا ہے اور اسی طرح حسن رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ بے شک تراویح سنت ہے اس کو چھوڑنا ، نا مناسب ہے ، پھر لکھتے ہیں : مقدار التراویح عند اصحابنا والشافعی رحمہ اللہ ماروی الحسن عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ قال القیام فی شھر رمضان سنۃ لاینبغی ترکھا یصلی اھل کل مسجد فی مسجد ھم کل لیلۃ سوی الوتر عشرین رکعۃ خمس ترویحات بعشر تسلیمات یسلم فی کل رکعتین ۔ (فتاویٰ قاضی خان ص234)
ترجمہ : تراویح کی مقدار ہمارے اصحاب وامام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وہ ہے جو حسن رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کی ہے فرمایا قیام رمضان (تراویح) سنت ہے اس کو ترک کرنا، نا مناسب ہے ۔ہر مسجد والے اپنی مسجد میں ہر رات وتروں کے علاوہ بیس رکعات تراویح پڑھیں ۔پانچ ترویحے ۔دس سلاموں کے ساتھ اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیں ۔

بدایۃ المجتہد میں ہے : فاختار مالک فی احد قولیہ وابو حنیفۃ والشافعی و احمد وداؤد رحمہم اللہ القیام بعشرین رکعۃ سوی الوتر ۔ (بدایۃ المجتہد جلد نمبر 1 صفحہ 210،چشتی)
ترجمہ : امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے دو قولوں میں سے ایک میں اور امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد اور داؤد ظاہری نے بیس رکعات تراویح کا قیام پسند کیا ہے ، سوائے وتر کے ۔

رحمۃالامۃ میں ہے : فالمسنون عند ابی حنیفۃ والشافعی و احمد رحمہم اللہ عشرون رکعۃً ۔ (رحمۃالامۃ صفحہ 23)
ترجمہ : امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور احمد رحمہم اللہ کے نزدیک مسنون تراویح بیس رکعات ہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : فقہ حنفیہ کے تمام متون اور شروحات میں التراویح عشرون رکعات اور خمس ترویحات کی تصریح موجود ہے لیکن اتنی بڑی تصریحات کے باوجود معترضین کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نام پر عوام الناس کو دھوکہ دینا اور ان کی طرف آٹھ رکعات تراویح کی جھوٹی نسبت کرنا نہایت تعجب خیز ہے اور حیران کن ۔

امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کا شاذ قول : محترم قارئین مذکرہ بالا امام ابن ہمام کے قول کی حیثیت شاذ اور مرجوح ہے اور ان کا ذاتی تفرد ہے ہمارے علماء اہل السنت اس کی تصریح بارہا کر چکے ہیں کہ شاذ اور تفرادت کا کوئی اعتبار نہیں چنانچہ امام ابن ہمام رحمہ اللہ کے عظیم شاگرد علامہ قاسم بن قطلوبغا فرماتے ہیں: لاعبرۃ بابحاث شیخنا یعنی ابن الہمام التی خالفت المنقول یعنی فی المذہب ۔ (شامی جلد 1 صفحہ 225،چشتی)
ترجمہ : ہمارے شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ کی وہ بحثیں جن میں منقول فی المذہب مسائل کی مخالفت ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔

باقی معترضین کا یہ کہنا کہ امام ابن رحمۃ اللہ علیہ ہمام آٹھ رکعات تراویح کے قائل ہیں یہ بات سراسر بددیانتی ہے ہے کیونکہ امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ آٹھ رکعات تراویح کے قائل نہیں بلکہ وہ بھی پوری امت کی طرح بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں : چنانچہ لکھتے ہیں :ثم استقر الامر علی العشرین فانہ المتوارث ۔ (فتح القدیر جلد 1 صفحہ 407)
یعنی بالآخر تراویح کے مسئلہ نے بیس رکعات پر استقرار پکڑا پس عمل توارث کے ساتھ چلا آرہاہے ۔

امام ابن ہمام رحمہ اللہ بیس رکعات تراویح کے ہی قائل ہیں البتہ ان کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کو مستحب سمجھنا او رتہجد وتراویح کی الگ الگ حدیثوں کو ایک دوسرے کا معارض سمجھنا شاذ، خلافِ اجماع ہے اور تفرد ہے۔

اہل سنت و جماعت کا اصول ہے:وان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جھل وخرق للاجماع . (درمختارج1ص31،چشتی)
یعنی قاضی کا حکم کرنا یا مفتی کا فتویٰ دینا مرجوح قول پر جہالت اور اجماع کی مخالفت ہے ۔ یعنی باطل اور حرام ہے ۔

امام ابنِ نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ کے بارے میں بھی معترضین ان کی ایک عبارت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں کہ وہ آٹھ رکعات تراویح کے قائل تھے حالانکہ امام ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قولہ عشرون رکعۃ‘‘بیان لکمیتھا وھو قول الجمھور لما فی المؤطا عن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بثلاث وعشرین رکعۃ و علیہ عمل الناس شرقاً و غرباً۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق جلد 2 صفحہ 66،چشتی)
ترجمہ : مصنف کا قول ہے کہ تراویح بیس رکعات ہےیہ نماز تراویح کے عدد کا بیان ہے کہ وہ بیس رکعات ہے اور یہی جمہور کا قول ہے اس لئے کہ مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں یزید بن رومان رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ 23رکعات پڑھتے تھے (بیس رکعات تراویح اورتین رکعات وتر) مشرق اور مغرب میں لوگوں کا اسی پر عمل ہے۔

امام طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : امام طحطاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ آٹھ رکعات تراویح کےقائل نہیں بلکہ وہ بھی دوسرے علماء احناف کی طرح بیس کے قائل ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ بیس رکعات تراویح پر توارث کے ساتھ اجماع ہے ۔ (طحطاوی جلد 1 صفحہ 468)
ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : ملا علی قاری رحمہ اللہ کے نام سے جو عبارت پیش کی گئی وہ عبارت ملاعلی قاری رحمہ اللہ کی نہیں بلکہ انہوں نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے۔ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ بذات خود بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں : لکن اجمع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃً ۔ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بیس رکعات تراویح پر اجماع ہے ۔ (مرقاۃ جلد 3 صفحہ 194،چشتی)
اسی طرح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح نقایہ صفحہ 104 میں بھی بیس رکعات تراویح پر اجماع نقل کیا ہے ۔

امام سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک : امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں ، چنانچہ امام موصوف ؛ علامہ سبکی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ومذھبنا ان التراویح عشرون رکعۃلما روی البیہقی وغیرہ بالا سناد الصحیح عن السائب بن یزید الصحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال کنا نقوم علی عہد عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعشرین رکعۃ والوتر ۔ (الحاوی للفتاویٰ ج1ص350)
اور ہمارا مذہب یہ ہے کہ نماز تراویح بیس رکعات ہے اس لیے کہ بیہقی وغیرہ نے صحیح اسناد کے ساتھ حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہم لوگ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح اور وتر پڑھتے تھے ۔پھر لکھا ہے :استقر العمل علی ہذا ۔یعنی بالآخر بیس رکعات تراویح پر عمل پختہ ہوا یعنی خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیس رکعات پر اتفاق اور اجماع کیا ہے ۔

اور پھربعض لوگ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا ہم خیال سمجھ کر ان کی یہ عبارت نقل کر دیتےہیں : واما ما رواہ ابن ابی شیبۃمن حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعۃً والوترفاسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ ھذاالذی فی الصحیحین مع کو نھا اعلم بحال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لیلامن غیرھا واللہ اعلم۔ (فتح الباری جلد 4 صفحہ 319)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ مسئلہ تراویح میں امام شافعی رحمہ اللہ کے سچے پیروکار تھے اور شافیعہ کا بیس رکعات تراویح پر اتفاق چلاآرہا ہے ۔
امام موصوف رحمۃ اللہ علیہ ؛ امام رافعی رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے نقل کرتے ہیں : انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی بالناس عشرین رکعۃ لیلتین فلما کان فی اللیلۃالثالثۃ اجتمع الناس فلم یخرج الیھم ثم قال من الغد خشیت ان تفرض علیکم فلا تطیقو نہا ۔
اس کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ”متفق علی صحتہ“اس کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔ (تلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافع الکبیر ج1ص540)

معلوم ہوا حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیس رکعات تراویح پڑھنا ثابت ہے اس کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے ۔

علامہ عبد الحئی لکھنوی حنفی کا مسلک : آپ کے مجموعہ فتاویٰ سے سوال اور جواب ملاحظہ فرمائیں ۔

سوال : حنفیہ بست رکعت تراویح سوائے وتر میخوانند و در حدیث صحیح از عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وارد شدہ ماکان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ پس سند بست رکعت چیست ؟

جواب : روایت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا محمول بر نماز تہجد است کہ در رمضان و غیر رمضان یکساں بود و غالباً بعد یازدہ رکعت مع الوتر بر سند و دلیل بریں محل آنست کہ راوی ایں حدیث ابو سلمہ است درنیہ ایں حدیث میگویدقالت عائشہ رضی اللہ عنہا فقلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنام قبل ان توتر قال یا عائشۃ ان عینی تنامان ولا ینام قلبیکذا رواہ البخاری ومسلم و نماز تراویح در عرف آں وقت قیام رمضان مےگفتند و حد صحاح ستہ بروایات صحیحہ مرفوعہ الی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعین عدد قیام رمضان مصرح نشدہ این قدر ہست کہقالت عائشہ کان رسول اللہ یجتہد فی رمضان مالا یجتہد فی غیرہ رواہ مسلم لیکن در مصنف ابن ابی شیبہ و سنن بیہقی بروایت ابن عباس وارد شدہکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یصلی فی رمضان جماعۃ بعشرین رکعۃ والوتر و رواہ البیہقی فی سننہ باسناد صحیح عن السائب بن یزید قال کانو ا یقومون فی عہد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فی شھر رمضان بعشرین رکعۃ ۔ (مجموعہ فتاوی مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ ص 59,58،چشتی)

اس عبارت میں وضاحت کے ساتھ مولانا عبد الحئی لکھنوی فرما رہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہے اور امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی روایت تہجد پر محمول ہے پھر بھی ان کے نام لے کر یہ کہنا کے وہ آٹھ رکعات تراویح کے قائل تھے بہر حال ہماری سمجھ سے دور ہے ۔

علامہ موصوف اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں : ان مجموع عشرین رکعۃ فی التراویح سنۃ موکدۃ لانہ مما واظب علیہ الخلفاء وان لم یواظب علیہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقد سبق ان سنۃ الخلفاء ایضاً لازم الاتباع وتارکھا آثم و ان کان اثمہ دون اثم تارک السنۃ النبویۃ فمن اکتفٰی علی ثمان رکعات یکون مسیئاً لترکہ سنۃ الخلفاء وان شِئت ترتیبہ علی سبیل القیاس فقل عشرون رکعۃ فی التراویح مما واظب علیہ الخلفاء الراشدون وکل ما واظب علیہ الخلفاء سنۃ موکدۃ ثم تضمہ مع ان کل سنۃ موکدۃ یاثم تارکھا فینتبع عشرون رکعۃ یا ثم تارکھا و مقدمات ھذا القیاس قدا ثبتنا ھا فی الاصول السابقہ ۔ (تحفۃ الاخیار فی احیاء سنۃ سید الابرار صفحہ 209،چشتی)
ترجمہ : تراویح میں بیس رکعات سنت مؤکدہ ہیں اس لئے کہ اس پر خلفائے راشدین نے مداومت کی ہے اگرچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مداومت نہیں کی اور پہلے بتایا جا چکا ہے کہ خلفاء راشدین کی سنت بھی واجب الاتباع ہے اور اس کاچھوڑنے والا گنہگار ہے اگرچہ اس کا گناہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ترک کرنے والے سے کم ہے لہٰذا جو شخض آٹھ رکعات پر اکتفاء کرے وہ برا کام کرنے والا ہے کیونکہ اس نے خلفا راشدین کی سنت ترک کر دی اگر تم قیاس کے طریقے پر اس کی ترتیب سمجھنا چاہو تو یوں کہو بیس رکعات تراویح پر خلفاء راشدین نے مواظبت کی اور جس پر خلفاء راشدین نے مواظبت کی ہو وہ سنت مؤکدہ ہے لہٰذا بیس رکعات تراویح بھی سنت مؤکدہ ہے پھر اس کے ساتھ یہ بھی ملاؤ کہ سنت مؤکدہ کا تارک گنہگار ہوتا ہے لہٰذا بیس رکعات کا تارک بھی گنہگار ہو گا۔ اس قیاس کے مقدمات ہم اصول سابقہ میں ثابت کر چکے ہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : علامہ عبد الحئی لکھنوی تو فرماتے ہیں کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھ کر باقی رکعتوں کو چھوڑنے والا گناہ گار ہے کیونکہ بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہے ۔ علامہ عبد الحئی لکھنوی رقمطراز ہیں : فمودی ثمان رکعات یکون تارکا للسنۃ المؤکدہ ۔ (حاشیہ ہدایہ جلد 1 صفحہ 131مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان،چشتی)

یعنی صرف آٹھ رکعات تراویح ادا کرنے والا سنت مؤکدہ کا تارک (گناہ گار) ہے کیونکہ سنت مؤکدہ کو ترک کرنا گناہ ہے ۔

علاوہ ازیں علامہ عبدالحئی لکھنوی نے مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے حاشیہ پر لکھا : بیس رکعات تراویح پر اجماع ہے اور نمازتراویح سنت مؤکدہ ہے ۔

مندرجہ بالا دلائل سے یہ معلوم ہوا کہ علمائے اہل سنت و جماعت بالخصوص علمائے احناف کو آٹھ رکعات تراویح کا قائل ماننا سراسر نا انصافی ہے ۔ تمام علمائے احناف کثراللہ سوادھم امت مرحومہ کی اجماعیت کو تسلیم کرتے ہوئے 20 رکعات تراویح ہی ادا کرتے ہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : جیسا کہ ہم تفصیل سے عرض کر کرچکے ہیں کہ تہجد اور تراویح الگ الگ نمازیں ہیں ۔ اگر نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح ایک ہی نماز ہے اور تراویح کے آٹھ رکعات ہونے کی یہی حدیث دلیل ہے تو چاہیے کہ اس حدیث کے تمام اجزا پر عمل کیا جائے اور اس میں بیان کردہ پوری کیفیت کے ساتھ نماز تراویح ادا کی جائے یا کم از کم اس کے مسنون ہونے کو بیان کیا جائے۔مگر اس حدیث سے صرف آٹھ کا لفظ تو لے لیا مگر آٹھ رکعات نماز کی کیفیت کو چھوڑ دیا ، کیوں کہ اس میں لمبی لمبی چار چار رکعات پڑھنے کاذکر ہے اور تین رکعات وتر کا ذکر ہے، نیز وتر کےلیے تین کے لفظ کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رکعت وتر کو اپنی سہولت کےلیے اختیار کر لیا ۔ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم آٹھ رکعات پڑھنے کے بعد سوجاتے ، پھر وتر پڑھتے تھے ، حالاں کہ ماہِ رمضان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے سارے حضرات نماز عشاء کے ساتھ تراویح پڑھنے کے فوراً بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ بخاری کی اس حدیث کے صرف آٹھ کے لفظ کو لے کر باقی تمام امور چھوڑ نا یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل کرنا نہیں ہوا ، حالانکہ بخاری میں ہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی دوسری حدیث ہے : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ و آلہ وسلم یُصَلِّی بِالَّیْلِ ثَلَاثَ عَشَرَةَ رَکْعَةً، ثُمَّ یُصَلِّیْ اِذَا سَمِعَ النِّدَاء بِالصُّبْحِ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ ۔ (باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر) ۔ یعنی اللہ کے رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم تہجد کی نماز تیرہ رکعات پڑھتے تھے اور جب فجر کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعات ادا کرتے (یعنی فجر کی سنت) ۔ غور فرمائیں کہ گیارہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں ہے اور تیرہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں اور دونوں حدیثیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ گیارہ رکعات والی حدیث میں سے لفظ آٹھ کو تو لے لیا اور تیرہ رکعات والی حدیث کو بالکل ہی چھوڑ دیا ، حالاں کہ تیرہ رکعات والی حدیث میں کان کالفظ استعمال کیا گیا ہے ، جو عربی زبان میں ماضی استمراری کےلیے ہے یعنی آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا تیرہ رکعات پڑھنے کا معمول تھا ۔ نمازِ تہجد اور نماز تراویح کو ایک کہنے والے حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں احادیث میں تطبیق دینے سے قاصر ہیں ۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی آٹھ رکعات والی حدیث میں تو چار چار رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے ، لیکن عمل دو دو رکعات پڑھنے کا ہے تو جواب میں دوسری حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس میں نماز تہجد کو دو دو رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث ہے جو بخاری ہی (کتاب الوتر) میں ہے : ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ اَوْتَرَ ۔ نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر نماز تہجد پہلے دو رکعات ادا کی ، پھر دو رکعات ادا کی ، پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی ، پھر دورکعات ادا کی ، پھر وتر پڑھے ۔ بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نمازِ وتر کے علاوہ دو دو رکعات کرکے تہجد کی کل بارہ رکعتیں ادا فرماتے ۔ آٹھ رکعات تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو ان احادیث میں تطبیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ غرضیکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پہلی حدیث سے آٹھ کا لفظ لیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے دو دو رکعات پڑھنے کو لیا تو نہ تو حضرت عائشہ کی حدیث پر عمل ہوا اور نہ حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث پرعمل ہوا ، بلکہ اپنے اسلاف کی تقلید ہوئی ، حالانکہ یہ تینوں احادیث صحیح بخاری کی ہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجد کو ایک قرار دینا ہی غلط ہے ، کیوں کہ اس کا ثبوت دلائل شرعیہ سے نہیں دیا جا سکتا ہے ۔ چاروں آئمہ میں سے کوئی بھی دونوں نمازوں کو ایک قرار دینے کا قائل نہیں ہے ۔ امام بخاری تو تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھا کرتے تھے ، امام بخاری تراویح باجماعت پڑھا کرتے تھے اور ہر رکعت میں بیس آیتیں پڑھا کرتے تھے اور پورے رمضان میں تراویح میں صرف ایک ختم کرتے تھے ، جب کہ تہجد کی نماز امام بخاری تنہا پڑھا کرتے تھے اور تہجد میں ہر تین رات میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے ۔ (امام بخاری کے اس عمل کی تفصیلات پڑھنے کےلیے صحیح بخاری کی سب سے مشہور و معروف شرح ”فتح الباری“ کے مقدمہ کا مطالعہ فرمائیں)

بس بات صحیح یہی ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں ، تہجد کی نماز تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے متعین ہوئی ہے ، سورہٴ المزمل کی ابتدائی آیات (یَااَیَّہَا الْمُزَمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلا ......) پڑھ لیں ۔ جب کہ تراویح کا عمل حضور اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے فرمان سے مشروع ہوا ہے ، جیساکہ آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے  : سَنَنْتُ لَہ قِیَامَہ ۔ (سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ،چشتی)

نوٹ : یاد رہے غیر مقلدین نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی پر ایک بھت بڑا الزام لگاتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے رمضان المبارک میں تہجد نہیں پڑھی حالانکہ تہجد نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم پر فرض تھی اور تراویح نفلی عبادت بھلا ان گستاخوں کو کون سمجھائے کہ اس طرح کے جاھلانہ فتوؤں سے تم نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو تارکِ فرض قرار دے رہے ہو اور یہ اتنی بڑی گستاخی ہے نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی کی کاش تمہارے ہی لوگوں کو سمجھ آجائے جو اندھے مقلد ہیں اپنی مساجد کے ملاّؤں کے اور خود کو غیر مقلد کہتے وہی تمہیں مساجد و بازاروں میں گھسیٹیں گے کہ نعوذ بااللہ تم نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو تارک فرض قرار دیتے ہو اور شرم پھر بھی نہیں آتی ؟
آخری میں ایک سوال اے گروہ آلِ نجد غیر مقلدین کیا نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم تہجد فرض چھوڑ دیتے تھے یا نفلی عبادت تراویح نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے نہیں پڑھی اس سوال کا جواب علمی دلائل سے دو ؟

اور ہاں تہجد اور تراویح نبی صلی الله علیہ و آلہ وسلم کےلیے کس حیثیت میں مانتے ہو ؟

بیس رکعت نماز تراویح کے منکرین سے کچھ سوالات

بر صغیر اور اس سے ملحقہ کچھ ممالک میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی کچھ شریر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے امت کو تقسیم کرنے میں پورا زور لگاتے ہیں ، ایمان تازہ کرنے اور نیکیوں کے اس موسم میں نت نئی خرابیوں کے علاوہ ایک اہم مسئلہ نماز تراویح کی رکعات کا ہے ۔ شروع سے ہی امت میں متفقہ طور پر بیس رکعات تراویح ادا کی جاتی رہیں مگر ہندوستان کے کچھ لوگوں نے ماضی قریب میں اسے بھی متنازعہ بنا دیا ۔ حرمین شریفین ، بلاد عرب ، شرق و غرب اور کرہ ارض پر موجود امتِ مسلمہ کی اکثریت بیس رکعات ادا کرتی ہے اور یہ جمہور کا مذہب ہے ۔ عوام الناس کے ذہنوں میں موجود غلط فہمی اور ان لوگوں کی جہالت کو روکنے کی نیت سے پہلے کچھ روایات مستند کتبِ حدیث سے پیشِ خدمت ہیں جو کہ بیس ترایح پر دلیل و ثبوت ہیں : ⬇

امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام سفیان ثوری، ابن مبارک رضی اللہ عنہم وغیرہ بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں : و اکثر اهل العلم علی ماروی عن علی و عمر غيرهما من اصحاب النبی صلی الله عليه وآله وسلم عشرين رکعت و هو قول سفيان الثوری، و ابن المبارک و الشافعی و قال الشافعی هکذا ادرکت ببلد مکتة يصلون عشرين رکعت ۔ (جامع ترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی قيام شهر رمضان،چشتی)
تجمہ : اکثر اہل علم کا عمل اس پر ہے جو حضرت علی و حضرت عمر و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ، بیس رکعت ۔ یہی حضرت سفیان ثوری ، ابن مبارک ، امام شافعی کا قول ہے ، امام شافعی علیہ الرحمہ نے فرمایا ، میں نے شہر مکہ میں یہی عمل پایا کہ لوگ بیس رکعت پڑھتے ہیں ۔

یہ روایت کس واضح اور روشن انداز میں بیان کر رہی ہے کہ امت کے جلیل القدر ائمہ کرام رضی اللہ عنہم متفقہ طور پر تراویح کی بیس رکعات کے قائل ہیں۔ اس روایت میں ائمہ اربعہ میں سے ایک امام سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کا نام شامل نہیں لیکن انہوں نے الگ سے احادیث شریف پر عظیم کتاب "موطا امام مالک" میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت نقل فرما کر اس فتنے کو لگام ڈال دی ۔

کنا نقوم فی عهد عمر بعشرين رکعت ۔ (مؤطا امام مالک)
ترجمہ : ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھتے تھے ۔

مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبد الرزاق میں امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حکم منقول ہے : یحی بن سعید کہتے ہیں کہ : ان عمر بن الخطاب امر رجلا ان يصلی بهم عشرين رکعة ۔ (مصنف ابن ابی شيبه، 1 : 393، مصنف عبد الرزاق، 1 : 262،چشتی)
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا ۔

قارئینِ کرام توجہ فرمائیے وہ لوگ جو آٹھ تراویح کا شور کرتے ہیں ان کے پاس کوئی ایک ضعیف حدیث بھی نہیں ہے جس میں صراحت ہو کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھو اور یہاں اللہ کے حبیب صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ جناب عمر رضی اللہ عنہ حکماً فرما رہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح پڑھو ۔

اس کے علاوہ تراویح کی بیس رکعات پر علماء کرام کی تصانیف اور تحقیقات کا ایک ذخیرہ موجود ہے ۔ یہاں فقیر چند سوالات درج کر رہا ہے ، جو لوگ آپ کے آس پاس میں آٹھ رکعات پڑھنے کے قائل ہیں ان سے یہ سوالات کیجیے  ان شاء اللہ حق واضح ہو جائے گا ۔ ⬇

1 ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ حرم مکہ اور حرم مدینہ میں کبھی آٹھ رکعات نماز تراویح با جماعت ادا کی گئی ہو ؟

2 ۔ شریعت اسلامیہ میں عمل کی ایک شرعی حیثیت ہوتی ہے ، عمل یا تو غلط ہوتا ہے یا درست ، اگر آپ کے نزدیک آٹھ تراویح درست ہیں تو حرمین شریفین میں آج بھی بیس رکعات با جماعت ادا کی جاتی ہیں ۔ آپ دونوں میں سے کون غلط ؟ حرمین شریفین والے یا آپ ؟

3 ۔ ملتِ اسلامیہ میں اس وقت تقریباً ستاون اسلامی ممالک ہیں ، کیا آپ بتا سکتے ہیں کسی ایک ملک میں سرکاری سطح پر آٹھ رکعات تروایح ادا کی جاتی ہیں ؟

4 ۔ تروایح کی رکعات میں ہند و پاک کے علماء پر ہی کیوں اعتراض ، آٹھ تراویح کی وکالت سعودی علماء کے سامنے کیوں نہیں کرتے ؟ اور سعودی عرب میں آٹھ تراویح پڑھانے کےلیے وہاں کے علماء پر کیوں زور نہیں دیتے ؟

5 ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیس تراویح کا حکم جاری فرمایا ، کیا آپ کوئی ایک ضعیف روایت بھی دکھا سکتے ہیں جس میں دورِ عمر رضی اللہ عنہ یا ان کے بعد کے ائمہ و مشائخ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم سے ذرہ برابر اختلاف کیا ہو ؟

6 ۔ اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے علماء و اسلاف اور قرنِ اولٰی کے ائمہ کو اختلاف نہیں تھا تو آپ کل کی پیداوار ہیں ، آپ کس بنیاد پر اختلاف کر رہے ہیں ؟

7 ۔ سعودی عرب میں حرمین شریفین اور تمام بڑی مساجد میں با جماعت بیس رکعات تروایح ادی کی جاتی ہیں ، ہندوستانی و پاکستانی غیر مقلد وہابی علماء وہاں موجود ہوتے ہیں ، جب آپ کے سامنے ایک غیر شرعی عمل ہو رہا ہوتا ہے تو آپ کلمہ حق کیوں بلند نہیں کرتے اور ان لوگوں کو بیس رکعات کی ادائیگی سے کیوں نہیں روکتے ؟

8 ۔ عالمِ اسلام کی عظیم درسگاہ جامعۃ الازہر کے مفتی ، علماء اور فضلاء بیس رکعات پڑھتے ہیں ، کیا آپ نے ہندوستان و پاکستان سے باہر نکل کر کبھی ان علماء کو بھی دعوتِ مناظرہ دی یا صرف ہند و پاک میں ہی فرقہ پرستی پھیلانا مقصود ہے ؟

9 ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں تراویح کا با جماعت عمل شروع کیا ، بیس رکعات بھی انہیں سے ثابت ، آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہزاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان حیات و موجود تھے ، کسی ایک صحابی نے بیس رکعات پر اعتراض نہیں کیا ، کسی ایک کتاب سے کوئی ایک اعتراض ثابت نہیں ۔۔۔ تو اب ہم اصحابِ رسول کے قول و فعل کا اعتبار کریں گے یا آپ کی تاویلات مبنی بر جہالت مانیں ؟

10 ۔ ہم سابقہ مضامین میں لکھ چکے اور مزید ثابت کرنے کو تیار ہیں کہ امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین اور مستند احادیثِ مبارکہ سے بیس رکعات ثابت ہیں اور یہی چاروں امام امت اسلامیہ کےلیے رہنماء ہیں ، حرمین شریفین میں بھی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کی جاتی ہے تو اس قدری وزنی دلائل اور ائمہ امت کے اقوال کی موجود گی میں کیا یہ ضرورت باقی رہتی ہے کہ ہم ہندوستان میں پیدا ہونے والی کسی مولوی کی بات پر یقین کر کے تراویح کی رکعات آٹھ مان لیں ؟

سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویحُ أکْثَرُ مِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النبوی) لک ھی ہے ۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح ہو رہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے ، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں ۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ، لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں ؛ تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہو جائے ۔ اس کتاب میں ۱۴۰۰ سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم لکھتے ہیں : اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں ؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو ؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ آٹھ (8) سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو ۔

11 ۔ سعودی عالمِ دین جو کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے امام و شیخ تھے ، انہوں نے آٹھ تروایح کو غلط سمجھا اور اس پر مکمل کتاب لکھ ڈالی اور کتاب بھی چیلنج سے بھر پور ۔ آٹھ تراویح پڑھنے والوں نے آج تک اس کتاب کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ آپ دونوں میں سے کون غلط ؟ امام مسجد نبوی یا آپ ؟

صبحِ قیامت تک ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہو گا ۔ فقیر کی گزارش ہے کہ تقسیم در تقسیم اس قوم پر رحم کیجیے اور امت کے متفقہ مسائل میں شرانگیزی نہ کیجیے ۔ اس قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اس لیے اگر آپ عملِ خیر نہیں کر سکتے تو ماہِ مقدس میں اپنی شرارتوں سے دوسروں کو اذیت بھی نہ دیجیے ۔ تمام قارئینِ کرام سے گزارش ہے کہ تروایح کی بیس رکعات مکمل ادا کیجیے ۔ اس سے کم نوافل ہو سکتے ہیں تراویح نہیں ہو گی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)