Tuesday, 4 August 2020

شیعہ عقیدہ حضرت علی رضی اللہ عنہ متعہ (یعنی زنا) کرتے تھے (استغفر اللہ)

شیعہ عقیدہ حضرت علی رضی اللہ عنہ متعہ (یعنی زنا) کرتے تھے (استغفر اللہ)

محترم قارئینِ کرام : شیعوں کا عالم کامل رئیس العلماء نعمت اللہ جزائری لکھتاہے :شیعوں کا حجۃ الاسلام غلام حسین نجفی لکھتا ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت عفرا رضی اللہ عنہا سے متعہ(یعنی زنا) کیا ۔(الانوار النعمانیہ الجزء الثانی صفحہ نمبر 279 مطبوعہ بیروت لبنان)


شیعوں کا حجۃ الاسلام غلام حسین نجفی لکھتا ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت عفرا رضی اللہ عنہا سے متعہ(یعنی زنا) کیا ۔ (قولِ مقبول صفحہ نمبر 395 غلام حسین نجفی ماڈل ٹاؤن لاہور)

کہاں ہیں صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم سے محبّت کا دعویٰ کرنے والے ؟

کیوں جناب پیرانِ عظام ، سجادہ نسینان ، ذیشان خطیب حضرات ، مفتیانِ کرام و نقیب حضرات یہ گستاخی نہیں ہے ؟

یہاں آپ کے قلم ، لب ، فتوے ، تقوے ، گھن گرج غریتِ ایمانی سب خاموش کیوں ؟

اس طرح کے عقائد رکھنے والوں کے خلاف آج تک کتنے مفتیوں نے ویڈیو بنا کر اپلوڈ کی ہیں اور کتنے مفتیوں کے فتوے جاری ہوئے ہیں ؟

اور کتنے پیروں کو اس پر درد ہوا تکلیف ہوئی اور انہوں نے ان گستاخیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور احتجاجی جلسے جلوس کیئے ؟

آخر ان مفتیوں اور پیروں اس طرح کے شیعوں کے غلیظ عقائد پر سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے کہاں ہیں مفتیانِ کرام ؟

کہاں ہیں پیرانِ عظام ؟

کہاں ہیں نقیبانِ محافل ؟

کہاں ہیں ذیشان خطیب حضرات ؟

یہاں آپ کی غیرتِ ایمانی کہاں دفن ہو گئی ؟

جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نکاح متعہ کے حرام قرار دیا

شیعہ کی کتابوں سے حوالہ پیشِ خدمت ہے اور تمام راوی بھی شیعہ امامی اثناعشری علماء کے مطابق ثقہ ہیں : محمد بن یحیی عن ابی جعفر عن ابی الجوزا عن الحسین بن علوان عن عمرو بن خالد عن زید بن علی عنآباۂ عن علی علیھم السلام قال حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ یوم خیبر لحوم الحمر الاھلیۃ ونکاح المتعۃ ۔
ترجمہ : امام زید بن علی نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خیبر کے دن پالتو گدھے کا گوشت اور نکاح متعہ کے حرام قرار دیا ۔ (محمد بن یحیی ثقہ ہے جامع الرواۃ ج ۲ ص ۳۱۲)۔(ابو جعفر ثقہ ہے المفید من معجم رجال الحدیث ص ۶۹۰)۔(ابوالجوزاء ثقہ ہے مشایخ الثقات ص ۸۶)۔(حسین بن علوان ثقہ ہے معجم رجال الحدیث ج ۷ ص ۳۴) ۔ (عمرو بن خالد ثقہ ہے معجم رجال الحدیث ج ۱۴، ص ۱۰۲)

امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : احمد بن محمد بن عیسی فی (نوادرہ) عن ابن ابی عمیر ، عن ھشام بن الحکم ، عن ابی عبد اللہ علیہ السلام فی المتعۃ قال : ما یفعلھا عندنا الا الفواجر ۔
ترجمہ : ہشام بن حکم نے امام جعفر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے متعہ کے بارے میں فرمایا : اس کو ہمارے ہاں سوائے فاجروں کے اور کوئی نہیں کرتا ۔
(وسائل الشیعہ ج ۱۴، ص ۴۵۶) ۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ (محمد بن یحیی ثقہ ہے جامع الرواۃ ج ۲ ص ۳۱۲)۔(ابو جعفر ثقہ ہے المفید من معجم رجال الحدیث ص ۶۹۰)۔(ابوالجوزاء ثقہ ہے مشایخ الثقات ص ۸۶)۔(حسین بن علوان ثقہ ہے معجم رجال الحدیث ج ۷ ص ۳۴) ۔ (عمرو بن خالد ثقہ ہے معجم رجال الحدیث ج ۱۴، ص ۱۰۲)

عن زید بن علی عن آبائہ علیھم السلام قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لحوم الحمر الاھلیۃ و نکاح المتعۃ ۔ (الا ستبصار ج2 ص 77،چشتی)
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پالتو گدھوں کو اور متعہ کو حرام فرمادیا ہے ۔
"استبصار" کے علاوہ امامیہ کی دوسری کتب صحاح میں بھی حرمت متعہ کی روایات موجود ہیں ۔ شیعہ حضرات ان کے جواب میں بے دھڑک کہہ دیتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسی روایت تقیۃً بیان فرمائی ہیں اور جان کے خوف سے تقیۃً بیان فرمائی ہیں اور جان کے خوف سے تقیۃً جھوٹ بولنا عین دین ہے ۔ کیونکہ "کافی کلینی" میں ہے : "من لا تقیۃ لہ لا دین لہ" جو ضرورت کے وقت تقیہ نہ کرے وہ بے دین ہے ۔ سوال یہ ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جب یزید کے خلاف آوازہ حق بلند کیا اور ہزار ہا مخالفوں کے سامنے تلواروں کے جھنکار اور تیر و تفنگ کی بوچھاڑ میں بیعت یزید سے انکار کیا تو کیا اس وقت امام حسین تعک تقیہ کی وجہ سے (معاذ اللہ) بے دین ہوگئے تھے ؟ اور اگر ایسے شدید ابتلاء میں بھی تقیہ نہ کرنا ہی حق و صواب تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بغیر کسی ابتلاء کے بے حساب روایات تقیۃً بیان کرنا کس طرح حق و ثواب ہوگا ؟ کاش ! شیعہ حضرات میں سے کوئی شخص اس نکتہ کو حل کرکے لاکھوں انسانوں کی ذہنی خلش کو دور کرسکے ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت فرماتے ہیں : عن علی بن ابی طالب ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن متعۃ النساء یوم خیبر ۔ (بخاری ج2 ص606)
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فتح خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے منع فرمادیا ۔

غزوہ خیبر کے بعد فتح مکہ کے موقعہ پر تین دن کے لیے متعہ پھر مباح ہوا ، اس کے بعد بی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے قیامت تک کے لیے متعہ کو منسوخ فرمادیا ، چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ میں روایت فرماتے ہیں : عن ابی سلمۃ قال رخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام او طاس فی المتعۃ ثلاثا ثم نھا عنھا و باسناد اخر قال یایھا الناس انی قد کنت اذنت لکم فی الاستمتاع من النساء وان اللہ قد حرم ذالک الی یوم القیامۃ ۔ (مسلم ج1 ص 451،چشتی)
ترجمہ : ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فتح مکہ کے موقعہ پر تین دن متعہ کرنے کی اجازت دی تھی ، پھر اس سے منع فرمادیا اور دوسری روایت میں ہے: اے لوگو! میں نے تمھیں پہلے عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالی نے قیامت تک کے لیے اس کو ممنوع فرمادیا ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : علماء کا اتفاق ہے کہ جنگ خیبر سے پہلے متعہ حلال تھا پھر جنگ خیبر کے موقع پر متعہ حرام کر دیا گیا ۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر تین دن کے لیے متعہ حلال کر دیا کیا گیا اور اس کے بعد اس کو دائما حرام قرار دیا گیا ۔

متعہ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حرام قرار نہیں دیا اور نہ ہی آپ کا یہ منصب تھا بلکہ آپ نے متعہ کی حرمت کو واضح کیا تھا۔ کسی بھی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ وطن میں متعہ کی اجازت دی گئی ہو۔ بلکہ جنگ کے ایام میں سخت گرمی کی وجہ سے اس کو حلال کیا گیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بغیر بیویوں کے ان سخت گرم علاقوں میں رہنا مشکل تھا۔ اس لیے مباح قرار دیا گیا تھالیکن اس کے بعد فتح مکہ کے موقع پر قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا گیا تھا ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ غزوہ تبوک میں گئے ہم تثنیۃ الوداع پر اترے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چراغوں کو دیکھا اور عورتوں کو روتے ہوئے دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ بتایا گیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جن سے متعہ کیا گیا تھا اور وہ رو رہی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ۔ نکاح ، طلاق ، عدت ، اور میراث نے متعہ کو حرام کر دیا ہے ۔ (مسند ابو يعلی، رقم الحديث: 6594)

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں سے متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کو حرام کر دیا ۔ (صحيح بخاری، حديث نمبر: 4216،چشتی)(صحيح مسلم، حديث نمبر: 1407)

قرآن و حدیث میں نکاح متعہ کا کہیں ذکر نہیں ملتا ۔ متعہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حرام قرار دے دیا ۔ لہٰذا اب اگر کوئی یہ کہے کہ متعہ حلال و جائز ہے یہ کلام اور ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۔ (سورہ النساء)
ترجمہ : جو عورتیں تم کو پسند ہیں ان سے نکاح کرو دو دو سے تین تین سے اور چار چار سے اور اگر تمہیں یہ خدشہ ہو کہ ان کے درمیان انصاف نہیں کر سکو گے تو صرف ایک نکاح کرو یا اپنی کنیزوں پر اکتفا کرو ۔

اللہ تعالی نے قضاء شہوت کی صرف دو جائز صورتیں بیان فرمائی ہیں ۔ ایک سے چار بیویوں تک نکاح کر سکتے ہیں یا پھر اپنی باندیوں سے نفسانی خواہش پوری کر سکتے ہیں اور بس ۔ اگر متعہ بھی قضاء شہوت کی جائز شکل ہوتا تو اللہ تعالی اس کا بھی ان دو صورتوں کے ساتھ ذکر فرماتا ۔ اس جگہ متعہ کا بیان نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جائز نہیں ۔ اوائل اسلام سے لےکر فتح مکہ تک متعہ کی جو شکل معمول اور مباح تھی اس آیت کے ذریعے اس کو منسوخ کر دیا گیا ۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ متعہ میں صرف عیاشی ہے اس میں نہ تو مرد پر عورت کے لیے نان و نفقہ ہوتا ہے اور نہ طلاق نہ عدت اور نہ وہ مرد کی وارث بنے گی ، یہ محض صرف عیاشی ہے اور عورت کی حفاظت و عزت صرف نکاح میں ہے ۔ فہمِ مستقیم کے لیے ان میں ہدایت ہے کہ متعہ کے حرام کرنے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو صرف اس حرمت کو نافذ کرنے والے ہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : ہماری اوپر کی گفتگو میں آپ نے بارہا "متعہ" کے بدلے لفظ "زنا" کا استعمال دیکھا اور پڑھا ہے ... ایک سوال شاید آپ کے ذہن میں انگڑائیاں لے رہا ہو کہ ہم نے آخر ایسا کیوں کیا ... تو آیئے آپ کے اس سوال کا جواب بھی دے دیتے ہیں :

(1) زنا میں زانیہ کو اجرت دی جاتی ہے اور کبھی کبھی زانیہ زانی کو اجرت دیتی ہے ۔

(2) زنا کے لئے وقت بھی متعین کیا جاتا ہے کہ کب سے کب تک ۔

(3) زنا میں تنہائی ضروری ہوتی ہے ۔

(4) زنا میں عورتوں کی قید نہیں ہے، جتنی عورتوں سے چاہو زنا کر لو ۔

(5) زنا صرف جنسی لذت کے لئے ہوتا ہے ۔

(6) زنا میں مقررہ وقت کے بعد جب جدائی ہوتی ہے تو کوئی طلاق و خلع کی بات نہیں ہوتی ۔

(7) زانیہ وارث نہیں بن سکتی ۔

(8) زانی کے ذمے زانیہ کا نان و نفقہ بھی نہیں ہوتا ہے ۔

اوپر کی عبارت پڑھنے کے بعد اب آپ ہر جملے سے لفظ "زنا" نکال دیں اور اس کی جگہ "متعہ" کا لفظ رکھ دیں اور پھر پوری عبارت پڑھیں ، دونوں میں ذرا بھی فرق آپ کو نہیں ملے گا ، ہاں بس ایک ہی چیز کا فرق ہوگا کہ اِسے "زنا" کہا جاتا ہے اور اُسے "متعہ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ... اب اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی پڑھ لیں ... "وَلَا تَقرَبُوا الزِّنَا اِنَّهُ کَانَ فَاحِشَةً" ، یعنی زنا کے قریب بھی نہ جانا کیونکہ یہ بہت ہی بری اور فحش چیز ہے ... (سورہ بنی اسرائیل 32)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...