Thursday 27 August 2020

احترام و خدمتِ ساداتِ کرام کے انعامات

0 comments
احترام و خدمتِ ساداتِ کرام کے انعامات
محترم قارئینِ کرام : یقین جانیئے فقیر درِ اہلبیت رضی اللہ عنہم ڈاکٹر فیض احمد چشتی کو ان واقعات نے کئی بار رولایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اصلی سادات جو نمود و نمائش سے دور رہتے ہیں کا احترام و خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔

ایک سیّد زادی کا دل کو ہلا دینے والا واقعہ

عراق میں ایک سید گھرانہ تھا گھر میں ایک سید زادی اور اس کے بچے تھے خاوند کا انتقال ہوچکا تھا سید زادی بچو کو ساتھ لئے روزی اور پناہ کی تلاش میں عراق سے ثمر قند آگئی ثمر قند آ کر سید زادی نے لوگوں سے دریافت کیا کہ شہر میں کون زیادہ سخی ہے جو ہم کو پناہ دے دیں لوگو نے بتایا کے شہر میں دو ہی سخی ہیں ایک حاکم وقت جو مسلمان ہے دوسرا پادری ہے جو آگ کی عبادت کرتا ہے ۔ سید زادی نے سوچا کے پادری تو مسلمان نہیں وہ کیا پناہ دے گا حاکم کے پاس چلتے ہیں سید زادی بچوں کو لے کر مسلمان حاکم کے پاس آئی اور کہنے لگی میں آل رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہوں میرے خاوند کا انتقال ہوگیا ہے میں بے بس ہوں مجھے پناہ چاہئیے حاکم وقت نے جواب دیا تہمارے پاس کوئی ثبوت کوئی سند ہے کہ تم آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہو آج کل ہر کوئی کہتا ہے کے میں سید ہوں ؟ سید زادی نے جواب دیا میرے پاس تو کچھ بھی نہیں آپ کو دیکھانے کے لئے ۔ حاکم وقت بولا میرے پاس کوئی پناہ نہیں ایرے غیرے کے لئے جواب ملنے پر سید زادی پادری کے دروازے پے آئی ۔ سید زادی نے بتایا کے میں سید زادی ہو آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوں ۔ میرا خاوند انتقال کر گیا ہے میرے ساتھ میرے بچے بھی ہے مجھے پناہ چاہئیے ۔ پادری نے اپنی بیوی کو آواز دی ان کو عزت کے ساتھ گھر لے آؤ ۔ پادری نے سید زادی اور اسکے بچو کو کھانا کھلایا رہنے کہ لئے چھت دی ۔ آدھی رات ہوئی حاکم وقت جب سو گیا تو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایک سونے کے محل کے سامنے تشریف فرما دیکھا ۔ حاکم وقت نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ کس کا محل ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا یہ ایک ایمان والے کا گھر ہے حاکم وقت کہنے لگا میں بھی ایمان والا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تیرے پاس ایمان کا کوئی ثبوت کوئی سند ہے تو دکھا دو ۔ حاکم وقت کانپنے لگا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا میری بیٹی تیرے پاس آئی تو نے اسے سند مانگی دور ہوجا میری نظروں سے ۔ حاکم وقت جب بیدار ہوا اپنے بال نوچنے لگا پچھتانے لگا جلدی سے ننگے سر پاوں پادری کے گھر پر آدھی رات کو دستک دی ۔ پادری جب باہر آیا حاکم وقت کہنے لگا تو وہ مہمان مجھے دے دیں ۔ میں تجھے تین سو دینار دیتا ہوں پادری نے کہا تم مجھے ساری دنیا کی دولت بھی دو تب بھی نہیں ۔ اور جو تم خواب دیکھ کر آئے وہی خواب میں نے بھی دیکھا ہے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اپنی نظروں سے دور کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے میری بیٹی کو سر ڈھانپنے کے لیے جگہ دی اور کھانا کھلایا آج میں نے تمہیں اور تمہارے خاندان کو بخش دیا ۔ میرا سارا خاندان کلمہ پر ایمان لا چکا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا اے پادری تم نے میری بیٹی کو پناہ دی ۔ جا تہمارا سارا خاندان جنتی ہے ۔ پادری نے حاکم وقت سے کہا ۔ جا چلا جا دیکھے ہوئے اور اندیکھے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ میں نے بند آنکھوں کا سودا کیا ۔ (خطبات محرم مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)

ایک بوسیدہ کپڑوں میں ملوث سید زادی چاقو سے خچر گوشت کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر ایک زنبیل میں رکھ رہی تھی

ربیع بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں حج کے لیے جا رہا تھا، میرے ساتھ میرے ساتھی بھی تھے… جب ھم کوفہ پہنچے ، تو وہاں ضروریاتِ سفر خریدنے کے لیے بازاروں میں گھوم رہا تھا کہ دیکھا… ایک ویران سی جگہ میں ایک خچر مرا ہوا تھا اور ایک عورت جس کے کپڑے بہت پرانے بوسیدہ سے تھے، چاقو لیے ہوئے اُس کے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر ایک زنبیل میں رکھ رہی تھی… مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ مردار گوشت لے جا رہی ہے، اس پر سکوت ہر گز نہیں کرنا چاہیے، شاید یہ عورت لوگوں کو یہ ہی پکا کر کھلاتی ہو… سو میں چپکے سے اس کے پیچھے ہو لیا، اس طرح کہ وہ مجھے نہ دیکھے… وہ عورت ایک بڑے مکان میں پہنچی جس کا دروازہ بھی اونچا تھا… اس نے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے آواز آئی کون ہے…؟ اس نے کہا کھولو، میں بد حال ہوں، دروازہ کھولا گیا اور گھر میں چار لڑکیاں نظر آئیں، جن کے چہرے سے بد حالی اور مصیبت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے، وہ عورت اندر آ گئی اور زنبیل اُن لڑکیوں کے سامنے رکھ دی…میں کواڑوں کی درزوں سے جھانک رہا تھا، میں نے دیکھا اندر سے گھر بلکہ برباد اور خالی تھا…اُس عورت نے روتے ہوئے لڑکیوں سے کہا :” اِس کو پکا لو اور اللہ کا شکر ادا کرو “وہ لڑکیاں گوشت کاٹ کاٹ کر اُس کو آگ پر بھوننے لگیں… مجھے بہت تکلیف ہوئی…میں نے باہر سے آواز دی… اے اللہ کی بندی! اللہ کے واسطے اِس کو نہ کھا… وہ کہنے لگی تُو کون ہے…؟ میں نے کہا : میں ایک پردیسی آدمی ہوں…! اُس نے جواب دیا : تُو ھم سے کیا چاہتا ہے… ؟ 3 سال سے نہ ھمارا کوئی معین اور نہ کوئی مدد گار ہے، تو کیا چاہتا ہے … ؟“میں نے کہا : مجوسیوں کے ایک فرقہ کے سِوا مردار کا کھانا کسی مزہب میں جائز نہیں…! وہ کہنے لگی : ” ھم خاندانِ نبوت کے شریف (سید) ہیں… اِن لڑکیوں کا باپ بڑا شریف آدمی تھا، وہ اپنے ہی جیسوں سے اِن کا نکاح کرنا چاہتا تھا… لیکن نوبت نہ آئی، اُس کا انتقال ہو گیا، جو ترکہ اس نے چھوڑا تھا ، وہ سب ختم ہو گیا… ھمیں معلوم ہے کہ مردار کھانا جائز نہیں، لیکن اضطرار میں جائز ہوتا ہے… ھمارا چار دن کا فاقہ ہے… “ربیع کہتے ہیں … اس کے حالات سُن کر میں بے چین ہو گیا اور اپنے ساتھیوں سے آکر کہا :” میرا تو حج کا ارادہ نہیں رہا “ سب نے سمجھایا، لیکن میں نے کسی کی نہیں سنی… میں نے اپنے کپڑے اور احرام کی چادریں اور جو سامان میرے ساتھ تھا، وہ سب لیا اور نقد چھ سو درم تھے وہ لیے اور ان میں سے سو درم کا آٹا خریدا اور باقی درم آٹے میں چُھپا کر اُس بڑھیا کے گھر پہنچا اور یہ سب سامان اور آٹا وغیرا اس کو دے دیا…” اس نے شکریہ ادا کیا اور کہنے لگی … اے ابنِ سلیمان! اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ معاف کرے اور تجھے حج کا ثواب عطا کرے اور اپنی جنت میں تجھے جگہ عطا فرمائے اور ایسا بدل عطا فرمائے جو تجھے بھی ظاھر ہو جائے… “ربیع کہتے ہیں… حج کا قافلہ روانہ ہو گیا، میں اُن کے استقبال کے لیے کوفہ ہی رُکا رہا تا کہ اُن سے اپنے لیے دعا بھی کرواؤں … جب حجاج کا ایک قافلہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزرا تو مجھے اپنے حج سے محروم رہ جانے پر بہت افسوس ہوا اور رنج سے میرے آنسو نکل آئے … جب میں اُن سے ملا تو میں نے کہا…” اللہ تعالٰی تمہارا حج قبول کرے اور تمہارے اخراجات کا تمہیں بدلہ عطا فرمائے… “اُن میں سے ایک نے کہا کہ یہ کیسی دُعا ہے …؟ میں نے کہا : اُس شخص کی دعا جو دروازہ تک کی حاضری سے محروم ہو… وہ کہنے لگے بڑے تعجب کی بات ہے، اب تُو اِس سے بھی انکار کرتا ہے کہ تُو ہمارے ساتھ عرفات کے میدان میں نہ تھا…؟ تُو نے ھمارے ساتھ رمی جمرات نہیں کی…؟ تُو نے ہمارے ساتھ طواف نہیں کیے…؟ میں اپنے دل میں سوچنے لگا : یہ اللہ کا لُطف ہے… اتنے میں میرے شہر کے حاجیوں کا قافلہ آ گیا … میں نے کہا : اللہ تعالٰی تمہاری سعی مشکور فرمائے، تمہارا حج قبول فرمائے… وہ بھی کہنے لگے : تُو ہمارے ساتھ عرفات میں نہیں تھا…؟ رمی جمرات نہیں کی تُو نے ہمارے ساتھ…؟ اب تو انکار کر رہا ہے… اُن میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور کہنے لگا : بھائی انکار کیوں کرتے ہو…؟ تم ہمارے ساتھ مکہ میں نہیں تھے یا مدینہ میں نہیں تھے…؟ جب ھم قبر اطہر کی زیارت کر کے بابِ جبرئیل سے باہر کو آ رہے تھے، اُس وقت اژدھام کی کثرت کی وجہ سے تم نے یہ تھیلی میرے پاس امانت رکھوائی تھی…” جس کی مہر پر لکھا ہوا ہے… مَن عَاملَنَا رَبَحَ (جو ہم سے معاملہ کرتا ہے، نفع کماتا ہے) “ اس نے کہا یہ لو اپنی تھیلی واپس… ربیع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، میں نے اُس تھیلی کو کبھی اس سے پہلے دیکھا بھی نہ تھا… اس کو لے کر میں گھر واپس آیا، عشاء کی نماز پڑھی… اپنا وظیفہ پورا کیا… اِسی سوچ میں جاگتا رہا کہ آخر یہ قصہ کیا ہے…؟ اِسی کشمکش میں آنکھ لگ گئی، تو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خواب میں زیارت کی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا…” اے ربیع! آخر ھم کتنے گواہ اِس پر قائم کریں کہ تُو نے حج کیا ہے…؟ تُو مانتا ہی نہیں، بات یہ ہے کہ جب تُو نے اُس عورت پر جو میری اولاد میں سے تھی، خرچ کیا اور اپنا حج کا ارادہ ملتوی کیا، تو اللہ نے اس کا نعم البدل تجھے عطا فرمایا…” اللہ نے ایک فرشتہ تیری صورت بنا کر، اُس کو حکم دیا کہ وہ قیامت تک ہر سال تیری طرف سے حج کیا کرے اور دنیا میں تجھے یہ عوض دیا کہ چھ سو درم کے بدلے چھ سو دینار (اشرفیاں) عطاء کیں… “ربیع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، جب میں سو کر اٹھا تو اس تھیلی کو کھول کر دیکھا تو اس میں چھ سو اشرفیاں موجود تھیں ۔ (رفیق الحرمین صفحہ نمبر ۲۸۷ تا ۲۹۲،چشتی)

احترامِ اہلبیت رضی اللہ عنہم اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ

جُنید بَغْدادی رحمۃ اللہ علیہ (شروع میں) خلیفہ بغداد کے درباری پہلوان اور پوری مُملکت کی شان تھے ۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا کہ چوبدار نے اطلاع دی کہ صحن کے دروازے پر صبح سے ایک لاغَر و نیم جان شخص برابر اِصرار کررہا ہے کہ میرا چیلنج جُنید رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا دو ، میں اس سے کُشتی لڑنا چاہتا ہوں ۔ لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی مگر خلیفہ نے درباریوں سے باہمی مشورہ کے بعد کُشتی کے مقابلے کیلئے تاریخ و جگہ مُتَعَیَّن کردی ۔
انوکھی کشتی مقابلے کی تاریخ آتے ہی بَغداد کا سب سے وسیع میدان لاکھوں تماشائیوں سے کھچا کھچ بھر گیا ۔ اعلان ہوتے ہی حضرت جُنید بَغْدادی رحمۃ اللہ علیہ تیار ہوکر اَکھاڑے میں اُتر گئے ۔ وہ اجنبی بھی کمر کَس کر ایک کنارے کھڑا ہوگیا ۔ لاکھوں تماشائیوں کیلئے یہ بڑا ہی حیرت انگیز منظر تھا ،ایک طرف شُہرت یافتہ پہلوان اور دوسری طرف کمزور و نَحیف شخص ۔
حضرت جُنید رحمۃ اللہ علیہ نے جیسے ہی خَم ٹھونک کر زور آزمائی کیلئے پنجہ بڑھایا تو اجنبی شخص نے دبی زبان سے کہا ۔ (چشتی)
کان قریب لائیے مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے ۔
نہ جانے اس آواز میں کیا سِحر تھا کہ سنتے ہی حضرت جُنید رحمۃ اللہ علیہ پر ایک سکتہ طاری ہوگیا ۔ کان قریب کرتے ہوئے کہا ، فرمائیے !
اجنبی کی آواز گلوگیر ہوگئی ۔ بڑی مشکل سے اتنی بات منہ سے نکل سکی ۔ جُنید ! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں ۔ زمانے کا ستایا ہوا ایک آلِ رسول ہوں ، سَیِّدہ فاطِمہ رضی اللہ عنہا کا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتے سے جنگل میں پڑا ہوا فاقوں سے نیم جان ہے ۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھوک کی شدت سے بے حال ہوگئے ہیں ۔ ہر روز صبح کو یہ کہہ کر شہر آتا ہوں کہ شام تک کوئی انتظام کر کے واپس لوٹوں گا لیکن خاندانی غیر ت کسی کے آگے منہ نہیں کھولنے دیتی ۔ شرْم سے بھیک مانگنے کیلئے ہاتھ نہیں اٹھتے ۔ میں نے تمہیں صرف اس امید پر چیلنج دیا تھا کہ آلِ رسول کی جو عقیدت تمہارے دل میں ہے ۔ آج اس کی آبرو رکھ لو۔ وعدہ کرتا ہوں کہ کل میدانِ قِیامت میں ناناجان صلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے کہہ کر تمہارے سر پر فتح کی دستار بندھواؤں گا ۔
اجنبی شخص کے یہ چند جملے نِشتَرکی طرح حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ کے جِگَر میں پَیوست ہوگئے پلکیں آنسوؤں کے طوفان سے بوجَھل ہوگئیں ، عالم گیر شُہرت و نامُوس کی پامالی کیلئے دل کی پیشکش میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہوئی ۔
بڑی مشکل سے حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ نے جذبات کی طُغیانی پر قابو حاصل کرتے ہوئے کہا کِشْوَرِ عقیدت کے تاجدار ! میری عزت و نامُوس کا اس سے بہترین مَصْرَف اور کیا ہوسکتا ہے کہ اسے تمہارے قدموں کی اُڑتی ہوئی خاک پر نثار کر دوں ۔
اتنا کہنے کے بعد حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ خَم ٹھونک کر للکارتے ہوئے آگے بڑھے اور سچ مُچ کُشتی لڑنے کے انداز میں تھوڑی دیر پینتر ا بدلتے رہے ۔ لیکن دوسرے ہی لمحے میں حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ چاروں شانے چِت تھے اور سینے پر سَیِّدہ فاطِمہ زَہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک نحیف و ناتُواں شہزادہ فتح کا پرچم لہرا رہا تھا ۔
ایک لمحے کیلئے سارے مجمع پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی ۔ حیرت کا طِلِسْم ٹوٹتے ہی مجمع نے نحیف و ناتُواں سَیِّد کو گود میں اٹھا لیا ۔ اور ہر طرف سے انعام و اِکرام کی بارش ہورہی تھی۔ رات ہونے سے پہلے پہلے ایک گمنام سَیِّد خلعت و انعامات کا بیش بہا ذخیرہ لیکر جنگل میں اپنی پناہ گاہ کی طرف لوٹ چکا تھا ۔
حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ اکھاڑے میں چت لیٹے ہوئے تھے ۔ ا ب کسی کو کوئی ہمدردی ان کی ذات سے نہیں رہ گئی تھی ۔ آج کی شکست کی ذلتوں کا سُرُور ان کی روح پر ایک خمار کی طرح چھا گیا تھا ۔
عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ جب اپنے بستر پر لیٹے تو بار بار کان میں یہ الفاظ گونج رہے تھے ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ کل قِیامت میں نانا جان سے کہہ کر تمہارے سر پر فتح کی دستار بندھواؤں گا ۔
دستارِ ولایت کیا سَچ مُچ ایسا ہوسکتا ہے ؟ کیا میری قسمت کا ستارہ یک بیک اتنی بلندی پر پہنچ جائیگا کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نورانی ہاتھوں کی بَرَکتیں میری پیشانی کو چُھولیں ۔ اپنی طرف دیکھتا ہوں تو کسی طرح اپنے آپ کو اس اعزاز کے قابل نہیں پاتا ۔ آہ ! اب جب تک زندہ رہوں گا قِیامت کیلئے ایک ایک دن گننا پڑیگا ۔
یہ سوچتے سوچتے حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ کی جیسے ہی آنکھ لگی ۔ سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ۔ سامنے شہدسے بھی میٹھے میٹھے آقا مسکَراتے ہوئے تشریف لے آئے ۔ لب ہائے مبارَکہ کو جُنبِش ہوئی ، رَحمت کے پھول جھڑنے لگے ۔ الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے : جُنید اٹھو ، قِیامت سے پہلے اپنے نصیبے کی سرفرازیوں کا نظارہ کرلو ۔ نبی زادوں کے نامُوس کیلئے شکست کی ذلتوں کا انعام قِیامت تک قرض نہیں رکھا جائیگا۔سر اٹھاؤ ، تمہارے لئے فتح و کرامت کی دَستار لیکر آیاہوں ۔ آج سے تمہیں عرفان و تَقَرُّب کی سب سے اونچی بِساط پر فائز کیا گیا ۔ بارگاہ ِیَزدانی سے گروہِ اولیاء کی سَروَرِی کا اعزاز تمہیں مبارَک ہو ۔
ان کَلِمات سے سرفراز فرمانے کے بعد سرکارِ مدینہ ، سرورِ قلب و سینہ ، فیض گنجینہ ، صاحبِ معطر پسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت جُنید بَغْدادی رحمۃ اللہ علیہ کو سینے سے لگالیا۔ اس عالمِ کیف بار میں اپنے شہزادوں کے جاں نثار پر وانے کو کیا عطافرمایا اس کی تفصیل نہیں معلوم ہوسکی ۔ جاننے والے بس اتناہی جان سکے کہ صبح کو جب حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھ کھلی تو پیشانی کی موجوں میں نور کی کرن لہرارہی تھی ۔ سارے بغداد میں آپ کی ولایت کی دھوم مچ چکی تھی ، خواب کی بات بادِصبا نے گھر گھر پہنچادی تھی ، کل کی شام جو پائے حِقارت سے ٹھکرا دیا گیا تھا آج صبح کو اس کی راہ گزر میں پلکیں بچھی جارہیں تھیں ۔ ایک ہی رات میں سارا عالم زِیر وزَبر ہوگیا تھا ۔ طلوعِ سَحر سے پہلے ہی حضرتِ جُنید بَغْدادی رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر درویشوں کی بھیڑ جمع ہوگئی تھی ۔ جونہی آپ رحمۃ اللہ علیہ باہر تشریف لائے خراج عقیدت کیلئے ہزاروں گردنیں جھک گئیں ۔ خلیفہ بغداد نے اپنے سر کا تاج اتار کر قدموں میں ڈال دیا ۔ سارا شہر حیرت و پشیمانی کے عالم میں سرجھکائے کھڑا تھا ۔ حضرت جُنید بَغْدادی رحمۃ اللہ علیہ نے مسکَراتے ہوئے ایک بار نظر اٹھائی اورسامنے موجود عاشقانِ رسول کے ہیبت سے لرزتے ہوئے دلوں کو سُکون بخش دیا ۔ پاس ہی کسی گوشے سے آواز آئی گروہِ اَولیاء رحمہم اللہ کی سَروَری کا اعزاز مبارَک ہو ، منہ پھیر کر دیکھا تو وہی نَحیف و نزار آلِ رسول فرطِ خوشی سے مسکَرارہا تھا ۔ آلِ رسول کے اَدَب کی بَرَکت نے ایک پہلوان کولمحوں میں آسمانِ ولایت کا چاند بنادیا ۔ ساری فضا سَیِّدالطائفہ کی مبارَک باد سے گونج اٹھی ۔ (زلف زنجیر مع لالہ زار ، انعام شکست ، ص ۶۲ تا ۷۲،چشتی)،(محزن اخلاق صصفحہ نمبر 441)

امام اہلسنت مجدد مائتہ حاضرہ والمستمرہ امام احمد رضا خان رضی اللہ کا احترام سادات کے متعلق ایک اہم فتویٰ

مسئلہ ۱۸۰ تا ۱۸۳: از کلکتہ امر تلا لین ۲۶ گدی دیوان رحمت اللہ مرسلہ حاجی پیر محمد ۳ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ جو لوگ سیدوں کو کلمات بے ادبانہ کہا کرتے ہیں اور ان کے مراتب کو خیا ل نہیں کرتے بلکہ کلمہ تحقیر آمیز کہہ بیٹھتے ہیں ان کا کیاحکم ہے ؟
الجواب : سادات کرام کی تعظیم فرض ہے۔ اور ان کی توہین حرام بلکہ علمائے کرام نے ارشاد فرمایا جو کسی عالم کو مولویا یاکسی کو میروا بروجہ تحقیر کہے کافر ہے ۔
مجمع الانہر میں ہے : الاستخفاف بالاشراف والعلماء کفر ومن قال لعالم عویلم اولعلوی علیوی قاصدا بہ الاستخفاف کفر ۔ (۱؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر باب المرتد ثم ان الفاظ الکفر الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۶۹۵)
سادات کرام اور علماء کی تحقیر کفر ہے جس نے عالم کی تصغیر کرکے عویلم یا علوی کو علیوی تحقیر کی نیت سے کہا تو کفر کیا ۔ (ت)

بیہقی امیرا لمومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ سے اور ابوالشیخ و دیلمی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : من لم یعرف حتی عترتی والانصار والعرب فھو لاحدی ثلاث اما منافقا واما لزنیۃ واما لغیر طھور ۔ (شعب الایمان حدیث ۱۶۱۴ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۲۳۲) ۔ ھذا لفظ البیھقی من حدیث زید بن جبیر عن داؤد بن الحصین عن ابن ابی رافع عن ابیہ عن علی رضی اﷲ تعالی عنہ ولفظ غیرہ امامنا فق واما ولد زنیۃ واماامرء حملت بہ امہ فی غیر طہر ۔ (الفردوس بما ثور الخطاب حدیث ۵۹۵۵ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳/ ۶۲۶)
جو میری اولاد اور انصار اور عرب کا حق نہ پہچانے وہ تین علتوں سے خالی نہیں۔ یا تومنافق ہے یا حرامی یا حیضی بچہ۔ (یہ بیہقی کے الفاظ زیدبن جبیر نے اپنے والد کے حوالہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کئے دوسروں کے الفاظ یوں ہیں۔ یا منافق ، ولدزنا یا اس کی ماں نے ناپاکی کی حالت میں اس کا حمل لیا۔ ت)

بلکہ علماء وانصار وعرب سے تو وہ مراد ہیں جو گمراہ بددین نہ ہوں اور سادات کرام کی تعظیم ہمیشہ جب تک ان کی بد مذہبی حد کفر کو نہ پہنچے کہ اس کے بعدوہ سیدہی نہیں نسب منقطع ہے۔قال اﷲ تعالی انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح ۔ (القرآن الکریم ۱۱/ ۴۶)
اللہ تعالی نے فرمایا: (اے نوح (علیہ السلام)! وہ تیرا بیٹا (کنعان) تیرے گھروالوں میں سے نہیں اس لئے کہ اس کے کام اچھے نہیں ۔ (ت)

جیسے نیچری ، قادیانی، وہابی غیر مقلد، دیوبندی اگر چہ سید مشہور ہوں نہ سید ہیں نہ ان کی تعظیم حلال بلکہ توہین وتکفیر فرض، اور روافض کے یہاں تو سیادت بہت آسان ہے کسی قوم کا رافضی ہوجائے، دودن بعد میر صاحب ہوجائے گا، ان کا بھی وہی حال ہے۔ کہ ان فرقوں کی طرح تبرائیان زمانہ بھی عموما مرتدین ہیں۔ والعیاذ باللہ تعالی ۔

اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ فقیر ذلیل بحمدہ تعالٰی حضرات ساداتِ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا ادنٰی غلام وخاکپاہے ۔ ان کی محبت و عظمت ذریعہ نجات وشفاعت جانتا ہے،اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سیّد اگربدمذہب بھی ہوجائے تو اس کی تعظیم نہیں جاتی ، جب تک بدمذہب حدِ کفر تک نہ پہنچے ، ہاں بعدِ کفر سیادت ہی نہیں رہتی ، پھر اس کی تعظیم حرام ہوجاتی ہے۔ اور یہ بھی فقیر بار ہا فتوٰی دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں ، جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔ اور خوا ہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا مطعون کرنا ہرگز جائے نہیں ۔ “ الناس امنأعلی انسابھم (لوگ اپنے نسب پرامین ہیں) ، ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہوکہ یہ سیّد نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہوگا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مطلع کردیا جائے ۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیّد سے الجھا ، انہوں نے فرمایا میں سیّد ہوں کہا ۔ کیا سند ہے تمہارے سیّد ہونے کی ۔ رات کو زیارتِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ شفاعت خواہ ہوا،اعراض فرمایا : اس نے عرض کی : میں بھی حضور کا امتی ہوں۔ فرمایا : کیاسند ہے تیرے امتی ہونے کی ۔ (فتویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 29،چشتی)

امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ اور ادب و محبت ساداتِ کرام رضی اللہ عنہم

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو ساداتِ کرام سے بے حد عقیدت ومحبت تھی اور یہ عقیدت و محبت صرف زبانی کلامی نہ تھی بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے ساداتِ کرام سے محبت فرماتے اور اگر کبھی لاشعوری میں کوئی تقصیر واقع ہو جاتی تو ایسے انوکھے طریقے سے اس کا اِزالہ فرماتےکہ دیکھنے سننے والے وَرْطَۂ حیرت میں ڈوب جاتے چنانچہ اِس ضمن میں ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے : بریلی شریف کے کسی محلہ میں امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ مدعو تھے ۔ اِرادت مندوں نے اپنے یہاں لانے کے لئے پالکی کا اِہتمام کیا ۔ چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سُوار ہو گئے اور چار مزدور پالکی کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر چل دیئے ۔ ابھی تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ یکایک امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے پالکی میں سے آواز دی: ”پالکی روک دو ۔ “پالکی رُک گئی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فوراً باہر تشریف لائے اور بھرّائی ہوئی آواز میں مزدورو ں سے فرمایا : سچ سچ بتائیں آپ میں سیِّد زادہ کون ہے ؟ کیونکہ میرا ذَوقِ ایمان سرورِ دوجہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خُوشبو محسوس کر رہا ہے ۔ ایک مزدور نے آگے بڑھ کر عرض کی : حُضُور! مَیں سیِّد ہوں ۔ ابھی اس کی بات مکمّل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ عالمِ اِسلام کے مقتدر پیشوا اور اپنے وقت کے عظیم مجدِّد اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا عِمامہ شریف اس سیِّد زادے کے قدموں میں رکھ دیا ۔ امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں سے ٹَپ ٹَپ آنسو گر رہے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر اِلتِجا کر رہے ہیں ،معزز شہزادے ! میری گستاخی مُعاف کر دیجئے،بے خیالی میں مجھ سے بھول ہوگئی ، ہائے غضب ہو گیا ! جن کی نعلِ پاک میرے سر کا تاجِ عزّت ہے، اُن کے کاندھے پر میں نے سُواری کی ، اگر بروزِقیامت نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھ لیا کہ احمد رَضا ! کیا میرے فرزند کا دوشِ ناز نین اس لئے تھا کہ وہ تیر ی سُواری کا بوجھ اُٹھائے تو میں کیا جواب دو ں گا ! اُس وقت میدانِ مَحشرمیں میرے ناموسِ عشق کی کتنی زبردست رُسوائی ہوگی ۔ کئی بار زَبان سے مُعاف کر دینے کا اِقرار کروا لینے کے بعد امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے آخِری اِلتجائے شوق پیش کی،محترم شہزادے ! اس لاشُعوری میں ہونے والی خطا کا کفّارہ جبھی اَدا ہوگا کہ اب آپ پالکی میں سُوار ہوں گے اور میں پالکی کو کاندھا دوں گا ۔ اِس اِلتجاپر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بعض کی تو چیخیں بھی بُلند ہوگئیں ۔ ہزار اِنکار کے بعد آخرِکا ر مزدو ر شہزادے کو پالکی میں سُوار ہونا ہی پڑا ۔ یہ منظر کس قدر دِل سوز ہے ، اہلسنّت کا جلیلُ الْقَدْر امام مزدوروں میں شامل ہو کر اپنی خداداد عِلمیّت اور عالمگیر شُہرت کا سارا اِعزاز خوشنودیٔ محبوب کی خاطر ایک گُمنام مزدور شہزادے کے قدموں پر نثار کر رہا ہے ۔ (اَنوارِرضا ،ص٤١٥،زلف و زنجیر ،چشتی)

اِمامِ اَہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں سوال ہوا کہ ” سید کے لڑکے سے جب شاگر ہو یا ملازم ہو دینی یا دنیاوی خدمت لینا اور اس کو مارنا جائز ہے یانہیں ؟ توآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے جواباً ارشاد فرمایا : ذلیل خدمت اس سے لینا جائز نہیں ۔ نہ ایسی خدمت پر اسے ملازم رکھنا جائز اور جس خدمت میں ذِلَّت نہیں اس پر ملازم رکھ سکتاہے ۔ بحالِ شاگرد بھی جہاں تک عُرف اورمعروف ہو(خدمت لینا) شرعاً جائز ہے لے سکتا ہے اور اسے (یعنی سید کو ) مارنے سے مُطلَق اِحتراز (یعنی بالکل پرہیز) کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،۲۲/۵۶۸)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی احتیاط اور عظمتِ سادات کرام رضی اللہ عنہم ملاحظہ فرمائیے ، چنانچہ حیاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے : جناب سیِّد ایُّوب علی صاحِب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے : ایک کم عُمر صاحِبزادے خانہ داری کے کاموں میں اِمداد کے لیے (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے) کاشانۂ اقدس میں ملازِم ہوئے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سیِّد زادے ہیں لہٰذا (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے) گھر والوں کو تاکید فرما دی کہ صاحِبزادے صاحب سے خبر دار کوئی کام نہ لیا جائے کہ مخدوم زادہ ہیں (نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کے فرزندِ ارجمند ہیں ان سے خدمت نہیں لینی بلکہ ان کی خدمت کرنی ہے لہٰذا) کھانا وغیرہ اور جس شے کی ضَرورت ہو (ان کی خدمت میں) حاضِر کی جائے ۔جس تنخواہ کا وعدہ ہے وہ بطورِ نذرانہ پیش ہوتا رہے،چُنانچِہ حسبُ الارشاد تعمیل ہوتی رہی۔کچھ عرصہ کے بعد وہ صاحِبزادے خود ہی تشریف لے گئے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت،۱/۱۷۹،چشتی)
تعظیم وتوقیر اور احترام سادات کے تعلق سے آپ کے طرزِ عمل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ساداتِ کرام جز ورسول ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحق توقیر و تعظیم ہیں اور اس پر پورا عمل کرنے والا ہم نے اعلٰی حضرت قدس سرہ العزیز کو پایا۔ اس لیے کہ وہ کسی سید صاحب کو اس کی ذاتی حیثیت و لیاقت سے نہیں دیکھتے بلکہ ا س حیثیت سے ملاحظہ فرماتے کہ سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جزو ہیں ۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت 165/1)

تعظیم کے لیے نہ یقین دَرْکارہے اور نہ ہی کسی خاص سند کی حاجت لہٰذا جو لوگ سادات کہلاتے ہیں ان کی تعظیم کرنی چاہیے،ان کے حَسَب و نَسَب کی تحقیق میں پڑنے کی حاجت نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ساداتِ کرام سے سیِّد ہونے کی سند طلب کرنے اور نہ ملنے پر بُرا بھلا کہنے والے شخص کے بارے میں اِستفسار ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً اِرشاد فرمایا:فقیر بارہا فتویٰ دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں، جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اورخواہی نخواہی سند دِکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا،مَطْعُون کرنا ہر گز جائز نہیں ۔ اَلنَّاسُ اُمَنَاءُ عَلٰی اَنْسَابِھِم (لوگ اپنے نسب پر امین ہیں ) ۔ ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کرینگے،نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہو گا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مُطَّلع کر دیا جائے۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پرمیرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیِّد سے اُلجھا،انہوں نے فرمایا:میں سید ہوں،کہا: کیا سند ہے تمہارے سید ہونے کی؟ رات کو زیارتِ اَقدس سے مشرف ہوا کہ معرکۂ حشر ہے،یہ شفاعت خواہ ہوا، اِعراض فرمایا ۔ اس نے عرض کی: میں بھی حضور کا اُمتی ہوں ۔ فرمایا : کیا سند ہے تیرے اُمتی ہونے کی ؟ ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٩/٥٨٧-٥٨٨،چشتی)

غیرِ سیِّد ، سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟

جو واقع میں سیِّد نہ ہو اور دِیدہ ودِانستہ(جان بوجھ کر ) سید بنتا ہو وہ ملعون (لعنت کیا گیا) ہے ، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمفرماتے ہیں:جو کوئی اپنے باپ کے سِوا کسی دوسرے یا کسی غیر والی کی طرف منسوب ہونےکا دعویٰ کرے تو اس پر اللّٰہ تعالیٰ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفل ۔ (مُسلِم،کتاب الحج،باب فضل المدینة...الخ ،ص۷۱۲،حدیث:۱۳۷۰) مگر یہ اس کا مُعامَلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے یہاں ہے ، ہم بِلادلیل تکذیب نہیں کر سکتے، اَلْبَتَّہ ہمارے علم(میں) تحقیق طور پر معلوم ہے کہ یہ سیِّد نہ تھا اور اب سیِّد بن بیٹھا تو اُسے ہم بھی فاسِق ومُرتکبِ کبیرہ ومستحق لعنت جانیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٣/١٩٨)

بد مذ ہب سیِّد کا حکم

اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگزاس کی تعظیم نہ کی جائے گی ۔ امامِ اہلسنّت ، مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم ہمیشہ (کی جائے گی )جب تک ان کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پَہُنچے کہ اس کے بعد وہ سیِّد ہی نہیں،نسب مُنْقَطَع ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے : قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۫٭ۖ) (پ۱۲، ھُود:۴۶) ترجَمہ : فرمایا! اے نوح ! وہ (یعنی تیرابیٹا کنعان) تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں ۔ بدمذہب جن کی بد مذہبی حدِّ کفر کو پَہُنچ جائے اگرچہ سیِّد مشہور ہوں نہ سیِّد ہیں ، نہ اِن کی تعظیم حلال بلکہ توہین و تکفیر فرض ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٢/٤٢١)

صَدرُالْافاضِل حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدِّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں : اس سے ثابت ہوا کہ نَسْبی قَرابت سے دِینی قَرابت زیادہ قوی ہے ۔ (خَزائنُ العِرفان،پ ۱۲،ھود،تحت الآیۃ:۴۶)

اعليٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سادات كرام رضی اللہ عنہم كا بے پناه ادب و احترام كرتے ۔ مولوی محمد ابراهيم صاحب فريدي صدر مدرس مدرسه شمس العلوم بدايوں كا بيان ہے کہ حضرت مهدی حسن سجاده نشين سركار كلاں مارهره شريف نے فرمايا کہ : ٫٫ميں جب بريلي آتا تواعليٰ حضرت خود كھانا لاتے اور ہاتھ دھلاتے ۔ حسب دستور ايک بار ہاتھ دھلاتے وقت فرمايا ۔ حضرت شهزاده صاحب انگوٹھي اور چھلے مجھے دے ديجيے ، ميں نے اتار كر دے ديے اور وہاں سے ممبئي چلا گيا ۔ ممبئي سے مارهره واپس آيا تو ميري لڑکی فاطمہ نے كها ابا بريلی كے مولانا صاحب كے يهاں سے پارسل آيا تھا جس ميں چھلے اور انگوٹھي تھے ، يہ دونوں طلائی تھے اور نامہ ميں مذكور تھا ، شهزادی يہ دونوں طلائی اشيا آپ كي ہيں ۔ ﴿حيات اعليٰ حضرت،ص:111112 )۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔