Monday 17 August 2020

درسِ قرآن موضوع : حرمتِ متعہ اور شیعہ دلائل کا جواب (حصّہ اوّل)

0 comments
درسِ قرآن موضوع : حرمتِ متعہ اور شیعہ دلائل کا جواب (حصّہ اوّل)
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَمَنۡ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنۡکُمْ طَوْلًا اَنۡ یَّنۡکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنۡ مَّا مَلَکَتْ اَیۡمٰنُکُمۡ مِّنۡ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ؕ وَاللہُ اَعْلَمُ بِاِیۡمٰنِکُمْ ؕ بَعْضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعْضٍ ۚ فَانۡکِحُوۡہُنَّ بِاِذْنِ اَہۡلِہِنَّ وَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ بِالْمَعْرُوۡفِ مُحْصَنٰتٍ غَیۡرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ ۚ فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیۡنَ بِفٰحِشَۃٍ فَعَلَیۡہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ ؕ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ ؕ وَ اَنۡ تَصْبِرُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمْ ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ۔ ﴿سورہ النّساء آیت نمبر 25﴾
ترجمہ : اور تم میں بے مقدوری کے باعث جن کے نکاح میں آزاد عورتیں ایمان والیاں نہ ہوں تو ان سے نکاح کرے جو تمہارے ہاتھ کی مِلک ہیں ایمان والی کنیزیں اور اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے تم میں ایک دوسرے سے ہے تو ان سے نکاح کرو ان کے مالکوں کی اجازت سے اور حسبِ دستور ان کے مہر انہیں دو قید میں آتیاں نہ مستی نکالتی اور نہ یار بناتی جب وہ قید میں آجائیں پھر برا کام کریں تو ان پر اس سزا کی آدھی ہے جو آزاد عورتوں پر ہے یہ اس کے لیے جسے تم میں سے زنا کا اندیشہ ہے اور صبر کرنا تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

جو شخص آزاد عورت سے نکا ح کی قدرت اور وسعت نہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ کسی مسلمان کی مومِنہ کنیز سے ا س کے مالک کی اجازت کے ساتھ نکاح کر لے ۔ اپنی کنیز سے نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مالک کے لئے نکاح کے بغیر ہی حلال ہے ۔ (تفسیر خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۱/۳۶۷)

(1) جو شخص آزاد عورت سے نکاح کی قدرت رکھتا ہو اسے بھی مسلمان کنیز سے نکاح کرنا جائز ہے البتہ اگر آزاد عورت نکاح میں ہو تو اب باندی سے نکاح نہیں کر سکتا ۔ (تفسیر خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۱/۳۶۸)

(2) احناف کے نزدیک کِتابِیَہ لونڈی سے نکاح بھی کر سکتا ہے جبکہ مومنہ کنیز کے ساتھ مستحب ہے ۔ (تفسیر مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۲۲۲)

{ وَاللہُ اَعْلَمُ بِاِیۡمٰنِکُمْ ؕ:اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے۔} اہلِ عرب اپنے نسب پر فخر کرتے اور لونڈیوں سے نکا ح کو باعث ِعار سمجھتے تھے، ان کے اس خیال کی تردید کی گئی کہ نسب میں تم سب برابر ہو کہ سبھی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد ہو لہٰذا لونڈیوں سے نکاح کرنا باعثِ شرم نہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ تم سب ایمان میں مُشْتَرَک ہو کہ تمہارا دین اسلام ہے اور ایمان والا ہونا بڑی فضیلت کا حامل ہے بلکہ فضیلت کا دارومدار تو ایمان اور تقویٰ پر ہے اس لئے جب لونڈیوں سے نکاح کی حاجت ہو تو شرماؤ نہیں ، ان کا ایمان والا ہونا کافی ہے۔
(تفسیرکبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۴/۴۹، جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲/۳۹، ملتقطاً)
{ فَاِنْ اَتَیۡنَ بِفٰحِشَۃٍ:تو اگر وہ کسی بے حیائی کا اِرْتِکاب کریں۔} نکاح کے بعد اگر لونڈی زنا کرے تو آزاد عورت کے مقابلے میں اس کی سزا آدھی ہے یعنی آزاد کنواری عورت زنا میں مُلَوَّث ہو تو اس کی سزا سو کوڑے ہے اور لونڈی کی سزا اس سے آدھی یعنی پچاس کوڑے ہے۔ لونڈی چاہے کنواری ہو یا شادی شدہ اس کی سزا پچاس کوڑے ہی ہے ،شادی شدہ لونڈی کو آزاد عورت کی طرح رَجم نہیں کیا جائے گا کیونکہ رجم میں تَنصِیف یعنی اس سزا کو آدھا کرنا ممکن نہیں ۔ (تفسیر قرطبی ، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳/۱۰۲، الجزء الخامس،چشتی)

آزاد عورت کی بجائے باندی سے نکاح کرنا اس شخص کے لئے مناسب ہے جسے غلبۂ شہوت کی وجہ سے زنا میں پڑجانے کا ڈر ہو اور اگر وہ اس خوف کے با وجود صبر کرے اور پرہیز گار رہے تو یہ بہتر ہے اور جہاں تک ممکن ہو لونڈی سے نکاح نہ کرے کیونکہ کنیز سے نکاح کرنے کی صورت میں جو اولاد ہو گی وہ اس کے مالک کی غلام بنے گی اور لونڈی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شوہر کی خدمت کے لئے بھی نہ آ سکے گی ۔ (بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲/۱۷۴)
پھر اگر صبر نہیں کر سکتا تو لونڈی سے نکاح کر لے ۔ یاد رہے کہ فی زمانہ بین الاقوامی طور پر مرد کو غلام اور عورت کو لونڈی بنانے کا قانون ختم ہو چکا ہے۔

مرد کے لئے نکاح کا شرعی حکم یہ ہے کہ اعتدال کی حالت میں یعنی نہ شہوت کا زیادہ غلبہ ہو اور وہ نا مرد بھی نہ ہو، نیز مہر اور نان نفقہ دینے پر قدرت رکھتا ہو تو اس کے لئے نکاح کرنا سنتِ مؤکَّدہ ہے۔ لیکن اگر اسے زنا میں پڑنے کا اندیشہ ہے اور وہ زوجیت کے حقوق پورے کرنے پر قادر ہے تو اس کے لئے نکاح کرنا واجب ہے اور اگر اسے زنا میں پڑنے کا یقین ہو تو ا س پر نکاح کرنا فرض ہے۔ اگر اسے زوجیت کے حقوق پورے نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو اس کانکاح کرنا مکروہ اور حقوق پورے نہ کرسکنے کا یقین ہو تو اس کے لئے نکاح کرنا حرام ہے۔ (بہار شریعت، حصہ ہفتم، ۲/۴-۵)

عورت کے لئے نکاح کا شرعی حکم یہ ہے کہ جس عورت کو اپنے نفس سے اس بات کا خوف ہو کہ غالباً وہ شوہر کی اطاعت نہ کر سکے گی اور شوہر کے واجب حقوق اس سے ادا نہ ہو سکیں گے تو اسے نکاح کرنا ممنوع وناجائز ہے، اگر کرے گی تو گناہگار ہو گی۔ اگر اسے ان چیزوں کا خوف یقینی ہو تو اسے نکاح کرنا حرام قطعی ہے۔ جس عورت کو اپنے نفس سے ایسا خوف نہ ہو اسے اگر نکاح کی شدید حاجت ہے کہ نکاح کے بغیر مَعَاذَ اللہ گناہ میں مبتلاء ہو جانے کا ظنِ غالب ہے تو ایسی عورت کو نکاح کرنا واجب ہے اور اگر نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا یقین کلی ہو تو اس پر نکاح کرنا فرض ہے۔ اگر حاجت کی حالت اعتدال پر ہو یعنی نہ نکاح سے بالکل بے پروائی ہو، نہ اس شدت کا شوق ہو کہ نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا ظنِ غالب ہو تو ایسی حالت میں اس کے لئے نکاح کرنا سنت ہے جبکہ وہ اپنے آپ پر اس بات کا کافی اطمینان رکھتی ہو کہ ا س سے شوہر کی اطاعت ترک نہ ہوگی اور وہ شوہر کے حقوق اصلاً ضائع نہ کرے گی۔ (فتاوی رضویہ، ۱۲/ ۲۹۱ - ۲۹۳)

رافضی شیعوں نے متعہ کی اباحت پر ایسے دلائل اور استدلالات کا تذکرہ کیا ہے کہ جن میں سے کسی بھی دلیل سے ان کا موقف اور استدلال صحیح اور درست نہیں ہے، آپ بھی ان کے دو دلائل اور ساتھ ہی ان کا رد ملاحظہ فرمائیں :

شیعی دلیل نمبر 1: اللہ کا فرمان ہے : فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْھُنَّ فَآتُوھُنَّ اُجُورَھُنَّ ۔ (سورہ النساء:24)
ترجمہ : جن عورتوں سے تم شرعی نکاح کر کے جماع وغیرہ کافائدہ حاصل کرنا چاہو تو انہیں ان کے مقرر کردہ مہر ادا کرو ۔

یاد رہے کہ اسلام میں عورت سے نفع اٹھانے کی صرف دو صورتیں جائز ہیں جو قرآنِ پاک میں بیان کی گئی ہیں : (1) شرعی نکاح کے ذریعے ۔ (2) عورت جس صورت میں لونڈی بن جائے۔ لہٰذا اس کے علاوہ ہر صورت حرام ہے ۔ شروعِ اسلام میں کچھ وقت کیلئے نکاح سے کچھ ملتا جلتا معاہدہ کرکے فائدہ اٹھانے کی اجازت تھی لیکن بعد میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام فرما دیا ۔ جیسا کہ حضرت سَبُرَہ جُہَنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! میں نے تمہیں عورتوں سے (متعہ کی صورت میں) نفع اٹھانے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کر دیا ہے تو جس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو وہ اسے چھوڑ دے اور جو انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ نہ لو ۔
(مسلم ، کتاب النکاح، باب نکاح المتعۃ وبیان انّہ ابیح ثمّ نسخ۔۔۔ الخ، ص۷۲۹، الحدیث: ۲۱(۱۴۰۶)،چشتی)

حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ خیبر کے موقع پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے متعہ سے منع فرما دیا ۔ (ترمذی، کتاب النکاح، باب ما جاء فی نکاح المتعۃ، ۲/۳۶۵، الحدیث: ۱۱۲۴)

شیعوں کا کہنا ہے کہ : اس آیت میں متعہ کے مباح ہونے کی دلیل موجود ہے ، اور اللہ کے فرمان "اُجُورَھُنَّ" اور "اِستَمتَعتُم" سے متعہ کا معنی لینے کا قرینہ موجود ہے کہ یہاں اس سے مراد "متعہ" ہے ۔

دلیل نمبر 1 کا رد : پہلی بات تو یہ کہ اللہ عزّ و جل نے اس قرآنی جملے سے پہلے والی آیت یعنی آیت نمبر 23 میں یہ بات ذکر کی ہے کہ مرد پر کون سی عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ، جبکہ اِس آیت میں مرد کے لئے حلال عورتوں کا تذکرہ ہے کہ جن عورتوں سے مرد شادی کر سکتا ہے اور پھر اللہ عزّ و جل نے اِس جملے میں شادی شدہ عورت کو اس کا حق مہر دینے کا حکم دیا ہے ... مزید یہ کہ اللہ عزّ و جل نے یہاں اس آیت میں شادی کی لذت یعنی بوس و کنار اور جماع وغیرہ کو "استمتاع" سے تعبیر کیا ہے ، اور حدیث مبارکہ میں بھی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے "استمتاع" سے شادی کی لذت کی طرف اشارہ کیا ہے ... دلیل کے طور پر صحیح بخاری حدیث نمبر 4889 اور صحیح مسلم حدیث نمبر 1468 آپ اپنے پاس رکھیں ۔

دوسری بات یہ کہ ہم شیعوں کی اس دلیل پر اس طرح بھی رد کر سکتے ہیں کہ "اس آیت میں اللہ عزّ و جل نے مہر کو "اجرت" سے تعبیر کیا ہے ، لیکن یہاں اجرت سے مراد وہ اجرت نہیں ہے جو متعہ کرنے والا مرد ممتوعہ عورت کو بطور اجرت دیتا ہے ، اللہ عزّ و جل نے ایک دوسری جگہ بھی مہر کو اجرت کے لفظ کے ساتھ ذکر کیا ہے : یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِی آتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ" ۔ (سورہ الأحزاب 50)
ترجمہ : اے غیب بتانے والے (نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ) ہم نے تمہارے لیے حلال فرمائیں تمہاری وہ بیبیاں جن کو تم مہر دو ۔

اب اگر نعوذ باللہ ہم یہ کہیں کہ شیعہ کا سورہ نساء کی مذکورہ آیت سے متعہ کے جواز پر استدلال درست ہے تو اس آیت کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا پڑے گا کہ معاذ اللہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے لئے اللہ نے متعہ جائز قرار دیا تھا ، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ... معلوم یہ ہوا کہ شیعہ جس آیت سے متعہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں اس میں متعہ کی اباحت پر نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی قرینہ پایا جاتا ہے ۔

تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض ہم یہ مان بھی لیں کہ مذکورہ آیت متعہ کے مباح ہونے پر دال ہے تو ہم اس آیت کے بارے میں یہ کہیں گے کہ یہ آیت منسوخ ہے ۔ اور اس کا ثبوت سنت صحیحہ میں موجود ہے کہ قیامت تک کے لئے اللہ عزّ و جل نے متعہ حرام قرار دے دیا ہے ۔

شیعہ کی دلیل نمبر 2 : بعض صحابہ کرام خصوصاً ابن عباس رضی اللہ عنہما سے متعہ کے جواز پر روایتیں ملتی ہیں ۔

دلیل نمبر 2 کا رد : روافض و شیعہ اپنی خواہشات کے غلام اور اپنے نفس کے پیروکار ہیں ۔ ایک طرف تو یہ چار کے علاوہ بقیہ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نعوذ باللہ کافر و مرتد قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف انہی کے اقوال و افعال سے اپنی مطلب کی بات پر استدلال بھی کرتے ہیں ۔ یعنی کہ میٹھا میٹھا ھپ ، کڑوا کڑوا تھو ۔ رہی بات ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کہ جن کی جانب سے متعہ کے جواز کا قول ملتا ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ ہم ان کے تعلق سے یہ کہیں گے کہ انہیں متعہ کی حرمت والی نص نہیں ملی اس لئے انہوں نے متعہ کو جائز قرار دیا ۔ جہاں تک بات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اباحتِ متعہ کے قول کا تو خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کا رد کیا ہے جن میں شیعوں کے پہلے امام حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شامل ہیں ۔ آپ بھی رد والے وہ روایت ملاحظہ کریں : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں سنا کہ وہ عورتوں سے متعہ کے بارے میں نرمی کا مظاہرہ کرتے تو کہا کہ : اے ابن عباس رضی اللہ عنہما ذرا ٹھہرو بلا شبہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے خیبر کے دن متعہ سے اور گھریلو گدھوں کا گوشت استعمال کرنے سے منع کر دیا تھا ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 1407،چشتی)

محترم قارئینِ کرام : چونکہ اس سلسلے میں ہم نے اپنی تمام باتوں کو اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے لہذا اسی طریقے کو اپناتے ہوئے ہم اس باب میں بھی بس انہی دو دلیلوں اور ان کے رد پر اکتفا کرتے ہیں ۔ جس طرح ان کی یہ دونوں دلیلیں بالکل بودی اور پھسپھسی ہیں ایسی ہی حالت ان کی ساری دلیلوں کی ہے ۔ فائدے کے پیش نظر نیچے ہم قرآن و سنت کے وہ حوالے ذکر کر دیتے ہیں کہ جن سے "نکاح متعہ" کی حرمت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے :

دلائل قرآن سے : (سورۃ النساء آیت نمبر 25)(سورۃ النور آیت نمبر 33) اور دیگر دوسری آیات ۔

دلائل سنت مطہرہ سے : (صحيح بخاری 3979، صحیح مسلم 1407)(صحيح مسلم 1406)(تلخیص الحبیر للحافظ ابن حجر، ج 3، ص 154)(ارواء الغلیل للعلامة الألباني، ج 6، ص 318،چشتی)(صحيح الجامع الصغير، ج2، ص1177، حدیث نمبر 7022)(صحيح مسلم 1405)(صحيح بخاری 4216)(صحیح سنن ابن ماجہ للالبانی ج2، ص 154)(صحیح بخاری 5066، صحيح مسلم 1400)

حضرت زید بن علی اپنے آباء رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ خیبر کے دن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے پالتو گدھوں کے گوشت اور نکاح متعہ کو حرام کردیا ۔ (الاستبصار جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 149 دارالتعارف بیروت لبنان)،(تہذیب الاحکام جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 351)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ : إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم نَهَى عَنِ المُتْعَةِ وَعَنْ لُحُومِ الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ زَمَنَ خَيْبَرَ.
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے غزوہ خیبر کے دنوں میں متُعہ کرنے (تھوڑی مدت کے لیے نکاح کرنے) اور پالتوں گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا ۔ (بخاري، کتاب النکاح، باب نهي رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم عن نكاح المتعة، ۵، 5: 1966، رقم: 4825، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة،چشتی)

مسند احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنِ الْمُتْعَةِ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ.
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے اور گدھے کے گوشت کی ممانعت فرمائی تھی ۔ (أحمد بن حنبل، مسند، 2: 189، رقم، 812)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ خَيْبَرَ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ.
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتو گدھے کے گوشت کی ممانعت فرمائی تھی ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب النکاح، باب نهی عن المتعة، 1: 630، رقم: 1961،چشتی)

متعہ کی تحریم اور گدھے کی تحریم ایک ہی دن وارد ہوئی ہے ۔ جب گدھے کا گوشت خیبر کے دن سے آج تک حرام چلا آ رہا ہے اور قیامت تک کے لئے حرام ہی رہے گا تو متعہ کا صرف خیبر کے دن ہی حرام ہونا فقط ایک دعوی ہے جس کی کوئی بھی دلیل نہیں ہے ۔ اور یہ دعوی اس وقت بلکل ہی باطل ہو جاتا ہے جب اس کے ساتھ ایک قرینہ یہ بھی مل جاتا ہے کہ گھریلو گدھوں کے گوشت بھی خیبر ہی کے دن حرام کیا گیا تھا ۔ اگر اس کی حرمت صرف خیبر کے دن تک ہی محدود ہوتی تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے صراحت کے ساتھ اس کی حرمت کا منسوخ ہونا ثابت ہوتا لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں ہمیں متعہ کے جائز ہونے کی علت کا بھی علم ہونا چاہیے تھا کہ یہ سفر اور جنگ میں جائز ہوتا تھا کیونکہ انسان اس وقت اپنی بیوی اور لونڈی سے دور ہوتا ہے ، لہٰذا ان حالات میں متعہ کی زیادہ ضرورت پیش آتی تھی ۔ لیکن خیبر کے دن جب حالت جنگ میں بلکہ میدان جنگ میں متعہ حرام کیا گیا ہے تو حالت امن میں کیونکر جائز ہو سکتا ہے ؟ دراصل حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب یہ ہے متعہ کے حرمت کی ابتداء خیبر کے دن سے ہوئی ہے ۔ جہاں تک شیعہ کی حیلہ سازی اور تقیہ بازی کا مسلئہ ہے ، یہ حضرات قرآن و سنت کی اکثر و بیشتر نصوص کو بازیچئہ اطفال ہی سمجھتے ہیں ۔ حق بات یہ ہے کہ متعہ کی حرمت اور گدھے کی حرمت دونوں یکساں حکم رکھتے ہیں ، یعنی دونوں کی حرمت کا حکم خیبر کے دن نازل ہوا تھا جو قیامت تک باقی رہے گا ۔ لہٰذا نفس پرستی ، شہوت رانی اور لذت اندوزی کی غرض سے دین کے نام پر حسین و جمیل عورتوں سے متعہ کے لئے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے قول کی تاویل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے ، اور جہاں تک ابوعبد الله کے جواب کو تقیہ کہنے کا تعلق ہے تو یہ بات ذہین نشین رہنی چاہئے کہ سائل خود شیعہ تھا ، اس سے تقیہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ ابوعبد الله کا فتویٰ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے قول سے سو فیصد مطابقت نہیں رکھتا ہے ۔ دراصل متعہ کو جائز قرار دے کر شیعہ نے ایک مرد کو یہ حق عنایت کر دیا ہے کہ وہ لاتعداد عورتوں سے تعلقات قائم رکھ سکتا ہے خواہ یہ عورتیں تعداد میں ہزار ہی تک کیوں نہ پہنچ جائیں ۔ متعہ کرنے والے کتنے ہی حضرات ہیں جنہوں نے ایک ہی دفع ماں اور اس کی بیٹی سے ، عورت اور اس کی بہن سے ، بھانجی اور اس کی خالہ سے یا بھتیجی اور اس کی چچی سے منہ کالا کیا ۔ (بقیہ حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔