حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت خبر دے دی تھی
محترم قارئین : ہم نے ایک پوسٹ میں یہ حدیث پیش کی تو ایک غیر مقلد وہابی نے یزید کی وکالت کرتے ہوئے لکھا کہ یہ من گھڑت کہانی ہے استغفر اللہ یہ لوگ بغضِ امام حسین رضی اللہ عنہ اور یزید پلید کی محبت میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ صحیح احادیث کا بھی انکار کر دیتے ہیں ان کے اِن اعمال و افعال کی وجہ سے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ غیر مقلدیت کا دوسرا نام منکرین حدیث ہے اب آیئے انہیں کے محدث شیخ ناصر البانی کی کتاب سلسلہ احادیث صحیحیہ جلد سوم صفحہ 59 ، 60 پر اس حدیث کو اصل اسکن کے ساتھ و دیگر مستند حوالہ جات و دیگر احادیث مبارکہ جو اس کی تائید کرتی ہیں پڑھتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت سیّدنا اِمام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر دے دی تھی ۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ جلد 5 صفحہ 107 ، 108 محقق و محدث الکبیر وہابیہ شیخ ناصر البانی)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی جانتے تھے کہ حضرتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا جائے گا اور مقامِ شہادت سے بھی آگاہ تھے ۔ (سلسلہ احاددیث صحیحہ جلد پنجم صفحات 108 ،109محقق و محدث الکبیر وہابیہ شیخ ناصر البانی) ۔ اب کیا کہتے ہیں یزید کے وکیل اِس کے بارے میں ؟؟؟؟؟ ۔
یہ حدیث امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد، ج 9، ص 120 پر بھی تحریر فرمائی ہے : 15116 - عن أم سلمة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال: “لا يدخل علي أحد”. فانتظرت فدخل الحسين، فسمعت نشيج رسول الله صلى الله عليه وسلم يبكي، فاطلعت فإذا حسين في حجره والنبي صلى الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي، فقلت: والله ما علمت حين دخل، فقال: “إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت فقال: أفتحبه؟ قلت: أما في الدنيا فنعم، قال: إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها: كربلاء، فتناول جبريل من تربتها”. فأراها النبي صلى الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل ۔ صفحہ نمبر . 303 ، قال : ما اسم هذه الأرض؟ قالوا: كربلاء، فقال: صدق الله ورسوله، كرب وبلاء.)(مصنف ابن ابی شیبہ مترجم اردو جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 595،چشتی)
15117- وفي رواية : صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.
رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.
ترجمہ : حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے گھر میں بیٹھے تھے ۔ مجھ سے فرمایا کہ کسی کو میرے پاس نہ آنے دو ۔ پھر امام حسین رضی اللہ عنہ اندر چلے گئے ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رونے کی آواز سنی ۔ میں داخل ہوئی ، اور کہا کہ مجھے علم نہیں کہ یہ کب داخل ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ جبریل میرے پاس اس گھر میں تھے ۔ اور مجھ سے پوچھا کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ اس دنیا میں ہاں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی امت ان کق کربلا نامی زمین میں قتل کر دے گی۔ پھر جبریل وہاں سے مٹی لائے۔ پھر جب امام حسین رضی اللہ عنہ قتل ہونے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ اس زمین کا کیا نام ہے ؟ بتایا گیا : کربلا ۔ انہوں نے کہا اللہ و رسول نے سچ کہا ، کرب و بلا ، اور دوسری روایت میں ہے کہ رسول نے سچ کہا کرب و بلا ، طبرانی نے اسے مختلف سندوں کے ساتھ لکھا ، اور ایک کے راوی ثقہ ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض دو طریق سے عام ہوا ۔ مشابہت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض اور روحانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض، ایک فیض کے عام ہونے کا ذریعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بنے اور دوسرے فیض کے عام ہونے کا اعزاز حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے حصہ میں آیا، فیض کے یہ دونوں دھارے حسین ابن علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہما کی ذات میں آ کر مل گئے کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کو ذبح عظیم بنانا مقصو دتھا؟ ذبح اسماعیل کے بارے میں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ملا لیکن ذبح حسین رضی اللہ عنہ کے لئے حضور آئینہ رحمت کو عالم خواب میں نہیں، عالم بیداری میں وحی خداوندی کے ذریعہ مطلع کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم بیداری میں جبرئیل امین علیہ السلام نے اطلاع دی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! عراق کی سر زمین میں آپ کے شہزادے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا جائے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طلب کرنے پر جبرئیل امین علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی مٹی بھی لاکر دی کہ یہ ہے سر زمین کربلا کی مٹی جہاں علی رضی اللہ عنہ کے نور نظر اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لخت جگر کا خون ناحق بہا دیا جائے گا وہ حسین رضی اللہ عنہ جو دوش پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوار تھا۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش رحمت میں پروان چڑھا تھا۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو نماز کی حالت میں پشت اقدس پر چڑھ بیٹھا تو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سجدے کو طول دے دیا کہ کہیں گر کر شہزادے کو چوٹ نہ آجائے۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو یتیموں کے آقا اور غریبوں کے مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبتوں اور شفقتوں کا محور تھا اور وہ حسین رضی اللہ عنہ جس کے منہ میں رسول آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان اقدس دے دی اور اپنے لعاب دہن کو لب حسین سے مس کیا کہ ایک دن میدان کربلا میں ان نازک ہونٹوں کو پرتشنگی کی فصلوں کو بھی لہلہانا ہے۔ اس حوالے سے چند روایات مندرجہ ذیل ہیں :
عن ام سلمه قالت قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها ۔ (البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200)(کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔
عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا۔ (المعجم الکبير، 3 : 107، ح : 2814)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے ۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ : ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء ۔
ترجمہ : آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے ۔ (المعجم الکبير، 3 : 109، ح : 2819،چشتی)
عن ام سلمة قالت قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري ۔ (مجمع، 9 : 190)۔(بحواله طبراني في الاوسط)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا ۔
غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے : اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان ۔
ترجمہ : اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (الصواعق الحرقه : 221)
60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جاسکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جدوجہد آزادی انہی نابغان عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین کے نقش قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی ۔
حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبداللہ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے : ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته ۔
ترجمہ : حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی ۔ (الخصائص الکبریٰ 2 : 12،چشتی)
حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے۔ ابو عبداللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے، آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگا ۔
حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض ۔
ترجمہ : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 126) (سر الشهادتين : 13)
گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا ۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم ۔
ترجمہ : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے ۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 125)۔(سر الشهادتين، 28)۔( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)
شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت کا یہ پہلو بطور خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے تذکرے عہد رسالت میں ہی ہونے لگے تھے ۔ کسی واقع کا وقوع سے قبل شہرت اختیار کرلینا اس کے غیر معمولی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment