Saturday, 29 August 2020

حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پیغام ہر مسلمان کے نام


حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پیغام ہر مسلمان کے نام
محترم قارئینِ کرام : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اہل اسلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے محبت اہلبیت و امام حسین رضی اللہ عنہم کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہم انے پیغام کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔ حضرت امام عالی مقام سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے ۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل و حال و قال میں شامل کرلیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے ، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے ۔

یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی ، مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں ۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتا تھا ، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں ، میں مسلمان بھی ہوں ، میں موحد بھی ہوں ، میں حکمران بھی ہوں ، میں آپ کا خیر خواہ بھی ہوں ۔ اسلام کا انکار یہ تو ابوجہلی ہے ، ابولہبی ہے ۔ یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے ، امانت کی دعویٰ بھی ہو اور خیانت بھی کی جائے ، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت بھی مسلط کی جائے ۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے ۔ اسلام سے دھوکہ فریب یزیدیت کا نام ہے ۔ بیت المال میں خیانت کرنا ، دولت کو اپنی عیش پرستی پر خرچ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے مال کو ہڑپ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ مخالف کو کچلنا اور جبراً بیعت اور ووٹ لینا یزیدیت کا نام ہے ۔

آج روح حسین رضی اللہ عنہ ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ : میری محبت کا دم بھرنے والوں میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہے یا پھر آج تم کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو ۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں پھر تم آج کے وقت یزیدیوں کو للکارتے ہو یا نہیں ۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے ، آج تمہارے صبر و استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے ۔ کہ کون اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے ، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے ۔

حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے حسینی لشکر کے غلام و فرد بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو ۔ اس کے لیے اگر تمہیں مال ، جان ، اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے ۔ خصوصا آج جو کچھ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں ہمارے بھائیوں ، بچوں ، ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہو رہا ہے حسینیت کا تقاضا ہے کہ ہم سب ان کے حو میں آواز بلند کریں ۔

پہلے حسینی کردار کی تجلی اپنے اندر پیدا کرو ، سیرت حسین کو اپنے سینے پہ سجالو ، پھر اس قوت حسینی سے یزیدی کردار کی مخالفت کرو اور اس کا مقابلہ کرو ۔ کاش ہمیں وہ دل نصیب ہوجائے جس میں عمل و محبت امام حسین رضی اللہ عنہ ہو ۔ کیوں کہ یہ دنیا تو ہر کسی کو چھوڑنی ہے ، جس نے اقتدار کے نشے میں اگر لوگوں کا قتل عام کیا ، معصوموں کا خون بہایا ، ظلم کے پہاڑ گرائے وہ بھی مرگیا ، جس نے اپنے سینے پر تیروں کو جگہ دی ، شریعت کی پیروی کی ، مخلوق کی خدمت کی وہ بھی چلا گیا ۔ لیکن یزیدیت تباہی و بربادی کا نام ہے ، اور حسینیت محبت و اخوت و بہادری کا نام ہے ۔ جو ظالم ہوکر مرتا ہے وہ خالق و مخلوق کی نظر میں مردود ہے ۔ جو عادل ہوکر اپنی جان رب کریم کے حوالے کرتا ہے وہ مقبول ہوجاتا ہے ۔ یہی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا فلسفہ تھا ۔ یہی آپ کا جذبہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی ۔ وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کہ وہ ہمیں پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ واقعہ کربلا اور پیغامِ کربلا

حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ واقعہ کربلا اور پیغامِ کربلا

محترم قارئینِ کرام : واقعہ کربلا کو ہوئے صدیاں گذر چکی ہیں مگر یہ ایک ایسا المناک اور دل فگار ( غمزدہ) سانحہ ہے کہ پورے ملت اسلامیہ کے دل سے محو (زائل) نہ ہو سکا۔ یہ واقعہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے وابستہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نواسے ، حضرت مالا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت  سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے لخت جگر تھے ۔ اسلامی تاریخ میں دورِ خلافت کے بعد یہ واقعہ اسلام کی دینی ، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوا ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے اس عظیم واقعہ پر بلا شک و شبہہ اور بلا مبالغہ دنیا کے کسی بھی دیگر حادثہ پر نسلِ انسان کے اس قدر آنسو نہ بہے ہونگے ۔ بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک سے جس قدر خون دشتِ کربلا میں بہا تھا اس کے بدلے پوری ملتِ اسلامیہ ایک ایک قطرہ کے عوض اشک ہائے رنج و غم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے اور لگاتار بہا رہی ہے اور بہاتی رہے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے واقعہ کربلا کو ہمیشہ کےلیے زندہ و جاویدہ بنا دیا تاکہ انسان اور خصوصاً ایمان والے اس سے عبرت حاصل کرتے رہیں ۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت مبارکہ 5 شعبان 04 ؁ھ کو مدینہ طیبہ میں ہوئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ کے کان میں آذان دی ، منھ میں لعابِ دہن ڈالا اور آپ کے لئے دعاء فرمائی پھر ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا اور عقیقہ کیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ اور لقب ’’ سبط رسول ‘‘ تھا وریحانۂ رسول ہے۔ حدیث شریف میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبیر و شبر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا انہیں کے نام پر حسن اور حسین رکھا ۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 118،چشتی)

اس لیے حسنین کریمین کو شبیر اور شبر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ سریانی زبان میں شبیر و شبر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنیٰ ایک ہی ہیں ۔

ایک حدیث پاک میں ہے کہ اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ اِسْمَانِ مَنْ اَھْلِِ الْجَنَّۃ ۔
ترجمہ : حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں ۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 1186)

ابن الا عرابی حضرت مفضل سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نام مخفی (پوشیدہ) رکھے یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین رکھا ۔ (اشرف المؤید، صفحہ 70)

تخلیق کائنات سے لیکر آج تک کی تاریخ کو اگر بغور دیکھا جائے تو بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں ، لیکن جس طرح سرزمین کربلا میں امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اپنے جان نثاروں کے ساتھ ہوئی ہے اس طرح کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپ کی ولادت سے لے کر شہادت تک کے واقعات کو پڑھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے بچپن کے حالات کو دیکھتے ہیں احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں : ⬇

عن ابی رافع رضی اللہ عنہ ان النبی صلّی اللہ علیہ وسلم اَذَّنَ فی اذن الحسن والحسین علیہم السلام حین ولدا ۔ (مجمع الزوائد)
حضرت ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے خود ان دونوں کے کانوں میں آذان دی ۔

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم عق عن الحسن و الحسین کبشا کبشا ۔ (سنن ابوداؤد شریف)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے خود امام حسن اور امام حسین کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا ۔

عن المفضل قال ان اللہ تعالیٰ حجب اسم الحسن و الحسین حتیٰ سمی بہما النبی صلّی اللہ علیہ وسلم ابنیہ الحسن و الحسین ۔ (البدایہ والنہایہ ابن کثیر)
ترجمہ : حضرت مفضل سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا ۔

عن یحییٰ بن ابی کثیر ان النبی صلّی اللہ علیہ وسلم سمع بکاء الحسن و الحسین فقام زعما فقال ان الولد لفتنۃ لقد قمت الیہما وما اعقل۔ (ابن ابی کثیر البدایہ والنہایہ،چشتی)
ترجمہ : حضرت یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا رونا سنا تو آپ پریشان ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا بیشک اولاد آزمائش ہے میں بغیر غور کرنے کے کھڑا ہوگیا ہوں ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے تو حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سوار ہوگئے تو لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو چھوڑدو، ان پر میرے ماں باپ قربان ہیں ۔

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی ۔ (سنن ابن ماجہ)

حضرت ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھا اور فرمایا جس نے تم سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی ۔(مشکوٰۃ المصابیح)

شہادت سے قبل شہات کی خبریں
مذکورہ روایت کی طرح اور بھی کئی روایات موجود ہیں جن سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کس طرح امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرتے تھے، کس طرح امام حسین کو اپنے کندھوں پر سوار کرتے تھے ، کس طرح امام حسین کا رونا آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتا تھا۔ کس طرح امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہ کےلیے جنت سے کپڑے آتے تھے ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید کربلا امام عالی مقام میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے تھے اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اس معرکہ عظیم کے دن کے لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خود تربیت بھی فرماتے تھے ۔ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں صراحۃ فرماتے تھے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے اوباش حاکم شہید کریں گے ۔ اور کبھی فرماتے تھے کہ ”یا ام سلمۃ اذا تحولت ہٰذہ التربۃ دما فاعلمی ان ابنی قد قتل“۔ (معجم الکبیر عربی،چشتی)
ترجمہ : اے ام سلمہ جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو یقین کرلینا کہ میرا لخت جگر شہید کیا گیا۔میرے محبوب نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی وفات کی جگہ بھی بیان فرمادی تھی کہ ”انہ تقتل بکربلائ“ یہ میرا نواسہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کربلاء کی زمین میں شہید کیا جائے گا ۔

ایسے دور میں جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ رونما ہونے والا تھا تو اس دور کےلیے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : تعوذوا باللہ من سنۃ سنین و امارۃ الصبیان ۔ (البدایہ والنہایہ جلد نمبر ۸،چشتی)
ترجمہ : یعنی ساٹھ ہجری کے سال اور لڑکوں کی حکومت سے پناہ مانگو۔ اس مذکورہ حدیث کو سامنے رکھ کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ دعا کرتے تھے کہ ”اللّٰہم انی اعوذبک من رأس الستین وامارۃ الصبیان“ اے اللہ میں ساٹھ ہجری اور لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔

حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”ان ہلاک امتی او فساد امتی رؤس امراء اغیلمۃ سمہاء من قریش“ بیشک میری امت کی ہلاکت یا فساد قریشوں کے بیوقوف اور اوباش حکمرانوں کے ہاتھوں ہوگا۔ (مسند احمد بن حنبل،چشتی)

مذکورہ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح امام حسین رضی اللہ عنہ سے میرے آقا صلّی اللہ علیہ وسلم نے محبت اور پیار کیا تھا اس کا مثال ملنا محال ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اپنے محبوب نواسے کو یہ سب کچھ سمجھادیا کہ تیری شہادت کب، کہاں اور کیوں ہوگی ۔ اب ہم اگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے آپ نے کس طرح اپنے آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کی شریعت و سنت کو اپنی جان سے عزیز تر سمجھا تھا کہ کبھی پوری رات نماز میں ہوتے تھے، کبھی تلاوت میں، کبھی مخلوق کی خدمت میں، کبھی سخاوت میں، ہر وقت اوامر و نواہی پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

جب حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری زندگی سے آپ کو محبوب حقیقی کی طرف سے وصال کا پیغام آیا اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم برقعہ پوش ہوگئے تو اس وقت عالم اسلام کے لیے قیامت کا منظر تھا۔ لیکن اس کے بعد گلشن توحید کی آبیاری کےلیے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اس گلشن کو اپنے محبوب قائد صلّی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے بڑھاتے رہے۔ حتیٰ کہ وہ ساٹھ ہجری کا وقت آگیا جس کے متعلق حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”یہ میری امت کو قریش کے اوباش حکمران تباہ کریں گے ۔

اب ایک ظالم و جابر حکمران سامنے آتا ہے اور شریعت کی حدود کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے۔ شراب پینا شروع کردیا، زنا عام ہوگئی، قتل و غارت عام ہو گئی ، ظلم بڑھنے لگا ۔ اب یہ وقت تھا جب شہید کربلا امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہر طرف نظر آنے لگا ” کہ میری امت کو اوباش حکمران ہلاک کریں گے ۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ جب عربستان کی سر زمین پر معصوم بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، بت پرستی عام تھی، ویاج خوری عام تھی، زنا کو زندگی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے، جہالت و ظلم کی انتہا تھی ۔ ایسے پرفتن دور میں میرے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح توحید کا اعلان کیا تھا، میرے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کے بعد کس طرح ابولہب نے ناشائستہ کلمات کہے تھے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورہ لہب نازل فرمائی تھی۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کو طائف کے میدان میں کس طرح لہولہاں کردیا گیا تھا۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کی پہلی غلام عورت حضرت بیبی سمیہ رضی اللہ عنہا کو کس طرح ظالموں نے سرِعام شہید کر دیا تھا ۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو کس درخت کے ساتھ باندھ کر اور تیروں سے آپ کے جسم کو خون میں نہلایا گیا تھا ۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح اپنے صحابہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور کیا گیا تھا۔ اور ان تین سالوں میں کتنے معصوم بچے اسلام کی آبیاری کےلیے بھوکے پیاسے شہید ہوگئے تھے ، کتنی معصوم بچیاں پانی کے ایک گھونٹ کےلیے چلاتی چلاتی تڑپتی ہوئی حالت میں دم توڑ چلی تھیں۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح جنگ احد میں اپنے رب کریم کی توحید کی بلندی کےلیے اپنے دانت مبارک شہید کروادیے تھے ۔

یہ وہ منظر تھا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کے سامنے ہر وقت طواف کررہا تھا، اب جب ایک ظالم نے اس گلشن اسلام کی ویرانی کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو حضرت امام حسین کی روح تڑپ اٹھی، آنکھوں کے سامنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک تھا کہ عنقریب قریش کے اوباش حکمران میری امت کو ہلاک کردیں گے ۔

اس دینِ محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کےلیے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا تن من دھن، اپنا وطن، اولاد، مال، دولت ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ اور پھر وہ وقت بھی آگیا کہ جب تاریخ عالم نے دیکھا کہ ایک طرف ہزاروں لوگ جو بظاہر مسلمان تھے اپنے محبوب نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے کو بھوکا اور پیاسا دیکھتے خوشی محسوس کررہے تھے ۔ لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کو اور ان کے جان نثاروں کو پانی کا ایک گھونٹ پلانا ان کی نظر میں بڑا جرم تھا ۔ در حقیقت یہ مقام رضا تھا جہاں بڑے بڑے اولیاء اللہ بھی ڈگمگاتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا فیصلہ ہے کہ انسان کو بھوک، خوف، مال، ثمرات وغیرہ کی کمی سے آزمایا جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ انسان اپنے مالک حقیقی کی رضا پر راضی رہتا ہے یا نہیں ۔ لیکن تاریخ عالم نے دیکھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس مقام پر بھی رضا کا دامن نہیں چھوڑا اور جابر و ظالم کے سامنے اپنی گردن نہ جھکائی۔ اب وہ آخری مرحلہ مقام رضا بھی آ پہنچا جب حضرت امام عالی مقام کے سامنے آپ کے جان نثاروں کو ایک ایک کرکے شہید کیا گیا ۔ اور آخر وہ گھڑی بھی آگئی جب معصوم علی اصغر کی شہادت واقع ہوئی۔ لیکن اس صبر کے پہاڑ نے اپنے نانا محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کے دین کو مضبوطی کے ساتھ سنبھال کر رکھا۔ اور پھر یہ مرد مجاہد مرد غازی جس نے 72 نفوس قدسیہ کے ساتھ بالآخر خود بھی شہادت کا جام پی لیا ۔ اور اپنے نانا کے دین کے ساتھ ایسا رشتہ جوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا جس کا مثال تاریخ عالم میں ملنا محال ہے ۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بہت حدیثیں وارد ہوئی ہیں ۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے حضرت یعلیٰ بن مرہّ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا حُسَیْنُ مِنِّی وَ اَنَا مِنَ الْحُسَیْن حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔یعنی حسین رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حسین رضی اللہ عنہ سے انتہائی قرب ہے ۔ گویا کہ دونوں ایک ہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر ہے ۔ حسین رضی اللہ عنہ سے دوستی حضور سے دوستی ہے ۔ حسین رضی اللہ عنہ سے دشمنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دشمنی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ سے لڑائی کرنا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے لڑائی کرنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں اَ حَبَّ اللّٰہُ مَنْ اَ حَبَّ حُسَیْنَا جس نے حسین سے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی ۔ (مشکوٰۃ صفحہ 571)

اس لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محبت کرنا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محبت کرنا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ہے ۔ ( مرقاۃ شرح مشکوٰۃ صفحہ 605)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جسے پسند ہو کہ کسی جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے تو وہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو دیکھے ۔ (نور الابصار صفحہ 114،چشتی)

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا چھوٹا بچہ کہاں ہے ؟ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دوڑے ہوئے آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گود میں بیٹھ گئے اوراپنی انگلیاں داڑھی مبارک میں داخل کر دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کا منہ کھول کر بوسہ لیا اور فرمایا۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُحِبُّہُ فَاَحِبَّہُ وَ اَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہ‘ ’’ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور اُس سے بھی فرما جو اس سے محبت کرے ۔ (نور الابصار صفحہ 114،چشتی)

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صرف دنیا والوں ہی سے نہیں چاہا کہ وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کریں بلکہ خدائے تعالیٰ سے بھی عرض کیا کہ تو بھی اس سے محبت فرما ۔ اور بلکہ یہ بھی عرض کیا کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت فرما۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا کہ وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لعابِ دہن ( رال، تھوک) کو اس طرح چوستے ہیں جیسے کہ آدمی کھجور چوستا ہے۔ یَمْتَصُّ لُعَابَالْحُسَیْن کَمَا یَمْتَصُ الرَّجُلُ التَّمَرَۃَ ۔ (نور الابصار صفحہ 114)

حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما کعبہ شریف کے سایہ میں تشریف فرما تھے انہوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو تشریف لاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ۔ ھَذَا اَحَبُّ اَھْلِ الْاَرْضِ اِلیٰ اَھْلِ السَّمَآ ءِ الْیَوْمَ ۔ آج یہ آسمان والوں کے نزدیک تمام زمین والوں سے زیادہ محبوب ہیں ۔ (اشرف لمؤیہ، صفحہ 65)

حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا۔ اَلَحَسَنَُ وَ الْحُسَیْنُ سَیَّدَ شَبَابِ اَھْلِ الْجَنّۃَ حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ 570)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا۔اِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنُ ھُمٰا رُ یُحَانِیْ مِنَ الدُنْیَا حسن اور حسین دنیا کے میرے دو پھول ہیں ۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ 570)

اس حدیث پاک کی ترجمانی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے پیارے انداز میں فرمائی ہے :

کیا بات ہے رضا اس چمنستان کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسین اورحسن پھول

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ کے ایک کندھے پر حضرت حسن کو اور دوسرے کندھے پر حضرت حسین کو اُٹھائے ہوئے تھے یہاں تک کہ ہمارے قریب تشریف لے آئے اور فرمایا ھَذَانِ اِبْنَا یَ وَ اِبْنَا اِبْنَتِی یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں۔ اور پھر فرمایا اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُحِبُّہمَاُ فَاَحِبَّہمَاُ وَ اَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہمَا اے اللہ ! میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی ان کو محبوب رکھ اور جو ان سے محبت کرتا ہے ان کو بھی محبوب رکھ ۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ 570)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ ایک کندھے پر حضرت حسن کو اور دوسرے کندھے پر حضرت حسین کو اٹھائے ہوئے تھے یہان تک کہ ہمارے قریب تشریف لے آئے اور فرمایا مَنْ اَ حَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضُھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ جس نے ان دونوں سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۔ (اشرف المؤیہ صفحہ 71،چشتی)

ایک دن نبی کریم علیہ السلام اپنی بیٹی حضرت خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدہ کونین نے عرض کی ابا جان آج صبح سے میرے دونوں شہزادے حسن و حسین گم ہیں اور مجھے کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ ابھی حضور علیہ السلام نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام فوراً حاضر خدمت ہوئے اور عرض کی یا رسو ل علیہ السلام انھما فی مکانٍ کدا وکدا و قد وکل بھما ملک یحفظھما یعنی دونوں شہزادے فلاں مقام پر لٹیے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ان کی حفاظت کے لئے ایک فرشتہ مقرر کر دیا ۔ حضرت زہرا ء سے فرما دو کہ وہ پریشان نہ ہووے ۔ پس حضور علیہ السلام اس مقام پر گئے تو دونوں شہزادے آرام کر رہے تھے اور فرشتے نے ایک پر نیچے اور دوسرا اوپر رکھا ہوا تھا ۔ ( نزہۃالمجالس جلد 2صفحہ 233)،(مشکٰوۃ شریف صفحہ570،چشتی)،(ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 218)

یتیموں سے اور مسکینوں سے حسن سلوک اور شفقت و محبت کا معاملہ رکھنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کی بشارت دی ہے جو بہت بڑا انعام و اکرام ہے ۔ ربِ کائنات کا ارشاد گرامی ہے (پارہ 29 رکوع 19) اپنی منتیں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی پھیلی ہوئی ہے اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر (یعنی ایسی حالت میں جب کہ خود انہیں کھانے کی حاجت و خواہش ہو) مسکین اور یتیم اور قیدی کو ان سے کہتے ہیں ہم تمہیں خاص اللہ کے لئے کھانا دیتے ہیں تم سے کوئی بدلہ یا شکر گذاری نہیں مانگتے۔ بیشک ہمیں اپنے رب سے ایک ایسے دن کا ڈر ہے جو بہت ترش نہایت سخت ہے تو انہیں اللہ نے اس دن کے شر سے بچا لیا اور انہیں تازگی اور شادمانی دی ۔

ان آیات کریمہ کا شانِ نزول یہ ہے حضرت حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ایک موقع سے بیمار پڑگئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کی کنیزفَضّہ نے ان کی صحت کے لئے تین روزوں کی منت مانی۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت دی اور نذر (منت) کی وفا کا وقت آیا تو سب نے روزے رکھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک یہودی سے تین صاع جو لائے۔ حضرت خاتونِ جنت نے ایک ایک صاع تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھی گئیں تو پہلے روز مسکین دوسرے روز یتیم اورتیسرے روز قیدی نے آکر سوال کر دیا تو تینوں روز ساری روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں تو پہلے روز صرف پانی سے افطار کر کے اگلا روزہ رکھ لیا گیا تو ان کا یہ عمل ربِ کائنات کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہوا کہ یہ آیات کریمہ ان کی شان و عظمت اور ان کے حق میں نازل ہوئیں جن میں انہیں بڑے انعام و اکرام اور جنت کی بشارت دی گئی ہے تو یہ آیات کریمہ اگر چہ مخصوص لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں جن میں انہیں بڑے انعام و اکرام اور جنت کی بشارت دی گئی ہے لیکن ان میں عام مومنوں کے لئے تعلیم ہے کہ اگر وہ بھی مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں سے حسن سلوک اور شفقت و محبت کریں تو انہیں بھی طرح طرح کے انعام و اکرام اور جنت سے سرفراز کیا جائے گا اور رب کائنات انہیں بھی آخرت کی پریشانیوں سے محفوظ اور جنت کی راحتوں سے لبریزکرے گا ۔ (تفسیر طبری،تفسیر کبیر،تفسیر روح البیان)

آپ کی شہادت کی شہرت

سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت بھی شہرتِ عام ہو گئی۔ حضرت علی ، حضرت فاطمہ زہرا اور دیگر صحابہِ کبار و اہلِ بیت کے جان نثار رضی اللہ عنہما سبھی لوگ آپ کے زما نۂ شیر خوارگی ہی میں جان گئے کہ یہ فرزند ارجمند ظلم و ستم کے ہاتھوں شہید کیا جائے گا اور ان کا خون نہایت بے دردی کے ساتھ زمین کربلا میں بہایا جائے گا۔ جیسا کہ ان احادیث کریمہ سے ثابت ہے جو آپ کی شہادت کے بارے میں وارد ہیں۔حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک روز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہو کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گود میں دیا پھر میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مبارک آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا حال ہے ؟ فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے یہ خبر پہنچائی کہ اِنَّ اُمَّتِیْ سَتَقْتُلْ اِبْنِی میری امت میرے اس فرزند کو شہید کرے گی حضرت اُم الفضل فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! کیا اس فرزند کو شہید کرے گی! حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہاں پھر حضرت جبرئیل میرے پاس اس کی شہادت گاہ کی سرخ مٹّی بھی لائے ۔ (مشکوٰۃ صفحہ 572،چشتی)

اور ابن سعد اور طبرانی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اِنَّ اِبْنِیْ اَلْحُسَیْنُ یُقْتَلْ بَعْدِ بِاَرْضِ الطَّفِ میرا بیٹا میرے بعد ارضِ طِف میں قتل کیا جائے گا ۔ اور جبرائیل میرے پاس وہاں کی مٹی بھی لائے اور مجھ سے کہا کہ یہ حسین کی خوابگاہ (متقل) کی مٹی ہے ۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 118،چشتی)

طف قریب کوفہ اس مقام کا نام ہے جس کو کربلا کہتے ہیں ۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضری دینے کے لئے اللہ سے اجازت طلب کی جب وہ فرشتہ اجازت ملنے پر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا تو اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گود میں بیٹھ گئے تو آپ ان کو چومنے اور پیار کرنے لگے۔ فرشتے نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! کیا آپ حسین سے پیار کرتے ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا اِنَّ اُمَّتَکَ سَتَقْتُلْہ‘ آپ کی امت حسین کو قتل کر دے گی۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان کی قتل گاہ کی (مٹی) آپ کو دکھا دوں۔ پھر وہ فرشتہ سرخ مٹی لایا جسے اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے کپڑے میں لے لیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے ام سلمہ ! جب یہ مٹی خون بن جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک شیشی میں بند کر لیا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن خون ہو جائے گی ۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 118)

اور ابن سعدحضرت شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ صفین کے موقع پر کربلا سے گذر رہے تھے کہ ٹھہر گئے اور اس زمین کا نام پوچھا لوگوں نے کہا اس زمین کا نام کربلا ہے کربلا کا نام سنتے ہی آپ اس قدر روئے کہ زمین آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔ پھر فرمایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں ایک روز حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رو رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا ابھی میرے پاس جبرائیل آئے تھے ا نہوں نے مجھے خبر دی اِنَّ وَلَدِیْ الْحُسَیْنَ یُقْتَلْ بِشَاطِیَّ الْفُرٰتِ بِمَوْ ضِعٍ یْقَالُ لَہ‘ کَرْبَلَاءِ میرا بیٹا حسین دریائے فرات کے کنارے اس جگہ شہید کیا جائے گا جس کو کربلا کہتے ہیں۔ اور ابونعیم اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر گاہ سے گذرے تو آپ نے فرمایا یہ شہیدوں کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے اور اس مقام پر کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کے خون بہائے جائیں گے ۔ آلِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بہت سے جوان اسی میدان میں شہید کئے جائیں گے اور زمین و آسمان ان پر روئیں گے۔(مشکواۃ شریف صفحہ 572)(خصائص کبریٰ جلد 2 صفحہ 126،چشتی)

آپ کی فضیلت کےلیے یہ ہی کافی ہے کہ امام الانبیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں اسی دنیا میں نہ صرف جنَّتی ہونے کی بشارت دی بلکہ نوجوان جنَّتیوں کا سردار قرار دیا۔ اور ان کی محبت کو ایمان کا حصّہ بتاتے ہوئے یہ فرمایا کہ ’’ اے خدا میں حسین سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور جو کوئی حسن و حسین سے محبت رکھے ان سے تو بھی محبت فرما ‘‘ بے شک ہر مسلمان ان سے محبت رکھتا ہے اور محبت کی سب سے بڑی علامت ( نشانی) یہی ہے کہ ہر نماز میں درود شریف میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ان کے آل و اولاد پر بھی درود بھیجتا ہے ۔

معرکہ حق و باطل اور حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ

حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت سے معرکہ حق و باطل جو کربلا میں رونما ہوا اس نے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد 56 ہجری میں یزید ولی عہد مقرر ہوا اس کے خلیفہ بنتے ہی طوائف الملوکی شروع ہو گئی اور اسلامی خلافت کے بجائے بادشاہیت و آمریت نے پنجہ گاڑنا شروع کر دیا۔ تو افضل الجہاد کی نظیر پیش کرتے ہوئے کہ ظالم و جابر کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے اسکی عملی تصویر بن کر امام حسین رضی اللہ عنہ دین اسلام کی سر بلندی کی خاطر اُٹھ کھڑے ہوئے کہ دین حق دین اسلام اس طریقہ کا داعی نہیں یہ اسلامی روح کے خلاف ہے اور یہ پیغام دیا کہ مومن حکومت و سلطنت ظلم و جبر اور طاقت و قوت کے آگے ہتھیار نہیں ڈال سکتا ہے اور یزیدکی امارت و بیعت کا انکار کرتے ہوئے اس کی اطاعت قبول نہ فرمائی اس کی بیعت کو ٹھکرا دیا۔اور یہ اعلان کر دیا کہ :

مرد حق باطل سے ہرگز خوف کھا سکتا نہیں
سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں

آپ کو یزیدی لشکر کے خطرناک عزائم کا انکشاف ہوا تو حُرمت کعبہ کی خاطر وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا اسی درمیان کوفیوں کے ہزاروں عقیدت بھرے خطوط ملے مگر آپ ان پر کیسے بھروسہ کرتے چونکہ ان ہی لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کیاتھا۔ اسلئے تحقیق کے خاطر اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو وہاں بھیجا انکے ہاتھ پر اٹھارہ ہزار لوگوں نے ( ایک روایت میں 27000 لوگ) بیعت کئے اس کو دیکھ کر حضرت مسلم نے حضرت امام حسین کو آنے کے لئے اجازت (خط لکھ دیا) دی تو آپ کوفہ کے لئے عازمِ سفر ہوئے تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ و حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ ودیگر صحابہ نے آپ کو کوفہ جانے سے منع فرمایا لیکن آپ نے دین حق کی خاطر جان کی قربانی کیلئے بھی ذرا سی لرزش نہ دیکھائی، یزید کے گورنر عبید اللہ بن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیل کیلئے زمین تنگ کر دی اور انہیں بے دردی سے شہید کر دیا۔ یہ خبر امام حسین رضی اللہ عنہ کو ملی یہ ایک اندوہناک خبر تھی آپ کو زبردست صدمہ پہنچا واپسی پر نظر ثانی کیا بھی جا سکتا تھا۔ مگر حضرت مسلم ان کے خویش و اقارب جو وہاں موجود تھے انہیں یہ گوارا نہیں تھا۔ اس لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی واپسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے خود ہی اپنے قافلہ کے لوگوں کو یہ اجازت دے دی تھی کہ جسے واپس جانا ہے وہ چلا جائے۔ یہ سن کر صرف دو حضرات چھوڑ کر چلے گئے۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ حربن یزید نے ایک لشکر جرار کے ساتھ آپ کو محصور کر لیا تاکہ والی عراق عبداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا جائے ۔ اسی دوران نماز ظہر کا وقت ہو گیا ۔ آپ نے نماز ادا فرمائی بعد نماز حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ کے ذریعہ حر اور اسکے ساتھیوں (فوج) کے سامنے پوری بات رکھی۔ خطوط اور قاصدوں کا حوالہ دیا۔ حر حیران ضرور ہوا مگر اس نے خطوط کے متعلق لا علمی ظاہر کی اور اس نے آپ کے قافلہ کو روک لیا۔ یہاں بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ دیا جو تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے : (ترجمہ) اے لوگو ! رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ جو کوئی بھی ایسے حاکم کو دیکھے کہ ظلم کرتا ہے ۔ خدا کے حدود کو توڑتا ہے۔ سنتِ نبوی کی مخالفت کرتاہے اور سر کشی سے حکومت کرتا ہے اور اسے دیکھنے پر بھی کوئی مخالفت نہیں کرتا ہے اور نہ اسے روکتا ہے تو ایسے آدمی کا اچھا ٹھکانہ نہیں ہے۔ دیکھو ! یہ لوگ شیطان کے پیرو کار ہیں ۔ رحمٰن سے بے سروکار ہیں حدود الٰہی معطل ہے۔ حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرایاجارہا ہے۔ میں ان کی سر کشی کو حق اور عدل سے بدل دینا چاہتا ہوں اور اس کے لئے میں سب سے زیادہ حقدار بھی ہوں۔ اگر تم اپنی بیعت پر قائم رہو تو تمہارے لئے ہدایت ہے ورنہ عہد شکنی عظیم گناہ ہے۔ میں حسین ہوں۔ ابن علی، ابن فاطمہ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جگر گوشہ مجھے اپنا قائد بناؤ مجھ سے منھ نہ موڑو، میرا راستہ نہ چھوڑو، یہ صراطِ مستقیم کا راستہ ہے اس حقیقت افروز خطبہ کا لوگوں پر کافی اثر ہوا لیکن لالچ اور خوف کی و جہ کر چپ رہے۔ ۹؍ محرم الحرام کی رات کا وقت تھا آپ رات بھر عبادت میں مشغول رہے صبح دس محرم کی تاریخ آگئی دونوں اطراف میں صف آرائی ہو رہی تھی ۔ نماز فجرکے بعد عمرو بن سعد اپنی فوج لے کر نکلا، ادھر امام حسین رضی اللہ عنہ بھی اپنے احباب کے ساتھ تیار تھے۔ آپ کے ساتھ 72 نفوس قدسیہ جس میں بچے بوڑھے خواتین بھی شامل تھیں دوسری جانب 90 ہزار کا لشکر جرار تمام حرب و ہتھیار سے لیس تھے۔ آپ نے جس جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ جس طرف رخ کرتے یزیدی فوج بھیڑیوں کی مانند بھاگ کھڑی ہوتی۔ معاملہ بہت طویل ہوگیا۔ معصوم اورشیر خوار بچے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے لگے ، خیمے جلا دیئے گئے ، بھوکے پیاسے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدان کربلا میں صبر کا پہاڑ بن کر جمے رہے، یزیدی دور سے تیر برساتے رہے اور پھر ایک مرحلہ آیا کہ بدبخت شمر ذی الجوشن جب قریب آیا تو آپ پہچان گئے کہ یہی سفید داغ والا وہی بدبخت ہے جس کے بارے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اپنے اہل بیت کے خون سے اس کے منہ کو رنگتا دیکھتا ہوں ۔ اور وہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی شمرلعین کے لئے بدبختی ہمیشہ کے لئے مقدر بن گئی ادھر امام حسین رضی اللہ عنہ سجدہ میں گئے اورشمر کی تلوار نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی گردن مبارک کو تن سے جدا کر دیا وہ یومِ عاشورہ جمعہ کا دن تھا ماہِ محرم الحرام 61 ؁ ھ میں یہ واقعہ پیش آیاآیا اس وقت امام حسین رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک 55 سال کے قریب تھی ۔

پیغامِ شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ

سید الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے اول یہ کہ ایمان والا اپنے خون کے آخری قطرہ تک حق پر صداقت پر جما رہے باطل کی قوت سے مرعوب نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی جن خرابیوں کے باعث مخالفت کیا ویسے لوگوں سے اپنے آپ کو الگ کرے اور فسق و فجور والا کام نہ کرے اور نہ ویسے لوگوں کا ساتھ دے نیز یہ بھی پیغام ملا کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات نیک لوگ ظاہری طور پر مات کھا جاتے ہیں مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی مات نہیں کھاتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔ یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام کا سرمایہ حیات یزیدیت نہیں بلکہ شبیریت حسینیت ہے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہادت امتِ مسلمہ کے لئے کئی پہلو سے عملی نمونہ ہے ، جس پر انسان عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو اسلامی طرز پر قائم رکھے اسلامی زندگی اسلامی رنگ و روپ کی بحالی کیلئے صداقت حقانیت جہد مسلسل اور عمل پیہم میں حسینی کردار اور حسینی جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار ہو۔ اقتدار کی طاقت جان تو لے سکتی ہے ایمان نہیں۔ اگر ایمانی طاقت کارفرما ہو تو اسکے عزم و استقلال کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ لندن کے مشہور مفکر ’’ لارڈ ہیڈلے ‘‘ کے بقول ’’ اگر حسین میں سچا اسلامی جذبہ کارفرما نہ ہوتا تو اپنی زندگی کے اخری لمحات میں رحم و کرم، صبر و استقلال اور ہمت و جوانمردی ہرگز عمل میں آ ہی نہیں سکتی تھی جو آج صفحہ ہستی پر ثبت ہے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت سیّدنا اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے کیونکہ پنڈت جواہر لا ل نہرو کے بقول ’’ حسین کی قربانی ہر قوم کے لئے مشعلِ راہ و ہدایت ہے ‘‘ اور جیسا کہ مولانا محمد علی جوہر نے شہادت حسین پہ کہا ہے کہ : ⬇

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اور کسی شاعر نے بہت پیاری بات کہی ہے :

نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ وہ ظلم ابن زیاد کا
جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا

ایک اور شاعر نے کہا :

شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دیں است حسین دیں پناہ است حسین

سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقّا کہ بنائے لا الٰہ است حسین

ترجمہ : شاہ بھی حسین ہیں ، بادشاہ بھی حسین  ہیں ، دین بھی حسین ہیں دین کی پناہ بھی حسین ہیں ۔ سر دے دیا لیکن یزید کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا سچ یہ ہے کہ کلمہ ٔ طیبہ کی بنیاد بھی حسین ہیں ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔

اس مبنی بر حقیقت رباعی میں عظمتِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صراحت کے ساتھ ساتھ یزید کے کردار اور لادینی افکار کی طرف اشارہ موجود ہے ۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق ہے اور یزید باطل ہے اور دین کی بقا کےلیے ہر دور میں شبیری کردار درکارہے کہ مرورِ وقت کے باوجود خونِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرخی اور زیادہ بڑھتی جارہی ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس عظیم الشان قربانی سے اس داستانِ حرم کی تکمیل ہوئی جو سیّدنا اسماعیل علیہ السّلام سے شروع ہوئی تھی اور حق وباطل ، کفر واسلام ، نیکی و بدی اورخیر وشر کے درمیان تمیز ہو گئی اور حدِ فاصل قائم ہوگئی ۔ یزیدیت مذموم ٹھہری اور یزید کانام قیامت تک کےلیے گالی بن کر رہ گیا ۔

حضرت امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل و حال و قال میں شامل کرلیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے ۔

یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی، مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتا تھا، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں، میں مسلمان بھی ہوں، میں موحد بھی ہوں، میں حکمران بھی ہوں، میں آپ کا خیر خواہ بھی ہوں۔ اسلام کا انکار یہ تو ابوجہلی ہے، ابولہبی ہے۔ یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے، امانت کی دعویٰ بھی ہو اور خیانت بھی کی جائے، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت بھی مسلط کی جائے۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے۔ اسلام سے دھوکہ فریب یزیدیت کا نام ہے۔ بیت المال میں خیانت کرنا، دولت کو اپنی عیش پرستی پر خرچ کرنا یزیدیت کا نام ہے۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے مال کو ہڑپ کرنا یزیدیت کا نام ہے۔ مخالف کو کچلنا اور جبراً بیعت اور ووٹ لینا یزیدیت کا نام ہے ۔

آج روحِ حسین رضی اللہ عنہ ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ ”میری محبت کا دم بھرنے والوں میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہے یا پھر آج تم کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں پھر تم آج کے وقت یزیدیوں کو للکارتے ہو یا نہیں۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے، آج تمہارے صبر و استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے۔ کہ کون اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے ۔

حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے حسینی لشکر کے غلام و فرد بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو۔ اس کےلیے اگر تمہیں مال، جان، اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے ۔

پہلے حسینی کردار کی تجلی اپنے اندر پیدا کرو، سیرت حسین کو اپنے سینے پہ سجالو، پھر اس قوت حسینی سے یزیدی کردار کی مخالفت کرو اور اس کا مقابلہ کرو۔ کاش ہمیں وہ دل نصیب ہو جائے جس میں عمل و محبت حسین رضی اللہ عنہ ہو ۔ کیوں کہ یہ دنیا تو ہر کسی کو چھوڑنی ہے ، جس نے اقتدار کے نشے میں اگر لوگوں کا قتل عام کیا ، معصوموں کا خون بہایا ، ظلم کے پہاڑ گرائے وہ بھی مرگیا، جس نے اپنے سینے پر تیروں کو جگہ دی، شریعت کی پیروی کی ، مخلوق کی خدمت کی وہ بھی چلا گیا۔ لیکن یزیدیت تباہی و بربادی کا نام ہے ، اور حسینیت محبت و اخوت و بہادری کا نام ہے۔ جو ظالم ہوکر مرتا ہے وہ خالق و مخلوق کی نظر میں مردود ہے ۔ جو عادل ہوکر اپنی جان رب کریم کے حوالے کرتا ہے وہ مقبول ہو جاتا ہے ۔ یہی شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کا فلسفہ تھا ۔ یہی آپ کا جذبہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی ۔ وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیغام و مقصد کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمیں شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سے سبق لینے اور حق پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday, 27 August 2020

احترام و خدمتِ ساداتِ کرام کے انعامات

احترام و خدمتِ ساداتِ کرام کے انعامات
محترم قارئینِ کرام : یقین جانیئے فقیر درِ اہلبیت رضی اللہ عنہم ڈاکٹر فیض احمد چشتی کو ان واقعات نے کئی بار رولایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اصلی سادات جو نمود و نمائش سے دور رہتے ہیں کا احترام و خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔

ایک سیّد زادی کا دل کو ہلا دینے والا واقعہ

عراق میں ایک سید گھرانہ تھا گھر میں ایک سید زادی اور اس کے بچے تھے خاوند کا انتقال ہوچکا تھا سید زادی بچو کو ساتھ لئے روزی اور پناہ کی تلاش میں عراق سے ثمر قند آگئی ثمر قند آ کر سید زادی نے لوگوں سے دریافت کیا کہ شہر میں کون زیادہ سخی ہے جو ہم کو پناہ دے دیں لوگو نے بتایا کے شہر میں دو ہی سخی ہیں ایک حاکم وقت جو مسلمان ہے دوسرا پادری ہے جو آگ کی عبادت کرتا ہے ۔ سید زادی نے سوچا کے پادری تو مسلمان نہیں وہ کیا پناہ دے گا حاکم کے پاس چلتے ہیں سید زادی بچوں کو لے کر مسلمان حاکم کے پاس آئی اور کہنے لگی میں آل رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہوں میرے خاوند کا انتقال ہوگیا ہے میں بے بس ہوں مجھے پناہ چاہئیے حاکم وقت نے جواب دیا تہمارے پاس کوئی ثبوت کوئی سند ہے کہ تم آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہو آج کل ہر کوئی کہتا ہے کے میں سید ہوں ؟ سید زادی نے جواب دیا میرے پاس تو کچھ بھی نہیں آپ کو دیکھانے کے لئے ۔ حاکم وقت بولا میرے پاس کوئی پناہ نہیں ایرے غیرے کے لئے جواب ملنے پر سید زادی پادری کے دروازے پے آئی ۔ سید زادی نے بتایا کے میں سید زادی ہو آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوں ۔ میرا خاوند انتقال کر گیا ہے میرے ساتھ میرے بچے بھی ہے مجھے پناہ چاہئیے ۔ پادری نے اپنی بیوی کو آواز دی ان کو عزت کے ساتھ گھر لے آؤ ۔ پادری نے سید زادی اور اسکے بچو کو کھانا کھلایا رہنے کہ لئے چھت دی ۔ آدھی رات ہوئی حاکم وقت جب سو گیا تو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایک سونے کے محل کے سامنے تشریف فرما دیکھا ۔ حاکم وقت نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ کس کا محل ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا یہ ایک ایمان والے کا گھر ہے حاکم وقت کہنے لگا میں بھی ایمان والا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تیرے پاس ایمان کا کوئی ثبوت کوئی سند ہے تو دکھا دو ۔ حاکم وقت کانپنے لگا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا میری بیٹی تیرے پاس آئی تو نے اسے سند مانگی دور ہوجا میری نظروں سے ۔ حاکم وقت جب بیدار ہوا اپنے بال نوچنے لگا پچھتانے لگا جلدی سے ننگے سر پاوں پادری کے گھر پر آدھی رات کو دستک دی ۔ پادری جب باہر آیا حاکم وقت کہنے لگا تو وہ مہمان مجھے دے دیں ۔ میں تجھے تین سو دینار دیتا ہوں پادری نے کہا تم مجھے ساری دنیا کی دولت بھی دو تب بھی نہیں ۔ اور جو تم خواب دیکھ کر آئے وہی خواب میں نے بھی دیکھا ہے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اپنی نظروں سے دور کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے میری بیٹی کو سر ڈھانپنے کے لیے جگہ دی اور کھانا کھلایا آج میں نے تمہیں اور تمہارے خاندان کو بخش دیا ۔ میرا سارا خاندان کلمہ پر ایمان لا چکا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا اے پادری تم نے میری بیٹی کو پناہ دی ۔ جا تہمارا سارا خاندان جنتی ہے ۔ پادری نے حاکم وقت سے کہا ۔ جا چلا جا دیکھے ہوئے اور اندیکھے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ میں نے بند آنکھوں کا سودا کیا ۔ (خطبات محرم مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)

ایک بوسیدہ کپڑوں میں ملوث سید زادی چاقو سے خچر گوشت کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر ایک زنبیل میں رکھ رہی تھی

ربیع بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں حج کے لیے جا رہا تھا، میرے ساتھ میرے ساتھی بھی تھے… جب ھم کوفہ پہنچے ، تو وہاں ضروریاتِ سفر خریدنے کے لیے بازاروں میں گھوم رہا تھا کہ دیکھا… ایک ویران سی جگہ میں ایک خچر مرا ہوا تھا اور ایک عورت جس کے کپڑے بہت پرانے بوسیدہ سے تھے، چاقو لیے ہوئے اُس کے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر ایک زنبیل میں رکھ رہی تھی… مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ مردار گوشت لے جا رہی ہے، اس پر سکوت ہر گز نہیں کرنا چاہیے، شاید یہ عورت لوگوں کو یہ ہی پکا کر کھلاتی ہو… سو میں چپکے سے اس کے پیچھے ہو لیا، اس طرح کہ وہ مجھے نہ دیکھے… وہ عورت ایک بڑے مکان میں پہنچی جس کا دروازہ بھی اونچا تھا… اس نے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے آواز آئی کون ہے…؟ اس نے کہا کھولو، میں بد حال ہوں، دروازہ کھولا گیا اور گھر میں چار لڑکیاں نظر آئیں، جن کے چہرے سے بد حالی اور مصیبت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے، وہ عورت اندر آ گئی اور زنبیل اُن لڑکیوں کے سامنے رکھ دی…میں کواڑوں کی درزوں سے جھانک رہا تھا، میں نے دیکھا اندر سے گھر بلکہ برباد اور خالی تھا…اُس عورت نے روتے ہوئے لڑکیوں سے کہا :” اِس کو پکا لو اور اللہ کا شکر ادا کرو “وہ لڑکیاں گوشت کاٹ کاٹ کر اُس کو آگ پر بھوننے لگیں… مجھے بہت تکلیف ہوئی…میں نے باہر سے آواز دی… اے اللہ کی بندی! اللہ کے واسطے اِس کو نہ کھا… وہ کہنے لگی تُو کون ہے…؟ میں نے کہا : میں ایک پردیسی آدمی ہوں…! اُس نے جواب دیا : تُو ھم سے کیا چاہتا ہے… ؟ 3 سال سے نہ ھمارا کوئی معین اور نہ کوئی مدد گار ہے، تو کیا چاہتا ہے … ؟“میں نے کہا : مجوسیوں کے ایک فرقہ کے سِوا مردار کا کھانا کسی مزہب میں جائز نہیں…! وہ کہنے لگی : ” ھم خاندانِ نبوت کے شریف (سید) ہیں… اِن لڑکیوں کا باپ بڑا شریف آدمی تھا، وہ اپنے ہی جیسوں سے اِن کا نکاح کرنا چاہتا تھا… لیکن نوبت نہ آئی، اُس کا انتقال ہو گیا، جو ترکہ اس نے چھوڑا تھا ، وہ سب ختم ہو گیا… ھمیں معلوم ہے کہ مردار کھانا جائز نہیں، لیکن اضطرار میں جائز ہوتا ہے… ھمارا چار دن کا فاقہ ہے… “ربیع کہتے ہیں … اس کے حالات سُن کر میں بے چین ہو گیا اور اپنے ساتھیوں سے آکر کہا :” میرا تو حج کا ارادہ نہیں رہا “ سب نے سمجھایا، لیکن میں نے کسی کی نہیں سنی… میں نے اپنے کپڑے اور احرام کی چادریں اور جو سامان میرے ساتھ تھا، وہ سب لیا اور نقد چھ سو درم تھے وہ لیے اور ان میں سے سو درم کا آٹا خریدا اور باقی درم آٹے میں چُھپا کر اُس بڑھیا کے گھر پہنچا اور یہ سب سامان اور آٹا وغیرا اس کو دے دیا…” اس نے شکریہ ادا کیا اور کہنے لگی … اے ابنِ سلیمان! اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ معاف کرے اور تجھے حج کا ثواب عطا کرے اور اپنی جنت میں تجھے جگہ عطا فرمائے اور ایسا بدل عطا فرمائے جو تجھے بھی ظاھر ہو جائے… “ربیع کہتے ہیں… حج کا قافلہ روانہ ہو گیا، میں اُن کے استقبال کے لیے کوفہ ہی رُکا رہا تا کہ اُن سے اپنے لیے دعا بھی کرواؤں … جب حجاج کا ایک قافلہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزرا تو مجھے اپنے حج سے محروم رہ جانے پر بہت افسوس ہوا اور رنج سے میرے آنسو نکل آئے … جب میں اُن سے ملا تو میں نے کہا…” اللہ تعالٰی تمہارا حج قبول کرے اور تمہارے اخراجات کا تمہیں بدلہ عطا فرمائے… “اُن میں سے ایک نے کہا کہ یہ کیسی دُعا ہے …؟ میں نے کہا : اُس شخص کی دعا جو دروازہ تک کی حاضری سے محروم ہو… وہ کہنے لگے بڑے تعجب کی بات ہے، اب تُو اِس سے بھی انکار کرتا ہے کہ تُو ہمارے ساتھ عرفات کے میدان میں نہ تھا…؟ تُو نے ھمارے ساتھ رمی جمرات نہیں کی…؟ تُو نے ہمارے ساتھ طواف نہیں کیے…؟ میں اپنے دل میں سوچنے لگا : یہ اللہ کا لُطف ہے… اتنے میں میرے شہر کے حاجیوں کا قافلہ آ گیا … میں نے کہا : اللہ تعالٰی تمہاری سعی مشکور فرمائے، تمہارا حج قبول فرمائے… وہ بھی کہنے لگے : تُو ہمارے ساتھ عرفات میں نہیں تھا…؟ رمی جمرات نہیں کی تُو نے ہمارے ساتھ…؟ اب تو انکار کر رہا ہے… اُن میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور کہنے لگا : بھائی انکار کیوں کرتے ہو…؟ تم ہمارے ساتھ مکہ میں نہیں تھے یا مدینہ میں نہیں تھے…؟ جب ھم قبر اطہر کی زیارت کر کے بابِ جبرئیل سے باہر کو آ رہے تھے، اُس وقت اژدھام کی کثرت کی وجہ سے تم نے یہ تھیلی میرے پاس امانت رکھوائی تھی…” جس کی مہر پر لکھا ہوا ہے… مَن عَاملَنَا رَبَحَ (جو ہم سے معاملہ کرتا ہے، نفع کماتا ہے) “ اس نے کہا یہ لو اپنی تھیلی واپس… ربیع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، میں نے اُس تھیلی کو کبھی اس سے پہلے دیکھا بھی نہ تھا… اس کو لے کر میں گھر واپس آیا، عشاء کی نماز پڑھی… اپنا وظیفہ پورا کیا… اِسی سوچ میں جاگتا رہا کہ آخر یہ قصہ کیا ہے…؟ اِسی کشمکش میں آنکھ لگ گئی، تو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خواب میں زیارت کی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا…” اے ربیع! آخر ھم کتنے گواہ اِس پر قائم کریں کہ تُو نے حج کیا ہے…؟ تُو مانتا ہی نہیں، بات یہ ہے کہ جب تُو نے اُس عورت پر جو میری اولاد میں سے تھی، خرچ کیا اور اپنا حج کا ارادہ ملتوی کیا، تو اللہ نے اس کا نعم البدل تجھے عطا فرمایا…” اللہ نے ایک فرشتہ تیری صورت بنا کر، اُس کو حکم دیا کہ وہ قیامت تک ہر سال تیری طرف سے حج کیا کرے اور دنیا میں تجھے یہ عوض دیا کہ چھ سو درم کے بدلے چھ سو دینار (اشرفیاں) عطاء کیں… “ربیع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، جب میں سو کر اٹھا تو اس تھیلی کو کھول کر دیکھا تو اس میں چھ سو اشرفیاں موجود تھیں ۔ (رفیق الحرمین صفحہ نمبر ۲۸۷ تا ۲۹۲،چشتی)

احترامِ اہلبیت رضی اللہ عنہم اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ

جُنید بَغْدادی رحمۃ اللہ علیہ (شروع میں) خلیفہ بغداد کے درباری پہلوان اور پوری مُملکت کی شان تھے ۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا کہ چوبدار نے اطلاع دی کہ صحن کے دروازے پر صبح سے ایک لاغَر و نیم جان شخص برابر اِصرار کررہا ہے کہ میرا چیلنج جُنید رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا دو ، میں اس سے کُشتی لڑنا چاہتا ہوں ۔ لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی مگر خلیفہ نے درباریوں سے باہمی مشورہ کے بعد کُشتی کے مقابلے کیلئے تاریخ و جگہ مُتَعَیَّن کردی ۔
انوکھی کشتی مقابلے کی تاریخ آتے ہی بَغداد کا سب سے وسیع میدان لاکھوں تماشائیوں سے کھچا کھچ بھر گیا ۔ اعلان ہوتے ہی حضرت جُنید بَغْدادی رحمۃ اللہ علیہ تیار ہوکر اَکھاڑے میں اُتر گئے ۔ وہ اجنبی بھی کمر کَس کر ایک کنارے کھڑا ہوگیا ۔ لاکھوں تماشائیوں کیلئے یہ بڑا ہی حیرت انگیز منظر تھا ،ایک طرف شُہرت یافتہ پہلوان اور دوسری طرف کمزور و نَحیف شخص ۔
حضرت جُنید رحمۃ اللہ علیہ نے جیسے ہی خَم ٹھونک کر زور آزمائی کیلئے پنجہ بڑھایا تو اجنبی شخص نے دبی زبان سے کہا ۔ (چشتی)
کان قریب لائیے مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے ۔
نہ جانے اس آواز میں کیا سِحر تھا کہ سنتے ہی حضرت جُنید رحمۃ اللہ علیہ پر ایک سکتہ طاری ہوگیا ۔ کان قریب کرتے ہوئے کہا ، فرمائیے !
اجنبی کی آواز گلوگیر ہوگئی ۔ بڑی مشکل سے اتنی بات منہ سے نکل سکی ۔ جُنید ! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں ۔ زمانے کا ستایا ہوا ایک آلِ رسول ہوں ، سَیِّدہ فاطِمہ رضی اللہ عنہا کا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتے سے جنگل میں پڑا ہوا فاقوں سے نیم جان ہے ۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھوک کی شدت سے بے حال ہوگئے ہیں ۔ ہر روز صبح کو یہ کہہ کر شہر آتا ہوں کہ شام تک کوئی انتظام کر کے واپس لوٹوں گا لیکن خاندانی غیر ت کسی کے آگے منہ نہیں کھولنے دیتی ۔ شرْم سے بھیک مانگنے کیلئے ہاتھ نہیں اٹھتے ۔ میں نے تمہیں صرف اس امید پر چیلنج دیا تھا کہ آلِ رسول کی جو عقیدت تمہارے دل میں ہے ۔ آج اس کی آبرو رکھ لو۔ وعدہ کرتا ہوں کہ کل میدانِ قِیامت میں ناناجان صلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے کہہ کر تمہارے سر پر فتح کی دستار بندھواؤں گا ۔
اجنبی شخص کے یہ چند جملے نِشتَرکی طرح حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ کے جِگَر میں پَیوست ہوگئے پلکیں آنسوؤں کے طوفان سے بوجَھل ہوگئیں ، عالم گیر شُہرت و نامُوس کی پامالی کیلئے دل کی پیشکش میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہوئی ۔
بڑی مشکل سے حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ نے جذبات کی طُغیانی پر قابو حاصل کرتے ہوئے کہا کِشْوَرِ عقیدت کے تاجدار ! میری عزت و نامُوس کا اس سے بہترین مَصْرَف اور کیا ہوسکتا ہے کہ اسے تمہارے قدموں کی اُڑتی ہوئی خاک پر نثار کر دوں ۔
اتنا کہنے کے بعد حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ خَم ٹھونک کر للکارتے ہوئے آگے بڑھے اور سچ مُچ کُشتی لڑنے کے انداز میں تھوڑی دیر پینتر ا بدلتے رہے ۔ لیکن دوسرے ہی لمحے میں حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ چاروں شانے چِت تھے اور سینے پر سَیِّدہ فاطِمہ زَہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک نحیف و ناتُواں شہزادہ فتح کا پرچم لہرا رہا تھا ۔
ایک لمحے کیلئے سارے مجمع پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی ۔ حیرت کا طِلِسْم ٹوٹتے ہی مجمع نے نحیف و ناتُواں سَیِّد کو گود میں اٹھا لیا ۔ اور ہر طرف سے انعام و اِکرام کی بارش ہورہی تھی۔ رات ہونے سے پہلے پہلے ایک گمنام سَیِّد خلعت و انعامات کا بیش بہا ذخیرہ لیکر جنگل میں اپنی پناہ گاہ کی طرف لوٹ چکا تھا ۔
حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ اکھاڑے میں چت لیٹے ہوئے تھے ۔ ا ب کسی کو کوئی ہمدردی ان کی ذات سے نہیں رہ گئی تھی ۔ آج کی شکست کی ذلتوں کا سُرُور ان کی روح پر ایک خمار کی طرح چھا گیا تھا ۔
عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ جب اپنے بستر پر لیٹے تو بار بار کان میں یہ الفاظ گونج رہے تھے ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ کل قِیامت میں نانا جان سے کہہ کر تمہارے سر پر فتح کی دستار بندھواؤں گا ۔
دستارِ ولایت کیا سَچ مُچ ایسا ہوسکتا ہے ؟ کیا میری قسمت کا ستارہ یک بیک اتنی بلندی پر پہنچ جائیگا کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نورانی ہاتھوں کی بَرَکتیں میری پیشانی کو چُھولیں ۔ اپنی طرف دیکھتا ہوں تو کسی طرح اپنے آپ کو اس اعزاز کے قابل نہیں پاتا ۔ آہ ! اب جب تک زندہ رہوں گا قِیامت کیلئے ایک ایک دن گننا پڑیگا ۔
یہ سوچتے سوچتے حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ کی جیسے ہی آنکھ لگی ۔ سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ۔ سامنے شہدسے بھی میٹھے میٹھے آقا مسکَراتے ہوئے تشریف لے آئے ۔ لب ہائے مبارَکہ کو جُنبِش ہوئی ، رَحمت کے پھول جھڑنے لگے ۔ الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے : جُنید اٹھو ، قِیامت سے پہلے اپنے نصیبے کی سرفرازیوں کا نظارہ کرلو ۔ نبی زادوں کے نامُوس کیلئے شکست کی ذلتوں کا انعام قِیامت تک قرض نہیں رکھا جائیگا۔سر اٹھاؤ ، تمہارے لئے فتح و کرامت کی دَستار لیکر آیاہوں ۔ آج سے تمہیں عرفان و تَقَرُّب کی سب سے اونچی بِساط پر فائز کیا گیا ۔ بارگاہ ِیَزدانی سے گروہِ اولیاء کی سَروَرِی کا اعزاز تمہیں مبارَک ہو ۔
ان کَلِمات سے سرفراز فرمانے کے بعد سرکارِ مدینہ ، سرورِ قلب و سینہ ، فیض گنجینہ ، صاحبِ معطر پسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت جُنید بَغْدادی رحمۃ اللہ علیہ کو سینے سے لگالیا۔ اس عالمِ کیف بار میں اپنے شہزادوں کے جاں نثار پر وانے کو کیا عطافرمایا اس کی تفصیل نہیں معلوم ہوسکی ۔ جاننے والے بس اتناہی جان سکے کہ صبح کو جب حضرتِ جُنید رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھ کھلی تو پیشانی کی موجوں میں نور کی کرن لہرارہی تھی ۔ سارے بغداد میں آپ کی ولایت کی دھوم مچ چکی تھی ، خواب کی بات بادِصبا نے گھر گھر پہنچادی تھی ، کل کی شام جو پائے حِقارت سے ٹھکرا دیا گیا تھا آج صبح کو اس کی راہ گزر میں پلکیں بچھی جارہیں تھیں ۔ ایک ہی رات میں سارا عالم زِیر وزَبر ہوگیا تھا ۔ طلوعِ سَحر سے پہلے ہی حضرتِ جُنید بَغْدادی رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر درویشوں کی بھیڑ جمع ہوگئی تھی ۔ جونہی آپ رحمۃ اللہ علیہ باہر تشریف لائے خراج عقیدت کیلئے ہزاروں گردنیں جھک گئیں ۔ خلیفہ بغداد نے اپنے سر کا تاج اتار کر قدموں میں ڈال دیا ۔ سارا شہر حیرت و پشیمانی کے عالم میں سرجھکائے کھڑا تھا ۔ حضرت جُنید بَغْدادی رحمۃ اللہ علیہ نے مسکَراتے ہوئے ایک بار نظر اٹھائی اورسامنے موجود عاشقانِ رسول کے ہیبت سے لرزتے ہوئے دلوں کو سُکون بخش دیا ۔ پاس ہی کسی گوشے سے آواز آئی گروہِ اَولیاء رحمہم اللہ کی سَروَری کا اعزاز مبارَک ہو ، منہ پھیر کر دیکھا تو وہی نَحیف و نزار آلِ رسول فرطِ خوشی سے مسکَرارہا تھا ۔ آلِ رسول کے اَدَب کی بَرَکت نے ایک پہلوان کولمحوں میں آسمانِ ولایت کا چاند بنادیا ۔ ساری فضا سَیِّدالطائفہ کی مبارَک باد سے گونج اٹھی ۔ (زلف زنجیر مع لالہ زار ، انعام شکست ، ص ۶۲ تا ۷۲،چشتی)،(محزن اخلاق صصفحہ نمبر 441)

امام اہلسنت مجدد مائتہ حاضرہ والمستمرہ امام احمد رضا خان رضی اللہ کا احترام سادات کے متعلق ایک اہم فتویٰ

مسئلہ ۱۸۰ تا ۱۸۳: از کلکتہ امر تلا لین ۲۶ گدی دیوان رحمت اللہ مرسلہ حاجی پیر محمد ۳ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ جو لوگ سیدوں کو کلمات بے ادبانہ کہا کرتے ہیں اور ان کے مراتب کو خیا ل نہیں کرتے بلکہ کلمہ تحقیر آمیز کہہ بیٹھتے ہیں ان کا کیاحکم ہے ؟
الجواب : سادات کرام کی تعظیم فرض ہے۔ اور ان کی توہین حرام بلکہ علمائے کرام نے ارشاد فرمایا جو کسی عالم کو مولویا یاکسی کو میروا بروجہ تحقیر کہے کافر ہے ۔
مجمع الانہر میں ہے : الاستخفاف بالاشراف والعلماء کفر ومن قال لعالم عویلم اولعلوی علیوی قاصدا بہ الاستخفاف کفر ۔ (۱؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر باب المرتد ثم ان الفاظ الکفر الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۶۹۵)
سادات کرام اور علماء کی تحقیر کفر ہے جس نے عالم کی تصغیر کرکے عویلم یا علوی کو علیوی تحقیر کی نیت سے کہا تو کفر کیا ۔ (ت)

بیہقی امیرا لمومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ سے اور ابوالشیخ و دیلمی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : من لم یعرف حتی عترتی والانصار والعرب فھو لاحدی ثلاث اما منافقا واما لزنیۃ واما لغیر طھور ۔ (شعب الایمان حدیث ۱۶۱۴ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۲۳۲) ۔ ھذا لفظ البیھقی من حدیث زید بن جبیر عن داؤد بن الحصین عن ابن ابی رافع عن ابیہ عن علی رضی اﷲ تعالی عنہ ولفظ غیرہ امامنا فق واما ولد زنیۃ واماامرء حملت بہ امہ فی غیر طہر ۔ (الفردوس بما ثور الخطاب حدیث ۵۹۵۵ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳/ ۶۲۶)
جو میری اولاد اور انصار اور عرب کا حق نہ پہچانے وہ تین علتوں سے خالی نہیں۔ یا تومنافق ہے یا حرامی یا حیضی بچہ۔ (یہ بیہقی کے الفاظ زیدبن جبیر نے اپنے والد کے حوالہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کئے دوسروں کے الفاظ یوں ہیں۔ یا منافق ، ولدزنا یا اس کی ماں نے ناپاکی کی حالت میں اس کا حمل لیا۔ ت)

بلکہ علماء وانصار وعرب سے تو وہ مراد ہیں جو گمراہ بددین نہ ہوں اور سادات کرام کی تعظیم ہمیشہ جب تک ان کی بد مذہبی حد کفر کو نہ پہنچے کہ اس کے بعدوہ سیدہی نہیں نسب منقطع ہے۔قال اﷲ تعالی انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح ۔ (القرآن الکریم ۱۱/ ۴۶)
اللہ تعالی نے فرمایا: (اے نوح (علیہ السلام)! وہ تیرا بیٹا (کنعان) تیرے گھروالوں میں سے نہیں اس لئے کہ اس کے کام اچھے نہیں ۔ (ت)

جیسے نیچری ، قادیانی، وہابی غیر مقلد، دیوبندی اگر چہ سید مشہور ہوں نہ سید ہیں نہ ان کی تعظیم حلال بلکہ توہین وتکفیر فرض، اور روافض کے یہاں تو سیادت بہت آسان ہے کسی قوم کا رافضی ہوجائے، دودن بعد میر صاحب ہوجائے گا، ان کا بھی وہی حال ہے۔ کہ ان فرقوں کی طرح تبرائیان زمانہ بھی عموما مرتدین ہیں۔ والعیاذ باللہ تعالی ۔

اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ فقیر ذلیل بحمدہ تعالٰی حضرات ساداتِ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا ادنٰی غلام وخاکپاہے ۔ ان کی محبت و عظمت ذریعہ نجات وشفاعت جانتا ہے،اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سیّد اگربدمذہب بھی ہوجائے تو اس کی تعظیم نہیں جاتی ، جب تک بدمذہب حدِ کفر تک نہ پہنچے ، ہاں بعدِ کفر سیادت ہی نہیں رہتی ، پھر اس کی تعظیم حرام ہوجاتی ہے۔ اور یہ بھی فقیر بار ہا فتوٰی دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں ، جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔ اور خوا ہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا مطعون کرنا ہرگز جائے نہیں ۔ “ الناس امنأعلی انسابھم (لوگ اپنے نسب پرامین ہیں) ، ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہوکہ یہ سیّد نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہوگا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مطلع کردیا جائے ۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیّد سے الجھا ، انہوں نے فرمایا میں سیّد ہوں کہا ۔ کیا سند ہے تمہارے سیّد ہونے کی ۔ رات کو زیارتِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ شفاعت خواہ ہوا،اعراض فرمایا : اس نے عرض کی : میں بھی حضور کا امتی ہوں۔ فرمایا : کیاسند ہے تیرے امتی ہونے کی ۔ (فتویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 29،چشتی)

امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ اور ادب و محبت ساداتِ کرام رضی اللہ عنہم

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو ساداتِ کرام سے بے حد عقیدت ومحبت تھی اور یہ عقیدت و محبت صرف زبانی کلامی نہ تھی بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے ساداتِ کرام سے محبت فرماتے اور اگر کبھی لاشعوری میں کوئی تقصیر واقع ہو جاتی تو ایسے انوکھے طریقے سے اس کا اِزالہ فرماتےکہ دیکھنے سننے والے وَرْطَۂ حیرت میں ڈوب جاتے چنانچہ اِس ضمن میں ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے : بریلی شریف کے کسی محلہ میں امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ مدعو تھے ۔ اِرادت مندوں نے اپنے یہاں لانے کے لئے پالکی کا اِہتمام کیا ۔ چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سُوار ہو گئے اور چار مزدور پالکی کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر چل دیئے ۔ ابھی تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ یکایک امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے پالکی میں سے آواز دی: ”پالکی روک دو ۔ “پالکی رُک گئی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فوراً باہر تشریف لائے اور بھرّائی ہوئی آواز میں مزدورو ں سے فرمایا : سچ سچ بتائیں آپ میں سیِّد زادہ کون ہے ؟ کیونکہ میرا ذَوقِ ایمان سرورِ دوجہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خُوشبو محسوس کر رہا ہے ۔ ایک مزدور نے آگے بڑھ کر عرض کی : حُضُور! مَیں سیِّد ہوں ۔ ابھی اس کی بات مکمّل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ عالمِ اِسلام کے مقتدر پیشوا اور اپنے وقت کے عظیم مجدِّد اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا عِمامہ شریف اس سیِّد زادے کے قدموں میں رکھ دیا ۔ امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں سے ٹَپ ٹَپ آنسو گر رہے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر اِلتِجا کر رہے ہیں ،معزز شہزادے ! میری گستاخی مُعاف کر دیجئے،بے خیالی میں مجھ سے بھول ہوگئی ، ہائے غضب ہو گیا ! جن کی نعلِ پاک میرے سر کا تاجِ عزّت ہے، اُن کے کاندھے پر میں نے سُواری کی ، اگر بروزِقیامت نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھ لیا کہ احمد رَضا ! کیا میرے فرزند کا دوشِ ناز نین اس لئے تھا کہ وہ تیر ی سُواری کا بوجھ اُٹھائے تو میں کیا جواب دو ں گا ! اُس وقت میدانِ مَحشرمیں میرے ناموسِ عشق کی کتنی زبردست رُسوائی ہوگی ۔ کئی بار زَبان سے مُعاف کر دینے کا اِقرار کروا لینے کے بعد امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے آخِری اِلتجائے شوق پیش کی،محترم شہزادے ! اس لاشُعوری میں ہونے والی خطا کا کفّارہ جبھی اَدا ہوگا کہ اب آپ پالکی میں سُوار ہوں گے اور میں پالکی کو کاندھا دوں گا ۔ اِس اِلتجاپر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بعض کی تو چیخیں بھی بُلند ہوگئیں ۔ ہزار اِنکار کے بعد آخرِکا ر مزدو ر شہزادے کو پالکی میں سُوار ہونا ہی پڑا ۔ یہ منظر کس قدر دِل سوز ہے ، اہلسنّت کا جلیلُ الْقَدْر امام مزدوروں میں شامل ہو کر اپنی خداداد عِلمیّت اور عالمگیر شُہرت کا سارا اِعزاز خوشنودیٔ محبوب کی خاطر ایک گُمنام مزدور شہزادے کے قدموں پر نثار کر رہا ہے ۔ (اَنوارِرضا ،ص٤١٥،زلف و زنجیر ،چشتی)

اِمامِ اَہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں سوال ہوا کہ ” سید کے لڑکے سے جب شاگر ہو یا ملازم ہو دینی یا دنیاوی خدمت لینا اور اس کو مارنا جائز ہے یانہیں ؟ توآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے جواباً ارشاد فرمایا : ذلیل خدمت اس سے لینا جائز نہیں ۔ نہ ایسی خدمت پر اسے ملازم رکھنا جائز اور جس خدمت میں ذِلَّت نہیں اس پر ملازم رکھ سکتاہے ۔ بحالِ شاگرد بھی جہاں تک عُرف اورمعروف ہو(خدمت لینا) شرعاً جائز ہے لے سکتا ہے اور اسے (یعنی سید کو ) مارنے سے مُطلَق اِحتراز (یعنی بالکل پرہیز) کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،۲۲/۵۶۸)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی احتیاط اور عظمتِ سادات کرام رضی اللہ عنہم ملاحظہ فرمائیے ، چنانچہ حیاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے : جناب سیِّد ایُّوب علی صاحِب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے : ایک کم عُمر صاحِبزادے خانہ داری کے کاموں میں اِمداد کے لیے (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے) کاشانۂ اقدس میں ملازِم ہوئے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سیِّد زادے ہیں لہٰذا (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے) گھر والوں کو تاکید فرما دی کہ صاحِبزادے صاحب سے خبر دار کوئی کام نہ لیا جائے کہ مخدوم زادہ ہیں (نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کے فرزندِ ارجمند ہیں ان سے خدمت نہیں لینی بلکہ ان کی خدمت کرنی ہے لہٰذا) کھانا وغیرہ اور جس شے کی ضَرورت ہو (ان کی خدمت میں) حاضِر کی جائے ۔جس تنخواہ کا وعدہ ہے وہ بطورِ نذرانہ پیش ہوتا رہے،چُنانچِہ حسبُ الارشاد تعمیل ہوتی رہی۔کچھ عرصہ کے بعد وہ صاحِبزادے خود ہی تشریف لے گئے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت،۱/۱۷۹،چشتی)
تعظیم وتوقیر اور احترام سادات کے تعلق سے آپ کے طرزِ عمل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ساداتِ کرام جز ورسول ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحق توقیر و تعظیم ہیں اور اس پر پورا عمل کرنے والا ہم نے اعلٰی حضرت قدس سرہ العزیز کو پایا۔ اس لیے کہ وہ کسی سید صاحب کو اس کی ذاتی حیثیت و لیاقت سے نہیں دیکھتے بلکہ ا س حیثیت سے ملاحظہ فرماتے کہ سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جزو ہیں ۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت 165/1)

تعظیم کے لیے نہ یقین دَرْکارہے اور نہ ہی کسی خاص سند کی حاجت لہٰذا جو لوگ سادات کہلاتے ہیں ان کی تعظیم کرنی چاہیے،ان کے حَسَب و نَسَب کی تحقیق میں پڑنے کی حاجت نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ساداتِ کرام سے سیِّد ہونے کی سند طلب کرنے اور نہ ملنے پر بُرا بھلا کہنے والے شخص کے بارے میں اِستفسار ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً اِرشاد فرمایا:فقیر بارہا فتویٰ دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں، جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اورخواہی نخواہی سند دِکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا،مَطْعُون کرنا ہر گز جائز نہیں ۔ اَلنَّاسُ اُمَنَاءُ عَلٰی اَنْسَابِھِم (لوگ اپنے نسب پر امین ہیں ) ۔ ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کرینگے،نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہو گا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مُطَّلع کر دیا جائے۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پرمیرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیِّد سے اُلجھا،انہوں نے فرمایا:میں سید ہوں،کہا: کیا سند ہے تمہارے سید ہونے کی؟ رات کو زیارتِ اَقدس سے مشرف ہوا کہ معرکۂ حشر ہے،یہ شفاعت خواہ ہوا، اِعراض فرمایا ۔ اس نے عرض کی: میں بھی حضور کا اُمتی ہوں ۔ فرمایا : کیا سند ہے تیرے اُمتی ہونے کی ؟ ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٩/٥٨٧-٥٨٨،چشتی)

غیرِ سیِّد ، سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟

جو واقع میں سیِّد نہ ہو اور دِیدہ ودِانستہ(جان بوجھ کر ) سید بنتا ہو وہ ملعون (لعنت کیا گیا) ہے ، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمفرماتے ہیں:جو کوئی اپنے باپ کے سِوا کسی دوسرے یا کسی غیر والی کی طرف منسوب ہونےکا دعویٰ کرے تو اس پر اللّٰہ تعالیٰ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفل ۔ (مُسلِم،کتاب الحج،باب فضل المدینة...الخ ،ص۷۱۲،حدیث:۱۳۷۰) مگر یہ اس کا مُعامَلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے یہاں ہے ، ہم بِلادلیل تکذیب نہیں کر سکتے، اَلْبَتَّہ ہمارے علم(میں) تحقیق طور پر معلوم ہے کہ یہ سیِّد نہ تھا اور اب سیِّد بن بیٹھا تو اُسے ہم بھی فاسِق ومُرتکبِ کبیرہ ومستحق لعنت جانیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٣/١٩٨)

بد مذ ہب سیِّد کا حکم

اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگزاس کی تعظیم نہ کی جائے گی ۔ امامِ اہلسنّت ، مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم ہمیشہ (کی جائے گی )جب تک ان کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پَہُنچے کہ اس کے بعد وہ سیِّد ہی نہیں،نسب مُنْقَطَع ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے : قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۫٭ۖ) (پ۱۲، ھُود:۴۶) ترجَمہ : فرمایا! اے نوح ! وہ (یعنی تیرابیٹا کنعان) تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں ۔ بدمذہب جن کی بد مذہبی حدِّ کفر کو پَہُنچ جائے اگرچہ سیِّد مشہور ہوں نہ سیِّد ہیں ، نہ اِن کی تعظیم حلال بلکہ توہین و تکفیر فرض ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٢/٤٢١)

صَدرُالْافاضِل حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدِّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں : اس سے ثابت ہوا کہ نَسْبی قَرابت سے دِینی قَرابت زیادہ قوی ہے ۔ (خَزائنُ العِرفان،پ ۱۲،ھود،تحت الآیۃ:۴۶)

اعليٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سادات كرام رضی اللہ عنہم كا بے پناه ادب و احترام كرتے ۔ مولوی محمد ابراهيم صاحب فريدي صدر مدرس مدرسه شمس العلوم بدايوں كا بيان ہے کہ حضرت مهدی حسن سجاده نشين سركار كلاں مارهره شريف نے فرمايا کہ : ٫٫ميں جب بريلي آتا تواعليٰ حضرت خود كھانا لاتے اور ہاتھ دھلاتے ۔ حسب دستور ايک بار ہاتھ دھلاتے وقت فرمايا ۔ حضرت شهزاده صاحب انگوٹھي اور چھلے مجھے دے ديجيے ، ميں نے اتار كر دے ديے اور وہاں سے ممبئي چلا گيا ۔ ممبئي سے مارهره واپس آيا تو ميري لڑکی فاطمہ نے كها ابا بريلی كے مولانا صاحب كے يهاں سے پارسل آيا تھا جس ميں چھلے اور انگوٹھي تھے ، يہ دونوں طلائی تھے اور نامہ ميں مذكور تھا ، شهزادی يہ دونوں طلائی اشيا آپ كي ہيں ۔ ﴿حيات اعليٰ حضرت،ص:111112 )۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلا کر شہید کرنے والوں کو حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کی بد دعا

حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلا کر شہید کرنے والوں کو حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کی بد دعا

محترم قارئینِ کرام شیعوں کا مشہور محقق ابو منصور احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی لکھتا ہے :

حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا عنہا کا خطبہ

حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اے کوفہ والو ! اے مکارو خیانت کارو ! اے بے غیرت لوگو ! خدا کرے تمھاری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب نہ رکے اور تمھارے نالوں کا سلسلہ ختم نہ ہو ۔ کیا تم میرے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کے لئے رو رہے ہو روؤ کہ تم اسی لائق ہو ، ہنسو کم روؤ زیادہ کہ تمہارے دامن پر ذلت کی گرد بیٹھ چکی ہے ، یہ بدنامی کا داغ تمہارے دامن پر ہمیشہ رہے گا اسے ہر گز نہ چھڑا سکو گے ۔ (احتجاج طبرسی جلد سوم و چہارم صفحہ نمبر 68 مترجم اردو مطبوعہ ادارہ تحفظِ حسینیت لاہور پاکستان،چشتی)،(صحیفہ کربلا صفحہ نمبر 388 علی نظر منفرد مترجم نثار احمد زین پوری،چشتی)

حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا نے یہ بالکل صحیح نقشہ کھینچا ہے کوفہ والوں کا جن کا تعلق عبد ﷲ بن سبا سے تھا اور جو منافقت کر کے حضرت عثمان پھر حضرت علی رضی اللہ عنہما اور اب حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر گئے ۔ حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کی بد دعا کا آج بھی اثر دیکھا جا سکتا ہے ۔ ہر طرف آپ کو آج بھی وہ لوگ حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر روتے اور ماتم کرتے ہوئے نظر آئینگے ۔ دنیا میں انبیاء علیہم السّلام کو بھی شہید کیا گیا اور بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی جنگوں میں شہید ہوئے لیکن اسلام نے کسی کے لئے ماتم یا یا ہر سال نوحہ اور سینہ کوبیاں نہیں کیں ۔ بلکہ یہ سب کچھ حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے لئے ان کوفی رافضیوں نے ایجاد کی جنہوں نے پہلے حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا بلایا اور پھربے وفائی اور غداری کر کے ان کو شہید کیا اور آخر میں اپنا جرم چھپانے کیلئے پہلے "توابین" بنے اور پھر بعد میں رونا پٹنا ایجاد کیا تاکہ کوئی ہم کو پہچان نہ لے ۔ رب کی قدرت دیکھئے کہ حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کی زبان مبارکہ سے ہی ان منافقوں کی نشاندھی ہوگئی اور آج آپ پوری دنیا میں اِن حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو با آسانی پہچان سکتے ہیں ۔

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...