شانِ صدیق اکبر حضرت علی اورائمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کی نظر میں
محترم قارئینِ کرام : اس مضمون میں جملہ حوالہ جات کتبِ شیعہ سے دیئے جا رہے ہیں پڑھیئے اور فیصلہ کیجیئے حق پر کون ہے ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نمازیں پڑھتے تھے اور وہ ان کی امامت پر راضی تھے۔ شیعہ عالم سلیم بن قیس لکھتا ہے : علی علیہ السلام نے فرمایا حضرت ابو بکر نے نماز پڑھائی تو خالد بن ولید نے میرے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی جبکہ وہ تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔
(کتاب سلیم بن قیس: ۲۲۸)
شیعہ عالم طبرسی لکھتا ہے: پھر علی علیہ السلام نماز کے لیے تیار ہوئے اور مسجد میں آئے اور ابو بکر کے پیچھے نماز پڑھی اور خالد بن ولید نے ان کے پہلو میں نماز ادا کی۔‘‘ (الاحتجاج: ۱/۱۲۶)
شیخ طوسی لکھتا ہے: ’یہ بات تسلیم شدہ ہے کیونکہ یہی ظاہری بات ہے۔
(تلخیص الشافی: ۳۵۴، طبع ایران)
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے بہترین افراد ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔
(الصوارم المہرفۃ: ۳۲۳، نمبر ۱۱۱)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ ’’اگر میرے پاس ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے افضل قرار دیتا ہو تو میں اسے بہتان بازی کی سزا دوں گا۔‘‘ (العیون و المحاسن: ۲/۱۲۲-۱۲۳)
اور جب ان سے ابو بکر کی خلافت کی بیعت کرنے سبب معلوم کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’اگر ہم ابو بکر کو خلافت کا اہل نہ سمجھتے تو ہم اسے خلیفہ نہ بننے دیتے ۔ (شرح نہج البلاغۃ: ۲/۴۵،چشتی)
مزید لکھتا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کی گئی: ’’کیا آپ وصیت نہیں کریں گے؟‘‘ انہوں نے فرمایا ’’جو وصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی میں بھی اسی کی وصیت کرتا ہوں۔ لیکن جب اللہ لوگوں کی خیر خواہی کرنا چاہتا ہے تو انہیں بہترین شخص کی حکومت تلے جمع کر دیتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہیں امت کے بہترین شخص کی خلافت میں جمع کر دیا تھا۔ (الشافی فی الامامۃ: ۱۷۱)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے کے دوران میں فرمایا تھا ’’اے اللہ ہماری اسی طرح اصلاح فرما جیسی تم نے خلفائے راشدین کی اصلاح فرمائی تھی۔‘‘ ان سے پوچھا گیا وہ خلفاء کون ہیں؟ فرمایا وہ ابو بکر اور عمر ہیں جو ہدایت یافتہ امام تھے۔ جس نے ان کی اقتدا کی وہ بچ گیا اور جس نے ان کے نقش قدم کی پیروی کی وہ سیدھی راہ پا گیا۔(الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم: ۳/۱۴۹-۱۵۰ (فضل فی روایات،چشتی)
عراق سے کچھ لوگ علی بن حسین کے پاس آئے اور انہوں نے حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی شان میں نازیبا باتیں کیں۔ جب وہ اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تو علی بن حسین نے انہیں فرمایا کیا تم مجھے بتائو گے کہ کیا تم اولین مہاجرین میں سے ہو جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:لِلْفُقَرَاءِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَo} (الحشر: ۸)
(مال فی) ان مہاجر فقراء کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنی جائیدادوں سے نکالے گئے ہیں وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا ڈھونڈتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں۔وہ عراقی کہنے لگے نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا تو تم ان لوگوں میں شامل ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:{وَالَّذِیْنَ تَبَوَّئُوا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ اِِلَیْہِمْ وَلاَ یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا اُوْتُوا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ} (الحشر: ۹)
اور (مال فیء ان کے لیے) جنہوں نے (مدینہ کو) گھر بنا لیا تھا اور ان (مہاجرین) سے پہلے ایمان لا چکے تھے، وہ (انصار) ان سے محبت کرتے ہیں جو ان کی طرف ہجرت کرے اور وہ اپنے دلوں میں اس (مال) کی کوئی حاجت نہیں پاتے جو ان (مہاجرین) کو دیا جائے اور اپنی ذات پر (ان کو) ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود انہیں سخت ضرورت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
عراقی گروہ نے جواب دیا: نہیں۔ ہم ان میں بھی شامل نہیں۔ تو حضرت علی بن حسین نے فرمایا خبردار! تم نے ان دو گروہوں سے لاتعلقی کا اظہار خود ہی کر دیا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں بھی شامل نہیں ہو جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:{وَالَّذِیْنَ جَائُ وْا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّ رَؤْفٌ رَحِیْمٌo} (الحشر: ۱۰)
اور (مال فیء ان کے لیے ہے) جو ان (مہاجرین و انصار) کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنہوں نے ایمان میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ۔ اے ہمارے رب! بے شک تو بہت نرمی والا، نہایت رحم والا ہے۔(اے عراقیو!) میرے پاس سے چلے جائو، اللہ تمہیں برباد کرے۔(کشف الغمۃ: ۲/۲۹۱، الصوارم المہرقۃ: ۲۴۹-۲۵۰، نمبر: ۸۳،چشتی)
ابو عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو صدیق کا لقب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ ( تفسیر البرہان: ۲/۱۲۵)
ابو جعفر الباقر سے تلوار کو سونے چاندی سے منقش کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں، ابو بکر الصدیق رضی اللہ نے اپنی تلوار کو منقش کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا آپ انہیں صدیق کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں۔ جو شخیص صدیق نہ کہے اللہ دنیا اور آخرت میں اس کے کسی قول و اقرار کی تصدیق نہ فرمائے۔ (الصوام المہرقۃ: ۲۳۵، نمبر ۷۲)
کوفہ کے رؤسا اور معززین اور زید کی بیعت کرنے والے جمع ہوئے تو انہوں نے فرمایا ’’میں ان دونوں کے بارے میں کلمہ خیر ہی کہوں گا جیسا کہ میں نے اپنے اہل بیت سے ان کے بارے میں خیر ہی سنی ہے۔ ان دونوں نے ہم پر اور نہ کسی دوسرے پر کوئی ظلم کیا ہے۔ انہوں نے اللہ کی کتاب اور سنت رسول پر عمل کیا ہے۔‘‘ جب اہل کوفہ نے ان کا یہ کلام سنا تو ان کی امامت کے منکر ہو گئے اور ان کے بھائی الباقر کے گرد جمع ہو گئے۔ اس پر زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا آج انہوں نے ہمارا انکار کر دیا ہے اسی لیے اس جماعت کا نام رافضہ (امامت زید کے منکرین) پڑ گیا۔ (ناسخ التواریخ: ۲/۵۹۰، احوال الامام زین العابدین…، اعیان الشیعۃ ۲/۱۳۲، قسم نمبر:۱،چشتی)
شیعہ عالم نشوان حمیری ان سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے جب زید رحمہ اللہ سے کہا ابو بکر اور عمر سے برا ت کا اعلان کرو، وگرنہ ہم آپ کی امامت کا انکار کر دیں گے؟ تو زید نے فرمایا اللہ اکبر! مجھے میرے والد محترم نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا: ’’بے شک عنقریب ایک قوم آئے گی جو ہماری محبت کا دعویٰ کرے گی، وہ اپنے برے لقب سے پہچانے جائیں گے۔ پھر جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کر دو کیونکہ وہ مشرک ہوں گے۔ جائو چلے جائو تم رافضہ ہو۔‘‘ (الحور العین: ۱۸۵)
آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ائمہ اہل بیت کی نظر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام ملاحظہ کیا اب ذرا شیعہ محدثین کا بھی عقیدہ ملاحظہ فرمائیں ، شیعہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں کفر و فسق اور لعن طعن کے فتوے علی الاعلان دئیے ہیں اور اس سلسلے میں اپنے ائمہ کے موقف کو رد کر دیا ہے۔ حضرت ابو بکر کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی اکثر عمر بت پرستی میں گزاری۔(الصراط المستقیم: ۳/۱۵۵)
اور ابو بکر بت پرست تھے۔ (بحار الأنوار: ۲۵/۱۷۲ باب فی صفات الامام)
اور ان کا ایمان یہود و نصاریٰ جیسا تھا۔ (الکشکول: ۱۰۴)
شیعہ عالم الجزائری لکھتا ہے کہ کچھ خصوصی روایات میں آیا ہے کہ ابو بکر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتا تو بت ان کی گردن میں لٹکا ہوتا تھا اور وہ اسے سجدہ کرتا۔(الأنوار النعمانیۃ: ۱/۵۳)
شیعہ علماء نے حضرت ابو بکر کو مرتدین کے ساتھ جہاد کرنے کی وجہ سے اور ان کے اس فرمان کی وجہ سے کافر قرار دیا ہے کہ ’’اگر (ان مرتدین نے) مجھے ایک رسی بھی دینا بند کی یا فرمایا اگر انہوں نے (زکوٰۃ کی ادائیگی میں) ایک میمنا بھی دینا بند کیا جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو میں ان کے ساتھ قتال یا فرمایا جہاد کروں گا۔‘‘ ان کا یہ فعل بہت برا اور ظلم عظیم تھا اور حد درجہ سرکشی تھی…‘‘ یہ کلمات کہنے والا اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے خارج ہے اور یہ بات ہر ذی فہم کو معلوم ہے اور اگر وہ انہیں ظالم کہیں تو ان کے لیے اتنی ہی رسوائی، کفر اور جہالت کافی ہے۔ (الاستغاثۃ فی بدع الثلاثۃ: ۱/۷،چشتی)
جب کہ شیعہ عالم نے ابوبکر کے مومن نہ ہونے کو پورے جزم سے بیان کیا ہے۔
(مراۃ العقول: ۳/۴۲۹-۴۳۰)
اور رسول اللہ نے انہیں غار میں ساتھ لے جانے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کیونکہ آپ کو ڈر تھا کہ وہ رسول اللہ کے بارے میں مشرکین کو اطلاع کر دیں گے۔‘‘ شیعہ عالم ابن طاؤس لکھتا ہے یہ بڑی نادر روایت ہے کہ رسول اللہ نے ابوبکر کو اپنے ساتھ غار میں لے جانے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ آپ کو یہ خوف تھا کہ ابو بکر کافروں کو آپ کی اطلاع کر دیں گے… لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر سلایا اور ابن ابی قحافہ سے ڈرتے تھے کہ یہ کافروں کو بتا دیں گے اس لیے انہیں اپنے ساتھ غار میں لے گئے۔(الطرائف فی معرفۃ مذہب الطوائف: ۴۱۰)
اور یہ کہ ’’ابو بکر نے قرآن مجید میں آیات وراثت کا اضافہ کیا ہے ۔ (کشف الاسرار: ۱۲۶)
اللہ تعالیٰ صحابہ کرام اور اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت اور ادب عطاء فرمائے اور بے ادبی کرنے والوں کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment