Monday 3 February 2020

فضائل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

0 comments
فضائل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،بیشک اپنی صحبت اورمال کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر مجھ پر احسان کرنے والا ابوبکر ہے ۔ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت و موّدت تو موجود ہے ۔آئندہ مسجد میں ابوبکر کے دروازے کے سوا کسی کا دروازہ کھلا نہ رکھا جائے ۔ (بخاری کتابُ المناقب) ۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ ابوبکر کی کھڑکی کے علاوہ (مسجد کی طرف کھلنے والی) سب کھڑکیاں بند کر دی جائیں ۔ ( صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال سے دو تین دن قبل یہ بات ارشاد فرمائی۔ اس بناء پر شارحین فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ ہے اور دوسروں کی گفتگو کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے ۔ (اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ)

3۔ حضرت عبدﷲبن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں اور تمھارے اِس صاحب کو ﷲ تعالیٰ نے خلیل بنایا ہے ۔ (مسلم کتاب فضائل الصحابۃ)

خلیل سے مراد ایسا دِلی دوست ہے جس کی محبت رگ وپے میں سرایت کر جائے اور وہ ہر راز پر آگاہ ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا محبوب صرف اللہ تعالیٰ کو بنایا۔رب تعالیٰ نے بھی آپ کو اپنا ایسا محبوب وخلیل بنایا ہے کہ آپ کی خلّت سیدنا ابراہیم ں کی خلّت سے زیادہ کامل اور اکمل ہے ۔ (اشعۃ اللمعات)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، جس وقت ہم غار میں تھے۔ میں نے اپنے سروں کی جانب مشرکوں کے قدم دیکھے تو عرض کی ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر ان میں سے کسی نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،اے ابوبکر! تمہارا ان دو کے متعلق کیا خیال ہے جن میں کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے ۔ (مسلم کتاب فضائل الصحابۃ،چشتی)

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں لشکرِ ذاتِ السلاسل پر امیر بنا کر بھیجا ۔ ان کا بیان ہے کہ جب حاضرِ بارگاہ ہوا تو میں نے عرض کی ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ پیارا کون ہے ؟، فرمایا، عائشہ۔ میں عرض گزار ہوا ، مردوں میں سے؟ فرمایا ، اس کے والدِ محترم یعنی ابوبکر۔ میں عرض گزار ہوا کہ پھر کون؟ فرمایا ، عمر۔ پس میں اس ڈر سے خاموش ہو گیا کہ مبادا مجھے سب سے آخر میں رکھیں ۔ (بخاری، مسلم)

حضرت محمد بن حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والدِ محترم (حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ) کی خدمت میںعرض کی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر آدمی کون ہے ؟ فرمایا ، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ۔ میں عرض گزار ہوا کہ پھر کون ہے ؟ فرمایا ، عمر رضی اللہ تعالی عنہ ۔ تیسری بارمیں ڈرا کہ کہیں یہ نہ فرمائیں کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ، اس لیے میں نے عرض کی کہ پھر آپ ہیں؟ فرمایا ، میں تو مسلمانوں میں سے ایک فرد ہوں ۔ (بخاری کتابُ المناقب)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم میں سے آج کون روزہ دار ہے ؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، میں ہوں ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، تم میں سے آج کس شخص نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے ؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی ، میں نے ۔ پھر ارشاد ہوا ، تم میں سے آج کس شخص نے مریض کی عیادت کی؟ آپ ہی نے عرض کی، میں نے۔ آقا کریم انے فرمایا، جس شخص میں (ایک ہی دن میں) یہ اوصاف جمع ہونگے وہ جنتی ہو گا ۔ (مسلم باب فضائل ابی بکر)

حضرت ابنِ عمررضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہم کسی کو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے برابر شمار نہیں کیا کرتے تھے، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو دیگر صحابہ پر فضیلت دیتے اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہ دیتے ۔ (بخاری کتابُ المناقب)

انہی سے مروی ہے کہ رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں ہم کہا کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں آپ اکے بعد افضل ترین حضرت ابوبکر ہیں، پھرحضرت عمر، پھر حضرت عثمان ث۔ (ترمذی، ابوداؤد،چشتی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک طویل روایت کے آخر میں ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کو جنت کے تمام دروازوں سے جنت میں جانے کے لیے بلایا جائے گا؟ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ہاں اے ابوبکر! مجھے امید ہے کہ تم ایسے ہی لوگوں میں سے ہو۔ (بخاری کتابُ المناقب)

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے سردار، ہمارے بہترین فرد اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے ۔ (ترمذی)

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا ، تم غار میں میرے ساتھی تھے اور حوض پر میرے ساتھی ہوگے ۔ (ترمذی)

حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کسی قوم کے لئے مناسب نہیں کہ ان میں ابوبکر ہو اور ان کی امامت کوئی دوسرا کرے ۔ (ترمذی)

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ا نے ہمیں صدقہ کا حکم فرمایا۔ اس وقت میرے پاس کافی مال تھا ، میں نے کہا کہ اگر کسی روز میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے سبقت لے جاسکا تو آج کا دن ہوگا۔ پس میں نصف مال لے کر حاضر ہوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ گھر والوں کے لئے کتنا چھوڑا ہے؟عرض گزار ہوا کہ اس کے برابر۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا سارا مال لے آئے تو فرمایا ، اے ابو بکر اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ عرض گزار ہوئے ، ان کے لئے ﷲ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں ۔ میں نے کہا ، میں ان سے کبھی نہیں بڑھ سکتا ۔ (ترمذی،ابو داؤد،چشتی)


حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوئے تو آپ نے فرمایا ، تمہیں ﷲ تعالیٰ نے آگ سے آزاد کردیا ہے ۔ اس دن سے ان کا نام عتیق مشہور ہو گیا ۔ (ترمذی،حاکم)

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، میں وہ ہوں کہ زمین سب سے پہلے میرے اوپر سے شق ہو گی ، پھر ابوبکر سے، پھر عمر سے، پھر بقیع والوں کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے ۔ پھر میں اہلِ مکہ کا انتظار کروں گا ، یہاں تک کہ حرمین کے درمیان حشر کیا جائے گا ۔ (ترمذی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، میرے پاس جبریل آئے تو میرا ہاتھ پکڑا تاکہ مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھائیں جس سے میری امت داخل ہوگی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول ﷲا ! میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کے ساتھ ہوتا ، تاکہ اس دروازے کو دیکھتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اے ابوبکر! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگے ۔ (ابوداؤد)

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، انبیاء کے علاوہ سورج کبھی کسی ایسے شخص پر طلوع نہیں ہوا جو ابوبکر سے افضل ہو ۔ (الصواعق المحرقۃ:١٠٣، ابونعیم)

حضرت سلیمان بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اچھے خصائل تین سو ساٹھ ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان میں سے مجھ میں کوئی خصلت موجود ہے ؟ فرمایا، اے ابوبکر ! مبارک ہو۔ تم میں وہ سب اچھی خصلتیں موجود ہیں ۔ (الصواعق المحرقۃ:١١٢، ابن عساکر،چشتی)

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میری امت پر واجب ہے کہ وہ ابوبکر کا شکریہ ادا کرے اور ان سے محبت کرتی رہے ۔ (تاریخ الخلفاء:١٢١،الصواعق المحرقۃ:١١٢، ابن عساکر)

حضرت عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میں نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی اُس نے پہلے انکار کیا سوائے ابوبکر کے کہ انہوں نے میرے دعوتِ اسلام دینے پر فوراً ہی اسلام قبول کر لیا اور پھر اس پر ثابت قدم رہے ۔ (تاریخ الخلفاء:٩٨، ابن عساکر)

حضرت معاذ بن جبلص سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسئلہ میں میری رائے دریافت فرمائی تو میں نے عرض کی، میری رائے وہی ہے جو ابوبکر کی رائے ہے۔ اس پر آقا کریم انے فرمایا، اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں کہ ابوبکر غلطی کریں ۔ (تاریخ الخلفاء:١٠٧، ابونعیم، طبرانی)

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی، آپ نے اپنی علالت کے ایام میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو امام بنایا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں! میں نے نہیں بنایا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے بنایا تھا(یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں امام بنایا تھا) ۔ (تاریخ الخلفاء:١٢٦ ، ابن عساکر،چشتی)

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پاس حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر ہوا تووہ روپڑے اور فرمایا، میں چاہتا ہوں کہ میرے سارے اعمال اُن کے ایک دن کے اعمال جیسے یا اُن کی ایک رات کے اعمال جیسے ہوتے۔ پس رات تو وہ رات ہے جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غار کی طرف چلے۔ جب غار تک پہنچے تو عرض گزار ہوئے، خدا کی قسم! آپ اس میں داخل نہیں ہوںگے جب تک میں اس میں داخل نہ ہو جاؤںکیونکہ اگر اس میں کوئی چیز ہے تو اس کی تکلیف آپ کی جگہ مجھے پہنچے۔ پھر وہ داخل ہوئے اور غار کو صاف کیا۔ اس کی ایک جانب سوراخ تھے تو اپنی ازار کو پھاڑ کر انہیں بند کیا۔ دو سوراخ باقی رہ گئے تو انہیں اپنی ایڑیوں سے روک لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے کہ تشریف لے آئیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر داخل ہوئے اور انکی گود میں سرِ مبارک رکھ کر سو گئے۔پس ایک سوراخ میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پیر میں ڈنگ مارا گیا تو انہوں نے اس ڈر سے حرکت نہ کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوجائیں گے لیکن ان کے آنسو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نورانی چہرے پر گر پڑے۔ فرمایا کہ ابو بکر ! کیا بات ہے؟ عرض کیا، میرے ماں باپ آپ پر قربان، مجھے ڈنگ مارا گیا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعابِ دہن لگا دیا تو انکی تکلیف جاتی رہی۔ پھر اس زہرنے عود کیا اور وہی انکی وفات کا سبب بنا۔ اُن کا دن وہ دن ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو اس وقت بعض اہلِ عرب مرتد ہو گئے اور کہا کہ ہم زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے تو انہوں نے فرمایا ، اگر کوئی اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی رسی بھی روکے گا تو میں اس کے ساتھ جہاد کروں گا۔ میں عرض گزار ہوا کہ اے خلیفہ رسول ا! لوگوں سے الفت کیجیے اور ان سے نرمی کا سلوک فرمائیے۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا، تم جاہلیت میں بہادر تھے تو کیا اسلام لا کر بزدل ہو گئے ہو؟بے شک وحی منقطع ہو گئی، دین مکمل ہو گیا ، کیا یہ دین میرے جیتے جی بدل جائے گا ؟ (مشکوٰۃ)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تمام اہلِ زمین کا ایمان ایک پلّہ میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان دوسرے پلّہ میں رکھ کروزن کیا جائے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان کا پلّہ بھاری رہے گا ۔ (تاریخ الخلفاء:١٢١، شعب الایمان للبیہقی،چشتی)

حضرت عامر بن عبداللہ بن زبیرث سے مروی ہے کہ جب آیت وَلَوْ اَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْہِمْ اَنِ اقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ۔
ترجمہ : اوراگر ہم اُن پر فرض کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کر دو ۔ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ ! اگر آپ مجھے حکم دیتے کہ میں خودکو قتل کر لوں تو میں خود کو ضرور قتل کر دیتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم نے سچ کہا ۔ (تاریخ الخلفاء:١٢٠، ابن ابی حاتم)

حضرت ابوسعید خُدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو اس کا اختیار دیاکہ وہ دنیا کی نعمتیں پسند کر لے یا آخرت کی نعمتیں جو اللہ کے پاس ہیں تو اُس نے آخرت کی نعمتیں پسند کر لیں ۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ رونے لگے اور عرض کی ، یارسول اللہ ! کاش ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں ۔ ہمیں تعجب ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کا ذکر فرمارہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں ، آپ پر ہمارے ماں باپ قربان ہو جائیں ۔ بعد میں ہمیں علم ہوا کہ وہ صاحبِ اختیار بندے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے ۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہم سب سے زیادہ علم والے تھے ۔ (بخاری، مسلم)

حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں سے پوچھا ، یہ بتاؤ کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ لوگوں نے کہا ، آپ ۔ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ، نہیں ! سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ سنو ! جنگِ بدر میں ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک سائبان بنایا تھا ۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سائبان کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مشرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کر دے ۔ خدا کی قسم ! ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا تھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہاتھ میں برہنہ تلوار لیے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے اور پھر کسی مشرک کو آپ کے پاس آنے کی جرأت نہ ہو سکی ۔ اگر کوئی ناپاک ارادے سے قریب بھی آیا تو آپ فوراً اس پر ٹوٹ پڑے ۔ اس لیئے آپ ہی سب سے زیادہ بہادر تھے ۔ (تاریخ الخلفاء: ١٠٠،مسند بزار)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔