Friday 21 February 2020

ایمانِ ابو طالب کے متعلق حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عقیدہ

0 comments
ایمانِ ابو طالب کے متعلق حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عقیدہ

محترم قارئینِ کرام : مسلہ ایمانِ ابو طالب کو لے کر بہت سے نا ہنجار اکابرینِ اہلسنت کو گالیاں بک رہے ہیں اور کچھ جہلاء کی ہمت تو یہاں تک بڑھی کہ بول اٹھے یا لکھ مارا کہ جو ابو طالب کو مومن نہیں مانتا وہ لعنتی اور کافر ہے ایسے بدبخت جہلائے زمانہ کو کیا کہا جائے اُن کے کےلیئے ارشادات حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ پیش خدمت ہیں اب وہ جہلائے زمانہ سوچیں کہ اُن کی بکواسات کی زد میں کون کون آرہا ہے ۔ بہر حال اہلسنت کا مؤقف بڑا معتدل ہے کہ جمہور اہلسنت ایمانِ ابو طالب کے قائل نہیں مگر جو حضرات بعض کمزور دلائل کے سہارے قائل ہیں انہیں بھی کچھ نہیں کہتے اور ابو طالب کے احترام کے قائل ہیں اُن کی خدمات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جہلائے زمانہ کے شر و فتنہ سے بچائے آمین ۔ آیئے اب اس مسلہ کے بارے میں ارشادات حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ پڑھتے ہیں :

حضرت سیّدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا ، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ ۔
ترجمہ : حضرت سیّدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب میرے والد فوت ہوئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا فوت ہو گئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جا کر انہیں کسی گڑھے میں چھپا دو ۔ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جائیں اور انہیں دفنا دیں ، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں ۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا ۔ (مسند الطيالسي الجزء الاوّل عربی صفحہ نمبر 113 حدیث نمبر 122 ،حدیث صحیح وسنده ‘ حسن متصل،چشتی)،(مسندابو داؤد طیالسی مترجم اردو جلد 1 صفحہ نمبر 98 حدیث 122 مطبوعہ پروگریسو بکس اردو بازار لاہور)

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ مَاتَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ يُوَارِيهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ وَلَا تُحْدِثَنَّ حَدَثًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، ‏‏‏‏‏‏فَوَارَيْتُهُ ثُمَّ جِئْتُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي وَذَكَرَ دُعَاءً لَمْ أَحْفَظْهُ. ۔ (سنن أبي داؤد بَاب الرَّجُلِ يَمُوتُ لَهُ قَرَابَةٌ مُشْرِكٌ رقم 2799)،(سنن النسائي بَاب مُوَارَاةِ الْمُشْرِكِ رقم 190)
ترجمہ : حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گمراہ چچا فوت ہو گئے ہیں ان کو کون دفنائے گا ؟ ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں ۔ (سنن النسائی مترجم اردو جلد نمبر 3 حدیث نمبر 2008 صفحہ نمبر 704 باب : کافر و مشرک کو دفن کرنے کا بیان) ، (مسند الامام احمد : 97/1،چشتی)(سنن ابي داؤد : 3214) (سنن النسائي : 190، 2008 ، واللفظ لهٗ ، وسندهٗ حسن،چشتی) ، اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 114/7) اور امام ابنِ جارود رحمۃ اللہ علیہ (550ھ) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے ۔ یہ حدیث نصِ قطعی ہے کہ ابوطالب مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔

نوٹ : یاد رہے یہ روایت حضرت امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ باب : کافر و مشرک کو دفن کرنے کا بیان میں لائے ہیں امام نسائی امام نسائی کرنے والو اُن کی یہ روایت کہاں رکھو گے ؟ اور فرمانِ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو کہاں رکھو گے ؟

لفظ ’’ضال‘‘ کے معنیٰ

(1) جب ''ضلال'' کی نسبت غیرنبی کی طرف ہو تواس کے معنی گمراہ ہوں گے ۔

(2) جب ''ضلال'' کی نسبت نبی کی طر ف ہو تو اس کے معنی وار فتہ محبت یا راہ سے ناواقف ہوں گے ۔

(1) کی مثال یہ ہے

(1) مَنۡ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَاہَادِیَ لَہٗ ۔
ترجمہ : جسے خدا گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں ۔ (پ9،الاعراف:186)

(2) غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآ لِّیۡنَ ۔ (سورہ فاتحہ)
ترجمہ : ان کا راستہ نہ چلا جن پر غضب ہو انہ گمراہوں کا ۔ (پ1،الفاتحۃ:7)
(3) وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ۔

ترجمہ : جسے رب گمراہ کردے تم اس کیلئے ہادی رہبر نہ پاؤ گے ۔ (پ15،الکھف:17)

ان جیسی تمام آیتو ں میں چونکہ ضلال کا تعلق نبی سے نہیں غیر نبی سے ہے تو اس کے معنی ہیں گمراہی خواہ کفر ہو یا شرک یا کوئی اور گمراہی سب اس میں داخل ہوں گے ۔

(2) کی مثالیں

(1) وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۔
ترجمہ : اے محبوب رب نے تمہیں اپنی محبت میں وارفتہ پایا تو اپنی راہ دے دی ۔ (پ30،الضحی:7)

(2) قَالُوۡا تَاللہِ اِنَّکَ لَفِیۡ ضَلٰلِکَ الْقَدِیۡمِ ۔
ترجمہ : وہ فرزندان یعقوب بولے کہ خدا کی قسم تم تو اپنی پرانی خودر فتگی میں ہو۔ (پ13،یوسف:95)

(3) قَالَ فَعَلْتُہَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیۡنَ ۔
ترجمہ : فرمایا موسیٰ نے کہ میں نے قبطی کو مارنے کا کام جب کیا تھا جب مجھے راہ کی خبر نہ تھی ۔ (پ19،الشعرآء:20)

یعنی نہ جانتا تھا کہ گھونسہ مارنے سے قبطی مرجائے گا ۔ ان جیسی تمام آیتو ں میں ''ضلال'' کے معنی گمراہی نہیں ہوسکتے کیونکہ نبی ایک آن کے لئے گمراہ نہیں ہوتے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

(1) مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی ۔
ترجمہ : تمہارے صاحب محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نہ بہکے نہ بے راہ چلے ۔ (پ27،النجم:2)

(2) لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّلٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ۔
ترجمہ : حضر ت شعیب نے فرمایا کہ مجھ میں گمراہی نہیں لیکن میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں ۔ (پ8،الاعراف:61)

ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ نبی گمراہ نہیں ہوسکتے ۔ آیت 2 میں''لکن'' بتا رہا ہے کہ نبوت اور گمراہی جمع نہیں ہوسکتی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔