Tuesday, 11 February 2020

امیر المومنین تاجدارِ صداقت حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

امیر المومنین تاجدارِ صداقت حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
محترم قارئینِ کرام : تاجدارِ صداقت حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسم مبارک عبد اللہ ہے ۔

نسب نامہ : عبد الله بن عثمان بن عمرو بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فہر ـ (المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابہ حدیث:۴۴۰۳)

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت عثمان کا لقب “ابو قحافہ” ہے ۔ اور آپ کی والدہ کانام ”ام الخیر سلمی بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ”ہے ۔

تاریخ پیدا ئش : حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پیدا ئش واقعہ فیل کے دوسال چھ مہینے بعد ہوئی ۔ (الاصابہ،ج:۴/ص:۱۰۱)

القاب و خطابات : آپ کا لقب عتیق ہے ۔ جیساکہ حضرت عائشہ ر ضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا : اے ابو بکر! “انت عتیق من النار” تو جہنم سے آزاد ہے ۔ اسی دن سے آپ کا نام “عتیق” پڑ گیا ۔ (جامع ترمذی باب فی مناقب ابی بکر وعمر رضی اللہ عنھما کلیھما حدیث:۳۶۷۹)

آپ کا لقب “صدیق “ بھی ہے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاسے روایت ہے کہ : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رات میں مسجد اقصی کی سیر کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کے وقت اس واقعہ کو بیان فر مایا:جس کی وجہ سے کئی مسلمان مرتد ہو گئے اور ماننے سے انکار کردیا (کیونکہ مسجد حرام سے مسجد اقصی کی دوری اس وقت کے اعتبار سے ایک مہینے کا راستہ تھا جسے رات کے تھوڑے سے حصے میں طے کرنا بظاہر نا ممکن تھا) مگر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کافروں نے یہ خبر سنائی تو آپ نے بلا توقف اس کی تصدیق کی اور فرمایا کہ : میں صبح وشام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر کی بنیاد پر اس سے بھی زیادہ بظاہر ناممکن چیزوں کی تصدیق کرتا ہوں تو یہ کیا ہے ؟ اسی وجہ سے آپ کا لقب “صدیق”یعنی تصدیق کرنے والا ، سچ ماننے والا پڑ گیا ۔ (المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ حدیث نمبر ۴۴۰۷،چشتی)

تاجدارِ صداقت حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بصیرت و تدبر ، عزم و استقلال، وفاداری و فداکاری ، ایثار و انفاق کا مرقع خیر ، مجسم اسلام کے مردِ مومن کی سچی تصویر تھے، وہ ثانی اثنین فی الغار، وہ جانثارِ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، پروانہ شمع رسالت، اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، ہر دور میں اہلِ حق اور متلاشیان راہ حق و ہدایت کے لئے اصحاب رسول میں سے نمونہ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جنکے بارے میں حضرت اسد بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توجہ فرمائی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نہ دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پکارا : ابوبکر! ابوبکر! روح القدس جبرائیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی ہے کہ میری اُمت میں سے میرے بعد سب سے بہتر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (طبرانی، معجم الأوسط، 6/292، رقم : 6448)

تاجدارِ صداقت حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سمندر میں اپنی ذات کو فنا کر چکے تھے۔ دولتِ دنیا ان کے سامنے ہیچ تھی ۔ اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لبوں پر مچلتا تو لہو کی ایک ایک بوند وجد میں آ جاتی، ہمہ وقت بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سراپائے ادب رہتے، اور سود وزیاں سے بے نیاز ہر وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اشارے کے منتظر رہتے کہ کب حکم ہو اور وہ اپنی جان و مال آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار کریں ۔ ایک موقع پر جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جو کچھ تھا وہ سب کچھ لے کر حاضر خدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا : میں ان کے لئے اللہ تعالی اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں ۔ (ترمذی، السنن، کتاب المناقب عن رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب فی مناقب ابی بکر و عمر رضی الله عنهما کليهما، 6 : 614، رقم : 3675،چشتی)

گویا وہ بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بقول شاعر یوں عرض گزار ہوئے :

اے تجھ سے دیدہ مہ و انجم فروغ گیر
اے تیری ذات باعث تکوین روزگار

(علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ)

جملہ صفات کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کی وفا شعاری اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آپ کو وہ مقام و مرتبہ عطا کیا جس پر ساکنانِ عرش بھی رشک کرتے ہیں ۔

صحابی رسول کا لقب نص قرآنی سے

قرآن مجید میں الحمد سے والناس تک ایک لاکھ چودہ ہزار یا چوبیس ہزار صحابہ کرام کی جماعت میں سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی ایک فرد ہیں جنکی صحابیت پر اللہ رب العزت نے نص صریح کے ساتھ مہر تصدیق لگا دی۔ ان کو صحابی رسول، اللہ تعالی نے خود قرار دیا ہے۔ غار ثور میں ہجرت کے وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یارِ غار ہونے کا شرف آپ کو نصیب ہوا۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے سورہ توبہ کی آیات میں اس طرح شان بیان کی گئی : إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ۔ (سورہ التوبه، 9 : 40)
ترجمہ : اگر تم ان کی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلبہ اسلام کی جدوجہد میں) مدد نہ کرو گے (تو کیا ہوا) سو بے شک اللہ نے ان کو (اس وقت بھی) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں (وطنِ مکہ سے) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو (ہجرت کرنے والوں) میں سے دوسرے تھے جب کہ دونوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے فرما رہے تھے غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں (فرشتوں کے) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا، اور اللہ کا فرمان تو (ہمیشہ) بلند و بالا ہی ہے، اور اللہ غالب، حکمت والا ہے ۔

اس میں ’’اذ یقول لصاحبہ‘‘ جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق) سے فرما رہے تھے کے الفاظ قرآن مجید میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا بیانِ فضیلت ہے اور یہ لقب کائناتِ صحابہ میں کسی اور کو عطا نہیں کیا گیا ۔

جب قریش کی ایذاء رسانی حد سے بڑھ گئیں اور مسلمانوں کو ستانے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہ رکھی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حبشہ کے بعد پھر مدینہ ہجرت کا حکم فرمایا ۔ اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم خداوندی کے منتظر تھے، جب اللہ نے آپ کو حکم ہجرت دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ہجرت کا ذکر فرمایا۔ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پکار اٹھے : اے اللہ کے رسول مجھے بھی معیت سے نوازئیے ۔ ارشاد گرامی ہوا ’الصحبۃ‘ معیت تو ضرور ہو گی اس مصائب والے سفر میں تم میرے ساتھ ہو گے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ۔ بخدا مجھے اس دن سے قبل معلوم نہ تھا کہ کوئی خوشی سے بھی آنسو بہاتا ہے میں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس روز روتے دیکھا ۔ (سيرت ابن هشام، 1 : 485)

اور یوں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہجرت کے وقت پیغمبر خدا کا ساتھی ہونے اور یار غار ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہوا اور غار ثور میں تین دن اور تین راتیں متوجہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور متوجہ علیہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے ۔

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جنگِ ذاتِ السلاسل کا امیرِ لشکر بنا کر روانہ فرمایا جب میں واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یارسول اﷲ ! عورتوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عائشہ کے ساتھ۔ میں نے پھر عرض کیا : مردوں میں سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اُس کے والد (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ۔ میں نے عرض کیا : پھر اُن کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عمر بن خطاب کے ساتھ۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے بعد چند دوسرے حضرات کے نام لئے ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم، باب : من فضائل أبی بکر الصديق، 3/1339، الرقم : 3462)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جو محبت تھی وہ صرف اس وجہ سے نہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے بلکہ یہ محبت اس وجہ سے بھی تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی ذاتی خصوصیات، اپنے اعلی اوصاف اپنے کردار اور باکمال صلاحیتوں کی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے ۔

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمارے سردار، ہم سب سے بہتر اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے ۔ (ترمذی، السنن، کتاب المناقب عن رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابی بکر صديق رضی الله عنه 5 : 606، رقم : 3656)

امام زہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کیا تم نے ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) کے بارے میں بھی کچھ کلام کہا ہے۔ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں (یا رسول اﷲ!)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ کلام پڑھو تاکہ میں بھی سنوں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ یوں گویا ہوئے : وہ غار میں دو میں سے دوسرے تھے۔ جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر پہاڑ (جبل ثور) پر چڑھے تو دشمن نے اُن کے ارد گرد چکر لگائے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو معلوم ہے کہ وہ (یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کو اُن کے برابر شمار نہیں کرتے ہیں ۔ (یہ سن کر) رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک ظاہر ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حسان تم نے سچ کہا، وہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ) بالکل ایسے ہی ہیں جیسے تم نے کہا ہے ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 67، رقم : 4413،چشتی)

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہمہ وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں رہتے تھے جس کی وجہ سے آپ پورے اسلام کو سمجھتے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسلام کی روح کو سمجھا ۔ دعوت کی حقیقت اور مزاج کا احاطہ کیا۔ ربانی منہج آپ رضی اللہ عنہ کے اندر جاگزیں ہو گیا اور اسی الٰہی منہج کی روشنی میں اللہ عزوجل، حیات و کائنات کی حقیقت اور وجود کے راز کی معرفت آپ نے حاصل کی عبادات، قیام اللیل، ذکر الٰہی، تلاوت قرآن پاک آپ کو انتہائی محبوب ہو گئیں۔ ہر وقت صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رہنے سے نفس کی تطہیر اور روح کا تزکیہ عمل میں آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اخلاص اور للہیت نے آپ کو بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ خاص مقام عطا کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو اپنی امت میں اپنا نائب اور دوست قرار دیا ۔

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگرمیں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب : المناقب، باب : قول النبی : لو کنت متخذا خليلا، 3/1338، رقم : 3456)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہتے تھے سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھایا کرتے تھے، یہاں تک کہ پیر کا دن آ گیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز کی حالت میں صفیں باندھے کھڑے تھے۔ (اِس دوران) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(اپنے) حجرہ مبارک سے پردہ اُٹھایا اور کھڑے ہو کر ہمیں دیکھنے لگے ۔ ایسے لگ رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور کھلے ہوئے قرآن کی طرح ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبسم ریز ہوئے۔ پس ہم نے ارادہ کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی سے نماز توڑ دیں پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں کے بَل (مصلّی امامت سے) پیچھے لوٹے تاکہ صف میں شامل ہو جائیں اور گمان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے (گھر سے) باہر تشریف لانے والے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اشارہ فرمایا کہ تم لوگ اپنی نماز کو مکمل کرو اور پردہ نیچے سرکا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُسی دن وصال ہو گیا ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب : الأذان، باب : أَهْلُ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ، 1 : 240، رقم : 648،چشتی)

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی قوم کے لئے مناسب نہیں کہ ان میں ابوبکر صدیق موجود ہوں اور اُن کی امامت اِن (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے علاوہ کوئی اور شخص کروائے ۔ (ترمذی، السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : فی مناقب ابی بکر وعمر رضی ﷲ عنهما کليهما، 5 : 614، رقم : 3673)

اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم عتیق یعنی ﷲ تعالیٰ کی طرف سے آگ سے آزاد ہو۔ پس اُس دن سے آپ رضی اللہ عنہ کا نام ’’عتیق‘‘ رکھ دیا گیا ۔ (ترمذی، السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : فی مناقب ابی بکر وعمر رضی ﷲ عنهما کليهما، 5 : 616، رقم : 3679)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت جبرائیل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا ، پھر مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری اُمت (جنت میں) داخل ہو گی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول ﷲ! کاش میں آپ کے ساتھ ہوتا تاکہ میں بھی جنت کا وہ دروازہ دیکھتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقینا تم تو میری اُمت کے وہ پہلے شخص ہو جو جنت میں اُس دروازہ سے داخل ہو گا ۔ (ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب الخلفاء، 4 : 213، رقم : 4652،چشتی)

مدت خلافت : اسلام دشمن عناصر جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے انتظار میں تھے کہ جیسے آپ کا وصال ہو ، ہم اپنی طاقت وقوت لے کر اٹھیں اور اسلام کو صفحئہ ہستی سے نا بود کردیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ان لوگوں نے طرح طرح کے عجیب و غریب فتنے کھڑے کر دئیے ۔کچھ مکار صفت لو گوں نے نبوت کا دعوی کردیا اور مسلمانوں سے ٹکڑانے کے لئے فوجی طاقتیں جمع کر لی ۔تو کچھ لوگو ں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیااور کچھ لوگوں نے مدینہ منورہ کو مر کز ماننے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے پورے عرب میں ایک عجیب و غریب صورتحال پیدا ہو گئی اس کے ساتھ کفار و مشر کین کی بیرونی طاقتوں نے اسلامی حکومت کے سر حدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اندرونی اور بیرونی دونوں اعتبار سے شدید مشکلات در آئیں ۔ مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی خداداد فہم و بصیرت اور شجاعت و بہادری سے سارے فتنوں کو سر کیا۔اور تمام فتنوں کو جڑ سے اکھاڑ کر اسلام اور اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط تر کیا اوراسلامی حکومت کے دائر ے میں تو سیع کے ساتھ بہت سارے کار ہائے نمایاں انجام دئے۔خاص طور سے آپ نے قرآن مجید ،جو اب تک اکٹھا ایک جگہ جمع نہ ہو سکا تھا جمع کر وایا ۔ آپ نے کل دو سال سات مہینے کار خلافت انجام دیا ۔ (المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ،حدیث:۴۴۱۷،چشتی)

وصال پُر ملال : آپ کا وصال۲۲/جمادی الآخرہ سن ۱۳ ہجری میں ہوا ۔ آپ کی وصیت تھی کہ غسل ان کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس دے ۔ سو انہوں نے غسل دیا۔حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے جنازہ کی نماز پڑھائی ۔ اور رات کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو اقدس میں آپ کو دفن کیا گیا ۔ آپ کی کل عمر شریف ۶۳سال کی ہوئی ۔ (المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ ، حدیث:۴۴۰۹ )

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حاضر ہیں ، جواب آیا حبیب کو حبیب کے پاس داخل کردو حبیب حبیب کا مشتاق ہے

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا بَکْرٍ الْوَفَاةُ أَقْعَدَنِي عِنْدَ رَأْسِهِ وَقَالَ لِي : يَا عَلِيُّ، إِذَا أَنَا مِتُّ فَغَسِّلْنِي بِالْکَفِّ الَّذِي غَسَّلْتَ بِهِ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَحَنِّطُوْنِي وَاذْهَبُوْا بِي إِلَی الْبَيْتِ الَّذِي فِيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاسْتَأْذَنُوْا فَإِنْ رَأَيْتُمُ الْبَابَ قَدْ يُفْتَحُ فَادْخُلُوْا بِي وَإِلَّا فَرُدُّوْنِي إِلٰی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِيْنَ حَتّٰی يَحْکُمَ اﷲُ بَيْنَ عِبَادِهِ قَالَ : فَغُسِّلَ وَکُفِّنَ وَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ يَأْذُنُ إِلَی الْبَابِ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هٰذَا أَبُوْ بَکْرٍ مُسْتَأْذِنٌ فَرَأَيْتُ الْبَابَ قَدْ تَفَتَّحَ وَسَمِعْتُ قَاءِـلًا يَقُوْلُ : أَدْخِلُوا الْحَبِيْبِ إِلٰی حَبِيْبِهِ فَإِنَّ الْحَبِيْبَ إِلَی الْحَبِيْبِ مُشْتَاقٌ. رَوَاهُ بْنُ عَسَاکِرَ وَالسُّيُوْطِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا : جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا : اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو آپ خود مجھے اپنے ان ہاتھوں سے غسل دینا جن ہاتھوں سے آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے (بھی وہی) خوشبو لگانا اور (میری میت) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس لے جانا اگر تم دیکھو کہ (خود بخود) دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لا کر عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا اس وقت تک کہ جب اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ نہ فرما دے (یعنی قیامت نہ آ جائے۔ اور پھر ان کی خواہش کے مطابق ہی) انہیں غسل اور (متبرک خوشبو والا) کفن دیا گیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) سب سے پہلے میں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی اور عرض کیا : یارسول اﷲ ! یہ ابو بکر ہیں جو اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اَقدس کا دروازہ (خود بخود) کھل گیا اور میں نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے۔ حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کردو۔ بے شک حبیب بھی ملاقاتِ حبیب کے لیے مشتاق ہے۔ (أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق،30 / 436، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 492،چشتی)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات طیبہ کے آخری لمحات میں آپ کی بارگاہ میں حاضرتھا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : اے علی جب میرا انتقال ہوجائے تو مجھے بھی اُسی مبارک برتن سے غسل دینا جس برتن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو غسل دیا گیا تھا۔ پھر مجھے کفن دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور کی جانب لے جانا اور بارگاہ رسالت سے یوں اجازت طلب کرنا : اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ! ھٰذَا اَبُوْبَکْر یَسْتَاْذِنُ ۔ یعنی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ! آپ پر سلام ہو، ابوبکر آپ کی خدمت میں حاضر ہیں اور اجازت چاہتے ہیں ۔ اگر روضہ اقدس کادروازہ کھلے تو مجھے اس میں دفن کر دینااور اگر اجازت نہ ملے تو مسلمانوں کے قبرستان (جنۃ البقیع) میں دفن کر دینا ۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ : حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل و کفن کے معاملات سے فارغ ہونے کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت کے مطابق روضہ محبوب کے دروازے پر حاضرہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی بارگاہ میں یوں عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ابو بکر آپ سے اجازت کے طالب ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جیسے ہی میرے الفاظ مکمل ہوئے تو میں نےدیکھا کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا دروازہ کھل گیا اور اندر سے آواز آئی : اَدْخِلُوْا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبَ یعنی محبو ب کو محبوب سے ملادو ۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریمصلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے پہلو میں دفنا دیا گیا ۔ (الخصائص الکبریٰ، باب حیاتہ فی قبرہ۔۔الخ، ج۲، ص۴۹۲)(السیرۃ الحلبیۃ، باب یذکر فیہ مدۃ مرضہ۔۔۔الخ، ج۳، ص۵۱۷)(لسان المیزان، حرف العین المھملۃ، من اسمہ عبد الجلیل ، ج۴، ص۲۲۱)،(أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق،30 / 436)(والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 492)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کے پاکیزہ گروہ کی خود تربیت فرمائی۔ صحابۂ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان نے دین کو مکمل احتیاط اور اخلاص سے جہان بھر میں پہنچایا۔کفر و شرک کو سرنگوں کیا۔ سرور کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد خلیفۂ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منہاجِ نبوی کے مطابق اسلامی مملکت کے نظام کو چلایا۔ آپ کے عہد میں کئی کئی محاذ درپیش آئے، فتنے سر اُبھارے، یہود و نصاریٰ کی سازشوں نے نئے نئے محاذ تیار کیے، آپ نے جس حکمت و دانش، فکر و تدبر اور فہم و فراست کے ساتھ ان کا مقابلہ کر کے انھیں پسپا کیا وہ ایثار بے مثال ہے، جس پر آج بھی اربابِ تحقیق و دانش محوِ حیرت ہیں۔ مؤرخین تعجب کرتے ہیں اور اغیار آپ کی حکمت کو خراجِ عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ کے عہدِ مبارک میں متعدد فتوحات ہوئیں اور مملکتِ اسلامیہ کی توسیع ہوئی۔ آپ نے اسلام کے دعوتی نظام کو بہ حسن و خوبی آگے بڑھایا اور کافی تعداد میں بنجر دل اسلام کی خوشبو  سے باغ و بہار ہو گئے۔ تحریکِ ارتداد کا خاتمہ، ایامِ عسرت میں مال سے اسلام کی مدد، اور بے پناہ سیاسی تدبر جس کی بنیاد مومنانہ فراست پر تھی؛ یہ آپ کے وہ کارنامے ہیں جن کی بنیاد پر بیگانے بھی اعتراف پر مجبور ہیں ۔ اپنے تو آپ کی شان و عظمت، وجاھت و علم، فہم و فراست کے قائل ہیں ہی اور بیگانے بھی اعتراف پر مجبور ہیں، ان میں مستشرقین بھی ہیں، مغربی مصنفین اور متعصب مؤرخین بھی، اغیار کے تاثرات کی ایک جھلک دیکھیں : ⏬

(2) سر ولیم میور : یہ بڑا متعصب مؤرخ گزرا ہے، اپنی کتاب The Caliphate its Rise, Decline and Fall  میں لکھتا ہے: ’’(حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے قلب و ذہن میں شخصی جاہ و حشمت کا خیال تک نہ تھا، حالاں کہ وہ شاہانہ اختیارات کے مالک تھے اور کسی کے سامنے جواب دہ نہ تھے۔ انھوں نے اپنی ساری طاقت صرف خدمتِ اسلام اور اس کی ترقی و برتری میں صرف کی تاکہ ملتِ اسلامیہ کو فائدہ ہو۔ (حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی کام یابی کا سب سے بڑا راز (حضرت) محمد (مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) پر کامل ایمان و ایقان تھا۔‘‘… اقبالؔ کے الفاظ میں یہ عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی تھا جس نے شانِ صدیقی کو بلند کیا :⏬

تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشقِ تمام مصطفیٰ، عقل تمام بولہب

(2) لین پول : مسٹر لین پول اپنی کتاب Studies in a Mosque  میں لکھتا ہے : ’’(حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فیصلہ کرتے وقت متین اور عادل ہوتے تھے، وہ دل کے نرم اور کریم النفس تھے، اور خدمت اسلام کے بے لاگ جذبے سے سرشار ۔

(3) ایڈورڈ گبن : یہ مصنف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قناعت و فیاضی کے باب میں اپنی کتاب History of the Saracensمیں لکھتا ہے : (حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اپنا وظیفہ تین درہم، اس قدر غذا اور دیگر ضروریات کو کافی سمجھا جس سے وہ ایک اونٹ اور حبشی غلام کی پرورش کر سکیں، آپ ہر ہفتے جمعۃالمبارک کو بہت مستحق اور مفلس مسلمانوں میں اپنی اور بیت المال کی رقم تقسیم فرماتے۔ (حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے وصال پر جب آپ کے جانشین (حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو صرف موٹے کپڑے کا ایک جوڑا ورثے میں ملا تو انھوں نے بڑی مسرت کے ساتھ فرمایا: ایسی شان دار مثال سے بہتر اور بڑھ کر مثال قائم کرنا نا ممکن ہے ۔

(4) ڈاکٹر ویل : ڈاکٹر موصوف اپنی کتاب A History of the Islamic peopleمیں لکھتے ہیں : (حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی نجی زندگی اور عہد حکومت ایسا گزرا ہے جس پر … انگشت نمائی نا ممکن ہے… (حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نرم دل، سادہ مزاج اور متقی و پرہیز گار تھے ۔

ایسے تاثرات اگر یک جا کیے جائیں تو دفتر پُر ہو جائیں ۔ سچ ہے شانِ صدیقی ایسی پاکیزہ و مثالی ہے کہ دُشمن بھی آپ کی صداقت و عظمت کی گواہی دینے پر مجبور ہے ۔ الفضل ما شھدت بہ الاعداء ۔ اور یہ بھی صحیح ہے ’’مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری ۔ اور ہمیں اپنے اس عظیم پیشوا اور صداقت و سچائی کے پیکر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کے الفاظ میں یوں نذر پیش کرنا چاہیے : ⏬

سایۂ مصطفی مایۂ اصطفیٰ
عزّونازِ خلافت پہ لاکھوں سلام
یعنی اس افضل الخلق بعدالرسل
ثانی اثنینِ ہجرت پہ لاکھوں سلام

(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...