(2) ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَار ۔ شانِ حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
محترم قارئینِ کرام : اس موضوع سے متعلق حصّہ اوّل امید ہے آپ پڑھ چکے ہونگے آیئے اب حصّہ دوم پڑھتے ہیں :
امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٥٨ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : اللہ کی قسم حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ایک رات اور ایک دن، عمر کی تمام عمر سے افضل اور بہتر ہے، کیا میں تمہیں ان کی ایک رات اور ایک دن کے متعلق بتاؤں ؟ راوی نے کہا ہاں ! اے امیرالمومنین ! حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : رات تو وہ ہے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ ہجرت فرمائی، حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کبھی رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے چلتے، کبھی آگے چلتے ، کبھی دائیں چلتے، کبھی بائیں چلتے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا : اے ابوبکر ! ایسا کیوں کر رہے ہو ؟ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چاروں طرف اس لیے چل رہا ہوں کہ اگر کوئی اچانک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ آور ہو تو اس کا پہلا نشانہ میں بنوں ۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس رات چلتے رہے حتیٰ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک پائوں گھس گئے ، یہ دیکھ کر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھا کر دوڑنا شروع کیا حتیٰ کہ غار ثور کے دہانہ پر پہنچ گئے ، وہاں انہوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اتارا اور کہا : آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس ذات کی قسم جس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حق دے کر بھیجا ہے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار میں پہلے داخل نہ ہوں، پہلے میں داخل ہوں گا، تاکہ اگر اس میں کوئی مضر چیز ہے تو پہلے مجھے اس کا ضرر پہنچے ۔ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں گئے اور کوئی مضر چیز نہیں پائی، غار میں بہت سوراخ تھے جن میں مختلف اقسام کے سانپ تھے ۔ ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو یہ خوف ہوا کہ کہیں ان سوراخوں سے کوئی سانپ نکل کر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذاء نہ پہنچائے ، انہوں نے سوراخ میں اپنا قدم رکھ دیا، سانپ ان کے پیر پر ڈنک مارنے لگے اور ڈسنے لگے اور تکلیف کی شدت سے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اے ابوبکر غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : یہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رات ہے ، الحدیث ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ٤٧٧، البدایہ والنہایہ ج ٢ ص ٥٦٣، طبع جدید، الریاض النضرۃ للمحب الطبری ج ١ ص ١٠٦، الدرالمنثور ج ٤ ص ١٩٨، مختصر تاریخ دمشق ج ١٣ ص ٥٥ )
امام ابو الفرج عبدالرحمن بن علی جوزی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں : حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ ہم غار میں ہیں، اگر کسی نے اپنے قدموں کے نشان کو دیکھا تو وہ ہمارے قدموں کے نشانوں کو بھی دیکھ لے گا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اے ابوبکر تمہارا ان دونوں کے متعلق کیا گمان ہے جن کا تیسرا اللہ ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٥٣،ڈاکٹر فیض احمد چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٨١، مسند احمد ج ١ ص ٤)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ غار کی شب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! مجھے پہلے غار میں داخل ہونے دیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تم داخل ہو، حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ داخل ہو کر اپنے ہاتھ سے ٹٹول ٹٹول کر غار کے سوراخوں کو دیکھتے رہے، پھر انہوں نے اپنے کپڑے کو پھاڑ کر غار کے تمام سوراخ بند کر دئیے، ایک سوراخ باقی رہ گیا تو اس میں اپنی ایڑی رکھ دی۔ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ داخل ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھآ اے ابوبکر تمہارا کپڑا (قمیص) کہاں ہے ، تو حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ واقعہ بیان کیا، تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہاتھ اٹھا کر یہ دعا فرمائی : اے اللہ ! ابوبکر کو جنت میں میرے ساتھ میرے درجہ میں رکھنا ۔ (المنتظم ج ٢ ص ١٧٦، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ، سبل الہدیٰ والرشاد، ج ٣ ص ٢٤٠، دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)
امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے الوفاء میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سوراخ پر اپنی ایڑی رکھ دی تو سانپ ان کی ایڑی میں ڈنک مارنے لگے، اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرما رہے تھے : اے ابوبکر غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دل میں سکون نازل فرمایا ۔ (الوفا ج ١ ص ٢٣٨، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ لائل پور) ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١٥٠٢ ھ نے بھی اتنا ہی لکھا ہے ۔ (مدارج النبوت ج ٢ ص ٥٨، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر، ١٣٩٧ ھ)
امام ابو جعفر احمد محب طبری رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ٦٩٤ ھ لکھتے ہیں : ابن السمان نے کتاب الموافقہ میں بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں داخل ہوئے اور اس میں جو سوراخ بھی دیکھا اس میں اپنی انگلی داخل کردی حتیٰ کہ ایک بڑا سوراخ دیکھا اس میں ران تک اپنی ٹانگ داخل کردی پھر کہا یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! اب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار میں آجائیے ، میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے جگہ تیار کردی ہے ۔ (الی ان قال) رات بھر سانپ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ٹانگ میں ڈنک مارتے رہے اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بڑی تکلیف میں رات گزاری ، صبح کو انہیں دیکھ کر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اے ابوبکر ! کیا ہوا ؟ ان کی پوری ٹانگ سوجی ہوئی تھی ، حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! یہ سانپ کے ڈنک مارنے کا اثر ہے ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا ؟ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نیند کو خراب کرنا ناپسند کیا ، پھر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر اپنا ہاتھ پھیرا تو ان کے جسم کا سارا درد جاتا رہا اور وہ بالکل ٹھیک ہوگئے ۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ ج ١ ص ١٠٢، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی) ۔ اس سلسلہ میں دوسری روایت محب طبری نے اس طرح بیان کی ہے : حضرت عمر بن الخطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ایک رات کی عظمت اور خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ غار ثور میں پہنچے تو انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پہلے غار میں داخل نہ ہوں ۔ پہلے میں داخل ہوتا ہوں تاکہ اگر اس میں کوئی مضر چیز ہو تو اس کا ضرر مجھے لاحق ہو، نہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ۔ جب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں داخل ہوئے تو اس میں بہت سوراخ تھے ، انہوں نے اپنی چادر پھاڑ کر وہ تمام سوراخ بھر دئیے ۔ دو سوراخ باقی رہ گئے تو انہوں نے ان پر اپنا پیر رکھ دیا۔ پھر انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بلایا ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آئے اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں سر رکھ کر سو گئے ، سانپ نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پیر میں ڈنک مارنے شروع کر دئیے اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی جگہ سے جنبش بھی نہیں کی کہ کہیں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار نہ ہوجائیں ۔ ان کے آنسو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرے پر گرے تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار ہوگئے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا : اے ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ! کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا : آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر میرے ماں باپ فدا ہوں مجھے سانپ نے ڈس لیا، پھر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے پیر پر لعاب دہن لگایا تو ان کی تمام تکلیف دور ہوگئی ۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ ج ١ ص ١٠٤، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
امام احمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں : نیز روایت کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے غار میں داخل ہوئے تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ضرر سے محفوظ رکھیں ، انہوں نے ایک سوراخ دیکھا تو اس میں اپنی ایذی رکھ دی تاکہ اس میں سے کوئی سانپ نکل کر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ضرر نہ پہنچائے ، پھر سانپ حضرت ابوبکر (رض) کی ایڑی پر ڈنک مارنے لگے اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں تھا، جب سانپ نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ایڑی پر دنک مارا تو حضرت ابوبکر (رض) کے آنسو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرے پر گرے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا : اے ابوبکر ! کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا : آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر میرے ماں باپ فدا ہوں مجھے سانپ نے کاٹ لیا تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس جگہ اپنا لعاب دہن لگا دیا اس سے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تکلیف جاتی رہی۔ اس حدیث کو زین بن معاویہ متوفی ٥٣٠ ھ نے روایت کیا ہے ۔ (المواہب اللدنیہ ج ١ ص ١٤٩، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٦ ھ، شرح الزرقانی علی المواہب ج ١ ص ١٣٥، دارالمعرفہ بیروت،ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ، امام علی بن برہان الدین حلبی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١٠٤٤ ھ نے بھی اس روایت کو درج کیا ہے ۔ (انسان العیون ج ٢ ص ٢٠٥، مطبوعہ مصر، ١٣٨٤ ھ)
امام ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ تین دن غار میں رہے اور قریش نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو واپس لانے والے کے لیے ایک سو اونٹ کا انعام مقرر کردیا تھا اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بیٹے عبد اللہ بن ابی بکرون میں قریش کی باتیں سنتے جو وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے متعلق کرتے تھے اور شام کو آ کر ان کی خبر پہنچاتے تھے ۔ عبد اللہ بن ابی بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما کے جانے کے بعد حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام عامر بن فہیرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس جگہ بکریوں کو لے جاتے اور بکریوں کے چلنے کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما کے غار کے پاس چلنے کے نشان مٹ جاتے اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما تین دن تک رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لیے کھانا پہنچاتی رہیں ، پھر تین دن کے بعد رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ (سیرت ابن ہشام ج ٢ ص ١٠٠۔ ٩٩، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ)
قریش جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ڈھونڈنے میں ناکام ہو گئے تو وہ کھوجی کو لائے جو قدموں کے نشان سے اپنے ہدف تک پہنچتا تھا ۔ حتیٰ کہ وہ شخص غار پر جا کر ٹھہر گیا ۔ اس نے کہا یہاں آ کر نشانات ختم ہوگئے ہیں ۔ مکڑی نے اسی وقت غار کے منہ پر جالا تن دیا تھا ، اسی لیے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مکڑی کو مارنے سے منع فرمایا ہے ، جب انہوں نے مکڑی کے جالے کو دیکھا تو ان کو یقین ہوگیا کہ اس غار میں کوئی نہیں ہے اور وہ واپس چلے گئے ۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٨ ص ٧٥،چشتی)
حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی افضلیت کی وجوہ
(1) کفار نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قتل کرنے کے در پے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سے چھپ کر غار ثور میں داخل ہوئے تھے ۔ اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ایمان اور ان کی جانثاری پر مکمل اعتماد نہ ہوتا تو ان کو اپنے ساتھ لے کر کبھی غار میں داخل نہ ہوتے ۔
(٢) نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہجرت کرنا اللہ کے حکم سے تھا ، اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نسبی قرابت دار بہت تھے ، لیکن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سفر میں رفاقت کے لیے صرف حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ساتھ لیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر ہجرت میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ساتھ لینا اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رفاقت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر (رض) کو چن لیا ۔
(3) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ثانی اثنین (دو میں سے دوسرا) اور دین کے اکثر مناصب میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سیدنا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ثانی تھے ۔ پہلے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگئے ، پھر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت طلحہ ، حضرت زبیر اور حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگئے ۔ اس طرح اسلام کی دعوت دینے میں اوّل سیدنا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ثانی حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے ۔ اسی طرح ہر غزوہ میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر رہے ، اس طرح وہ غزوات میں بھی ثانی اثنین ہیں اور جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیمار ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو امام مقرر فرمایا ، پس امامت میں بھی حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ثانی اثنین ہیں ، اور جب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فوت ہوئے تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو میں دفن ہوئے اس طرح وہ قبر میں بھی ثانی اثنین ہیں ، اور حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے قبر سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھیں گے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اٹھیں گے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٩٢) ، اور جنت میں سب سے پہلے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ داخل ہوں گے اور امت میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر داخل ہوں گے ۔ (سنن ابودائود : ٤٦٥٢،ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
خلاصہ یہ ہے کہ تبلیغ دین میں ہجرت کرنے میں ، مغازی میں ، امامت میں ، امارت میں ، قبر میں ، حشر میں ، دخول جنت میں ، تمام اہم دینی مناصب میں اوّل سیدنا محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور ثانی حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔
(4) اس آیت میں مذکور ہے کہ جب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غمگین ہوئے تو ان کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تسلی دی اور فرمایا : غم نہ کرو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے اور یہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کو تسلی دینے والے ہوں ۔
(5) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ تصریح کی ہے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صاحب ہیں اور یہ نص قطعی ہے جس کا انکار کفر ہے اور تمام صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں صرف ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی صحابیت منصوص ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابی ہونے کا انکار کفر ہے ۔
(6) اس آیت میں فرمایا ہے : اللہ ہمارے مع (ساتھ) ہے ، اور اس معیت سے حفاظت اور نصرت کی معیت مراد ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جو حفاظت اور نصرت فرمائے گا ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھی شامل فرما لیا اور یہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بہت بڑی فضیلت ہے ، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ متقین اور محسنین کے مع (ساتھ) ہوتا ہے ۔ اس سے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا متقی اور محسن ہونا بھی منصوص ہوا ۔
(7) احادیث اور کتب سیر سے ثابت ہے کہ غار ثور میں قیام کے دوران حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بیٹے ، عبد اللہ بن ابی بکر اور ان کی بیٹی حضرت اسماء ، ان کا غلام عامر بن فہیرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم آپ تک مکہ کی خبریں پہنچانے اور آپ کے لیے طعام پیش کرنے میں لگے رہے اور یہ بھی حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت ہے کہ ان کی اولاد اور ان کے خدام اس خطرے کے موقع پر جان کی بازی لگا کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مشغول رہے ۔
(8) حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ مدینے پہنچے تو سب لوگوں نے جان لیا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جس شخص کو سفر و حضر میں ساتھ رکھتے ہیں وہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔
(9) اس آیت میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت کی دلیل ہے کیونکہ حاکمیت میں اوّل رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور ثانی حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ سالم بن عبید بیان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات ہوئی تو انصار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے کہا : ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے ہوگا ، تو حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : ایسا کون شخص ہے جس کے متعلق یہ تین آیتیں ہوں : اذھما فی الغار (جب وہ دونوں غار میں تھے) وہ دونوں کون تھے ؟ اذ یقول لصاحبہ (جب وہ اپنے صاحب سے کہہ رہے تھے) وہ صاحب کون ہیں ؟ لا تحزن ان اللہ (غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے) یہ دونوں کون ہیں ؟ پھر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہاتھ بڑھایا اور سب لوگوں نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیعت کرنی شروع کردی ۔ اور یہ بہت عمدہ بیعت تھی ۔ (السنن الکبریٰ ج ٦ ص ٣٥٥، رقم الحدیث : ١١٢١٩، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١١ ھ) (١٠،چشتی)
غار ثور کی ان تین راتوں میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمیں انوار رسالت اس طرح جذب ہوگئے تھے کہ جب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینہ پہنچے تو استقبال کے لیے آئے ہوئے مسلمانوں نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سمجھا کہ یہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور وہ سب آگے بڑھ کر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملنے لگے ، تب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سر پر چادر کا سایہ کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ یہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ، میں تو ان کا ایک غلام اور امتی ہوں ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حدیث ہجرت کے اخیر میں عروہ بن الزبیر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسلمانوں کی ایک جماعت میں حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات ہوئی جو شام سے تجارت کرکے لوٹ رہے تھے، پھر حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سفید کپڑے پہنائے اور مدینہ کے مسلمانوں نے سن لیا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مکہ سے تشریف لا رہے ہیں ، وہ ہر روز صبح مدینہ کی پتھریلی زمین پر جاتے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انتظار کرتے اور دوپہر کو لوٹ آتے ، حتیٰ کہ ایک روز جب ان کا انتظار بہت طویل ہوگیا اور وہ اپنے گھروں کو لوٹ گئے ، ایک یہودی کسی ٹیلہ پر کھڑا ہوا کسی کا انتظار کر رہا تھا تو اس نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب کو سفید لباس میں آتے ہوئے دیکھ لیا ۔ وہ یہودی بےاختیار بلندآواز سے چلا کر بولا : اے معاشرالعرب ! یہ ہیں وہ تمہارے بزرگ جن کا تم انتظار کر رہے تھے ۔ مسلمان اپنے ہتھیاروں کی طرف دوڑے اور انہوں نے اس پتھریلی زمین پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملاقات کی ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دائیں جانب مڑ گئے اور بنو عمرو بن عوف کے محلہ میں ٹھہرے ۔ یہ ماہ ربیع الاوّل کا پہلا دن تھا ۔ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ لوگوں کے سامنے کھڑے رہے اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش بیٹھے رہے ۔ پھر انصار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے جن لوگوں نے پہلے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہیں دیکھا تھا وہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تعظیم دینے لگے ۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دھوپ آگئی ۔ تب حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی چادر سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سایہ کیا، اس وقت لوگوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہچانا …… الحدیث ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٩٠٥، مطبوعہ دار ارقم، بیروت)
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنہوں نے پہلے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہیں دیکھا تھا انہوں نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گمان کیا اسی لیے انہوں نے ابتدائً حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سلام کیا اور جب دھوپ آگئی اور حضرت ابوبکر نے چادر سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سایہ کیا تب انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہچانا ۔ (فتح الباری ج ٧ ص ٢٤٤، طبع لاہور) ۔
حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ میں انوار رسالت اس طرح جذب ہوگئے تھے کہ دیکھنے والے حضرت ابوبکر پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا گمان کرتے تھے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment