مقامِ صدیق اور حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ۔ (سورہ زمر آیت نمبر 33)
ترجمہ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں ۔
وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے ۔ اس آیت میں صِدق سے کیا مراد ہے اوراسے لانے والے اور ا س صِدق کی تصدیق کرنے والے سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے 5 قول درج ذیل ہیں :
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : صدق سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت ہے اور اسے لے کر تشریف لانے والے سے مراد رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہی ہیں کہ اسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مخلوق تک پہنچایا ۔
صدق سے مراد قرآنِ پاک ہے،اسے لانے والے جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں ۔
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ سچ لے کر تشریف لانے والے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور ا س کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور تصدیق کرنے والے سے تمام مومنین مراد ہیں ۔ سچ لے کر تشریف لانے والے اور تصدیق کرنے والے سے ایک پوری جماعت مراد ہے ، تشریف لانے والے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور تصدیق کرنے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی ۔ ( خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴/۵۵-۵۶، تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۹/۴۵۲، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۰۳۸،چشتی)
امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : أن المراد شخص واحد فالذی جاء بالصدق محمد ، والذی صدق بہ ہو أبو بکر ، وہذا القول مروی عن علی بن أبی طالب علیہ السلام وجماعۃ من المفسرین رضی اللہ عنہم ۔
ترجمہ : اس سے مراد ایک ہی ہستی ہیں ، تو جو سچی بات لے کر آئے وہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ اور یہ روایت حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور مفسرین کرام رحمہم اللہ کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہے ۔ (التفسیر الکبیر،الدر المنثور، روح البیان، سورۃالزمر۔ 33)
آپ کے القاب مبارکہ میں صدیق بہت مشہور ہے ، کیونکہ یہ مبارک لقب آپ کو کسی مخلوق نے نہیں دیا ، بلکہ خالق کائنات نے عطا فرمایا ، جیسا کہ سنن دیلمی میں حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یَا أَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّٰہَ سَمَّاکَ الصَّدِّیقَ ۔
ترجمہ : اے ابوبکر! اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام صدیق رکھا ہے ۔ (کنز العمال ، حرف الفاء ، فضل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:32615)
ابھی آپ نے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان حق ترجمان سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صداقت کا تذکرہ سنا ، اب آئیے امام الاولیاء کی زبان فیض ترجمان سے سماعت فرمائیے ! حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا : لَاَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اسْمَ اَبِی بَکْرٍ مِنَ السَّمَاءِ ’’ الصِّدِّیقَ‘‘۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام ’’ صدیق‘‘ آسمان سے نازل فرمایا ہے ۔ (مختصر تاریخ دمشق ، ج ،13،ص52)
آپ کو صدیق کے مبارک لقب سے اس لئے بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ آپ نے بلا کسی تامل سب سے پہلے معجزۂ معراج کی برملا تصدیق کی ، جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین اور تاریخ الخلفاء میں روایت ہے : عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت جاء المشرکون إلی أبی بکر فقالوا ہل لک إلی صاحبک یزعم أنہ أسری بہ اللیلۃ إلی بیت المقدس قال أو قال ذلک؟ قالوا نعم فقال لقد صدق إنی لأصدقہ بأبعد من ذلک بخبر السماء غدوۃ وروحۃ فلذلک سمی الصدیق ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ شب معراج کے اگلے دن مشرکین مکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا ، اپنے صاحب کی اب بھی تصدیق کروگے ؟ ، انہوں نے دعوٰی کیا ہے "راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرآئے ہیں "ابوبکر صدیق نے کہا : "بیشک آپ نے سچ فرمایا ہے ، میں تو صبح وشام اس سے بھی اہم امور کی تصدیق کرتا ہوں "۔ اس واقعہ سے آپ کا لقب صدیق مشہور ہوگیا ۔ (تاریخ الخلفاء ص،11،چشتی)
اسی طرح مختلف مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کی فضیلت کا اظہار فرمایا ، اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اتھاہ وارفتگی اور اٹوٹ وابستگی کی بنیاد پر حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے درمیان حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر اعتبار سے افضل ومقدم اور اولی وبہترجانتے اور مانتے تھے ۔
اُولٰٓكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ : یہی پرہیز گار ہیں ۔ یعنی وہ لوگ جن کے یہ اَوصاف ہیں (جو اوپر بیان ہوئے) یہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کر کے،بتوں سے بیزاری ظاہر کر کے، اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی اور اس کی نافرمانی سے اِجتناب کر کے ا س کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں ۔ (تفسیر طبریالزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۱۱/۶)
اس آیتِ کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے اکثر مفسرین نے بالاتفاق اَلَّذِيْ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی مراد لی ہے۔ یہاں بطورِ استشہاد چند اقوال پیشِ کیے جاتے ہیں ۔
علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر میں ’’وَالَّذِيْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ‘‘ کے تحت مجاہد، قتادہ، ربیع بن انس اور ابنِ زید سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وَالَّذِيْ جَآءَ بِالصِّدْقِ هو رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم .
ترجمہ : وہ ذات جو صدق لے کر آئی اس سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ (ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 54،چشتی)
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرح توضیح فرمائی ہے : وَالَّذِيْ جَآءَ بِالصِّدْقِ ۔ النبي صلي الله عليه وآله وسلم وَصَدَّقَ بِه أبو بکر رضي الله عنه.
ترجمہ : یعنی اَلَّذِيْ سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صَدَّقَ بہ سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الدر المنثور، 7 : 288)
اہلِ علم جانتے ہیں کہ’’اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ‘‘ کلمۂ حصر ہے، قرآن حکیم تقویٰ کے مفہوم کو متعین کرنے کے بعد ان کلمات کو بطورِ حصر لا کر میعارِ تقویٰ کو واضح کرتے ہوئے یہاں ایک شرط لگا رہا ہے، جس کو پورا کئے بغیر کوئی شخص بھی تقویٰ کا دعویدار نہیں ہوسکتا۔ جو اس شرط کو پورا کرے گا وہی متقی ہو گا اور جو اس معیار پر پورا نہ اترے وہ اگر عبادت و ریاضت کے پہاڑ بھی اپنے کندھوں پر اٹھاتا پھرے، متقی نہیں بن سکتا ۔
تقویٰ کی شرط
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسی شرط ہے جس پر تقویٰ کا انحصار ہے ارشاد فرمایاگیا : الَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ، وہ ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو سچائی لے کرآئی اور جس نے اس سچائی کی تصدیق کی، أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ، وہی متقی ہیں۔ جیسا کہ اوپر تفصیلاً ذکر ہوچکا کہ اس آیت کے پہلے حصے سے مراد تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ’’أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ‘‘ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل ہیں کیونکہ نبی خود بدرجہ اولیٰ اپنی نبوت کی تصدیق کرنے والا ہوتا ہے ۔ تفاسیر میں اس آیت کے تحت اس کی بھی وضاحت ملتی ہے مثلاً تفسیر روح البیان میں ہے : ودَلت الاٰية علي انّ النبي عليه السلام يصدق أيضاً بما جاء به من عند ﷲ ويتلقاه بالقبول کما قال ﷲ تعالي : ’’اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّه. (البقره، 2 : 285)
ترجمہ : یہ آیتِ کریمہ اس بات کی شاہد ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس حقیقت کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہیں، جو انہیں اﷲتعالیٰ کی طرف سے مرحمت فرمائی گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی (دوسروں کی طرح) اس پرایمان لائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ (وہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ۔ ( تفسير روح البيان، 8 : 108)
مگر توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متقی کہنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کا اظہار ہے ؟ آیتِ مبارکہ کا مدعا یہاں ہرگز یہ نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذآتِ بابرکات تو متقی گر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تقویٰ کی دولت تقسیم فرماتے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقویٰ کی وہ بنیاد لے کر زینت آراء بزمِ کون و مکاں ہوئے جس سے خود تقویٰ کو وجود ملا۔ لہٰذا یہاں بات اُس شخص کی ہو رہی ہے جو اس سچائی کو بہ دل و جان تسلیم کرے گا اور اس کی تصدیق کرے گا ۔
تصدیق کیا ہے ؟
اب لفظِ صدق پر غور کرنے سے اس شرط کی نوعیت اور ضرورت مزید واضح ہوجائے گی۔ تصدیق عربی لفظ ’’صَدَقَ‘‘ سے باب تفعیل کے وزن پر ہے۔ اس کے معنٰی ’’دل کی گہرائیوں سے کسی چیز کو تسلیم کرلینے اور مان لینے کے ہیں۔ مفردات غریب القرآن، میں امام راغب رحمۃ اللہ علیہ نے صدق کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے : الصِّدْقُ مُطابقةُ القَوْل الضمير والمخبرعنه معا. ومتٰي انحرم شرط من ذالک لم يکن صِدْقًا تاما ۔
ترجمہ : صدق کے معنی ہیں دل و زبان کی ہم آہنگی اور بات کا نفسِ واقع کے مطابق ہونا اور اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ۔ ( المفردات فی غریب القرآن : 277 ،چشتی)
لہٰذا ، اس سچائی کو اس حیثیت سے ماننا ہی حقِ تقویٰ ہے ۔ بالکل اسی حقیقت کو قرآن حکیم نے ایک دوسرے مقام پر واضح کیا اور تقویٰ کو تصدیق کرنے والوں کے ساتھ مختص کرتے ہوئے فرمایا : أُولَـئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ۔
ترجمہ : یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔ (سورۃ البقره، 2 : 177)
آیتِ متذکرہ میں ﷲ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ جن افراد نے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی سچائی کی بلا تامل تصدیق کر دی وہی صحیح معنوں میں متقی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں بزرگی پائے ہوئے ہیں یہی وہ شرط ہے جو تقویٰ کے لئے ضروری ہے۔ معلوم ہوا حصولِ تقویٰ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق اور ان پر ایمان بنیادی چیز ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور مفسرین کی ایک جماعت سے اس آیت کی ایک تفسیر یہ مروی ہے کہ سچ لانے والے سے مراد نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے سے مراد سیّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (تفسیر روح البیان و تفسیر کبیر رازی)
خصوصیت سے صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا ذکر آپ کی شان پر دلیل ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شانِ صدیقیت کی نسبت سے اس مضمون میں صدیقیت کے معنی و مفہوم پر امام غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے احیاء العلوم میں بیان کردہ کلام کی روشنی میں کچھ وضاحت کی جاتی ہے۔
”صِدْق“ (سچائی اور سچا ہونے) کی چھ اَقسام ہیں : (1) قول میں سچا ہونا ۔ (2) نیت و اِرادے میں سچا ہونا ۔ (3)عزم میں سچا ہونا ۔ (4)عزم پورا کرنے میں سچا ہونا ۔ (5)عمل میں سچا ہونا ۔ (6) دین کے تمام مقامات کے اعلیٰ درجے کے حصول میں سچا ہونا ۔
پس جو شخص صدق (سچائی) کے ان تمام معانی کے ساتھ مُتَّصِف ہو تو وہ صِدِّیق (بہت ہی سچا) ہے کیونکہ وہ صِدْق (سچائی) میں انتہا کو پہنچا ہوتا ہے ۔ پھر صادِقِین کے کئی درجے ہیں تو جس شخص میں مذکورہ معانی میں سے کسی ایک معنیٰ میں صِدْق پایا جائے وہ اسی کے اعتبار سے صادِق کہلائے گا ۔
(1) زبان کا صدق
پہلی قسم زبان کا صدق ہے یعنی وہی بات کہی جائے جو حقیقتِ حال کے مطابق ہے۔ حقیقت کے خلاف بات کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں۔ صدق کی اِس قسم میں وعدے کا سچا ہونا بھی داخل ہے یعنی جو وعدہ کرے، اسے پورا کرے اور خلاف ورزی نہ کرے۔ یہ قسم واجب ہے اور صدق کی اقسام میں سے سب سے زیادہ مشہور یہی قسم ہے۔ لہٰذا جھوٹ بولنے سے بچنے والا شخص صادِق ہے ۔ البتہ بعض صورتوں میں شریعت کی طرف سےخلافِ حقیقت بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے جیسے دو مسلمانوں میں صلح کروانے ، بیوی کے ساتھ اظہارِ محبت کرنے اور جنگی ضروریات کے لئے اس معاملے میں کئی رخصتیں موجود ہیں ۔
لیکن زبان کی سچائی میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بندہ خدا سے مناجات میں جو الفاظ کہتا ہے ان میں بھی سچا ہو جیسے اگر کوئی زبان سے تو یہ کہے : اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ ۔ یعنی میں نے اپنا منہ اُس خدا کی طرف کیا جس نے آسمان و زمین بنائے ۔ لیکن اس کا دل اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بجائے دُنیاوی خواہشات میں مشغول ہو تو وہ شخص جھوٹا ہے ۔ اسی طرح اگر زبان سے کہے : اِیَّاكَ نَعْبُدُ ۔ یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں ۔ لیکن دل و دماغ بندگی کی حقیقی کیفیت سے خالی ہوں اور اس کا مطلوب خداکے سوا کچھ اور ہو تو اس کا کلام سچا نہیں ہے کیونکہ وہ تو اپنے نفس کا بندہ تھا یا دنیا کا یا اپنی خواہشات کا، کیونکہ آدمی جس چیز کو مطلوب و مقصود سمجھتا ہے اور جو اس کے دل و دماغ پر چھائی رہتی ہے تو وہ اسی کا بندہ کہلاتا ہے۔ اسی معنی کے اعتبار سے حدیث میں فرمایا گیا : ہلاک ہوگیا دینار کا بندہ ، ہلاک ہوگیا درہم کا بندہ ، حلے کا بندہ اورجبے کا بندہ ۔ (یعنی جو اِن ہی کی طلب اور حصول میں لگارہتا ہے)
خدا کا بندہ حقیقت میں وہ ہےجس کا دل غیر سے خالی ہو، محبتِ الٰہی میں ڈوبا ہوا ہو، ظاہر و باطن میں خدا کا فرماں بردار ہو اور اس کا مطلوب و مقصود صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہو ۔
(2) نیت و اِرادے میں صِدْق
صِدْق کی دوسری قسم کا تعلق نیت سے ہے ۔ نیت میں صدق یہ ہے کہ آدمی کی عبادت اور نیکی کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو ۔ اگر اس میں کوئی نفسانی غَرَض شامل ہو گئی تو نیت میں صِدْق باطل ہوجائے گا اور ایسے شخص کو جھوٹا کہا جا سکتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ صدق کا ایک معنیٰ اخلاص ہے لہٰذا ہر صادق کے لئے مخلص ہونا ضَروری ہے ۔
(3) عزم میں صدق
صدق کی تیسری قسم مستقبل کے متعلق عزم میں سچا ہونا ہے کیونکہ انسان کبھی مستقبل کے متعلق یہ عزم کرتا ہے کہ : اگر اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا کرے تو میں اتنا اتنا مال غریبوں کو دے دوں گا یا مجھے کوئی عہدہ ملا تو عہدے کاصحیح استعمال کروں گا اور خیانت و ناانصافی نہیں کروں گا ۔ ایسا عزم کبھی تو واقعی پختہ اور سچا ہوتا ہے اور کبھی کمزور ہوتا ہے کہ کرنے کا ارادہ بھی ہوتا ہے لیکن نہ کرنے کا خیال بھی دماغ میں کہیں چھپا ہوتا ہے ۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے صادق اور صِدِّیق وہ ہے جس کا نیکیوں کا عزم بہت مضبوط ہو، کمزور نہ ہو ۔
(4) صدق کی چوتھی قسم عزم پورا کرنے میں سچا ہونا ہے
نفس بعض اوقات فی الحال تو پکا ارادہ کر لیتا ہے کیونکہ ارادہ کرنے میں تو کوئی مشقت نہیں ہوتی، لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو عزم کمزور پڑجاتا ہے اور نفس غالب آجاتا ہے اور یوں بندہ اپنا عزم پورا نہیں کرتا ۔ یہ بات صِدْق کے خلاف ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد اِس خلاف ورزی میں مبتلا ہے کہ لمبے چوڑے ارادے کرتے ہیں لیکن عمل کے وقت حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ اپنے عزم پر عمل کرنے والوں کی تعریف میں قرآن میں فرمایا : کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچا کردیا وہ عہد جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا ۔ (پارہ نمبر 21 سورہ الاحزاب آیت نمبر 23)
(5) صدق کی پانچویں قسم اعمال میں صدق ہے
وہ یہ کہ نیک اعمال کے وقت بندے کا باطن بھی ویسا ہو جیسا ظاہر نظر آرہا ہے مثلاً نماز میں ظاہری آداب پورے ہوں تو باطن یعنی دل میں بھی خشوع موجود ہو ۔ ظاہر میں صوفی و عاشقِ رسول نظر آتا ہے تو دل کی کیفیت بھی ویسی ہی ہو ۔ الغرض ظاہر و باطن کا ایک جیسا ہونا صِدْق کی ایک قسم ہے ۔
(6) صِدْق کی چھٹی قِسْم مقاماتِ دین میں صدق
یہ قسم سب سے اعلیٰ لیکن بہت نایاب ہے اور اس کا تعلق مقاماتِ دین سے ہے جیسے خوفِ خدا ، اللہ تعالیٰ سے امید ، دنیا سے بے رغبتی، رضائے الٰہی پر راضی رہنا ، محبتِ الٰہی اور طریقت کے دیگر تمام بلند مقامات میں سچا ہونا ، کیونکہ خوف و امید و زہد و توکل و رضا و محبت وغیرہا امور میں کچھ ابتدائی حالات ہوتے ہیں کہ جن کے ظاہر ہونے پر یہ نام لئے جاتے ہیں ، لیکن پھر ان کی حقیقتیں اور انتہائی مرتبے ہوتے ہیں ۔ حقیقی صادق وہی ہے جو ان کی حقیقت اور اعلیٰ ترین مرتبے تک پہنچ جائے اور ان خوبیوں سے کما حقہ متصف ہو ۔ سیّدُنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صدق کی ان تمام اقسام سے متصف ہونے میں انبیاء علیہم السّلام کے بعد تمام انسانوں میں سب سے بلند مرتبہ رکھتے ہیں ، اسی لئے آپ رضی اللہ عنہ کا لقب صدیقِ اکبر (سب سے بڑا صِدّیق) ہے ۔
صادق کالغوی معنی ہے ’’سچا‘‘ ۔ اورصادق اس شخص کو کہتے ہیں جوبات جیسی ہو ویسے ہی زبان سےبیان کردے ۔ (التعریفات،ص۹۵)
صدیق اکبر صادق وحکیم ہیں
شیخ اکبرحضرت سیدنا محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس موطن میں تشریف نہ رکھتے ہوں اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مقام پر صدیق قیام کریں گے کہ وہاں صدیق سے اعلی کوئی نہیں جو انہیں اس سے روکے ۔ وہ اس وقت کے صادق و حکیم ہیں ، اور جو ان کے سوا ہیں سب ان کے زیر حکم ۔ (الفتوحات المکیۃ،الباب الثالث والسبعون،ج۳،ص۴۴)(فتاوی رضویہ، ج۱۵، ص۶۸۰،چشتی)
صدیق کسے کہتے ہیں ؟
(1) صدیق اسے کہتے ہیں جوزبان سے کہی ہوئی بات کو دل اور اپنے عمل سے مؤکد کر دے۔ (التعریفات،ص۹۵)
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو صدیق اسی لیے کہتے ہیں کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فقط زبان کے نہیں بلکہ قلب وعمل کے بھی صدیق تھے۔
(2) صدیق اسے بھی کہتے ہیں جوتصدیق کرنے میں مبالغہ کرے،جب اس کے سامنے کوئی چیز بیان کی جائے تواوّلا ہی اس کی تصدیق کردے، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی ایسے ہی تھے کہ اوّلا ہی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی ہربات کی تصدیق کردیاکرتے تھے ۔
(3) حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : صدیق وہ کہ جیسا وہ کہہ دے بات ویسی ہی ہوجائے۔ اسی لیے تو حضرت سیدنا یوسف عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ جودوقیدی تھے ان میں سے شاہی ساقی یعنی بادشاہ کو شراب پلانے والے نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صدیق کہا کیونکہ اس نے دیکھا کہ جو آپ نے کہا تھا وہ ہی ہوا ، عرض کیا: یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ ۔حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سیدنا مالک بن سنان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے متعلق جو کہا تھا وہ ہی ہوا کہ وہ شہید ہونے کے بعد زندہ ہو کر آئے ۔ (مرآۃ المناجیح، ج۸،ص۱۶۲،چشتی)
صدیقیت کسے کہتے ہیں ؟
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : صدیقیت ایک مرتبہ تلو نبوت ہے کہ اس کے اور نبوت کے بیچ میں کوئی مرتبہ نہیں مگر ایک مقام ادق واخفی کہ نصیبہ حضرت صدیق اکبر اکرم واتقی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہے تو اجناس وانواع واصناف فضائل وکمالات وبلندی درجات میں خصائص و ملزومات نبوت کے سوا صدیقین ہر عطیہ بہیہ کے لائق واہل ہیں اگرچہ باہم ان میں تفاوت و تفاضل کثیرو وافر ہو ۔ (فتاوی رضویہ، ج۱۵، ص۶۷۸،چشتی)
صدیق اکبر کسے کہتے ہیں ؟
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ہرمعاملے میں صداقت کا عملی مظاہرہ فرمایا حتی کہ واقعہ معراج اور آسمانی خبروں وغیرہ جیسے معاملات کہ جن کو اس وقت کسی کی عقل نےتسلیم نہیں کیا ان میں بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فوراً تصدیق فرمائی ۔ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی تمام معاملات میں جیسی تصدیق آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کی ویسی کسی نے نہ کی اس لیے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو’’ صدیق اکبر‘‘ کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ، جلد۱۵، ص۶۸۰پرارشاد فرماتے ہیں : سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ صدیق اکبر ہیں اور سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ صدیق اصغر، صدیق اکبر کا مقام اعلی صدیقیت سے بلند و بالا ہے ۔ نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض میں ہے : سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی تخصیص اس لئے کہ وہ صدیق اکبر ہیں جو تمام لوگوں میں آگے ہیں کیونکہ انہوں نے جو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق کی وہ کسی کو حاصل نہیں اور یونہی سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا نام صدیق اصغر ہے جو ہرگز کفر سے ملتبس نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے غیر ﷲ کو سجدہ کیا باوجود یکہ وہ نابالغ تھے ۔ (نسیم الریاض فی شرح الشفا، القسم الاول، فی ثناء اللہ۔۔۔الخ، الفصل الاول، ج۱، ص۲۳۴،چشتی)
سبھی علمائے اُمّت کے ، امام و پیشوا ہیں آپ
بِلاشک پیشوائے اَصفیا صدّیق اکبر ہیں
خدا ئے پاک کی رحمت سے انسانوں میں ہر اک سے
فُزوں تر بعد از کُل انبیا صدّیقِ اکبر ہیں
لقب ’’حَلِیْم ‘‘( بُرْدبَار)
صدیق اکبر آسمانوں میں حلیم
حضرت سیدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا جبریل امین علیہ السّلام اللہ کے محبوب ، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اورایک کونے میں بیٹھ گئے ، کافی دیر تک وہیں بیٹھے رہے اچانک وہاں سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ گزرے توجبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم ! یہ ابو قحافہ کے بیٹے ہیں ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا : اے جبریل! کیا آپ لوگ بھی انہیں پہچانتے ہو ؟ عرض کیا : اس رب کی قسم جس نے آپ کو مبعوث فرمایا ہے ! ابوبکر زمین کی نسبت آسمانوں میں زیادہ مشہور ہیں ، اور آسمانوں میں ان کا نام ’’حلیم‘‘ ہے ۔ (الریاض النضرۃ، ج۱، ص۸۲)
لقب ’’اَوَّاہٌ‘‘ (کثیرُ الدعا ، عاجزی کرنے والے)
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نہایت ہی عاجزی کرنے والے اور کثیر الدعا تھے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے کئی مخصوص دعائیں بھی منقول ہیں ، حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ’’ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی انہیں صفات کی بنا پر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہک ا لقب ’’اَوَّاہٌ‘‘کثیر الدعا ، عاجزی کرنے والاپڑگیا ۔ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، ج۳، ص۸۵)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں ، یہ ان کا اپنا قول ہے ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان نہیں ہے ۔ انہوں نے اپنے بعد کا کہا ہے ، پہلے کی بات نہیں کی۔ انہیں بھی پتہ تھا کہ مجھ سے پہلے بھی صدیق ہے ۔ اس لیے آپ کا یہ قول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد کا تھا ، نہ کہ ان کی صدیقیت کی نفی تھی۔ اس سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود صدیق کا لقب عطا فرمایا ہے ۔
قرآن مجید میں بھی صدیق کا لفظ، انبیاء، اولیاء اور صالحین کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ جیسے : يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلاَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ ۔ (يُوْسُف ، 12 : 46)
ترجمہ : (وہ قید خانہ میں پہنچ کر کہنے لگا:) اے یوسف، اے صدقِ مجسّم! آپ ہمیں (اس خواب کی) تعبیر بتا دیں کہ سات فربہ گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور دوسرے سات خشک؛ تاکہ میں (یہ تعبیر لے کر) واپس لوگوں کے پاس جاؤں شاید انہیں (آپ کی قدر و منزلت) معلوم ہو جائے ۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ۔ (مَرْيَم ، 19 : 41)
ترجمہ : اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے ، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے ۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ۔ (مَرْيَم ، 19 : 56)
ترجمہ : اور (اس) کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے ۔
مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلاَنِ الطَّعَامَ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ۔ (الْمَآئِدَة ، 5 : 75)
ترجمہ : مسیح ابنِ مریم (علیھما السلام) رسول کے سوا (کچھ) نہیں ہیں (یعنی خدا یا خدا کا بیٹا اور شریک نہیں ہیں) ، یقیناً ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزر چکے ہیں ، اور ان کی والدہ بڑی صاحبِ صدق (ولیّہ) تھیں ، وہ دونوں (مخلوق تھے کیونکہ) کھانا بھی کھایا کرتے تھے ۔ (اے حبیب!) دیکھئے ہم ان (کی رہنمائی) کے لئے کس طرح آیتوں کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں پھر ملاحظہ فرمائیے کہ (اس کے باوجود) وہ کس طرح (حق سے) پھرے جارہے ہیں ۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ۔ (الْحَدِيْد ، 57 : 19)
ترجمہ : اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ، اُن کے لئے اُن کا اجر (بھی) ہے اور ان کا نور (بھی) ہے ، اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں ۔
اس کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور دیگر بھی کئی صدیق ہیں ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے صدیق ہیں ۔ الصدیقون جمع کا صیغہ ہمیں بتا رہا ہے کہ بہت سارے صدیق ہیں تو پتہ چلا کہ صدیقین کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں اور اگر میرے بعد کسی نے اس کا دعویٰ کیا تو وہ کذاب ہے۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے ۔ اس میں لڑائی جھگڑا والی بات بھی نہیں ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment