Thursday, 27 February 2020

اولیاء کرام سے بیعت ہونا قرآن و حدیث کی روشنی میں

اولیاء کرام سے بیعت ہونا قرآن و حدیث کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : ترجمہ : بیشک اللّٰہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے ۔ (الفتح، آیت نمبر 18)

اس آیہ کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی معاملہ پر بیعت کرنا سنتِ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ہے۔ اور عرب میں یہ رواج ہے کہ جب وعدہ لیا جاتا جاتا ہے تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے مضبوط کیا جاتا ہے۔ انگریزوں میں رائج ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر تالی بجاتے ہیں ۔

پس جب آج بھی غلامانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے مکمل بیزاری کا اظہار اور تہیہ کسی ولی کامل "یعنی اللہ عزوجل کا قرب رکھنے والے نیک و صالح" بندے کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر "بطریق عرب" وعدہ کرتے ہیں ۔

بطریق عرب اس لئے کہ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے روز و شب علاوہ عرش و زماں مکہ و مدینہ میں بسر فرمائے اس لئے بطریق عرب کہا۔ حقیقت میں بطریقِ حق تعالی عزوجل ہے۔ یعنی یہ طریقہ اللہ عزوجل نے سکھایا جس کا بیان قرآنِ کریم میں یوں آتا ہے : ترجمہ : وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں، وہ تو اللّٰہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ۔ (سورۃ الفتح، آیت 10)

اب واپس آتے ہیں آیت نمبر 18 پر کہ ترجمہ : بیشک اللّٰہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے ۔ (سورۃ الفتح، آیت نمبر 18)

پس ثابت ہوا کہ گناہوں سے برائی سے کنارہ کش ہونے کے لئے بیعت ہونا ضروری ہے ۔ اور فرمایا ایمان والے ہی بیعت کرتے ہیں اور بے ایمان کیا کرتے ہیں ؟؟؟؟؟
اس کا جواب اسی سورہ مبارک "الفتح" میں بیان ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ عمرہ کرنے کا قصد فرمایا تو کچھ لوگ "جنہیں پیچھے رہ جانے والوں کا لقب ملا" حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے ساتھ قریش کے خوف سے روانہ نہ ہوئے ۔ تو اس پر اللہ عزوجل نے وحی نازل فرمائی : ترجمہ : اب تم سے کہیں گے جو گنوار پیچھے رہ گئے تھے کہ ہمیں ہمارے مال اور ہمارے گھر والوں نے جانے سےمشغول رکھا اب حضور ہماری مغفرت چاہیں ۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر 11،چشتی)

یعنی جو ایمان والے نہیں اور جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت بجا نہیں لاتے اور جو بیعت نہیں کرتے وہ صرف حیلہ بہانہ بناتے ہیں جیسا کے اور کی آیت میں بیان ہوا پھر اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : ترجمہ : اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں" یعنی جھوٹ بولتے ہیں ۔
آیت نمبر 12: بلکہ تم "پیچھے رہ جانے والے" تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ رسول اور مسلمان ہرگز گھروں کو واپس نہ آئیں گے ۔
اس آیت میں اللہ عزوجل حیلہ بہانے بنانے والوں کے جھوٹ کو افشاء فرماتا ہے اور ان کے دلوں کی بات کو سب پر واضح فرما دیاتا ہے ۔
تو واضح ہو گیا کہ مومنین، طریق و اتباعِ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم پر عمل پیرا ہیں اور کفار کے پیروکار ہمیشہ کہ طرح حیلے بہانے بنانے میں مصروف ہیں ۔

آئیے اب پڑھیں بیعتِ رضوان کے بارے میں جس کی وضاحت سورہ الفتح کی آیت 18 کی تفسیر میں درج ہے : ترجمہ : بیشک اللّٰہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے ۔

مختصر تفسیر : حدیبیہ میں چونکہ ان بیعت کرنے والوں کو رضائے الٰہی کی بشارت دی گئی اس لئے اس بیعت کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں ، اس بیعت کے سبب باسبابِ ظاہر یہ پیش آیا کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حدیبیہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اشرافِ قریش کے پاس مکّہ مکرّمہ بھیجا کہ انہیں خبر دیں کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بیت اللہ کی زیارت کے لئے بقصدِعمرہ تشریف لائے ہیں ، آپ کا ارادہ جنگ کا نہیں ہے اور یہ بھی فرمادیا تھا کہ جو کمزور مسلمان وہاں ہیں انہیں اطمینان دلادیں کہ مکّہ مکرّمہ عنقریب فتح ہوگا اور اللہ تعالٰی اپنے دِین کو غالب فرمائے گا ، قریش اس بات پر متفق رہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس سال تو تشریف نہ لائیں اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ اگر آپ کعبہ معظّمہ کا طواف کرنا چاہیں تو کریں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں بغیر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طواف کروں یہاں مسلمانوں نے کہا کہ عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ بڑے خوش نصیب ہیں جو کعبہ معظّمہ پہنچے اور طواف سے مشرف ہوئے ، حضور نے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ وہ ہمارے بغیر طواف نہ کریں گے ، حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مکّہ مکرّ مہ کے ضعیف مسلمانوں کو حسبِ حکم فتح کی بشارت بھی پہنچائی ، پھر قریش نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو روک لیا ، یہاں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ شہید کردیئے گئے ، اس پر مسلمانوں کو بہت جوش آیا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ سے کفّار کے مقابل جہاد میں ثابت رہنے پر بیعت لی ، یہ بیعت ایک بڑے خار دار درخت کے نیچے ہوئی ، جس کو عرب میں سَمُرَہ کہتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا بایاں دستِ مبارک داہنے دستِ اقدس میں لیا اور فرمایا کہ یہ عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیعت ہے اور فرمایا یا رب عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ تیرے اور تیرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کام میں ہیں۔
ا س واقعہ سے معلوم ہوتا کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نورِ نبوّت سے معلوم تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ شہید نہیں ہوئے جبھی تو ان کی بیعت لی ، مشرکین اس بیعت کا حال سن کر خائف ہوئے اور انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیج دیا ۔

حدیث شریف میں ہے

حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا يدخل النار احد ممن بايع تحت الشجرة . قال ابو عيسى هذا حديث حسن صحيح ۔
ترجمہ : حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی اُن میں سے کوئی بھی دوزخ میں داخل نہ ہوگا ۔ ( ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل من بایع تحت الشجرۃ، ۵ / ۴۶۲، الحدیث: ۳۸۸۶)(سنن ابی داود السنة 9 4853)،(تحفة الأشراف: 2918،چشتی)(مسند احمد بن حنبل 3/350)

بیعت کیوں ضروری ہے ؟

بیعت کی لغوی معنیٰ حوالے کرنا ، سپرد کرنا ، فروخت کرنا ہیں . تصوف میں مرید کا اپنے شیخ کامل کے ہاتھ پر اپنے نفس کو سپرد کرنے اور فروخت کرنے کا نام بیعت ہے ۔ یعنی اپنے تمام تر ارادوں و اختیارات اور خواہشات نفسانی کو ختم کرکے خود کو شیخ کامل کے حوالے کردے اور راہ سلوک میں اس کی رضا و منشا کے خلاف کوئی بھی قدم نہ اٹھائے ۔

بیعت کی ضرورت

خوش نصیب تھے وہ لوگ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) جنہوں نے نبی کریمصل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا , آپ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کیا, آپ سے علم و عمل سیکھا اور آپ کی صحبت میں زندگیاں گزاریں . آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت و صحبت ہی کافی تھی صحابہ کے دلوں کو روشن کرنے کے لیے. بیشتر صحابہ سے کرامات اور صاحب کشف ہونا ثابت ہے . پھر آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ظاہری دنیا سے پردہ فرما گئے اور وہ نور باطن جو آپ کے سینہ انور سے صحابہ کو براہ راست منتقل ہوتا تھا, اس کی فیض رسانی کا ظاہری سلسلہ منقطع ہو گیا . تابعین نے صحابہ سے نور باطن حاصل کیا اور بعد میں آنے والوں نے تابعین سے . لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وہ نور باطن ماند پڑتا گیا اور سینے خالی ہوتے چلے گئے . اس نور کے خلاء کو پر کرنے کے لئے بزرگ حضرات نے کلام پاک سے کچھ وظائف ترتیب دیے , تزکیہ نفس کے کچھ مجاہدے تشکیل دیے اور اپنے شاگردوں کو ان کے ذریعے تربیت دینی شروع کی . ساتھ اپنے منور سینوں سے شاگردوں کے سینوں کو روشن کرنا شروع کیا . تزکیہ نفس , مجاہدہ اور کلام پاک کے وظائف سے جب شاگرد پاک قلب اور نفس کے ذریعے استاد کے سینے سے نور باطن حاصل کرتے رہتے تو ایک وقت یہ آتا جب ان کا کنیکشن نورِ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قائم ہو جاتا . اور نور اللہ سے . جس کی نسبت سے شاگرد بھی صاحب کرامت و کشف ہو جاتے جسے اسلام نے مومن کہا ہے .

نماز مومن کی معراج ہے (مطلب مومن نماز میں اللہ سے ملاقات کرتا ہے) ، مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے . مطلب اللہ سے ملاقات اور اللہ کے نور سے دیکھنے کے لیے بیعت کی جاتی ہے . تصوف میں بیعت کرنے والے اور جس کی بیعت کی جارھی ھے دونوں کی طرف سے ایک معاھدہ ھے ، جس کے معنی یہ ھيں کہ بیعت کرنے والا بیعت لینے والے کی اطاعت اور پیروی کرے گا . تصوف میں استاد کو مرشد اور شاگرد کو مرید کہتے ہیں . مطلب یہ استاد شاگرد کا رشتہ ہے کوئ نئی چیز نہیں ہے . اور تصوف کی تعلیم مسلمان سے مومن بننے کی تعلیم ہے, کوئ الگ چیز نہیں بلکہ عین دین ہے . جس طرح اسلام میں علم حدیث ایک علم ہے جس کا مقصد حدیث کی تعلیم دینا ہے, علم فقہ ایک علم ہے جس کا مقصد فقہ کی تعلیم دینا ہے بلکل اسی طرح علم تصوف ( احادیث میں تصوف کے لیے "علم احسان" کا لفظ آیا ہے) بھی اسلام کا یہ ایک شعبہ ہے جس کا مقصد مسلمان کو مومن بننے کی تعلیم و تربیت دینا ہے .

بیعت کا فائدہ

صاحب عوارف المعارف رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بیعت فلاح باطنی کے لیے ہے جس سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ اپنے اندر کو خراب و پلید چیزوں سے پاک کرکے اسے روشن کیا جائے اور اپنے دل سے شرک خفی کو نکالا جائے ۔ تو جب بھی کوئی مرید نیت صحیحہ و اخلاص کے ساتھ اپنے شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اور اس کی صحبت میں رہ کر تمام آداب کو بجا لاتا ہے تو شیخ کامل کی باطنی نظر سے روحانی فیوض و برکات اس مرید کے قلب و باطن میں سرایت کرجاتے ہیں اور مرید کا باطن روشن و منور ہوجاتا ہے۔ اس روحانی و باطنی انوار و تجلیات کا حصول شیخ کامل کی محبت و صحبت پر ہی منحصر ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب مرید شیخ کامل کی خدمت و صحبت میں حاضری کے وقت اپنے قلب و روح کو تمام تر توجہ کے ساتھ پیر کی طرف مرکوز رکھے تاکہ شیخ کامل کی پاکیزہ فطرت و وظائف باطنی کے تناسب سے مرید کے اندر بھی روحانی ربط و ضبط بڑھتا رہے اور وہ عروج حاصل کرتا ہوا خدا کا قرب حاصل کرلے ۔ مگر سالک ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ ان تمام منازل روحانی کا دار و مدار شیخ کامل کی بیعت و صحبت میں ہی منحصر ہے ۔

بیعت ہونے کی دیگر وجوہات

بیعت کا اصل مقصد اور فائدہ تو اوپر بیان ہو چکا ہے . لیکن ہمارے ہاں اکثر لوگ ان مقاصد کے لیے بھی بیعت ہوتے ہیں :

(1) دنیاوی زندگی میں برکت اور مسائل کے حل کے لیے . بےشک کامل ولی کے ہاتھ پر بیعت ہونے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے دولت, رزق, صحت علم غرض ہر چیز میں برکت ہوتی ہے .

(2) اللہ کی رحمت میں آنے کے لیے ۔ اللہ کے قرب والوں کی صحبت اور بیعت سے اللہ کی رحمت ملتی ہے .

(3) شیطان سے پناہ کے لیے . شریعت کی پابندی اور تزکیہ نفس کے ساتھ صاحب کشف و کرامات ولی اللہ کے حکم سے شیطان کو آپ کی راہ میں آنے سے روک سکتا ہے .

(4) آخرت میں بخشش کے لیے . اولیاء اللہ کی صحبت سے دنیا میں بھی نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے جو جنت میں لے کر جارے ہیں. اور اولیاء اللہ روزِ محشر بھی اللہ کے حضور شفاعت فرمائیں گے . (بخاری, کتاب الادب, جلد 5, صفحہ 2236, رقم 5654)(مسلم, کتاب التوبہ جلد 4, صفحہ 2108, رقم 2752)

ان سب فوائد کے لیے مرشد کا پابند شریعت اور کامل ہونا اور مرید کا شریعت اور مرشد کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...