Wednesday, 12 February 2020

(1) ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَار ۔ شانِ حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

(1) ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَار ۔ شانِ حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے :اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ وَاَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى ۭوَكَلِمَةُ اللّٰهِ ھِىَ الْعُلْيَا ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ۔ (سورہ توبۃ آیت نمبر 40)
ترجمہ : اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ اتارا اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے نہ دیکھیں اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔

(1) نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے یارِ غار ہیں ۔ لفظ یارِ غار اس آیت سے حاصل ہوا ۔ آج بھی دلی دوست اور باوفا یار کو یارِ غار کہا جاتا ہے ۔

(2) اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی صحابیت قطعی ایمانِ قرآنی ہے لہٰذا اس کا انکار کفر ہے۔دوسرا یہ کہ صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا درجہ حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بڑا ہے کہ انہیں رب عَزَّ وَجَلَّ نے حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ثانی فرمایا ۔ اس لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں اپنے مصلیٰ پر امام بنایا ۔ آپ چار پشت کے صحابی ہیں ۔ والدین بھی ، خود بھی ، ساری اولاد بھی، اولاد کی اولاد بھی صحابی۔ جیسے یوسف علیہ السلام چار پشت کے نبی ۔ یہ آپ کی خصوصیت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد خلافت صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے ہے۔ رب تَعَالٰی انہیں دوسرا بنا چکا پھر انہیں تیسرا یا چوتھا کرنے والا کون ہے ۔ وہ تو قبر میں بھی دوسرے ہیں حشر میں بھی دوسرے ہوں گے ۔

(3) مجھ پر غم نہ کھاؤ کیونکہ صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کواس وقت اپنا غم نہ تھا خود تو سانپ سے کٹوا چکے تھے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فدا ہو چکے تھے اگر اپنا غم ہوتا تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کندھے پر اٹھا کر گیارہ میل پہاڑ کی بلندی پر نہ چڑھتے اکیلے غار میں اندھیرے میں داخل نہ ہوتے، سانپ سے نہ کٹواتے ۔ان کا یہ غم بھی عبادت تھا اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ تسکین دینا بھی عبادت ۔چنانچہ رب تَعَالٰی نے ان دونوں ہستیوں کو مکڑی کے جالے اور کبوتری کے انڈوں کے ذریعے بچایا ۔

(4) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا : اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ ۔ (پ۱۹، الشعرآء : ۶۲)
ترجمہ : میرے ساتھ میرا رب ہے یعنی تمہارے ساتھ رب نہیں میرے ساتھ ہے ۔

مگر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمارے ساتھ ہے یعنی میرے ساتھ بھی ہے اور تمہارے ساتھ بھی ۔ جس کے ساتھ رب ہو وہ کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیشہ ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ تھا اور رہا جیسے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ۔

(5) معلوم ہوا کہ سکینہ کا نزول صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر ہوا کیونکہ اس وقت بے چینی انہی کو تھی ۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قلبِ مبارک تو پہلے ہی سے چین میں تھا ۔ نیز اس سے قریب میں صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ہی ذکر ہوا لصاحبہ اور ضمیر حتی الامکان قریب کی طرف رجوع ہوتی ہے ۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا خیال تھا کہ کافر غار کے منہ پر آگئے ۔ اگر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر مطلع ہو گئے تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دُکھ دیں گے ۔ (تفسیر نورالعرفان)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی ہے کہ اگر تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مدد نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کی اس وقت بھی مدد فرمائی جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کے وقت ان کے ساتھ صرف ایک شخص تھا تو یہاں بدرجہ اَولیٰ مدد فرمائے گا ۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶/۴۹،چشتی)

اس آیتِ مبارکہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے عظیم توکل اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت کا بیان ہے بلکہ یہ آیتِ مبارکہ کئی اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عظمت و شان پر دلالت کرتی ہے ۔

(1) تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غارِ ثور میں اس لئے تشریف لے گئے کہ انہیں کفار کی طرف سے قتل کا اندیشہ تھا لہٰذا اگر رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے ، پکے اور صدیق مومن ہونے کا یقین نہ ہوتا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکسی طور پربھی انہیں اپنے ساتھ ہم رِکابی کا شرف عطا نہ فرماتے کیونکہ اس طرح جو اندیشہ کفار سے تھا وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بھی ہو سکتا تھا ۔ یہ کلام اُن جاہلوں کا جواب ہے جو اِس سفر کے حوالے سے بھی سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر اعتراض کرتے ہیں ۔

(2) یہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی اجازت سے تھی ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک پوری جماعت موجود تھی اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقابلے میں نسبی طور پر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے زیادہ قریب بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے وقت رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہنے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے علاوہ اور کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا، یہ تخصیص حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے عظیم مرتبے اور بقیہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے ۔

(3) دیگر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حالات کی ناسازی کی وجہ سے ہجرت کر گئے جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے شدید خوف اور انتہائی خطرناک صورتِ حال کے باوجود بھی تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا قرب نہ چھوڑا بلکہ صبر و اِستقامت کے ساتھ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہے او ر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی خدمت میں مصروف رہے ۔

(4) حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سفر و حضر میں رسولِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہتے بلکہ اس کا اِلتزام فرماتے تھے، یہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے عشقِ رسول کی دلیل ہے ۔

(5) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غارِ ثور میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُنسِیّت کا شرف پایا اور اپنی جان قربان کرنے کی سعادت پائی ۔

(6) اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا ثانی فرمایا یعنی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد جس کا سب سے پہلا نمبر ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا ثانی (یعنی دوسرے نمبر پر) ہونے کا شرف پایا جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پہلو میں تدفین کی وجہ سے قیامت تک ثانِیّت سے مشرف ہیں ۔

(7) حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا صحابی ہونا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ،یہ شرف آپ کے علاوہ اور کسی صحابی کو عطا نہ ہوا ۔

(8) اللہ تعالیٰ ان دونوں مقدس ہستیوں کے ساتھ تھا تو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو یہ اس کے دوسروں سے افضل ہونے کی دلیل ہے ۔

(9) اللہ تعالیٰ کا خصوصیت کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر سکینہ نازل فرمانا بھی ان کی فضیلت کی دلیل ہے ۔ (تفسیر کبیر ، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶/۵۰،چشتی)(تفسیر خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲/۲۴۴)

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تمنا

ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ’’میری تمنا ہے کہ کاش ! میرے سارے اعمال حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دنوں میں سے ایک دن اور راتوں میں سے ایک رات کے عمل کے برابر ہوتے ۔ان کی رات تو وہ کہ جس میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ غار کی طرف سفر کیا اور جب وہ دونوں غار تک پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! آپ سے پہلے میں غار میں جاؤں گا تاکہ اس میں کوئی تکلیف دِہ چیز ہو تو اس کی اَذِیَّت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بجائے مجھے پہنچے ۔ جب حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں داخل ہوئے تو آپ نے اس میں سوراخ دیکھے ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی چادر کے ٹکڑے کر کے ان سوراخوں کو بند کیا، دو سوراخ باقی رہ گئے تو وہاں اپنے پاؤں رکھ دئیے، اس کے بعد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کی’’یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، اب تشریف لے آئیے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غار میں تشریف لائے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں سرِ انور رکھ دیا اور آرام فرمانے لگے ۔ اتنے میں سوراخ سے کسی چیز نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں پر ڈس لیا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس خوف سے حرکت نہ کی کہ کہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نیند سے بیدار نہ ہو جائیں لیکن تکلیف کی شدت سے نکلنے والے چند آنسو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے رُوئے اقدس پر گر گئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے ابو بکر! کیا ہوا ؟ عرض کی ! میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پہ فدا ہوں ، مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے ۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنا لعابِ دہن اس جگہ پر لگا دیا تو اسی وقت ساری تکلیف ختم ہو گئی، بعد میں یہی ڈنگ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُ کی وفات کا سبب بنا۔ اور ان کا دن وہ کہ جب حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد عرب کے چند قبیلے مرتد ہوگئے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اگر انہوں نے زکوٰۃ کے مال کی ایک رسی بھی روکی تومیں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ میں نے عرض کی ’’اے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے خلیفہ! لوگوں کے ساتھ اُلفت اور نرمی کا برتاؤکیجئے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا اور اب دین مکمل ہو گیا ہے کیا وہ دین میں کمی کریں گے ؟ حالانکہ میں ابھی زندہ ہوں ۔ (تفسیر خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲/۲۴۰،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :

صدیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے

وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمْ تَرَوْہَا : اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے ۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل فرما کر اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائی کہ فرشتوں نے کفار کے چہروں اور نگاہوں کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی طرف دیکھنے سے پھیر دیا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں رُعب ڈال دیا یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ گئے ۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غار میں تھے اور شدید خوف کا عالَم تھا اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے دشمنوں کا مکر پھیر کر ان کی مدد فرمائی اور پھر میدانِ بدر میں فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲/۲۴۴)

وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی : اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا ۔
کافروں کی بات سے مراد شرک یا دعوت ِکفر ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد توحید یا دعوتِ اسلام ہے ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ کافروں کی بات سے مراد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کی وہ سازش ہے جس میں کفار کامیاب نہ ہو سکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مددفرمائے گا ۔ (بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳/۱۴۶،چشتی)(بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲/۲۵۰)

اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی ہے ، اور یہ بتایا ہے کہ اگر مسلمانوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ غزوہ تبوک میں جا کر ان کی مدد نہیں کی تو اس سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کوئی کمی نہیں ہوئی ، اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائی تھی جب قریش مکہ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بےوطن کردیا تھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور غار ثور میں تین راتیں گزاریں ، اس سفر میں اور غار میں حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے رفیق تھے، ان کا ذکر بھی اس آیت میں ہے اور غار ثور میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رفاقت کی تفصیل اس طرح ہے : غار ثور میں حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ رفاقت :

امام عبدالملک بن ہشام رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢١٨ ھ لکھتے ہیں : امام ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مکہ سے نکلنے کا ارادہ کیا تو کسی کو اس کا علم نہیں تھا ، ماسوا حضرت علی بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور آلِ ابوبکر کے ، حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مکہ میں چھوڑ دیا تھا اور ان کو یہ حکم دیا تھا کہ لوگوں کی جو امانتیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس ہیں وہ ان کو ادا کردیں ، اس کے بعد مدینہ آجائیں اور مکہ میں جس شخص کے پاس بھی کوئی اہم چیز ہوتی تھی وہ اس کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس رکھوا دیتا تھا کیونکہ سب لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی صداقت اور امانت پر یقین رکھتے تھے ۔ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مکہ سے نکلنے کا ارادہ کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس گئے اور ان کے مکان کے پیچھے سے غارثور کی طرف نکلے جو مکہ کے نشیب میں ایک پہاڑ ہے، وہ دونوں اس پہاڑ میں داخل ہوگئے ، حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ وہ بغور سنیں کہ لوگ ان کے متعلق کیا باتیں کرتے ہیں پھر شام کو آ کر ہمیں خبر دیں اور اپنے غلام عامر بن فہیرہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ دن میں بکریاں چرائیں اور شام کو ان کے پاس آجائیں اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شام کو ان کے پاس کھانا لے کر آتی تھیں۔ امام ابن ہشام فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رات کو غار میں پہنچے تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے پہلے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں داخل ہوئے اور غار کو ٹٹول کر دیکھا کہ اس میں کہیں سانپ یا بچھو تو نہیں ہے ، تاکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اس کے اثر سے محفوظ رکھیں ۔ (سیرت ابن ہشام ج ٢ ص ٩٩، دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...