٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں لوگوں کی روحانی تربیت اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تحفظ و استحکام کے لیے طریقت کے جس خاندان کو منتخب فرمایا وہ سلسلۂ چشت ہے اس سلسلہ کی نامور اور بزرگ ہستی خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد سے پہلے ہی اس بات کا غیبی طور پر اشارا مل چکا تھا کہ وہ سرزمینِ ہند کو اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں ۔
چشت جس کی جانب اس سلسلہ کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خراسان میں ہرات کے قریب ایک مشہور شہر ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندوں نے انسانوں کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ ان حضرات کے طریقۂ تبلیغ اور رشد و ہدایت نے پوری دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کرلی اور اسے اس شہر چشت کی نسبت سے ’’چشتیہ‘‘ کہا جانے لگا۔ چشت موجودہ جغرافیہ کے مطابق افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے ۔
سلسلۂ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ سب سے پہلے لفظ ’’چشتی‘‘ ان ہی کے نام کا جز بنا، لیکن حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نے اس سلسلہ کے پرچم تلے دعوتِ حق کا جو کام انجام دیا اور آپ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس سے لفظ ’’چشتی‘‘ دنیا بھر میں بے پناہ مشہور و مقبول ہوا۔ طریقت کے دیگر سلاسل کی طرح یہ سلسلہ بھی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے ملتا ہے ۔
نام و نسب
سر زمینِ ہند میں سلسلۂ چشتیہ کے بانی اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے سر خیل اور سالار حضرت خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی حسن سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام ’’معین الدین‘‘ ہے، والدین محبت سے آپ کو’’ حسن ‘‘کہہ کر پکارتے تھے، آپ حسنی اور حسینی سید تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب بارہویں پُشت میں حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے ۔
پدری سلسلۂ نسب
خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن کمال الدین بن احمد حسین بن نجم الدین طاہر بن عبدالعزیز بن ابراہیم بن امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن محمد باقر بن امام علی زین العابدین بن سیدناامام حسین بن علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و رحمہم اللہ تعالیٰ ۔
مادری سلسلۂ نسب
بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بنت سید داود بن سید عبداللہ حنبلی بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد روحی بن سید داود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ ثانی بن سید موسیٰ اخوند بن سید عبداللہ بن سید حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و ررحمہم اللہ تعالیٰ ۔
ولادت اور مقامِ ولات
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ِ باسعات ۵۳۷ ہجری بہ مطابق ۱۱۴۲ عیسوی کو سجستان جسے ’’سیستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے ، کے قصبۂ سنجر میں ہوئی۔ اسی لیے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کوحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت پوری دنیا کے لیے باعثِ رحمت اور سعادت بنی۔ آپ نے اس دنیا میں عرفانِ خداوندی، خشیتِ ربانی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا کیا اور کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ کو اسلام و ایمان کی روشنی سے جگمگا دیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ بیان کرتی ہیں :’’جب معین الدین میرے شکم (پیٹ) میں تھے تو میںاچھے خواب دیکھا کرتی تھی گھر میں خیر و برکت تھی ، دشمن دوست بن گئے تھے۔ ولادت کے وقت سارا مکان انوارِالٰہی سے روشن تھا ۔ ( مرأۃ الاسرار)
بچپن
آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت خراسان میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم والدِ گرامی کے زیرِ سایا ہوئی جو بہت بڑے عالم تھے۔ نو برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرلیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہوکر تفسیر و حدیث اور فقہ (اسلامی قانون) کی تعلیم حاصل کی، خداداد ذہانت و ذکاوت، بلا کی قوتِ یادداشت اور غیر معمولی فہم وفراست کی وجہ انتہائی کم مدت میں بہت زیادہ علم حاصل کرلیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ گیارہ برس کی عمر تک نہایت ناز و نعم اور لاڈ پیار میں پروان چرھتے رہے۔ جب حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پندرہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد حضرت غیاث الدین حسن صاحب علیہ الرحمہ کا سایۂ شفقت و محبت سر سے اُٹھ گیا لیکن باہمت والدۂ ماجدہ بی بی ماہ نور نے آپ کو باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ والدِ گرامی کے اس دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد ترکہ میں ایک باغ اور ایک پن چکی ملی۔ جوانی کے عالم میں اسی ترکہ کو اپنے لیے ذریعۂ معاش بنایا خود ہی باغ کی دیکھ بھال کرتے اور اس کے درختوں کو پانی دیتے اور باغ کی صفائی ستھرائی کا بھی خود ہی خیال رکھتے۔ اسی طرح پن چکی کا سارا نظام بھی خود سنبھالتے ، جس سے زندگی بڑی آسودہ اور خوش حال بسر ہورہی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں کی تعلیم و تربیت اور کائنات کے گلشن کی اصلاح و تذکیر کے لیے منتخب فرمالیا تھا۔ لہٰذا آپ کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے آپ نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور طریقت و سلوک کے مراتب طَے کرتے ہوئے وہ مقامِ بلند حاصل کیا کہ آج بھی آپ کی روحانیت کو ایک جہان تسلیم کررہا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا وہ واقعہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے جس نے آپ کی دنیا بدل دی ۔(چشتی)
مجذوبِ وقت ابراہیم قندوزی کی آمد اور حضرت خواجہ کا ترکِ دنیا کرنا
ایک دن ترکے میں ملے ہوئے باغ میں آپ درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ اس بستی کے ایک مجذوب ابراہیم قندوزی اشارۂ غیبی پر باغ میں تشریف لائے۔ جب حضرت خواجہ کی نظر اِس صاحبِ باطن مجذوب پر پڑی تو ادب و احترام کے ساتھ ان کے قریب گئے اور ایک سایا دار درخت کے نیچے آپ کو بٹھا دیا اور تازہ انگور کا ایک خوشہ سامنے لاکر رکھ دیا ، خود دوزانو ہوکر بیٹھ گئے۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے انگور کھائے اور خوش ہوکر بغل سے روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور اپنے منہ میں ڈالا دانتوں سے چبا کر حضرت خواجہ غریب نواز کے منہ میں ڈال دیا اس طرح حق و صداقت اور عرفانِ خداوندی کے طالبِ حقیقی کو ان لذّتوں سے فیض یاب کردیا۔ روٹی کا حلق میں اترنا تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی۔ روح کی گہرائیوں میں انورِ الٰہی کی روشنی پھوٹ پڑی ، جتنے بھی شکوک و شبہات تھے سب کے سب اک آن میں ختم ہوگئے ،دنیا سے نفرت اور بے زاری پیدا ہوگئی اور آپ نے دنیاوی محبت کے سارے امور سے کنارہ کشی اختیار کرلی، باغ، پن چکی اور دوسرے ساز و سامان کو بیچ ڈالا، ساری قیمت فقیروں اور مسکینوں میں بانٹ دی اور طالبِ حق بن کر وطن کو چھوڑ دیااور سیر و سیاحت شروع کردی ۔
علمِ شریعت کا حصول
زمانۂ قدیم سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ علمِ طریقت کی تحصیل کے خواہش مند پہلے علمِ شریعت کو حاصل کرکے اس میں کمال پیداکرتے ہوئے عمل کی دشوار گزار وادی میں دیوانہ وار اور مستانہ وار چلتے رہتے ہیں اور بعد میں علمِ طریقت کا حصول کرتے ہیں۔ چناں چہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طریقۂ کار کو اپنایا اور وطن سے نکل کر سمرقند و بخارا کا رخ کیا جو کہ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں علم و فن کے مراکز کے طور پر جانے جاتے تھے جہاں بڑی بڑی علمی ودینی درس گاہیں تھیں جن میں اپنے زمانے کے ممتاز اور جید اساتذۂ کرام درس و تدریس کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ ان درس گاہوں میں دنیا بھر سے علمِ دین کی طلب رکھنے والے افراد کھنچ کھنچ کر آتے اور اپنی تشنگی کو بجھاتے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں آکر پورے ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ طلبِ علم میں مصروف ہوگئے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور دیگر ضروری علوم کا درس لیا اور کامل مہارت حاصل کرلی ، آپ کے اساتذہ میں نمایاں طور پر مولانا حسام الدین بخاری اور مولانا شرف الدین صاحب شرع الاسلام کے نام لیے جاتے ہیں ۔
پیرِ کامل کی تلاش
سمر قند اور بخارا کی ممتاز درس گاہوں میں جید اساتذۂ کرام کے زیرِسایا رہ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے علومِ شریعت کی تکمیل کرنے کے بعد روحانی علوم کی تحصیل کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں علمِ طریقت کے مراکز کے طور پر پوری دنیاے اسلام میں عراق و حجازِ مقدس مشہور و معروف تھے، جہاں صالحین اور صوفیاے کاملین کی ایک کثیر تعداد بادۂ وحدت اور روحانیت و معرفت کے پیاسوں کی سیرابی کا کام کررہی تھی۔ حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کائناتِ ارضی میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مختلف اشیا کا مشاہدہ و تفکراور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اولیا و علما اور صلحا و صوفیہ کی زیارت کرتے ہوئے بغداد، مکہ اورمدینہ کی سیر و سیاحت اور زیارت کی سعادتیں حاصل کیں۔ پھر پیرِ کامل کی تلاش و جستجو میں مشرق کی سمت کا رُخ کیا اورعلاقۂ نیشاپور کے قصبۂ ہارون پہنچے جہاں ہادیِ طریقت حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں روحانی وعرفانی مجلسیں آراستہ ہوتی تھیں۔ خانقاہِ عثمانی میں پہنچ کر حضرت خواجہ غریب نوا رحمۃ اللہ علیہ کو منزلِ مقصود حاصل ہوگئی اور آپ مرشدِ کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے اور ان کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کی ۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیعت کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے : ایسی صحبت میں جس میں بڑے بڑے معظم و محترم مشائخِ کبار جمع تھے میں ادب سے حاضر ہو ا اور روے نیاز زمین پر رکھ دیا ، حضرت مرشد نے فرمایا : دو رکعت نماز ادا کر ، میں نے فوراً تکمیل کی ۔ رو بہ قبلہ بیٹھ ، میں ادب سے قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہوا سورۂ بقرہ پڑھ ، میں نے خلوص و عقیدت سے پوری سورت پڑھی ، تب فرمایا : ساٹھ بار کلمۂ سبحان اللہ کہو، میں نے اس کی بھی تعمیل کی ، ان مدارج کے بعد حضرت مرشد قبلہ خود کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھا اور فرمایا میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا ان جملہ امور کے بعد حضرت مرشد قبلہ نے ایک خاص وضع کی ترکی ٹوپی جو کلاہِ چارتَرکی کہلاتی ہے میرے سر پر رکھی ، اپنی خاص کملی مجھے اوڑھائی اور فرمایا بیٹھ میں فوراً بیٹھ گیا ، اب ارشاد ہوا ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ میں اس کو بھی ختم کرچکا تو فرمایا ہمارے مشائخ کے طبقات میں بس یہی ایک شب و روز کا مجاہدہ ہے لہٰذا جا اور کامل ایک شب و روز کا مجاہدہ کر، اس حکم کے بہ موجب میں نے پورا دن اور رات عبادتِ الٰہی اور نماز و طاعت میں بسر کی دوسرے دن حاضر ہوکے ، روے نیاز زمین پر رکھا تو ارشاد ہوا بیٹھ جا، میں بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہو ا اوپر دیکھ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو دریافت فرمایا کہاں تک دیکھتا ہے ، عرض کیا عرشِ معلا تک ، تب ارشاد ہوا نیچے دیکھ میں نے آنکھیں زمین کی طرف پھیری تو پھر وہی سوال کیا کہاں تک دیکھتا ہے عرض کیا تحت الثریٰ تک حکم ہوا پھر ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ اور جب اس حکم کی بھی تعمیل ہو چکی تو ارشاد ہو اکہ آسمان کی طرف دیکھ اور بتا کہاں تک دیکھتا ہے میں نے دیکھ کر عرض کیا حجابِ عظمت تک ، اب فرمایا آنکھیں بند کر ، میں نے بند کرلی ، ارشاد فرمایا ا ب کھول دے میں نے کھل دی تب حضرت نے اپنی دونوں انگلیاں میری نظر کے سامنے کی اور پوچھا کیا دیکھتا ہے ؟ عرض کیا اٹھارہ ہزار عالم دیکھ رہا ہوں ، جب میری زبان سے یہ کلمہ سنا تو ارشاد فرمایا بس تیرا کام پورا ہوگیا پھر ایک اینٹ کی طرف دیکھ کر فرمایا اسے اٹھا میں نے اٹھایا تو اس کے نیچے سے کچھ دینار نکلے ، فرمایا انھیں لے جاکے درویشوں میں خیرات کر۔ چناں چہ میں نے ایسا ہی کیا ۔ (انیس الارواح ، ملفوظاتِ خواجہ ، صفحہ ۱/ ۲)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت و جانشینی
جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کے پیر ومرشد نے ولایت اور روحانیت کے تمام علوم و فنون سے آراستہ کرکے مرتبۂ قطبیت پر فائز کر دیا تو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حج کے بعد حضرت خواجہ کو قبولیت کی سند مل گئی۔ اس واقعہ کے بعد پیرو مرشد نے فرمایا کہ اب کام مکمل ہوگیا ، چناں چہ اس کے بعد بغداد میں ۵۸۲ھ / ۱۱۸۶ء کو حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنا نائب اور جانشین بنا دیا ۔ اس ضمن میں خود حضرت مرشدِ کامل نے یوں اظہارِ خیال فرمایا ہے : معین الدین محبوبِ خدا ہے اور مجھے اس کی خلافت پر ناز ہے ۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی سیر و سیاحت اور ہندوستان کی بشارت
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو پیر ومرشد نے اپنی خلافت و اجازت سے نواز کر رخصت کیا۔ آپ نے مرشدِ کامل سے فیض حاصل کر کے اللہ جل شانہ کی کائنات کا مشاہدہ اور اہل اللہ کی زیارت اور ملاقات کی غرض سے سیر وسیاحت کا آغاز کیا۔ سفر کے دوران آپ نے اپنے پیرومرشد کی ہدایت پر مکمل طور پر عمل کیا۔ چوں کہ حضرت خواجہ نے اپنی یہ سیاحت علومِ باطنی وظاہری کی مزید تحصیل کی غرض سے اختیار کی اس لیے وہ وہیں جاتے جہاں علما و صلحا اور صوفیہ و مشائخ رہتے۔ سنجان میں آپ نے حضرت شیخ نجم الدین کبرا رحمۃ اللہ علیہ اور جیلان میں بڑے پیرحضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور بغداد میں حضرت شیخ ضیاء الدین کی زیارت کی اور ان سے معرفت و ولایت کے علوم و فنون حاصل کیے ۔ (چشتی)
بغداد کے بعد حضرت خواجہ اصفہان پہنچے تو یہاں حضرت شیخ محمود اصفہانی سے ملاقات فرمائی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ان دنوں اصفہان میں موجود تھے۔ جب آپ نے حضرت خواجہ کے چہرۂ زیبا کی زیارت کی تو بہت متاثر ہوئے دل کی دنیا بدل گئی اور آپ پر نثار ہوکر مریدوں میں شامل ہوگئے اور حضرت خواجہ کی اتنی خدمت کی کہ بعد میں وہی آپ کے جانشین ہوئے۔ اصفہان سے حضرت خواجہ ۵۸۳ھ / ۱۱۸۷ء میں مکۂ مکرمہ پہنچے اور زیارت و طوافِ خانۂ کعبہ سے سرفراز ہوئے۔ ایک روز حرم شریف کے اندر ذکرِ الٰہی میں مصروف تھے کہ غیب سے آپ نے ایک آواز سنی کہ : اے معین الدین ! ہم تجھ سے خوش ہیں تجھے بخش دیا جو کچھ چاہے مانگ ، تاکہ عطا کروں۔ ‘ حضرت خواجہ صاحب نے جب یہ ندا سنی تو بے حد خوش ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکر بجالایااور عاجزی سے عرض کیا کہ ، خداوندا! معین الدین کے مریدوں کو بخش دے۔ آواز آئی کہ اے معین الدین تو ہماری مِلک ہے جو تیرے مرید اور تیرے سلسلہ میں مرید ہوں گے انھیں بخش دوں گا ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید کچھ دن مکہ میں قیام کیا اور حج کے بعد مدینۂ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مدینۂ منورہ میں حضرت خواجہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزارِ پاک کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ یہاں آپ اپنے روز و شب عبادت و ریاضت ، ذکرِ الٰہی اور درود وسلام میں بسر کرتے ، ایک دن بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو ہندوستان کی ولایت و قطبیت کی بشارت اس طرح حاصل ہوئی کہ : اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر کی ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے کفر کا اندھیرا دور ہوگا اور اسلام کا نور ہر سو پھیلے گا ۔ ( سیر الاقطاب ص ۱۲۴)
جب حضرت خواجہ نے یہ ایمان افروز بشارت سنی تو آپ پر وجد و سرور طاری ہوگیا۔ آپ کی خوشی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جب مقبولیت اور ہندوستان کی خوش خبری حاصل کرلی تو تھوڑا حیرا ن ہوئے کہ اجمیر کہاں ہے؟ یہی سوچتے ہوئے آپ کو نیند آگئی ، خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہوئے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خواب کی حالت میں ایک ہی نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا، دنیا کے تمام شہر اور قصبے آپ کی نظروں میں تھے یہاں تک کہ آپ نے اجمیر ، اجمیر کا قلعہ اور پہاڑیاں بھی دیکھ لیں۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خواجہ کو ایک انار عطا کرکے ارشاد فرمایا کہ ہم تجھ کو خدا کے سپرد کرتے ہیں ۔ ( مونس الارواح ص ۳۰)
نیند سے بیدار ہونے کے بعد آپ نے چالیس اولیا کے ہمراہ ہندوستان (اجمیر) کا قصد کیا ۔
حضر ت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی اجمیر میں آمد
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کس سن میں اجمیر تشریف لائے اس سلسلے میں آپ کے تذکرہ نگاروں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ویسے زیادہ تر اس بات پر متفق ہیں کہ آپ ۵۸۷ھ / ۱۱۹۱ء کو اجمیر شہر پہنچے۔ جہاں پہلے ہی دن سے آپ نے اپنی مؤثر تبلیغ ،حُسنِ اَخلاق، اعلا سیرت و کردار اور باطل شکن کرامتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اہلِ اجمیر نے جب اس بوریہ نشین فقیر کی روحانی عظمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اجمیر جو کبھی کفر و شرک اور بت پرستی کا مرکز تھا ، اسلام و ایمان کا گہوارہ بن گیا ۔
حضرت خواجہ کا وصالِ پُر ملال
عطاے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ی رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغِ اسلام اور دعوتِ حق کے لیے ہندوستان کی سرزمین پر تقریباً ۴۵ سال گذارے۔ آپ کی کوششوں سے ہندوستان میں جہاں کفر و شرک اور بت پرستی میں مصروف لوگ مسلمان ہوتے گئے وہیں ایک مستحکم اور مضبوط اسلامی حکومت کی بنیاد بھی پڑ گئی۔ تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت خواجہ کی روحانی کوششوں سے تقریباً نوے لاکھ لوگوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ جو کہ ایک طرح کا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اخیر عمر میں حضرت خواجہ کو محبوبِ حقیقی جل شانہ سے ملاقات کا شوق و ذوق بے حد زیادہ ہوگیا اور آپ یادِ الٰہی اور ذکرِ و فکر الٰہی میں اپنے زیادہ تر اوقات بسر کرنے لگے۔ آخری ایام میں ایک مجلس میں جب کہ اہل اللہ کا مجمع تھا آپ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ والے سورج کی طرح ہیں ان کا نور تمام کائنات پر نظر رکھتا ہے اور انھیںکی ضیا پاشیوں سے ہستی کا ذرّہ ذرّہ جگمگا رہا ہے۔۔۔ اس سرزمین میں مجھے جو پہنچایا گیا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ یہیں میری قبر بنے گی چند روز اور باقی ہیں پھر سفر درپیش ہے ۔ (دلیل العارفین ص ۵۸،چشتی)
عطاے رسول سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ نے جس روز اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طر ف سفر اختیار فرمایاوہ ۶ رجب المرجب ۶۳۳ھ بہ مطابق ۱۶ مارچ ۱۲۳۶ء بروز پیر کی رات تھی۔ عشا کی نماز کے بعد آپ اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے اور خادموں کو ہدایت فرمائی کہ کوئی یہاں نہ آئے۔ جو خادم دروازہ پر موجود تھے ساری رات وجد کے عالم میں پیر پٹکنے کی آواز سنتے رہے۔ رات کے آخری پہر میں یہ آواز آنا بند ہوگئی۔ صبح صادق کے وقت جب نمازِ فجر کے لیے دستک دی گئی تو دروازہ نہ کھلا چناں چہ جب خادموں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے مالکِ حقیقی کے وصال کی لذت سے ہم کنار ہوچکے ہیں۔ اور آپ کی پیشانی پر یہ غیبی عبارت لکھی ہوئی ہے : ہٰذا حبیبُ اللہ ماتَ فِی حُب اللہ ۔
آپ کے صاحب زادے حضرت خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کا جسمِ مبارک اسی حجرے میں دفن کیا گیا جہاں آپ کی قیام گاہ تھی ۔
ازواج و اولاد
پہلی شادی : حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃاللہ علیہ کو دین کی تبلیغ و اشاعت کی مصروفیت کی بنا پر ازدواجی زندگی کے لیے وقت نہ مل سکا ایک مرتبہ آپ کو خواب میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔ آپ نے فرمایا : اے معین الدین! توہمارے دین کا معین ہے پھر بھی تو ہماری سنتوں سے ایک سنت چھوڑ رہا ہے ۔ بیدار ہونے کے بعد آپ کو فکر دامن گیر ہوئی ۔ اور آپ نے ۵۹۰ھ / ۱۱۹۴ء میں بی بی امۃ اللہ سے پہلا نکاح فرمایا ۔
دوسری شادی : ۶۲۰ھ / ۱۲۲۳ء کو سید وجیہ الدین مشہدی کی دخترِ نیک اختر بی بی عصمۃ اللہ سے دوسرا نکاح فرمایا ۔
اولاد و امجاد : حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں تین لڑکے : (1) خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری (وفات ۵ شعبان المعظم ۶۶۱ھ) (2) خواجہ ضیاء الدین ابو سعید (3) خواجہ حسام الدین ، جو بچپن میں ابدالوں کے زمرے میں شامل ہوکر غائب ہوگئے ۔ اور ایک دختر حافظہ بی بی جمال تھیں ۔ (رحمہم اللہ علیہم اجمعین) (ماخذ : حضرت خواجہ غیرب نواز، سیرت غریب نواز ، ہند کے راجہ ، مراۃ الاسرار ، اقتباس الانوار) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سلطانُ الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : علم ومعرفت کے تاج دار،آفتاب شریعت وطریقت،اقلیم ِولایت کے نیراعظم، قطب المشائخ، نائب رسول فی الہند،خواجہ غریب نواز،سلسلہ چشتیہ کے مؤسس وبانی،سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ 14 رجب المرجب536ھ/1141ء کوپیرکے دن قصبہ ’’سجستان‘‘ میں متولد ہوئے ۔ آپ کے والدمحترم حضرت سیدناخواجہ غیاث الدین رحمۃ اللہ علیہ علم ظاہری وباطنی میں یکتائے روزگار،اپنے عہدکے بہت برگزیدہ اورکامل ولی اللہ تھے ۔ جب کہ آپ کی والدۂ محترمہ حضرت بی بی ماہِ نوررحمۃ اللہ علیہابھی اپنے وقت کی بڑی عابدہ وزاہدہ خاتون اورولیۂ کاملہ تھیں ۔
سلسلہ نسب
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ والدکی طرف سے ’’حسینی‘‘اور والدہ کی طرف سے’’حسنی‘‘سیدیعنی آپ ’’ نجیب الطرفین سید‘‘ ہیں۔آپ کاسلسلہ نسب تیرھویں پشت میں خلیفہ چہارم اور دامادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جاملتاہے۔آپ کا سلسلہ نسب حسب ذیل ہے : حضرت خواجہ سید معین الدین بن سید غیاث الدین بن سید کمال الدین بن سید احمد حسین بن سید طاہر بن سید عبد العزیزبن سید ابراہیم بن امام علی رضا بن امام مو سیٰ کا ظم بن امام جعفر بن امام محمد باقر بن علی بن امام زین العابدین بن امام حسین بن حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم ۔
علوم ظاہری وباطنی کا حصول اورشرفِ بیعت : سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے مقتدائے زمانہ ہستیوں سے علومِ دینیہ یعنی علم قرآن،علم حدیث،علم تفسیر،علم فقہ ، علم منطق اورعلم فلسفہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔آپ نے علم ظاہری کے حصول میں تقریباًچونتیس (34)برس صرف کیے،جب کہ علوم دینیہ کے حصول سے فارغ ہونے کے بعدعلم معرفت وسلوک کی تمناآپ کوایک جگہ سے دوسری جگہ کُشاں کشاں لے جاتی رہی۔
چنانچہ عراقِ عجم(ایران) میں پہنچ کرعلمِ معرفت وسلوک کی تحصیل کے لیے آپ نے مرشدکامل کی تلاش کی اور گوہرمقصودبالآخرآپ کونیشاپورکے قصبہ ’’ہاروَن‘‘میں مل گیا۔جہاں آپ حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی رحمۃ اللہ علیہ ایسے عظیم المرتبت اورجلیل القدربزرگ کی خدمت میں حاضرہوئے اورآپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے۔حضرت شیخ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ نے نہ صرف آپ کودولت بیعت سے نوازابلکہ آپ کوخرقۂ خلافت بھی عنایت فرمایااورآپ کواپناخاص مصلّٰی(جائے نماز)، عصااورپاپوش مبارک بھی عنایت فرمایا۔
بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضری
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیرو مرشد کے ہمراہ بیس سال تک رہے اور بغداد شریف سے اپنے شیخ طریقت کے ہمراہ زیارتِ حرمین شریفین کا مبارک سفر اختیار فر ما یا ۔ چنانچہ اس مقدس سفر میں اسلامی علوم و فنون کے عظیم مراکز مثلاً بُخارا، سمر قند، بلخ، بد خشاں وغیرہ کی سیرو سیاحت کی۔ بعد ازاں مکہ مکرمہ پہنچ کر مناسکِ حج ادا کر کے حضرت خواجہ شیخ عثمان ہا روَنی رحمۃ اللہ علیہ نے حضر ت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ پکڑ ا اور میزابِ رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر با رگاہِ خدا وندی میں اپنے ہاتھ پھیلا کر یوں دُعا فر ما ئی :’’اے میرے پروردگار! میرے معین الدین حسن کو اپنی با ر گاہ میں قبول فر ما‘‘ ! اسی وقت غیب سے آوازآئی:’’معین الدین ! ہمارا دوست ہے ، ہم نے اسے قبول فر ما یا اور عزت و عظمت عطا کی ‘‘۔ یہاں سے فراغت کے بعد حضرت خواجہ عثمان ہا رونی ، خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو لے کر مدینہ منورہ میں بار گاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہنچے اورآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بار گاہِ مقدسہ میں ہدیہ درودو سلام پیش کیا الصلوٰ ۃ والسلام علیکم یا سید المرسلین و خاتم النبین ۔ روضۂ اقدس سے یوں جواب عنایت ہوا وعلیکم السلام یا قطب المشائخ حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ با ر گاہ ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سلام کا جواب اورقطب المشائخ کا خطاب سن کر بہت ہی خوش ہوئے ۔
لاہورآمد اورمزارِحضرت داتاگنج رحمۃ اللہ علیہ پرحاضری
چنا نچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ سیروسیاحت کرتے کرتے مختلف شہروں سے ہو تے ہوئے اور اولیاءِ کرام کی زیا رت و صحبت کا فیض حاصل کر تے ہوئے جب لا ہور تشریف لا ئے تو یہاں حضور دا تا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمۃ کے مزار شریف پر حاضری دی اور چالیس دن تک معتکف بھی رہے اور یہاں بے بہا انوارو تجلیات سے فیضیاب ہو ئے تو رخصت ہو تے وقت یہ شعر بہ طورِ نذرانۂ عقیدت حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں پیش کیا :
گنج بخش ، فیض عالم ، مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل ، کا ملاں را راہنما
حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ کو جو فیوض برکا ت اور انوار و تجلیات یہاں سے حاصل ہوئیں ، اس کا اظہار و اعلان اس شعر کی صورت میں کر دیا۔ اس شعر کو اتنی شہرت ہو ئی کہ اس کے بعد حضور داتا گنج بخش سید علی ہجویری علیہ الرحمۃ کو لوگوں نے ’’داتا گنج بخش‘‘کے نام سے مو سوم اور مشہور کر دیا۔
سیرت و کردار
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی انقلاب آفرین شخصیت ہندوستان کی تاریخ میں ایک نہایت ہی زریں با ب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کے اس دور میں جہاں ایک طرف آپ کی توجہ اور تبلیغی مسا عی سے ظلمت کدہ ہند میں شمع ِ اسلام کی روشنی پھیل رہی تھی ، دلوں کی تاریکیاں ایمان و یقین کی روشنی میں تبدیل ہو رہی تھیں ، لو گ جو ق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ تودوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ بھی بڑھ رہاتھا۔
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مندوں اور مریدوں میں شامل سلطان شہاب الدین غوری اوراُن کے بعدسلطان قطب الدین ایبک اور سلطان شمس الدین التمش ایسے با لغ نظر ، بلند ہمت اور عادل حکمران سیاسی اقتدار کو مستحکم کر رہے تھے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ اسلام ، احیائے دین و ملت ، نفاذِ شریعت اور تزکیۂ قلوب واذہان کا اہم ترین فریضہ جس موثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا ، وہ اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد تو اس ملک کی کا یا ہی پلٹ گئی ۔ لا کھوں غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام لائے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔آپ کی تمام زندگی تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی۔ آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام میں گزارتے تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل نمونہ تھے ۔
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ غرباء اور مساکین کے لیے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے اور غریبوں سے بے مثال محبت و شفقت کی وجہ سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘کے عظیم لقب سے یا د کر تی ہے ۔دنیا سے بے رغبتی اورزہد و قناعت کا یہ عالم تھا کہ آپ کی خدمت عالیہ میں جو نذرانے پیش کیے جا تے وہ آپ اسی وقت فقراء اور غرباء میں تقسیم فر ما دیتے تھے۔ سخاوت و غریب نوازی کا یہ حال تھا کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی ہا تھ نہ جا تا تھا۔ آپ بڑے حلیم و بر د بار ، منکسر المزاج اور بڑے متوا ضع تھے۔
آپ کے پیش نظر زندگی کا اصل مقصد تبلیغ اسلام اور خدمت خلق تھا۔آپ کے بعض ملفوظاتِ عالیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ بڑے صاحب دل،وسیع المشرب اور نہایت دردمند انسان تھے۔ آپ عمیق جذبہ انسانیت کے علمبردار تھے۔ آپ اپنے مریدین ، معتقدین اور متوسلین کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی مانند سخاوت و فیاضی، سورج ایسی گرم جوشی و شفقت اور زمین ایسی مہمان نوازی اور تواضع پیدا کیا کریں ۔
اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ : ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خداوند قدوس اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مظہر بن جائے۔(چشتی)
اسلام کی تبلیغ واشاعت
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جب علم وعرفاں اورمعرفت وسلوک کے منازل طے کرچکے اوراپنے شیخ طریقت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ کے علمی وروحانی فیضان سے فیض یاب ہوئے توپھراپنے وطن واپس تشریف لے گئے۔وطن میں قیام کئے ابھی تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی کہ آپ کے دل میں بیت اللہ اورروضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے تڑپ پیدا ہوئی۔چنانچہ اسی وقت آپ اس مقدس سفرکے لئے چل پڑے۔حرمین طیبین پہنچنے کے بعداپنے دل کی مرداپائی اور قلب کوتسکین حاصل ہوئی۔ حضورسیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس کئی دنوں تک عبادت و ریاضت اورذکروفکرمیں مشغول رہے۔ایک دن اسی طرح عبادت اورذکرو فکر میں مستغرق تھے کہ روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سعادت افروزآوازآئی: ’’اے معین الدین!توہمارے دین کامعین ومددگار ہے،ہم نے تمھیں ہندوستان کی ولایت پرفائزکیاہے، لہٰذااجمیرجاکر اپناقیام کروکیوں کہ وہاں کفرو شرک اورگمراہی وضلالت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں اور تمھارے وہاں ٹھہرنے سے کفروشرک کا اندھیرادور ہوگااوراسلام وہدایت کے سورج کی روشنی چہارسوپھیلے گی‘‘۔
ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ہندو ستان میں اجمیر کس جگہ پر ہے کہ اچانک اونگھ آگئی اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے شرف یا ب ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب تمام ہندوستان کی سیر کر ادی اور اجمیر کا پہاڑ بھی دکھا دیا ۔
اجمیر شریف علم وعرفان کا مرکز
اجمیرشریف وسطیٔ ہند کا ایک مشہورشہرہے ۔ جس طرح یہ شہرمرکزِ سلطنت بننے کیلئے موزوں تھا ، اسی طرح یہ شہرتوحیدورسالت کے انوارو تجلیات اور علم و عرفاں کاروحانی مرکزومنبع بننے کیلئے بھی بے حد مناسب تھا۔حضرت ِوالانے ایک مناسب جگہ منتخب کرکے اس کواپنامسکن بنالیااور ذکروفکراوریادخداوندی میں مشغول ہوگئے۔لوگوں نے جب آپ کے سیرت وکردار،علم وفضل اورذکروفکر کے اندازو اطور کودیکھاتووہ خودبہ خودآپ کی طرف متوجہ ہوتے گئے۔چنانچہ اجمیر کا جوبھی آدمی ایک مرتبہ آپ کی خدمت ِعالی میں حاضرہوجاتاوہ اسی وقت آپ کا مریدو معتقد اور گرویدہ ہو جاتا۔تھوڑے ہی عرصہ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں نے آپ کی صحبت کیمیا اثراورآپ کے عظیم اخلاق وکردارکے باعث اسلام قبول گیا۔چنانچہ ایک مشہور روایت کے مطابق تقریباً نوے لاکھ (90لاکھ) غیر مسلم اسلام کی دولت سے فیض یاب ہوکرمسلمان ہوئے۔
ہندوستان میں اسلام کی روشن کرنیں
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و منصب کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کو با ر گاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’قطب المشائخ‘‘کا لقب عطا ہوا۔آپ نے دین حق کی تبلیغ کا مقدس فریضہ نہایت شاندار طریقے سے سر انجام دیا۔ آج ہندوستان کا گوشہ گوشہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے ما لامال ہے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدین و معتقدین کو اشاعت اسلام اور رشد و ہدایت کی مشعل روشن کر نے کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں روانہ کیاتا کہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ اسلام کی ضیاء پا شیوں سے روشن و تاباں ہو جائے ۔ آپ نے اپنے عظیم کر دار اور اچھے اخلاق سے بہت جلد غیر مسلموں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور وہ فوج در فوج اسلام قبول کر نے لگے اور یوں انتہائی قلیل مدت میں اجمیر شریف اسلامی آبادی کا عظیم مر کز بن گیا اور آپ کے حسنِ اخلاق سے آپ کی غریب نو ازی کا ڈنکا چہار دا نگِ عالم بجنے لگا۔ یہ تھا ایمان ویقین اور علم و عمل کا وہ کرشمہ اور کرامت جو ایک مر د ِ مو من نے سر زمینِ ہند پر دکھا ئی اور جس کی بدولت اس ملک میں جہاں پہلے ’’نا قوس ‘‘ بجا کر تے تھے ، اب وہاں جگہ جگہ ’’صدائے اللہ اکبر‘‘ گونجنے لگی ۔(چشتی)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اثر آفرین جدو جہد سے اس وسیع و عریض ملک کے باشندوں کو کفر و شرک اور گمراہی و ضلالت کے زنداں سے آزاد فر ما یا ۔ تبلیغ دین حق کے لئے آپ سراپا عمل بن کر میں میدان میں آئے اور محکم استقامت کا بے نظیر ثبوت دیا اور لو گوں کو اسلام ، حق و صداقت اور علم و عمل کی دعوت دی ، لا کھوں افراد آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُن کے دل درست عقائد، عملِ صالح اور پا کیزہ اخلاق کے نشیمن بن گئے اور اصلاحِ معاشرہ کی تحریک کو روز افزوں استحکام نصیب ہوا۔ یوں تو ہزاروں کرامتیں آپ سے ظہور پذیر ہوئیں اور آفتاب و مہتاب بن کر نمایاں ہوئیں لیکن آپ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کے انقلاب آفرین جدو جہد اور اثر آفرین تبلیغ اسلام کے طفیل ہندوستان میں دین ِ اسلام کی حقانیت و صداقت کا بو ل با لا ہوا۔سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی ابدی سلطنت نے اجمیر شریف کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بہشتِ عقیدت اور جنت ِمعرفت بنا دیا۔ آپ کے فیضِ با طنی سے اسلام کا آفتاب ہندوستان میں طلوع ہوا تو لاکھوں غیر مسلم آپ کی توجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔تقریباً 45برس تک آپ اجمیر شریف میں حیات ظاہری کے ساتھ مخلوقِ خدا کو فیض یاب فر ما تے رہے ۔
ہندوستان میں اشاعتِ اسلام اور رشد وہدایت کی شمع روشن کر نا آپ کا سب سے تاریخی او ر عظیم کا ر نا مہ ہے ۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت وتبلیغ کی اہمیت اور اس پر اجروثواب کو اس طرح اجاگر اور واضح فرمایا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا۔
ترجمہ: جس نے اسلام میں کسی نیک کا م کی ابتداء کی اوراس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں بھی اس طرح اجر لکھ دیا جائے گا جیسا کہ عمل کرنے والے کے اعمال نامہ میں لکھاجائے گا‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب العلم،چشتی)
چنانچہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق آپ کی دعوت وتبلیغ، سیرت و کردار اور کے قدومِ میمنتِ لزوم کی برکت سے دنیامیں جس قدر مسلمان ہو ئے اور آئندہ قیامت تک جتنے مسلمان ہوں گے اور اُن مسلمانوں کے ہاں جو مسلمان اولاد پیدا ہو گی، اُن سب کا اجر و ثواب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ پر انوار کو پہنچتا رہے گا،کیونکہ یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جس کا اجروثواب قیامت تک ملتا رہے گا۔
اجمیر شریف آمداورپرتھوی راج کی مخالفت
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ لاہورسے دہلی تشریف لے گئے،جہاں اس دورمیں ہر طرف کفرو شرک اورگمراہی کادوردورہ تھا۔حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ نے یہاں کچھ عرصہ قیام فرمایااورپھراپنے خلیفۂ خاص حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ کو مخلوق کی ہدایت اورراہنمائی کے لئے متعین فرماکرخودحضور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اجمیرجانے کاقصد فرمایا،آپ کی آمدسے نہ صرف اجمیربلکہ پورے ہندوستان کی قسمت جاگ اٹھی ۔
جب سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اجمیر شریف رونق افروز ہوئے تواُن دنوں وہاں پرہندوراجہ پرتھوی کی حکمرانی تھی۔آپ کی آمدپروہاں کاحاکم راجہ پرتھوی راج اور ہندوجوگیوں اورجادوگروں نے سخت مزاحمت کی کہ آپ اجمیرکواپنامرکزو مسکن نہ بنائیں،لیکن آپ کوتوبہ طورِ خاص اسلام وہدایت کی شمع روشن کرنے کے لیے یہاں بھیجاگیاتھا،پھرآپ اپنے عظیم مقصداورمقدس مشن سے کیسے بازآسکتے تھے۔ آپ کی مخالفت ہوتی رہی اور مقابلہ بھی ہوتارہا،بدسے بدتراورسخت سے سخت تربھی سامنے آتے رہے لیکن آپ اپنے عظیم مقصدومشن میں لگے رہے اوربالآخر کامیابی نے آپ ہی کے قدم چومے۔چنانچہ کچھ ہی عرصے میں راجہ پرتھوی راج کے سب سے بڑے مندرکا سب سے بڑا پجاری ’’سادھورام‘‘سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا۔اس کے بعد اجمیرکے مشہور جوگی’’جے پال‘‘نے بھی اسلام قبول کرلیااوریہ دونوں بھی دعوتِ اسلام وہدایت اوراسلامی وروحانی مشن کی تبلیغ واشاعت میں خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ کے ساتھ ہوگئے۔
راجہ پرتھوی راج کاانجام
اجمیرکاراجہ پرتھوی راج روزانہ نت نئے طریقوں سے حضرت والاکو تکلیف پہنچانے اور پریشان کرنے کی کوششیں کرتا رہتا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کی ہرتدبیرالٹی ہوجاتی۔آخر تھک ہارکرپرتھوی راجہ نے نہایت ناشائستہ انداز و الفاظ میں18ہزارعالمین کامشاہدہ کرنے والے سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کواجمیرسے نکل جانے کا کہاتو حضور خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ بے ساختہ مسکرادیئے اورجلال میں آکر فرمایا کہ:’’میں نے پرتھوی راج کوزندہ سلامت لشکراسلام کے سپردکردیا‘‘۔چنانچہ آپ کافرمان درست ثابت ہوااورتیسرے ہی روزفاتح ہند سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کوفتح کرنے کی غرض سے دہلی پرزبردست لشکرکشی کی۔راجہ پرتھوی راج لاکھوں کا لشکر لے کرمیدان جنگ میں پہنچا اور معرکہ کارزارگرم کردیا۔کفرواسلام اورحق وباطل کے درمیان زبردست معرکہ جاری تھا اوردست بہ دست لڑائی اپنے عروج پرتھی کہ سلطان غوری نے پرتھوی راج اوراس کے لشکرکوشکستِ فاش دے کرپرتھوی راج کوزندہ گرفتارکرلیا اوربعدازاں وہ قتل ہوکرواصلِ جہنم ہوگیا۔ راجہ پرتھوی کے عبرت ناک قتل اور ذلت آمیزشکست اور سلطان غوری ولشکراسلام کی عظیم الشان اور تاریخی فتح کے نتیجے میں ہزاروں لوگ فوج درفوج اسلام قبول کرنے لگے۔یوں اجمیر شریف میں سب سے پہلے اسلامی پرچم سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نصب فرمایا۔
سلطان شہاب الدین غوری کا شرفِ بیعت
فاتح ہندسلطان شہاب الدین غوری بہ صدعجزوانکسارسلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضرہوا اورآپ سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔چنانچہ روایت ہے کہ دہلی فتح کرنے کے بعدجب سلطان شہاب الدین غوری اجمیرشریف میں داخل ہوئے تو شام ہوچکی تھی۔ مغرب کاوقت تھا،اذانِ مغرب سنی تودریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ ایک درویش کچھ عرصے سے یہاں اقامت پذیرہیں۔ چنانچہ سلطان غوری فوراًمسجد کی طرف چل پڑے۔جماعت کھڑی ہوچکی تھی اور سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ مصلیٔ امامت پرفائزہوکرامامت فرما رہے ہیں ۔ سلطان غوری بھی جماعت میں شامل ہوگئے۔
جب نمازختم ہوئی اوراُن کی نظر خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ پرپڑی تویہ دیکھ کرآپ کوبڑی حیرت ہوئی کہ آپ کے سامنے وہی بزرگ جلوہ فرماہیں، جنہوں نے آپ کوخواب کے اندر’’فتح دہلی‘‘ کی بشارت دی تھی۔سلطان شہاب الدین غوری فوراًآگے بڑھے اورخواجہ غریب نوازکے قدموںمیں گرگئے اور آپ سے درخواست کی کہ حضور!مجھے بھی اپنے مریدوں اورغلاموں میں شامل فرمالیں ۔چنانچہ حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی اس خواہش کو شرف ِقبولیت بخش کرآپ کودولت بیعت سے نوازکر اپنامرید بنالیا۔
یہ وہی سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے نام نامی اسم گرامی سے ہمارے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سپرپاور اسلامی ایٹمی میزائل’’غوری میزائل‘‘موسوم ہے،جوپاکستان کے عظیم فرزند،قومی ہیرو، محسن قوم ڈاکٹرعبدالقدیر خان اور آپ کے دیگرسائنس داں ساتھیوں نے تخلیق کیاہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان سلطان شہاب الدین غوری کے عظیم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔(چشتی)
خواجہ غریب نوازکا فیض عام
کون خواجہ اجمیری !!! جو آفتابِ طریقت بھی تھے اور ماہتابِ شریعت بھی۔۔۔جو پاسبانِ حقیقت بھی تھے اور صاحبِ نسبت بھی۔۔۔جورہبرِ گمگشتگانِ راہ بھی تھے اور شبستانِ ہدایت بھی۔۔۔جو آلِ رسول بھی تھے اور بدرِ ولایت بھی۔۔۔کون خواجہ اجمیری!!!جس کی زندگی سادہ تھی،لباس پیوند دار تھا۔ خوراک سوکھی روٹی تھی،رہنے کیلئے ایک جھونپڑی تھی مگر بڑے بڑے اولوالعزم شاہانِ زمانہ آپ کے آستانہ پر حاضر ہو کر آپ کی قدم بوسی کو اپنے لئے سب سے بڑی سعادت اور اعزاز سمجھتے تھے۔سلطان شہاب الدین غوری آپ کی قدم بوسی کیلئے آیا۔کبھی سلطان شمس الدین التمش نے آپ کے سامنے سر ارادت جھکایااور یہ سلسلہ صرف ظاہری حیات میں ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی جاری رہا۔ کبھی سلطان محمود خلجی آپ کے روضہ انوار پر حاضرہو کر فتح کی دعا مانگتا ہے تو فتح یاب ہوتا ہے اور کبھی اکبر بادشاہ آپ کی درگاہِ عالیہ میں اولاد کی درخواست پیش کرتا ہے تو بامراد لوٹتا ہے۔ کبھی جہانگیر اپنی شفایابی پر سرِ دربار آپ کا حلقہ بگوش غلام ہو جاتا ہے۔
اس وقت سے لے کر آج تک ہندوستان کے سارے حکمران بلا امتیاز عقیدہ و مسلک، اس آستانہ عالیہ پر اپنا سر نیاز جھکاتے آئے ہیں اور آپ کے تصدق اور آپ کے قدومِ میمنتِ لزوم کے صدقہ میں سر زمینِ ہند رشکِ آسمان بنی رہے گی۔۔۔اولیاءِکرام آپ کے دربار کی خاک کو چوم کر اپنے قلب و روح کو مجلّٰی کرکے عروج پاتے ہیں۔ آج بھی آپ کی شانِ غریب نوازی کار فرما ہے۔ آپ کا پیغامِ محبت فضائے عالم میں گونج رہا ہے۔آپ کی محبت پھولوں کی خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔صاحب دل،اہلِ محبت اور اہلِ طریقت آپ کے حسنِ باطن اور عشقِ حقیقی کے تصرفات سے آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آپ کے نورِ ولایت کا آفتاب آج بھی چمک اور دمک رہا ہے۔ آپ کا قلبی نور آج بھی ضیاء بخش عالم ہے۔آپ کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو آج بھی آبِ حیات اور بارانِ رحمت کی طرح فیض رساں ہیں۔
نامورخلفائے کرام
حضرت خواجہ خواجگان، قطب الاقطاب، سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ سے حسب ِ ذیل جلیل القدر ہستیوں کو بھی خلافت حاصل ہوئی:
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت علاءو الدین علی بن احمد صابر کُلیری، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب ِالٰہی، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ شامل ہیں۔۔۔یہ برگزیدہ اور عظیم المرتبت بزرگ اپنے وقت کے ولیٔ کامل اور باکرامت اولیاء اللہ ہوئے۔ ان حضرات نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی جلائی ہوئی شمعِ توحید سے نہ صرف خود روشنی حاصل کی بلکہ کروڑوں لوگوں کو اس شمعِ توحید کی ضیاء پاشیوں سے فیض یاب کیا، جس کی بدولت آج چہار عالم روشن و تاباں ہیں۔۔۔ چناں چہ خانقاہِ چشتیہ سلیمانیہ تونسہ شریف، گولڑہ شریف، سیال شریف،مکھڈشریف، چشتیاں شریف وغیرہ کی خانقاہوں کے چراغ اسی شمع کی بدولت روشن ہیں اور دوسروں کو بھی نور ایمان و ایقان اور نورِ علم و معرفت سے روشن کر رہے ہیں۔
وصال مبارک
تاجدارعلم ومعرفت، آفتابِ رشدوہدایت، قطب المشائخ، سلطان الہند،خواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ایک طویل مدت تک مشارق ومغارب میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کرتے رہے۔ رشدوہدایت کی شمع جلاتے رہے۔ علم ومعرفت کوچہارسوپھیلاتے رہے۔ لاکھوں افراد کومشرف بہ اسلام کیا۔ لاتعدادلوگوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا۔ ہزاروں کو رشدوہدایت کا پیکر بنایا۔ الغرض یہ کہ آپ کی ساری زندگی امربالمعروف ونہی عن المنکرپر عمل کرتے ہوئے گزری۔بالآخریہ عظیم پیکرعلم وعرفاں، حامل سنت وقرآں، محبوبِ یزداں،محب سروروکون ومکاں،شریعت وطریقت کے نیرتاباں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ 6 رجب المرجب633ھ /1236ء کو غروب ہو کرواصلِ ربِّ دوجہاں ہوگیا۔
روایات میں آتا ہے کہ جس وقت آپ کا وصال ہوا،آپ کی پیشانی مبارکہ پرنورانی خط میں تحریرتھا مَاتَ حَبِیْبُ اللّٰہ،فِیْ حُبِّ اللّٰہ عنی اللہ کا دوست، اللہ کی محبت میں وصال فرماگیا۔
خواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مزارپرانوار اجمیر شریف(انڈیا) میں مرجع خلائق ہے ۔آپ کے مزارِ پر انوار پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے بھی لا کھوں افراد بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ حاضر ہو تے ہیں ۔ اجمیر شریف میں آپ کی درگاہِ عا لیہ آج بھی ایمان و یقین اور علم و معرفت کے نو ر بر ساتی ہے اور ہزاروں خوش نصیب لو گ فیض یاب ہو تے ہیں ۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال نہ صرف اجمیرمیں بلکہ پورے پاک وہند میں پورے عقیدت واحترام اورتزک واحتشام کے ساتھ منایاجاتا ہے۔ علم و فضل کے عظیم پیکر،تاجدارِ معرفت اوررشدو ہدایت کے اس عظیم سورج کو غروب ہوئے کئی سوسال گزرچکے ہیں مگراس کی گرمی وحرارت سے آج بھی طالبانِ علم و معرفت اسی طرح فیض یاب ہو رہے ہیں، جس طرح آپ کی حیاتِ مبارکہ میں ہوتے تھے ۔ (ماخذ : تاریخ مشائخ چشت ، سیرالاقطاب ، سیر الاولیاء ، مخزن چشت ، ہند کے راجہ ، سلطان الہند ، تذکرہ اولیاء پاک و ہند و دیگر کتب سوانح ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)