دیوبندیوں نے مذہب کو اپنے سیاسی مفادات کےلیئے مسلسل استعمال کیا ، پاکستان کے مطالبے کو گمراہ کن قرار دیا ، اور مشائخ اہلسنت نے تحریک پاکستان کا ساتھ دیا ۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ نمبر 397)
تحریکِ آزادی پاکستان میں علماء و مشائخ اہلسنت کا کردار
دو قومی نظریہ کا احیا‘‘ پہلی سنی کانفرنس : ۱۸۹۷ء میں پٹنہ بہار شریف (انڈیا) میں پہلی سنی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں سینکڑوں علما و مشائخ کی موجودگی میں خطاب کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مسلم قومیت کا علیحدہ تصور باضابطہ طور پر پیش کیا، جب کہ امام احمد رضا نے ’’ دو قومی نظریہ ‘‘ کے عنوان سے اپنی سیاسی جدو جہد کا آغاز ۱۸۸۱ء ہی سے شروع فرما دیا تھا۔(سنی کانفرنس کا تاریخی تسلسل، ص ۲۲) ’’پاکستان کی حمایت میں پرزورقرارداد‘‘ آٹھویں آل انڈیا سنی کانفرنس : ۲۴ تا ۲۷ جمادی الاول ۱۳۶۵ء بمطابق ۲۷ تا ۳۰ اپریل ۱۹۴۶ء کو پانچ فاطمال بنارس (انڈیا ) میں امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری(متوفیٰ ۱۳۷۰ھ/۱۹۵۱ء) کی زیر صدارت ایک چار روز ہ آٹھویں عظیم الشان آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ اس کانفرنس کاانتظام و انصرام صدر الافاضل حضرت علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی (خلیفہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھما) نے فرمایا تھا۔ کانفرنس میں پانچ ہزار علما و مشائخ اور ساٹھ ہزار سے زائد عوام اہل سنت نے شرکت کر کے پاکستان کی پھر پور حمایت کی۔ ۲۹ اپریل ۱۹۴۶ء کو اس کانفرنس کے تیسرے اجلاس میں حسب ذیل قرار داد منظور کی گئی ۔ ۱۔ آل انڈیا سنی کانفرنس کا یہ اجلاس مطالبہ پاکستان کی پر زور حمایت کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ علماء و مشائخ اہلسنت اسلامی حکومت کے قیام کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ہرامکانی قربانی کے واسطے تیار ہیں اور اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی حکومت قائم کریں جو قرآن کریم اور حدیث نبویہ کی روشنی میں فقہی اصول کے مطابق ہو۔ ۲۔ یہ اجلاس تجویز کرتا ہے کہ اسلامی حکومت کے لئے مکمل لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے حسب ذیل حضرات کی ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے۔ دستور ساز کمیٹی: ۱۔ حضرت مفتی اعظم محمد مصطفےٰ رضا خاں بریلوی ۲۔ حضرت صدر الافاصل استاذ العماء مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی صاحب ۳۔ حضرت مولانا سید ابوالمحامد محمد صاحب محدث اعظم ہند کچھو چھوی ۴ ۔ حضرت صدرالشریعہ مولانا عبدالعلیم صاحب صدیقی میر ٹھی۔ ۵۔ حضرت مبلغ اعظم مولانا عبدالعلیم صاحب صدیقی میر ٹھی ۶۔ حضرت مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی ۷۔ حضرت مولانا سید شاہ دیوان آل رسول علی خان صاحب سجادہ نشین اجمیر شریف ۸۔حضرت مولانا ابو البرکات سید احمد صاحب لاہور ۹۔ حضرت مولانا شاہ قمر الدین صاحب سجادہ نشین سیال شریف ۱۰۔ حضرت پیر سید شاہ محمد عبدالرحمن صاحب بھر چونڈی شریف(سندھ) (وصال ۱۳۸۰ھ) ۱۱۔ حضرت مولانا سید امین الحسنات صاحب مانکی شریف (وصال ۱۳۷۹ھ) ۱۲۔ حضرت بہادر حاجی بخشی مصطفی ٰعلی صاحب (مدارس) ۱۳۔ حضرت مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد صاحب لاہور یہ اجلاس کمیٹی کویہ اختیاردیتا ہے کہ مزید کا حسب ضرورت و مصلحت اضافہ کر لے ، یہ لازم ہوگا کہ اضافہ میں تمام صوبہ جات کے نمائندے لئے جائیں۔(مختصر رپورٹ خطبہ صدارت جمہوریہ اسلامیہ صفحہ ۲۹ مطبوعہ مراد آباد ۱۹۴۶ء،چشتی) ’’صدر مجلس استقبالیہ حضرت علامیہ سید محمد اعظم کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اپنے خطاب میں یہاں تک فرمایا کہ اگر تحریک پاکستان کے معاملہ میں محمد علی جناح صاحب دستبراد بھی ہوجائیں تو ہم پاکستان بناکر ہی دم لیں گے‘‘۔ اس عظیم الشان آل انڈیا سنی کانفرنس کے دوسرے اجلاس سے حضرت پیر سید امین الحسنات مانکی شریف (وصال ۱۳۷۹ھ / ۱۹۲۰ء) نے ڈھائی گھنٹےولولہ انگیزناصحانہ خطاب فرمایا ، جس میں آپ نے واشگاف الفاظ میں کہا ، ’’میں نے محمد علی جناح صاحب سے وعدہ لیا ہے کہ اگر انھوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا یا اسلام کے خلاف کوئی نظام جاری کرنے کی کوشش کی تو آج جس طرح ہم آپ کو دعوت دے رہے ہیں اور آپ کی قیادت کو مان رہے ہیں کل اس طرح اس کے برعکس ہوگا‘‘۔ جناح صاحب ! اگر ہم (یعنی اہلسنت و جماعت کے افراد ااور ہمارے مرید ین آپ سے الگ ہوجائیں تو مسلم لیگ کا پر چم اٹھانے والا بھی کوئی فرد آپ کے ساتھ نہیں ہوگا۔یہ سب لیگ کے جلسے اہلسنت کے دم سے ہیں ‘‘۔(سنی کانفرنس کا تاریخی تسلسل، ص۳۴ تا ۳۶) قیام پاکستان کے لئے دعائے قطب مدینہ مولانا قطب مدینہ حضرت علامہ مولانا شاہ ضیاء الدین احمد قادری رضوی مہاجر مدنی (خلیفہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیھما الرحمۃ) قیام پاکستان کے دل خواہاں تھے اور اس کے لئے دعا گو رہتے تھے ۔ چناں چہ مولانا نور احمد قادری علیہ رحمہ قم طراز ہیں: ’’تحریک پاکستان کے آخری کٹھن مراحل کے وقت آپ کی دعائے مستجاب نے بڑا کام کیا۔ پاکستان کے معرض وجود آنے کے تقریباً نو دس ماہ قبل جو حج ہؤا اوراس حج پر جانے والے برصغیر کے ان لوگوں نے جن کے دل میں پاکستان کا درد تھا اور آپ سے عقیدت رکھتے تھے مکہ معظمہ سے دینہ منورہ میں آکر جب آپ کے ہاں قیام کیا تو آپ سے عرض کیا کہ پاکستان کی تحریک آخری مراحل میں ہے مگر ہند و اور انگریز کاگٹھ جوڑ پاکستان بننے کی راہ میں حائل ہے ۔ دعا فرمائیں کہ مشکل حل ہوجائے اور پاکستان بن جائے ، اس لئے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی آبرو مندانہ زندگی اسی میں ہے تو آپ نے حرم شریف میں جا کر دعا فرمائی اور پھر ان تمام پاکستان کے متمنی لوگوں سے آپ نے فرمایا فکر نہ کرو، ان شاءاللہ پاکستان ضرور بنے گا اور دنیا کی کوئی بھی۔ ۔۔۔۔ دشمن طاقت پاکستان کو بننے سے نہیں روک سکتی۔ چنانچہ پھر ایسا ہی ہوا حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔ اور پاکستان بن کر رہا پاکستان پاکستان کے دشمن خائب و خاسر ہوئے۔ قائد اعظم کا لقب شہید ملت مولانا محمد مظہر الدین بن شیخ علی بخش شیر کوئی مسلم لیگ کے فعال کارکن تھے ان کے متعلق ممتاز محقق خواجہ اظفر نظامی اپنے مضمون قائد اعظم چند دل چسپ اور یاد گار تحریریں ۔ مطبوعہ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘لاہور مورخہ ۲۵/ دسمبر ۱۹۷۶ء میں یوں رقم طراز ہیں۔ ’’محمد علی جناح کے لئے ’’قائداعظم ‘‘ کا لقب سب سے پہلے مولانا مظہر الدین نے استعمال کیا۔ وہ دہلی سے سہ روزہ ’’الامان‘‘ شا ئع کرتے تھے۔ مولانا سیاسی پالیسی کے اعتبارسے کٹر مسلم لیگی تھے ۔ آپ کے اخبارات کانگریسیوں اور نیشنلسٹ علما کے مخالفت کے لئے ہمیشہ وقف رہتے تھے۔ اور ان وجوہ کے باعث آپ کے مخالفین کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ چناں چہ مارچ ۱۹۳۹ء کے کئی ماہ قبل ’’محمد علی جناح ‘‘کے ساتھ (قائد اعظم )کا لقب استعمال کر رہے تھے۔اسی جواب میں ’’محشر خیال‘‘ شائع کیا گیا اور اس کے ایک ماہ بعد ٹینہ میں مسلم لیگ کا اجلاس لگا کر ، اس لقب کو تمام بر صغیر میں مشہور کر دیا‘‘۔(تحریک پاکستان اور علماء کرام ۔ از محمد صادق قصوری، ص ۱۰۴ تا ۱۰۶) تقسیم ہند سے متعلق علامہ ڈاکٹر کی رائے کی تاکید ۱۹۳۰ء کلیم الامت علامہ اقبال (۱۸۷۷ء ۔۱۹۳۸ء) نے اپنے خطبہ الہ آباد میں تقسیم ہند کی بات کی تو صدر الافضل حضرت علامہ سید محمد نعیم الدین مرادآبادی (خلیفہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھما) نے اس وقت واہ نامہ ’’السواد الاعظم ‘‘ کے ایک شمارے میں افکار ِ اقبال کی تائید کرتے ہوئے لکھا: ’’ڈاکٹر اقبال کی رائے پر کہ ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کریا جائے ۔ ایک حصہ ہندوؤں کے زیر اقتدار ہو، دوسرا مسلمانوں کے ہندوؤں کے کس قدر غیظ آیا ، یہ ہندو اخبارات دیکھنے سے ظاہر ہوگا۔ کیا یہ کوئی ناانصافی کی بات تھی؟ اگر اس سے ایک طرف مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچتا تھا۔ تو ہندوؤں کو بھی اس نسبت سے نفع ملتا۔۔۔ جب ہندو اپنی حفاظت اس میں سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو یقیناً ان کے محلوں میں جانے اور ان کے ساتھ کاروبار رکھنے سے احتیاط رکھنا چاہیے۔ دونوں اپنے اپنے حدود جدا گانہ قرار دیں اور اس نقطے کو ملحوظ رکھ کر سیاسی مباحث کو طے کر لیں، یعنی ہندوستان میں ملک کی تقسیم سے ہندو مسلم علاقے جدا جدا بنا لیں تاکہ باہمی تصادم کا اندیشہ اور خطرہ باقی نہ رہے۔ ہر علاقے میں اسی علاقے والوں کی حکومت ہو، مسلم علاقے میں مسلمانوں اور ہندو علاقوں میں ہندوؤں کی‘‘۔(ماہ نامہ السواد الاعظم ، مرادآباد ،شعبان المعظم، ۱۳۴۹ء/جنوری ۱۹۳۱ء، بحوالہ تحریک پاکستان اور علماء کرام، محمدصادق قصوری، ص۱۴۴ تا ۱۴۵) تحریک پاکستان اور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی اعلیٰ حضرت امام رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ ، مصنف ’’بہار ِ شریعت ‘‘ صدر الشریعہ حضرت علامہ محمد امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ دو قومی نظریہ کے عظیم مبلغ اور راہنما تھے، مارچ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء کو بریلی میں جمعیۃ العلما ء ہند کا اجلاس منعقدہوا، جس میں ابو الکلام آزاد، کے علاوہ دوسرے لیڈر بھی شریک ہوئے جمعیت کے لیڈر اس جوش و خروش سے آئے تھے کہ گویا ’’ہندو مسلم اتحاد ‘‘ کے مخالف علماء اہلسنت کو لاجواب کر دیں گے، مولانا محمدامجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے شعبہ علمیہ کے صدر کی حیثیت سے اراکین جمیعت ہندوؤں سے اتحاد کے بارے میں ستر سوالات (اتمام حجت نامہ) مرتب کر کے قائدین جمیعت کو بھجوایا، بار بار اصرار اور مطالبہ کے باوجودانہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اعلیٰ حضرت محدث بریلی علیہ الرحمہ کے پچیسویں عرس مبارک منعقدہ ۲۳، ۲۵ صفر المظفر ۱۳۲۵ھ/ ۲۸، ۳۰ جنوری ۱۹۴۶ء کو بریلوی شریف میں تحریک ِ پاکستان کی راہ ہموار کرتے ہوئے صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے فرمایا ’’ہماری تمام سنی تحریک پاکستان کی راہ ہموار کرتے ہوئے صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے فرمایا : ’’ہماری تمام سنی کانفرنس جو ملک کے گوشہ گوشہ ہر ہر صوبہ میں قائم ہیں، کانگریس کے مقابلہ میں پوری جدو جہد کر رہی ہیں، چنانچہ پچھلے الیکشن میں ان کانفرنس وں کی کوششیں علماء تھے۔ انہوں نے پاکستان بنایا علامہ عبدالسلام جبل پوری علیہ الرحمہ ، مفتی برھان الحق جبل پوری علیہ الرحمہ (۶۸) کتنے نا م گنے جائیں مفتی ظفر علی نعمانی علیہ الرحمہ ، پیر صاحب کامیاب ہوئیں اور کانگریس کو شکست ہوئے، سنی کانفرنس کی کوششیں بہت مفید ثابت ہوئیں ، اس وقت ہم پھر یہی اعلان کرتے ہیں کہ مسلمان کانگریس کو اور کانگریس کے کھڑے ہوئے امید وار کو کانگریس کی حامی جماعتوں جمیعت علماء دیوبندی پارٹی مولوی حسین احمد کے زیر اثر طوفان بر پا کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ احرار وخاکسار یونینسٹ وغیرہ جن سے کانگریس کو مد پہنچ رہی ہے یا جو کانگریس کی ہوا خواہی میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، مسلمان ہر گزان کی فریب کاری میں نہ آئیں۔ اپریل ۱۹۴۶ء میں بنارس کے مقام پر منعقد عظیم الشان ’’سنی کانفرنس‘ ‘ کو قیام پاکستان کی بنیاد کی حیثیت حاصل ہے، اس میں اسلامی حکومت کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے جلیل القدر علماء کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے ممتاز اراکین میں حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ شامل تھے۔ (ماہنامہ ضیائے حرم لاہور ، اگست ۱۹۹۷ء / ربیع الثانی ۱۴۱۸ھ ، جلد نمبر ۲۷، شمارہ ۱۰، ص ۶۱۔۶۲( تحریک پاکستان اور حضرت مفتی اعظم ہند اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل و محدث بریلوی کے شہرادۂ اصغر مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا شاہ محمد مصطفیٰ رضا خاں نوری بریلوی (رضی اللہ تعالیٰ عنھما) نے’’آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘ کے ہراجلاس میں باقاعدگی سے شرکت فرمائی، ۱۹۴۶ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں مشائخ و علما ء کی جو کمیٹی دستور مرتب کرنے کے لئے منتخب کی گئی آپ کو اس میں سر فہرست رکھا گیا، نیز مرکزی ’’دارالافتاء‘‘ کے سر پرست بھی تجویز کئے گئے۔ تحریک پاکستان کی حمایت میں ’’آل انڈیا سنی کانفرنس ‘‘ کے مشاہیر علماء و مشائخ کا متفقہ فیصلہ اخبار’دبدبہ سکندری‘ رامپور شائع ہوا ، جس میں مفتی اعظم ہند مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمہ کا نام سر فہرست ہے اس تاریخی فیصلہ کا متن ملاحظہ کیجئے : ’’آل انڈیا سنی کانفرنس مسلم لیگ کے اس طریقہ عمل کی تائید کر سکتی ہے جو شریعت مطہرہ کے خلاف نہ ہو، جیسے کہ الیکشن کے معاملہ میں کانگریس کو ناکام کرنے کی کوشش اس میں مسلم لیگ جس سنی مسلمان کو بھی اٹھائے سنی کانفرنس کے اراکین و ممبران اس کی تائید کر سکتے ہیں ووٹ دے سکتے ہیں دوسروں کواس کے ووٹ دینے کی ترغیب دے سکتے ہیں مسئلہ پاکستان یعنی ہندوستان کے کسی حصہ میں آئین شریعت کے مطابق فقہی اصول پر حکومت قائم کرنا سنی کانفرس کے نزدیک محمود مستحسن ہے‘‘۔ مفتی اعظم ہنداعظم ہند علیہ الرحمہ نے وائسرے ہند کے نام ایک ٹیلی گرام میں بھی اس بات پر زور دیا کہ صرف مسلم لیگ ہی ہندوستان کی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے، مسلم لیگ کے مؤقف کی حمایت میں مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی تارکی خبر اور دیگر علمائے بریلی بیان صفت روزہ ’’الفقیہ‘‘ امر تسر میں بھی منظر عام پر آیا۔ ۱۹۴۶ء کے فیصلہ کن الیکشن میں مفتی اعظم ہند مولانا محمد مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمہ نے بریلی میں مسلم لیگ کے امیدوارے حق میں سب سے پہلا ووٹ ڈالا ، لیگی رضا کار انہیں جلوس کی شکل میں مفتی اعظم پاکستان کے نعرے لگاتے ہوئے واپس آستانہ رضویہ تک لائے، اس تاریخی واقعہ کو مولانا تقدس علی خان بریلوی علیہ الرحمہ نے مولانا محمد عبدالحکیم شریف قادری مدظلہ کے نام ایک خط میں یوں فرمایا ہے: حضرت مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز غالباً ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں جس میں کانگریس اورمسلم لیگ کا سخت مقابلہ تھا اور یہ فیصلہ ہونا تھا کہ پاکستان بنے یا نہیں ؟ اس میں اول ووٹ حضرت کا ہوا ، امیدوار عزیز احمد خان ایڈووکیٹ تھے ، عزیز احمد خان مسلم لیگ کی طرف سے تھے اور ووٹ ڈالنے کے بعد حضرت کو جلوس کی شکل میں مسلم لیگ کےرضا کار ’’مفتی اعظم پاکستان‘‘کے نعروں کے ساتھ آستانہ شریف پر واپس لائے‘‘۔(ماہنامہ ضیائے حرم ، لاہور ، اگست ۱۹۹۷ء/ ربیع الثانی ۱۴۱۸ھ جلد نمبر ۲۷، شمارہ ۱۰ ص ۶۷۔۶۸) تحریک پاکستان میں مبلغ اعظم شاہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ کا کردار اعلیٰ حضرت امام احمدرضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفۂ اجل اور قائد ملت اسلامیہ حضرت علامہ امام شاہ احمد نورانی صدیقی کے والد ماجد سفیر اسلام، سفیرِ اسلام پاکستان مبلغ اعظم حضرت علامہ مولانا شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی میرٹھی مہاجرین مدنی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم) کی ’’ تحریک پاکستان‘‘ میں ناقابل فراموش خدمات کا ذکر صابرین حسین شاہ بخاری یوں رقم طراز ہیں: مبلغ اسلام علامہ محمد عبد العلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے تقریباً دس سال محکوم ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کےمطالبےکی پر زور ہمایت کی اور اس زمن میں اپنے شب وروز ایک کردیئے۔ ۱۹۴۰ء کی قراداد پاکستان کی منظوری کے بعد آپنے قیام پاکستان کی تحریک میں نہایت سرگرمی کا مظاہر ہ کیا او ر مختلف بلاد و امصار کے دورے کر کے علمائے اہل سنت مشائخ عظام اور عوام النا س کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر مسلم لیگ کے پرچم تلے جمائے ہوئے تاکہ ان کے حقوق کی بازیابی کے لئے مؤثر انداز میں آئینی جنگ لڑی جا سکے ۔ ۱۹۲۵ء کے اواخر میں انتخابات کے موقع پر یہاں دیگر علمائے اہل سنت ‘ مسلم لیگ کے انتخابات میں کامیابی کے لئے کشاں تھے ‘ وہاں مولانا عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ بھی اس محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے۔ آپ نے اکتوبر ۱۹۲۵ء میں بغرض حج عازم حجاز ہوتے ہوئے مسلمانان ہند کے نام ایک مؤثر پیغام دیا جس کے آخر میں آپ نے کہا کہ تمام برادرا ن ملت کو علی العموم وقت سفر حجاز مقدس میں یہ آخری وسیت دیتے ہوئے رخصت ہوتا ہوں جس طرح ممکن ہو انتخابات جدید میں تمام اختلافات باہمی کو مٹاکر آل انڈیا مسلم لیگ کی ہمایت میں ہمہ تن سر گرم ہوجائیں اور آب نائے تزویر میں آکر اپنے شیرازے کو ہر گز منتشر نہ ہونے دیں یہ ثابت کردیکھائیں کہ مسلمان متحددو متفق ہیں تاکہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان کی آزاد حکومت ہو ‘ جس میں نفاذ قوانین و احیائے تہذیب و معاشرت دین کی پوری قوت ان کو ہی حاصل ہو اس کو خواہ پاکستان کا نام دیا جائے یا حکومت الہیہ کے لقب سے ملقب کیا جائے ۔(خواجہ رضی حیدر شاہ عبدالعلیم اور ان کی سیاسی جدو جہد مشمولہ مجلہ مینار نور کراچی نومبر ۱۹۸۰ء،ص ۲۸) مبلغ اسلام شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے پنڈت نہرو سے ملاقات کے دوران ہنددوؤں کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کےخلاف سخت احتجاج کیا ۔ بمبئی مدارس تقریریں کر کے مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی۔ تحریک پاکستان کے خلاف جب کانگریسی لیڈر حشرات الارض کی طرح بیرونی ممالک میں پھیل گئے تو آپنے انگلینڈ اور مصر میں ان کانگریسی گماشتوں کو اپنی مدلل تقریر سے ناکوں چنے چبوائے۔(محمد صادق قصوری ‘مجید اللہ قادری‘ پروفیسر: تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت مطبوعہ ، کراچی، ۱۹۹۲ء، ص ۱۵۹) ۱۹۴۶ء میں معروف آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں شرکت فرما کر تحریک پاکستان کی ببانگ دہل حمایت فرمائی۔ ملک کے طول و عرض مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا ‘ علاوہ الزین حج کے موقع پر مسلم لیگ کی طرف سے متعدد عرب ممالک فلسطین ‘شام‘ لبنان‘ اردن اور عراق وغیرہ کے دورہ پر تشریف لے گئے۔ ہندوؤں کے شدید غلط پروپیگنڈے کی بنا پر عالم اسلا م کے کے مسلمان ہندی مسلمانوں کے خلاف تھے‘ دنیا میں ہندوستان کی آزادی حاصل کرنے کو ’’دیوانے کا خواب‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو ہندوستان ہی میں انتا کامتھا کہ وہ باہر توجہ ہی نہ دے سکتے تھے‘ اس لئے آپ مذکورہ حکام سے ملے ‘ وانشوروں اور وکلاء کے سامنے تقریریں کیں اور نطریہ پاکستان کی وضاحت کی جس کے نتیجے میں عرب علماء و اعوام تحریک پاکستان کو صحیح طور پر سمجھنے لگے۔(محمد صادق قصوری ‘مجید اللہ قادری‘ پروفیسر: تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت مطبوعہ ، کراچی، ۱۹۹۲ء، ص ۱۶۰) اس دوروہ میں عظیم الشان کامیابی کے بعد آپ جب اکتوبر ۱۹۴۶ء میں وطن واپس پہنچے تو کراچی کی بندرگاہ پر مسلمانوں کے ایک کثیراجتماع نے آپ کا والہانہ استقبال کیا اور جمیعت سنیہ جامعہ قادریہ کراچی نے آپ کے اعزاز میں ایک عظیم الشان سنی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے عظیم راہنما مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے فرمایا۔ ’’موجود ہ کانگریسی حکومت کے نظام عمل اور ہمارے پاکستانی نطام عمل میں ایک ایسا فلک پیما فرق ہے کہ جس کو ہم کسی صورت منظور نہیں کرسکتے ۔ہمارا پاکستانی نظام عمل ایک مافوق البشر کا لایا ہوا‘ سمجھایا اور زمانہ ہائے ماضی ‘ حال و مستقبل کے قدرتی قوانین پر منتج ہے‘ دنیاوی حکومتوں کے قوانین لمحہ بہ لمحہ روز شب ترمیم و اضافہ کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں مگر اس مافوق الفطرت نبی (یعنی حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ خاتم النبیین والمرسلین ) کا لایا ہوا قرآنی نظام عمل اور قوانین حکومت ترمیم و تنسیخ سے مبرا‘ زمانہ ہائے ماضی ‘ حال و مستقبل پر حاوی ہے‘ اس لئے میں مسلمانوں کے مجوزہ وچن کو ’’قدرتی پاکستان‘‘ کہتا ہوں جس کی بنیادیں احکام قرآنی اور ارشادات مصطفوی پر ہوں گی ہمارے علماء و مشائخ نے اپنی روحانی قوت سے خانقاہوں میں خاموش بیٹھے ہوئے ’’پاکستان لشکر‘‘ کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا ہے اور وہ میدان عمل میں آچکے ہیں اوراب برصغیر کے مسلمانوں کی ’’ قدرتی پاکستان‘‘ مقدر بن چکا ہے‘‘۔(خواجہ رضی حیدر: شاہ عبدالعلیم اور ان کی سیاسی جدو جہد مشمولہ مجلہ مینار نور کراچی، نومبر ۱۹۸۰ء، ص ۲۹) قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم علیہ الرحمہ کی طرف سے علامہ محمد عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کو اسلامی ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کا فریضہ سونپا گیا۔ آپ نے تن تنہا بین الاقوامی سطح پر تبلیغ اسلام کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے اغراض و مقاصد پر طویل لیکچر دے کر اس کی اہمیت کو اجا گر کیا ‘ قائد اعظم علیہ الرحمہ نے آپ کی پہلے وزیر اعظم علیہ الرحمہ نےآپ کی انہی اسلامی اور ملی خدمات کے پیش نظر آپ کو ’’سفیر اسلام‘‘ کا خطاب دیا‘ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم کی دعوت پر آپ اپنی تبلیغی مصروفیات مختصر کر کے پاکستان تشریف لائے ‘ قیام پاکستان کے چند دنوں بعد کراچی میں سرکاری سطح پر نماز فرمائی اور خطبہ ارشاد فرمایا ‘ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ ‘ خان لیاقت علی خان مرحوم اور دوسرے اہم سرکاری وغیر سرکاری شخصیات نے علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کی قتداء میں نماز عید پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔(محمد سلیم مست قادری: مبلغ اسلام اورروحانی پیشوا مطبوعہ ،فیصل آباد ،۱۹۸۹ء ،تا ۲۴) پاکستان سے مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ کو نہایت والہانہ محبت تھی اس کا اظہار آپ کی اس دعا سے بھی ہوتا ہے۔ ’’اے عظمت والے ! اے عزت والے! اے غلاموں کے سر پر تاج عزت رکھنے والے اے بے پناہوں کو پناہ دینے والے! سن لے ! ہم بے کسوں کی‘ بے بسوں کی سن لے! ہم سیہ کاروں کے سبب اپنے دین کو بدنام نہ ہنوے دے‘ دین کی عزت رکھ لے‘ علم توحید کو سرنگوں نہ ہونے دے ہمیں قوت دے ‘ طاقت دے‘ عزت دے‘ حمیت دے ‘ غیرت دے‘برصغیر ہند میں جو چھوٹی سی آزاد خود مختار ’’پاکستانی حکومت ‘‘ تو نے اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے۔ اس کی حفاظت فرما ‘ اسے قوی سے قوی تربنا اور صحیح معنی میں اسلامی دولت‘ اسلامیسلطنت اور الٰہی مملکت بنا‘ جہاں تیرا قانون ‘ تیرے احکام جاری ہوں تیرے دین کا علم بند ہو اور تیرے نام کا ابدالاباد تک بول بالارہے۔ مولی! مولی! اے رحم و کرم والے مولی! ہماری دعائیں قبول کر‘‘۔ (محمد عبدالعلیم صدیقی علامہ: ذکر حبیب کامل مطبوعہ ،حیدر آباد ۱۹۸۵،ء، ص ۱۴۳،چشتی)
جب پاکستان تحریک چلی تو بانی پاکستان نے پوری دنیا میں پاکستان کو متعارف کرانے کے لئے کس کو بھیجا؟؟حضرت مولانا عبدلحامد بدایونی علیہ الرحمہ کو بھیجا ۔ دوسرے حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۔ یہ دونوں پاکستان سے باہر گئے۔ خصوصاً مولانا عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمۃ نے عرب کا دورہ کیا۔ یہ سارا دورہ کرنے کےبعد لوگوں کو متعارف کرایا کہ پاکستان کیا ہے؟؟ مسلمان پاکستان کو کس لئے بنانا چاہتے ہیں؟؟ اس کے بعد میں اخبار شاہد ہیں کہ جناح صاحب نے شکریہ ادا کیا اور ان کو تحریک پاکستان کی خدمت میں ’’سفیر اسلام‘‘ لقب دیا اور کہا کہ مولانا عبدالعلیم صاحب آپ کو جو ذمے دی گئی، آپ نے اس کو کما حقہ انجام دیا‘‘۔(تخلیق پاکستان میں علماء اہل سنت کا کردار ص ۱۰۴ تا ۱۱۰) تحریک پاکستان کو تقویت پہنچانے میں حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاں بریلوی کر کردار تحریک کو تقویت پہنچانے میں اعلیٰ احضرت امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی کے شہزادۂ اکبر حجۃ الا سلام حضرت علامہ مولانا شاہ محمد حامد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھما ) کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۴ شعبان المعظم ۱۳۴۳ھ/ مارچ ۱۹۲۵ء میں مسلمانو ں کی مذہبی علمی اور سیاسی ترقی کے لئے مقتدر علما نے ’’آل انڈیاسنی کانفرنس ‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ کانفرنس کے بانی اراکین میں حجۃ الاسلام کا اسم گرامی سر فہرست ہے ۔ کانفرنس کے پہلے تاسیسی اجلاس منعقدہ۲۰ تا ۲۳ شعبان المعظم ۱۳۴۳ھ/ ۱۶ تا ۱۹ مارچ ۱۹۲۵ ء مراد آباد میں بحیثیت صدر مجلس استقبالیہ جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ مسلمانوں کے سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، معاشی، معاشرتی ، عمرانی غرض ہمہ وجوہ ترقی کے واضح اور مکمل لائحہ عمل پر مبنی ہے، وقت گزرنے کے باوجود آج بھی وہ خطبہ واضح نشان راہ ہے، اسی خطبے میں آپ نے ہندو مسلم اتحاد کی بجائے مسلمانوں کے آپس میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا : ’’بے شک دو گھوڑوں کو ایک گاڑی میں جوت کر زیادہ وزن کھینچا جا سکتا ہے، لیکن بکری اور بھیڑ یے کو ایک جگہ جمع کر کے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا‘‘۔(ماہ نامہ حرم ضیاء حرم ، لاہور، اگست ۱۹۹۷ء/ ربیع الثانی ۱۴۱۸ھ ، جلد نمبر ۲۷، شمارہ۱۰، ص ۲۰، بہ حوالہ ’’تخلیق پاکستان میں علماء اہل سنت کا کردار‘‘، حاشیہ ، ص۱۱۹) تحریک پاکستان میں خانقاہ گولڑہ وغیرہ کی خدمات نامور صحافی اور تحریک پاکستان مجاہد میاں محمد شفیع المعروف م ش(متوفیٰ ۱۹۹۳ء) حضرت پیر سید غلام محی الدین گولڑوی قبلۂ عالم حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (متوفیٰ ۱۹۳۷ء) کے فرزند ارجمند حضرت پیر سید غلام محی الدین گولڑوی (متوفیٰ ۱۹۷۴ء) کی تحریک پاکستان میں خدمات کا تذکرہ نوائے وقت ، لا ہور بابت ۲۶ جون ۱۹۷۴ء میں رقم طراز ہیں: ’’وہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ جط اس صدی کی پانچویں دہائی میں بر صغیر میں معرکہ حق و باطل بپاہوا اور مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اسلام کی سربلندی کے لئے حق خود ارادیت کا عَلم بلند کیا تو پنجاب کے جن سجادوں نے تن من دھن سے قائد اعظم کا ساتھ دیا ان میں تونسلہ شریف (خواجہ غلام سدید الدین)سیال شریف (خواجہ محمد قمر الدین) ، جلال پور ( پیر سید فضل شاہ) اور گولڑہ شریف ( پیر سید غلام محی الدین عرف بابو جی) پیش پیش تھے ۔
انہوں نے اپنے لاکھوں مریدوں کو عام انتخابات کے موقع پر یو نینسٹ پارٹی کے مقابلے پر مسلم لیگ کے امیدواروں کو کامیا ب بنانے کی اپیل کی۔ ان لوگوں کے عظیم کردار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر چہ یونینسٹ پارٹی کے اس وقت کے لیڈر ملک سرخضر حیات خاں ٹوانہ، گولڑ شریف اور سیال شریف سے ارادت رکھتے تھے، لیکن عظیم تر ملی مقاصد کے پیش نظر خواجہ محمد قمر الدین صاحب اور خواجہ سید غلام محی الدین شاہ صاحب نے پوری ہمت سے مسلم لیگ کے لئے کام کیا ۔ (تحریک پاکستان اور مشائخ اعظم ، از محمد صادق قصوری، ص۲۴۸ تا ۲۴۹،چشتی)
برصغیر میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہواان پر کیا گزری ۔کیا کیا ستم کی آندھیاں چلی ۔شعار اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے ٹھکانہ نے لگانے کا کوئی نشانہ خطا نہ جانے دیا۔ان حالات میں مسلمانوں میں علماء کرام نے ایک فکر ایک امنگ اور ایک سوچ بیدار کی ۔انھیں ایک ملّت ایک وجود ہونے کااحساس دلایا۔ایک آزاد وطن ایک آزاد سرزمین کے حصول کا ذہن دیا۔جس پر علماء اہلسنّت کے ساتھ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جمع ہوتا چلاگیا یوں فرد سے افراد اور افراد سے کاروان بنتے چلے گئے ۔تحریک پاکستان میں علماء اہلسنّت کا کردار تاریخ میں سنہری حروف میں رقم ہے ۔
آج یوم آزادی ہے ۔کتنی خوشی سے ہم یہ دن منا رہے ہیں لیکن اس آزادی کے پیچھے کتنے عظیم ذہن کتنی بلند ہستیوں کی شب و روز کی محنت ،مالی و بدنی قربانی کی ایک طویل داستان ہے ۔جس کو پڑھیں تو عقل حیران و خیرہ رہ جاتی ہے اور ان کے احسانات کے آگے گردن جھک جاتی ہے ۔
تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو علماء کی ایک فہرست ہے جنھوں نے اس وطن کے حصول میں تن من دھن سے کام کیا اور ہمیں یہ آزاد فضا نصیب ہوئی جہاں ہم سکھ کا سانس لے رہے ہیں ۔ جنگ آزادی و تحریک آزادی میں علمائے اہل سنت اور مشائخ طریقت کا نہایت بنیادی کردار رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا رائے عامہ ہموار کرنے اور پورے خطے میں انقلاب کی فضا برپا کرنے کا بنیاد ی کردار انہی کا رہا ہے ۔ان عظیم ناموں میں سرفہرست نامشاعرعلامہ مولانا مفتی فضل حق شہید خیر آبادی ، مفتی صدر الدین خاں آزردہ دہلوی ، مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی ، مفتی عنایت احمدکاکوری، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فیض احمد بدایونی، ، مولانا وہاج الدین مراد آبادی ، مولان رضا علی خاں بریلوی ، مولانا امام بخش صہبائی دہلوی ، مفتی مظہر کریم دریابادی، حکیم سعید اللہ قادری کے انقلابی کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں اورشہیدِ جنگ آزادی حضرت مولانا مفتی سید کفایت علی کافی مراد آبادی علیھم الرحمۃکا نام اس فہرست میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔
تحریک آزادی کے ان عظیم کرداروں کے متعلق مختصر آپ کی خدمت میں معلومات پیش کرتے ہیں ۔
دو قومی نظریہ کی حمایت میں امام المحدثین سید ابو محمد دیدار علی شاہ الوری رحمۃ اللہ علیہ کا کردار نہایت روشن اور نمایا ں ہے ۔آپ نے دو قومی نظریہ کی حمایت میں ایک جامع فتویٰ مرتب فرما کر شائع کیا ۔ آپ نے سینہ سپر ہو کر اُن کا مقابلہ کیا ۔تحریک پاکستان میں فقیہ اعظم علامہ ابو یوسف محمد شریف محدث کوٹلی رحمۃ اللہ علیہ کا کردار روز روشن کی طرح واضح ہے ۔آپ نے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے حق میں جگہ جگہ پر جوش تقریریں کر کے مسلمانوں کو حق کے لیے بیدار اور منظم کیا ۔26،27اکتوبر 1945ء کو ڈسٹرکٹ سنی کانفرنس امر تسر کے زیر اہتمام حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا عرس منعقد ہوا ۔ عرس کی تقریب کی صدارت حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ کر رہے تھے ۔ ان تقریبات میں حضرت فقیہ اعظم محدث کوٹلی ،صدر الافاضل مولانا سید محمدنعیم الدین مراد آبادی ،محدث اعظم سید محمد محدث کچھو چھوی ،شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی کے اسماء گرامی نہایت نمایاں ہیں ۔ ان تمام علماءِ حق نے تصور پاکستان اور مطالبہ پاکستان کی پر زور حمایت کا اعلان کیا ۔ تحریک پاکستان کی حمایت میں علماء کرام اورمشائخ عظام کی حمایت کا واضح اور دو ٹوک موقف بنارس سنی کانفرنس (منعقد ہ27تا30جولائی 1946ء)میں ظاہر ہوا ۔حضرت فقیہ اعظم نے دیگر علمائے سیالکوٹ کے ہمراہ بنارس سنی کانفرنس میں شرکت کی اور مطالبہ پاکستان کو تقویت پہنچائی ۔
دو قومی نظریہ کی پاسبانی میں حجۃ الاسلام علامہ مفتی محمد حامد رضا خان قادری بریلوی ررحمہم اللّٰہ علیہ کاکردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔4شعبان المعظم 1343 ھ بمطابق 1945ء میں مسلمانوں کی مذہبی علمی اور سیاسی ترقی کے لئے مقتدر علماء حق نے آل انڈیاسنی کانفرنس کی بنیاد رکھی ۔کانفرنس کے بانی اراکین میں شہزادہ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام کا اسم گرامی سر فہرست ہے۔ کانفرنس سے پہلے تاسیسی اجلاس منعقد ہ20تا23شعبان المعظم 1343ھ مراد آباد میں بحیثیت صدر مجلس استقبالیہ جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ مسلمانوں کی سیاسی ،سماجی ،مذہبی ،معاشی ،معاشرتی عمرانی ترقی کے واضح اور مکمل لائحہ عمل پر مبنی ہے ۔وقت گذرنے کے باوجود آج بھی وہ خطبہ واضح نشان راہ ہے۔ اسی خطبے میں مسلمانوں کے آپس میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر زور دیا۔
مولانا رضا علی خان اورمولانا نقی علی خان وغیرہ نے آزادی حریت کی شمع روشن کی،جبکہ 1857 ء کے بعد امام اہلسنّت امام مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے اِس قافلہ حریت کی فکری آبیاری فرمائی اور دو قومی نظریئے کا شعور دیا۔ آپ کے بعد آپ کے خلفاء اور علمائے اہلسنّت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان، صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی، مبلغ اسلام علامہ عبدلعلیم صدیقی،سیّد محمد محدث کچھوچھوی، مولانا امجد علی خان، ابوالحسنات سید محمداحمد قادری، ابوالبرکات سید احمد قادری،علامہ عبدالحامد بدایونی، امیر ملت پیر جماعت علی شاہ، خواجہ قمر الدین سیالوی، مولانا سید احمد سعید کاظمی، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا عبدالغفور ہزاروی، مولانا ابراہیم علی چشتی، مولانا غلام محمد ترنم، مفتی سرحد مفتی شائستہ گل، پیر عبدالرحیم پیر آف بھرچونڈی شریف، پیر آف مانکی شریف اورپیر آف زکوڑی شریف وغیرہ نے برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری میں بہت اہم کردار ادا کیا اور تحریکِ پاکستان میں ہراوّل دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے ۔
بے شک قیام پاکستان علماء و مشائخ اور عوام اہلسنّت کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کا ثمرہے، کوئی غیر جانبدار مورخ اِس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ تحریک پاکستان کے سفر میں تکمیل پاکستان تک کوئی ایک موڑ بھی ایسا نہیں تھا، جہاں حضرات علماء و مشائخ اہلسنّت قوم کی رہبری و رہنمائی کیلئے موجود نہ تھے۔
مولانا کافی مراد آبادی اور مولانا فضلِ رسول بدایونی کو سرِ عام تختہ دار پر کھینچ دِیا گیا۔ علامہ فضلِ حق خیر آبادی اور مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی کو قید کر کے جزیرہ انڈیمان (کالے پانی)بھیج دِیا گیا اور ان کی حمایت کرنے والوں کو صرف اِس جرم کی پاداش میں گولیوں سے بھون دِیا گیا کہ اُنہوں نے اِن پیکرانِ حق و صداقت کا ساتھ دِیا تھا۔ اگرچہ مسلمانوں کو اِس تحریکِ آزادی میں بظاہر ناکامی ہوئی مگر آگے چل کر انہی مبارک ہستیوں کی قربانیاں قیامِ پاکستان کا باعث بنیں۔
اعلیٰحضرت نے فتویٰ میں نہایت حُسن و خوبی اور جامعیت کے ساتھ "دو قومی نظریہ" پیش فرمایا اور اسی نظریئے کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا۔
اعلیٰحضرت فاضل بریلوی کے دیئے ہوئے "دو قومی نظریئے" کو لے کر علماء و مشائخ اہلِ سنّت اپنے بزرگوں کی سابقہ روایات کے مطابق میدانِ عمل میں نکل آئے اور قیامِ پاکستان کی حمایت کے لیے اُنہوں نے "بنارس آل اِنڈیا سنّی کانفرنس" منعقد کی۔ اِس کانفرنس کے سرپرست امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری تھے اور محرّک حضرت علامہ سید محمد محدث کچھوچھوی، ناظم اعلیٰ صدر الافاضل حضرت مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادی اور اُس کے رُوح و رواں حضرت شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی و مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مصطفےٰ رضا خان بریلوی، صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، مولانا محمد عمر نعیمی، مولانا عبد الغفور ہزاروی، علامہ سید ابو البرکات اور مفتی ظفر علی نعمانی تھے۔ حضرت پیر بھر چونڈی کی معیت میں فقیر بھی اس تاریخی کانفرنس میں حاضر تھا۔ اس کانفرنس میں پانچ ہزار سے زیادہ علماء و مشائخ اہلِ سنّت نے شرکت فرما کر "مطالبہ پاکستان" کی زبردست حمایت کی اور برصغیر کے دور دراز علاقوں کا طویل دورہ کر کے قوم میں بیداری کی لہر دوڑا دِی۔ سب نے شب و روز کام کیا۔ بالآخر پاکستان کی صورت میں ایک عظیم اِسلامی مملکت دُنیا کے نقشے پر اُبھر آئی ۔ آج تحریک پاکستان کے تذکروں میں ان کا نام دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ،یہ تاریخ کے ساتھ نا انصافی ہی تو ہے کہ جنہوں نے پاکستان کی خاطر اتنی قربانیاں دیں ان کا تو ذکر ہی موجود نہیں اور جوپاکستان کے بننے کے مخالف تھے۔اب آپ خود سوچ لیں کہ کہاں کہاں تاریخی خیانت ہوئی ۔ اپنی تاریخ ضرو ر پڑھیے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment