( پوسٹ نمبر 20 ) جامع فضائل امیر المؤمنین خلیفہ رسول پیکر شرم و حیاء حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دفاع ،صحابہ کی سنت:اللہ تعالی نے حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے ایمان کو امت کے لئے ہدایت کا معیار قرار دیا،جب بھی حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی شان کے خلاف کوئی بات کہی جائے تو ایمانی تقاضہ یہ ہے کہ ان کا دفاع کرکے اپنی محبت ووابستگی کا ثبوت دیں،صحیح بخاری شریف میں حدیث شریف ہے:
حضرت عثمان بن موہب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا:ایک مصری شخص حج بیت اللہ کے ارادہ سے آیا،تو اس مصری شخص نے چند بیٹھے ہوئے افراد کو دیکھا اور پوچھا کہ یہ کس قبیلہ کے ہیں؟لوگوں نے کہا:یہ اکابر قریش ہیں،پھر اس شخص نے پوچھا:ان کے سردار کون ہیں؟لوگوں نے کہا:عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما،اس نے کہا:اے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما!میں آپ سے چند چیزوں کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں،آپ مجھے بیان کریں!کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ غزوۂ احد کے دن موجود نہیں تھے؟آپ نے فرمایا:ہاں،اس نے سوال کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں موجود نہیں تھے اور اس میں شرکت نہیں کی؟آپ نے فرمایا:ہاں،پھر اس نے پوچھا :کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت رضوان کے موقع پر موجود نہیں تھے اور اس میں شرکت نہیں کی؟آپ نے فرمایا:ہاں،اس نے کہا:اللہ اکبر!حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: آؤ،میں تمہیں حقیقت بیان کرتاہوں:اب رہا آپ کا غزوۂ احد کے دن موجود نہ ہونا تو میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالی نے انہیں درگزر فرمادیا اوران کی مغفرت فرمادی۔اب رہا آپ کاغزوۂ بدرمیں موجود نہ رہنا تواس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے عقد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شہزادی تھیں،اور وہ بیمار تھیں،تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو حکم فرمایا کہ بیشک تمہیں وہی ثواب اور حصہ ہے جو بد ر میں شریک ہونے والے آدمی کے لئے ہے۔اب رہا آپ کا بیعت رضوان کے وقت موجود نہ رہنا ،تو اگر کوئی وادیٔ مکہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے زیادہ عزت وغلبہ والا ہوتا تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسی کو (اسلام کا سفیر بنا کر)روانہ فرماتے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہی کو روانہ فرمایا تھا،اور بیعت رضوان تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے مکہ مکرمہ روانہ ہونے کے بعد ہوئی،اس موقع پرحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے داہنے دست مبارک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:یہ عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ)کا ہاتھ ہے،اور اسے اپنے بائیں دست مبارک پر رکھ کر فرمایا :یہ(بیعت) عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ)کی جانب سے ہے۔پھر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے اس سوال کرنے والے شخص سے فرمایا: اب ان حقائق کو اپنے ساتھ (بحفاظت)لے جاؤ!۔
(صحیح البخاری ،کتاب فضائل الصحابۃ، باب مناقب عثمان بن عفان أبی عمرو القرشی رضی اللہ عنہ . حدیث نمبر،3698)
صلح حدیبیہ کے وقت جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بطور سفیر ‘مکہ مکرمہ روانہ فرمایا،اہل مکہ نے آپ سے کہا کہ آپ طواف کرلیں اور عمرہ ادا کرلیں ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر ہرگز کعبۃ اللہ کا طواف نہیں کروں گا ، تب انہوں نے آپ کو روک لیا اور مسلمانوں میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ کفار نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے جاں نثاری کی بیعت لی پھراپنے داہنے دست مبارک کو بائیں دست مبارک پر رکھ کر فرمایا اے اللہ !یہ ہاتھ عثمان کی جانب سے ہے اور یہ ان کی طرف سے بیعت ہے کیونکہ وہ تیرے اور تیرے رسول کی فرمانبرداری میں ہیں ۔
حضرات!یہاں یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ اگر حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہوتاتو آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی جھوٹی خبر پہنچنے کے بعد صحابہ کرام سے بیعت نہ لیتے ۔
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہ ہوتا تو آپ حضرت عثمان کی جانب سے بیعت نہ لیتے کیونکہ جن کی شہادت ہوچکی اُن سے بیعت نہیں لی جاتی ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب سے بیعت لی، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بابت حقیقی صورت حال سے بخوبی واقف و باخبر ہیں ۔
حضرت عثمان کی دیانت پر حضور کو کامل اعتماد
حضرات!سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی صداقت ودیانت اور بارگاہ نبوی میں آپ کی قدر ومنزلت کا اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو اسلام کا سفیر مقرر کرکے مکہ مکرمہ روانہ فرمایا،آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اسلامی سفیر منتخب کرکے گویا یہ پیام دیا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی صداقت پر آپ کو مکمل اعتماد ہے اور آپ کی دیانت پر کامل وثوق ہے ، آپ کی صداقت و دیانت ہر شبہ سے بالا تر ہے۔
حدیبیہ میں آپ کو اسلامی سفیر مقرر کرنے کی حکمت
حدیبیہ کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو اپنے نمائندہ کی حیثیت سے مکہ مکرمہ روانہ فرمایا،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ اہل مکہ میں بھی معزز ومکرم تھے،وہ لوگ آپ کی عزت وتکریم کیا کرتے تھے،اور دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نگاہ نبوت دیکھ رہی تھی کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ شخصیت پر انگلیاں اٹھائی جائیں گی،آپ کے بے داغ کردار پر چہ میگوئیاں کی جائیں گی،آپ کی صداقت ودیانت پر مختلف اعتراضات کئے جائیں گے،اسی لئے آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا نمائندہ مقرر فرمایا۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا آپ کو اپنا نمائندہ بنانا یہ آپ کی کمال دیانت پر دلالت کرتا ہے اور دست اقدس کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دینا یہ آپ کی کمال قربت پر دلالت کرتا ہے۔
No comments:
Post a Comment