محترم قارئینِ کرام : ہندو مذہب اوراسلام کی تعلیمات کا تقابلی جائزہ لیں تو ہمیں مندرجہ ذیل نکات واضح طور پر نظرآتے ہیں :
(1) عقیدہ توحید اور اسلام
اسلامی تعلیمات کے مطابق زمین وآسمان ، سورج ، چاند ، ستاروں کو پیدا کرنے والا ایک اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ۔ ارشاد باری ہے : قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾ اَللہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾ لَمْ یَلِدْ ۬ۙ وَ لَمْ یُوۡلَدْ ۙ﴿۳﴾ وَ لَمْ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ۔
ترجمہ : کہہ دیجئے اللہ ایک ہے ۔ اللہ بے نیاز ہے ۔ نہ اس نے جنا ۔ نہ اس سے کوئی جنا گیا ۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے ۔ (سورہ اخلاص،پارہ ۳۰)
ہندوؤں کا عقیدہ الوہیت
ہندو (33) کروڑ دیوتاؤں کی عبادت کرتے ہیں ۔ ہندو عقیدہ تثلیث کے قائل ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ آگ ، پانی ، ہوا ، سورج ، گائے اور چاند کی عبادت کرتے ہیں ۔
(2) عقیدہ رسالت اور اسلام
اسلامی تعلیمات کے مطابق آسمانی پیغام کو انسانوں تک پہنچانے کے لئے پاکیزہ انسانوں کا انتخاب ہوتا ہے جن کو انبیاء علیہم السّلام کہا جاتا ہے ۔ ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے اس سلسلہ کی آخری کڑی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ۔ ان کے بارے میں ارشاد ہے : مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللہِ ؕ ۔ ترجمہ : محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) اللہ کے رسول ہیں ۔ (سورۃ الفتح:۲۹)
اس کے ساتھ ان کو آخری نبی ماننا ضروری ہے : مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ۔
ترجمہ : محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللّٰہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللّٰہ سب کچھ جانتا ہے ۔ (سورۃ الاحزاب:۴۰)
ہندواوررسالت
ہندوؤں کے ہاں رسالت کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ اور نہ ہی ہندوؤں میں کوئی رسول اور نبی اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر آیا ۔ جن لوگوں نے ہندوؤں کی رہنمائی کی وہ لوگ اس منصب کے اہل ہی نہیں تھے ۔ بلکہ یہ لوگ تو گائے پرستی کے قائل تھے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کبھی اس منصب پر فیض نہیں کرتا جو خود شرک پرستی میں مبتلاہوں ۔
(3) قرآن اور اسلام
قرآن پاک سچی کتاب ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو نازل کیا قیامت تک اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ۔ جیسے کہ ارشاد ربانی ہے : اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ۔
ترجمہ : بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں
(سورۃ الحجر:۹)۔(چشتی)
ہندوؤں کی کتب
ہندوؤں کی جتنی مذہبی کتابیں ہیں وہ ساری بے سروپا باتوں کا مجموعہ ہیں ، وید ، بھگوت گیتا ، رامائن ، مہابھارت سب ہی اوٹ پٹانگ باتوں سے بھری ہوئی ہیں ۔ انسانوں نے انہیں لکھا ، انسانوں نے ان کو مرتب کیا ، انسانی خیالات اور تصورات کا مجموعہ ہیں ۔ جب انسان ہی لکھنے اور مرتب کرنے والے ہوں تو ایسی کُتب غلطیوں سے قطعا پاک نہیں ہیں ۔
(4) عقائد اور اسلام
اسلام کے شاندار عقائد ہیں جس پر اسلامی محل کی عمارت کھڑی ہے ان میں ایمان بااللہ ہے ، فرشتوں پر ایمان ، آخرت پر ایمان ، کتابوں اور نبیوں پر ایمان لانے کی دعوت ہے ۔ نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ اور کلمہ توحید اسلام کے بنیادی عقائد ہیں ۔
ہندوؤں کے عقائد
ہندوؤں کی کتابوں میں شرک ، خرافات ، توہمات اور رسومات کے مجموعہ کے علاوہ کوئی کام کی بات یاقابلِ عمل چیز نہیں ملتی ۔
(5) مساوات اور اسلام
اسلام نے مساوات کی تعلیم دی ہے ، واضح ارشاد ہوا کہ انسان ، انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں ، ان کا باپ آدم اور ماں حوا علیہما السّلام ہیں ، ایک ہی جان سے ان کو وجود ملا ، اگر انسانوں میں کسی لحاظ سے کچھ فرق ہے تو وہ اطاعت ونافرنی ، تقویٰ اور غیر تقویٰ کی بنیاد پر ہے ۔
ہندوؤں کی مساوات
ہندوؤں میں اپنے ہی لوگوں میں یہ تقسیم کی گئی ہے کہ برہمن ماتما کے منہ سے ، کھشتری بازوؤں سے ، ویش رانوں سے اور شودرپاؤں سے پیدا ہوا ۔ برہمن اورحیثیت رکھتا ہے جبکہ شودر اور دلت معاشرے کا انتہائی گھٹیا اور کمتر انسان سمجھا جاتا ہے ۔
(6) انسانیت اور اسلام
اسلام نے انسان کو ایسا سبق دیا کہ وہ خود بھی شریف پیکر رہے اور دوسروں کے لئے بھی باعث اذیت نہ بنے ۔
کسی کو حقارت ونفرت آمیزنگاہ سےنہ دیکھے ، کسی قوم کو ظلم وستم کا نشانہ نہ بنائے ، ساری مخلوق کو خدائی کنبہ کہا گیا ہے ۔ (چشتی)
ہندو اور انسانیت
ہندومت کی تعلیمات کے مطابق انسان کو نفرت اور حقارت کادرس دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ منوسمرتی میں لکھا ہے کہ : شودر جس عضو سے برہمن کی ہتک کرے اس کا وہی عضو کاٹ دیا جائے اور اگر برہمن کے برابر بیٹھ جائے تو کمر پرداغ لگادیا جائے ۔ (منو:۲:۲۸۱)
(7) تعلیم اور اسلام
تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے ، اسلام نے کسی طبقہ کو اس سلسلہ میں پابند نہیں کیا کہ وہ یہ حاصل نہیں کرسکتا ۔
ہندومت اور تعلیم
تعلیم حاصل کرنا ، وید پڑھنا صرف برہمن کا کام ہے ، دوسرا کوئی پڑھے گا تو سزا پائے گا ۔
(8) رہبانیت اوراسلام
اسلام رہبانیت کے سخت خلاف ہے ، دنیا کوچھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں بسیرے کرلینے کو اسلام اچھا نہیں سمجھتا ۔
ہندومت اور رہبانیت
ہندومت رہبانیت کی تعلیم دیتا ہے ۔ بلکہ حصول نجات ونروان کے لئے آبادیاں چھوڑ کر جنگل میں ڈیرے لگانے کی ترغیب بھی دیتا ہے ۔
(9) عورت اور اسلام
اسلام عورت کا پاسبان اور محافظ ہے ۔ معاشرے میں اسے اہم مقام دیتا اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ وراثت کاحقدار ٹھہراتا ہے اسے ماں ،بیٹی اور بیوی کا بہترین حق دیتا ہے ۔
ہندومت اور عورت
ہندوؤں کے ہاں عورت کو بے وفا ، احمق اور منافق کہا گیا ہے ۔ خاوند کے مرنے کے بعد اسے دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے ۔ بلکہ چتا میں جلنا اس کا مقدر ہے ، وراثت سے محرومی اس کا مقدر ہے ، عورت قابل نفرت ہے ۔
(10) دعا اور اسلام
اسلام تعلیم دیتا ہے کہ مصائب ومشکلات میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرو ، وہ سنتا اور قبول کرتا ہے ۔
ہندومت اوردعا
ہندومت تعلیم دیتا ہے کہ گناہوں کے لیے دیوتاؤں سے دعائیں مانگو ۔
(11) قتل اور اسلام
اسلامی قانون میں قاتل خواہ کسی قوم یا خاندان کا ہو یاکسی اعلیٰ منصب کا ہو ان سب کی سزا قتل ہے یا دیت ۔
ہندومت اور قتل
برہمن کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہو اسے قتل نہیں کیا جائے گا ۔ برہمن کو قتل کرنا بڑا جرم سمجھا گیا ہے ۔
(12) زنا اور اسلام
شادی شدہ مرد اور عورت زنا کریں تو سنگساری سزا ہے ، غیر شادی شدہ کریں تو سو کوڑے سزا ہے ۔
ہندومت اور زنا
اپنی قوم کی خواہش مند لڑکی سے جو شخص جماع کرے اس کے اعضاء نہیں کاٹے جائیں گے ۔ شودر کا عضوتناسل کاٹنے اس کی دولت چھین نے اور قتل کی سزا ہے ، ویش محفوظ برہمنی سے جماع کرے تو ایک سال تک قید کی سزا ہے ۔
(13) گواہی اور اسلام
گواہی چھپانے والا ظالم قرار دیا گیا ہے ، اسلام نے گواہی نہ چھپانے کا حکم دیا ہے ۔ گواہی چھپانے والے کو گناہ گار قرار دیا ہے ۔
ہندومت اور گواہی
سچ بولنے سے اگر برہمن ، کھشتری ، ویش اور شودر قتل ہوتا تو وہاں جھوٹ بولنا سچ سے بھی زیادہ اچھا ہے ۔
(14) نجات کا طریقہ اور اسلام
اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے سے ہی نجات ممکن ہوسکتی ہے ۔
ہندومت اور نجات
ہندومت میں نجات صرف جونی چکر سے ہی ممکن ہوسکتی ہے ۔
محترم قارئینِ کرام اسلام اور ہندو مذہب کا ہم نےمختصر تقابلی جائزہ پیش کیا ہے اہلِ علم کہیں غلطی پائیں تو مطلع فرمائیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment