Thursday, 22 August 2019

بھارتی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس اور بی جے پی

بھارتی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس اور بی جے پی

محترم قارئینِ کرام : راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان روابط کے بارے میں ذرہ برابر بھی جو شک تھا تو نریندر مودی نے اسے دور کردیا ہے ۔ اور بھارت اس وقت پوری طرح دہشت گردی اور انتہاء پسند ہندؤوں کے نرغے میں گھر چکا ہے ، اور نچلی سطح سے لے کر حکومتی سطح تک انہی کا طوطی بول رہا ہے۔ اس وقت بھی مودی سرکار کو جتوانے کے لیے جتنے جتن کیے جارہے ہیں ، وہ انہی دہشت گرد طاقتوں کی ایماء پر کیے جارہے ہیں جو مودی کے ذریعے اپنے مذموم انتہاء پسند عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں ۔ ان دہشت گردی تنظیموں کا ماں ’’آر ایس ایس‘‘ ہے۔ یہ تنظیم کیا ہے ؟ اور اس کے ذیلی ادارے اور تنظیمیں کون کون سی ہیں ؟ اور یہ سب کس طرح کام کرتی ہیں ؟ اس بارے میں درج ذیل رپورٹ میں بہت سے حقائق سے پردہ اُٹھایا گیا ہے ۔

بھارت کے معروف قلمکار اور قانون دان اے جی نورانی نے اپنی کتاب’’ the india menaceto RSSA‘‘ میں آر ایس ایس کے حوالے سے کئی اہم انکشافات کیے ہیں ۔ انہوں نے یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ اس تنظیم کی بنیادی فلاسفی کیا ہے، دنیا بھر میں اس کی کتنی شاخیں ہیں، خصوصاًمسلم ممالک میں اس کے دفتر کیسے کام کرتے ہیں ۔ اور بی جے پی کے اہم فیصلوں میں اس کا کیا رول ہے۔ متعدد تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے پاس ہے جو دنیا چند ایک سب سے بڑی خفیہ تنظیموں میں شمار ہوتی ہے۔ جس کے مالی و انتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات ابھی تک منظر عام پر آئی ہیں۔ گوکہ آر ایس ایس اپنے آپ کو ایک ثقافتی تنظیم کے طور پر متعارف کرواتی ہے، مگر حال ہی میں اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر کہ چونکا دیا کہ ہنگامی صورتحال میں ان کی تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفہ میں ۲۰ لاکھ سیوم سیکھوں (کارکنوں) کو جمع کر کے میدانِ جنگ میں لا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آر ایس ایس کی تنظیمی صلاحیت اور نظم وضبط فوج سے بدرجہا بہتر ہے۔ اے جی نورانی نے اپنی ۵۰۰ صفحات پر مشتمل ضخیم تصنیف میں بتایا ہے کہ پارٹی لیڈر روز مرہ کے فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتے ہیں۔ مگر اہم فیصلوں کے لیے ان کو آر ایس ایس سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی میں سب سے طاقتور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس کا ہی نمائندہ ہوتا ہے اور اس میں ایک خاص حیثیت کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے ۔ آر ایس ایس میں شامل ہونے اور پوزیشن حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بین کو شادی کے چند سال بعد ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس لیے آر ایس ایس کی پوری لیڈر شپ غیر شادی شدہ لوگوں پر مشتمل ہے ۔

آر ایس ایس کے سب سے نچلے یونٹ کو شاکھا کہتے ہیں ۔ ایک شہر یا قصبہ میں کئی شاکھائیں ہوسکتی ہیں۔ ہفتہ میں کئی روز دہلی کی پارکوں میں یہ شاکھائیں ڈرل کے ساتھ ساتھ لاٹھی، جوڈو، کراٹے، اور یوگا کی مشق کا اہتمام کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ ورزش کے ساتھ ساتھ یونٹ کا انچارج ذہن سازی کا کام بھی کرتا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ کو سر سنگھ چالک کہتے ہیں اور اس کی مدد کے لیے چار راشٹریہ سبکرواہ یعنی معتمد ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس کے چھ تنظیمی ڈھانچے ہیں۔ جن میں کیندریہ کاریہ منڈل، اکھل بھارتیہ پرتنیدی سبھا، پرانت یا ضلع سنگھ چالک، بر چارک، پرانت یا صلع کاری کاری منڈل اور پرانت پرتیندی سبھا شامل ہیں۔ پرانت پرچارک جو کسی علاقے یا ضلع کا منتظم ہوتا ہے کا غیر شادی شدہ یا خانگی مصروفیات سے آزاد ہونا لازمی ہوتا ہے ۔

بی جے پی کی اعلیٰ لیڈر شپ میں فی الوقت نریندر مودی اور امیت شاہ آر ایس ایس کے کارکنان رہے ہیں۔ اس کے باوجود آر ایس ایس نے اپنے دو سینئر پرانت اچارک رام مادھو اور رام لال کو بی جے پی میں بطور جنرل سیکٹری تعینات کیا ہو ا ہے تاکہ حکومت کے ہر لمحہ کی خبر اس تک پہنچتی رہے۔ نورانی کے بقول اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر ٹکی ہے۔ ۱۹۵۱ء میں جن سنگھ اور پھر ۱۹۸۰ء میں بی جے پی تشکیل دی۔ بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماؤلی چندراشرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ ایڈوانی کا قصور تھا کہ ۲۰۰۵ء میں کراچی میں اس نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا ۔

آر ایس ایس کی تقریباً 100 سے زیادہ شاخیں ہیں جو الگ الگ میدانوں میں سر گرم ہیں جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی، حفاظت یا سکیورٹی کے لیے دوسرے لفظوں میں غنڈہ گردی کے لیے بجرنگ دل، مزدوروں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ، دانشوروں کے لیے وچار منچ، حتیٰ کہ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلمانوں کو اپنے جھانسے میں لانے کے لیے مسلم راشٹریہ منچ اور جماعت علماء نامی دو تنظمیں قائم کیں۔ پچھلے انتخابات کے دوران یہ تنظمیں مقبوضہ کشمیر میں خاصی سر گرم تھیں۔ ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے اور ان کے لیے سکولوں اور کالجوں سے ہی طالب علموں کی مقامی شاکھاؤں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اس کی کل شاکھاؤں کی تعداد ۸۴۸۷۷ ہے جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندو انتہا پسندی کے لیے کام کر رہی ہے۔ ۲۰ سے ۳۵ سال کی عمر کے تقریباً ۱ لاکھ نوجوانوں نے پچھلے ایک سال میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس ہندوستان کے ۸۸ فی صد بلاک میں اپنی شاکھاؤں کے ذریعے رسائی حاصل کر چکا ہے ۔ قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں آر ایس ایس نے ۱۳۴۲۱ تربیت یافتہ سوئم سیوک سنگھ تیار کیے ہیں۔ ہندوستان سے باہر ان کی کل ۳۹ ممالک میں شاکھائیں ہیں ۔ یہ شاکھائیں ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام کر رہی ہیں۔ ہندوستان سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاخیں نیپال میں ہیں۔ اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاکھاؤں کی تعداد ۱۴۶ ہے ۔ برطانیہ میں ۸۴ شاکھائیں ہیں ۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے ۔ کینیا کی شاکھاؤں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگانڈا، ماریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ان کی پانچ شاکھائیں مشرق وسطی کے مسلم ممالک میں بھی ہیں اور وہاں کی شاکھائیں خفیہ طریقے سے گھروں میں مذموم عزائم میں مصروف ہیں۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندہ ان ہی ممالک میں بسنے والے ہندؤں نے بھیجا تھا۔ بیرون ممالک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج مادھو ہیں، جو اس وقت بی جے پی کے قومی جنرل سیکٹری ہیں ۔ کشمیر امور بھی دیکھتے ہیں ۔ اور وزیر اعظم کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک میں مقیم ہندوستانیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں ۔ آر ایس ایس بنیادی طور پر ایک فرقہ پرست اور اقلیت دشمن تنظیم ہے جس کا مقصد بھارت میں ہندو راشٹر کا قیام ہے، ایسا ہندو راشٹر جس میں اقلیتوں اور نچلی ذاتوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی ہو گی ۔

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ۱۹۲۵ء میں ناگپور میں قائم ہوئی، اس کا بانی کیشورام گیوار تھا۔ برصغیر میں برطانوی عہد میں اس پر پابندی عائد کی گئی تھی اور بھارت میں اس پر تین بار قدغن لگائی جاچکی ہیں۔ بھارت میں دنگے فساد کروانے میں یہ تنظیم سرفہرست ہے۔ ۱۹۲۷ء کا ناگپور فساد اولین اور اہم ترین ہے۔ ۱۹۴۸ء میں اس تنظیم کے ایک رکن نتھورام گوڈسے نے گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ ۱۹۶۹ء میں احمد آبادفساد، ۱۹۷۱ء میں تلشیری فساد اور ۱۹۷۹ء میں بہار کے ضلع جمشید پور کے مسلم کش فسادات میں بھی ملوث تھی۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کو سنگھ پریوار نے دیگر فرقہ پرست تنظیموں کے ساتھ مل کر بابری مسجد شہید کر دی۔ متعدد تحقیقاتی کمیشنوں نے آر ایس ایس کو گجرات فسادات ۲۰۰۲ء ممبئی فسادات ۱۹۹۲ء بھاگلپور فسادات میں بھی ملوث قرار پایا ۔

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ایک ایسی فرقہ پرست تنظیم ہے جس کے ماتحت بہت سی چھوٹی انتہا پسند تنظیمیں بھی کام کرتی ہیں ۔ سنگھ سے وابستہ رجسٹرڈ تنظیموں کی تعداد چالیس سے اوپر ہے ۔ حالیہ دنوں میں سنگھ پریوار سے منسلک جن نئی جماعتوں کا نام سامنے آیا ہے ان میں دھرم جاگرن بھی ہے یہ جماعت مسلمانوں ، عیسائیوں اور بدھوؤں کو ہندو بنانے کا کام کرتی ہے ۔ اکھل بھارتیہ ، ہندو مہا سبھا قدیم ترین ہندو توا دی تنظیم ہے اس کا باقاعدہ طور پر سنگھ سے الحاق نہیں ہے ۔ مگر نظریاتی طور پر ایک ہیں ۔ نیشنل ہندو مومنٹ کی سر گرمیاں گوا اور مہاراشٹر میں جاری ہیں ۔ راشٹریہ ہندو اندولن مہاراشٹر میں سرگرم ہے ۔ راشٹر وادی سینا، ہندو جن جاگرتی سیمتی، ہندو دھرم سینا اترپردیش میں، ہندو مکل کاچھی تامل ناڈو اور ہندو راشٹر سینا مہاراشٹر اور پونے میں مذموم سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اور اس وقت کی موجودہ مودی حکومت نچلے درجے کے ہندوؤں ، سکھوں ، عیسائیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں خصوصا مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رہی ہے ۔ دنیا کو اس دھشت گرد ٹولے کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...