Wednesday, 28 August 2019

جہاد فرضِ عین کی تعریف و احکام

جہاد فرضِ عین کی تعریف و احکام

محترم قارئینِ کرام : اسلامی تعلیمات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے، یہ محض قتال ، جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں۔ یہ اس وقت ہر مومن پر فرض ہے جب کفار مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ پر اتر آئیں، اور ان پر ناحق ظلم و ستم کا بازار گرم کریں۔ قرآنی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ جب ہجرت کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ کا فیصلہ کیا تو اس موقع پر اذنِ دفاع نازل ہوا ۔

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌO الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ۔
ترجمہ : ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہےo (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جدو جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقینًا اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے (گویا حق اور باطل کے تضاد و تصادم کے انقلابی عمل سے ہی حق کی بقا ممکن ہے) ۔ (سورۃ الحج، 22 : 39 - 40)

اس آیت کریمہ کے مطابق مسلمانوں کے لیے لڑنا اس لیے حلال کیا گیا کہ ان پر ظلم و ستم کیا گیا، انہیں بے گھر اور بے وطن کیا گیا جبکہ ان کا کوئی قصور نہ تھا۔ اب ان پر جنگ مسلط ہو رہی تھی اور انہیں اپنا دفاع کرنا تھا۔ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ میں حملہ آور ہو کر تلوار اٹھانے کا اذن نہیں بلکہ دفاع کی جدوجہد کا اذن ہے تاکہ عبادت گاہیں محفوظ رہیں اور ہر کوئی پر امن ماحول میں اپنے اپنے دین پر عمل جاری رکھ سکے۔

مسلمان آخر تک اپنی بقاء کی جنگ لڑتے رہے ان کی تلوار ہمیشہ مظلوم کے دفاع میں اٹھتی جب انہیں غلبہ حاصل ہو جاتا تو پھر معاشرہ میں امن ہو جاتا، نماز قائم کی جاتی، زکوٰۃ دی جاتی، نیکی کا حکم دیا جاتا، برائی سے روکا جاتا اور ظلم کے خلاف لڑا جاتا۔

ضابطۂ جنگ بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے : وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا.
ترجمہ : اور اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو ۔ (سورۃ البقره، 2 : 190)

اللہ اور اس کے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چاہے جنگ کا میدان ہی کیوں نہ ہو پہلے صلح سے معاملہ حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے لیکن اگر دشمن صلح پر راضی نہ ہوں اور معاشرے کا مظلوم طبقہ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہا ہو تو اس ظلم کو روکنے اور معاشرے میں امن و امان کی صورتِ حال پیدا کرنے کے لئے لازمی ہو جاتا ہے کہ ظلم کے خلاف تادیبی و انسدادی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ ۔
ترجمہ : اور ان سے جنگ کرتے رہو حتی کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین (یعنی زندگی اور بندگی کا نظام عملاً) اللہ ہی کے تابع ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو سوائے ظالموں کے کسی پر زیادتی روا نہیں ۔ (سورۃ البقره، 2 : 193)

خدا را اے مسلمانو کیا اب بھی نہیں جاگو گے ذرا دیکھو مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے ہیں یہ کٹی پھٹی لاشیں یہ میرے بچوں اور بچیوں ، بہنوں اور بیٹیوں کے بے گور و کفن لاشے برما میں میانمار میں کشمیر ، فلسطین ، عراق و افغانستان میں تڑپتے سسکتے مسلمان اے بے ضمیر و بے حمیت مسلم حکمرانو اور مسلمانو کب جاگو گے خواب غفلت سے ، کب اٹھو گے ؟
اے اللہ میں تیرا عاجز و کمزور بندہ اس کے علاوہ کیا کر سکتا ہوں میرے مولا میرے اختیار میں کچھ نہیں جو توفیق توں نے عطاء فرمائی تیری ہی توفیق سے اس بے ضمیر مردہ ضمیر قوم کو جنجھوڑنا پیغام جہاں تک ممکن ھو سکا پہنچا دیا میرے کریم مالک تیرا عاجز گناہ گار بندہ فقیر حقیر پر تقصیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی تیری بارگاہ لم یزل میں التجا کرتا ہے میرے مالک ھمیں غیرت مند مسلم حکمران عطاء فرمادے صدقہ پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آمین ۔

کافر ہمارے کسی شہر [یا علاقے] میں داخل ہوجائیں یا اس پر چڑھائی کردیں یا شہر کے دروازے کے باہر آکر حملے کی نیت سے پڑاؤ ڈال دیں اور ان کی تعداد اس علاقے کے مسلمانوں سے دگنی یا اس سے کم ہو تو جہاد اس وقت فرض عین ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکلے گا اور عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر نکلے گی۔ بشرطیکہ اس میں دفاع کی طاقت ہو۔ یہی قول زیادہ صحیح ہے اور ہر شخص اپنے والدین کی اجازت کے بغیر اور مقروض قرض خواہ کی اجازت کے بغیر نکلے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے اور اگر کافر مسلمانوں پر اچانک حملہ کردیں اور مسلمانوں کو لڑائی کیلئے تیار ہونے اور اکٹھے ہونے کا موقع نہ ملے تو ہر اس شخص پر تنہا لڑنا اور اپنا دفاع کرنا فرض ہے۔جسے معلوم ہو کہ اگر اس نے ہتھیار ڈال دئیے تو وہ مارا جائے گا یہ مسئلہ ہر مسلمان کیلئے ہے خواہ وہ آزاد ہو یا غلام، عورت ہو یا اندھا، لنگڑا ہو یا بیمار، اور اگر امکان ہو کہ ہتھیار ڈالنے کے بعد قتل بھی ہو سکتے ہیں اور [بچ کر ] گرفتار بھی تو ایسے وقت میں لڑنا افضل ہے اور ہتھیار ڈالنا جائز۔اور اگر عورت کو علم ہو کہ اگر میں نے ہتھیار ڈال دئیے تو [غلیظ] ہاتھ میری طرف بڑھیں گے تو اس پر اپنے دفاع میں لڑنا فرض ہے اگرچہ اس میں اس کی جان بھی چلی جائے کیونکہ جان بچانے کیلئے عزت کو داؤ پر لگانا جائز نہیں ہے ۔

علامہ اذرعی رحمۃ اللہ علیہ [ المتوفی ۷۸۳ ] اپنی کتاب غنیتہ المحتاج میں فرماتے ہیں کہ خوبصورت بے ریش لڑکے کو اگر علم ہو کہ اس کے ساتھ کافر ابھی یا آئندہ بے حیائی کا ارتکاب کرسکتے ہیں تو اس کا حکم بھی عورت کی طرح ہے بلکہ عورت سے بھی بڑھ کر [ اسے اپنے دفاع کی کوشش کرنی چاہئے اور عصمت کی حفاظت کیلئے جان کی قربانی دینی چاہئے ] اور اگر جس علاقے پر کافروں نے حملہ کیا ہے وہاں مسلمانوں کی کثرت ہو اور اتنے لوگ کافروں کے مقابلے پر نکل چکے ہوں جو مقابلے کیلئے کافی ہوں تب بھی باقی مسلمانوں پر زیادہ صحیح قول کے مطابق ان مجاہدین کی مدد کرنا فرض ہے۔ اور جو شخص ایسی جگہ پر ہو جہاں سے حملہ آور دشمن مسافت سفر [ یعنی اڑتالیس میل کی مسافت ] پر ہوں تو اس شخص پر اسی طرح جہاد فرض عین ہو جائے گا جیسا کہ اس علاقے والوں پر فرض ہے جہاں دشمن نے حملہ کیا ہے۔ علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ کافروں کے حملے کے بعد اب یہ جہاد دفاعی ہوچکا ہے۔ اقدامی نہیں رہا اس وجہ سے یہ ہر اس شخص پر فرض ہوگا جو اس کی طاقت رکھتا ہو [ تاکہ مسلمانوں کے علاقے اور ان کی جان و مال کا دفاع کیا جا سکے جوکہ فرض عین ہے۔ ] اور جو شخص اس شہر سے جس پر کافروں کا حملہ ہو اہے مسافت سفر [ اڑتالیس میل ] کی دوری پر ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ فوراً اس شہر کی طرف جہاد کیلئے روانہ ہو اگرچہ وہ خود اس شہر یا اس کے آس پاس کا رہنے والا نہ ہو اور اگر اتنے لوگ وہاں جاچکے ہوں جو دشمن کیلئے کافی ہوں تو پھر باقی لوگوں سے فرضیت تو ساقط ہو جائے گی لیکن وہ نہ جانے کی صورت میں اجر عظیم اور بے انتہا ثواب سے محروم ہوجائیں گے۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ مسافت سفر کے اندر والوں پر سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی اگرچہ کافی مقدار میں لوگ دشمن کے مقابلے پر جاچکے ہوں بلکہ ان پر مجاہدین کی مدد کرنا ور خود میدان جنگ کی طرف سبقت کرنا فرض ہوگا۔

وہ مسلمان جو اس شہر سے جس پر کافروں نے حملہ کیا ہے مسافت سفر [ اڑتالیس میل ] سے زیادہ دور رہتے ہوں تو ان کا کیا حکم ہے؟ زیادہ صحیح قول تو یہ ہے کہ اگر مسافت سفر کے اندر کے لوگ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی ہورہے ہوں تو پھر ان لوگوں پر جہاد فرض عین نہیں ہوتا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ جہاد الاقرب فالاقرب کی ترتیب سے فرض ہوتا چلا جاتا ہے اس میں کسی مسافت وغیرہ کی قید نہیں ہے بلکہ قریب والوں پر پھر ان کے بعد والوں پر پھر ان کے بعد والوںپر جہاد فرض ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ یہ خبر آجائے کہ کافروں کو شکست ہوگئی اور وہ مسلمانوں کا علاقہ چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔

جو شخص لڑائی والے شہر سے مسافت سفر کے اندر ہوگا اس پر جہاد کی فرضیت کیلئے سواری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ اگر مسافت سفر سے دور ہوتو بعض حضرات سواری کو شرط قرار دیتے ہیں جبکہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ایسے سخت حالات میں سواری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ توشے کا ہونا جہاد کی فرضیت کیلئے شرط ہے کوئی قریب ہو یا دور۔

اگر کافر مسلمانوں کے ملک میں ان کے شہروں اور آبادیوں سے دور ویرانوں میں یا پہاڑوں میں داخل ہوجائیں تو ان کا کیا حکم ہے؟ امام الحرمین نقل فرماتے ہیں کہ دارالاسلام کے کسی بھی حصے میں داخل ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی شہر میں داخل ہونا [ اس لئے ان کو نکالنے کیلئے جہاد فرض عین ہوگا۔] لیکن خود امام الحرمین کا رجحان اس طرف ہے کہ جن علاقوں میں کوئی آباد ہی نہیں ہے ان کیلئے لڑائی کرنا اور خود کو تکلیف میں ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام الحرمین کا یہ رجحان قطعاً درست نہیں ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان دفاع کی قوت رکھتے ہوئے بھی کافروں کو دارالاسلام کے کسی حصے پر قبضہ کرنے کی اجازت دے دیں۔ (روضۃ الطالبین ص ۲۱۶ ج۔۱۰)

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کافر دارالاسلام میں داخل نہ ہوئے ہوں مگر اس کے قریب آچکے ہوں تب بھی مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ کافروں کے مقابلے کیلئے باہر نکلیں اور [ اور لڑتے رہیں ] یہاں تک کہ اللہ کا دین غالب ہو اور مرکز اسلام محفوظ، سرحدیں بے خطر اور دشمن ذلیل وخوار ہوجائے۔ (الجامع لاحکام القرآن ص ۱۵۱ج۔۸،چشتی)

اور یہی مطلب ہے علامہ بغوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا کہ اگر کافر دارالاسلام میں داخل ہو جائیں تو قریبی لوگوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے اور دور والوں پر فرض کفایہ رہتا ہے [بشرطیکہ قریب والے مقابلہ کررہے ہوں اور کافی ہو رہے ہوں ۔ (شرح السنہ ص ۳۷۴ج۔ ۱۰ )

اس باب کی مناسبت سے یہ چند مسائل میں نے یہاں ذکر کردئیے ہیں ان مسائل کی تفصیلات کی اصل جگہ فقہ کی کتابیں ہیں ۔

آپ نے جہاد کے فرض عین اور فرض کفایہ ہونے کی بحث پڑھ لی ہے یہی وہ بحث ہے جسے آڑ بنا کر آج بہت سارے مسلمان خود بھی جہاد چھوڑ بیٹھے ہیں اور دوسروں کو بھی اس بحث میں الجھا کر جہاد سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ آپ نے خود پڑھ لیا کہ جہاد اس وقت فرض کفایہ ہوتا ہے جب مسلمان کافروں کی طرف سے امن میں ہوں ۔

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا آج مسلمان امن میں ہیں؟ یقینا آپ کو ہر طرف مسلمانوں کی چیخ وپکار اور ان کی برہنہ لاشیں اور عقوبت خانوں میں سسکتی جوانیاں چیخ چیخ کر بتائیں گی کہ مسلمان ہر گز امن میں نہیں ہیں بلکہ ان پر تو وہ ظلم ڈھائے جارہے ہیں جو سفاک درندے بھی کمزور جانوروں پر نہیں ڈھاتے۔ جہاد تو اس وقت فرض کفایہ ہوتا ہے جب کافر اپنے ملکوں میں ہوں اور ان کی فوجیں ان کی سرحدوں کے اندر ہوں۔ مگر آج ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ امریکی فوجیں ہوں یا ہندوستانی، برطانوی لشکر ہوں یا فرانسیسی، سربیائی درندے ہوں یا اسرائیلی، ایتھوپیا کے کالے کافر ہوں یا اقوام متحدہ کی وردی پہنے گورے کافر، یہ سب کے سب ہماری سرحدوں کے اندر گھس کر ہمارے علاقوں پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ اور انہوں نے پوری دنیا میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے تو کیا اب بھی جہاد فرض کفایہ ہے۔ امریکی راکٹ اسلامی امارت پر گر رہے ہیں برطانوی جہازوں کی گھن گرج حدود حرم میں سنائی دے رہی ہے اور ترکی کی خلافت کا خون آلود چہرہ ہماری نظروں کے سامنے بار بار آتا ہے اور ہمیں برے انجام سے ڈراتا ہے۔ کیا ان حالات میں بھی جہاد فرض کفایہ ہی رہے گا اگر جہاد اب بھی فرض کفایہ ہے تو پھر فرض عین کب ہوگا؟ کیا اس وقت جب امت کے مردہ جسم تک کو بیچ دیا جائے گا کیا اس وقت جب اسرائیل کے یہودی خیبر کے بعد نعوذ باللہ مدینہ منورہ میں جشن منا رہے ہوں گے کیا اس وقت جب ہمارا گوشت ریسٹورنٹوں میں پکا کر کھایا جائے گا۔ شاید اب تک یہی کچھ نہیں ہوا ، ورنہ تو سب کچھ ہوچکا ہے ہماری زندہ مسلمان بہنوں کے ساتھ ساتھ شہید ہونے والیوں تک کو نہیں بخشا گیا۔ ہمارے بچوں کے سروں سے فٹ بال تک کھیلی جاچکی ہے۔ شعائر اسلام کو دنیا میں ذلیل و رسوا کیا جارہاہے۔ چلئے تھوڑی دیر کیلئے آنکھیں بند کرکے اور دل تھام کر یہ مان لیتے ہیں کہ جہاد فرض کفایہ ہے تو ذرا بتائیے کہ یہ کفایہ آج کون ادا کررہاہے فرض کفایہ جہاد کا مطلب تو یہ ہے کہ مسلمان خود جا کر کافروں کے ملک پر حملہ کریں یہ حملہ آج دنیا میں کہاں ہو رہا ہے فرض کفایہ میں تو مسلمانوں کے لشکر حملہ کرتے ہیں مگر آج خود ہم پر حملے کئے جارہے ہیں۔ فرض کفایہ جہاد میں تو مسلمانوں کے مسلح لشکر کافروں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں مگر آج تو ہمارے ملکوں میں ہماری نسلوں کو مرتد کیا جارہا ہے فرض کفایہ جہاد میں تو مسلمان کافروں سے جا کر کہتے ہیں کہ اگر اسلام قبول نہیں کرتے ہو تو پھر ہمارے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرو اور ہمیں جزیہ دے کر امن سے رہو ۔ مگر آج تو ہم خود کافروں کو جزیہ دیتے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی شکل میں ان کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور پھر بھی ہمیں امن کی بھیک نہیں ملتی۔ معلوم ہوا کہ فرض کفایہ بھی ادا نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے آج پوری امت ذلت و پستی کا شکار ہے اور کافر قومیں اسے نوچ نوچ کر کھا رہی ہیں ۔ اے مسلمانو! اب اس بحث کا وقت نہیں رہا کہ جہاد فرض عین ہے یا فرض کفایہ بلکہ اب تو جہاد ہر فرض سے بڑا فرض ہے اور ایسا فرض ہے جس پر ہماری زندگی، ہمارا ایمان اور ہماری نسلوں کا ایمان موقوف ہے۔ تم اسے فرض عین سمجھو یا فرض کفایہ تمہارے دشمنوں نے تمہیں مٹانا اپنے اوپر فرص کر رکھا ہے وہ اپنی فوجیں لے کر میدان میں اتر آئے ہیں ۔ اے محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپاہیو! آج اسلام کی عزت کا مسئلہ ہے تمہاری غیرت کس طرح سے یہ بات گوارا کرتی ہے کہ جن علاقوں کو تمہارے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاک خون اور پسینے بہا کر آزاد کرایا تھا اب وہ پھر یہودیوں کی دسترس میں ہیں فضول لفظی بحثیں چھوڑو زمین پر دیکھو کفر تمہیں چیلنج کررہاہے اور آسمان کی طرف دیکھو رب کے فرشتے تمہارے ساتھ اتر کر لڑنے کے منتظر ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...