Wednesday 24 April 2024

شرک کی تعریف و اقسام مستند دلائل کی روشنی میں

0 comments

شرک کی تعریف و اقسام مستند دلائل کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : شرک کی تعریف یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے سوا کسی غیر کو واجبُ الوجود یا لائقِ عبادت سمجھا جائے ۔ لفظ شرک مصدر مشتق ہے اس کی اصل ، ش ، ر ، ک ، ہے لغت میں اس کے معنی حصہ یا سانجھے کے ہیں یہ لفظ مختلف سیاق وسباق کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے جیسے کہ باب مفاعلہ سے بزنس پارٹنر شپ کےلیے شراکتی کاروبار کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور باب تفعیل سے ایامِ تشریک مشہور لفظ ہے ۔ لفظ شرک بارگاەِ الوہیت میں حصہ یا برابری کے سیاق پر کہا جاتا ہے یعنی اللہ کے مقابلے پر کسی مخلوق کو خدا یا پھر خدا کی خدائی میں حصہ دار کہا جائے تو شرک کہا جاتا ہے ۔ شرک توحید کی مخالفت اور ضد کا نام ہے ۔ ایسی قوت ، قدرت ، ملکہ ، صفت اور خاصہ جو اللہ تعالیٰ کےلیے ہی خاص ہے ، اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کےلیے ثابت کرنا شرک کہلاتا ہے ۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو خالق حقیقی جاننا ، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے علم و اختیار کو ذاتی سمجھنا ، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو عبادت کے لائق سمجھنا یہ سب شرک ہے قرآن حکیم میں ہے : وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِه شَيْئًا ۔
ترجمہ : اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 36)


سابقہ انبیائے کرام  علیہمُ السَّلام کی شریعتوں میں بعض چیزیں ایسی گزری ہیں کہ جن میں سے ایک چیز ایک شریعت میں جائز ہوتی جبکہ وہی چیز دوسری شریعت میں منع و حرام ہوا کرتی تھی لیکن شِرک ایک ایسا گھناؤنا فعل ہے کہ جو کسی ایک شریعت میں بھی ایک لمحے کے کروڑویں حصے کےلیے بھی جائز قرار نہیں دیا گیا ۔ جائز قرار بھی کیسے دیا جا سکتا تھا کہ شِرک  تو اَکْبَرُ الْکَبَائر (کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ) ہے ۔

شرک ایمان کی ضِد ہے ۔ جیسے اندھیرا اُجالا ، رات دن ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ایسے ہی شرک اور ایمان اسلام کی چَھتری کے نیچے ہرگز ہرگز جمع نہیں ہو سکتے ۔ تمام انبیائے کرام  علیہمُ السَّلام شرک کی مذمت بیان کرتے آئے ،اولیا و صالحین نے بھی اس کی ہو لناکی کو بیان فرمایا جیسا کہ حضرت حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کو یوں نصیحت فرمائی چنانچہ قراٰن پاک میں ہے :  یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ ۔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ۔
ترجمہ : اے میرے بیٹے اللہ کا کسی کو شریک نہ کرنا ۔ بےشک شرک بڑا ظلم ہے ۔ (سورہ لقمان آیت نمبر 13)

شرک ایسی بیماری ہے کہ جو بندے پر جنّت کے دروازے ہمیشہ کےلیے بند کروا دیتی ہے اور دوزخ کو دائمی ٹھکانا بنا دیتی ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُؕ ۔ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ۔
ترجمہ : بے شک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنّت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔ (سورہ المائدہ آیت نمبر 72)

قرآن مجید میں مشرک کے انجام کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا گیا ہے کہ جو شخص کسی بلند و بالا مقام سے زمین پر گر پڑے تو پرندے اس کی بوٹی بوٹی نوچ کر لے جاتے ہیں یا پھر ہَوا اُس کے اَعضا کو  علیحدہ علیحدہ کر کے دور کسی وادی میں پھینک دیتی ہے اور یہ ہلاکت کی عبرت نا ک اور بد ترین صورت ہے ۔ اسی طرح جو شخص ایمان کے بعد شرک کرتا ہے تو وہ ایمان کی بلندی سے کفر کی وادی میں گِر پڑ تا  ہے پھر بوٹی بوٹی لے جانے والے پرندے کی طرح نفسانی خواہشات اس کی فکروں کو مُنتَشِر کر دیتی ہیں یا ہَوا کی طرح آنے  والے شیطانی وسوسے اسے گمراہی کی وادی میں پھینک دیتے ہیں یوں مشرک  اپنے آپ کو بد ترین ہلاکت میں ڈال دیتا ہے قرآن مجید پاک میں ہے : وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ ۔
ترجمہ : اور جو اللہ کا شریک کرے وہ گویا گرا آسمان سے کہ پرندے اُسے اُچک لے جاتے ہیں یا ہَوا اُسے کسی دور جگہ پھینکتی ہے ۔ (سورہ الحج آیت نمبر 31)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یوں نصیحت فرمائی : لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ شَيْئًا وَاِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ ۔
ترجمہ : اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک نہ ٹھہرا اگرچہ تجھے قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے ۔ (مسند امام احمد جلد 8 صفحہ 249 حدیث ننبر 22136)

لغت کی مشہور کتاب لِسانُ الْعَرَب میں ہے : واَشْرَکَ بِاللّٰہِ: جَعَلَ لهُ شَرِيکاً فی مُلْکهِ، تَعَالی اللہُ عَنْ ذالِک ۔ وَالشِّرْکُ اَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہ شَرِِيْکاً فِیْ رُبُوْبِيَّتِهٖ ، تَعَالیَ اللہُ عَنِِ الشُّرَکَاءِ وَالْاَنْدَادِ ۔ لِاَنّ اللہ وَحْدَهُ لا شَرِيْکَ له وَلَا نِدّ لهُ ولا نَدِيْد ۔
ترجمہ : جب اَشْرَکَ بِاللّٰہِ (اُس نے اللہ پاک سے شرک کیا) کہا جائے تو اس کا معنی ہوتا ہے : اُس نے کسی اور کو اللہ پاک  کے مُلک میں شریک بنا دیا  حالانکہ اللہ کریم  اس سے بلند و برتر ہے ۔ شرک کے معنی یہ ہیں کہ اللہ پاک  کے رب  ہونے میں کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اللہ کریم  کی ذات شریکوں اور ہمسروں سے پاک ہےکیونکہ اللہ پاک واحد ہے ، اُس کا کوئی شریک نہیں ، نہ اس کی کوئی نظیر ہے  اور نہ ہی  کوئی  مثل ۔ (لسان العرب جلد 1 صفحہ 2023)

حضرت امام سعدُ الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ شرک کی حقیقت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں : اَلْاِشْتِرَا کُ ھُوَاِثْبَاتُ الشَّرِیْکِ فِی الْاُلُوْہِیَّۃِ بِمَعْنٰی وُجُوْبِ الْوُجُوْدِ کَمَا لِلْمَجُوْسِ اَوْ بِمَعْنٰی اِسْتِحْقَاقِ الْعِبَادَۃِ کَمَا لِعَبَدَۃِ الْاَصْنَامِ ۔
ترجمہ : شرک یہ ہے کہ خدا کی اُلوہیت (یعنی معبود ہونے) میں کسی کو شریک کرنا اس طرح کہ کسی کو واجبُ الوجود مان لینا جیسا کہ مجوسیوں کا عقیدہ ہے یا خدا کے سوا کسی کو عبادت کا حقدار مان لینا جیسا کہ بت پرستوں کا خیا ل ہے ۔ (شرح عقائد نسفیہ مبحث الافعال کلہا بخلق اللہ تعالی والدلیل علیہا صفحہ ۷۸)(شرح عقائد نسفیہ صفحہ 203)

حضرت امام سعدُ الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت پر غور کرنے  سے پتا چلتا ہے کہ شرک کےلیے تین صورتوں میں سے کسی ایک کا پایا جانا ضروری ہے : (1) غیرِ خُدا کو وَاجبُ الْوُجود ماننا (یعنی جس کا ہونا ضروری اور نہ ہونا محال ہو) اگرچہ عبادت کے لائق نہ سمجھے یہ شرک ہے ۔ (2) غیرِ خدا کو عبادت کا مستحق سمجھنا اگرچہ واجبُ الوُجود ہونے کا عقیدہ نہ رکھے ۔ (3) غیرِ خدا کو واجبُ الوُجود بھی مانے اور اسے عبادت کا مستحق بھی سمجھے ۔

امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : آدمی حقیقۃً کسی بات سے مشرک نہیں ہوتا جب تک غیرِخدا کو معبود یا مستقل بالذّات و واجبُ الوجود نہ جانے ۔ (فتاوی رضویہ جدید جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۱،چشتی)

صدرُالشریعہ بدرُالطریقہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شرک کے معنی غیرِ خدا کو واجبُ الوجود یا مستحقِ عبادت جاننا یعنی الوہیت میں دوسرے کو شریک کرنا اور یہ کفر کی سب سے بد تر قسم ہے اس کے سوا کوئی بات کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں ۔ (بہار شریعت حصہ اول ایمان وکفر کا بیان جلد ۱ صفحہ ۱۸۳)

شرک کی تعریف سے معلوم ہوا کہ دو خداؤں کے ماننے والے جیسے مجوسی (آگ پرست) مشرک ہیں اسی طرح کسی کو خدا کے سوا عبادت کے لائق سمجھنے والا مشرک ہو گا جیسے بُت پرست جو بتوں کو مستحقِ عبادت سمجھتے ہیں ۔ مذکورہ تین صورتوں میں سے کوئی ایک بھی پائی گئی تو شرک پایا جائے گا ، اگر ان میں سے کوئی ایک صورت بھی نہ پائی جائے تو ایسی صورت شرک کے علاوہ کچھ بھی ہو سکتی ہے ۔

کیا کفّارِ مکہ مُشرک تھے ؟ خبردار ! کسی ذہن میں یہ بات ہرگز نہ آئے کہ کفّارِ مکہ تو اپنے جُھوٹے خداؤں کو واجبُ الوُجود نہیں مانتے تھے پھر وہ مشرک کیسے ؟ اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ صرف  واجبُ الوُجود ماننا ہی شرک نہیں بلکہ غیرِ خدا کو مستحقِ عبادت سمجھنا بھی شرک ہے جیسا کہ (شرح عقائد کی) عبارت سے واضح ہے ۔ کفّارِ مکہ اپنے جھوٹے خداؤں کو عبادت کا مستحق جان کر اُن کی پُوجا کیا کرتے تھے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے : وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِؕ ۔
ترجمہ : اور اللہ کے سوا ایسی چیز کو پوجتے ہیں جو ان کا نہ کچھ نقصان کرےاورنہ کچھ بھلا اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ (سورہ یونس آیت نمبر 18)

مشرکین بتوں کی عبادت بھی کرتے تھے اور انہیں اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنا شفیع بھی مانتے تھے ۔ گویا ان کے دو جُرم تھے : (1) غیرِ خُدا کو مستحقِ عبادت سمجھنا ۔ (2) اللہ عزوجل کی بارگاہ میں انہیں مُقَرَّب سمجھنا جو کہ مقرب ہرگز نہیں ہیں ۔ اس لیے بلا شبہ کفارِ مکہ مشرک تھے ۔

شرک کی اقسام : ⏬

شِرک کی دو اَقسام : شرک کے ظاہر اور چھپے ہونے کے اعتبار سے دو اقسام ہیں : (1) شرکِ جَلی  (2) شرکِ خفی ۔

شرکِ جَلی خواہ ایک لمحے کےلیے ہی کیوں نہ ہو بندہ فوراً دائرۂ اسلام سے نکل جاتا ہے ۔ رہا شرکِ خفی تو  یہ گناہ ضرور ہے مگر اس کا مُرتکِب مسلمان ہی رہتا ہے شرکِ خفی کے سبب کافر نہیں ہوتا ۔ شرکِ خفی اور شرکِ جَلی میں زمین و آسمان کا فرق ہے دونوں کی تعریف اور احکام جُداجُدا ہیں ۔ شرکِ خفی کو جَلی سمجھنا سراسر جہالت و ظلم اور فتنہ و فساد کو ہوا  دینا ہے ۔

شیخ محقق شیخ عبدُالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیثِ پاک  کے تحت فرماتے ہیں : خلاصہ یہ کہ شرک کی دو قسمیں ہیں جلی اور خفی ۔ بُت پرستی کرنا کھلم کھلا شرک ہے۔  ریا کار  جو غَیْرُ اللہ کے لئے عمل کرتا ہے وہ بھی پوشیدہ طور پر بُت پرستی کرتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے : کُلُّ مَا صَدَّکَ عَنِ اللہِ فَھُوَ صَنَمُکَ ،، ہر وہ چیز جو تجھے اللہ پاک سے روکے وہ تیرا  بُت ہے ۔ (اشعۃ اللمعات جلد 4 صفحہ 272)

شرکِ جَلی اور خفی کو بالتّرتیب شرکِ اکبر اور شرکِ اصغر  بھی کہتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس چیز کا  مجھےتم پر زیادہ خوف ہے ، وہ شِرْکِ اصغر ہے ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : وَمَا الشِّرْكُ الْاَصْغَرُ  يَارَسُولَ اللہ؟ یعنی یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شرکِ اصغر کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : الرِّيَاءُ ،، یعنی دِکھاوا کرنا ۔ (مسند احمد جلد 9 صفحہ 160 حدیث نمبر 23692،چشتی)

رِیا شرکِ اصغر کیوں ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے دِکھاوے کےلیے روزہ رکھا اُس نے شرک کیا ، جس نے دِکھاوے کےلیے نماز پڑھی تو اُس نے شرک کیا اور جس نے رِیا کاری کرتے ہوئے صدقہ دیا تو اُس نے شرک کیا ۔ (شعب الایمان جلد 5 صفحہ 337 حدیث نمبر 6844)

دراصل مشرک اپنی عبادات کے ذریعے اپنے جھوٹے معبودوں کو راضی کرنا چاہتا ہے اور رِیا کار اپنی عبادات سے اپنے جھوٹے مقصودوں یعنی لوگوں کو راضی کرنے کی نیت کرتا ہے اس لیے ریا کار چھوٹے درجہ کا مشرک ہے اور اس کا یہ عمل چھوٹے درجہ کا شرک ہے ۔ چونکہ ریا کار کا عقیدہ خراب نہیں ہوتا عمل و ارادہ خراب ہوتا ہے اور کھلے مشرک کا عقیدہ بھی خراب ہوتا ہے ، اس لیے ریا کو چھوٹا شرک فرمایا ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 7 صفحہ 144،چشتی) ۔ یوں کہیے شرکِ اِعْتِقادی تو کھلا ہوا شرک ہے اور شرکِ عملی ریا کاری ہے ۔

شرک کی حقیقت پر غور کرنے سے ایک بات بالکل واضح ہے کہ اس کی بنیاد اللہ پاک سے مُساوات اور برابری پر ہےیعنی جب تک کسی کو رب کے برابر یا اُس جیسا نہ مانا جائے تب تک شرک نہ ہوگا ۔ قیامت میں کُفّار اپنے بتوں کے متعلق اسی برابری کا یوں کہیں گے : تَاللّٰهِ اِنْ كُنَّا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ ۔ اِذْ نُسَوِّیْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔
ترجمہ : خدا کی قسم بے شک ہم  کھلی  گمراہی میں تھے ، جب کہ تمہیں رَبُّ الْعالمین کے برابر ٹھہراتے تھے ۔ (سورہ الشعرآء آیت نمبر 97)

اس برابری کی چند صورتیں ہیں : (1) ذات میں برابری ۔ (2) اَسماء ۔ (3) اَفعال ۔ (4) اَحکام ۔ (5) عبادات اور ۔ (6) صفات میں برابری ۔

اللہ عزوجل کی ذات میں برابری سے مراد یہ ہے کہ اللہ پاک  کے سِوا کسی اور کو خُدا یا خُدا جیسا ماننا اسے شِرک فِی الذَّات  بھی کہتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ عزوجل ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں خود ارشاد فرماتا ہے : وَ هُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰهٌؕ-وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ ۔
ترجمہ : اور وہی آسمان والوں کا خدا اور زمین والوں کا خدا اور وہی حکمت و علم والا ہے ۔ (سورہ الزخرف آیت نمبر 84)

سورۂ اخلاص میں ارشاد ہوتا ہے : لَمْ یَلِدْ ﳔ وَ لَمْ یُوْلَدْۙ ۔ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۠ ۔
ترجمہ : نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس کے جوڑ کا کوئی ۔ (سورہ الاخلاص آیت نمبر 3 - 4)

اللہ تعالیٰ کے خاص اسماء میں اُس کا  کوئی شریک نہیں اپنی ذات و صفات کی طرح وہ اپنے اسماء میں بھی  اکیلا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے خاص  اَسماء یعنی ناموں میں کسی مخلوق کو شریک کرنا شِرک فِی الْاَسْماء کہلاتا ہے جیسے کسی اور کو اللہ کہنا ۔ چنانچہ قراٰنِ پاک میں ہے : هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا۠ ۔
ترجمہ : کیا اس کے نام کا دوسرا جانتے ہو ۔ (سورہ مریم آیت نمبر  65)

حضرت امام عمر بن علی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ اسی آیت کے تحت نقل فرماتے ہیں : ليس له شريك في اسمه وذلك لانهم وان كانوا يطلقون لفظ الاله على الوثن فما اطلقوا  لفظ اللّٰه تعالى  على شيء ۔
ترجمہ : اللہ کے نام میں بھی کوئی شریک نہیں ہے اور یہ اس لئے ہے کہ اگرچہ کفار و مشرکین اپنے بتوں کو  اِلٰہ (معبود) کہتے تھے لیکن وہ بھی کسی شے پر لفط اللہ کا اطلاق نہیں کیا کرتے تھے ۔ (اللباب فی علوم الکتاب جلد 13 صفحہ 102،چشتی)

خزائن العرفان میں ہے : یعنی کسی کو اس کے ساتھ اِسمی شرکت بھی نہیں اور اُس کی وحدانیت اتنی ظاہر ہے کہ مشرکین نے بھی اپنے کسی معبودِ باطل کا نام “ اللہ “ نہیں رکھا ۔ (خزائن العرفان صفحہ 579)

جو اَفعال (یعنی کام) اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں ان میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا شِرک فِی الْاَفْعال کہلاتا ہے جیسے نبوّت و رسالت عطا فرمانا اللہ پاک کا مبارک فعل ہے جیسا کہ خود ارشاد فرماتا ہے : اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِؕ ۔ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌۚ ۔
ترجمہ : اللہ چُن لیتا ہے فرشتوں میں سے رسول اور آدمیوں میں سے بیشک اللہ   سنتا دیکھتا ہے ۔ (سورہ الحج آیت نمبر 75) ۔ اس لیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو نبوت عطا کرنے والا ماننا  افعال میں شرک ہے ۔

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے احکام میں کسی دوسرے کو شریک جاننا یا غَیرُ اللہ کے حکم کو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے حکم کے برابر قرار دینا شِرک فِی الْاحکام کہلاتا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : وَّ لَا یُشْرِكُ فِیْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا ۔
ترجمہ : اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا ۔ (سورہ الکھف آیت نمبر 26)

چنانچہ اللہ تعالیٰ جیسی صفات کسی نبی علیہ السلام میں مانی جائیں ۔ یا ۔ کسی ولی علیہ الرحمہ میں تسلیم کی جائیں ، کسی زندہ میں مانی جائیں ۔ یا ۔ فوت شدہ میں ، کسی قریب والے میں تسلیم کی جائیں یا دور والے میں ، شرک ہر صورت میں شرک ہی رہے گا جو ناقابلِ معافی جرم اور ظلمِ عظیم ہے ۔

عبادت صِرف اور صِرف  اللہ پاک ہی کےلیے ہے ۔ اللہ پاک کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک جاننا یا کسی دوسرے کو عبادت کا حقدار سمجھنا  شِرک فِی الْعِبادات کہلاتا ہے ۔ جیسے مشرکینِ مکہ نے خانہ کعبہ میں 360 بُت رکھے ہوئے تھےجن کی پوجا کی جاتی تھی ۔ عبادت صر ف اللہ پاک کا حق ہے  جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے : وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا ۔
ترجمہ : اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 36)

دوسرے مقام پر یوں فرمایا : قُلْ اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ مجھے منع کیا گیا ہے کہ انہیں پوجوں جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو ۔ (سورہ الانعام آیت نمبر 56)

اللہ عزوجل کی کسی صفت میں مخلوق کو شریک کرنا یا اللہ عزوجل کی صفات کی طرح کسی اور میں ویسی ہی صفات ماننا شِرک فِی الصِّفات کہلاتا ہے ۔ جیسے اللہ عزوجل کی صفت ہے قدیم ہونا یعنی وہ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا اب کسی مخلوق کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ بھی ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا یہ صفات میں شرک  کی مثال ہے ۔ ایک بات خوب یاد رکھنے کی ہے کہ صفات میں شرک اُسی وقت ہو گا جب  کہ جیسی صفت اللہ عزوجل کی ہے ویسی ہی صفت کسی اور میں تسلیم کی جائے  جیسا کہ شاہ ولیُّ اللہ محدّث دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : اَلشِّرک ُ  اَنْ يَّثبُتَ لِغَيرِ اللہِ سُبحانَه وَ تَعالٰی شيئًا مِنَ الصِّفاتِ الْمُختَصَّةِ بِه  الخ ،، یعنی جو صفات صرف اللہ پاک کے ساتھ خاص ہیں ان میں سے کوئی شے کسی غیراللہ کےلیے ثابت کرنا شرک ہے ۔ (الفوز الکبیر  صفحہ 21،چشتی)

اللہ عزوجل کی وہ صفات جو اُسی کے ساتھ خاص ہیں   جیسے علمِ ذاتی ، اَزَلی ، اَبَدی  اور قدیم ہونا وغیرہ ۔ خوب یاد رہے کہ صرف لفظوں کے ایک جیسا ہونے یا معنیٰ کی یکسانیت کی وجہ سے شرک کا حکم لگا دینا بہت بڑی جرأت ہے کیونکہ قرآنِ پاک میں بے شمار مقامات پر ایک لفظ یا ایک صفت اللہ عزوجل کےلیے استعمال ہوئی ہے بالکل وہی لفظ مخلوق کےلیے بھی استعمال ہوا ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ اگر لفظوں کا یہ اشتراک (ایک جیسا ہونا) شرک ہوتا تو قرآنِ پاک میں اس کو ہرگز ہرگز  بیان نہ کیا جاتاکیونکہ قراٰنِ پاک  شرک مٹانے آیا ہے مَعاذَ اللہ اس کی ترغیب دِلانے نہیں آیا ۔

شرک کی تعریف میں دو گروە ہیں پہلے ایک گروە کی تعریف پڑھیے : ⏬

(1) اللہ کی صفات مخلوق میں ماننا شرک کہلاتا ہے ۔

واضح رہے کہ شرک یہ تعریف تعریف ایسی کتابوں میں ہے جن میں وحدانیت کے نام پر شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاق اڑایا گیا ۔ خیر تعریف آپ نے پڑھ لی مگر اس تعریف میں ایک مسئلہ ہے وە یہ کہ جب ہم اللہ کی صفات غیر اللہ یعنی مخلوق میں دیکھتے ہیں تو شرک کا تدارک ممکن نہیں رہتا مثال کے طور پر : ⏬
اللہ سمیع ہے میں اور آپ بھی سمیع ہیں
اللہ بصیر ہے میں اور آپ بھی بصیر ہیں
یعنی اللہ بھی سنتا ہے میں اور آپ بھی سنتے ہیں
اللہ بھی دیکھتا ہے میں اور آپ بھی دیکھتے ہیں
تو کیا فرق رہا ؟

الوہیت تو ہر طرح کی مثلیت سے پاک ہے پھر یہ کیسے ؟

چلیں یہ عقل کی اختراع ہے میں کچھ امثال قرآن سے دیتا ہوں :

(1) الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العٰلَمينَ ۔
ترجمہ : تمام تعریفیں اللە کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔ (سورہ فاتحہ)

وَقُل رَبِّ ارحَمهُما كَما رَبَّيانى صَغيرًا ۔ (الأسر)
ترجمہ : اے اللہ میرے ماں باپ پر رحم فرما بلکل ویسے جیسے انہوں نے مجھے پالا میرے بچپن میں ۔
لیجیے جناب یہاں "رب" کا لفظ اللە کی صفت بھی ہے اور ماں باپ کی بھی مگر ہیں دونوں قرآن سے اور ماں باپ کو "رب" اللہ ہی نے خود فرمایا ہے نہ کہ کسی اور نے ۔

(2) وَنَحنُ أَقرَبُ إِلَيهِ مِن حَبلِ الوَريدِ ۔(سورہ ق)
ترجمہ : اور اللە ان کی شہ رگ سے زیادە قریب ہے ۔

النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم ۔ (سورہ الاحزاب)
ترجمہ : نبی صلی الله علیہ وسلم موٴمنوں کی جان سے زیادە قریب ہیں ۔

اس مثال میں اللە بھی قریب ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم بھی اور اصولِ تفسیر کے علماٴ کہتے ہیں کہ "اولی" اقرب سے زیادە قرابت کے معنی رکھتا ہے ۔ لیجیے یہاں کہانی ہی اور ہے کیا کہا جاۓ گا ؟

(3) إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ۔ (سورہ البقرة)
ترجمہ : بے شک اللە بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔

لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَريصٌ عَلَيكُم بِالمُؤمِنينَ رَءوفٌ رَحيم ۔
ترجمہ : بے شک تمہارے پاس تشریف لاۓ اللہ کے رسول تمہارے ہی میں سے جو تمہارا مشقت میں پڑنا گوارە نہیں کرتے اور مومنوں پرمہربان ہیں اور رحم کرنے والے ۔ (سورہ توبہ)

لیجیے جناب ادھر تو اللہ عزوجل بھی رؤف و رحیم ہے اور اللہ عز وجل کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بھی رؤف و رحیم ۔

(4) لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ خٰلِقُ كُلِّ شَيءٍ ۔ (سورہ الأنعام)
ترجمہ : کوئی عبادت کے لائک نہیں مگر الله (جو) ہر چیز کا خالق ہے ۔

أَنّى أَخلُقُ لَكُم مِنَ الطّينِ ۔ (سورہ اٰل عمران)
ترجمہ : عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ بے شک میں پیدا کرتا ہوں مٹی سے (پرندے) ۔

لیجیے جناب الله فرماتا ہے ہر چیزکو میں پیدا کرتا ہوں عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں میں پیدا کرتا ہوں ۔ ہے بھی قرآن کیا کہا جائے گا ؟ شرک ؟ نہیں بلکہ يه تو عین توحید ہے ۔

اہلِ مناطقہ سے ایک عرض ہے کہ ذرە ان آیات کو باالترتیب قضیہ اول اور قضیہ دوم پہ رکھ کر اقتضاۂ حال کا حال تو لکھیں ذرە میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کتنے بیس سو ہوتا ہے ۔ تو یقیناً آپ کتابوں میں کی گئی غلط شلط تعریف کاحال دیکھ ہی چکے ہونگے اب آپ علمائے حق کی کی ہوئی تعریف پڑھیے اور اس تعریف اور اس من گھڑت شرک کی تعریف میں علمی فرق دیکھیئے :

(2) اللہ تعالیٰ جیسی صفات غیر اللہ میں ماننا خدا یا خدائی میں حصے دار سمجھ کر ۔

اگر آپ نے توجہ سے پڑھی ہے تعریف تو یقینا مزید وضاحت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیوں کہ حق کی خوبی یہی ہے اسے سمجھایا نہیں جاتا بلکہ سمنجھ آجاتا ہے خود ہي ۔

اب آپ پہلے ایک اصطلاح سمجھیے : جس کے بعد آپ بآسانی سمجھ سکیں گے کہ پیچھے جو آیات میں نے بطورِ تمثیل ذکر کی ہیں ان میں اشکال جو ہے وه کیسے حل ہو گا ۔ ایک ہوتا ہے حقیقت دوسرا ہوتا ہے مجاز ۔ اس اصطلاح کو یوں سمجھیے کہ اوریجنل ڈاکومنٹس کو حقیقت اور فوٹو کاپی کو مجاز کہتے ہیں ۔

تعریف کچھ یوں ہے : اما الحقيقة فاسم لكل لفظ اريد به ما وضع له وحكمه وجود ماوضع له خاصا كان المكلفون و اما المجاز فاسم لما اريد به غيرما وضع له لمناسبة بينهما وحكمه وجود مااستعيرله خاصاكان او عاما ۔ ‎(متن نورالانوار صفحہ 98-99،چشتی)
ترجمہ : ہر وە شئی جس کا نام اس میں موجود خاصیت کی وجہ سے رکھا گیا ہو اسے حقیقت کہتے ہیں اور اگر کسی اور شئی میں اسی طرح کی عارضی صفت پائی جاۓ اسے مجاز کہتے ہيں ۔ الفاظ کے فرق سے میر قطبی میں بھی یہی لکھا ہے ۔ (میر قطبی صفحہ نمبر 183 طبع قدیم دہلی)

اب ان مثالوں کو سمجھیے کہ حقیقی طور رب اللہ ہی ہے مگر پالنے کی مماثلت میں ماں باپ بھی کو اللہ نے رب فرمایا ہے ۔ ایسے ہی حقیقی خالق اللہ وحدە لا شریک ہے مگر اللہ کے عطا کردە معجزە سے عیسی علیہ السلام بھی پیدا کرتے تھے ۔ اسی طرح تمام امثال حقیقت اور مجاز کے تحت ہیں ۔ اسی قانون کے تحت انبیا علیہم السلام یا اولیا علیہم الرحمہ سے استمداد اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہو سکتی اللہ کی عطا کے سوا نا ممکن ہے تو پھر کیا اعتراض ہے کسی کو اللہ تعالیٰ کےمحبوب صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے مشکل کشا ہونے پر ؟ کہ وە ذاتی نہیں عطائی ہے من اللہ ہے اور جب مان ہی اللہ کا دیا ہوا رہے ہیں تو شرک کیسا ؟

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : اللہ معطی و انا قاسم ۔ یعنی اللہ دیتا ہے اور میں بانٹتا ہوں ۔ (صحیح بخاری)

یقین ہے اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ شرک کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جیسی صفات نہ کہ اللہ کی صفات غیر اللہ میں ماننا شرک ہوتا ہے ۔

قرآن میں اسی طرح اللہ جیسی صفات کو کسی بت یا بندے میں ماننے سے منع کیا گیا ہے قرآن نے شرک کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں مضمون پہلے ہی کافی طویل ہو گیا ہے اب صرف اجمالی طور ذکر کرکے مثال پش کر دیتا ہوں :

(1) شرک بمعنی حصه : أَم لَهُم شِركٌ فِى السَّمٰوٰتِ ۔ (سورہ فاطر) ۔ ترجمہ : کیا ان بتوں کا آسمانوں میں حصہ ہے ؟ ۔ اسی طرح سورە روم میں آیت نمبر ٢٨)(سورەٴ زمر آیت نمبر ٢٩)(سورەٴ نساٴ آیت نمبر ١١٢)(سورەٴ بقرە آیت نمبر ٢٢١)(سورەٴ توبہ آیت نمبر ١٧)

(2) دوسرا معنی شرک بمعنی سانجھہ یعنی کسی کو خدا کے برابر جاننا یہ کفر سے خاص ہے اور قرآن میں یہ معنی سب سے زیادە مراد لیا جاتا ہے مثال : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فيما اتهُما ۔ (سورہ الأعراف) ۔ ترجمہ : اور ان دونوں نے برابر کردی وە نعمت جو رب نے انہیں دی ۔ اس کے علاوە ۔ (سورەٴ انعام آیت نمبر ١٢٨)(سورەٴ لقمان آیت نمبر ١٣)(سورەٴ یوسف آیت نمبر ١٠٢) ۔ وغیرہم سینکڑوں آیات میں شرک خاص مراد ہے ۔

(3) تیسرا معنی یہ ہے کہ خود زمانے کو موثر ماننا یہ بعض مشرکین کا عقیدە تھا اس زمانے میں جن کو دھریہ یا نیچری کہا جاتا ہے ۔ وَقالوا ما هِىَ إِلّا حَياتُنَا الدُّنيا نَموتُ وَنَحيا وَما يُهلِكُنا إِلَّا الدَّهرُ ۚ وَما لَهُم بِذٰلِكَ مِن عِلمٍ ۖ إِن هُم إِلّا يَظُنّونَ ۔ (سورہ الجاثية) ۔
ترجمۃ وە بولے خدا تو نہیں ہےمگر یہی دنیا ہے کہ ہم جیتے ہیں اور مرتے ہیں اور ان كو علم نہیں ۔

وە آیات جن میں عالم کے عجائبات پرغور و فکركا حکم ہے اِنہیں دھریے قسم کے لوگوں کےلیے ہیں ۔

(4) چوتھا یہ کہ ہر چیز کا خالق تو اللہ ہے مگر وە وە ایک بار پیدا کر کے تھک گیا ہے ۔ (نعوذ با اللہ)

اور اب جہان کو چلانے والے ہمارے بت ہیں مشرکین مکہ میں کچھ لوگ بھی يه عقیدە رکھتے تھے ۔ جس کی تردید میں یہ آیات نازل ہوئیں : وَلَقَد خَلَقنَا السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ وَما بَينَهُما فى سِتَّةِ أَيّامٍ وَما مَسَّنا مِن لُغوبٍ ۔ (سورہ ق)
ترجمہ : اور بے شک ہم نے آسمانوں اور زمیں اور کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا اور ہم کو تھکاوٹ نہ ہوئی ۔
اسی مضمون کی دیگر آیات ان سورتوں میں موجود ہیں ۔ (سورەٴ ق آیت نمبر ١۵)(سورەٴ احقاف آیت نمبر ٣٣)(سورەٴ یٰسین آیت نمبر ٨٦)

(5) شرک کی پانچویں قسم کہ عالم کا مالک و خالق تو اللہ تعالیٰ ہے مگر اتنے بڑے جہان کو وە اکیلا نہیں چلا سکتا جیسے دنیا میں بادشاە محکمے بانٹ دیتے ہیں وزیروں کو ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے معاذاللہ بتو میں خاص کر دیئے ہیں بارش ٬ رزق ٬ دھوپ ٬ ہوا وغیرە کےلیے اس عقیدے کے رد کےلیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَما يُؤمِنُ أَكثَرُهُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِكونَ ۔ (سورہ يوسف)
ترجمہ : ان مشرکین میں بہت سے ایسے ہیں جو کہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں مگر شرک کرتے ہوئے ۔

اس قسم کے مشرکین کےلیے مزید ان آیات میں تنبیہات ہیں ۔ (سورەٴ عنکبوت آیت نمبر ٦١)(سورەٴ مومنون آیت نمبر ٨٨)(سورەٴ زخرف آیت نمبر ٩)(سورەٴ مومنون آیت نمبر ٨۵)

اور بہت سی دیگر آیات تو دوستو شرک تمام حقیقت فقیر نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے ۔ ان میں کوئی آیت نہ انبیا علیہم السّلام کو پکارنے کو شرک قرار دیتی ہے نا اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی مشکل کشائی کو تو عجیب ہیں وە لوگ جو محض جہالت کے کے زور پر شرک کا رٹہ لگاتے ہیں اور فقیر یقین سے کہتا ہے اگر آپ کے فتوے لگانے والوں سے شرک تعریف ہی پوچھ لیں تو چپ لگے گی کہ کبھی منہ نہ کھلے گا اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیکو کاروں میں رکھے اور جملہ فتنوں سے بچائے آمین ۔


توحید کی تعریف : کلمہ طیبہ "لا الہ الا اللہ" میں توحید کا مکمل بیان ہے یعنی اس بات کا زبان سے اقرار اور دل سے یقین کرنا کہ سچا معبود اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ۔ لا الہ الااللہ کی تشریح میں حضرت العلامہ علی قاری محدث علیہ الرحمۃ مرقا ہ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں : (لا الہ) لا ھی النافیۃ للجنس علیٰ تنصیص علیٰ نفی کل فرد من افردہ (الا اللہ) قیل خبر ۔ لا ۔ والحق انہ محذوف والاحسن فیہ لا الہ معبود بالحق فی الوجود ۔ الا اللّٰہ ۔ ولکون الجلالۃ اسما للذات المستجمع لکمال الصفات وعلماً للمعبود بالحق قیل لو بدل بالرحمٰن لایصح بہ التوحید المطلق ثم قیل التوحید ھو الحکم بوحدانیہتہ منعوتا بالتنزہ عما یشاء بہ اعتماد افقولا وعملا فیقینا وعرفانا فمشاھدۃ وعیانا فثبوتا ودواما ۔
ترجمہ : لا الہ میں لا نفی جنس کا ہے جو ہر فرد الہٰ کی نفی پر نص ہے اور الا اللہ کی نسبت کہا گیا ہے کہ "لا"کی خبر ہے اور حق یہ ہے کہ خبر محذوف ہے اور احسن یہ کہ ہستی میں کوءی الہ معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے کیونکہ اسم اللہ ذات مسجمع صفات کمال کا اسم اور معبود برحق کا عَلَم ہے ۔ کہا گیا ہے کہ اگر اس کی جگہ الرحمن لایا جائے تو توحید مطلق اس سے صحیح نہ ہو ۔ پھر کہا گیاہے کہ توحید کسی شے کی وحدانیت کا حکم کرنا اور اس کو جاننا ہے اور اصطلاح میں "توحید" اللہ تعالیٰ کی ذات کو اس کی وحدانیت کے ساتھ مشابہ سے منزہ ثابت کرنا اعتقاداً پھر قولاً و عملاًپھر یقیناً و عرفاناً پھر مشاہدۃً و عیاناً پھر ثبوتاً و دواماً ۔

شرک کی تعریف : ⏬

شرک وہی ہے جس کو الا الہ الا اللہ نے باطل کیا یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو معبود ٹھہرانا ۔ تفسیر خازن میں ہے۔"من یشرک باللہ یعننی یجعل معہ شریکا غیرہ " شرک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ اس کے غیر کو شریک ٹھہرایا جائے ۔ شرح عقائد میں ہے " الا شراک ھو اثبات الشریک فی الالوھیۃ یعنی وجوب الوجود کما للمجوس او بمعنی استحقا العبادۃ کم لعبدۃ الاصنام " یعنی شرک کرنا یہ ہے کہ شریک کا ثابت کرنا ہے الوہیہ میں یعنی وجوب وجود میں جیسے کہ مجوسی کرتے ہیں یا بمعنی استحقاق عبادت میں جیسے کہ بت پرست کرتے ہیں۔کذا فی شرح الفقہ الاکبر ۔

حضرت شیخ المحققین عبدالحق محدث دہلوی قدسنا اللہ باسرارہ العزیز اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں : بالجملہ شرک سہ قسم است ۔دروجود ودر خالقیت و در عبادت ۔ خلاصہ مطلب یہ ہے کہ شرک تین طرح کا ہوتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو واجب الوجود ٹھہرائے ۔

دوسرے یہ کہ کسی دوسرے کو اللہ تعالیٰ کے سوا حقیقۃً خالق جانے ۔ تیسرے یہ غیر اللہ کی عبادت کرے یا اللہ کے سوا کسی کو مستحق عبادت سمجھے ۔۔۔ معلوم ہوا کہ واجب الوجود یعنی اپنی ذات وصفات میں دوسرے سے بے نیاز اور غنی بالذات فقط اللہ تعالیٰ ہے اور فقط وہی عبادت کے لائق ہے اور حقیقۃً وہی خالق ہے ۔ پس اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو ذات و صفات میں دوسرے سے بے نیاز اور غنی بالذات جانے یا اسے حقیقۃً خالق جانے یا مستحق عبادت سمجھے تو وہ مشرک ہے مثلاً آریہ جو اللہ کے سوائے روح اور مادۃ کو بھی قدیم اور واجب الوجود مانتے ہٰں اور خالق سے بے نیاز جانتے ہین مشرک ہیں اور مثلاً ستارہ پرست کہ تغیرات عالم کو تاثیر کواکب سے جانتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیٰں کہ ستارے اپنی تاثیرات میں غنی بالذات ہیں۔کسی محتاج نہیں پس یہ بھی مشرک ہیں۔یا بے پرست جو بتوں کو مستحق عبادت جانتے اور ان کی عبدت کرتے ہیں یہ بھی مشرک ہیں ۔ لیکن جو لوگ اشیاء کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے جانتے ہیں وہ کسی طرح مشرک نہیں ٹھہرتے ۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات میں واجب الوجود ، ازلی ، ابدی ، مستقل ، غیر متغیر ، قائم بالذات ، خالق و مالک حقیقی ، غنی عن الغیر ، وحدہٗ لا شریک لہٗ ہے پس اللہ کی سی صفات اوروں کےلیے ثابت کرنے کا یہ مطلب ہو کہ غیر اللہ کےلیے صفات ذاتی ، قدیم ، مستقل ، غیرمتغیر کا اعتقاد رکھا جائے اور اسے عطاء الٰہی کے بغیر کسی صفت سے متصف تسلیم کیا جائے جو کہ یقینا شرک ہے ۔

اہلسنت و جماعت کے عقیدہ کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کےلیے ذرہ بھی قدرت یا اختیار یا علم ثابت کرنا اور تسلیم کرنا یا کسی بھی صفت کو ماننا اگر بالذات ہو تو شرک ہے لیکن غیر اللہ کےلیے کسی صفت کا اثبات بہ عطاء الہی ہرگز شرک نہیں ۔ جبکہ وہ صفت ازروئے قرآن و حدیث اس کےلیے ثابت ہو ۔ حقیقت یہ کہ کفار و مشرکین آثار کو اسباب کی طرف حقیقۃً منسوب کرتے ہیں اور انہیں مستقلاً بالذات مؤثر جانتے ہیں مگر مسلمان اسباب کو وسائل جانتے ہیں اور ان وسائل کے حجابات میں قادر مطلق کے دست قدرت کو دیکھتے ہیں ، اختیار بالذات اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں اور افعال و صفات اور تاثیرات کو اسباب و وسائل کی طرف مجازاً منسوب کرتے ہیں نہ کہ حقیقتاً ۔ پھر اگر اس فرق و امتیاز کو تسلیم نہ کیا جائے تو انسان ہر بات میں مشرک ہو جائے اور ایمان کی کوئی راہ ہی نہ رہے ۔

پس مخلوق میں سے کسی کےلیے صفات و کمالات کو بہ عطائے الہٰی جاننا ہی ’’اللہ کی سی صفات اوروں کےلیے تسلیم یا ثابت کرنے ‘‘کے حکم سے خارج ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات بالذات ہیں نہ کہ بالعطاء یعنی اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت یا کمال غیر سے حاصل شدہ نہیں۔اس کا ہر کمال ذاتی اور غیر مکتسب ہے تو ثابت ہوا کہ کسی اور کے لیے صفات و کمالات بعفائے الہٰی تسلیم یاثابت کرنا شرک نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔۔پس ثابت ہوا کہ سفھاء الاحلام وہابی اب تک ذات صفات الہٰی سے بے خبر اور جاہل ہیں کہ یہ مسئلہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ۔ اسی لیے یہ لوگ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیائے کرام کےلیے کوئی صفت وکمال بہ عطائے الہٰی تسلیم کرنے کوبھی اللہ کی سی صفت قرار دے کر خواہ مخواہ صحیح العقیدہ مسلمانوں کو مشرک ٹھہراتے ہیں ۔ حالانکہ ہنوز وہ خود توحید و شرک کی حقیقت سے بے خبر ہیں قصور تو ہے خود ان کے فہم و علم کا مگر مجرم ٹھہراتے ہیں دوسرے بے گناہوں کو ۔ ان کے اس مسئلہ کو نہ سمجھنے کا یہ ناقابل تردید ثبوت ہے کہ یہ مخلوق میں سے کسی کےلیے بھی کوئی صفت بہ عطائے الہٰی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پھر بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ اگر تم کسی کےلیے کوئی صفت بعطائے الہٰی تسلیم کرنے کو شرک ہی ٹھہراتے ہو تو بتائو کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’حی‘‘ ہے یا نہیں ۔ پھر کیا شرک سے بچنے کی خاطر تم اپنے آپ کو مردہ کہو گے ؟

کیا تمہارے بڑے بھی کسی زمانہ میں صفت حیات سے متصف ہو یا نہیں ؟

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’عالم‘‘ہے تو کیا تم خود کو یا اپنے پیشوائوں کو عالم نہیں سمجھتے ؟

سمیع ‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور ’’بصیر‘‘ بھی تو کیا تم سمیع و بصیر نہیں ہو ؟

پھر کلام کرنا بھی اللہ کی صفت ہے اور ارادہ وقدرت بھی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں پھر شرک سے بچنے کےلیے تم کیا کرو گے ؟

آیا یوں کہو گے کہ ہم میں اللہ کی صفات ؛ میں سے کوئی صفت نہیں ہم وہابی سب مردے ہیں ۔ جاہل مطلق ہیں ۔ بہرے ہیں ۔ اندھے ہیں ، گونگے ہیں اور ہم وہابیوں میں نہ ارادہ ہے نہ قدرت تم کیا تم خاک ہو یا پتھر ، جماد محض ہو ؟

پھر اگر تمہاری یہ بات بھی تسلیم کرلی جائے کہ تم سب کے سب اجساد جامد ہو تو بھی تمہارا پیچھا شرک سے نہیں چھوٹتا کہ جسم جامد ہونے کی صورت میں بھی ’’موجود‘‘ ہونا پایا جائے گا اور موجود ہونا بھی اللہ کی صفت ہے تو پھر شرک سے بچنے کےلیے اپنے وجود کا بھی انکار کر دو گے ؟

یعنی کہ دنیا میں تمہارا وجود ہی نہیں ہے ۔ پس اگر تمہاری بائیں صحیح ہیں تو بتاٶ کہ تم کیا ہو ؟

تم کس حیثیت سے موجود ہو ؟

دنیا میں کیونکر چلتے ، پھرتے ، دیکھتے ، سنتے ، دنیاوی کام کاج کرتے اور یہ شرک و کفر کی گردانیں رٹتے ، اوٹ پٹانگ تحریریں لکھتے اور لمبی چوڑی تقریریں جھاڑتے پھرتے ہو۔ تم میں یہ صفات کہاں سے اور کیسے آگئیں ؟

کیا تم میں یہ صفات بالذات ہیں ، خود بخود ہیں یا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ؟

تو اب انہیں لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا اور کہنا پڑے گا کہ ہمیں یہ صفات اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں مگر اس قدر خرابی بسیار کے بعد بھی اپنے خانہ ساز وہابیانہ اصول کی بناء پر شرک سے یہ بچ نہ سکے بلکہ مشرک ہی رہے کیونکہ ان کا اصول یہ ہے کہ ’’پھر خواہ یوں سمجھیے کہ ان کاموں کی طاقت ان کو خود بخود ہے خواہ یوں سمجھے کہ اللہ نے ان کو ایسی طاقت بخشی ہے ہر طرح شرک ثابت ہوتا ہے ۔ (تقویۃ الایمان) ۔ تو ان کو چاہیے کہ کوئی تیسری صورت نکالیں اور شرک سے بچنے کی تدبیر کریں ۔

اُلجھا ہے پاٶں یار کا زُلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

مزید بر آں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بقول معترضین اللہ تعالیٰ نے مخلوق سے کسی کو کوئی صفت عطا نہیں فرمائی تو پھر افراد و اشیاء مخلوقات میں ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں بلکہ لاتعداد اقسام کی دویہ اور جڑی بوٹیاں کہ نفع بھی پہنچاتی ہیں اور نقصان بھی ۔ بارود ڈائنا میٹ، ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم وغیرہ ہتھیاروں میں یہ قوت کہاں سے اور کیونکر ہے کہ چشم زدن میں ہزروں لاکھوں جانداروں کو موت کے گھاٹ اتاردیں ، پہاڑوں کو اڑا دیں اور علاقوں کے علاقے تباہ و برباد کرڈالیں ۔ نیز ٹیلی فون ، وائرلیس ، ریڈیواور ٹیلی ویژن وغیرہ میں یہ تاثیرات کہاں سے آگئیں کہ سینکڑوں ، ہزاروں میل دور ہلکی سے ہلکی آوازوں اور تصویروں کو بھی آن واحد میں پہنچادیں ۔ یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ ان اشیاء میں یہ صفات و تاثیرات ذاتی نہیں ہیں تو لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان اشیاء میں یہ صفات و تاثیرات بہ عطائے الہٰی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور قدرتوں کا ظہور انکے ذریعے ہوتا ہے تو پھر جب کہ ایسی ادنیٰ اور بے جان اشیاء کیلیئے بھی صفات و تاثیرات بہ عطائے الہٰی تسلیم کیئے بغیر چارہ نہیں تو حضرت انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہے اس کے لیے صفات بہ عطائے الہٰی تسلیم کرنے میں کیونکر تامل ہو سکتا ہے ۔

پس معترضین کے انکار سے واضح ہے کہ یہ عقل ودانش سے عاری لوگ عام انسان کے مقام و منصب سے بھی واقف نہیں چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں، خلفاء اللہ فی الارض انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء اللہ قدسنا اللہ باسرارہم کے اعلیٰ و بلند و بالا مقامات و مناصب کو جن سکیں اور ان کے فضائل و کمالات علوم و اختیارات اور خداداد تصرفات کو سمجھ سکیں ۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اور حدیث میں سرکار دو عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات گواہ ہیں کہ محبوبان خدا انبیاء و اولیاء متخلق باخلاق اللہ ہیں ۔ صفاتِ الہٰی کے مظہر ہیں۔ بہ عطائے الہٰی متصرف ہیں اور ان کا ہر کام حکم و مشیت الہٰی کے تحت ہوتا ہے ۔ استاذی المکرّم غزالیئ زماں علامہ سیّد احمد سعید کاظمی قدس سرہٗ فرماتے ہیں ۔ مومن ہونے کیلئے ضروری ہے کہ عطاء خداوندی کا اعتقاد رکھتے ہوئے یہ اعتقاد بھی رکھا جائے ککہ اللہ تعالیٰ نے جو کمال کسی مخلوق کو عطا فرمایا ہے وہ عطا کے بعد حکم خداوندی ارادہ و مشیت ایزدی کے ماتحت ہے ۔ ہر آن خدا تعالیٰ کے مشیت اس کے متعلق ہے اور اس بندے کا ایک آن کے لیے بھی خدا تعالیٰ سے بے نیاز اور مستغنی ہونا قطعاً محال اور ممتنع بالذات ہے ۔ (تسکین الخواطر فی مسئلۃ الحاضر والناظر،چشتی)

حقیت توحید و شرک اور اقسام شرک ۔ مسلمانوں کو مشرک کہنے والوں کو جواب : ⏬

کسی کو شریک ٹھرانے سے مراد یہ ہے کہ مجوسیوں کی طرح کسی کو الہ (خدا) اور واجب الوجود سمجھا جائے یا بت پرستوں کی طرح کسی کو عبادت کے لائق سمجھا جائے ۔

واضح رہے کہ یہ تعریف علامہ تفتازنی علیہ الرحمہ کی اس معتمد علیہ مشہور زمانہ تصنیف “شرح عقائد نسفی“ سے لی گئی ہے جو درس نظامی (عالم کورس ) میں شامل ہے ۔ مکمل حوالہ حصّہ اوّل میں گذر چکا ہے ۔ اس عبارت کی شرح میں علامہ عبدالعزیز ہاروی علیہ الرحمہ شرح نبراس صفحہ 265 میں فرماتے ہیں : مجوسیوں کا اعتقاد تھا کہ دو خدا ہیں ایک یزدان جو خیر کا خالق ہے اور ایک ہر من جو شر کا خالق ہے ۔

ہم نے شرک کی تعریف کی مدد سے جان لیا کہ دو خداؤں کا ماننے والا مشرک ہوگا جیسے مجوسی (آگ پرست) اس طرح کسی کو خدا کے سوا عبادت کے لائق سمجھنے والا مشرک ہو گا جیسے بت پرست جو بتوں کو مستحق عبادت سمجھتے ہیں ۔

واجب الوجود اور مستحق عبادت صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات ہے ۔ جب تک کسی کو رب کے برابر یا مستحق عبادت نہ مانا جائے ، تب تک شرک نہ ہو گا اسی لیے قیامت میں کفار اپنے بتوں سے کہیں گے ۔
ترجمہ : خدا کی قسم! بے شک ہم کھلی گمراہی میں تھے جب کہ تمہیں
۔ رب العالمین کے برابر ٹھراتے تھے ۔ ( سورۃ الشعراء آیت 97،98)

شرک کی اقسام : شرک کی تین قسمیں ہیں  (1)  شرک فی العبادۃ ۔ (2 ) شرک فی الذات ۔ (3)  شرک فی الصفات ۔

شرک فی العبادۃ : شرک فی العبادۃ یہ ہے کہ اللہ تعالٰٰی کے علاوہ کسی کو مستحق عبادت سمجھا جائے ۔ رب العالمین عزوجل نے ارشاد فرمایا ۔
ترجمہ :۔ “ اور آپ کے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو ۔“ ( پارہ 15 سورہ بنی اسرائیل آیت 28)

شرک فی الذات : شرک فی الذات یہ ہے کہ کسی ذات کو اللہ تعالٰی جیسا تسلیم کیا جائے جیسا کہ مجوسی خداؤں کا مانتے تھے ۔

شرک فی الصفات : کسی ذات وغیرہ میں اللہ تعالٰٰی جیسی صفات ماننا شرک فی الصفات کہلاتا ہے ۔ چناچہ اللہ تعالٰٰی جیسی صفات کسی نبی علیہ السلام یا کسی ولی علیہ الرحمتہ میں تسلیم کی جائیں ، کسی زندہ میں مانی جائے یا فوت شدہ میں ، کسی قریب والے میں تسلیم کی جائیں یا دور والے میں، شرک ہر صورت میں شرک ہی راہے گا نا قابل معافی جرم اور ظلم عظیم ہے ۔

شرک کی مذمت : اللہ تعالٰٰی ارشاد فرماتا ہے : ترجمہ : بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک (و کفر) کیا جائے اور شرک و کفر کے علاوہ جو کچھ ہے معاف فرمادیتا ہے ۔ (سورۃ النساء)
ترجمہ : اور جو اللہ کا شریک ٹھرائے وہ دور کی گمراہی میں پڑا ۔
ترجمہ : اور جس نے خدا کا شریک ٹھرایا اس نے بڑا گناہ کا طوفان باندھا ۔
بلا شک و شبہ ظلم عظیم کا مرتکب ، محروم المغفرت ، صریح گمراہ ہمیشہ جھنم میں سڑنے والا ، بد بخت ، نامراد اور یقیناً دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ ہم شرک فی الصفات کو دیں گے کیونکہ اکثر اوقات شیطان لعین شرک فی الصفات سمجھنے سے روکتا ہے ۔ چناچہ شیطان نے یہ اصول مرتب کیا کہ لفظوں کا ایک ہونا شرک کہلاتا ہے ۔ شیطان کا مذکورہ اصول ہر قرآن پڑھنے والے کو دائرہ اسلام سے خارج کے متراف ہے کیونکہ قرآن میں کئی مثالیں ایسی ہیں جن میں اللہ عزوجل اور اس کے محبوبین کے درمیان لفظا برابری پائی جاتی ہے ۔
آئیے ! اس مردود لعین سے اللہ عزوجل کی پناہ طلب کرتے ہوئے نور قرآن پاک سے متمتع ہوے ہوئے قرآنی مثالوں کے ذریعے ہمیشہ کےلیے اپنے ایمان کو فضل الہٰی عزوجل سے محفوظ کر لیتے ہیں ۔

پہلی مثال : قرآن پاک میں ارشاد ہے ۔
ترجمہ : بے شک اللہ تعالٰٰی لوگوں پر رؤف الرحیم ہے ۔ (سورۃ البقرۃ آیت 143 )
دوسری جگہ ارشاد فرمایا ۔
ترجمہ : بے شک تمہارے رب پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا رات دن مشقت میں پڑنا گراں (بھاری) ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مومنوں پر رؤف اور رحیم ہیں ۔ (سورۃ التوبۃ آیت 128)

دوسری مثال : قرآن پاک میں ارشاد ہے ۔
ترجمہ : تم فرماؤ اللہ کے سوا غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمان اور زمین میں ہیں ۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے ۔
ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر صرف اپنے پسنیدہ رسولوں ہی کو آگاہ فرماتا ہے۔ ہر کسی کو ( یہ علم ) نہیں دیا ۔ (سورۃ جن آیت 26، 27)

دوسری مثال پر نظر فر مائیں لہ “ علم غیب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے ۔ اگر کوئی قرآن پاک کی روشنی میں رسولوں کےلیے علم غیب کا مانے تو کیا یہ بھی شرک ہو گا ؟

تیسری مثال : قرآن پاک میں ہے ۔
ترجمہ : اللہ وسعت علم والا ہے ۔
دوسری جگہ حضرت آصف بن برخیا رضی اللہ عنہ (جو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی امت کے والی ہیں ان) کےلیے علم کی صفت کو ثابت کیا گیا ۔ ارشاد ربانی ہے ۔
ترجمہ : (حضرت آصف نے) کہا جن کے پاس کتاب کا علم تھا ۔ (سورۃ النمل آیت 40)
تیسری مثال دیکیں کہ “علم“ اللہ کی صفت ہے ۔ اگر کوئی مذکورہ قرآنی آیت کے تحت ولی کامل حضرت آصف بن برخیا کو علم والا کہے تو کیا ایسا کہنے والا جرم عظیم یعنی شرک کے وبال میں مبتلا کہلائے گا ؟

چوتھی مثال : قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے ۔
ترجمہ : بے شک ساری عزت اللہ کےلیے ہے ۔ (سورۃ یونس آیت 65 )
دوسرے مقام پر ارشاد ہے ۔
ترجمہ : اور عزت تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں ہی کےلیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں ۔

غور کیجیے ! پہلے فرمایا گیا کہ ساری عزت اللہ تعالٰی کےلیے ہے پھر دوسرے مقام میں ارشاد ہوا کہ عزت اللہ تعالٰٰی کےلیے ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنوں کےلیے بھی ہت ۔ یہاں بھی الفاظ ایک یہ ہیں ۔ قرآن مجید کی روشنی میں اللہ تعالٰٰی کے پیاروں کو عزت والا کہیں تو کیا شرک لازم آئے گا ؟

پانچویں مثال : ترجمہ : یہ اس لیے کہ مسلمانوں کا مددگار اللہ ہے ۔
دوسر مقام پر ارشاد ہے ۔
ترجمہ : بے شک اللہ ان کا مدد گار ہے اور جبرئیل اور نیک مومنین مددگار ہیں ۔

پانچویں مثال فرمایا یقیناً مددگار ، مشکل کشاء اور حاجت روا اللی تعالٰٰی ہے اور قرآن پاک کی روشنی میں صالح مومنین کو مددگار ثابت کریں تو کیا شرک ہوگا ؟

فیضانِ اصول القرآن : مذکورہ آیات کی روشنی میں ایک اصول و ضابطہ ہوا کہ “ محض الفاظ و تلفیظ کی یکسانیت ، شرک کو لازم نہیں کرتی ۔“ یہ امر انتہائی واضح ہے کہ جو صفات اللہ تعالٰٰی کی ہیں ویسی ہی کسی کےلیے مان لی جائئیں تو شرک فی الصفات لازم آئے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رؤف اور رحیم ہیں لیکن اللہ تعالٰٰی کی عطا سے ۔ اس طرح انبیاء علیہم السلام علم غیب جانتے ہیں لیکن باذن اللہ حضرت آصف بن برخیا علم والے ہیں لیکن اللہ تعالٰٰی کی قدرت و طاقت سے مومنین عزت والے ہیں لیکن باذن اللہ اور اسی طرح صالحین مومنین مدد گار ہیں لیکن باذن اللہ ۔
قران پاک کے نور سے معلوم ہوا کہ انبیاء و صالحین کی خوبیوں اور اوصاف جمیلہ میں ۔ باذن اللہ اور عطائی کے معنی پائے جاتے ہیں اگر چہ بظاہر باذن اللہ اور عطائی مذکور نہ ہو ۔ مثلاً قرآن پاک میں ارشاد ہے ۔
ترجمہ : اللہ تعالٰٰی اور اس کا رسول اور ایمان والے تمہارے مددگار ہیں ۔ (سورہ مائدہ آیت 55)

اس آٰیت مبارکہ میں اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنوں کو مددگار قرار دیا گیا گو کہ باذن اللہ اور عطائی مذکور نہیں لیکن مراد یہی ہے کہ اللہ تعالٰٰی کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین مدد کرتے ہیں اللہ تعالٰٰی کے اذن اور عطا سے ۔ ان آیات کے تحت معلوم ہوا کہ صحابہ علیہم الرضوان کا براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدد کےلیے پکارنا اور مومنین کا حضور غوث اعظم و دیگر صالحین علیہم الرحمہ سے مدد طلب کرنا باذن اللہ کے تحت ہے یعنی المدد یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معنی ہیں ۔
“ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے اذن سے مدد فرمائیں ۔
واضح رہے کہ یہ مدد طلب کرنا شرک نہیں کیوں کہ صالحین اللہ عزوجل کی عطا سے مدد کرتے ہیں ۔ جو ذات باری تعالٰٰی عزوجل عطا فرما رہی ہے اس میں اور جس کو عطا کیا جا رہا ہے ان حضرات قدسیہ میں برابری کا تصور محآل ہے اور جب برابری نہیں تو شرک کہاں رہا ؟ اس اصول کو سمجھنے کےلیے امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمۃ کی عطا کردہ مثال انتہائی مفید ہے ۔ خوب یا رکھیں ! جہاں باذن اللہ اور عطائی کا ذکر آجائے ، شرک کا تصور محال اور ناممکن ہوجاتا ہے مذکورہ مثالوں میں باذن اللہ یا عطائی کے معنی نہایت واضح ہیں ۔

الوہیت عطائی نہیں ہو سکتی : اللہ تعالٰٰی سب کچھ دے سکتا ہے مگر الوہیت کا دنیا ممکن نہیں کیوں کہ یہ مستقل ہے اور عطائی چیز مستقل نہیں ہو سکتی ۔ الوہیت استقلال ہی کے معنی میں ہے لیکن مشرکین کا تصور یہ تھا کہ انہوں نے کہا لات و منات وغیرہ ایسے زاھد و عابد لوگ تھے کہ اللہ نے کہا تمہاری عبادت کمال تک پہنچ گئی اب تم پر میں یہ عنایت کرتا ہوں کہ تم آزاد ہو میں تم پر کچھ فرض کرتا ہوں اور نہ کوئی پابندی لگاتا ہوں پس اس طرح انہوں نے کہا کہ اللہ تعالٰٰی نے ہمارے تمام معبودوں کو الوہیت دے دی جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالٰٰی نے کسی کو وصف الوہیت عطا فرما دیا ہے وہ مشرک و ملحد ہے ۔ (ملاحظہ کریں : مقالات استاذی المکرّم غزالی زماں رازی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمۃ)

مسلمانوں کا عقیدہ : مشرکین غیر اللہ کےلیے عطائے الوہیت کے قائل تھے اور مومنین کسی مقرب سے مقرب ترین حتیٰ کہ حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں بھی الوہیت اور غنائے ذاتی کے قائل نہیں ہیں ۔ یعنی سردار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی خدا تصور نہیں کرتے ۔

صفات باری عزوجل اور صفاتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فرق : ⏬

اللہ تعالٰٰی کی صفات ذآتی ہیں ۔ جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات عطائی ہیں ۔

اللہ تعالٰی کی صفات قدیم (پہلے اور ہمہشہ سے) ہیں ۔ جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات حادث (بعد میں ) ہیں ۔

اللہ تعالٰی کی صفات ابدی ہیں ۔ جبکہ حضور اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم کی صفات غیر ابدی ہیں ۔

اللہ تعالٰٰی کی صفات غیر مقدور (یعنی کسی کے تابع و زیر اثر نہیں) ہیں ۔ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات مقدور (اللہ تعالٰٰی کے زیر اثر) ہیں ۔

امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی شرک پر متفق نہیں ہو گی ۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک میں تمہارا سہارا اور تم پر گواہ ہوں اللہ کی قسم ! میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بے شک زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اور بے شک مجھے یہ خطرہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے مجھے تو اس بات کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے جال میں پھنس جاؤ گے ۔ (بحوالہ : بحاری شریف ۔ تفصیل آنے والے مضمون میں آۓ گی ان شاء اللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ایک طرف اور سارے بدمذہب مفتیوں کے فتوے ایک طرف ۔ جب میرے مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا کہ میری امت کبھی شرک پر متفق نہیں ہوگی تو پھر امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے مشرک ہو سکتی ہے البتہ مسلمانوں پر شرک کے فتوے لگانے والے خود مشرک ہو جائیں گے ۔


امتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شرک : دورحاضرمیں خارجی نئے ناموں اور نئے لباس میں سامنے آ چکے ہیں ، شرک و بدعت کا نام لے کر ، اپنے گمراہ کن عقائد باطلہ کو ہمارے بھولے بھالے مسلمانوں میں پھیلا کر ان کے قلوب سے محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زوال کےلیے مصروف عمل ہیں حالانکہ ان کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کریمہ بھی ہوتی ہے ، کہ امت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی شرک کرہی نہیں سکتی جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں : صَلَّی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی قَتْلَی أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِی سِنِینَ کَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْیَاءِ وَالْأَمْوَاتِ ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ إِنِّی بَیْنَ أَیْدِیکُمْ فَرَطٌ وَأَنَا عَلَیْکُمْ شَہِیدٌ وَإِنَّ مَوْعِدَکُمْ الْحَوْضُ وَإِنِّی لَأَنْظُرُ إِلَیْہِ مِنْ مَقَامِی ہَذَا وَإِنِّی لَسْتُ أَخْشَی عَلَیْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوا وَلَکِنِّی أَخْشَی عَلَیْکُمْ الدُّنْیَا أَنْ تَنَافَسُوہَا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آٹھ برس کے بعد احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی ، جیسے کوئی زندوں اور مردوں کو رخصت کرتا ہے پھر واپس آکر منبر پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا کہ : میں تمہارا پیش خیمہ ہوں تمہارے اعمال کا گواہ ہوں اور میری اور تمہاری ملاقات حوض کوثر پر ہو گی اور میں تو اسی جگہ سے حوض کو ثر کو دیکھ رہا ہوں مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر رشک و حسد نہ کرنے لگو ۔ (بخاری شریف رقم الحدیث 3736 جلد 12 صفحہ 436)(صحیح بخاری صفحہ 993 دار ابن کثیر بیروت)

فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطاء کی گئیں ، مجھے اس بات کا خوف نہیں میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر رشک و حسد نہ کرنے لگو گے ۔ (صحیح بخاری صفحہ 885 دار ابن کثیر بیروت،چشتی)

فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : مجھے اس بات کا خوف نہیں میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر رشک و حسد نہ کرنے لگو گے ۔(صحیح مسلم صفحہ 1149 دارالفکر بیروت)

محترم قارئینِ کرام : ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر اعلان فرمادیا ،کہ میری امت سے مجھ کو شرک کا خوف نہیں ہے ۔ پھر آج گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ٹولہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اقدس کے خلاف جا کر آپ (علیہ السلام) کی امت پر شرک کے الزامات کیوں لگاتا ہے ؟ آخرکچھ تو ہے کہ جس کی پردہ داری ہے چنانچہ اس سلسلے میں یہ حدیث کریمہ بھی ملاحظہ فرمائیں حضرت حذیفۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اِنَّ مَا اَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ قَرَۃَ الْقُرْآنَ حَتَّی اِذَا رُءِیَتْ بَھْجَتُہُ عَلَیْہِ وَ کَانَ رِدْءًا لِلْاِسْلَامِ غَیْرَہُ اِلَی مَاشَاءَ اﷲُ فَانْسَلَخَ مِنْہُ وَ نَبَذَہُ وَرَاءَ ظُھْرِہِ وَ سَعَی عَلَی جَارِہِ بِالسَّیْفِ وَرَمَاہُ بِالشِّرْکِ قَالَ : قُلْتُ : یَا نَبِیَّ اﷲِ، اَیُھُمَا اَوْلَی بِالشِّرْکِ الْمَرْمِیُّ اَمِ الرَّامِی قَالَ : بَلِ الرَّامِی ۔
ترجمہ : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اوراس پر شرک کا الزام لگایا راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ، کہ اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا ؟ شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ،کہ شرک کا الزام لگانے والا ۔ ( صحیح ابن حبان رقم الحدیث 81 جزء 1 صفحہ157،چشتی)

مسلمانوں کو مشرک کہنا بدعت خبیثہ ہے ۔ الزام لگانے والا خود مشرک بن جاتا ہے : من كفر مسلما فقد كفر ۔ (مسند احمد جلد ۲ صفحہ (۲۳)
ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہو گیا ۔

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا جس کاظاہری روپ اسلام ہو گا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ، پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا ، راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا : فتویٰ لگانے والامشرک ہو گا یعنی وہ فتوی مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والاخود مشرک بن جائے گا ۔ (تفسير ابن كثير جلد ۲ صفحہ ۲۶۵)

مذکورہ بالا دو احادیث کریمہ آپ بغورمطالعہ فرمائیں ، تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی ، کہ جو لوگ شرک و بدعت کے نعرے لگا کراس کی آڑ میں لوگوں کوگمراہی پر مائل کرتے ہیں درحقیقتا یہی لوگ ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے موجب ہیں ، یعنی یہی لوگ مرتکب شرک ہوتے ہیں ۔ نہ صرف مرتکب شرک ، بلکہ یہی لوگ ، جناب رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم کے سلسلے میں بھی منکر ہوتے ہیں ، چہ جائیکہ وہ کتنی ہی نمازیں کیوں نہ پڑھ لیں ، کتنی ہی عبادات کیوں نہ کرلے ، مگر دل میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن نہ ہونے کی بنا پردخول فی الاسلام سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ یاد رہے کہ ایمان و اسلام کا تعلق عشق ومحبت پرمبنی ہے یعنی اسلام و ایمان تب ہی معتبر ہے جب دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہو ورنہ اگرفقط عبادات کو معیار بنایا جائے اور دل محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہو ، تو واضح رہے کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ عبادات ، اگرکسی نے کی ہے ، تو وہ شیطان ہے ، جس کا اتنا مرتبہ تھا کہ وہ معلم الملائکۃ کہلایا جاتا تھا ، یعنی ملائکہ کو علم سکھاتا تھا ، لیکن بارگاہ الٰہی سے اگر مردودوملعون ہوابھی ، توفقط اسی وجہ سے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کے نبی علیہ السلام کی تعظیم نہ کی ۔

یہاں ایک جزئیہ سمجھنے والا ہے بعض احباب یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرک کے خوف کا نہ ہونا یہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شرک سے مستثنیٰ اور مبراء تھے اور ہمیں مبراء نہیں کیا کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی ۔ ایک لمحہ کے لئے اس سوال کو اگر قبول کر لیا جائے تو اب اس کا جواب یہ ہے ۔ ’’ولکن‘‘ (لیکن) کے آنے کی وجہ سے جملے کے دونوں اجزاء ایک ہی جملہ ہوں گے مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ یہ خوف ہے کہ تم دنیا پرستی کرو گے۔ اس جملے کو صرف صحابہ کے دور تک محدود کرنے والے غور کریں کہ اگر صحابہ کے ساتھ شرک کے خوف کا نہ ہونا خاص کرنا ہے تو صرف شرک کے خوف کا نہ ہونا ہی صحابہ کے ساتھ خاص نہ ہوگا بلکہ پھر دنیا پرستی کا الزام بھی ان کے ساتھ خاص ہوگا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو باتیں کہیں عدم شرک دنیا پرستی اب یہاں دو امکان ہیں کہ یہ بات یا تو جمیع امت کے لئے فرمائی ہے یا صرف صحابہ کرام کے لئے ہے۔ اگر جمیع امت کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء ہیں، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا۔ اور اگر صرف صحابہ کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا کیونکہ ’’ولکن‘‘ ’’لیکن‘‘ کے بغیر جملہ مکمل نہیں ہوگا۔ پس حدیث مبارکہ میں موجود شرک کے خوف کا نہ ہونا صرف صحابہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع امت کے لئے ہے ۔ پس معنی یہ ہوگا اے میری امت مجھے تمہارے بارے شرک کا خوف تو نہیں مگر یہ خوف ہے کہ دنیا کی اغراض میں پھنس جاؤ گے میں نے شرک کو جڑوں سے کاٹ کر اتنا ختم کردیا ہے کہ قیامت کے دن تک میری امت من حیث المجموع اب مشرک کبھی نہیں بنے گی اور اگر خطرہ ہے تو صرف یہ کہ امت دنیا پرستی میں مبتلا ہوگی۔ آج ہم دنیا پرستی میں مبتلا ہیں تو پھر جزء اول بھی حق ہوا اور جزء ثانی بھی حق ہوا۔ جب جزء ثانی امت کے بارے میں حق ہے کہ واقعتاً امت دنیا پرستی میں مبتلا ہے تو جزء اول بھی حق ہے کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جزء لے لیا جائے اور ایک جزء چھوڑ دیا جائے ۔

آج امت دنیا پرستی کا شکار ہے اور اسی کے باعث ذلت و رسوائی کا عذاب بھگت رہی ہے مگر بطور مجموعی امت مشرک نہیں ہوگی اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضمانت دے دی لہٰذا اب امت کے سواد اعظم کو مشرک کہنا یا ان کے عقیدہ کو شرک تصور کرنا یہ سواد اعظم پر اعتراض نہیں بلکہ پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کو معاذ اللہ رد کرنا ہے ۔ آپ لوگوں کو مبارک ہوکہ شرک کی تہمت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سب سے دفع فرمادیا۔ لہٰذا امت کو مشرک قرار دینے سے احتیاط کرنی چاہئے اور جو حضور نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے فرامینِ اقدس کو جھوٹا کہے یا اپنے دلائل دے کر جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرے اس پر اللہ عزوجل ، اس کے فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ۔ خارجیوں سے ہوشیار رہیں اور قطعی طور پر ان سے کوئی حدیث قبول نہ کریں کیونکہ حدیث کی آڑ میں یہ لوگ فتنہ خارجیت کا غلط انجکشن آپکو لگا کر آپکا ایمان برباد کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ۔

کیا مسلمان شرک کر سکتے ہیں ؟

آج کا دور فتنون کا دور ہے اور یہ فتنے کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے ہی شروع ہو گئے تھے امام بخاری علیہ رحمہ نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ وہ خارجیوں کو کائنات کی بدترین مخلوق گردانتے تھے کیونکہ وہ خارجی کفار کہ حق میں وارد شدہ آیات کو پڑھ پڑھ کر مومنین پر چسپاں کیا کرتے تھے ۔ وہ خارجی اپنے زعم میں توحید پرست اوراپنی توحید کو صحابہ کرام کی توحید سے بھی کامل اور اکمل سمجھنے والے تھے اور یوں وہ توحید کہ اصل اور حقیقی ٹھیکدار بنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور ایک طبقہ آج کہ دور کا ہے ، جسکا بھی بعینیہ وہی دعوٰی ہے کہ سوائے ان کے کوئی موحد و مومن ہی نہیں ۔ لہٰذا اس طبقہ کو اور کوئی کام ہی نہیں سوائے اس کے یہ بھی قرآن اور حدیث کو فقط اس لیے کھنگالتے ہیں کہ کہیں سے ان کو امتِ مسلمہ کہ جمہور پر کفر و شرک کا حکم لگانے کی کوئی سبیل میسر آ جائے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

محترم قارئینِ کرام کیا آپ نے کبھی ہلکا سا بھی تدبر کیا ہے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مذکورہ بالا قول پر ؟ تو آپ پر صاف ظاہر ہوجائے گا کہ اس وقت کہ نام نہاد توحید پرست خارجی کس قدر دیدہ دلیر تھے کہ وہ اپنی توحید میں خود کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی بڑھ کر سمجھتے تھے تبھی تو وہ اسلام کے خیر القرون کے دور کے اصحاب اور تابعین مسلمانوں پر شرک کہ فتوے لگاتے تھے قارئینِ کرام کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ اسلام کہ ابتدائی دور میں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیار کردہ بہترین جماعت یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود ہوں اور پھر انہیں کے شاگرد یعنی تابعین کرام رضی اللہ عنہم کا طبقہ بھی موجود ہو جو کہ براہ راست صحابہ کرام سے فیض حاصل کررہا ہو اور چند نام نہاد توحید پرستوں کا ٹولہ اٹھے اور توحید کے پرچار کے زعم میں اس پاکیزہ جماعت پرکفر و شرک کے بے جا فتوے لگانا شروع کر دے آپ ان کی دیدہ دلیری دیکھیے ہٹ دھرمی اور جرات کو دیکھیے اور سر دھنیے ان کی توحید پرستی پر ۔

اب آتے ہیں اصل مدعا پر دیکھا گیا ہے کہ انـٹرنیٹ پر اسی طبقہ کی اکثریت سورہ یوسف کی آیت نمبرایک سو چھ کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے اور یوں زمانہ خیر القرون کے خارجیوں کی طرح یہ آیت جگہ جگہ نقل کرکے آج کہ دور کے مومنین پر چسپاں کرتے ہوئے انھے کافر و مشرک قرار دینے میں دھڑا دھڑ مصروف عمل ہے لہذا یہ لوگ اس کام کو کچھ اس دلجمعی اور سرعت سے انجام دے رہے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑا کار ثواب ہو ۔ تو آئیے محترم قارئینِ کرام اس آیت سے ان کے باطل استدلال کی قلعی کھولیں اور جو مغالطہ دیا جاتا ہے اس کا پردہ چاک کریں لیکن اس سے بھی پہلے ایک بدیہی قاعدہ جان لیں کہ عربی کا مشھور مقولہ ہے کہ {الاشیاء تعرف باضدادھا} یعنی چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں اور ایک قاعدہ یہ بھی ہے اجتماع ضدین محال ہے یعنی دو ایسی اشیاء جو کہ ایک دوسرے کی ضد ہوں ان کا بیک وقت کسی ایک جگہ پایا جانا ناممکن ہے یعنی ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بھی شخص بیک وقت مومن و مسلم بھی ہو اور مشرک و کافر بھی ۔ کیونکہ اسلام اور کفر ضد ہیں اور توحید اور شرک آپس میں ضد ہیں اور ایک شخص مسلم تب بنتا ہے جبکہ وہ توحید پر ایمان لے آئے یعنی اللہ کی واحدانیت پر لہٰذا جب کوئی اللہ کی واحدانیت پر ایمان لے آئے تو تبھی وہ حقیقی مومن ہو گا اور وہ ایک حالت یعنی حالت توحید میں ہو گا اب اسے بیک وقت مومن بھی کہنا اور مشرک بھی کہنا چہ معنیٰ دارد ؟ یا تو وہ مسلم ہو گا یا پھر مشرک دونوں میں کسی ایک حالت پر اس کا ایمان ہو گا اور ایمان معاملہ ہے اصلا دل سے ماننے کا اور یقین رکھنے کا اور پھر اس کے بعد اس کا بڑا رکن ہے زبان سے اقرار ۔ خیر یہ تو تمہید تھی بات کو سمجھانے کی اب آتے ہیں سورہ یوسف کی مزکورہ بالا آیت کی طرف ۔

محترم قارئینِ کرام آپ سورہ یوسف کی اس آیت کی تفسیر میں امہات التفاسیر میں سے کوئی سی بھی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں کہ تقریبا سب مفسرین نے یہ تصریح کی ہے یہ آیت مشرکین مکہ کی بابت نازل ہوئی لہذا ہم بجائے تمام مفسرین کو نقل کرنے کہ فقط اسی ٹولہ کہ ممدوح مفسر یعنی امام حافظ ابن کثیر کی تفسیر نقل کرتے ہیں جو کہ شیخ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ہیں ۔ آپ اپنی تفسیر میں اسی آیت کہ تحت رقم طراز ہیں کہ : وقوله: { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِٱللَّهِ إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ } قال ابن عباس رضی اللہعنہما : من إِيمانهم أنهم إِذا قيل لهم: من خلق السموات، ومن خلق الأرض، ومن خلق الجبال ؟ قالوا : الله، وهم مشركون به. وكذا قال مجاهد وعطاء وعكرمة والشعبي وقتادة والضحاك وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وفي الصحيحين: أن المشركين كانوا يقولون في تلبيتهم: لبيك لا شريك لك، إلا شريكاً هو لك، تملكه وما ملك. وفي صحيح مسلم: أنهم كانوا إِذا قالوا: لبيك لا شريك لك، قال رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : " قد قد " أي: حسب حسب، لا تزيدوا على هذا ۔
مفہوم : آپ دیکھیے محترم قارئینِ کرام کہ امام ابن کثیر نے پہلے اس آیت کی تفسیر میں قول ابن عباس رضی اللہ عنہما نقل کیا ہے کہ ان کا یعنی مشرکین کا ایمان یہ تھا کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان اور پہاڑ کس نے پیدا کیئے ہیں تو وہ کہتے کہ اللہ نے مگر اس کے باوجود وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھراتے ۔ اور اسی طرح کا قول مجاہد ، عطا، عکرمہ ، شعبی ، قتادہ ، ضحاک اور عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رضی اللہ عنہم سے بھی ہے ۔ جبکہ صحیحین میں روایت ہے کہ : مشرکین مکہ حج کہ تلبیہ میں یہ پڑھتے تھے کہ میں حاضر ہوں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ جسے تونے خود شریک بنایا اور تو اسکا بھی مالک ہے اور صحیح مسلم میں مزید یہ ہے کہ جب مشرک ایسا کہتے تو یعنی کہ لبیک لا شریک لک تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے کہ بس بس ،بس اسی قدر کافی ہے اس کہ آگے مت کہو ۔

قارئینِ محترم آپ نے دیکھا کہ اس آیت کا بیک گراؤنڈ کیا تھا اور یہ کیونکر اور کن کے بارے میں نازل ہوئی ؟ تمام مفسرین نے بالاتفاق اس آیت کہ شان نزول میں مشرکین کہ تلبیہ والا واقعہ نقل کرکے اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ کی اکثریت سمیت منافقین مدینہ کی اقلیت تھی کہ جو کہ اس آیت کا حقیقی مصداق بنے، کہ وہی لوگ اس وقت اکثریت میں تھے نہ کہ مسلمان جیسا کہ خود آیت میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی مشرک ہے تو اس وقت جن لوگوں کی اکثریت تھی وہ مشرکین مکہ اور منافقین تھے نہ کہ اس وقت کہ حقیقی مسلمان جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے معاذاللہ اگر آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرستوں کہ کلیہ کہ مطابق اس آیت کا اطلاق کیا جائے تو یہ تہمت اور بہتان سیدھا جاکر صحابہ کرام پر وارد ہوتا ہے کہ آخر اس وقت کون لوگ تھے جو ایمان والے تھے ؟ ظاہر ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت صحابہ کرام رضی اللہعنہم ہی ایمان والے تھے مگر کیا اس آیت کی رو سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت مشرکوں کی تھی نعوذباللہ من ذالک نہیں نہیں ایسا ہرگز نہ تھا بلکہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ یہ آیت درحقیقت مشرکین مکہ اور منافقین کی مذمت میں نازل ہوئی جو کہ حقیقت میں مسلمانوں کہ مقابلہ میں اکثریت میں تھے اور اس آیت میں جو لفظ ایمان آیا ہے یعنی ان مشرکوں کو جو ایمان رکھنے والا کہا گیا تو وہ محض لغوی اعتبار سے ایمان والا کہا گیا ہے نہ کہ شرعی اور حقیقی اعتبار سےکیونکہ وہ لوگ اللہ پاک کی خالقیت اور ربوبیت کا چونکہ اقرار کرتے تھے لہٰذا ان کے اس اقرار کرنے کی باعث ان کے اس اقرار پر صوری اعتبار سے لفظ ایمان کا اطلاق اللہ پاک نے کیا ہے لہٰذا وہ لوگ اللہ کی خالقیت اور رزاقیت اور مالکیت اور ربوبیت کا تو اقرار کرتے تھے مگر اکیلے اللہ کی معبودیت کا اعتراف نہیں کرتے تھے اسی لیے اپنے تلبیہ میں اپنے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا الزام بھی نعوذباللہ من ذالک ۔ اللہ عزوجل کی ذات پر دھرتے تھے کہ تیرا کوئی شریک نہیں اور جن کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ شریک ہمارے لیے تو نے خود بنایا ہے لہٰذا ہم اس کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ تیرے بنانے سے تیرا شریک ہے اور توہی اس کا بھی مالک ہے ۔

جب کہ آج کہ دور میں کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی غیر اللہ کسی نبی ولی یا نیک شخص کی عبادت نہیں کرتا اور نہ ہی زبان سے یہ کہتا ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا پھر فلاں نبی یا ولی تیرے خاص شریک ہیں کہ تو انکا مالک بھی ہے اور تونے انھے ہمارے لیے اپنا شریک خود بنایا ہے نعوذ باللہ من ذالک الخرافات ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العظیم طرفہ تماشا یہ ہے کہ آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرست سورہ یوسف کی اس آیت کو ان معنی میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں کہ ایک مسلمان بھی مشرک ہوسکتا ہے جبکہ ہمارا دعوٰی ہے کہ اگر کوئی کلمہ گو کوئی ایسا اعتقاد رکھے کہ جس سے شرک لازم آتا ہو یعنی اس سے لزوم کفر ثابت ہوتا ہو تو اس کلمہ گو کو اس کے اس اعتقاد کی لزومیت کفر سے آگاہ کیا جائے اگر پھر بھی وہ اس پر اڑا رہے اور اپنے اس کفر پر التزام برتے تو اس کا یہ کفرلزوم سے نکل التزام کفر کے معنی میں داخل ہوکر اس معین شخص کو دائرہ اسلام سے خارج کردئے گا پھر اسے کافر یا مشرک یا پھر مرتد کہیں گے نہ کہ بیک وقت مسلمان بھی اور مشرک بھی اور یہ ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ جس سے ادنٰی سی عقل رکھنے والا انسان بھی واقف ہوگا چناچہ اسی بات کو مشہور غیرمقلد وہابی محقق حامد کمال الدین نے اپنی کتاب نواقضِ اسلام میں کچھ یوں واضح کیا ہے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ : یہاں ”کلمہ گو“ والی غلط فہمی کا ازالہ ایک بار پھر ضروری ہے ۔ نواقضِ اسلام کہتے ہی ان باتوں کو ہیں جو کسی شخص کو اسلام سے خارج کر دیں یعنی کلمہ گو کو کلمہ گو نہ رہنے دیں ۔ نواقضِ اسلام ہیں ہی وہ باتیں جو آدمی کے کلمہ گو ہونے کو کالعدم کر دیں ۔ نواقضِ اسلام کسی کافر کو اسلام سے خارج کرنے والی باتوں کو نہیں کہا جاتا ! بلکہ نواقضِ اسلام تو عین وہ باتیں ہیں جو کسی ”کلمہ گو“ کو کافر قرار دینے کےلیے علماءاور ائمہ نے بیان کی ہیں ۔ پس یہ بات جان لینے کے بعد اس امر کی گنجائش نہیں رہتی کہ آپ کسی کلمہ پڑھنے والے شخص کو طاغوت کی مسند پر دیکھیں یا کسی قبر کو سجدہ کرتے ہوئے پائیں تو اسے ”بہرحال مسلمان“ کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہوں، کیونکہ وہ آپ کے خیال میں کلمہ پڑھتا ہے ۔ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ : برصغیر کے بعض موحد حلقوں میں __کسی شخص کو ’مشرک‘ تو نسبتاً بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے (کسی کو ایک خاص فرقے کی مسجد میں محض آتے جاتے بھی دیکھ لیا تو جھٹ سے ”مشرک“ کہہ ڈالا!) مگر جب اس کو ”کافر“ کہنے کا سوال آئے تو تب یہ لوگ ’محتاط‘ ہونا ضروری سمجھتے ہیں! حالانکہ ان دونوں باتوں کے لئے ایک ہی درجہ کی احتیاط لازم ہے ، کیونکہ یہ دونوں باتیں دراصل لازم وملزوم ہیں۔ جتنا کسی کو ”کافر“ قرار دینا خطرناک ہے اتنا ہی اُس کو ”مشرک“ قرار دینا خطرناک ہے۔ ہر دو کی سنگینی ایک سی ہے۔ یہ عجیب ماجرا ہے کہ ہمارے ایک خاص طبقے کے ہاں کسی شخص کو ’مشرک‘ کہہ دینے میں کسی ”احتیاط“ یا کسی ”توقف“ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ تمام کی تمام احتیاط یہ لوگ اس ”مشرک“ کو ”کافر“ سمجھنے کےلیے پس انداز رکھتے ہیں ! جبکہ معاملہ یہ ہے کہ احتیاط دراصل پہلا قدم اٹھانے کے وقت ہی درکار ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ہر وہ شخص جس سے شرک کے زمرے میں آنے والا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فوراً مشرک نہیں کہہ دیا جائے گا ۔ ہر وہ شخص جس سے کفر کا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فی الفور کافر نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے فسق کا کوئی کام سرزد ہو اُس کو معاً فاسق اور جس سے بدعت کا کوئی کام ہو اس کو جھٹ سے بدعتی نہیں کہہ دیاجائے گا۔ حکمِ مطلق بیان کرنا (کہ فلاں اعتقاد یا فلاں رویہ رکھنے والے شخص کا شریعت کے اندر یہ حکم ہے ایک چیز ہے اور اُس کو بنیاد بنا کر کسی متعین شخص پر وہ فتویٰ لگا دینا ایک اور چیز۔ کسی شخص کے ایسے فعل کی بنا پرجو ہمارے نزدیک شرک کے زمرے میں آتا ہے ، اس کو مشرک قرار دینے کی کچھ شروط ہیں : وہ اپنے اس فعل کا مطلب جانتا ہو ۔ اس پر حجت قائم کر دی گئی ہو ۔ اس کی لاعلمی یا شبہات واشکالات اور تاویلات کا علمی انداز سے ازالہ کر دیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ ۔ چنانچہ جتنی احتیاط ہو سکے وہ یہیں پر ، یعنی کسی کو مشرک قرار دیتے وقت ، کی جانا ہوتی ہے ۔ ’توقف‘ کا اصل مقام یہ ہے ۔ لیکن اگر اس سے گزر جانے کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور آپ اُس شخص کو ”مشرک“ ہی قرار دے ڈالتے ہیں تو اس کے بعد یہ کہنا کہ یہ شخص ”مشرک“ تو ہو گیا ہے مگر ہے یہ ”مسلمان“، البتہ ایک مضحکہ خیز امر ہے۔ حق یہ ہے کہ جب آپ نے کسی کو ”مشرک“ کہہ ڈالا تو اُس کو ”کافر“ کہنے میں آپ نے کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی۔ ”احتیاط“ ضروری ہے تو وہ اُس کو مشرک کہتے وقت ہی کر لیا کریں۔ ”شرکِ اکبر“ کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور ابدی جہنم کا مستحق۔ اس غلط فہمی کے باعث لوگوں میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ سب مشرک کافر نہیں ہوتے ! گویا بعض مشرک مسلمان ہوتے ہیں اور بعض مشرک کافر! اصل قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ کلمہ گو شخص جو شرک کے زمرے میں آنے والے کسی فعل میں پڑ جائے اس کو تب تک مشرک نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اہلِ علم کے ہاتھوں اس پر حجت قائم نہ ہو جائے اور اس پر مشرک ہونے کا باقاعدہ حکم نہ لگا دیا جائے ۔ جب تک یہ نہیں ہوجاتا اس کے اس شرکیہ فعل کو شرک تو برملا کہا جائے گا اور اس شرک سے اس کو روکا بھی ضرور جائے گا مگر اس شخص کو ”مشرک“ کہنے سے احتیاط برتی جائے گی ۔ البتہ جب وہ شرعی قواعد وضوابط کی رو سے اہلِ علم کے ہاتھوں مشرک ہی قرار دے دیا جائے تو اس وقت وہ دائرۂ اسلام سے خارج بھی شمار ہو گا ۔

آج کے نام نہاد توحید پرستوں کا المیہ یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح روایات پیش کی جاتی ہیں کہ جن کے مفہوم کہ مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی امت کے جمہور یا پھر من حیث المجموع ، امت پر شرک جلی کا کوئی خطرہ نہ تھا تو یہ نام نہاد توحید پرست آج کہ دور کے مومنین کی اکثریت کو مشرک ثابت کرنے کےلیے پھر سورہ یوسف کی زیر بحث آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ ان لکیر کے فقیروں کے فہم کے مطابق ایک تو اس آیت میں لفظ مومن آیا ہے اور دوسرا کثیر لہٰذا ثابت ہوا کہ آج کہ دور کے جو اکثر مومن ہیں وہ لازما مشرک بھی ٹھرے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کس قدر بھونڈا استدلال ہے یہ ، اور یہی چیز ہم نے اوپر بھی واضح کی کہ آیت میں اگرچہ لفظ مومن آیا ہے مگر وہ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ صوری اور عرفی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور آیت کا شان نزول میں مفسرین نے تینون طبقات کا یعنی مشرکین مکہ ، منافقین مدینہ اور اہل کتاب یہود و نصارٰی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے بحرحال مزکورہ بالا تینوں طبقات میں کسی ایک کو یا پھر تینوں کومشترکہ طور پر بھی اگر اس آیت کے شان نزول کا مصداق مان لیا جائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ آیت بحرحال اس وقت کے حقیقی مومنین کے حق میں ہرگز نازل نہیں ہوئی اور اسی چیز کو ہم نے اوپر واضح کیا ۔

اعتراض : جو لوگ ایمان لا کر اپنے ایمان میں ظلم کو شامل نہیں کرتے ان کے لئے امن اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ (سورہ الانعام ٨٢) ۔ جب یہ ایت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ وہ کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہے ہوگا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے نیک بندے (لقمان رضی اللہ عنہ) کا قول نہیں سنا کہ اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک ظلم عظیم ہے ۔ (بخاری کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم رقم ٣٢، ٤٧٧٦)
ازالہ اعتراض : سورہ انعام کی اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ ایک مسلمان مسلم ہوتے ہوئے بھی شرک کی آمیزش سے خود کو آلود کرسکتا ہے اور ایسا کرچکنے کہ بعد بھی وہ مسلم ہی کہلواتا ہے درست نہیں کیونکہ جب آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام گھبرا گئے اور انھوں نے لفظ ظلم کا حقیقی و معروف معنی مراد لیا جو کہ کمی و ذیادتی پر دلالت کرتا ہے چناچہ انھوں نے گھبرا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں سے کون ہوگا کہ جس سے کبھی نہ کبھی کسی دوسرے کہ حق میں کوئی کمی و بیشی نہ ہوئی ہوگی ؟ تو کیا ہمارے تمام اعمال ضائع گئے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیہ کہ حقیقی معنی ان پر واضح کرنے کےلیے سورہ لقمان کی آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد معروف معنوں والا ظلم نہیں بلکہ شرک ہے آیت کی یہ تفسیر سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بے قرار دلوں کو چین میسر ہوا ۔ اس آیت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے تنبیہ نہیں بلکہ مژدہ جانفزا تھا کہ ظلم تو حقیقی طور پر ان لوگوں کا ہے کہ جو شرک کرتے ہیں جبکہ تم لوگ تو شرک سے تائب ہوکر پکے سچے مومن ہو ۔

اعتراض : فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق مسلمان جب تک شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی حدیث پیش ہے “" قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے چند قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کر لیں (ابوداود کتاب الفتن باب ذکرہ الفتن رقم ٤٢٥٢)
ازالہ اعتراض : معترضین کی پیش کردہ اس روایت کی وضاحت میں جواباً عرض ہے کہ : امت مسلمہ کی یہ ایمانی عظمت اب بھی برقرار ہے عقیدہ توحید باقی ہے ۔ لیکن چمک میں فرق آنے لگا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی حقیقت خود بیان فرمائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں خدا کی قسم تمہارے بارے میں خطرہ محسوس نہیں کرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم کہیں دنیا کی محبت میں ڈوب نہ جاٶ ۔ (بخاری شریف حدیث نمبر ۱۳۴۴)(مسلم شریف حدیث نمبر ۲۲۹۶)

حضرت عبادہ بن نُسَیّ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی جائے نماز میں داخل ہوا تو وہ رو رہے تھے میں نے پوچھا اے ابو عبدالرحمن رونے کی وجہ کیا ہے ؟ تو حضرت شداد نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے ایک حدیث سنی تھی اس کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ میں نے کہا وہ کونسی حدیث ہے انہوں نے کہا اس دوران کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ایسی کیفیت ملاحظہ کی جس سے میں غمگین ہوا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے والدین آپ پر قربان ہو جائیں آپ کے چہرہ مبارک پر میں کیسی کیفیت دیکھ رہا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک امر کی وجہ سے میں رنجیدہ ہوں جس کا مجھے میرے بعد اپنی امت پرخطرہ ہے ۔ میں نے کہا وہ کونسا امر ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ شرک اور شھوت خفیہ ہے حضرت شداد کہتے ہیں میں نے کہا کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خبردار میری امت کے لوگ نہ سورج کی عبادت کریں گے نہ چاند کی نہ کسی بت کی عبادت کریں گے اور نہ ہی کسی پتھر کی لیکن اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کےلیے ریاکاری کریں گے ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ریا شرک ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں ریا شرک ہے میں نے کہا شہوت خفیہ کیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے صبح کے وقت روزے کی حالت میں ہوگا اسے دنیا کی شھوتوں میں سے کوئی شھوت عارض ہو جائے گی تو وہ روزہ توڑ دے گا ۔ (مستدرک للحاکم جلد نمبر۵ ،ص۴۷۰، کتاب الرقاق، باب الشھوۃ الخفیہ ،حدیث نمبر۸۰۱۰ ، مطبوعہ دارالمعرفۃ،چشتی)(مسند امام احمد جلد نمبر۵، ص۸۳۵ حدیث نمبر۱۷۲۵۰ ،مطبوعہ عالم الکتب)(ابن ماجہ کتاب الزھد باب الریا والسمعہ، حدیث نمبر۴۲۰۵)(بیہقی شعب ایمان ،باب فی اخلاص العمل و ترک الریا ، جلد نمبر۵، ص۳۳۳ ، حدیث نمبر۶۸۳۰ ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)(حلیہ الاولیا جلد نمبر۱،ص۲۴۷،مطبوعہ دارا احیاء التراث العربی) ۔ امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔

حضرت عبدالرحمن بن غنم کہتے ہیں میں حضرت ابو درداء اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے کہ حضرت شداد بن اوس اورحضرت عوف بن مالک تشریف لے آئے اور فرمایا اے لوگو میں نے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے اس کی وجہ سے مجھے تجھ پر شھوت خفیہ اور شرک کا بہت زیادہ خطرہ ہے ۔ حضرت عبادہ اور حضرت ابو درداء نے کہا اللہ معاف کرے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ ارشاد نہیں فرمایا : شیطان مایوس ہو گیا ہے کہ جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے ۔ جہاں تک شھوت خفیہ کا تعلق ہے ۔ اسے ہم جانتے ہیں وہ دنیا اور عورتوں کی خواہش ہے ۔ اے شداد جس شرک سے آپ ہمیں ڈرار ہے ہیں یہ شرک کیا ہے۔ حضرت شداد نے کہا تم خود ہی مجھے بتا ئو جس نے کسی بندے کےلیے دکھلاوا کرتے ہوئے نماز پڑھی یا روزہ رکھا یا صدقہ کیا ۔ کیا اس نے شرک کیا ؟ حضرت عبادہ اور حضرت ابو دردا نے کہا ہاں حضرت شداد نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جس نے ریاکاری کرتے ہوئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے ریا کرتے ہوئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کرتے ہوئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا ۔ (سیر اعلام النبلاء للذھبی جلد نمبر۴،ص۹۵،مطبوعہ دارالفکر)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس انداز میں شرک کی جڑیں کاٹیں کہ ہمیشہ کےلیے اسے ختم کر دیا چنانچہ شیطان کو یہ مایوسی صرف جزیرہ عرب کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لحاظ سے ہوئی ملاحظہ ہو :حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شیطان مایوس ہو گیا ہے کہ نمازی اسکی بندگی کریں ۔ (البدایہ ابن کثیر جلد نمبر 1 صفحہ ۶۶ مطبوعہ دارالمعرفۃ،چشتی)

اس مضمون کی موید اور بھی متعدد احادیث ہیں ۔ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے اس امت کا کلمہ توحید پر یقین اتنا دیرپا ہے کہ جب نماز روزہ کا نام بھی باقی نہیں رہے گا یہ کلمہ اس وقت بھی ہوگا اور اس وقت بھی معتبر ہوگا، چنانچہ اس امت میں پہلے عمل میں کمزوری واقع ہو گی عقیدہ توحید بعد میں باقی رہے گا ۔ امت جس مرحلہ سے گذر رہی ہے یہ امت کے شرک جلی (بت پرستی) میں مبتلا ہونے کا مرحلہ نہیں بلکہ شرک خفی ریا کاری اور دنیا میں رغبت کا مرحلہ ہے ۔

ایک حدیث شریف میں جو کچھ قبائل کے مشرک ہو جانے کا ذکر ہے وہ بعد کامعاملہ ہے ۔ پڑھیے : ⏬

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ نہیں جانا جائے گا روزہ کیا ہے صدقہ کیا ہے اور قربانی کیا ہے ؟ ایک ہی رات میں کتاب اللہ غائب ہو جائے گی زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی لوگوں کے کچھ طبقے باقی رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لا الہ الا اللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہہ رہے ہیں ۔ حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہما سے کہا جب انہیں نماز روزہ صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہوگا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے گا ؟ حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا اے صلہ یہ کلمہ ان کو نارجھنم سے نجات دے گا ۔ تین مرتبہ یہ کہا ۔ (مستدرک للحا کم جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۶۶۶ حدیث نمبر ۸۵۰۸،چشتی)(سنن ابن ماجہ ، باب ذھا ب القرآن والعلم حد یث نمبر ۴۰۴۹)(النہایہ فی الفتن لا بن کثیر جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۰)

امام حاکم علیہ الرحمہ نے کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے اس حدیث شریف میں جن حا لات کا ذکر کیا گیا ہے ابھی وہ حالات یقینا نہیں آئے ، ابھی تو نما زیو ں سے مسجد یں بھر ی ہو ئی ہیں روزے دار روزہ رکھتے ہیں آج کے حا لات کے مقابلے میں وہ حالات کتنے برے ہو نگے جب نماز روزے کا نا م بھی بھول جائے گا مگر کلمہ اسلام پھر بھی نہیں بھولا ہوگا ۔ اس وقت کے کمزور ترین مومن کا بھی کلمہ معتبر ہوگا ،چنانچہ آج کے مسلما نوں پر تھوک کے لحا ظ سے فتوی شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ جن کے کلمہ کو غیر معتبر قراردے دیا جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرک جلی کا امکان نہیں امکا ن توخدائی کے جھوٹے دعوے کا بھی ہے (معاذاللہ) جب کوئی جھوٹا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں خود اللہ ہوں (معا ذاللہ) اس کا رب ذوالجلا ل کے علاوہ کسی اور کو معبود مان کر شرک کرنے کا امکا ن موجود ہے لیکن امت میں ہر طرف پھیل جا نے والا شرک وہ شرک خفی ہے ۔ ریا کا ری ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس امت نے خاتم النبین حضر ت محمد مصطفےَصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرادینے کا حق ادا کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی کی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کر سکی اور اس معنی میں شرک فی الرسالت کا مقابلہ کیا ہے وہ امت سید المر سلین حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معبوث کرنے والی ذات اللہ وحدہ لاشریک کے بارے میں شرک کو کیسے برداشت کر سکتی ہے جن کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ان کے نزدیک ازلی ابدی حی قیوم اللہ کے ہوتے ہوئے کو ئی اور اللہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ ویسے بھی جب تک قرآن موجو دہے شرک جلی کے امت میں پنپنے کی کوئی گنجا ئش نہیں ہے ۔ پہلی امتو ں میں جو بد عملی تھی اس کا اس امت میں آجا نا معاذاللہ ایک اور امر ہے مگر پہلی امتو ں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں آنا یہ ہر گزنہیں ہے ان امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پا ک ہے ۔ ان امتو ں میں ایسا بگاڑ جو آیا تو اصلاح کےلیے نبوت کا دروازہ کھلا تھا ۔ مگر یہ امت آخری امت ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ چنا نچہ پہلی امتو ں جیسی شر ک کی بیما ری اس امت کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ اگر تھوک کے لحا ظ سے اس امت میں شرک آجانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا بلکہ کچھ لوگو ں کے بقو ل ’’ آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شر ک مسلما نو ںمیں پایا گیا ہے ‘‘ تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھو ٹے مشرکین کے خلاف جہاد کےلیے نہ بھیجا جاتا بلکہ بڑے مشرکین کے زما نے میں معبوث کیا جا تا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہا یت گھمبیر شرک کے زمانے میں مبعوث کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرک کی جڑیں ہمیشہ کےلیے کاٹ دیں اور اپنی امت کی ریا کاری ، دنیا کی رغبت اور شہوت خفیہ کو شدید فتنہ قرار دیا امت کو شرکیہ امور سے ڈرانا ضرور چاہیے تا کہ کہیں جزوی طور پر بھی امکا نی صورت واقع میں نہ پائی جاسکے مگر توسل ، تبرک کا عقیدہ رکھنے والوں پر اور مزارات اولیاء اللہ علیہم الرحمہ پر حا ضری دینے والوں پر شرک کا فتوی بہت بڑا ظلم بھی ہے اور ملت میں انتشار کا باعث بھی ہے ۔

احادیث کریمہ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ امت مسلمہ کا شرک جلی میں پڑنے کا کوئی خطرہ نہیں، اب مزید ایک حدیث اس حوالے سے پیش کی جائے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو جام توحید پلایا اس کا خمار کب تک باقی رہے گا ؟

عن حذیفہ رضی اللہ عنہ قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : یدرس الاسلام کما یدرس و شی الثوب حتی لا یدری ما صیام و لا صدقۃ ولا نسک ، س یسری علی کتاب اللہ فی لیلۃ فلا یبقی فی الارض منہ ایۃ ، و یبقی طوائف من الناس الشیخ الکبیر والعجوز الکبیرۃ یقولون ادرکنا اباءنا علی ھذہ الکلمۃ لا الہ الا اللہ فنحن نقولھا ۔ قال صلۃ بن زفر لحذیفۃ : فما تغنی عنھم لا الہ الا اللہ و ھم لا یدرون ما صیام و لا صدقۃ و لا نسک؟
فاعرض عنہ حذیفۃ فرددھا علیہ ثلاثا ، کل ذلک یعرض عنہ حذیفۃ ثم اقبل علیہ فی الثالثتہ فقال: یا صلۃ تنجیھم من النار ۔ ( مستدرک للحاکم جلد ۵ ص ۶۶۹ حدیث نمبر ۸۵۰۸ ، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۴۰۴۹ ، کتاب النہایہ فی الفتن لابن کثیر جلد ۱ صفحہ ۳۰،چشتی)
ترجمہ : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں ، یہاں تک کہ یہ نہیں جانا جائے گا ، روزہ کیا ہے ؟ صدقہ کیا ہے؟ اور قربانی کیا ہے؟ ایک ہی رات میں کتاب اللہ غائب ہو جائے گی ، زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی لوگوں کے کچھ طبقے رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ، ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لاالہ الااللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہہ رہے ہیں ۔

حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا جب انہیں نماز روزہ صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہو گا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے گا ؟

حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا، اے صلہ یہ کلمہ ان کو نار جہنم سے نجات دے گا۔امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اس حدیث شریف میں جن حالات کا ذکر کیا گیا ہے ابھی وہ حالات نہیں آئے ہیں ، ابھی تو نمازیوں سے مساجد بھری ہیں ، روزے دار روزے رکھتے ہیں آج کے حالات کے مقابلے میں وہ حالات کتنے برے ہوں گے جب نماز روزے کا نام بھی بھول جائے گا مگر کلمہ اسلام پھر بھی نہیں بھولا ہو گا ۔ اس وقت کے کمزور ترین مومن کا کلمہ بھی معتبر ہو گا ، چنانچہ آج کے مسلمانوں پر تھوک یعنی ہول سیل کے لحاظ سے فتوی شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ جن کے کلمہ کو غیر معتبر قرار دے دیا جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرک جلی کا امکان نہیں امکان تو خدائی کے جھوٹے دعویٰ کا بھی ہے ۔ معاذ اللہ ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس امت نے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرا دینے کا حق ادا کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کر سکی اور اس معنی میں شرک فی الرسالت کا مقابلہ کیا ہے ، وہ امت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کرنے والی ذات وحدہ لاشریک لہ کے بارے میں شرک کیسے برداشت کر سکتی ہے ؟

ویسے بھی جب تک قرآ ن مجید امت کے پاس موجود ہے شرک جلی کا امت میں اگرچہ امکان ہے مگر پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ مگر امکان تو معاذ اللہ یہ بھی ہے کہ کوئی الہ ہونے کا دعویٰ کر دے لیکن اس امکان کی بنیاد پر یہ درست نہیں ہے کہ امت پر یہ الزام لگایا جائے کہ یہ امت خدائی کی دعویدار ہے معاذ اللہ ایسا اگر کسی نے دعویٰ کیا تو فوراً امت سے نکل جائے گا ایسے ہی شرک جلی کی امکانی صورت اگر واقع میں پائی گئی تو ایسا نہیں ہو گا وہ امت دعوت میں بھی رہے اور مشرک بھی ہو بلکہ فوراً امت سے نکل جائے گا ، پہلی امتوں میں جو بدعملی تھی اس کا اس امت میں آجانا معاذ اللہ ایک اور امر ہے مگر پہلی امتوں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں شرک آنا ہر گز نہیں ہے ، ان امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پاک ہے ، ان امتوں میں بگاڑ آیا تو انبیا ء کرام مبعوث ہوتے رہے لیکن اب کوئی نبی نہیں آنا ، اور یہ امت آخری امت ہے لہٰذا پہلی امتوں جیسی شرک کی بیماری اس امت کا مسئلہ نہیں ہے اگر تھوک یعنی ہول سیل کے لحاظ سے اس امت میں شرک آ جانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا ، افسوس ہے کچھ لوگوں کے بقول " آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شرک مسلمانوں میں پایا گیا ہے ۔ الامان والحفیظ ۔ خلاصہ کلام یہ کہ یہ امت ، امتِ توحید ہے اور شرک میں پڑنا اس امت کا مسئلہ نہیں ہے ۔


مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا : جیسا کہ آپ جانتے ہیں آج کل خارجی فتہ کی طرف سے ہر وقت مسلمانان اہلسنت پر شرک اور مشرک کے فتوے بلا سوچے سمجھے جڑ دیے جاتے ہیں ۔ حدیثِ مبارکہ پڑھتے ہیں یاد رہے اس حدیث پاک کی اسناد کو آئمہ حدیث علیہم الرحمہ نے حسن اور جیّد قرار دیا ہے ۔ اللہ عزوجل خارجی فتنہ کے شر و فساد سے مسلمانوں کو بچائے آمین ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان مما اخاف علیکم رجل قرأالقراٰن حتی اذا روئیت بہجتہٗ علیہ وکان ردائہ الاسلام اعتراہ الی ماشآء اللہ انسلخ منہ ونبذہ وراء ظھرہ وسعٰی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک قال قلت یانبی اللہ ایھما اولیٰ بالشرک المرمی اوالرامی ؟ قال بل الرامی ۔
ترجمہ : یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی ، اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہو گا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ، پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا ، راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں میں شرک کا حقدار کون ہو گا ؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا : فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) ۔ یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا ، اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا ۔ اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے پارہ نمبر ۹ سورۃ الاعراف ،آیت نمبر ۱۷۵ ، یعنی واتل علیہم نبأالذی اٰتینا ہ آیاتنا فانسلخ منھا … آلایۃ ۔ کی تفسیر میں نقل کیا اور لکھا ہے : ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید ، عمدہ اور کھری ہے ۔ (تفسیرابن کثیر جلد ۲ صفحہ ۲۶۵ امجد اکیڈمی لاہور)(تفسیر ابن کثیر جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۲۶۵ دارالفکر بیروت) ۔ علاوہ ازیں یہ حدیث ان کتب میں بھی موجود ہے ۔ (مختصر تفسیر ابن کثیر جلد ۲ صفحہ ۶۶)(مسند ابو یعلی موصلی)( تفسیر ابن کثیر جلد ۲ صفحہ ۲۶۵)(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان جلد ۱ صفحہ ۱۴۹ برقم ۱۸)(صحیح ابن حبان للبلبان جلد اول صفحہ ۲۴۸ برقم ۸۱ بیروت)(المعجم الکبیر للطبرانی جلد ۲۰ صفحہ۸۸ برقم ۱۶۹ ،بیروت)(شرح مشکل الآثار للطحاوی، جلد۲ صفحہ۳۲۴ برقم ۸۶۵، بیروت)(مسند الشامیین للطبرانی ، جلد۲صفحہ۲۵۴برقم ۱۲۹۱، بیروت،چشتی)(کشف الاستارعن زوائد البزار للہیثمی جلد۱صفحہ۹۹ برقم ۱۷۵، بیروت)(جامع المسانید والسنن ،لابن کثیر جلد۳صفحہ۳۵۳،۳۵۴ برقم ۱۸۴۲، بیروت)(جامع الاحادیث الکبیر،للسیوطی جلد۳صفحہ۱۲۱ برقم ۸۱۳۲،بیروت)(کنزالعمال،للمتقی ہندی جلد۳صفحہ۸۷۲ برقم ۸۹۸۵)(ناصر الدین البانی غیر مقلد سلفی وہابی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ دیکھیے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم الحدیث ۳۲۰۱۔ ۱۴)(کتاب المعرفۃ والتاریخ للفسوی جلد۲ صفحہ نمبر ۳۵۸)

ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں کو مشرک کہنے والا بذات خود مشرک ہے ۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی مسلمان کی طرف کفر ، شرک اور بے ایمانی کی نسبت کرنے سے قائل خود ان چیزوں کا حقدار ہوجاتا ہے ۔ مثلاً : ⏬

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : من کفر مسلما فقد کفر ۔
ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہوگیا ۔ (مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۲۳)

مزید فرمایا : من دعا رجلا بالکفر اوقال عد وا للہ ولیس کذلک الا حار علیہ ۔
ترجمہ : جس نے کسی (مسلمان) شخص کو کافر یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہا اور وہ ایسا نہیں تھا تو یہ (باتیں) خود اس کی طرف لوٹ جائیں گی ۔ یعنی وہ خود کافر اور بے ایمان ہو جائے گا ۔ (مسلم جلد ۱ صفحہ ۵۷)(مشکوٰۃ صفحہ ۴۱۱)

مزید ارشاد فرمایا : اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہٖ احدھما ۔
ترجمہ : جس نے اپنے (مسلمان) بھائی کو کہا : اے کافر ۔ تو یہ کلمہ دونوں میں سے کوئی ایک لے کر اٹھے گا ۔ (بخاری جلد ۲ صفحہ ۹۰۱)(واللفظ لہٗ مسلم جلد ۱ صفحہ ۵۷)

یعنی اگر کہنے والا سچا ہے تو دوسرا کافر ہوگا ورنہ کہنے والا خود کافر ہو جائے گا ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : من اکفر اخاہ بغیر تاویل فھو کما قال ۔
ترجمہ : جس نے بغیر تاویل کے اپنے (اسلامی) بھائی کو کافر قرار دیا تو وہ خود کافر ہوجائے گا ۔ (بخاری جلد۲ صفحہ۹۰۱،چشتی)

واضح ہو گیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر و مشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک بننا ہے ۔ العیاذباللہ تعالیٰ ۔ اے بات بات پر مسلمانانِ اہلسنت کو اپنی جہالت کی وجہ سے کافر و مشرک کہنے والو اپنے ایمان کی فکر کرو کہیں تم خود کافر و مشرک تو نہیں ہو چکے ہو ، بغیر کفر و شرک ثابت کیے کسی مسلمان کو کافر کہنے والو سوچو ۔

بلا سوچے سمجھے شرک و کفر کے فتوے

محترم قارئینِ کرام : کسی مسلمان کو کافر قرار دینا ایک شرعی مسئلہ ہے ، اور ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے ، لہٰذا اس میں احکام الٰہی و فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اساس بنایا جائے گا ، جس طرح شرعی احکامات ، دینی واجبات وفرائض اور حلال وحرام کا مصدر و محور اللہ عزّ و جل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں جیسا کہ فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے : فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلاَلٍ فَأَحِلُّوهُ ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ ، أَلاَ وَإِنَّ مَا حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم كما حرم الله ۔ (رواه أبو داؤد : 4604)
ترجمہ : جو چیز بزبان قرآن حلال ملے اسے حلال جانو ، اور جو حرام ملے اسے حرام مانو ، اور خبردار ! جس چیز کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) نے حرام قرار دے دیا اس کی حیثیت بھی اللہ کے حرام کردہ امور جیسی ہے ۔

بعینہ اسی طرح تکفیر میں اللہ عزّ و جل و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی مرجع ہیں ، کیونکہ جس جس قول وفعل کو کفر کہا گیا ہے ، ضروری نہیں کہ وہ سبھی خروج از ملت کے موجب کفرِ اکبر کے زمرے میں شمار ہوتے ہوں ۔

فتوائے کفر میں اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مرجع قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ کسی مسلم کو ہم تب تک کافر نہ کہیں جب تک اس کے کفر پر کتاب وسنت اور اجماع امت سے ایسی صریح اور واضح دلیل نہ ملے کہ جس میں دیگر احتمال کا امکان باقی نہ ہو ۔ اس مسئلہ میں وہم و گمان ، شبہات ، اندازوں اور خیالی دعووں کو کبھی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا ، اور بغیر قطعی الثبوت اور صریح الدلالت واضح دلائل کے اس پر زبان کھولنا گھمبیر اور انتہائی خطر ناک مسائل سے دو چار کر دے گا ۔

اور یہ بھی باور کراتے چلیں کہ شبہ موجود ہوتو شرعی حد تک نہیں نافذ کی جاتی ، جبکہ اس کی مخالفت پر مرتب نتائج ، کسی مسلم کو کافر قرار دے دینے کے نتائج سے کہیں کم سنگین ہیں ۔ لہٰذا ایمان کا شائبہ بھی موجود ہو تو دعوائے تکفیر سے گریز رکھنا زیادہ ضروری ہونا چاہیے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو بلا دلیل کافر کہنے سے منع فرمایا : حدیث مبارک ہے کہ : أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لأَخِيهِ يَا كَافِرُ. فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ وَإِلاَّ رَجَعَتْ عَلَيْهِ ۔ (صحيح مسلم ـ (1/ 56،چشتی)
ترجمہ : جب کوئی شخص دوسرے کو ’’کافر‘‘ کہتاہے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک اس کا مستوجب ضرور ہوگا ، اگر تو مخاطب کافر ہے تو ٹھیک ورنہ کہنے والا کافر ٹھہرتا ہے ۔

بلا سوچے سمجھے ، بات ، بے بات دوسروں کو کافر کہے جانا نہایت سنگین نتائج کو جنم دیتاہے ، مثلاً : دوسروں کے جان ومال کے درپے رہنا ، ہنگامے اور قتل وغارت ، ملی املاک کا ضیاع ، نکاح کا فسخ ہوجانا ، سلام و کلام ترک کردینے کے باعث باہمی نفرت و انتشار اور قطع رحمیاں، حتیٰ کہ دینی ارتداد تک بات جا پہنچتی ہے ، بھلا چند شبہات کی بناپر امت کو ایسے سنگین نتائج کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے ؟

مشرک کون ؟ شرک کے فتوے لگانے والوں کےلیے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مجھےتم پراس شخص کا خوف ہے جو قرآن پڑھے گا جب اس پر قرآن کی رونق آجائے گی اور اسلام کی چادر اس نے اوڑھ لی ہوگی تو اسے الله جدھر چاہےگا بہکا دے گا وہ اسلام کی چادر سے نکل جائے گا اور اسے پس پشت ڈال دے گا اور اپنے پڑوسی پر تلوار چلانا شروع کریگا اور اس پر شرک کے طعنے لگائے گاعرض کی گئی شرک کا زیادہ حقدار کون ہوگا ؟ ارشاد ہوا شرک کے طعنے مارنے والا شرک کا زیادہ حقدار ہوگا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 265 مطبوعہ مصر،چشتی)

جو حدیث بیان کی ہے اس کے راوی حضرت حذیفہ بن یمان رضى الله تعالى عنه ہیں اور حدیث پاک سورہ اعراف کی آیت 175 کے تحت ہے محدث ابن کثیر مزید فرماتے ہیں اس حدیث کی اسناد جید ہیں اور اس کی سند میں صلحت بن بہرام کوفی ثقہ راوی ہے جسے امام المحدیثین امام احمد بن حنبل عليه الرحمہ اور امام بخاری عليه الرحمہ کے استاذ امام یحیی بن معین عليه الرحمہ نے ثقہ کہا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 271)

خارجیوں کے مسلمانوں پر شرک کے فتوے : ⏬

بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی یہ روایت پڑھیں ۔ میں نےاسکے دیگرحوالہ جات بھی دے دیئے ہیں ۔ اسکے بعد قرآن مجید کھولیں وہ آیات پڑھیں اپنےعقیدے و عمل پرغور کریں اورصحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بعد آنیوالے اس کی شرح کرنیوالوں تمام پر اپنے احکامات لاگو کریں ۔ روایت یہ ہے : ⬇

وَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي ﷲ عنهما يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، وَقَالَ : إِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلَي آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ.وقال العسقلاني في الفتح : وصله الطبري في مسند علي من تهذيب الآثار من طريق بکير بن عبد ﷲ بن الأشج : أَنَّهُ سَأَلَ نَافِعًا کَيْفَ کَانَ رَأَي ابْنُ عُمَرَ فِي الْحَرُوْرِيَةِ ؟ قَالَ : کَانَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، انْطَلَقُوْا إِلَي آيَاتِ الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا فِي الْمُؤْمِنِيْنَ ۔ (أخرج البخاري في صحيحه في ترجمة الباب : قَوْلُ ﷲِ تَعَالَي : وَمَا کَانَ ﷲُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّي يُبَيِنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُوْنَ ۔ (التوبة، 9 : 115)
قلت : وسنده صحيح، وقد ثبت في الحديث الصحيح المرفوع عند مسلم من حديث أبي ذر رضي الله عنه في وصف الخوارج : هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. وعند أحمد بسند جيد عن أنس مرفوعًا مثله.وعند البزار من طريق الشعبي عَنْ عَاءِشَةَ رضي ﷲ عنها قَالَتْ : ذَکَرَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْخَوَارِجَ فَقَالَ : هُمْ شِرَارُ أُمَّتِي يَقْتُلُهُمْ خِيَارُ أُمَّتِي. وسنده حسن.وعند الطبراني من هذا الوجه مرفوعا : هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ يَقْتُلُهُمْ خَيْرُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. وفي حديث أبي سعيد رضي الله عنه عند أحمد : هُمْ شَرُّ الْبَرِيَةِ.وفي رواية عبيد ﷲ بن أبي رافع عن علي رضي الله عنه عند مسلم : مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ ﷲِ إِلَيْهِ.وفي حديث عبد ﷲ بن خباب رضي الله عنه يعني عن أبيه عند الطبراني : شَرُّ قَتْلَي أَظَلَّتْهُمُ السَّمَاءُ وَأَقَلَّتْهُمُ الْأَرْضُ. وفي حديث أبي أمامة رضي الله عنه نحوه.وعند أحمد وابن أبي شيبة من حديث أبي برزة مرفوعًا في ذکر الخوارج : شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ يَقُولُهَا ثَلَاثًا.وعند ابن أبي شيبة من طريق عمير بن إسحاق عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ. وهذا مما يؤيد قول من قال بکفرهم ۔
ترجمہ : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں باب کے عنوان (ترجمۃ الباب) کے طور پر یہ حدیث روایت کی ہے : ﷲ تعالیٰ کا فرمان : اور ﷲ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے ۔ اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو ، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے ۔ اور عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما ان (خوارج) کو ﷲ تعالیٰ کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے ۔ (کیونکہ) انہوں نے ﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا ۔
اور امام عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام طبری نے اس حدیث کو تہذیب الآثار سے بکیر بن عبد ﷲ بن اشج کے طریق سے مسند علی رضی اللہ عنہ میں شامل کیا ہے کہ ’’انہوں نے نافع سے پوچھا کہ عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما کی حروریہ (خوارج) کے بارے میں کیا رائے تھی؟ تو انہوں نے فرمایا : وہ انہیں ﷲ تعالیٰ کی بدترین مخلوق خیال کیا کرتے تھے جنہوں نے ﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کیا ۔ میں ’’امام عسقلانی‘‘ کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور تحقیق یہ سند حدیث صحیح مرفوع میں امام مسلم کے ہاں ابو ذر غفاری کی خوارج کے وصف والی حدیث میں ثابت ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ ’’وہ خَلق اور خُلق میں بدترین لوگ ہیں‘‘ اور امام احمد بن حنبل کے ہاں بھی اسی کی مثل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث ہے ۔ اور امام بزار کے ہاں شعبی کے طریق سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کا ذکر کیا اور فرمایا : وہ میری امت کے بد ترین لوگ ہیں اور انہیں میری امت کے بہترین لوگ قتل کریں گے ۔ اور اس حدیث کی سند حسن ہے۔ اور امام طبرانی کے ہاں اسی طریق سے مرفوع حدیث میں مروی ہے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اور خُلق والے ہیں اور ان کو بہترین خَلق اور خُلق والے لوگ قتل کریں گے ۔

اور امام احمد بن حنبل کے ہاں حضرت ابو سعید والی حدیث میں ہے کہ ’’وہ (خوارج) مخلوق میں سے سب سے بدترین لوگ ہیں ۔

اور امام مسلم نے عبید ﷲ بن ابی رافع کی روایت میں بیان کیا جو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ’’یہ (خوارج) ﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں سے اس کے نزدیک سب سے بدترین لوگ ہیں ۔

اور امام طبرانی کے ہاں عبد ﷲ بن خباب والی حدیث میں ہے جو کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ’’یہ (خوارج) بدترین مقتول ہیں جن پر آسمان نے سایہ کیا اور زمین نے ان کو اٹھایا ۔‘‘ اور ابو امامہ والی حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں ۔

اور امام احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو مرفوعا خوارج کے ذکر میں بیان کرتے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اورخُلق والے ہیں ۔‘‘ ایسا تین بار فرمایا ۔

اور ابن ابی شیبہ کے ہاں عمر بن اسحاق کے طریق سے وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین مخلوق ہیں ۔ ’’اور یہ وہ چیز ہے جو اس شخص کے قول کی تائید کرتی ہے جو ان کو کافر قرار دیتا ہے ۔

ہر بات پر بلا وجہ ، بلا تحقیق داد و تحسین دینے والو اپنےطریق کار پر غور کرو اپنےحسد ، تعصب ، جہالت ، کم علمی اور لادینیت سے قرآن مجید کی تعلیمات کومسخ کرنے کی سزا کا بھی کبھی تصور کر لیا کرو ۔ ہر واعظ بدبخت کی بات مان کر اپنے عقیدے گھڑتے ہو ۔ دوسروں پر شرک کے فتوے لگاتے ہو اپنے کو سب سے بڑا مومن گردانتے ہو ۔ ذرا ان احادیثِ مبارکہ کو بھی غور سے پڑھو ۔ پھر دیکھو کہاں کھڑے ہو ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب : (5) قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب : الخوارج شر الخلق والخليقة، 2 / 750، الرقم : 1067، وفي کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 749، الرقم : 1066، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4765، والنسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119. 120، الرقم : 4103، وابن ماجه في السنة، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 170، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 15، 224، الرقم : 11133، 13362، 4 / 421، 424،چشتی)

عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّي إِذَا رُئِيَتْ بَهْجَتُهُ عَلَيْهِ وَکَانَ رِدْئًا لِلْإِسْلَامِ غَيْرَهُ إِلَي مَاشَاءَ ﷲُ فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَ نَبَذَهُ وَرَاءَ ظُهْرِهِ وَ سَعَي عَلَي جَارِهِ بِالسَّيْفِ وَرَمَاهُ بِالشِّرْکِ قَالَ : قُلْتُ : يَا نَبِيَّ ﷲِ ، أَيُّهُمَا أَوْلَي بِالشِّرْکِ الْمَرْمِيُّ أَمِ الرَّامِي قَالَ : بَلِ الرَّامِي ۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَزَّارُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ ۔
ترجمہ : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک ﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا ۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا ، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے ﷲ کے نبی ! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شرک کا الزام لگانے والا ۔ (أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم : 81، والبزار في المسند، 7 / 220، الرقم : 2793، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 301، الرقم : 2907، والطبراني عن معاذ بن جبل رضي الله عنه في المعجم الکبير، 20 / 88، الرقم : 169، وفي مسند الشاميين، 2 / 254، الرقم : 1291، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 24، الرقم : 43، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 188، وقال : إسناده حسن، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 266،چشتی)

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : سَيَخْرُجُ أَقْوَامٌ مِنْ أُمَّتِي يَشْرَبُوْنَ الْقُرْآنَ کَشُرْبِهِمُ اللَّبَنَ.رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ وَالْمَنَاوِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 297، الرقم : 821، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، والمناوي في فيض القدير، 4 / 118)

ذکر ابن الأثير في الکامل : خَرَجَ الْأَشْعَثُ بِالْکِتَابِ يَقْرَؤُهُ عَلَي النَّاسِ حَتَّي مَرَّ عَلَي طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ فِيْهِمْ عُرْوَةُ بْنِ أُدَيَةِ أَخُوْ أَبِي بِلَالٍ فَقَرَأَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ عُرْوَةُ : تَحَکَّمُوْنَ فِي أَمْرِ ﷲِ الرِّجَالُ؟ لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲِ ۔
ترجمہ : امام ابن اثیر نے ’’الکامل‘‘ میں بیان کیا : ’’اشعث بن قیس نے اس عہدنامہ کو (جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا تھا) لے کر ہر ہر قبیلہ میں لوگوں کو سنانا شروع کیا ۔ جب قبیلہ بنی تمیم میں پہنچے تو عروہ بن اُدیہ (خارجی) جو ابوبلال کا بھائی تھا بھی ان میں تھا جب اس نے وہ معاہدہ انہیں سنایا تو عروہ (خارجی) کہنے لگا : اللہ تعالیٰ کے امر میں آدمیوں کو حَکم بناتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حُکم نہیں کر سکتا ۔ (أخرجه ابن الأثير في الکامل، 3 / 196، وابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 5 / 123،چشتی)

عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه أَنَّهُ کَتَبَ إِلَي الْخَوَارِجِ بِالنَّهْرِ : بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ، مِنْ عَبْدِ ﷲِ عَلِيٍّ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ إِلَي زَيْدِ بْنِ حُصَينٍ وَ عَبْدِ ﷲِ بْنِ وَهَبٍ وَ مَنْ مَعَهُمَا مِنَ النَّاسِ . أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ اللَّذَيْنِ ارْتَضَيْنَا حَکَمَينِ قَدْ خَالَفَا کِتَابَ ﷲِ وَاتَّبَعَا هَوَاهُمَا بِغَيْرِ هُدًي مِنَ ﷲِ فَلَمْ يَعْمَلَا بِالسُّنَّةِ وَلَمْ يُنْفَذَا الْقُرْآنَ حُکْمًا فَبَرِيءَ ﷲُ مِنْهُمَا وَرَسُوْلُهُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ،فَإِذَا بَلَغَکُمْ کِتَابِي هَذَا فَأَقْبِلُوْا إِلَيْنَا فَإِنَّا سَائِرُوْنَ إِلَي عَدُوِّنَا وَ عَدُوِّکُمْ وَ نَحْنُ عَلَي الْأَمْرِ الْأَوَّلِ الَّذِي کُنَّا عَلَيْهِ.فَکَتَبُوْا (الخوارج) إِلَيْهِ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّکَ لَمْ تَغْضَبْ لِرَبِّکَ وَ إِنَّمَا غَضِبْتَ لِنَفْسِکَ فَإِنْ شَهِدْتَ عَلَي نَفْسِکَ بِالْکُفْرِ وَاسْتَقْبَلْتَ التَّوْبَةَ نَظَرْنَا فِيْمَا بِيْنَنَا وَ بَيْنَکَ وَ إِلَّا فَقَدْ نَبَذْنَاکَ عَلَي سَوَاءٍ، إِنَّ ﷲَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِيْنَ.فَلَمَّا قَرَأَ کِتَابَهُمْ أَيِسَ مِنْهُمْ وَرَأَي أَنْ يَدَعَهُمْ وَيَمْضِيَ بِالنَّاسِ حَتَّي يَلْقَي أَهْلَ الشَّامِ حَتَّي يَلْقَاهُمْ.رَوَاهُ ابْنُ جَرِيْرٍ وَابْنُ الْأَثِيْرِ وَابْنُ کَثِيْرٍ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے خوارج کو نہروان سے خط لکھا : ’’اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے : اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین علی کی طرف سے زید بن حصین اور عبداللہ بن وھب اور ان کے پیروکاروں کے لئے ۔ واضح ہو کہ یہ دو شخص جن کے فیصلہ پر ہم راضی ہوئے تھے انہوں نے کتاب اللہ کے خلاف کیا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کی ۔ جب انہوں نے قرآن و سنت پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سب اہل ایمان ان سے بری ہو گئے۔ تم لوگ اس خط کو دیکھتے ہی ہماری طرف چلے آؤ تاکہ ہم اپنے اور تمہارے دشمن کی طرف نکلیں اور ہم اب بھی اپنی اسی پہلی بات پر ہیں ۔ اس خط کے جواب میں انہوں نے (یعنی خوارج نے) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھا : ’’واضح ہو کہ اب تمہارا غضب اللہ کےلیے نہیں ہے اس میں نفسانیت شریک ہے اب اگر تم اپنے کفر پر گواہ ہو جاؤ (یعنی کافر ہونے کا اقرار کر لو) اور نئے سرے سے توبہ کرتے ہو تو دیکھا جائے گا ورنہ ہم نے تمہیں دور کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ سو جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا جوابی خط پڑھا تو ان کے (ہدایت کی طرف لوٹنے سے) مایوس ہوگئے لہٰذا انہیں ان کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کرکے اپنے لشکر کے ساتھ اہلِ شام سے جا ملے ۔ (أخرجه ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 117، وابن الأثير في الکامل، 3 / 216، وابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 287، وابن الجوزي في المنتظم، 5 / 132،چشتی)

عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِيْهِ أَنَّ عُرْوَةً بْنَ حُدَيْرٍ (الخارجي) نَجَا بَعْدَ ذَلِکَ مِنْ حَرْبِ النَّهَرْوَانِ وَبَقِيَ إِلَي أَيَامِ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه. ثُمَّ أَتَي إِلَي زِيَادِ بْنِ أَبِيْهِ وَمَعَهُ مَولَي لَهُ، فَسَأَلَهُ زِيَادُ عَنْ عُثْمَانَ رضي ﷲ عنه، فَقَالَ : کُنْتُ أَوَالِيَ عُثْمَانَ عَلَي أَحْوَالِهِ فِي خِلَافَتِهِ سِتَّ سِنِيْنَ. ثُمَّ تَبَرَأْتُ مِنْهُ بِعْدَ ذَلِکَ لِلْأَحْدَاثِ الَّتِي أَحْدَثَهَا، وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالْکُفْرِ. وَسَأَلَهُ عَنْ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِيٍّ رضي الله عنه فَقَالَ : کُنْتُ أَتَوَلَّاهُ إِلَي أَنْ حَکَمَ الْحَاکِمِيْنَ، ثُمَّ تَبَرَأْتُ مِنْهُ بَعْدَ ذَلِکَ، وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالْکُفْرِ وَسَأَلَهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه فَسَبَّهُ سَبًّا قَبِيْحًا... فَأَمَرَ زِيَادُ بِضَرْبِ عُنُقِهِ. رَوَاهُ الشَّهَرَسْتَانِيُّ ۔
ترجمہ : زیاد بن امیہ سے مروی ہے کہ عروہ بن حدیر (خارجی) نہروان کی جنگ سے بچ گیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک زندہ رہا پھر وہ زیاد بن ابیہ کے پاس لایا گیا اس کے ساتھ اس کا غلام بھی تھا تو زیاد نے اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ اس نے کہا : ابتدا میں چھ سال تک انہیں میں بہت دوست رکھتا تھا پھر جب انہوں نے بدعتیں شروع کیں تو ان سے علیحدہ ہو گیا اس لئے کہ وہ آخر میں (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے تھے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال پوچھا؟ کہا : وہ بھی اوائل میں اچھے تھے جب حکم بنایا (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے۔ اس لئے ان سے بھی علیحدہ ہوگیا۔ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا ؟ تو وہ انہیں سخت گالیاں دینے لگا ۔ پھر زیاد نے اسکی گردن مارنے کا حکم دے دیا۔(أخرجه عبد الکريم الشهرستاني في الملل والنحل، 1 / 137)

عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ أَنَّ رَجُلًا وُلِدَ لَهُ غُلَامٌ عَلَي عَهْدِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَتَي النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَخَذَ بِبَشَرَةِ وَجْهِهِ وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَکَةِ قَالَ : فَنَبتَتْ شَعَرَةٌ فِي جَبْهَتِهِ کَهَيْئَةِ الْقَوْسِ وَشَبَّ الْغُلَامُ فَلَمَّا کَانَ زَمَنَ الْخَوَارِجِ أَحَبَّهُمْ فَسَقَطَتِ الشَّعَرَةُ عَنْ جَبْهَتِهِ فَأَخَذَهُ أَبُوْهُ فَقَيَدَهُ وَ حَسَبَهُ مَخَافَةَ أَنْ يَلْحَقَ بِهِمْ قَالَ : فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَوَعَظْنَاهُ وَقُلْنَا لَهُ فِيْمَا نَقُولُ : أَلَمْ تَرَ أَنَّ بَرَکَةَ دَعْوَةِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَدْ وَقَعَتْ عَنْ جَبْهَتِکَ فَمَا زِلْنَا بِهِ حَتَّي رَجَعَ عَنْ رَأْيِهِمْ فَرَدَّ ﷲُ عَلَيْهِ الشَّعَرَةَ بَعْدُ فِي جَبْهَتِهِ وَتَابَ.رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ ۔
ترجمہ : ابو طفیل سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک لڑکا پیدا ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کے چہرے سے پکڑا اور اسے دعا دی اور اس کا یہ اثر ہوا کہ اس کی پیشانی پر خاص طور پر بال اگے جو تمام بالوں سے ممتاز تھے وہ لڑکا جوان ہوا اور خوارج کا زمانہ آیا تو اسے ان سے محبت ہو گئی (یعنی خوارج کا گرویدہ ہو گیا) اسی وقت وہ بال جو دستِ مبارک کا اثر تھے جھڑ گئے اس کے باپ نے جو یہ حال دیکھا اسے قید کر دیا کہ کہیں ان میں مل نہ جائے۔ ابو طفیل کہتے ہیں کہ ہم لوگ اس کے پاس گئے اور اسے وعظ و نصیحت کی اور کہا دیکھو تم جب ان لوگوں کی طرف مائل ہوئے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت تمہاری پیشانی سے جاتی رہی غرض جب تک اس شخص نے ان کی رائے سے رجوع نہ کیا ہم اس کے پاس سے ہٹے نہیں ۔ پھر جب خوارج کی محبت اس کے دل سے نکل گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس کی پیشانی میں وہ مبارک بال لوٹا دیئے پھر تو اس نے ان کے عقائد سے سچی توبہ کر لی ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 456، الرقم : 23856، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 556، الرقم : 37904، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 174، الرقم : 220، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 243، 10 / 275، وقال رواه أحمد والطبراني ورجاله رجال علي ابن زيد وقد وثق، والعسقلاني في الإصابة، 5 / 359، الرقم : 6972،چشتی)

عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ : سَأَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي يَرْبُوعٍ، أَوْ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ. عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه عَنِ (الذَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ). أَوْ عَنْ بَعْضِهِنَّ، فَقَالَ عُمَرُ : ضَعْ عَنْ رَأْسِکَ، فَإِذَا لَهُ وَفْرَةٌ، فَقَالَ عُمَرُ رضي الله عنه : أَمَا وَﷲِ لَوْ رَأَيْتُکَ مَحْلُوقًا لَضَرَبْتُ الَّذِي فِيْهِ عَيْنَاکَ، ثُمَّ قَالَ : ثُمَّ کَتَبَ إِلَي أَهْلِ الْبَصْرَةِ أَوْ قَالَ إِلَيْنَا. أَنْ لَا تُجَالِسُوْهُ، قَالَ : فَلَوْ جَاءَ وَ نَحْنُ مِائَةٌ تَفَرَّقْنَا.رَوَاهُ سَعِيْدُ بْنُ يَحْيَي الْأُمْوِيُّ وَغَيْرُهُ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ کَمَا قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ ۔
ترجمہ : حضرت ابوعثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنی یربوع یا بنی تمیم کے ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ’’ الزَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ ‘‘ کے کیا معنی ہیں؟ یا ان میں سے کسی ایک کے بارے میں پوچھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اپنے سر سے کپڑا اتارو ، جب دیکھا تو اس کے بال کانوں تک لمبے تھے ۔ انہوں نے فرمایا : بخدا ! اگر میں تمہیں سر منڈا ہوا پاتا تو تمہارا یہ سر اڑا دیتا جس میں تمہاری آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں ۔ شعبی کہتے ہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل بصرہ کے نام خط لکھا یا کہا کہ ہمیں خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھا کرو ۔ راوی کہتا ہے کہ جب وہ آتا ، ہماری تعداد ایک سو بھی ہوتی تو بھی ہم الگ الگ ہو جاتے تھے ۔ (أخرجه ابن تيمية في الصارم المسلول جلد 1 صفحہ 195)


وَمَایُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ کی مستند تفسیر : ایسا ممکن ہی نہیں ہوں خارجی اور وہ مسلمانانِ اہلسنت و جماعت پر کفر و شرک کے فتوے نہ لگائیں اگر یہ فتوہ کفر و شرک نہیں لگائیں گے تو معلوم کیسے ہوگا کہ یہ خارجی ہیں جبکہ خارجی جہنم کے کتے ہیں ۔ احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں : ⏬

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ مَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ ۔ (سورة يوسف آیت نمبر 106)

وہابی کا ترجمہ : ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔

اہلسنت کا ترجمہ : اور ان میں اکثر وہ ہیں کہ اللہ پر یقین نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہوئے ۔

جمہور مفسرین علیہم الرّحمہ کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی جو کہ الله تعالٰی کی خالقیت رازقیت یعنی کی الله کو خالق بھی مانتے اور رزق دینے والا بھی بھی مانتے تھے اور ساتھ بُت پرستی بھی کر کے غیروں کو عبادت میں اس کا شریک بھی کرتے تھے ۔ اس پوری سورة کو پڑھا جائے یعنی اس کے سیاق و سباق کو پڑھا جائے تو اس آیت سے واضع تور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ کفار کے متعلق نازل ہوئی تفسیر مدارک ، تفسیر مظہری : اور باقی تفاسیر اٹھا کر دیکھ لیں ۔  (تفسیر مدارک التنزیل  سورہ یوسف آیت نمبر 106 صفحہ ۵۴۷)

تفسیر ابن عباس کا حوالہ : اور اکثر اہل مکہ جو دل میں الله کی عبودیت کو مانتے بھی ہیں مگر علانیہ وحدانیت خداوندی میں شرک کرتے ہیں ۔ (تفسیر ابن عباس سورة يوسف آیت نمبر 106)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت ،، وَ مَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ، سے مراد ہم اہلِ ایمان نہیں بلکہ اس سے مراد اہلِ کتاب مشرکین ہیں ۔ (فضائل صحابہ مترجم صفحہ نمبر 592 مطبوعہ بک کارنر جہلم)

اگر خارجی واقع حلالی ہں تو مجھے بتائے اس وقت کون سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جو معاذ الله ایمان لا کر بھی شرک کرتے تھے ؟ خاری اس بات کا جواب دے دیں تو بحث ہی ختم ہو جاتی ۔ جتنی بھی تفاسیر موجود ہیں سب کو اٹھا کر دیکھ لیں یہاں اس آیت سے مراد اہلِ کتاب کفار و مشرکین ہی ہیں ۔

مطلب بن عبد الله رحمۃ الله علیہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا عبد الله بن زبیر رضی الله عنہما نے نماز تہجد میں ایک آیت پڑھی ، اس کو بار بار پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ، انہوں نے کہا:اس امت کا بڑا عالم کون ہے؟ میں نے کہا حضرت سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہما ہیں ۔ پھر انہوں نے مجھے حضرت سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہما کو بلانے بیجھا (جب ابن عباس آئے) تو حضرت سیدنا عبد الله بن زبیر رضی الله عنہما نے ان سے پوچھا : میں نے آج رات ایک آیت کو پڑھا ہے ، میں اس سے آگے نہیں بڑھ سکا ، مجھے اس آیت نے بے چین کر دیا ہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ہے (یعنی اسی ایک آیت کو بار بار پڑھتا رہا ہوں) (ومایومن اکثرھم بالله الاوھم مشرکون) (سورة یوسف آیت نمبر 106) (ان میں سے اکثر لوگ باوجود ایمان لانے کےبھی مشرک ہی ہیں) سیدنا عبدالله بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا : آپ بے چین نہ ہوں اس آیت سے ہم (مسلمان) مراد نہیں ہیں بلکہ اہل کتاب مراد ہیں جیسا کہ الله فرماتا ہے : (ولئن سالتھم من خلق السماوات والارض لیقولن الله) (سورة لقمان آیت نمبر 25) ترجمہ : (اگر ان سے پوچھو زمین اور آسمان کا خالق کون ہے ؟ کہیں گے الله ہے) ( بیدہ ملکوت کل شئء وھویجیرولا یجار علیه) (سورة المومنون آیت نمبر 88) الله کے ہاتھ ہر چیز کا اختیار ہے وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے ۔ (سیقولون الله) (سورة المومنون آیت نمبر 89) ترجمہ : (یہ کہیں گے الله ہے) پس اہل کتب یہاں الله پر ایمان لاتے ہیں اور حالانکہ شرک بھی کرتے ہیں ۔ آگے نیچے خارجی وہابی اس حدیث کی صحت کے بارے میں لکھتا ہے کہ : تحقیق : اسناد حسن ؛ تخریج : جامع البیان فی ای القرآن للطبری جلد نمبر نمبر صفحہ نمبر 50 ) ۔ یہیں حدیث تفسیر مظہری اور تفسیر مدارک میں بھی موجود ہے ۔ اب ان لوگوں کو شرم سے ایک پیالے میں پانی ڈال کر اور وہاں ڈوب کر مر جانا چاہیئے ۔ یہ خارجی وہابی کفار کے متعلق نازل شدہ آیات مسلمانوں کو دکھا کر انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بخاری شریف کی ہی ایک حدیث ہے جو ان الفاظ میں ہے کہ : بد ترین ہیں وہ لوگ جو کفار کے متعلق نازل شدہ آیات مسلمانوں پر فٹ کرتے ہیں ۔ ( صحیح بخاری،باب قتل الخوارج، جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 1024)

جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے خالق اور رازق ہونے کا اقرار کرنے کے باوجود بت پرستی کر کے غیروں کو عبادت میں اللّٰہ تعالیٰ کا شریک کرتے تھے ۔ (تفسیر مدارک یوسف : ۱۰۶، ص۵۴۷)

حسن ، مجاہد ، عامر اور شعبی علیہم الرحمہ نے کہا : یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جو یہ مانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کا اور تمام کائنات کا خالق ہے، اس کے باوجود وہ بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ عکرمہ نے کہا : انہی لوگوں کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں :
ولئن سالتھم من خلقھم لیقولن اللہ فانی یوفکون ۔ (سورہ الزخرف : 87) ، اگر آپ سن سے یہ سوال کریں کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ، پھر وہ کہاں بھٹک رہے ہیں ۔
ولئن سالتھم من خلق السموات والارض وسخر الشمس والقمر لیقولن اللہ فانی یوفکون۔ (سورہ العنکبوت : 61) ، اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے توہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر وہ کہاں بھٹک رہے ہیں ۔
حسن نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں ، وہ اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں ، عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا تو کہتے ہیں اور یہود عزیر کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں اور یہ شرک ہے ۔

ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو زبان سے ایمان لاتے تھے اور ان کے دل میں کفر تھا ۔
حسن سے یہ روایت بھی ہے کہ یہ آیت ان مشرکین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور جب اللہ ان کو اس مصیبت سے نجات دے دیتا ہے تو وہ پھر شرک کرنے لگتے ہیں : قل من ینجیکم من ظلمت البر والبحر تدعونہ تضرعا و خفیہ لئن انجانا من ھذہ لنکونن من الشاکرین ۔ قل اللہ ینجیکم منھا ومن کل کرب ثم انتم تشرکون ۔ (سورہ الانعام : 63، 64) ، آپ پوچھیے کہ تمہیں سمندروں اور خشکی کی تاریکیوں سے کون نجات دیتا ہے ؟ جس کو تم عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارتے ہو ، اگر وہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے ، آپ کہیے کہ تمہیں اس مصیبت سے اور ہر سختی سے اللہ ہی نجات دیتا ہے پھر (بھی) تم شرک کرتے ہو ۔

جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا وہی اللہ پر ایمان لایا ۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ جس نے مجھے مانا اُسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی مانا بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مانا ، جانا ، پہچانا ، سمجھا اُسی نے درحقیقت میری وحدت کا اقرار کیا ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا مظہر ہیں اللہ تعالیٰ کا عکس و آئینہ ہیں ۔ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارک کو مانا ، جانا ، سمجھا اقرار کیا اُسی نے اللہ تعالیٰ کی وحدت کا اقرار کیا ۔ اور عشق و محبت میں محبوب کی ہر طرح کی شان بلند و بالا رکھی جاتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھنا فرضِ عین ہیں ۔ اب ایسا کون ہوگا جو عشق و محبت کا دعویٰ بھی کرتا ہو اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اُس سے برداشت ہی نہ ہورہی ہو ۔ ایسا لوگ ابوجہل کی نسل سے ہیں ہوشیار ہو جاٶ ایسے لوگوں سے کہ جن کے پاس ایسی عبادتیں ، ریاضتیں ہونگی کہ ہم لوگ اُن کی عبادتوں کے سامنے اپنی عبادتوں کو حقیر جانیں گے ۔ لیکن یہی لوگ اصل میں جہنم کے حقدار اور عداوت و بغض رکھنے والے اشخاص ہیں جن کو دنیا اور آخرت میں بھی لعنت ہی ملیں گی اور یہی لوگ دین و ایمان کے دشمن ہیں اور خوارجی کے لقب سے مشہور ہیں ۔ ہوشیار ایسے عبادت گزاروں سے ۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و بلندی میں گستاخیاں کرتے ہے وہ لوگ کتنی ہی عبادت و ریاضت کریں اُن کےلیے ہم نے ایک دردناک عزاب تیار کرکے رکھا ہوا ہے اور اصل میں یہی لوگ مشرک و منافق و کافر ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخ ہو ۔ ابوجہل بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کرتا تھا ، توحید پرست ، اللہ کو ماننے والا تھا لیکن اللہ نے پھر بھی خطاب کیا کہ ابوجہل مجھے کتنا بھی مان لے لیکن اس کے دل میں میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان برداشت نہیں ہو رہی اس کےلیے اولٰئک اصحاب النار ھم فیھا خٰلدون ۔ اور صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے ابوجہل بتا تو آپ رضی اللہ عنہ معراج نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی اور اللہ کریم نے ارشاد و خطاب فرمایا کہ رضی اللہ عنھم و رضو عنہ واعدلھم جنٰت تجری تحتہاالانھار خٰلدین فیھا ابداََ ۔ بات واضع ہوگئ آپ سب سمجھدار ہیں ۔

سنن ترمذی میں امام ابو غالب نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : فَقَالَ أَبُوْ أُمَامَةَ رضی الله عنه : کِلَابُ النَّارِ شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَائِ خَيْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوْهُ ثُمَّ قًرَأَ : ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ﴾ إِلَی آخِرِ الآيَةِ قُلْتُ لِأَبِي أُمَامَةَ : أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا حَتَّی عَدَّ سَبْعًا مَا حَدَّثْتُکُمُوْهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (یہ خوارج) جہنم کے کتے ہیں ، آسمان کے نیچے بدترین مقتول ہیں اور وہ شخص بہترین مقتول ہے جسے انہوں نے قتل کیا ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : (جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے) حضرت ابو غالب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : کیا آپ نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (یہ فرمان) ایک ، دو ، تین ، چار یہاں تک کہ سات بار بھی سنا ہوتا تو تم سے بیان نہ کرتا (یعنی میں نے یہ بات خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعدد بار سنی ہے) ۔ (ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن ، باب ومن سورة آل عمران، 5 : 226، رقم : 3000)(أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 256، رقم : 22262)(حاکم، المستدرک، 2 : 163، رقم : 2655،چشتی)(بيهقي، السنن الکبری، 8 : 188)(طبراني، مسند الشاميين، 2 : 248، رقم : 1279)

امام ابن ابی شیبہ ، بیہقی اور طبرانی نے حضرت ابو غالب علیہم الرحمہ سے روایت کیا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے خوارج اور حروریہ کے متعلق بیان فرمایا : کِلَابُ جَهَنَّمَ، شَرُّ قَتْلَی قُتِلُوْا تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ، وَ مَنْ قَتَلُوْا خَيْرُ قَتْلَی تَحْتَ السَّمَاءِ . . . إلی الآخر ۔
ترجمہ : یہ جہنم کے کتے ہیں اور زیرِ آسمان تمام مقتولوں سے بدترین مقتول ہیں اور ان کے ہاتھوں شہید ہونے والے زیر آسمان تمام شہیدوں سے بہترین شہید ہیں ۔ (ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 554، رقم : 37892)(طبراني، المعجم الکبير، 8 : 267، 268، رقم : 8034، 8035)(بيهقي، السنن الکبری، 8 : 188)

جبکہ واضح حدیث موجود ہے : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداءِ اُحد پر (دوبارہ) آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی گویا زندوں اور مُردوں کو الوداع کہہ رہے ہوں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا : میں تمہارا پیش رو ہوں، میں تمہارے اُوپر گواہ ہوں، ہماری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اس جگہ سے حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے تمہارے متعلق اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تم (میرے بعد) شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیاداری کی محبت میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ حضرت عقبہ فرماتے ہیں کہ یہ میرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری دیدار تھا (یعنی اس کے بعد جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا) ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة أحد، 4 / 1486، الرقم : 3816)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں ۔ بیشک خدا کی قسم ! میں اپنے حوض (کوثر) کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا : زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں اور خدا کی قسم ! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے ۔ (صحيح بخاری کتاب : المناقب، باب : علامات النَّبُوَّةِ فِي الإِسلام، 3 / 1317، الرقم : 3401،چشتی)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے تمہارے متعلق اس بات کا تو ڈر ہی نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے ڈر ہے کہ تم دنیا کی محبت میں گرفتار ہو جاؤ گے اور آپس میں لڑو گے اور ہلاک ہو گے جیسا کہ تم سے پہلے لوگ ہوئے ۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آخری بار تھی جب میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر جلوہ افروز دیکھا (یعنی اس کے بعد جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا) ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : اثبات حوض نبينا صلي الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1796)

جبکہ ان دو ٹکے کے جاہلوں کو شرک کا خوف ستانے لگا ہے اور یہ خارجی جس آیت کو مسلمانان اہلسنت پر فٹ کرتے ہیں اس کا سیاق وسباق اور پس منظر ماحظہ کریں : وَ مَا یُؤۡمِنُ اَکۡثَرُہُمۡ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمۡ مُّشۡرِکُوۡنَ (سورة يوسف 106)
وہابی کا ترجمہ : ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔
اہلسنت کا ترجمہ : اور ان میں اکثر وہ ہیں کہ الله پر یقین نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہیں ۔

مختصر تفسیر : جمہور مفسرین علیہم الرّحمہ کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی جو کہ الله تعالٰی کی خالقیت رازقیت یعنی کی الله کو خالق بھی مانتے اور رزق دینے والا بھی بھی مانتے تھے اور ساتھ بُت پرستی بھی کر کے غیروں کو عبادت میں اس کا شریک بھی کرتے تھے ۔ اس پوری سورة کو پڑھا جائے یعنی اس کے سیاق و سباق کو پڑھا جائے تو اس آیت سے واضع تور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ کفار کے متعلق نازل ہوئی تفسیر مدارک ، تفسیر مظہری : اور باقی تفاسیر اٹھا کر دیکھ لیں ۔

تفسیر ابن عباس کا حوالہ : اور اکثر اہل مکہ جو دل میں الله کی عبودیت کو مانتے بھی ہیں مگر علانیہ وحدانیت خداوندی میں شرک کرتے ہیں ۔ ( تفسیر ابن عباس صفحہ :۔ ۱۰۳ آیت:۔۱۰۶)

اگر خارجی واقع حلالی ہیں تو مجھے بتائیں اس وقت کون سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جو معاذ الله ایمان لا کر بھی شرک کرتے تھے ؟ خاری اس بات کا جواب دے دیں تو بحث ہی ختم ہو جاتی ۔ جتنی بھی تفاسیر موجود ہیں سب کو اٹھا کر دیکھ لیں یہاں اس آیت سے مراد کفار اہلِ کتاب مشرکین ہی ہیں نہ کہ اہلِ ایمان ۔

مطلب بن عبد الله رحمۃ الله علیہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبد الله بن زبیر رضی الله عنہما نے نماز تہجد میں ایک آیت پڑھی ، اس کو بار بار پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ، انہوں نے کہا : اس امت کا بڑا عالم کون ہے ؟ میں نے کہا : سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہما ہیں ۔ پھر انہوں نے مجھے سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہما کو بلانے بیجھا (جب ابن عباس آئے) تو سیدنا عبد الله بن زبیر رضی الله عنہما نے ان سے پوچھا : میں نے آج رات ایک آیت کو پڑھا ہے ، میں اس سے آگے نہیں بڑھ سکا ، مجھے اس آیت نے بے چین کر دیا ہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ہے (یعنی اسی ایک آیت کو بار بار پڑھتا رہا ہوں) (ومایومن اکثرھم بالله الاوھم مشرکون) (سورة یوسف:۱۰۶) (ان میں سے اکثر لوگ باوجود ایمان لانے کےبھی مشرک ہی ہیں) سیدنا عبدالله بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا : آپ بے چین نہ ہوں اس آیت سے ہم (مسلمان) مراد نہیں ہیں بلکہ اہل کتاب مراد ہیں جیسا کہ الله فرماتا ہے : ( ولئن سالتھم من خلق السماوات والارض لیقولن الله) (سورة لقمان:۲۵) ترجمہ : (اگر ان سے پوچھو زمین اور آسمان کا خالق کون ہے ؟ کہیں گے الله ہے) ( بیدہ ملکوت کل شئ وھویجیرولا یجار علیه) (سورة المومنون:۸۸) الله کے ہاتھ ہر چیز کا اختیار ہے وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے ۔ (سیقولون الله) (سورة المومنون: ۸۹) ترجمہ:(یہ کہیں گے الله ہے) پس اہل کتب یہاں الله پر ایمان لاتے ہیں اور حالانکہ شرک بھی کرتے ہیں ۔ آگے نیچے خارجی وہابی اس حدیث کی صحت کے بارے میں لکھتا ہے کہ : تحقیق : اسناد حسن ؛ تخریج : جامع البیان فی ای القرآن للطبری جلد ۳ صفحہ ٥٠) ۔ یہیں حدیث تفسیر مظہری اور تفسیر مدارک میں بھی موجود ہے ۔

اب ان لوگوں کو شرم سے ایک پیالے میں پانی ڈال کر اور وہاں ڈوب کر مر جانا چاہیے ۔ یہ خارجی وہابی کفار کے متعلق نازل شدہ آیات مسلمانوں کو دکھا کر انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بخاری شریف کی ہی ایک حدیث ہے جو ان الفاظ میں ہے کہ : بد ترین ہیں وہ لوگ جو کفار کے متعلق نازل شدہ آیات مسلمانوں پر فٹ کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری باب قتل الخوارج جلد 2 صفحہ 1024) ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانانِ اہلسنت کو خارجی نجدی وہابی فتہ کے شر و فساد سے محفوظ رکھے آمین ۔

اہلِ عرب میں شرک و بت پرستی کی ابتداء کب ہوئی ؟

علامہ برہان الدین حلبی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں ’’ اہلِ عرب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ سے لے کر عمرو بن لُحَیّ کے زمانہ تک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عقائد پر ہی ثابت قدم رہے ، یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے دینِ ابراہیمی کو تبدیل کیا اور اہلِ عرب کے لئے طرح طرح کی گمراہیاں شروع کیں ۔ (سیرت حلبیہ، باب نسبہ الشریف صلی اللہ علیہ وسلم، ۱/۱۸)

شرک کے بانی عمرو بن لُحَیّ نے اہلِ عرب میں شرک اس طرح پھیلایا کہ مقامِ بلقاء سے بت لا کر مکہ میں نصب کئے اور لوگوں کو ان کی پوجا اور تعظیم کرنے کی دعوت دی ۔ قبیلہ ثقیف کا ایک شخص ’’لات‘‘ جب مر گیا تو عمرو نے اس کے قبیلے والوں سے کہا : یہ مرا نہیں بلکہ اس پتھر میں چلا گیا ہے پھر انہیں اس پتھر کی پوجا کرنے کی دعوت دی ۔ (عمدۃ القاری، کتاب المناقب، باب قصۃ خزاعۃ، ۱۱/۲۶۹-۲۷۰، تحت الحدیث: ۳۵۲۱،چشتی)
اِسی عَمرو نے سائبہ اور بحیرہ کی بدعت ایجاد کی اورتَلْبِیَہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بتوں کو بھی شریک کیا ۔ (سیرت حلبیہ، باب نسبہ الشریف صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ۱/۱۸)

یہ شخص دین میں جس نئی بات کا آغاز کرتا لوگ اسے دین سمجھ لیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ موسمِ حج میں لوگوں کو کھانا کھلایا کرتا اور انہیں لباس پہنایا کرتا تھا اور بسااوقات وہ موسمِ حج میں دس ہزار اونٹ ذبح کرتا اور دس ہزار ناداروں کو لباس پہناتا ۔ (الروض الانف، اول ما کانت عبادۃ الحجر، اصل عبادۃ الاوثان، ۱/۱۶۶)

مرنے کے بعد اس کا انجام بہت دردناک ہوا، حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے عمرو بن عامر بن لحیّ خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں کھینچ رہا ہے ۔ (بخاری ، کتاب المناقب، باب قصۃ خزاعۃ، ۲/۴۸۰، الحدیث: ۳۵۲۱،چشتی)

مخلوق میں سے کسی کو معبود مان کر پکارنا شرک ہے ورنہ ہر گز شرک نہیں : یہاں ایک اہم بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی بھی عبادت کرنا شرک ہے ، اسی طرح مخلوق میں سے کسی کو معبود مان کر اسے پکارنا یا اس سے حاجتیں اور مدد طلب کرنا بھی شرک ہے البتہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہ مانتا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو اس کی عطا سے مشکلات دور کرنے والا ، حاجتیں پوری کرنے والا اور مدد کے وقت مدد کرنے والا مانتا ہو اور اسی عقیدے کی بنیاد پر وہ بارگاہِ الٰہی کے مقبول بندوں سے مشکلات کی دوری کے لئے فریاد کرتا ہو ، اپنی حاجتیں پوری ہونے کے لئے دعائیں مانگتا ہو یا مصیبت کے وقت انہیں مدد کے لئے پکارتا ہو تو ا س کا یہ فریاد کرنا ، مانگنا اور پکارنا ہر گز شرک نہیں ہو سکتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآنِ پاک میں غورو تفکر کیا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کفار و مشرکین کا اپنے بتوں سے متعلق عقیدہ یہ تھا کہ وہ بتوں کو معبود مانتے اور ان کی عبادت کرتے تھے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے :  اِنَّہُمْ کَانُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَہُمْ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ۙیَسْتَکْبِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۵﴾ وَ یَقُوۡلُوۡنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوۡۤا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍمَّجْنُوۡنٍ ۔ (الصافات ۳۵،۳۶)
ترجمہ : بیشک جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تووہ تکبر کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی وجہ سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ۔

اور اسی عقیدے کی بنیاد پر کفار بتوں سے اپنی حاجتیں طلب کرتے تھے ، اور آج بھی کسی انسان یا غیر انسان ، زندہ یا مردہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرنا ، اسے دور یا نزدیک سے پکارنا شرک ہے لیکن اگر کوئی یہ عقیدہ نہ رکھتے ہوئے یعنی معبود نہ مان کر کسی کو پکارے یا ندا کرے تو اس کے عمل کو مشرکوں جیسا عمل قرار دیتے ہوئے اسے بھی مشرک قرار دے دینا سراسر جہالت نہیں تو اور کیا ہے ۔ جو پکارنا یا ندا کرنا شرک ہے وہ ہر حال میں شرک ہے چاہے انسان سے ہو یا غیر انسان سے ، زندہ سے ہو یا فوت شدہ سے ، دور سے ہو یا نزدیک سے اور جو ندا شرک نہیں وہ کسی بھی حال میں شرک نہیں ۔ ندا یا سوال کے شرک ہونے کا دارومدار پکارنے والے کے عقیدے پر ہے اگر وہ معبود اور خدا مان کر پکارتا ہے تو یہ شرک ہے اب چاہے دور سے پکارے یا نزدیک سے ، زندہ کو پکارے یا فوت شدہ کو اور اگر اس کا یہ عقیدہ نہیں توشرک ہر گز نہیں لہٰذا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو پکارنا ہرگز شرک نہیں کیونکہ کوئی بھی کلمہ گو مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معبود نہیں سمجھتا اور نہ ان کی عبادت کرتا ہے بلکہ ہر نماز میں وہ کئی بار یہ اعلان کرتا ہے کہ ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہْ ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ عزوجل کے بندے اور رسول ہیں ۔ یونہی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو پکارنے والا ، ان سے سوال کرنے والا ، انہیں معبود سمجھ کر ہر گز نہیں پکارتا بلکہ اللہ عزوجل کا بندہ سمجھ کر اور اللہ عزوجل کی عطا سے پکار سننے والا جان کر پکارتا ہے لہٰذا ا س کا یہ عمل بھی ہر گز شرک نہیں ۔


حقیقت و مجاز کا فرق ضروری ہے ورنہ کوئی مسلمان نہیں رہے گا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء و صلحاء علیہم الرّحمہ کی تعظیم و تکریم اور اُن سے اِستغاثہ کے دوران عامۃ المسلمین کبھی کبھار بعض ایسے اَلفاظ کا اِستعمال کر جاتے ہیں کہ اگر اُن اَلفاظ کو اُن کے حقیقی معنی موضوع لہ کے مطابق سمجھا جائے تو بات کفر و شِرک تک جا پہنچتی ہے ۔ لیکن چونکہ اُن کے دِلوں میں اپنے ادا کردہ الفاظ کے حقیقی مفہوم کی بجائے مجازی معنی مُراد ہوتا ہے اور مجازِ متعارف پائے جانے کے سبب ایسے موقع پر معاشرے میں عام طور پر مجازی معنیٰ ہی مُراد لیا جاتا ہے لہٰذا ایسے افراد شِرک کی آلائش میں نہیں گردانے جائیں گے ۔ پہلے یہ قرآنی آیاتِ مبارکہ غور سے پڑھیں : ⬇

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
(القران 5:55) تمہارا ولی تو بس اللہ ہے، اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان رکہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔

وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ۔ (القران 5:56)
ترجمہ : اور جو اللہ کو اور اس کے رسول کو اور مومنین کو اپنا ولی بناتے ہیں تو بیشک اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے ۔

وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ ۔ (القران 9:59)
ترجمہ : اور اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے کی جو کچہ اللہ نے اور اس کے رسول نے انہیں دیا ہے، اور یہ کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ اور اللہ جلد ہمیں مزید عطا کرے گا اپنے فضل سے اور اس کا رسول بھی ۔

يَحْلِفُونَ بِاللّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا ۔ (القران 9:74)
ترجمہ : یہ قسم کہاتے ہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا ہے حالانکہ انہوں نے کلمہِ کفر کہا ہے اور ایمان لانے کے بعد کافر ہو گثے ہیں اور وہ ارادہ کیا تھا جو حاصل نہیں کر سکے اور انہیں صرف اس بات کا غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے انہیں (مسلمانوں) کو غنی کر دیا ہے۔ بہرحال یہ اب بھی توبہ کر لیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے ۔

فضل سے غنی کرنا تو صرف اللہ کا کام ہے ، مگر اللہ اسی قران میں گواہی دے رہا ہے کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی اپنے فضل سے مسلمانوں کو غنی کرتا ہے۔ تو اب مسئلہ یہ ہے کہ قران کے صرف ظاہر کو لینے اور مجاز کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے سب سے پہلے اللہ پر مشرک ہونے کا فتویٰ لگے گا ۔

إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (القران 66:4)
ترجمہ : (اے نبی کی بیویو) اب تم توبہ کرو کہ تمہارے دل ٹیرھے ہو گئے ہیں ورنہ اگر تم اس (رسول) کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو یاد رکہو کہ اس (رسول) کا ولی اللہ ہے اور جبرئیل ہیں اور صالح مومنین اور فرشتے سب اس کے مددگار ہیں ۔

شیطان شرک فی الصفّات کی حقیقت کو سمجھنے سے روکتا ہے اور یہاں اُمّت میں وسوسے پیدا کرتا ہے لہٰذا قرآن مجید کی آیات سے اس کو سمجھتے ہیں ۔

(1) اللہ تعالیٰ رؤف اور رحیم ہے : اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ۔
ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر رؤف اور رحیم ہے ۔ (سورۂ بقرہ آیت نمبر 143)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی رؤف اور رحیم ہیں جیساکہ قرآن کریم میں ذکرہے کہ : لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ م بِالْمُؤْ مِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّ حِیْمٌ ۔
ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں (بھاری) ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مومنوں پر ’’رؤف اور رحیم‘‘ ہیں ۔ (سورۂ توبہ، آیت نمبر 128)

پہلی آیت پر غور کریں تو سوال پیدا ہوتاہے کہ رؤف اور رحیم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں پھر دوسری آیت میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤف اوررحیم فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہو گیا ؟
اس میں تطبیق یوں قائم ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر رؤف اور رحیم ہے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے رؤف اور رحیم ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہو جائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا ۔

(2) علمِ غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ اللہ کے سوا غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔ (سورۂ نمل آیت نمبر 65)

جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے کہ : عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ۔ ترجمہ : غیب کاجاننے والا اپنے غیب پر صرف اپنے پسندیدہ رسولوں ہی کو آگاہ فرماتاہے ہر کسی کو (یہ علم) نہیں دیتا ۔ (سورۂ جن، آیت 26/27 پارہ 29)

علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پہلی آیت سے یہ ثابت ہوا مگر دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو بھی عطا کیا ہے تو کیا یہ شرک ہو گیا ۔
اس میں تطبیق یوں قائم ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر عالم الغیب ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اللہ تعالیٰ کی عطا سے علم غیب جانتے ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہو جائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا ۔

(3) مدد گار صرف اللہ تعالیٰ ہے : جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن عظیم میں فرماتاہے کہ : ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔ ترجمہ : یہ اس لئے کہ مسلمانوں کا مددگار اللہ ہے ۔
(سورۂ محمد ، آیت 11 پارہ 26)

جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکرہے کہ : فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْ مِنِیْنَ
ترجمہ : بے شک اللہ ان کا مددگار ہے اورجبریل اور نیک مومنین مددگار ہیں۔
(سورۂ تحریم ، آیت 4 پارہ 28)

پہلی آیت پر غور کریں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پھر دوسری آیت میں جبریل اوراولیاء اللہ کو مددگار فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہو گیا ؟
اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طو ر پر مددگار ہے اورحضرت جبریل علیہ السلام وراولیاء کرام ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے مددگار ہیں ۔

جو ذات باری تعالیٰ عطا فرما رہی ہے اس میں اور جس کو عطا کیا جا رہا ہے ان حضراتِ قدسیہ میں برابری کا تصور محال ہے اور جب برابری ہی نہیں تو شرک کہاں رہا ؟

خوب یاد رکھیں : کہ جہاں باذنِ اللہ اورعطائی کا فرق آجائے وہاں شرک کا تصوّر محال اور ناممکن ہو جاتا ہے ۔

اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم شرک پر متفق نہیں ہو گی ۔ جیساکہ بخاری شریف میں ہے کہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم منبر شریف پر جلوہ گر ہوئے اور فرمایا بیشک میں تمہارا سہارا اورتم پر گواہ ہوں اللہ تعالیٰ کی قسم! میں اپنے حوضِ کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اوربیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اوربے شک مجھے یہ خطرہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے جال میں پھنس جاؤ گے ۔ (بخاری شریف جلد اول، کتاب الجنائز، رقم الحدیث 1258 ص 545 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور؛چشتی)

درج ذیل قسم کے الفاظ بسا اوقات امتِ مسلمہ کے لوگ مجازاً استعمال کرتے ہیں تو یہ شرک کیونکر ہونگے ؟

يَا أکرمَ الخلقِ مَا لِی مَن ألُوذُ به
سِواک عندَ حُلول الحادثِ العمم
ترجمہ : اَے تمام مخلوق سے بزرگ و برتر (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! آپ کے علاوہ میرا کوئی (مددگار) نہیں جس کی میں آفات کی کثرت کے وقت پناہ طلب کروں ۔

لِي خمسةٌ نُاطْفی بِها حرَّ الوباءِ الحاطمةِ
اَلمصطفیٰ وَ الْمُرتضٰی وَ ابْنَاهُمَا وَ الْفَاطِمة
ترجمہ : میرے لئے پانچ (اَحباب ایسے) ہیں کہ جن کی مدد سے میں تباہ کن وباء کی حدّت کو بُجھاتا ہوں (اَور وہ یہ ہیں : ) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علی مرتضیٰ رضی اللہ عنھم، اِن کے دونوں صاحبزادے (حسن و حسین رضی اللہ عنہما) اور سیدہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا ۔

یہ سب تمہارا کرم ہے آقا
کہ بات اَب تک بنی ہوئی ہے

مجھے نظرِ کرم کی بھیک ملے
مِرا کوئی نہیں ہے تیرے سِوا

سب کا کوئی نہ کوئی دُنیا میں آسرا ہے
میرا بجز تمہارے کوئی نہیں سہارا

خدا دے پکڑے چُھڑاوے مُحمد
مُحمد دے پکڑے چُھڑا کوئی نئِیں سکدا

دنیا دے اندر ہوراں دے ہووَن گے ہور سہارے وِی
میرا تے آقا باج تِرے کوئی وِی سہارا ہور نئِیں

اِسی طرح بعض اَوقات اُمتِ مسلمہ کے کچھ اَفراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارتے ہوئے لَيسَ لنَا مَلجأٌ سِواکَ يَا رسولَ اللہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کے سِوا ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں‘‘ وغیرہ جیسے اَلفاظ بھی کہہ دیتے ہیں۔ بادیء النظر میں اگر ایسے اَشعار و اَلفاظ کا اِطلاق حقیقی معنی پر کیا جائے تو ایسے قول کا قائل کافر و مُشرک قرار پاتا دکھائی دیتا ہے، مگر دَرحقیقت کسی بھی مسلمان کے ذِہن میں اِن الفاظ کے اِستعمال کے وقت حقیقی معنی مُراد نہیں ہوتا ۔ ہر وہ شخص جو یہ اَلفاظ پکارتا ہے وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ کے سِوا فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی بارگاہ میرے لیے جائے پناہ ہے اور خدا کے دَر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا سہارا مجھ عاصی و خطاکار کی بخشش کا ذرِیعہ و وسیلہ ہے ۔ اِن اَلفاظ سے مُراد یہ ہوتی ہے کہ مخلوقِ خدا میں آپ کے سِوا میرا کوئی نہیں ہے اور آپ کے علاوہ دیگر اِنسانوں سے مجھے قطعاً کوئی اُمید نہیں ہے ۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِن مسلمانوں کے مؤحّد ہونے کے بارے میں حُسنِ ظن رکھا جائے اور معنیٰ مجازی کو مدّنظر رکھتے ہوئے فتویٰ ہائے کفر و شِرک سے کلیتاً اِجتناب کیا جائے ۔ کیونکہ یہ مؤحّدین اللہ تعالی کی توحید کے اُسی طرح قائل ہیں جیسے اِسلامی اَحکام کا تقاضا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رِسالت کی بھی گواہی دیتے ہیں ۔ نماز پڑھتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ جب وہ اِسلام کے جمیع اَحکام پر عمل پیرا ہیں تو چند اَلفاظ کے مجازی اِستعمال کے جُرم کی پاداش میں اُنہیں حلقۂ اِسلام سے نکال باہر پھینکنا کہاں کی ہوشمندی ہے ؟

حضرت اَنس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروِی ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا : مَنْ صلّي صلوٰتنا وَ اسْتقبلَ قبلتَنا و أکل ذبيحتَنا فذٰلک المُسلم الذي له ذمة اللہ و ذمة رسولِه فلا تخفروا اللہ فی ذمتِه ۔
ترجمہ : جو ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کو قبلہ بنائے اور ہمارا ذبیحہ کھائے پس وہ ایسا مسلمان ہے جس کےلیے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذِمہ ثابت ہے ، پس تم اللہ کی ذمہ داری کو مت توڑو ۔ (صحيح بخاری کتاب الصلوٰة جلد 1 صفحہ 56)

صحیح بخاری کی اِس حدیثِ مبارکہ کے بعد عامۃ المسلمین کو مجازِ عقلی کے جائز اِستعمال پر مُشرک قرار دینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا ۔ مجازِ عقلی کا اِستعمال قرآن و حدیث اور عملِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جا بجا موجود ہے اَور اِس سے اِنکار ممکن نہیں ۔ ایک مؤمن سے ایسے اَلفاظ کا صدور مجازِ عقلی پر محمول کر لینے میں کوئی عذر مانع نہیں ۔ صحیح اِسلامی عقیدے کے مطابق جو شخص یہ اِعتقاد رکھے کہ اللہ تعالی ہی بندوں کا خالق و مالک ہے اور اُسی نے اُنہیں مختلف اَعمال و اَفعال کی اِنجام دہی کی طاقت سے نوازا ہے ، اللہ عزوجل کے اِختیار میں کسی زِندہ و مُردہ کی خواہش کو کوئی دخل حاصل نہیں اِلاّ یہ کہ خدا خود اپنی مرضی سے اُس کی خواہش و سفارش کو قبول کرے ۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص ہی حقیقت میں مؤمن و مسلمان ہے ۔ یہی عین توحید ہے اور یہی عین اِسلام ، جیسا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بھی سیدہ مریم علیہا السلام سے مکالمہ کے دوران اللہ تعالی کے فعل کی نسبت اپنی طرف کر کے مجازِ عقلی کا صدور فرمایا تھا۔ قرآنِ مجید میں جبرئیل علیہ السلام کے اَلفاظ یوں وارِد ہوئے ہیں : لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّا ۔ (سورہ مريم آیت نمبر 19)
ترجمہ : تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔

جب اللہ تعالی کی نورانی مخلوق کا سردار ایسے مجازی اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کر سکتا ہے اور اللہ ربّ العزّت خود ان الفاظ کو اپنے کلامِ مجید میں دُہرا سکتا ہے تو ایک بندۂ بشر اگر ایسے ہی اَلفاظ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کر دے تو اِس میں کون سی قباحت ہے ؟ ضرورت اِس امر کی ہے کہ قرآنِ مجید کی حقیقی رُوح تک رسائی اِختیار کی جائے تاکہ مسلمان ایک دُوسرے کی تکفیر کا وطیرہ ترک کر دیں ، اِسی میں اِسلام کا فائدہ ہے اور اِسی میں ہم سب کے اِیمان کی بھلائی ہے ۔

مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا اِستعمال اِس لحاظ سے بھی جائز ہے کہ وہ بظاہر تو اگرچہ اِستغاثہ ہوتا ہے مگر اِس سے مفہوم اور مُراد توسل ہوا کرتا ہے، اور مستعانِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو جانا جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ اِستغاثہ کا مجازی معنی میںاِستعمال قرآنِ مجید میں کئی صورتوں میں ہوا ہے ، جن میں سے اکثر استعمالِ مجاز ما فوق الاسباب کے لئے ہوا ہے۔ قرآنِ حکیم میں مجاز کا اِستعمال جس کثرت کے ساتھ ہوا ہے اُس میں سے چند مقامات کا ہم یہاں ذِکر کریں گے تاکہ قارئین کے اذہان و قلوب میں یہ تصوّر اچھی طرح سے راسخ ہو جائے کہ حقیقت و مجاز کی تقسیم سے اِنکار کی صورت میں کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔

جبرئیل علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ : ⬇

حضرت جبرئیل علیہ السلام جب ﷲ کے اِذن سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وِلادت کے سلسلے میں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس اِنسانی رُوپ میں آئے تو اُن سے کہا : اِنَّمَا أنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّا ۔
ترجمہ : (جبرئیل نے) کہا میں تو فقط تیرے ربّ کا بھیجا ہوا ہوں (اس لیے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔ (مريم آیت نمبر 19)

مذکورہ بالا آیت میں جبرئیل امین علیہ السلام کا قول اُمورِ مافوق الاسباب میں سے ہے کیونکہ شادی اور اِزدواجی زندگی کے بغیر بیٹے کا ہونا اور اس پر یہ کہنا کہ : ’’میں تجھے پاکیزہ بیٹا دوں‘‘ مافوق الاسباب اُمور میں مدد کی بہت بڑی قرآنی مثال ہے اور اسبابِ عادیہ کے بغیر اِس دنیا میں اِس کا تصوّر بھی محال ہے ۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض توسل کی نیت سے ﷲ ربّ العزّت کے کسی برگزیدہ بندے کے وسیلے سے اولاد طلب کرے تو کچھ نادان دوست فی الفور شِرک کا فتویٰ لگا دینے سے نہیں چوکتے جبکہ کوئی غیرخدا ۔۔۔ جبرئیل علیہ السلام۔۔۔ کہے کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اور اللہ تعالیٰ خود اُس کا ذِکر قرآنِ مجید میں کرے تو کیا یہ اُسی طرح شِرک نہیں ہو گا ؟ مانگنے کی صورت میں تو مانگنے والا پھر بھی اِنسان ہی رہتا ہے مگر یہ کہنا کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اِس جملے کو اگر مجازی معنی پر محمول نہ کیا جائے تو حقیقی معنوں میں تو یہ سراسر خدا بننے کے مترادف ہے۔ اولاد سے نوازنا فعلِ اِلٰہی ہے اور بندے کا کام اُس سے اُس کی عطا کی بھیک مانگنا ہے ۔ بندے کا غیرﷲ سے مانگنا اگر شِرک ہے تو پھر کسی دینے والے غیرِخدا کا قول یہ کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ تو بدرجۂ اولیٰ شِرک قرار دیا جانا چاہئیے۔ اِس مقام پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبرئیلِ امین علیہ السلام تو ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ کہہ کر بھی (معاذ ﷲ) مشرک نہ ہوئے بلکہ اُن کا قول، قولِ حق رہا تو اُن کے اس قول کی آخر کیا توجیہہ ہوگی ؟
جواب : یہ قول تو اگرچہ روح الامین کا ہے کہ میں بیٹا دیتا ہوں مگر اِس سے مُراد یہ ہے کہ وہ بیٹا جو اللہ تبارک و تعالی عطا فرمانے والا ہے ’’میں‘‘ اُس کا سبب، وسیلہ اور ذریعہ بنتا ہوں ۔ پس مذکورہ آیتِ کریمہ میں ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ میں مدد دینے کا عمل پایا گیا مگر اس سے مُراد محض توسل ہے اور ان کا بیٹا دینے کا قول مجازِ قرآنی کی ایک عمدہ مثال ہے ۔

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ : ⬇

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی اُمت کے سامنے اِعلائے کلمۂ حق کیا اور اُنہیں شِرک سے باز آنے اور ﷲ وحدہ لا شریک کی وحدانیت کی طرف بلانا چاہا تو اُنہوں نے اپنی قوم کو مختلف معجزات دِکھائے ۔ قرآنِ مجید میں آپ کی اس دعوت کا ذکر یوں آیا ہے : أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔
ترجمہ : بے شک میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اللہ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور میں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفا یاب کرتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بے شک اس میں تمہارے لیے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 49)

اس آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دستِ اقدس سے کل پانچ معجزات کے ظہور کا ذکر آیا ہے : ⬇

1 ۔ مٹی سے پرندہ بنا کر اُسے زِندہ کرنا
2 ۔ مادر زاد اَندھے کا علاج
3 ۔ سفید داغ (برص) کا علاج
4 ۔ اِحیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا)
5 ۔ غیب کی خبریں سرِعام بتانا

یہ پانچ معجزات اللہ ربّ العزّت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے اور آپ علیہ السلام علی الاعلان ان کا اِظہار بھی فرمایا کرتے تھے ، جس کی تصدیق خود باری تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمائی ہے ۔ یہاں فقط اِتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اِس آیتِ کریمہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں ’’أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم‘‘ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی مورت بناتا ہوں ’’أَجْعَلُ‘‘ کی بجائے ’’أَخْلُقُ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا گیا۔ اگر آپ غور کریں تو مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں ساری بحث ہی حقیقت و مجاز کی ہے ۔

حقیقی کارساز اللہ ربّ العزت ہی ہے : ⬇

مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ میں بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مستعانِ حقیقی نہیں ہیں بلکہ اللہ ہی حقیقی مدد کرنے والا ہے ۔ البتہ ان الفاظ کا اِستعمال فقط مجازا ہوا ہے اور ساری بحث الفاظ پر ہے، لہٰذا اُصول اور ضابطہ یہ ہوا کہ ایسے الفاظ کا اِستعمال مجازا جائز ہے ۔ مذکورہ آیت میں تمام صیغے کلام کرنے والے کے ہیں مگر اِس کام کا حقیقت میں کارساز اللہ ہے گویا حقیقت باذن اللہ ہے ۔ کلمات میں حقیقت و مجاز کی قرآنِ کریم کے حوالے سے یہ بہترین مثال ہے ۔

کیا یہ معجزہ نہیں ؟ : ⬇

اِس موقع پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا ماجرا تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے اور اِستغاثہ کی بحث میں معجزے کا کیا کام کیونکہ اُس سے تو یہاں بحث ہی نہیں۔ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ’’معجزہ تو مریضوں کا شفایاب ہوجانا ہے نہ کہ اُن کا اپنی طرف شفا دینے کی نسبت کرنا‘‘۔ اصل بات یہی ہے کہ اُن کا اپنی طرف ان مافوق الفطرت اَعمال کی نسبت کرنا مجاز ہے اور شِفا اور بیماری درحقیقت ﷲ ربّ العزّت کی طرف سے ہے۔ جب یہ بات اٹل ہے کہ مادر زاد اندھے کو اور سفید داغ والے کو شفاء دینے والا اللہ تبارک و تعالی ہی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کیوں فرمایا کہ ’’میں شفا دیتا ہوں‘‘؟ چاہیئے تو یوں تھا کہ اِرشاد فرماتے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پھیرنے سے مادرزاد اَندھے کو بینائی دیتا ہے اور کوڑھی کو شفا عطا فرماتا ہے، معجزے کی شانِ اعجازی میں تب بھی کوئی فرق نہ آتا مگر اُنہوں نے مجازاً اِن اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کی۔
چوتھا قول اُنہوں نے فرمایا : وَ أُحْیِ الْمَوْتٰی بِإِذْنِ ﷲِ ’’ اور میں مُردوں کو ﷲ کے اِذن سے زندہ کرتا ہوں‘‘۔ یہاں تو اِنتہاء ہوگئی۔۔۔ ایسا نہیں فرمایا کہ تم مُردہ لے آؤ، میں اللہ سے اِلتجاء کروں گا ، اللہ میری دُعا سے زندہ کردے گا، بلکہ یوں اِرشاد فرمایا : ’’میں مُردوں کو اللہ کے اِذن سے زِندہ کرتا ہوں‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ان صیغوں اور کلمات کا اِستعمال اور اُن کی کسی فردِ بشر کی طرف نسبت مجازی طور پر جائز ہے۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی طرف اِن اَعمال و اَفعال کی نسبت کرنا نسبتِ مجازی ہونے کی بناء پر درست ہے اور اِسی آیت کے دُوسرے حصے میں آپ نے بِإِذْنِ ﷲ کے اَلفاظ کے ذریعے حقیقی کارساز اللہ ربّ العزّت ہی کو قرار دیا ۔

پانچویں بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمائی : وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ’’اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو‘‘۔ اس میں کوئی ذِکر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مطلع فرمانے سے ایسا کرتا ہوں، بلکہ فرمایا : أُنَبِّئُكُم میں تمہیں خبر دیتا ہوں ۔ اِن الفاظ میں صراحت کے ساتھ علمِ غیب کا پہلو پایا گیا کیونکہ اِس بات کا علم کہ کسی نے کون سی چیز کھائی ہے علمِ غیب ہے جو باری تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے یوں نہیں فرمایا کہ خداوندِ قدّوس مجھے آگاہ فرماتا ہے۔ اگرچہ واقعتا حقیقت یہی ہے کہ ﷲ ہی آگاہ کرتا ہے مگر اُنہوں نے اِس بات کا اپنے اَلفاظ میں اِظہار نہیں فرمایا اور مجازی طور پر اِس غیب کی نسبت اپنی طرف کی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ غیرﷲ کی طرف علمِ غیب کی نسبت مجازی طور پر جائز ہے ورنہ رسولِ خدا سے یہ فعل ہرگز سرزد نہ ہوتا ۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوی نبوت کے سلسلے میں جو اِعلانات فرمائے آج کے نام نہاد مؤحّدین کے مؤقف کی روشنی میں وہ سب کے سب شِرک کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔ اِس طرح کے طرزِ فکر سے تو اَنبیائے کرام علیہم السّلام جو خالصتاً توحید ہی کا پیغامِ سرمدی لے کر انسانیت کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں، اُن کی قبائے عصمتِ نبوّت بھی تار تار ہوئے بغیر نہیں رہتی اور وہ بھی شِرک کے فتویٰ سے نہیں بچ سکتے ۔

ﷲ تعالیٰ پر شِرک کا فتویٰ : ⬇

سورۂ آل عمران کی مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اَلفاظ مذکور ہیں کہ میں اللہ کے اِذن سے مُردے زِندہ کرتا ہوں، مٹی سے پرندوں کی مُورتیں بنا کر اُن میں جان ڈالتا ہوں وغیرہ، مگر مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں تو خود اللہ تعالیٰ بھی اُن کے اِس فعل کی تصدیق فرما رہا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي ۔ ترجمہ : اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے ۔ (سورہ المائده آیت نمبر 110)
اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ اے عیسیٰ علیک السلام میں نے تیرے لئے مٹی کے پرندے بنائے اور زِندہ کر دیئے، تیرے لئے مادر زاد اَندھوں کو بینائی دی اور برص زدہ لوگوں کو شفا دی۔ با وجود یہ کہ اللہ تعالی توحیدِ خالص کے حامل سادہ لوح مؤحّدین کی حسبِ خواہش حقیقت پر مبنی اِس اُسلوب کو اپنا بھی سکتا تھا، مگر اِس کے باوجود اُس خالق و مالک نے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۔ ترجمہ : پھر تم اس میں سے پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی ۔(سورہ المائده آیت نمبر 110)

رُوح پھونکنا دَرحقیقت فعلِ اِلٰہی ہے : ⬇

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی میں رُوح پھونکنا اور جان ڈالنا خالقِ کائنات ہی کا کام ہے ۔ مگر اُس نے خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کےلیے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ’’پھر تو اُس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اُڑنے لگتی‘‘ وَتُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ’’اور جب تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے‘‘ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي ’’اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو ( زِندہ کرکے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے ۔ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے کلمات کا غیرﷲ پر اِطلاق مجازاً جائز ہے ۔ اِن کلمات کو خود اللہ ربّ العزّت نے اِستعمال فرمایا اور انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی اِستعمال کیا حالانکہ ایسے کلمات کی ادائیگی فرمانا اُن کی مجبوری نہ تھی ۔ ﷲ ربّ العزّت کا اپنے کلامِ مجید میں اِن اَلفاظ کو مجازی معنی میں اِستعمال کرنا نہ صرف مجازی معنی کے جواز کا سب سے بڑا ثبوت ہے بلکہ اس کے سنتِ اِلٰہیہ ہونے پر بھی دالّ ہے ۔ اِس ساری بحث سے ظاہری اور باطنی اَسباب کےلیے ایک خاص ضابطہ بھی میسر آتا ہے کہ تمام مافوق الاسباب اُمور میں اَلفاظ اگرچہ براہِ راست بندے اور مخلوق کی طرف منسوب ہوں تب بھی فاعلِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو گردانا جائے گا کیونکہ کارسازِ حقیقی وُہی ہے ۔

ذاتی اور عطائی صفات : ⬇

اللہ کی تمام کی تمام صفات اس کی ذاتی صفات ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں ہیں اور اس کی صفات بے شمار ہیں جن کا ہم احاطہ نہیں کر سکتے۔جبکہ مخلوق کی تمام کی تمام صفات اللہ کی عطا کردہ ہیں لہذا ان کو عطائی صفات کہا جاتا ہے ۔ علم ، ارادہ ، کلام ، سننا، دیکھنا وغیرہ وغیرہ کئی صفات ایسی ہیں جو اللہ کے لیے بهی ثابت ہیں ، اور بندوں کے لیے بهی ثابت ہیں لیکن ان میں کئی اعتبار سے فرق ہے اور ایک بہت بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ : اللہ کی یہ صفات ذاتی صفات ہیں اور بندوں کی یہ صفات عطائی صفات ہیں ۔ اب جو کہتا ہے کہ میں اس فرق کو نہیں مانتا اس سے سوال یہ ہے کہ تم اس فرق کو مٹا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو کہ تمہیں جو مذکورہ بالا صفات میں سے کچھ حصہ ملا ہے تو کیا یہ اللہ کی عطا کردہ صفات نہیں ہیں ؟

یقیناً اللہ کی ہی عطا کردہ ہیں لہٰذا عطائی صفات تو ماننی پڑیں گی ورنہ تم اللہ کی عطا کے منکر ٹهرو گے اور جو اللہ کی عطا کا انکار کرے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔اب کچھ صفات ایسی ہیں جو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو خاص طور پر ملی ہیں مثلاً مردے کو زندہ کرنا ، شفا دینا، غیب جاننا، ما فوق الاسباب مدد کرنا ، اندهے کو بینا کر دینا وغیرہ وغیرہ۔ان کو معجزات میں شمار کیا جاتا ہے اس لیے کہ یہ عقل میں نہیں آ سکتی ،اسی طرح اولیاء کرام رحمهم اللہ تعالیٰ کو بہت سی کرامات سے نوازا گیا ہے۔یہ سب اللہ کی عطا سے ہے کوئی اللہ کی عطا کے بغیر ایک ذرہ بهی کسی کو نہیں دے سکتا۔اب جو ان صفات کو اللہ کی عطا کردہ صفات نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ ذاتی عطائی کوئی چیز نہیں تو جان لو وہ حقیقت میں اللہ کی عطا ہی کا منکر ہے اور وہ توحید و شرک کا فرق اٹھانا چاہتا ہے اور قرآن کی آیات کا انکار اور احادیث کا انکار کر کے اپنے فاسد نظریات پھیلانا چاہتا ہے ، شرک کی جڑ کاٹنے والا فرق یہی ذاتی عطائی اور حقیقی مجازی کا فرق ہے جو ہر مسلمان کو یاد رکھنا لازمی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات جو صفات عامہ کہلاتی ہیں مخلوق میں پائی جاتی ہیں، جب ان کا ذکر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو گا تو وہ حقیقی معنی میں استعمال ہوں گی اور شان خالقیت و الوہیت کے مطابق ہوں گی اور جب مخلوق کے لئے ہو گا تو ان کا استعمال مجازی اور عطائی معنی میں ہو گا کیونکہ مخلوق میں جو صفات پائی جاتی ہیں وہ اللہ کی صفات سے اصلاً مشابہ نہیں ہوتیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہیں۔ یہ صفات مخلوق کو اس لیے عطا کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ صفات کو جہاں تک ممکن ہو معلوم کرنے میں مدد مل سکے گویا یہ صفات الٰہیہ کی معرفت کا ذریعہ اور واسطہ بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق میں پائی جاتی ہیں وہ اس طرح کی ہیں : ⬇

(1) صفاتِ حقیقی بمعنی صفات ذاتی

(2) صفات مجازی بمعنی صفات عطائی

(1) اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ۔ ترجمہ : بیشک وہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔ (الإسراء، 17 : 1)

فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ۔ ترجمہ : پھر ہم اس کو سننے والا اور دیکھنے والا (انسان) بنا دیتے ہیں ۔ (الدهر، 76 : 2)

إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔ ترجمہ : بیشک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے ۔ (البقرة، 2 : 143)

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے، تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں ۔ (التوبة، 9 : 128)

إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ۔ ترجمہ : بیشک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہے ۔ (الحج، 22 : 17)
وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۔ ترجمہ : اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول تم پر گواہ ہو ۔ (البقرة، 2 : 143)

کَلَّمَ اﷲُ مُوْسٰی تکْلِيْمًا ۔ ترجمہ : اور اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی ۔ (النساء، 4 : 164) ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ سے کلام کیا ۔

أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا ۔ ترجمہ : کیا یہ ان (کافروں) کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ پس عزت تو ساری اللہ کے لئے ہے ۔ (النساء، 4 : 139)
وَِﷲِ الْعِزَّة وَ لِرَسُوْلِه وَ لِلْمُوْمِنِيْنَ ۔ ترجمہ : عزت اللہ کےلیے ، اس کے رسول کے لئے اور مومنین کےلیے ہے ۔ (المنافقون، 63 : 8،چشتی)

أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً ۔ ترجمہ : ساری قوتوں کا مالک اللہ ہے ۔ (البقرة، 2 : 165)

سیدنا سلیمان علیہ السلام کے استفسار پر آپ کے درباریوں نے یہ جواب دیا : نَحْنُ أُوْلُوا قُوَّةٍ وَأُولُوا بَأْسٍ شَدِيدٍ ۔ ترجمہ : ہم طاقتور اور سخت جنگجو ہیں ۔ (النمل، 27 : 33)

بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۔ ترجمہ : ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے ۔ (آل عمران، 3 : 26)
أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۔ ترجمہ : خبردار ہر چیز کی تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے ۔ (الاعراف، 7 : 54)

وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۔ ترجمہ : جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہو گئی ۔ (البقرة، 2 : 269)

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے : أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ ۔ ترجمہ : میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں ۔ (آل عمران، 3 : 49)

محترم قارئینِ کرام : نفس مسئلہ کو سمجھانے کےلیے فقیر نے چند آیات قرآنی نقل کی ہیں اس طرح کی دیگر بہت سی آیات موجود ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان لوگوں کو ہدایت عطاء فرمائے جو بلا سوچے سمجھے اہلِ اسلام پر شرک کے فتوے لگاتے ہیں اور امتِ مسلمہ فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں آمین ۔


دیوبندی ، وہابی غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں یہ شرک خود کرتے ہیں مگر فتوے مسلمانانٍ اہلسنت پہ لگاتے ہیں ۔ ہاں اگر یہ شرک ںہیں تو کیوں ؟ ۔ اگر شرک ہے تو آج تک کتنے آپ کے علما نے ان پر شرک کے فتوے لگاۓ ہیں ؟ : حقیقت یہ ہے کہ دیوبندیوں اور وہابیوں کی ڈیوٹی یہ ہے کہ جھوٹ بول بول کر مسلمانانِ اہلسنّت پر شرک کے فتوے لگاتے ہیں ۔ قرآن و حدیث پر مکمل ایمان نہیں رکھتے اور خود غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں مگر فتوے دوسروں پر لگاتے اس مضمون میں ان کی اسی منافقت کو بے نقاب کیا گیا ہے ایک بار مکمل ضرور پڑھیں فضول کمنٹس سے پرھیز کریں ۔

غیر مقلد وہابی غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں : ⬇

علامہ نواب وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث لکھتے ہیں : غیرُ اللہ سے مدد مانگنا کہ اللہ کے اذن (یعنی عطاء) سے مدد کرتے ہیں یہ شرک نہیں ہے ۔(ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 20)

غیرمقلد وہابی حضرات کے مجدد نواب صدیق حسن خان بھوپالوی غیر اللہ سے یوں مدد مانگتے ہیں : قاضی شوکاں مدد  ، قبلہ دیں مدد غیر اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے ۔ (نفخ الطیب صفحہ نمبر 63۔چشتی)

قاضی شوکاں مدد ، قبلہ دیں مدد غیر اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے ۔ ( ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 23 نواب وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث)

نواب صدیق حسن خان کا امام شوکانی سے مدد مانگنا اور غیر مقلد عالم رئیس ندوی کی تاویل

غیر مقلدین کی یہ عادت ہےکہ وہ بات بات پہ دوسروں کے اوپر شرک کا فتوی لگائیں گے اور اگر ویسا ہی حوالہ ان کے علماء کا نکل آئے تو یا تو اپنے عالم کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے اس کا انکار کر دیں گے یا پھر اس کی تاویل شروع کر دیں گے ۔

غیر مقلدکے مشہور عالم نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتاب ''نفخ الطیب'' میں علامہ شوکانی سے مدد مانگی تو اس کی تاویل میں علامہ رئیس ندوی صاحب کہتے ہیں کہ '' اشعار میں بڑی نازک خیالی پیش کرنے کی شعراء کی عادت ہے، یہاں نواب صاحب کی بات کا مطلب ہے کہ اہلحدیث فرقہ کے ساتھ اہل رائے فتنہ پردازی میں مصروف ہے ان کے مقابلہ کے لئےہمیں امام شوکانی جیسے حامی سنت کی کتابوں سے مدد لینے کی ضرورت پیش ہے ۔ (مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ،868/869)

نواب صدیق حسن خان کے اس شعر کی ایک تاویل مولانا ثناء اللہ امرتسری نے بھی کی ہے ۔ غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری کے رسالہ اہلحدیث امرتسر میں ایک قادیانی نے اعتراض کیا کہ نواب صدیق حسن خان فوت شدہ بزرگوں سے استمداد کے قائل تھے ان کا شعر ہے کہ ''ابن قیم مددے قاضی شوکانی مددے'' اس کے جواب میں لکھا ہے کہ ''نواب صاحب کا اس سے مقصود حقیقی استمداد نہیں بلکہ اظہار محبت ہے'' (رسالہ اہلحدیث امرتسر 3 جون 1938 صفحہ 7؛چشتی)

اس کے علاوہ نواب صدیق حسن خان صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے بھی مدد مانگتے تھے ۔ (مآثر صدیقی حصہ دوم صفحہ 30 / 31)

بات بات پر اہلسنت و جماعت پر شرک کے فتوے لگانے والے غیر مقلد وہابی حضرات کیا ؟ اپنے غیر مقلد اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان کےامام شوکانی، ابن قیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے سے مدد مانگنے کے ان حوالوں کو مانیں گے یا اپنے نواب صاحب کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے ان پربھی شرک کا فتوئ لگائیں گے ؟

وہابی مولوی نواب وحید الزمان لکھتا ہے : غیرُ اللہ سے مدد مانگنا کہ اللہ کے اذن (یعنی عطاء) سے مدد کرتے ہیں یہ شرک نہیں ہے ۔ (ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 20۔چشتی)

وہابی مولوی نواب صدیق حسن خان لکھتا ہے : قاضی شوکاں مدد ، قبلہ دیں مدد غیر اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے ۔ ( نفخ الطیب صفحہ نمبر 63 غیر مقلدین کے امام نواب صدیق حسن خان)

قاضی شوکاں مدد ، قبلہ دیں مدد غیر اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے ۔ (ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 23 نواب وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث)

نواب صدیق حسن خان کا امام شوکانی سے مدد مانگنا اور غیر مقلد عالم رئیس ندوی کی تاویل

غیر مقلدین کی یہ عادت ہےکہ وہ بات بات پہ دوسروں کے اوپر شرک کا فتوی لگائیں گے اور اگر ویسا ہی حوالہ ان کے علماء کا نکل آئے تو یا تو اپنے عالم کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے اس کا انکار کر دیں گے یا پھر اس کی تاویل شروع کر دیں گے ۔

غیرمقلد ویابیوں کے مشہور عالم نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتاب ''نفخ الطیب'' میں قاضی شوکانی سے مدد مانگی تو اس کی تاویل میں وہابی مولوی رئیس ندوی تاویل کرتے ہوۓ لکھتا ہے کہ '' اشعار میں بڑی نازک خیالی پیش کرنے کی شعراء کی عادت ہے ، یہاں نواب صاحب کی بات کا مطلب ہے کہ اہلحدیث فرقہ کے ساتھ اہل رائے فتنہ پردازی میں مصروف ہے ان کے مقابلہ کےلیے ہمیں امام شوکانی جیسے حامی سنت کی کتابوں سے مدد لینے کی ضرورت پیش ہے ۔ (مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ صفحہ نمبر 868/869،چشتی)

نواب صدیق حسن خان کے اس شعر کی ایک تاویل مولوی ثناء اللہ امرتسری نے بھی کی ہے ۔غیر مقلد شیخ الاسلام مولوی ثناء اللہ امرتسری کے رسالہ اہلحدیث امرتسر میں ایک قادیانی نے اعتراض کیا کہ نواب صدیق حسن خان فوت شدہ بزرگوں سے استمداد کے قائل تھے ان کا شعر ہے کہ ''ابن قیم مددے قاضی شوکانی مددے'' اس کے جواب میں لکھا ہے کہ ''نواب صاحب کا اس سے مقصود حقیقی استمداد نہیں بلکہ اظہارِ محبت ہے ۔ (رسالہ اہلحدیث امرتسر 3 جون 1938،صفحہ 7)

اس کے علاوہ نواب صدیق حسن خان صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بھی مدد مانگتے تھے ۔ (مآثر صدیقی حصہ دوم صفحہ 30/31)

بات بات پر اہلسنت و جماعت پر شرک کے فتوے لاگانے والے غیر مقلد وہابی حضرات کیا ؟ اپنے غیر مقلد اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان کےامام شوکانی ، ابن قیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سے مدد مانگنے کے ان حوالوں کو مانیں گے یا اپنے نواب صاحب کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے ان پر بھی شرک کا فتوئ لگائیں گے ؟

دیوبندیوں کے شرکیہ عقاٸد : ⬇

دیوبندیوں کے نزدیک ایصال ثواب جائز ، دیوبندی پیروں کے وسیلہ سے دعا بحرمت کہہ کر کرنا جائز ، دیوبندی پیر دستگیر بھی ہیں اور مشکل کشاء بھی ۔ (فیوضات حسینی صفحہ نمبر 68 دیوبندی علماء)

دیوبندیوں کا اقرار ہم بزرگوں کی ارواح سے امداد کے منکر نہیں ہیں ۔ سوانح قاسمی میں ایک واقعہ بیان ہوا کہ بانی دیوبند قبر سے آ کر ایک مولوی صاحب کی مدد کرتے ہیں اس طرح دیوبندی علماء اپنے خود ساختہ شرک کے فتوؤں میں جب پھنس گئے تو اپنے بڑوں کو شرک سے بچانے کےلیئے خود ہی اقرار کر لیا کہ ہم بزرگوں کی قبروں اور ان کی ارواح سے مدد کے منکر نہیں ہیں بلکہ یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور ہم اسے مانتے ہیں ہم پر انکار کا الزام لگانے والے جاہل ہیں پہلے یہ پڑھیے : ⬇

دیوبندی عالم جناب مناظر احسن گیلانی اپنے بڑوں کو شرک سے بچانے کےلیئے لکھتے ہیں : پس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں ہمارا بھی ارواح صالحین سے مدد کے متعلق وہی عقیدہ ہے جو اہلسنت و جماعت کا ہے اور یہ سب قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ (حاشیہ سوانح قاسمی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 332 قدیم ایڈیشن و صفحہ نمبر 211 جدید ایڈیشن مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)

وہابیت کی راہ پر چل کر مسلمانانِ اہلسنت پر یہی عقیدہ و نظریہ رکھنے کی وجہ سے شرک کے فتوے لگانے والے دیوبندی جواب دیں بانی دیوبند ، شیخ الہند دیوبند اور مناظر احسن گیلانی صاحبان مشرک ہوئے کہ نہیں ؟

اور وہ لکھ رہے ہیں ارواح صالحین سے مدد کے انکار کا ہم پر الزام لگانے والے جاہل ہیں اور بہتان لگانے والے ہیں اب بتایئے آپ لوگ بہتان تراش اور جاہل ہیں کہ نہیں جو ارواح صالحین علیہم الرّحمہ سے امداد کے منکر بن کر اسے دیوبند کی طرف منسوب کرتے ہیں ؟

قطب العالمِ دیوبند غوث اعظم ہے (سب سے بڑا فریاد رس) قطب العام دیوبند نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ثانی ہے ہے ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ 4 از قلم شیخ الہند دیوبند محمود حسن)

دیوبندیوں کا سب سے بڑا مددگار غوث اعظم گنگوہی ہے ، بانی اسلام کا ثانی گنگوہی ہے، اللہ کا فیض تقسیم کرنے والا ، ابر رحمت ، اللہ کا سایہ ، قطب ہے گنگوہی ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ نمبر 4،چشتی)

اے مسلمانو دیوبندیوں نے اپنے گنگوہی کو پیغمبرَ اسلام رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ثانی قرار دیا ھے سوال ھے آپ کی غیرتِ ایمانی سے کیا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شانِ اقدس میں گستاخی نہیں ہے فرقہ واریت سے ھٹ کر ایک مسلمان کی حیثیت سے جواب دیجیئے ؟ اور یہ گنگوہی کو اللہ کا فیض تقسیم کرنے والا ، غوث اعظم ، اللہ کا سایہ اور اللہ کی رحمت کہیں تو کوئی شرک نہیں اور مسلمانانزِ اہلسنت پر شرک کے فتوے کیوں جناب عالی ؟

دیوبندیوں کا حاجت روا مشکل کشاء : اب ہم اپنی دین و دنیا کی حاجتیں کہاں لے جائیں وہ ہمارا قبلہ حاجات روحانی و جسمانی گیا ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ 7 شیخ الہند دیوبند محمود حسن)

دیوبندیوں کا قطب العالم ، غوث زماں گنج عرفاں دستگیر بیکساں مولوی رشید احمد گنگوہی ہے ۔ (تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ 136۔چشتی)

ہم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی اپنے گنگوہی کو غوث الاعظم لکھیں تو جائز ۔ (تذکرۃ الرشید جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 2)

دیوبندیوں کا مشکل کشاء حاجت روا رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں گنگوہی صاحب کا ایسا مرتبہ تھا کہ گنگوہی کے نام کے وسیلے سے حاجتیں پوری ہوتی تھیں ۔ (تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ297۔چشتی)

دیوبندیوں کا غوث (یعنی فریاد سننے والا) رشید احمد گنگوہی ہے جس کے وسیلے سے ہزاروں لوگوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں ۔ (تذکرۃُ الرّشید جلد دوم صفحہ نمبر 305)

دیوبندیوں کا سب سے بڑا فریاد رس غوثُ الاعظم رشید احمد گنگوہی ہے

عاشق الٰہی بلند شہری دیوبندی لکھتا ہے : رشید احمد گنگوہی قُطبُ العالم اور غوثُ الاعظم ہیں ۔ (تذ کرۃُ الرّشید جلد اوّل قدیم ایڈیشن صفحہ نمبر 2)

کوئی دیوبندی قطب العالم اور غوثُ الاعظم کے معنیٰ بتائے گا ؟

مسلمانانِ اہلسنّت حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوثُ الاعظم کہیں تو شرک کے فتوے اور تم اپنے مولوی کو غوثُ الاعظم کہو لکھو تو عین توحید اور ایمان ہو جائے کیوں جناب من یہاں شرک کے فتویٰ کہاں گیا ؟

یا مان لو کہ مسلمانانِ اہلسنت کے عقائد و نظریات حق ہیں یا اپنے مولویوں پر فتویٰ لگاؤ شرک کا ؟

اپنے لیئے شریعت اور دوسروں کےلیئے اور یہ دہرا معیار چھوڑ کر فتنہ فساد اور تفرقہ پھیلانا چھوڑ دو ۔

دیوبندیوں کا مولوی مظہرِ نورِ ذاتِ خدا ، رنج و غم ٹالنے والا اور چارہ ساز بھی ہے جو اٹھ گیا اب کون رنج و غم مٹائے گا اور چارہ سازی کرے گا چارہ ساز جو اٹھ گیا ۔ (مرثیہ شیخ مدنی صفحہ 24 مطبوعہ راشد کمپنی دیوبند یوپی)

یہی الفاظ مسلمانانِ اہلسنّت کہیں تو شرک مگر یہاں جائز ؟

گنج بخش فیض عالم مظہرِ نورِ خدا پر شرک کے فتوے لگانے والے دیوبندی مفتیو اب لگاؤ نا یہاں شرک کے فتوے ؟

جس نے اللہ کا دیدار کرنا ہو وہ دیوبندیوں کے مولوی کی قبر کی زیارت کرے : ⬇

دیوبندیوں کے مولوی کی قبر کو دیکھنا اللہ کو دیکھنا ہے ، انوار و برکات ہیں ، دیوبندی مولوی دیوبندیوں کا مولا ہے ، دیوبندی مردہ مولوی کی قبر کی زیارت سے اسرار عیاں ہوتے ہیں ۔ دیوبندی مولوی کی قبر کی زیارت سے دیدار رب العالمین ہوگا ، قبر کو اونچا کرنا چاہا تو قبر والے دیوبندی مولوی کو علم ہو گیا کہا نہ کرو خلافِ سنت ہے اور دیوبندی مولوی کا لوہاری عورت سے عشق ۔ (تاریخ مشائخ چشت صفحہ 235 ، 236 علامہ محمد زکریا کاندھلوی دیوبندی سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)

دیوبندیوں کا مولوی جانتا ہے کون حلال خرید کر لایا ہے اور کون حرام حلال کے پیسوں کے سیب الگ کردیئے اور حرام کے پیسوں کے الگ کر دیئے ۔ (خوشبو والا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفحہ نمبر 87 ، 88۔چشتی) ۔ یہاں شرک نہیں ہوا جناب ؟

حکیم الامت دیوبند نے پکارا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم میری مدد کیجیے : ⬇

حکیم الامتِ دیوبند لکھتے ہیں : یارسول اللہ میری مدد کیجیے آپ کے سوا کہاں میری پناہ ، مشکل میں آپ ہی تو ہیں ، یارسول للہ مد کیجیے ۔ (نشر الطیب صفحہ نمبر 194 علامہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ تاج کمپنی پاکستان)

حکیم الامت دیوبند نے پکارا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم آپ ہم سے دور نہیں : ⬇

حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : یا مصطفیٰ یا مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ ہمارے مددگار ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صدقے مشکلیں حل ہوتی ہیں اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دور ہوں تو ہم مر جائیں ۔ (حیٰوۃُ المسلمین صفحہ نمبر 51 علاّمہ اشرف علی تھانوی دیوبندی مطبوعہ المیزان اردو بازار لاہور۔چشتی)

پکارو یارسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مدد حکیمُ الاُمتِ دیوبند کی زبانی  ۔ دیے گئے اشعار مؤلف یعنی حکیمُ الاُمتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب کے ہیں  : حکیمُ الاُمتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں : ⬇

یا شفیع العباد خذبیدی
دستگیری کیجئے میری نبی

انت فی الضطرار معتمدی
کشمکش میں تم ہی ہو میرے ولی

لیس لی ملجاء سواک اغث
جز تمہارے ہے کہاں میری پناہ

مسنی الضر سیدی سندی
فوج کلفت مجھ پہ آ غالب ہوئی

غشنی الدھر ابن عبداللہ
ابن عبداللہ زمانہ ہے خلاف

کن مغیثا فانت لی مدری
اے مرے مولٰی خبر لیجئے مری

نام احمد چوں حصینے شد حصین
پس چہ باشد ذات آں روح الامین

کچھ عمل ہی اور نہ اطاعت میرے پاس
ہے مگر دل میں محبت آپ کی

میں ہوں بس اور آپ کا دریا یارسول
ابر غم گھیرے نہ پھر مجھ کو کبھی

خواب میں چہرہ دکھا دیجئے مجھے
اور میرے عیبوں کو کر دیجئے خفی

درگزر کرنا خطاو عیب سے
سب سے بڑھ کر ہے یہ خصلت آپ کی

سب خلائق کیلئے رحمت ہیں آپ
خاص کر جو ہیں گناہگار و غوی

کاش ہو جاتا مدینہ کی میں خاک
نعل بوسی ہوتی کافی آپ کی

آپ پر ہوں رحمتیں بے انتہا
حضرت حق کی طرف سے دائمی

جس قدر دنیا میں ہے ریت اور سانس
اور بھی ہے جس قدر روئیگی

اور تمہاری آل پر اصحاب پر
تابقائے عمر دار اخروی

(نشر الطیب صفحہ نمبر 194 ، 195 ۔ حکیمُ الاُمتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی مطبوعہ تاج کمپنی پاکستان،چشتی)

فیس بک کے مفتیانِ دیوبند سے سادہ سا سوال اس طرح پکار کر حکیم الامتِ دیوبند مشرک ہوئے کہ نہیں ؟

اگر نہیں تو کیوں ؟

اگر مشرک ہوئے تو آج تک کتنے دیوبندی علماء نے تھانوی صاحب اور ان کی اس کتاب پر شرک کے فتوے لگائے ہیں ؟

کوئی ایک فتویٰ بطور ثبوت دیجیے ؟

اِدھر اُدھر کی باتیں جواب تصور نہیں کی جائیں گی صرف اتنا جواب دیا جائے اس طرح پکارنا جائز ہے یا شرک ؟

الصّلوٰۃ والسّلام علیک یارسول اللہ پڑھنے کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ عالم امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا فرمان مرشد اکابرین دیوبند جناب حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ۔ (امداد المشتاق صفحہ نمبر 60)

اور مسلک حق کا فیصلہ کیجیے ساتھ ہی کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی زندہ عملی مثال تھانوی صاحب کا حاشیہ پڑھیے کہتے ہیں پڑھنے والے کو اگر کشفی کیفیت حاصل ہو تو پڑھ سکتا ہے ورنہ اجازت نہیں دی جائے گی مگر تھانوی صاحب اسے ناجائز نہیں لکھ سکے اگر وہ یا کوئی دیوبندی اسے ناجائز ، یا شرک کہتا ہے تو مرشد اکابرین دیوبند کو ناجائز کام کا مرتکب اور مشرک قرار دینا پڑے گا اس لیئے کہ ناجائز شرک ہر ایک کےلیئے ناجائز و شرک ہو گا ۔

کیا حاجی صاحب کے اس فرمان پر تھانوی صاحب سمیت کسی بھی دیوبندی عالم نے شرک و گمراہی کا فتویٰ لگایا اگر لگایا ہے تو ہمارے علم میں اضافہ کےلیے بتایا جائے ؟

اگر نہیں لگا تو مسلمانان اہلسنت کیا کیا قصور ہے کہ وہ یہ درود پڑھیں تو دیوبند کی شرک و گمراہی کی توپیں کھل جاتی ہیں اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر انتشار و فساد پھیلایا جاتا ہے آخر یہ دوغلہ پن و دہرا معیار فتویٰ کیوں ؟

یاد رہے اس جملہ پر بھی غور کیا جائے کہ : عالمِ امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں ۔ جب دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو دور و نزدیک بحث عبث یعنی بے کار ہے ۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہادی عالم اور مشکل کشاء ہیں اکابرین دیوبند ۔ اکابرین کے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی مشکل کشاء کہا ہے : ⬇

دور کر دل سے حجاب جہل و غفلت میرے رب
کھول دے دل میں در علم حقیقت میرے رب
ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے

(کلیاتِ امدادیہ صفحہ نمبر 103ط مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)

ظاہر ہے کہ جب خود "مشکل کشاء" کی اصطلاح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں تو ان کے خلفاء و مریدین کو اس میں کیا عذر لاحق ہوسکتا ہے ۔

یوبندیوں کا مشکل کشاء اور پیر دستگیر : ⬇

دیوبندیوں کے امام جناب محمد سرفراز خان صفدر کے چھوٹے بھائی جناب صوفی عبدالحمید خان سواتی صاحب نے تو ’’فوائد عثمانی‘‘ کا حوالہ صحیح سمجھ کر نقل کیا ہے جس سے ایک صوفی بزرگ مولانا عثمان کو "مشکل کشاء" اور "پیر دستگیر" کہا گیا ہے ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس صوفی بزرگ کے لئے حسب ذیل القابات میں نہ صرف "مشکل کشاء" بلکہ "دستگیر" کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں : الہی بحرمت حضرت خواجہ مشکل کشاء ، سید الاولیاء، سندالاتقیاء ، زبدۃالفقہاء، راس العلماء ، رئیس الفضلاء ، شیخ المحدثین ، قبلۃ السالکین ، امام العارفین ، برہان المعرفہ ، شمس الحقیۃ ، فرید العصر ، وحیدالزمان ، حاجی الحرمین الشریفین ، مظہر فیض الرحمن پیر دستگیر حضرت مولانا محمد عثمان رضی اللہ عنہ ۔ (فیوضات حسینی ص 68 مطبوعہ مدرسہ نصرۃ العلوم گجرانوالہ1387ھ)

شیخ الاسلام دیوبند جناب حسین احمد مدنی فرماتے ہیں کہ : کیونکہ دعوات میں توسل کرنا خواہ اعمال صالحہ سے ہو یا عابدین صالحین سے ، اولیاء اللہ سے ہو یا انبیاء اللہ سے ، ملائکہ مقربین سے ہو یا اسماء و صفات و افعال الٰہیہ سے ایجابت دعاء میں بہت زیادہ مفید اور موثر اور سلف صالحین کا محمول بہ امر ہے ۔ اس لئے ان شجروں کو اسی طریق توسل پر ترتیب دیا گیا ہے ، مناسب یہ ہے کہ احباب روزانہ کم از کم ایک مرتبہ جونسا بھی شجرہ پسند خاطر ہو پڑھ لیا کریں اپنے لئے اور اس ناکارہ ننگ خاندان کے لئے بھی دعاء کریں ۔ امید قوی ہے کہ اس طریقہ پر دعاء قبول ہوگی ۔ (سلاسل طیبہ صفحہ نمبر 6 مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور،چشتی)

آگے تمام شجروں میں مختلف الفاظ سے اور ایک شجرہ میں واضح طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ : ’’ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے ۔ یا اللہ ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے ، اور صالحین علیہم الرّحمہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ و واسطے سے کرم فرما ۔ (سلاسلِ طیّبہ صفحہ 14 شیخ الاسلام دیوبند)

اگر یہی الفاظ مسلمانانِ اہلسنت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کےلیئے استعمال کرتے ہیں تو شرک کے فتوے مگر اہنے مردہ مٹی میں مل جانے اور گل سڑ جانے والے مولوی کےلیئے یہ سب کچھ جائز ہے آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے ؟ اور اب تک کسی دیوبندی عالم اور پر جوش موحد نے اس کتاب پر اور لکھنے والے پر نہ کوئی فتویٰ لگایا اور نہ ہی رد لکھا آخر یہ دہرا معیار کیوں جناب اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر وہی افعال خود اپنا کر منافقت دیکھا کر تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے آخر کیوں ؟ اصل اسکن پیش خدمت ہیں فیصلہ اہل ایمان خود کریں مسلمانان اہلسنت یہ نظریات رکھیں اور کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی خود سب کچھ کریں تو جائز آخر یہ دہرا معیار و منافقت اپنا کر امت مسلمہ میں تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایاجاتا ہے ؟

ندائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم : ⬇

قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بغیر قید زمان و مکاں ہر وقت ہر جگہ لفظ یا سے پکارنا 'ندا کرنا ' یا رسول اللہ ' یا حبیب اللہ کہنا جائز و مستحب ہے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے : یا ایھا النبی 'یا ایھا الرسول یا ایھا المزمل'یا ایھا المدثر ۔ لا تجعلوادعاء الرسول بینکم کدعا ء بعضکم بعضا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے ۔ (پارہ ١٨، سورۃ النور ، آیت ٦٣)

حدیث شریف : ینا د و ن یا محمد یا ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ۔ (صحیح مسلم شریف ص ٤١٩، جلد ٢)

امیر المومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد فرمایا '' دو موتیں نہ آئیں گی ، یعنی آپ نے موت کا ذائقہ چکھا وہ ہو گیا اس کے بعد حیات ہے ۔ حیات کے بعد پھر موت نہیں آئے گی جیسا کہ خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا فنبی اللہ حی ۔ اللہ کے نبی زندہ ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ ص ١١٩، جلاء الافہام ابن قیم)

ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبر انورپر حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول اپنی اُمت کیلئے بارش طلب فرمائیں ۔ تحقیق وہ ہلاک ہو گئے ۔ اس کے بعد حضورنبی ئ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو خواب میں زیارت عطا فرمائی اور فرمایا کہ عمر کو میرا سلام کہنا اور خوشخبری دو بارش ہو گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ از امام محدث ابوبکر عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ' اُستاذ امام مسلم و بخاری جلد نمبر١٢، ص ٣٢ کتاب الفضائل،چشتی)(فتح الباری شرح بخاری جلد ٢ ، ص ٤٩٥ نیز فرمایا اس کی سند صحیح ہے)

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق آپ کا جنازہ روضہ مبارک پر لے جا کر رکھ دیا گیا اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی ''السلام علیک یا رسول اللہ '' یہ ابوبکر صدیق ہیں اجازت چاہتے ہیں ۔ (آپ کے پاس دفن ہونے کی) پھر اس کے بعد دروازہ مبارک کھل گیا اور آواز آئی ا د خلو ا لحبیب ا لی حبیبہ ۔(خصائص الکبریٰ محدث جلال الدین سیوطی ، تفسیر کبیر ص ٤٧٨، جلد ٥)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد سیدنا عبد اللہ بن سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کا پاؤں سن ہوا تو انہوں نے پکارا یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ۔ حضرت سیدنا خالد بن ولید نے مسیلمہ کذاب سے جنگ کے وقت فرمایا : بشعار المسلمین یا محمداہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔ (فتوح الشام ص ١٦٠ ، ج ١)(ابن کثیر نے البدایہ ص ٣٢٤ جلد ٦ میں لکھا ہے : کا ن شعا ر ھم یو مئذ یا محمد اہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)

حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں حلب میں لڑنے والے اسلامی لشکر نے کہا ''یا محمد یا محمد یا نصر ا للہ انزل '' (تاریخ فتوح الشام ، ج١)

حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ پڑھتے : السلام علیک ا یھا ا لنبی و رحمۃ ا للہ و برکا تہ ۔(الشفاء شریف جلد دوم ، ص ٥٣)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) کا قدم مبارک سن ہوا تو انہوں نے پکارا '' یا محمد'' صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (تحفۃ الذاکرین ص ٢٠٢ ، شوکانی)(الداء والدواء ص ٤٧ ، صدیق حسن خان)

قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو لفظ یا سے ندا کرنا ' دور سے یا نزدیک سے پکارنا جائز ہے ' ان کی ظاہر ی زندگی میں بھی اوروصال کے بعد بھی' ہر طرح جائز اور باعث برکت ہے ۔ قرآن و حدیث عمل صحابہ اور ہر نمازی کا نماز میں سلام عرض کرنا یہ روشن دلیلیں موجود ہیں ۔ بدعقیدہ لوگ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کہنے والے کو مشرک کہتے ہیں ۔ لفظ یا سے پکارنے والے پر شرک کا فتویٰ لگتاہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یا سے ندا فرماتا ہے' صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی ظاہری زندگی میں بھی اور وصال کے بعد بھی یا سے پکارتے رہے ۔ ان کے بارے میں بدمذہبوں کا کیا عقیدہ ہے ۔ ان پر کیا فتویٰ لگے گا ۔

عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے
یہ گھٹائیں اُسے منظور بڑھانا تیرا

غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل
یا رسول (ﷺ) کی کثرت کیجئے

حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں آیا ہے '' یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی ''یعنی یا محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔ بیہقی اور جزری نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ (ہدیۃ المہدی ص ٢٤ عربی،چشتی)(نشر الطیب ص ٢٧٦)

ایک روایت میں ہے یا رسول اللہ انی توجہت بک الی ربی یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔ (ہدیۃ المہدی عربی ص ٢٤، مولوی وحید الزمان وہابی)

حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے وقت آسمان سے میں نے یہ آواز سنی ''یا محمداہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ۔ (الشمامۃ العنبریہ ص ١١٣ ، صدیق حسن بھوپالوی وہابی)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مناسک میں لکھا ہے کہ : ابن عمر رضی اللہ عنہما تو اتنا ہی کہتے تھے ''السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا ابابکر ، السلام علیک یا ابتاہ ''۔ (فضائل حج ص ٩١٧ ، ذکریا سہارنپوری' دیوبندی)

جو عوام الناس کہتے ہیں یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یا علی ، یا غوث تو اکیلی نداء سے ان پر شرک کا حکم نہیں دیا جائے گا اور کیسے دیا جا سکتا ہے ۔ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بدر کے مقتولوں کو فلاں بن فلاں کہتے ہوئے پکارا تھا ۔ اور حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لفظ بھی آئے ہیں اور ایک حدیث میں یا رسول اللہ کا لفظ بھی ہے ''۔ (ہدیۃ المہدی اُردو ص ٥١،٥٠)

صلوٰۃ و سلام کے الفاظ میں تنگی نہیں ہے ادب شرط ہے ۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے قبر شریف پر سلام اس طرح پڑھا ہے ''السلام علیک یا رسول اللہ ، السلام علیک یا نبی اللہ ، السلام علیک یا حبیب اللہ ، السلام علیک یا احمد ، السلام علیک یا محمد ۔ (الصلوٰ ۃ والسلام ص ١٢٦ ، فردوس شاہ قصوری وہابی)

تفسیر ابن کثیر و مدارک میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دفن کے بعد ایک اعرابی آیا اور اپنے کو روتے اور سر پر خاک ڈالتے ہوئے قبر شریف پر گرا دیا اور کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لئے استغفار فرمائیں ۔ قبر مبارک سے آواز آئی ''کہ تجھ کو بخش دیا گیا ہے ۔ (نشر الطیب ص ٢٧٩ ، فضائل حج ص ٢٥٣)

اشرف علی تھانوی دیوبندی نے کہا : اس بندہ نے آپ کو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مستغیث ہو کر اور اُمید کی چیزوں کا اُمید وار ہو کر پکارا ہے ۔ (نشر الطیب ص ٢٧٩)

جب روم کے بادشاہ نے مجاہدین اسلام کو عیسائیت کی ترغیب دی تو انہوں نے بوقت شہادت ''یا محمداہ'' صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نعرہ لگایا جیسا کہ ہمارے اصحاب میں سے ابن جوزی نے روایت کیا ۔ (ہدیۃ المہدی نواب وحید الزمان حیدر آبادی وہابی)

غوث پاک رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد ١٠٠ مرتبہ درود غوثیہ پڑھ کر ١١ بار یہ درود و سلام پڑھو اغثنی یا ر سو ل اللہ علیک ا لصلو ٰۃ و ا لسلام (کتاب غوث اعظم صفحہ نمبر ٣٢ احتشام الحسن کاندھلوی دیوبندی)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کا قول ''السلام علیک ایھا النبی '' بغیر کسی اعتراض کے ثابت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ قول ''یا ابراہیم اپنے مردہ فرزند کو ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور حضرت حسان کا فرمان '' و جا ہک یا ر سو ل اللہ جاہ ۔ (یا حرف محبت صفحہ ٩٤ مصنف دیوبندی)

حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ (علیہم السلام ) نے آپ کو بایں الفاظ سلام کیا ''ا لسلام علیک یا ا وّل ، ا لسلام علیک یا آخر ، السلام علیک یا حا شر '' ۔ (کتاب معراج مصطفےٰ صفحہ نمبر ١٢ ، مولوی محمد علی جانباز وہابی)

دیوبندی فضائل اعمال میں لکھا ہے : ⬇

زمہجوری بر آمد جان عالم
تراحم یا نبی اللہ تراحم
ترجمہ : آپ کے فراق سے کائنات عالم کا ذرہ ذرہ جاں بلب ہے اور دم توڑ رہا ہے ۔ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نگاہٍ کرم فرمائیے اے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحم فرمائیے ۔


شرک کے ٹھیکیدارو میری ایک پریشانی دور کر دو


(1) رحیم خدا کا اسم ہے ۔

ان ربک لھو العزیز الرحیم ۔

ترجمہ : تمھارا رب عزیز اور رحیم ہے ۔


مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی رحیم ہیں۔

لقد جآءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمو منین رو ءف رحیم

ترجمہ : تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آئے تمہاری تکلیف ان کو گراں گزرتی ہے اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہش مند ہیں اور مومنوں کے لئے روف اور رحیم ہیں ۔


(2) اللہ کا نام بھی روف ہے۔

ان ربک لروف الرحیم (سورہ النحل ۔7)

ترجمہ : تمہارا رب روف اور رحیم ہے ۔


حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام بھی روف ہے ۔

وبالمو منین رئوف رحیم (سورہ التوبہ۔128)

ترجمہ : اور مو منوں کے لئے وہ رؤف (تکلیف دہ امور ہٹانے والے ) اور رحیم (راحت رساں امور پہنچانے والے ہیں)۔


(3) اللہ کا نام مومن ہے ۔

لا الہ الا ھو ۔ المک القدوس السلام المومن (سورہ الحشر ۔ 23)

ترجمہ : اللہ کے سواکوئی معبود نہیں ۔ وہ بادشاہ قدوس ہے سلام ہے اور مومن ہے ۔


بندے بھی مومن ہیں ۔

الذین یقیمون الصلوۃ ومما رز قنھم ینفقون او لئک ھم المو منون حقا ۔

ترجمہ : وہ نماز قائم کرتے ہیں اللہ کے دیئے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں وہی سچے مومن ہیں ۔


(4) اللہ کا نام ولی ہے ۔

ام اتخذوا من دونہ اولیآء فااللہ ھو ا لولہ ۔ (سورہ الشوریٰ۔9)

ترجمہ : کیا انہوں نے اس کے سوا کار ساز بنالئے ہیں ؟ ولی تو خدا ہے ۔


محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ولی ہیں ۔

انما ولیکم اللہ ورسولہ (سورہ المائدہ)

ترجمہ : تمہارا ولی اللہ ہے ۔ اس کا رسول ۔


(5) علیم اللہ ہے ۔

نرفع درجت من نشاء ان ربک حکیم علیم ۔ (سورہ انعام ۔83)

ترجمہ : ہم جسے چاہتے ہیں درجے بلند کردیتے ہیں بے شک تمہارا رب حکیم اور علیم ہے۔


 یوسف علیہ السلام کا نام بھی علیم ہے ۔

قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم ۔ (سورہ یوسف ۔ 58 )

ترجمہ : یوسف علیہ السلام نے کہا مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کردیجئے کیونکہ میں حفاظت کرنے والا علیم ہوں ۔


ان حوالہ جات کاخلاصہ ملاحظہ ہو ۔

رب بھی رحیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی رحیم

رب بھی رؤف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی رؤف

اللہ مومن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی مومن

اللہ ولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی ولی

اللہ علیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی علیم

اللہ حفیظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی حفیظ

اللہ سمیع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی سمیع


دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے میں نے پوچھا : بون آف کنٹنشن کیا ہے ؟ کہنے لگا یہ علی کو مشکل کشاء کہتا ہے مشکل کشاء صرف اللہ ہے ، حاجت روا صرف اللہ ہے میں نے پوچھا جناب کیا مشکل صرف اللہ دور کرتا ہے ؟ بولے ہاں میں نے کہاں بھوک لگی تھی آپ گھر گئے ۔ فورا بیوی نے روٹی پکا کردی ۔ آپ نے کھائی۔۔۔۔۔ جان میں جان آئی ۔۔۔۔۔ ایک مشکل تو آپ کی بیوی نے بھی حل کردی آپ دیوالیہ ہونے لگے ، آپ کی کروڑوں کی جائیداد بکنے لگی ۔ مگر ایک دوست نے آپ کی مطلوبہ رقم پینچادی اتنی بڑی مشکل کشاء پکاراٹھے تو کیا قیامت ہے ؟ وہ مجھے کہنے لگے مشکل کشاء صرف اللہ کو کہیں گے میں نے کہا ٹھیک ہے اب اپنے بیان پر قائم رہنا۔ جو اللہ ہے وہ بندہ نہیں ہو سکتا یہی ہے ناں تمہارا مطلب ؟ وہ بولا ہاں ۔


اللہ رحیم ہے تو بندہ رحیم

اللہ مومن ہے بندہ بھی مومن

اللہ کو ولی کہتے ہی بندہ کو بھی ولی کہتے ہیں

بولو کہنے والا مشرک ہوگا ؟

رحیم اللہ کا نام ہے اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ دیا تو کہنے والا مشرک ہوگا ؟ میں نے آیات بھی پڑھیں وہ خاموش ہو گیا میں نے کہا سن تجھے بتاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خدا رحیم ہے ذاتی طور ہر ۔۔۔۔۔ بندہ رحیم عطائی طور پر

اللہ ولی ہے ذاتی طور پر ۔۔۔۔۔ بندہ ولی ہے عطائی طور پر

اللہ علیم ہے ذاتی طور پر ۔۔۔۔۔ بندہ علیم ہے عطائی طور پر

اللہ حفیظ ہے ذاتی طور پر ۔۔۔۔۔ بندہ حفیظ ہے عطائی طور پر

فرق ہوگیا ناں ؟ اگر کوئی آدمی بندے کو مجازی طور پر مشکل کشاء کہنے سے کافر ہوجاتا ہے کیونکہ مشکل کشاء اللہ ہے تو پھر رحیم نبی کو کہا تو بھی کافر ہوناچاہیے ۔ علیم کہو تو کافر ، ولی کہنے سے بھی کافر ، اگر کافر ہو گا تو پھر اللہ نے رحیم ، علیم ، حفیظ ، سمیع ، ولی ، مومن باوجودیکہ اس کے نام ہیں بندوں کو ان ناموں سے کیوں مخاطب کیا ہے ؟ اگر غیر اللہ کو علیم ، حکیم ، حلیم ، کریم ، حفیظ ، سمیع ولی ، مومن کے اسماء سے پکارنے والا کافر نہیں ہوتا تو اسی طرح مجازی طور پر کسی کو مشکل کشاء کہنے سے بھی آدمی کافر نہیں ہوتا ۔

اسی طرح عدد ایک بھی ہے ۔ کوئی پوچھے اللہ کتنے ہیں ؟ آپ فورا کہتے ہیں اللہ ایک ہے اور یہی ایک آپ باپ کے ساتھ بھی استعمال کرتے ہیں جب کوئی پوچھے کہ تمہارے باپ کتنے ہیں تو آپ کہتے ہی ایک ہے باپ ایک ہے کیا آپ کے نزدیک مشرک نہ ہوگا ؟


لفظ اللہ اور رحمن کے علاوہ اللہ کے باقی صفاتی نام مجازی طور پر غیر اللہ پر بول سکتے ہیں کچھ الفاظ اللہ نے قرآن مجید میں خود بھی استعمال کئے ۔اسی طرح آج کل شور ہے کہ داتا صرف اللہ ہے گنج بخش کو داتا کہنا شرک ہے ۔ داتا ہندی کا لفظ ہے معنی ہے دینے والا ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پہلے مریدار رائے راجو جن کا نام شیخ ہندی رحمتہ اللہ علیہ رکھا انہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے صدقے ایمان کی دولت نصیب ہوئی تو انہوں نے داتا کہا سورہ یوسف آپ پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ جب یوسف علیہ السلام قید خانہ میں گئے تو دو قیدی بھی ساتھ داخل ہوئے ۔ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ شراب نچوڑ رہاہوں آپ نے فرمایا یسقی ربہ خمرا وہ اپنے رب کو شراب پلائے گا ۔۔۔ لفظ رب نبی استعمال کررہاہے بادشاہ مصر کے لئے تو مجھے کہنے دیجئے اگر کافر شرابی بادشاہ کے لئے یوسف علیہ السلام لفظ رب مجازی طور پر استعمال کریں تو شرک نہیں اگر ہم ولی کامل عالم دین آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مجازی طور پر داتا کا لفظ استعمال کردیں تو بھی شرک نہیں ہے ۔ کیا داتا لفظ بڑا ہے یا رب ؟


اللہ تعالےٰ حاکم ہے اور احکم الحاکمین بھی ہے ، اللہ تعالےٰ مالک ہے اور مالک الملک بھی ہے ۔ جو اللہ کو احکم الحاکمین تو مانے لیکن اس کے تابع کسی حاکم کو نہ مانے ، جو اللہ کو مالک الملک تو مانے لیکن اس کے تابع کسی مالک نہ مانے تو اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے ۔


اللہ اکبر کا مطلب ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ۔ باقی سب حاکم ، سب مالک ، سب غوث ، سب قطب ، اس کے بندے ہیں اور ان بندوں کو یہ اعزازات اس اللہ اکبر نے ہی عطا فرمائے ہیں ۔


رسول اکرم شفیع اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدنا ابو امامہ صحابی رضی اللہ عنہ کو فرمایا : لاتجالس قدریا ولامرجیا ولاخارجیا انھم یکفون الدین کما یکفاء الاناء و یغلون کما غلت الیھود والنصاریٰ ۔

ترجمہ : اے ابو امامہ تو کسی قدری ، کسی مرجی ، کسی خارجی کے پاس مت بیٹھ (یہ تینوں اسلام کا دعویٰ کرنے والے کلمہ پڑھنے والے گمراہ فرقوں کے نام ہیں) اور فرمایا یہ مسلمان کہلانے والے گمراہ لوگ یہ دین کو یوں الٹ دیتے ہیں جیسے کہ برتن کو الٹ دیا جاتا ہے اور یہ بد مذہب لوگ دین میں ایسا غلو کرتے ہیں جیسے یہود و نصاریٰ نے اپنے دین میں غلو کیا ہے ۔ 

یہودیوں نے جو دین میں غلو کیا اس کی ایک مثال جیسے قرآن مجید میں ہے : وقالت الیھود ید اللہ مغلولۃ غلت ایدیھم ولعنوا بما قالوا بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء ۔ (سورۃ مائدہ)

ترجمہ : یہودی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے پاس سب کچھ ہے لیکن وہ کسی کو دیتا کچھ نہیں ان یہودیوں کے ہاتھ بند ہو جائیں اور ان پر ایسا کہنے کی بنا پر لعنت ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں دست کرم کھلے ہیں وہ جس کو چاہے جتنا چاہے عطا کرے ۔


یوں ہی ان  کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سب کچھ ہے مگر وہ کسی کو دیتا کچھ نہیں نہ وہ کسی کو غوث بنا سکتا ہے نہ داتا گنج بخش بنا سکتا ہے نہ کسی کو گنج شکر بنا سکتا ہے نہ کسی کو غریب نواز بنا سکتا ہے اللہ تعالٰٰی مسلمانوں کو ایسا دین میں غلو کرنے والوں سے بچائے رکھے آمین ۔


خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں : کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظام علیھم السلام اور اولیاء و صلحاء علیہم الرّحمہ پر بھی کر دیتے ہیں ۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود ۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص ، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے ۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے۔ خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا ۔


خوارج کے بارے میں منقول ہے : کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ.

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری صفحہ 1714 کتاب استتابۃ المرتدین مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)( بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539،چشتی)(ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)(ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں ، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے ۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے ۔

یعنی جیسے کافروں بت پرستوں کے معبود بت نکمے ناکارے کچھ نہیں کر سکتے یوں ہی ولی نبی کچھ نہیں کر سکتے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)