ملعون مختار بن عبید ثقفی کا دعویٰ نبوت
محترم قارئینِ کرام : مختار بن عبید ثقفی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما سے جنگ میں مارا گیا : وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ ۔ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِصْمَةَ يُقَالُ : الْكَذَّابُ هُوَ الْمُخْتَارُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ وَالْمُبِيرُ هُوَ الْحَجَّاجُ بْنُ يُوسُفَ وَقَالَ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ : أَحْصَوْا مَا قَتَلَ الْحَجَّاجُ صَبْرًا فَبَلَغَ مِائَةَ ألفٍ وَعشْرين ألفا ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ ۔
ترجمہ : روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے کہ ثقیف میں ایک جھوٹا ہوگا اور ایک ہلاک کرنے والا ، عبدالله ابن عصمہ نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ جھوٹا تو مختار ابن ابی عبید ہے اور ہلاک کرنے والا حجاج ابن یوسف ہے ہشام ابن حسان نے کہا کہ انہیں گنو جنہیں حجاج نے باندھ کر قتل کیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے ۔ (جامع ترمذی ، مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر 5993)
مختار بن عبید ثقفی نے حضرت امام حسین علیہ السّلام کے قاتلین کے بارے میں بڑا شاندار کارنامہ انجام دیا لیکن آخر میں وہ دعویٔ نبوت کر کے مرتد ہو گیا ۔ (العیاذ باﷲ تعالیٰ) کہنے لگا کہ میرے پاس جبریل امین آتا ہے اور مجھ پر خدائے تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتا ہے میں بطور نبی مبعوث ہوا ہوں ۔ مختار ثقفی ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا دعویٰ نبوت کے بعد یہ ملعون مرتد ہو گیا جس طرح یزید ملعون قاتل اہلبیت ہو کر ملعون ٹھہرا اور اسے عظیم المرتبت صحابی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہونا کوئی فائدہ نہ دے سکا اسی طرح مختار ثقفی بھی ملعون و مرتد ٹھہرا جب اس نے دعویٰ نبوت کیا تو اسے جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہونا کوئی فائدہ نہ دے سکا مگر آج کل بعض سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی اس ملعون و مرتد کو اپنا رہنما مانتے ہیں ان کےلیئے وہی حکم ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی جھوٹے نبوت کے دعوے دار کے پیروکاروں کا ہے آیئے اب ہم مختار ثقفی ملعون کے بارے میں تفصیل دلائل کے ساتھ پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے فتنوں سے بچائے آمین ۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت عبد ﷲ بن زبیر رضی ﷲ عنہما کے دور میں مختار ثقفی ملعون نے دعویٰ نبوت کیا تو آپ کو جب اس کے دعویٔ نبوت کی خبر ملی تو آپ نے اس کی سر کوبی کیلئے لشکر روانہ فرمایا جو مختار پر غالب ہوا اور ماہ رمضان67 ہجری میں یہ بد بخت ملعون و کذاب مارا گیا ۔ (تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحہ نمبر 215 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی،چشتی)
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ میزان الاعتدال میں تحت الترجمۃ مختار بن ابو عبید ثقفی لکھتے ہیں کہ یہ کذاب ہے ، ایسے شخص سے کوئی بھی روایت نقل کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ نا صرف خود گمراہ شخص تھا بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا تھا ۔ یہ کہتا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اس پر نازل ہوئے تھے ۔ ( میزان الاعتدال جلد ششم تحت الترجمہ مختار بن ابو عبید ثقفی)
تفسیر ابن ابی حاتم میں جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1379 میں قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ : وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ کی تفسیر کے تحت امام ابن ابی حاتم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا صحیح سند سے قول لائے ہیں : حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لابْنِ عُمَرَ: إِنَّ الْمُخْتَارَ يَزْعُمُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ. قَالَ : صَدَقَ فَتَلا هَذِهِ الآيَةَ: وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ ۔
ترجمہ : ابو اسحاق نے کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک بندے نے کہا کہ مختار اس غلط فہمی میں ہے کہ اس پر وحی آتی ہے ، اس پر عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا مختار سچ کہہ رہا ہے اور ساتھ یہ آیت بھی پڑھی کہ شیاطین اپنے ساتھیون پر وحی کرتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اِنَّ فِی ثَقِیفَ کَذَّابًا وَمُبِیرًا ۔
ترجمہ : بے شک قبیلۂ ثقیف میں ایک بڑا جھوٹا اور ایک ظالم ہو گا ۔ (صحیح مسلم)
کذاب سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی ہے جس نے نبوت والوہیت وغیرہ کا دعوی کیا تھا جبکہ مبیر(ظالم) سے مراد حجاج بن یوسف ہے جیساکہ اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ۔
جامع ترمذی حدیث نمبر حدیث نمبر : 2220 باب مَا جَاءَ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ
باب : قبیلہ بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک ہلاک کرنے والا ہو گا ۔
حدثنا علي بن حجر، حدثنا الفضل بن موسى، عن شريك بن عبد الله، عن عبد الله بن عصم، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " في ثقيف كذاب ومبير "، قال ابو عيسى: يقال الكذاب: المختار بن ابي عبيد، والمبير: الحجاج بن يوسف، ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ”بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ہلاک کرنے والا ہو گا ۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہا جاتا ہے کذاب اور جھوٹے سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی اور ہلاک کرنے والا سے مراد حجاج بن یوسف ہے ۔ (تحفة الأشراف: 7283 ، صحیح ،چشتی)
مختار بن ابوعبید بن مسعود ثقفی کی شہرت اس وقت ہوئی جب اس نے شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان محض اس غرض سے کیا کہ لوگوں کو اپنی جانب مائل کر سکے ، اور امارت (حکومت) کے حصول کا راستہ آسان بنا سکے ، علم و فضل میں پہلے یہ بہت مشہور تھا ، آگے چل کر اس نے اپنی شیطنت کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ اس کے عقیدے اور دین کا بگاڑ لوگوں پر واضح ہو گیا ، یہ امارت اور دنیا کا طالب تھا ، بالآخر 67 ہجری میں حضرت مصعب بن زبیر رضی الله عنہما کے زمانے میں مارا گیا ۔ حجاج بن یوسف ثقفی اپنے ظلم ، قتل ، اور خون ریزی میں ضرب المثل ہے ، یہ عبدالملک بن مروان کا گورنر تھا ، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی الله عنہما کا اندوہناک حادثہ اسی کے ہاتھ پیش آیا ۔ مقام واسط پر 75 ہجری میں اس کا انتقال ہوا ۔
جامع ترمذی حدیث نمبر حدیث نمبر : 3944 باب مَا جَاءَ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ ۔ حدثنا علي بن حجر، اخبرنا الفضل بن موسى، عن شريك، عن عبد الله بن عصم، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " في ثقيف كذاب ومبير ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک تباہی مچانے والا ظالم شخص ہو گا ۔
مشکوۃ شریف جلد پنجم ۔ قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق حدیث 593 بنوثقیف کے دو شخصوں کے بارے میں پیش گوئی : وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " في ثقيف كذاب ومبير " قال عبد الله بن عصمة يقال : الكذاب هو المختار بن أبي عبيد والمبير هو الحجاج بن يوسف وقال هشام بن حسان : أحصوا ما قتل الحجاج صبرا فبلغ مائة ألف وعشرين ألفا . رواه الترمذي وروى مسلم في " الصحيح " حين قتل الحجاج عبد الله بن الزبير قالت أسماء : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم حدثنا " أن في ثقيف كذابا ومبيرا " فأما الكذاب فرأيناه وأما المبير فلا إخالك إلا إياه . وسيجيء تمام الحديث في الفصل الثالث ۔
ترجمہ : اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا " قبیلہ ثقیف میں انتہادرجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہوگا اور ایک انتہا درجہ کا مفسد وہلاکو " حضرت عبداللہ عصمہ تابعی (اس جھوٹے شخص کے تعین کے بارے میں ) کہتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے " جھوٹے شخص سے مراد مختار ابن عبید اور مفسدوہلاکو" سے مراد حجاج ابن یوسف (مشہور ظالم ') ہے ۔" اور ہشام ابن حسان (جو اونچے درجہ کے فقیہہ اور علم حدیث میں زبردست ادرک ومہارت رکھنے والے ایک مشہور متقی وبزرگ ہیں اور جن کا شمار ائمہ حدیث میں ہوتا ہے) کا بیان ہے کہ حجاج ابن یوسف نے جس قدر لوگوں کو (جنگ ومعرکہ میں نہیں بلکہ) یوں ہی پکڑ پکڑ کر قید خانہ میں ڈال کر قتل کیا ہے ان کی تعداد لوگوں نے شمار کی ہے جو ایک لاکھ بیس ہزار ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ روایت نقل کی ہے کہ : حجاج ابن یوسف نے حضرت عبد اللہ ابن زبیر کو شیہد کردیا تو حضرت اسماء نے ( جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی والدہ اور حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی ہیں رضی اللہ عنہم) کہا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بیان کیا ہے کردیا تھا کہ قبیلہ ثقیف میں ایک انتہادرجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہوگا اور ایک بڑا مفسد وہلاکو پس جہاں تک جھوٹے شخص کا تعلق ہے تو اس کو دیکھ چکے اب رہی مفسد و ہلاکو کی بات ، تو میرا خیال ہے کہ اے حجاج وہ مفسد و ہلاکو تو وہی ہے یہ پوری حدیث فصل میں آرہی ہے ۔
مختار ثقفی ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا مختار ثقفی کی ولادت ہجرت کے پہلے سال ہوئی اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت وروایت یعنی صحابیت کا شرف حاصل نہیں ہوا ، ابتدا میں یہ شخص علم وفضل اور نیکی وتقوی کے ساتھ مشہور تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ خبث باطن کا شکار ہے اور محض دنیا سازی کے لئے علم وتقوی کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا پہلے یہ شخص اہل بیت نبوت سے سخت بغض وعناد رکھتا تھا پھر اچانک اس میں ایسا انقلاب آیا کہ اہل بیت نبوت کی محبت کا دم بھرنے لگا اور اس بارے میں صحیح فکر وعقیدے کا حامل نظر آنے لگا اہل بیت کے تئیں اس کی یہ ظاہری محبت اتنی بڑھی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزیدیوں کا کھلم کھلا دشمن ہوگیا اور ان میں سے بہت لوگوں کو اس نے خون حسین کے قصاص میں موت کے گھاٹ بھی اتارا ، غرضیکہ اس نے طلب دنیا اور حب جاہ میں بہت چولے بدلے ، اپنی نت نئی حرکتوں سے طرح طرح کے فتنے جگائے حضرت عبداللہ ابن زبیر کے خلاف عراق میں علم بغاوت بلند کیا مکروفریب اور عیاریوں کے ذریعہ جاہل اور کمزور عقیدہ لوگوں پر اپنی نام نہاد روحانی بزرگی و کر امت کا ایسا سکہ جمایا کہ اس کے حامیوں کی اور معتقدوں کی ایک بہت بڑی جماعت اس کے گرد جمع ہوگئی اس کا حلقہ اثر جوں جوں بڑھتا گیا اتنا ہی وہ عقیدہ کی خرابی رائے وخیال کی گمراہی اور نفس کی خواہشات کا شکار ہوتا گیا جھوٹ اور فریب کاری کے سہارے اس نے پوری خلافت اسلامیہ پر قبضہ کر لینے کا منصوبہ بنایا اور اپنی فتنہ انگیزیوں کے ذریعہ کوفہ پر قابض بھی ہوگیا ، نبوت کا مدعی بھی بنا اور اس بات کا دعویٰ کرنے لگا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس وحی لے کر آتے ہیں آخر کار حضرت مصعب ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی طرف بصرہ کے گورنر تھے اپنی فوج لے کر کوفہ پر چڑھائی کی مختار نے بھی مقابلہ کیا مگر شکست کھا گیا اور مقتول ہوا مختار کے انہی فریب اور جھوٹ سے بھرے حالات کی بناء پر علماء نے اس کو کذابوں میں سے ایک بڑا کذاب شمار کیا ہے اور حدیث کے الفاظ یخرج من ثقیف کذاب ومبیر (قبیلہ ثقیف میں ایک انتہا درجہ کا جھوٹا اور ایک انتہادرجہ کس مفسد وہلاکو کو پیدا ہوگا ) کا مصداق ومحمول مختار اور حجاج کو قرار دیا ہے ۔
محترم قارئین : دور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اخیر میں مختار بن ابی عبید ثقفی نے دعویِ نبوت کیا تو حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس سے جنگ کی اور اسے اور اس کے اتباع کو موت کے گھاٹ اتروا دیا ۔ (البدایۃ۸/۲۸۹)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد ہر دور میں مدعیانِ نبوت کے ساتھ امت کا معاملہ ایسا ہی رہا ، مدعیانِ نبوت میں جن لوگوں میں بھی انہوں نے سنجیدگی محسوس کی انہیں کیفر کردار کو پہنچا دیا ۔
حضرت امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بنی ثقیف میں مختار ابن عبید ابن مسعود ثقفی ہوا ہے جو واقعہ کربلا کے بعد شہداء کربلا کا بدلہ لینے کے بہانہ اٹھا لشکر عظیم اس کے ساتھ ہوگیا ، اس نے عبدالله ابن زیاد کو قتل کیا پھر دعویٰ نبوت کیا اور عبدالملک ابن مروان کے زمانہ میں مارا گیا اسی مختار کی قبر کوفہ میں ہے شیعہ لوگ اس قبر کا بڑا احترام کرتے ہیں مگر یہ مرا ہے مرتد ہو کر ۔ مختار کا باپ صحابی تھا، مختار ہجرت کے سال پیدا ہوا،۷۲ بہتّر میں اسے مصعب ابن عمیر نے قتل کیا سولہ مہینے حکومت کی ۔ (مرقات المفاتیح)
حجاج ابن یوسف بادشاہ عبدالملک ابن مروان کی طرف سے عراق اور خراسان کا حاکم تھا ، یہ واسط میں ہلاک ہوا شوال 75 ہجری پچھتر میں مرا عمر چون 54 سال ہوئی ۔ جن مسلمانوں کو حجاج نے قتل کیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے اور جو مسلمان معرکہ جنگ میں شہید ہوئے ان کی تعداد پچاس ہزار ہے ۔ (اشعۃ المعات شرح مشکوٰۃ) ۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ظالم ہوا ہو ۔ اللہ کی پناہ ۔
مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر 5994 وَرَوَى مُسْلِمٌ فِي «الصَّحِيحِ» حِينَ قَتَلَ الْحَجَّاجُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَتْ أَسْمَاءَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا «أَن فِي ثَقِيف كذابا ومبيرا» فَأَما الْكذَّاب فَرَأَيْنَاهُ وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاهُ. وَسَيَجِيءُ تَمام الحَدِيث فِي الْفَصْل الثَّالِث ۔
ترجمہ : مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کی کہ جب حجاج نے عبدالله ابن زبیر کو قتل کیا تو بی بی اسماء نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہم کو خبر دی کہ ثقیف میں ایک جھوٹا ہے اور ایک ہلاک کرنے والا جھوٹے کوتو ہم نے دیکھ لیا لیکن مہلک کو تو میں تجھے نہیں خیال کرتی مگر وہ ہی ۔
حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق حضرت زبیر کی بیوی اور عبد الله ابن زبیر کی والدہ عائشہ صدیقہ ام المؤمنین کی بہن ہیں رضی الله عنہم ۔
مسیلمہ کذاب جس نے جھوٹا دعویٰ نبوت کیا بہت لوگوں کو گمراہ کیا آخر وحشی کے ہاتھوں خلافت صدیقی میں مارا گیا تواریخ اس واقعہ سے بھری ہوئی ہیں ۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس ظالم کا نام نہیں بتایا مگر تیرے کام بتا رہے ہیں کہ تو وہی ہے کہ تو نے امت رسول کو بہت ہی قتل کیا ۔
امام الوہابیہ نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں : یزید ،حجاج اور مختار ثقفی فاسق اور منافق تھے ۔ (مجموعہ رسائل جلد سوم صفحہ نمبر 119)
مختار ثقفی وہ انسان ہے جس کی بابت امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ میزان الاعتدال میں تحت الترجمۃ مختار بن ابو عبید ثقفی لکھتے ہیں کہ یہ کذاب ہے ، ایسے شخص سے کوئی بھی روایت نقل کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ نا صرف خود گمراہ شخص تھا بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا تھا ۔ یہ کہتا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اس پر نازل ہوئے تھے ۔ ( میزان الاعتدال جلد ششم تحت الترجمہ مختار بن ابو عبید ثقفی)
تفسیر ابن ابی حاتم ۔ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ : وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ کی تفسیر کے تحت امام ابن ابی حاتم سیدنا عبداللہ بن عمر رض کا صحیح سند سے قول لائے ہیں : حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لابْنِ عُمَرَ: إِنَّ الْمُخْتَارَ يَزْعُمُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ. قَالَ: صَدَقَ فَتَلا هَذِهِ الآيَةَ: وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ ۔
ترجمہ : ابو اسحاق نے کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک بندے نے کہا کہ مختار اس غلط فہمی میں ہے کہ اس پر وحی آتی ہے ، اس پر عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا مختار سچ کہہ رہا ہے اور ساتھ یہ آیت بھی پڑھی کہ شیاطین اپنے ساتھیون پر وحی کرتے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم میں جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1379،چشتی)
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ مختار بن ابی عبید ثقفی پر لعنت کیا کرتے تھے
امام ابو عبداللہ محمد بن اسحٰق بن العباس المکی الفاکہی علیہ الرحمہ ( المتوفی 272ھ) روایت کرتے ہیں : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: ثنا أَبُو الْمُنْذِرِ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: ثنا عِيسَى بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: إِنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ قَامَ عِنْدَ بَابِ الْكَعْبَةِ يَلْعَنُ الْمُخْتَارَ بْنَ أَبِي عُبَيْدٍ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا الْحَسَنِ لِمَ تَسُبَّهُ وَإِنَّمَا ذُبِحَ فِيكُمْ؟ فَقَالَ: " إِنَّهُ كَذَّابٌ عَلَى اللهِ تَعَالَى وَعَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔
ترجمہ : سید نا امام محمد بن علی الباقر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا علی ابن الحسین زین العابدین رضی اللہ عنہم (ایک دن ) کعبہ کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر مختار بن ابی عبید پر لعنت کر رہے تھے تو آپ (رضی اللہ عنہ) سے ایک مرد نے کہا : اے ابوالحسن ( امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی کنیت) آپ کیوں اس پر سب کرتے ہیں جب کہ وہ آپ لوگوں کےلیے ہی تو ذبح ( قتل) ہوا ہے ؟ تو اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بہت زیادہ جھوٹ بولتا تھا ۔ (أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 232 رقم الحدیث426)(اس روایت کی سند حسن صحیح ہے)
اس روایت کی سند کی تحقیق مندرجہ ذیل ہے : اس روایت کی سند کا پہلا راوی امام عبداللہ بن محمد بن عباس المکی الفاکہی ہے جن کے بارے میں امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:الإِمَامُ، أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ العَبَّاسِ المكِّيُّ، الفَاكِهِيُّ ۔ (سیر اعلام النبلاء ج16 ص 44 رقم 29)
امام ذہبی علیہ الرحمہ کے نزدیک لفظ "امام" اعلی درجہ کی توثیق میں سے ہے۔ ملاحظہ ہو ۔ (الموقظۃ للذہبی ص 76)
اس سند میں دوسرا راوی یحیی بن ابی طالب جعفر بن الزبرقان ہے جن کی توثیق مندرجہ ذیل ہے : وقال ابن أبي حاتِم: كتبتُ عَنْهُ مَعَ أبي، وسألتُ أبي عَنْهُ، فقال: محله الصدق ۔ (تاریخ بغداد ج 16 ص 323 رقم 7464)
وَقَالَ البَرْقَانِيّ: أَمرنِي الدَّارَقُطْنِيّ أَنْ أُخَرِّجَ لِيَحْيَى بنِ أَبِي طَالِبٍ فِي الصَّحِيْحِ ۔ (سیر اعلام النبلاء ج 12 ص 620 رقم 242)
وثقه الدارقطني ۔ (لسان المیزان ج 8 ص 452 رقم 8475)
قال الدارقطني : لم يطعن فيه أحد بحجة، وَلا بأس به عندي ۔ (تاریخ بغداد ج 16 ص 323 رقم 7464)
وقال مسلمة بن قاسم: ليس به بأس تكلم الناس فيه ۔ (لسان المیزان ج 8 ص 452 رقم 8475)
اس راوی پر ایک جرح ہے جس کی نوعیت بھی امام ذہبی علیہ الرحمہ نے بتا دی ہے امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وقال موسى بن هارون: أشهد أنه يكذب. عني في كلامه ولم يعن في الحديث , فالله أعلم , والدارقطني فمن أخبر الناس به ۔
اور موسی بن ہارون نے کہا : میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ، (اس کے بعد امام ذہبی کلام کرتے ہیں ) اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی گفتگو میں جھوٹ بولتا ہے ، اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ حدیث بیان کرتے وقت جھوٹ بولتا ہے ، باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔ اور امام دارقطنی علیہ الرحمہ تو اس کے بارے میں سب سے زیادہ واقف تھے ۔ (میزان الاعتدال ج 4 ص 387 رقم 9547،چشتی)
امام دارقطنی علیہ الرحمہ نے توثیق کر دی ہے لہذا اب توثیق ہی راجح ہے۔ واللہ اعلم ، اس کے علاوہ الکنیٰ والاسماء للدولابی (ج 2 ص 464 رقم الحدیث 835) میں اسی روایت میں اس راوی کی متابعت ثقہ راوی ابوالحسن علی بن معبد بن نوح البغدادی نے کر رکھی ہے اور حافظ دولابی حنفی بھی صدوق اور حسن الحدیث ہے ان پر جو جرحیں ہیں وہ ساری مبہم اور تعصب پر مبنی ہیں ۔ (واللہ اعلم)
اس روایت کے تیسرے راوی ابوالمنذر اسماعیل بن عمر الواسطی ہیں جو صحیح مسلم کے راوی بھی ہیں جن کے بارے میں خطیب بغدادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وكان ثقة ۔ (تاریخ بغداد ج 6 ص 241 رقم 3279)
امام یحیی بن معین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : من تجار أهل واسط، ليس به بأس، وهو إسماعيل بن عمر ۔ (تاریخ بغداد ج 6 ص 241 رقم 3279)
اس روایت کی سند میں چوتھے راوی عیسیٰ بن دینار الخزاعی ہے جس کی توثیق مندرجہ ذیل ہے :
امام یحیی بن معین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ليس به بأس ۔ (سوالات ابن الجنید ص 427 رقم 640)
عيسى بن دينار ثقة (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 6 ص 275 رقم 1527)
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : عِيسَى بْن دِينَار لَيْسَ بِهِ بَأْس (العلل و معرفۃ الرجال ج 2 ص 339 رقم 2508)
امام ابوحاتم الرازی فرماتے ہیں : عيسى بن دينار فقال صدوق عزيز الحديث (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 6 ص 275 رقم 1527)
اس روایت میں پانچویں راوی امام محمد بن علی بن الحسین الباقر علیہ الرحمہ ہیں ویسے یہ بزرگ ہستی توثیق کی محتاج نہیں پھر بھی امام ذہبی سے آپ کی ادنیٰ سی توثیق پیش کر دیتا ہوں ۔
امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : هُوَ السَّيِّدُ، الإِمَامُ، أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بنُ عَلِيِّ بنِ الحُسَيْنِ بنِ عَلِيٍّ العَلَوِيُّ، الفَاطِمِيُّ، المَدَنِيُّ، وَلَدُ زَيْنِ العَابِدِيْنَ ۔ (سیر اعلام النبلاء ج 4 ص 401 رقم 158)
امام دارقطنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وَأَبُو جَعْفَرٍ وَإِنْ كَانَ مِنَ الثِّقَاتِ ۔ (سنن الدارقطنی ج 5 ص 243 رقم الحدیث 4260)
اس روایت کی سند میں سب سے آخری راوی اور بزرگ ہستی حضرت امام علی بن الحسین بن علی زین العابدین علیہ الرحمہ کی ہے ویسے یہ بزرگ ہستی بھی توثیق کی محتاج نہیں پھر بھی ادنی سی توثیق پیش کر دیتا ہوں ۔
امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وَكَانَ عَلِيُّ بنُ الحُسَيْنِ ثِقَةً، مَأْمُوْناً، كَثِيْرَ الحَدِيْثِ، عَالِياً، رَفِيْعاً، وَرِعاً ۔ (سیر اعلام النبلاء ج 4 ص 387 رقم 157،چشتی)
رواۃ کی تحقیق سے واضح ہو گیا کہ اس روایت کی سند حسن صحیح ہے ۔
محترم قارئینِ کرام : یہ شخص یعنی مختار بن عبید ثقفی شیعوں کے ملحد فرقے کیسانیہ کا بانی تھا جن کا ماننا تھا کہ امام معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتا ہے ۔ یہ فرقے کے لوگ برخلاف اثنا عشریہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے بعد جناب محمد بن علی الحنفیہ رضی اللہ عنہ کو امام معصوم مانتے تھے اور ان کے متعلق رجعت کا عقیدہ رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ اس فرقے کے بنیادی عقائد میں بداء کا عقیدہ بھی شامل ہے یعنی اللہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے اور نئے حالات کے پیش نظر قضائے الہٰی بدلتی رہتی ہے ۔ علامہ شہرستانی لکھتے ہیں کہ مختار ثقفی نے بداء کا عقیدہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ وہ خود پر نازل ہونے والی وحی کے زیر اثر یا امام کے پیغام کی وجہ سے اپنے متبعین کے سامنے ہونے والے واقعات کا دعویٰ کرتا ہے اور اگر وہ واقعات اسی طور سے ظہور پذیر ہو جاتے ہیں تو وہ انہیں اپنے دعویٰ کی دلیل قرار دیتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو کہتا تھا کہ اللہ نے اپنا ارادہ بدل لیا ۔ (المحلل و النحل)
اس کے علاوہ مختار تناسخ ارواح کا بھی قائل تھا اور کہتا تھا کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی روح جناب محمد بن علی الحنفیہ رضی اللہ عنہما میں حلول کر گئی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment